انسان کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
.
آج کل احباب بار بار تقاضہ کر رہے ہیں کہ تقدیس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کچھ لکھا جائے. مگر میں ہوں کیا ؟ اور میری ہستی کیا ہے ؟ جو شفیع الامم ، صاحب جود و کرم، سید الثقلین، نبی الحرمین اور امام القبلتین کے حضور قلم کشائی کرسکوں ؟ ..الفاظ کے موتی پرو کر حق ادا کرنا ہرگز ممکن نہیں. وقت کا بڑے سے بڑا بقراط اور زمانہ کا بڑے سے بڑا انشاء پرداز .. کائنات کی رعنائیاں ، دریاؤں کی گہرائیاں اور آسمانوں کی وسعتیں سمیٹ کر بھی کچھ لکھنا چاہوں تو ناممکن ہے. دنیائے عالم کے ذہن جڑ کر، درخت کٹ کر اور صحرا سمٹ کر بھی آپ کی مدح سرائی کا حق ادا کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے. اس کی عظمت کے کمال کو آج تک کون پہنچ سکا ہے ؟ کہ جس کا جھولا تو بی بی آمنہ جھلائے مگر لوریاں دے کر جبرائیل سلائے .. اس کی عظمت کا کیا کہنا ؟ جو طائف کے بازاروں میں پتھر کھائے اور کالی کملی اوڑھ کر زمیں پر سو جائے .. جو فقر کے بوریئے پر بیٹھے مگر قیصر و کسریٰ کے در و بام ہلائے .. جو امی لقب پائے مگر آسمانوں کی خبر لائے .. جسکی گفتار نرم رو سے عرش مہک جائے .. جسکی شگفتہ مزاجی کی زمانہ قسم کھائے مگر جسکی للکار پہاڑوں کے دل دہلائے .
.
عزیزان من .. جب ظلم و استبداد حد سے بڑھ گیا تو رحمت خداوندی جوش میں آگئی اور ایک صبح کے چہرہ خنداں سے یوسف کا جمال لئے ، عیسیٰ کا کمال لئے ، موسیٰ کا جلال لئے ، یعقوب کا ملال لئے ، ابراہیم کا استقلال لئے ایک ایسا نورانی بشر بھیجا کہ جہان دو عالم کی تابانیاں ماند پڑ گئیں .. صحرا نے اپنے سینے پر سبزہ بچھا دیا ، خاروں میں پھول کھل اٹھے ، نگہت و خوشبو و رنگ مسکرانے لگے ، آب و گل اور شیشہ و سنگ تلمزانے لگے .. ظلم کے ہاتھ کٹ گئے ، بتوں کے منہ پلٹ گئے اور بادشاہوں کے تخت الٹ گئے. وہ وعدہ محکم جو بندوں نے اپنے رب سے عہد الست میں کیا تھا .. اب رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگا اور زباں سے گفتگو بن کر کھلنے لگا
.
نقاش اجل نے کہا .. تصویر بنا کر
ایسی کوئی تصویر بنی ہے نہ بنے گی
.
پیر کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلقہ ادارت میں جو جو بھی آتا گیا فضیلتوں کا پیکر بن گیا .. عثمان تھا تو غنی ہوگیا .. عمر تھا تو فاروق ہوگیا .. علی تھا تو شیر خدا ہوگیا .. ابوبکر تھا تو صدیق ہوگیا .. دور تھا تو قریب ہوگیا .. اور دشمن تھا تو حبیب ہوگیا ... انسان کو مسلمان بنایا ، مسلمان کو درجہ احسان دلایا .. زندگی کو بندگی، نماز کو معراج ، روزہ کو ڈھال اور شہادت کو حیات سمجھایا. صدیوں کے زنگ آلود دلوں کو اس قدر ثقل کیا کہ عبد چاہے تو صورت دیکھ لے اور معبود چاہے تو سیرت دیکھ لے.
.
یہ آپ صلی اللہ و الہہ وسلم ہی کی ذات اقدس کا فیض تھا کہ قرون وسطیٰ کے مردہ شہروں نے زندہ انسان پیدا کئے. انسان کو جہالت کی عمیق گہرائیوں سے نکال کر انسانیت کی معراج پر پہنچا دیا. مفاسید ظلم کو زیر و زبر کردیا، قبائل کو شیر و شکر کر دیا .. روٹھے کو ملا دیا ، وقت کو پلٹا دیا .. ابوجہل کی مٹھی میں بند پتھروں کو کلمہ پڑھوا دیا اور منہ کے بل گرے ہوئے بتوں کو قُلْ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌ کہلوا دیا.
.
صاحبو آج صراط میزان میں ان ہی کے عدل کا ڈھنگ ہے ، زندگی کے قرائن میں ان ہی کا رنگ ہے .. وہی صدق و علم کی ترغیب دینے والے ، خودی کے پیشوا ، تمدن اورارتقاء کو جلا بخشنے والے ہیں.
.
پڑھتا ہے درود آپ ہی تجھ پر تیرا خالق
تصویر پہ خود اپنی مصور بھی فدا ہے
No comments:
Post a Comment