نحمدہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے ..
آج سال نو ٢٠١٧ کے آغاز پر میں اللہ رب العزت کا نام لے کر ایک نئے سلسلے کا آغاز کر رہا ہوں. یعنی اب تحریر کے ساتھ ساتھ میری کوشش ہوگی کہ گاہے بگاہے آپ سے ویڈیوز کے ذریعے بھی مخاطب ہوسکوں. آپ میں سے اکثر احباب مجھ سے واقف ہیں مگر جو نہیں جانتے انکے لئے عرض کردوں کہ میرا نام عظیم الرحمٰن عثمانی ہے. میں نہ تو عالم ہوں نہ فاضل اور نہ ہی کوئی مستند تحقیق نگار. زبان اردو میں اگر کوئی لفظ میرا تعارف آپ کو فراہم کرسکتا ہے تو وہ ہے مرکب لفظ 'طالب علم' . میں ایک معمولی طالبعلم ہوں کتاب الله قران کا اور دین الله اسلام کا. یوں تو ہر انسان کے کہے اور لکھےمیں غلطی کا احتمال ہوتا ہے مگر میری کم علمی کے سبب یہ امکان مزید تقویت حاصل کرلیتا ہے. چنانچہ ناظرین سے استدعا ہے کہ وہ میری بات کو ایک دین کے ابتدائی طالبعلم کی حیثیت سے ہی ملاحظہ کریں اور اگر کسی بات کو دلیل یا مشاہدہ کے خلاف پائیں تو بلاجھجھک مسترد کردیں.
میرا تعلق عثمانی خاندان سے ہے . مولانا یعقوب الرحمٰن عثمانی میرے سگے دادا، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی میرے دادا کے سگے چچا اور اس نسبت سے میرے پردادا ہیں. اسی طرح اور بھی بہت سے جید اہل علم اسی خاندان کا حصہ رہے ہیں جیسے میرے رشتے کے چچا مدیر رسالہ تجلی مولانا عامر عثمانی اور تقابل ادیان کے ماہر مولانا شمس نوید عثمانی وغیرہ. دور موجود میں مفتی تقی عثمانی ، مفتی رفیع عثمانی صاحب سے میرا کیا رشتہ بنتا ہے؟ بنتا بھی ہے یا نہیں بنتا؟ یہ میں نہیں جانتا مگر کوئی دور دراز کا تعلق ضرور ہے جو آپ مفتیان ہمارے خاندان کی شادیوں یا جنازوں میں شرکت کرتے نظر آتے ہیں.
ان جبال علم ناموں کے خاندان سے تعلق رکھنا میرے لئے باعث سعادت بھی ہے اور باعث ندامت بھی. سعادت اس لئے کہ ان کے تعلق سے ایک علمی روایت سے نسبت محسوس ہوتی ہے اور ندامت اسلئے کہ میں خود اس میراث کو بڑی حد تک گنوا بیٹھا ہوں. تقسیم ہند کے بعد میرے والد اور خاندان کے دیگر نوجوان جب وطن عزیز میں ہجرت کرکے آئے تو غم معاش اور فکر روزگار نے ایسا جکڑا کہ بس اسی کے ہوکر رہ گئے. نتیجہ یہ ہے کہ اب اس خاندان میں علماء دین شاذ شاذ ہی نظر آتے ہیں.دیگر خاندانوں کی طرح اب علمی روایت کا امین یہ خاندان بھی صرف مال کمانے کی جہد میں لگا ہوا ہے. اس پر سانحہ یہ ہے کہ اس گم گشتہ علمی میراث کو واپس حاصل کرنے کی تمنا بھی اب نظر نہیں آتی
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
میں الحمدللہ اپنا شمار اس خاندان کے ان چند اذہان میں کرتا ہوں جو کم از کم اس علمی نقصان کا صدمہ محسوس کرتے ہیں اور دین سے اپنا علمی و عملی تعلق بڑھانے کے خواہاں ہیں. اگر اسوقت میں آپ سب سے پوچھوں کہ وہ کون سی سورہ ہے جس کی تلاوت کرنا یا سننا آپ کو سب سے زیادہ خوش کن محسوس ہوتا ہے ؟ تو امکان ہے آپ میں سے اکثر سورہ الرحمٰن کا نام لیں. اسی سورہ کی چند ابتدائی آیات کو اس موضوع کی اہمیت کے حوالے سے پیش کرنا چاہتا ہوں.
.
الرَّحْمَنُ (1) عَلَّمَ الْقُرْآنَ (2) خَلَقَ الْإِنْسَانَ (3) عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (4)
الرَّحْمَنُ یعنی نہایت مہربان. محققین کے نزدیک الله پاکی کی نمائندہ ترین صفت رحم کرنا اور اونچا ترین صفاتی نام الرَّحْمَنُ ہے. جیسے سورہ الاسراء میں ارشاد ہوتا ہے کہ
"کہہ دو الله کہہ کر یا رحمٰن کہہ کر پکارو جس نام سے پکاروسب اسی کے عمدہ نام ہیں ..." یا پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم .. یا پھر الحمد اللہ رب العالمین الرحمٰن الرحیم .. یا پھر وہ حدیث قدسی جس میں ارشاد ہوا کہ اللہ کی رحمت نے الله کے غضب کو ڈھانپ رکھا ہے
.
عَلَّمَ الْقُرْآنَ یعنی اسی نے قرآن کی تعلیم فرمائی. یوں تو دین ہر علم کی حوصلہ افزائی اور اسکے حصول کی تلقین کرتا ہے مگر تمام علوم میں سب سے چوٹی کا علم قران کا علم ہے. اسی کو حدیث مبارکہ میں کچھ ان الفاظ میں بیان کیا گیا کہ "تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھائے"
.
خَلَقَ الْإِنْسَانَ یعنی اسی نے انسان کو پیدا کیا - اب سب سے اونچی صفت اور سب سے بلند علم کے ذکر کے بعد خالق اپنی بہترین مخلوق کا ذکر کر رہے ہیں یعنی وہی انسان جسے خلیفہ الارض کی خلعت پہنائی گئی. اسی ضمن میں سورہ تین میں ارشاد ہوتا ہے کہ
.
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
کہ ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے
.
عَلَّمَهُ الْبَيَانَ یعنی اسی نے اسکو بیان کی صلاحیت دی - سب سے اونچی صفت رحمٰن ، سب سے بلند علم قران، سب سے مکرم تخلیق انسان کے ذکر کے بعد اس انسان کی افضل ترین صفت یا صلاحیت یعنی 'قوت بیان' کا ذکر ہوا. یہ بیان ہی کی قوت ہے جس کے استمعال سے انسان دیگر مخلوقات کی بانسبت کہیں زیادہ تیزی سے شعوری ارتقاء کرتا چلا گیا. یہی وہ بیان کی قوت ہے جسے آج سوشل میڈیا پر مجھ جیسے خود ساختہ لکھاری یا دیگر حقیقی دانشور استعمال کررہے ہیں. لہٰذا آج اس ویڈیو سلسلے کا محرک بھی یہی ہے کہ اللہ پاک کی اس عطا کردہ بیان کی صلاحیت کا استعمال کیا جائے.
ارادہ یہی ہے کہ اس ویڈیو سلسلے میں صرف مذھبی نہیں بلکہ وقتن فوقتن سماج، سیاسی اور معاشرتی حوالوں سے بھی گفتگو کی جائے. یہ بھی خیال ہے کہ ان ویڈیوز کو بیک وقت فیس بک اور یوٹیوب دونوں پر اپلوڈ کیا جائے. مجھے امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں تائید و تنقید سے میری معاونت کریں گے. میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیں کہ کیا یہ ویڈیوز بنانے کا آئیڈیا آپ کے خیال سے اچھا ہے؟ اگر ہاں تو کن کن موضوعات پر بات کی جائے؟ وہ کون سے سوالات ہیں جن کے جوابات آپ چاہتے ہیں؟ وہ کون سے مسائل ہیں جن پر آپ میری رائے سننا چاہتے ہیں؟ آپ کے حساب سے ان ویڈیوز کا دورانیہ کیا ہونا چاہیئے؟ ہفتہ یا مہینے میں کتنی ویڈیوز ہونی چاہیئے؟کوئی اور تجویز جو آپ مجھے دے سکیں. وہ کمٹس میں ضرور دیجیئے. یاد رکھیں کہ آپ کی تائید و توثیق ہی میرے لئے یہ فیصلہ کرے گی کہ اس سلسلے کو جاری رکھا جائے یا نہیں. آخر میں یہی دعا کہ اللہ پاک آپ کو خیر ہی خیر عطا فرمائیں اور آپ کی ذات سے ہمیشہ خیر ہی کا صدور فرمائیں. آمین
وآخر
No comments:
Post a Comment