Monday, 13 December 2010

گناہ کیا ؟ کہتا ہوں سچ



کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

دوستو کبھی آپ نے سوچا کہ ثواب اور گناہ اپنی حقیقت میں ہے کیا؟ یہ نہ کہیئے گا کہ ثواب فلاں فلاں اعمال ہیں اور گناہ فلاں فلاں اعمال. یہ تو ہم سب جانتے ہیں. میں پوچھ یہ رہا ہوں کہ کبھی آپ نے سوچا کہ وہ کون سا پیرا میٹر ہے کسوٹی ہے جس کی بنیاد پر رب کریم کسی ایک عمل کو ثواب اور دوجے کپ گناہ قرار دیتے ہیں؟ 
غور کیجیئے تو ثواب ہر وہ کام ہے جس سے آپ کا روحانی و اخلاقی وجود ترقی پاتا ہے اور گناہ وہ اعمال ہیں جو آپ کی اس روحانی ترقی پر روک لگاتے ہیں یا نفس کو آلودہ کرتے ہیں. اسی کو سورہ شمس میں بیان کیا گیا ہے

وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاهَا (7)
اور جان کی اور اس کی جس نے اس کو درست کیا۔
فَاَلْهَـمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوَاهَا (8)
پھر اس کو اس کی بدی اور نیکی سمجھائی۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (9)
بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے اپنی روح کو پاک کر لیا۔
وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا (10)
اور بے شک وہ غارت ہوا جس نے اس کو آلودہ کر لیا۔

دوسرے الفاظ میں آپ کی شخصیت پر آپ کا ہر عمل ایک اثر مرتب کرتا ہے اور گناہ و ثواب کا فیصلہ اسی اثر کے تحت ہوتا ہے. ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ثواب کو اسکے اثر کی نیت سے نہیں بلکہ تعداد کے حساب سے کرتے ہیں. ہمیں یہ تربیت نہیں دی جاتی کہ ہم عبادت یا اطاعت کے نام پر جو بھی عمل کریں اسے احسن انداز میں سرانجام دیں تاکہ اسکا بہترین نتیجہ ہماری شخصیت پر منطبق ہو، بلکہ اسے برعکس ہمیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ فلاں عمل اگر اتنی اتنی دفعہ کرو گے یا پڑھو گے تو زیادہ ثواب پاؤ گے. نتیجہ یہ ہے کہ آج ہماری نظر اعمال و اذکار کی روح پر نہیں بلکہ اعداد و شمار میں اٹک کر رہ گئی ہے. ہم یہ بھول گئے ہیں کہ روح سے خالی کوئی بھی عمل ہمارے منہ پر دے مارا جاۓ گا اور صحیح نیت سے کیۓ ہوے مٹھی بھر اعمال بھی ہماری بخشش کا سامان بن سکیں گے. یہ جو بیان ہوتا ہے کہ مسجد میں نماز کا اتنا گنا ثواب زیادہ ہے یا کعبہ میں طواف کی جزا اتنی گنا زیادہ ہے، اس سب سے مراد وہی اثر کا زیادہ ہونا ہے جسکا حصول مسجد یا حرم میں کئی گنا آسان ہوتا ہے. تہجد کا وقت یا کوئی اور قبولیت کے وقت کا ذکر بھی اسی حوالے سے ہوتا ہے کہ یہ وہ اوقات ہیں جن میں طبیعت پر زیادہ اثر مرتب ہوتا ہے. اسے صرف تعداد میں الجھا کر دیکھنا، حقیقت سے دوری ہے. یہ بھی سمجھیں کہ اکثر احادیث کا اسلوب، اصول سے زیادہ ترغیب کا ہوتا ہے. اصول کو کتاب الله متعین کرتی ہے اوراحادیث میں اکثر ترغیب کی غرض سے عام انسانوں کو زیادہ سے زیادہ اجر دکھا کر عمل کی جانب بلایا جاتا ہے. اقبال کا الله سے وہ استفسار یاد آرہا ہے:

ہو نقش اگر باطل ، تکرار سے کیا حاصل ؟
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی ؟

ہمیں بعض استثنائی صورتوں میں کسی عمل کے ثواب یا گناہ ہونے پر کنفیوژن ہوجاتا ہے. ایسی صورت میں سنن احمد اور سنن دارمی کی اس حدیث کو یاد رکھیں جس میں 
حضرت وابصہ بن معبد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:’’اے وابصہ، تم نیکی اور بدی کے بارے میں پوچھنے کے لیے آئے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا’’ہاں۔‘‘ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نیاپنی انگلیاں جمع کیں اور ان کے ساتھ میرے سینے پر مارااور فرمایا:’’ اپنے دل سے فتویٰ پوچھ، اپنے دل سے فتویٰ پوچھ۔‘‘ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے تین مرتبہ فرمایا:’’نیکی وہ ہے جس سے دل اطمینان پکڑے، دل اس کی طرف مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکھے اور سینے میں ترددپیدا کرے اگرچہ لوگ تجھ کو فتویٰ دیں۔‘‘
(سنن احمد/ سنن دارمی )
.

ایک استاد نے اپنے دو شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ ایک ایک پیالہ پانی کا باہر رکھے مٹکے سے بھر کر لائیں. ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دے دی کہ اس کام میں جو جو قدم تم بڑھاؤ گے تو ہر قدم پر تمہیں اضافی نمبرز سے نوازا جائے گا جو سال کے آخر میں تمہارے مجموعی نتیجے کا حصہ بن جائیں گے. اب یہ غیر معمولی خوشخبری پاکر پہلا شاگرد مٹکے کی جانب خوشی خوشی گیا، پانی پیالے میں بھرا اور اسے سنبھال کر واپس استاد کے پاس لے آیا. نتیجہ یہ کہ استاد نے اسے شاباشی بھی دی اور وعدے کے مطابق اسے ہر قدم پر اضافی نمبرز سے بھی نوازا. دوسرے شاگرد نے چالاکی دیکھانا چاہی اور بجائے اس کے کہ پانی لے کر استاد کے پاس آتا، وہ مٹکے کے ارد گرد چکر لگانے لگا. سارا وقت وہ یہ سوچ کر یہاں وہاں گھومتا رہا کہ میرے ہر ہر قدم پر استاد مجھے اضافی نمبرز دیں گے اور یوں میں کامیاب ہوجاؤں گا. اب بتایئے اس دوسرے شاگرد کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہوگی؟ ظاہر ہے کہ ہر صاحب شعور ایسا منظر دیکھ کر اپنا سر پیٹ لے گا اور اس احمق کو سمجھائے گا کہ ہر قدم پر اضافی نمبرز تمھیں اسی صورت مل سکتے تھے جب تم استاد کا اصل حکم بھی پورا کرتے یعنی مٹکے سے پیالے میں پانی بھر کر واپس استاد کو لاکر دیتے. تم نے اصل مقصد فراموش کردیا اور ضمنی منسلک فضیلت کو اصل سمجھ لیا. لہٰذا تمہارا وقت بھی ضائع ہوا، استاد بھی ناراض ہوئے، تم خود بھی ہلکان ہوئے اور اضافی نمبرز بھی ہاتھ سے گئے. 
.
اگر میری عبادات میرے اخلاقی وجود کا تزکیہ نہیں کرتیں. 
اگر میرے بیوی ، بچے اور میرے قریبی اقرباء میرے اعلیٰ اخلاق کی گواہی نہیں دیتے. 
اگر میرا چہرہ داڑھی سے تو سجا ہے مگر مسکراہٹ کی سنّت سے خالی ہے. اگر میں شرعی احکام کی پابندی تو کرتا ہوں لیکن معاشرتی و سماجی معاملات میں بلکل کورا ہوں. 
اگر دین پر چلنے سے میری طبیعت میں نرمی نہیں بلکے سختی آ گئی ہے اور اگر میں دعوت کی جگہ  تکفیر کا رویہ اپنایا ہوا ہوں توجان لیں یہ وہ اسلام نہیں ہے جسکی تعلیم پیارے نبی صلالله و الہے وسلم نے دی تھی اور جسے صحابہ رضی الله نے اپنی زندگیوں میں سجایا تھا. 
ہم اپنی داڑھی کے طول اور شلوار کی اونچائی سے الله رب العزت کو دھوکا نہیں دے سکتے، ہرگز نہیں دے سکتے.


بعض لوگ سچ کڑوا ہوتا ہے، سچ کڑوا ہوتا ہے کی رٹ لگا کر ہر طرح کی بد تہذیبی کرتے جاتے ہیں. انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اکثر سچ کڑوا نہیں ہوتا بلکہ سچ بولنے والے کا انداز کڑوا ہوتا ہے. الفاظ تو خالی برتن کی طرح ہوتے ہیں انہیں مفھوم ہم عطا کرتے ہیں. کڑوی سے کڑوی بات بھی اگر تہذیب اور شائستگی سے کی جائے تو اس میں شیرنی گھل جاتی ہے. اسکی سب سے بڑی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے جنہوں نے ہمیشہ سچ اور حق بولا مگر کبھی کڑوا نہ بولا. اگر آپ سچ بولنے کی آڑ میں مخاطب کی دل آزاری کا سبب بن رہے ہیں تو یہ سچائی کا پرچار نہیں بلکہ آپ کی انا کی تسکین کا سامان ہے.

آخر میں یہی دعا کہ اللہ آپ کو خیر ہی خیر نصیب فرمائیں اور آپ کی ذات کو خیر ہی تقسیم کرنے والا بنائیں آمین. 

وآخر ..

No comments:

Post a Comment