کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے ..
دوستو قران حکیم کا ہر طالبعلم یہ بات جانتا ہے کہ دین کی رو سے فرقہ واریت یا فرقہ بنانا قطعن حرام ہے. کلام اللہ کی متعدد آیات اسی حقیقت کا واشگاف اعلان کرتی ہیں. ان سب کو تو قلت وقت کی وجہ سے میں یہاں نہیں پیش کر سکتا لہٰذا صرف سورہ آل عمران کی ١٠٥ آیت پر اکتفاء کرتا ہوں جس میں مومنین کو اللہ رب العزت نے تاکید کی ہے کہ
کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے
اب سوال یہ ہے کہ اگر قران مجید کی بارہا آیات میں فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے تو پھر یہ تفرقہ سے آلودہ ذہنیت مختلف مذاہب اور فرقوں کی صورت کیسے اختیار کرتی رہی ؟ اس کا جواب بھی قران مجید کی سورہ الشعرا کی چودھویں آیت
اور انہوں نے فرقہ بندی نہیں کی تھی مگر اِس کے بعد جبکہ اُن کے پاس علم آچکا تھا محض آپس کی ضِد (اور ہٹ دھرمی) کی وجہ سے ..
گویا وجہ علم نہیں ہے بلکہ علم ہونے کے باوجود ہٹ دھرمی اور ضد تفرقہ کی اصل بنیاد ہے. یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ علمی اختلاف پر مبنی مسالک کا ہونا ایک بات ہے اور تفرقہ دوسری بات. علمی اختلاف تو علم کی دنیا میں ہمیشہ ہوتا آیا ہے بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ علم و شعور کا ارتقاء اسی علمی اختلاف کا محتاج ہے. پھر وہ سوشل سائنسز ہوں یا فزیکل سائنسز. صحافت ہو یا سیاست. فلسفہ ہو یا مذہب. یہی سمجھ کا اختلاف ہے جو علم کی دنیا کو جلا بخشتا آیا ہے. میرا موضوع یہ تعمیری اختلاف نہیں بلکہ خالص تفرقہ ہے جہاں ایک فرقے کے نزدیک دوسری سمجھ باطل قرار پاتی ہے یا ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک پڑھنا حرام ٹھیرتا ہے. ایک بدتمیز سا شعر یاد آرہا ہے کہ
ہر ایک پر لگاتا ہے تو کفر کے فتوے
اسلام تیرے باپ کی جاگیر تو نہیں
دوستو مجھے کہنے دیجیئے کہ ہم نے تو مذھبی گالیاں بھی ایجاد کر رکھی ہے وہ شیعہ کھٹمل ہے، یہ سنی دشمن اہل بیت ہے .. وہ وہابی نجدی کافر ہے، یہ قبر پرست صوفی ہے .. وہ دیوبند کی گند ہیں ، یہ حلوہ خور بریلوی ہیں ... وہ ہرے طوطے ہیں، یہ یہودی ایجنٹ ہیں. ایک لمبی فہرست ہے گالیوں کی جسے ادا کر کے ہم اپنے مخاطب کی تذلیل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایسا کر کے ہم دین کی خدمت کر رہے ہیں. وہ اسلام جس نے کافروں کے جھوٹے خداؤں کو بھی گالی دینے سے روکا تھا ، آج اسکے نام لیوابڑے فخر سے اپنے کلمہ گو بھائیوں کو مذہبی گالیاں دیتے ہیں.
آج ہمارے تفرقے اور نقاہیت اتفاق نے طاغوت کو اس قدر دلیر بنادیا کہ وہ شطرنج کی بازی کی طرح کبھی ہمیں آپس میں لڑواتا ہے۔ کبھی دھوکے سے مرواتا ہے۔ کبھی امداد سے کتراتا ہے۔ پھر طرح طرح سے ترساتا ہے۔ یعنی دولت بھی ہماری۔ ذلت بھی ہماری۔ کثرت بھی ہماری۔ قلت بھی ہماری۔ کبھی وہ اسرائیل کی زبان میں بولتا ہے۔ کبھی بشارالاسد کا پٹہ کھولتا ہے۔ کبھی فلسطینی بچوں کی چیخیں۔ کبھی کشمیری دلہن کی آہیں۔ کبھی تارکین افغانستان کا مسئلہ۔ کبھی حلب پر بربریت۔ کیا یہ وہی امت تفرقے میں ڈوب کر امریکا سے اپنی بقاء کی بھیک مانگ رہی ہے جو شہنشاہ دو جہاں صلی اللہ الہ وسلم کی امت ہے؟
سوال یہ ہے کہ تفرقہ کے خلاف اتنی واضح آیات اور احادیث ہونے کے باوجود وہ کون سی دلیل ہے جسے اختیار کرکے ہر فرقہ اپنی بنیاد رکھتا ہے؟ تو دراصل وہ دلیل صرف اور صرف ایک حدیث ہے جو الفاظ کے کچھ رد و بدل سے کئی کتب میں موجود ہے. اس مشھور زمانہ حدیث کے الفاظ کچھ ایسے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہود کے اکہتر فرقے ہوئے ان میں ایک جنتی ہے اور ستر دوزخی ہیں اور نصاری کے بہتر فرقے ہوئے ان میں اکہتر دوزخی ہیں اور ایک جنت میں جائے گا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے ایک فرقہ جنت میں جائے گا اور بہتر دوزخی ہوں گے۔ کسی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! جنتی کون ہوں گے؟ فرمایا الْجَمَاعَةُ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب فتنوں کا بیان)
بنی اسرائیل میں بہتر (72) فرقے بن گئے تھے ۔جبکہ میری امت میں تہتر (73)بنیں گے ،
اور یہ سارے فرقے جہنمی ہوں گے ۔سوائے ایک جماعت کے ،،،
صحابہ کرام نے پوچھا ،وہ کون سے لوگ ہیں ،جو ان فرقوں میں جہنمی نہیں ؟
فرمایا :جو اس دین پر ہونگے جس پر آج میں ،اور میرے صحابہ ہیں
الله اکبر .. یہ تو بڑی ہولناک بات ہے. سوچیں کہ پوری دنیا کی انسانی آبادی میں مسلمان تیئیس فیصد سے زیادہ نہیں ہیں. ان تئیس فیصد مسلمانوں میں بھی کم از کم ٧٣ فرقوں کی موجودگی ہے اور ان میں سے صرف ایک فرقہ سے منسلک لوگ جنت میں جائیں گے پھر اس ایک مسلک میں بھی ظاہر ہے سب تو نہیں جائیں گے ان میں بیشمار اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم واصل ہوجائیں گے . یہ تو بڑی الارمنگ سچویشن ہے بھئی.
لیکن ذرا غور کریں تو جیسا میں نے ابتدا میں کہا کہ فرقہ بنانا یا فرقہ پرستی میں ملوث ہونا قران حکیم کی رو سے حرام ہے. تو پھر یہ کیسے ہوگا کہ ایک فرقہ جنت میں جائے گا. یہ کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ سو لوگ شراب پئیں گے جن میں سے ایک شرابی جنت میں جائے گا. اب یہ بات سمجھ نہیں آتی جب شراب حرام ہے تو ایک شرابی کیسے جنت میں جا سکتا ہے. اسی طرح فرقہ بنانا حرام ہے تو ایک فرقہ والا جنت میں جاسکتا ہے؟
الله اکبر .. یہ تو بڑی ہولناک بات ہے. سوچیں کہ پوری دنیا کی انسانی آبادی میں مسلمان تیئیس فیصد سے زیادہ نہیں ہیں. ان تئیس فیصد مسلمانوں میں بھی کم از کم ٧٣ فرقوں کی موجودگی ہے اور ان میں سے صرف ایک فرقہ سے منسلک لوگ جنت میں جائیں گے پھر اس ایک مسلک میں بھی ظاہر ہے سب تو نہیں جائیں گے ان میں بیشمار اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم واصل ہوجائیں گے . یہ تو بڑی الارمنگ سچویشن ہے بھئی.
لیکن ذرا غور کریں تو جیسا میں نے ابتدا میں کہا کہ فرقہ بنانا یا فرقہ پرستی میں ملوث ہونا قران حکیم کی رو سے حرام ہے. تو پھر یہ کیسے ہوگا کہ ایک فرقہ جنت میں جائے گا. یہ کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ سو لوگ شراب پئیں گے جن میں سے ایک شرابی جنت میں جائے گا. اب یہ بات سمجھ نہیں آتی جب شراب حرام ہے تو ایک شرابی کیسے جنت میں جا سکتا ہے. اسی طرح فرقہ بنانا حرام ہے تو ایک فرقہ والا جنت میں جاسکتا ہے؟
No comments:
Post a Comment