Saturday, 23 October 2010

سوشل میڈیا پر ایک عملی مسلمان کے آداب اظہار


نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم. عم بعد فااعوز باللہ من اشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم.
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي* وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي* وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي * يَفْقَهُوا قَوْلِي
رب زدنی علما رب زدنی علما رب زدنی علما 
آمین یا رب العالمین 
.
عزیزان من 
.
میں الله پاک کا اور آپ تمام احباب کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے یہ موقع عنایت کیا کہ میں آپ سے مخاطب ہوسکوں، گفتگو کرسکوں، اپنی گزارشات پیش کرسکوں. مجھے قلیل وقت دیا گیا ہے لہٰذا میری کوشش ہوگی کہ اختصار سے جامع بات آپ تک پہنچا پاؤں. اپنے تعارف میں، میں نے لکھ دیا تھا کہ میں نہ تو عالم ہوں نہ فاضل اور نہ ہی کوئی مستند تحقیق نگار. زبان اردو میں اگر کوئی لفظ میرا تعارف فراہم کرسکتا ہے تو وہ ہے مرکب لفظ 'طالب علم' . میں ایک معمولی طالبعلم ہوں کتاب الله قران کا اور دین الله اسلام کا. یوں تو ہر کسی کے لکھے یا کہے میں غلطی کا احتمال ہوا کرتا ہے مگر میری کم علمی کے سبب یہ امکان مزید تقویت اختیار کرلیتا ہے. لہٰذا آپ سب پر فرض ہے کہ میرے کہے کو حرف آخر نہ سمجھیں. جس بات کو دین کے مطابق پائیں اسے تو لپک کر قبول کرلیں اور جسے دین کے کسی حکم سے متصادم محسوس کریں تو اس بات کو ردی کی ٹوکری میں دال دیجیئے. جس موضوع پر گفتو کی ذمہ داری آج مجھے سونپی گئی ہے اس کا عنوان ہے کہ "سوشل میڈیا پر ایک عملی مسلمان کے آداب اظہار" مگر قبل اسکے کہ عنوان کی گہرائی میں اترا جائے. میں تمہیدا کچھ آیات آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں. اگر اسوقت میں آپ سب سے پوچھوں کہ وہ کون سی سورہ ہے جس کی تلاوت کرنا یا سننا آپ کو سب سے زیادہ خوش کن محسوس ہوتا ہے ؟ تو امکان ہے آپ میں سے اکثر سورہ الرحمٰن کا نام لیں. اسی سورہ کی چند ابتدائی آیات کو اس موضوع کی اہمیت کے حوالے سے پیش کرنا چاہتا ہوں. 
.
الرَّحْمَنُ (1) عَلَّمَ الْقُرْآنَ (2) خَلَقَ الْإِنْسَانَ (3) عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (4)
الرَّحْمَنُ یعنی نہایت مہربان. محققین کے نزدیک الله پاکی کی نمائندہ ترین صفت رحم کرنا اور اونچا ترین صفاتی نام الرَّحْمَنُ ہے. جیسے سورہ الاسراء میں ارشاد ہوتا ہے کہ 
"کہہ دو الله کہہ کر یا رحمٰن کہہ کر پکارو جس نام سے پکاروسب اسی کے عمدہ نام ہیں ..." یا پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  .. یا پھر الحمد اللہ رب العالمین الرحمٰن  الرحیم .. یا پھر وہ حدیث قدسی جس میں ارشاد ہوا کہ اللہ کی رحمت نے الله کے غضب کو ڈھانپ رکھا ہے
.
عَلَّمَ الْقُرْآنَ یعنی اسی نے قرآن کی تعلیم فرمائی. یوں تو دین ہر علم کی حوصلہ افزائی اور اسکے حصول کی تلقین کرتا ہے مگر تمام علوم میں سب سے چوٹی کا علم قران کا علم ہے. اسی کو حدیث مبارکہ میں کچھ ان الفاظ میں بیان کیا گیا کہ "تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھائے"
.
خَلَقَ الْإِنْسَانَ یعنی اسی نے انسان کو پیدا کیا - اب سب سے اونچی صفت اور سب سے بلند علم کے ذکر کے بعد خالق اپنی بہترین مخلوق کا ذکر کر رہے ہیں یعنی وہی انسان جسے خلیفہ الارض کی خلعت پہنائی گئی. اسی ضمن میں سورہ تین میں ارشاد ہوتا ہے کہ
.
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ 
کہ ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے
.
عَلَّمَهُ الْبَيَانَ یعنی اسی نے اسکو بیان کی صلاحیت دی - سب سے اونچی صفت رحمٰن ، سب سے بلند علم قران، سب سے مکرم تخلیق انسان کے ذکر کے بعد اس انسان کی افضل ترین صفت یا صلاحیت یعنی 'قوت بیان' کا ذکر ہوا. یہ بیان ہی کی قوت ہے جس کے استمعال سے انسان دیگر مخلوقات کی بانسبت کہیں زیادہ تیزی سے شعوری ارتقاء کرتا چلا گیا. یہی وہ بیان کی قوت ہے جسے آج سوشل میڈیا پر مجھ جیسے خود ساختہ لکھاری یا دیگر حقیقی دانشور استعمال کررہے ہیں. لہٰذا آج کے میرے موضوع کی اہمیت کو سمجھیئے اور پورے دھیان سے بات کو سمجھنے کی سعی کیجیئے. لازم ہے کہ باحیثیت ایک عملی مسلمان ہم وہ آداب اظہار سیکھیں جو دین نے ہمارے لئے متعین کئے ہیں. 
غور کریں تو کلمہ طیبہ میں تین مراحل ہیں. سب سے پہلے 'لا الا' کہہ کر کیا نہیں ماننا؟ اس کا اعلان کیا جاتا ہے. اس کے بعد 'الا اللہ' کہہ کر کیا ماننا ہے؟ اس کا اقرار کیا جاتا ہے. اور سب سے آخر میں 'محمد الرسول اللہ' پکار کر یہ جانا جاتا ہے کہ کیسے کرنا ہے؟

آج کی گفتگو بھی اسی طرز و ترتیب پر تین حصوں میں منقسم ہے یعنی ایک عملی مسلمان کو سوشل میڈیا پر کیا نہیں کرنا؟ کیا کرنا ہے؟ اور کیسے کرنا ہے؟

تو سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کیا نہیں کرنا ہے.؟

چھ باتیں ایسی ہیں جن سے مکمل اجتناب کرنا ہے.
 
سب سے پہلی بات یہ کہ پوری کوشش کرنی ہے کہ آپ کے قول و فیل میں تضاد نہ ہو
.
سورہ الصف میں ارھساد ہے کہ: 'اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو. اللہ کے نزدیک بہت سخت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے (سورہ الصف ٢ -٣)
'
فیس بک پر ہمیں ایسی ان گنت مثالیں نظر آتی ہیں جہاں مجھ جیسے خود ساختہ دانشور اپنی تحریروں سے تو بلند و بانگ کردار کی ترغیب دیتے ہیں مگر خود ان کا عمل اپنے لکھے سے کوسوں دور ہوتا ہے.ظاہر ہے کہ ہم بشر ہیں اور بشر میں شر ہے مگر کم از کم اخلاص سے کوشش تو کرنی ہی چاہیئے کہ جو لکھیں اس پر عمل پیرا بھی ہوں. جیسا کے انبیاء اسلام کا پیغام پیش کرتے ہی یہ بھی کہتے تھے کہ میں سب سے پہلا مسلمان یعنی فرمانبردار ہوں

دوسری بات یہ کہ دعوت دین کا نام لے کر دینی حمیت و غیرت کو بھینٹ نہ چڑھایا جائے. ہم جانتے ہیں کہ فیس بک پر ایسے کئی پیجز موجود ہیں جہاں رسول ص کی کھلے عام کردار کشی کی جاتی ہے، گالیاں دی جاتی ہیں اور استہزا پر مبنی خاکے بنائے جاتے ہیں. ہمارے بہت سے بھولے بادشاہ ان پیجز پر موجود پوسٹوں پر کمنٹس کرتے ہیں. اس نیت سے کہ وہ ان کے اٹھائے سوالوں کے جواب دیں گے اور انہیں دین کی ترغیب دیں گے. لیکن تجربہ گواہ ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی ملحد آپ کے عطا کردہ جواب سے مطمئن ہوگیا ہو. بلکہ ہوتا یہ ہے کہ مستقل ایسے ماحول کی پوسٹوں کو دیکھنے کی وجہ سے ایک عام مسلمان کے دل میں بھی کجی آنے لگتی ہے. آھستہ آہستہ یہ دکھ بھی مٹنے لگتا ہے کہ یہاں رسول ص اور رب پاک کی کھلی تکذیب و تذلیل کی جارہی ہے. خوب جان لیں کہ ایسی کمیونٹیز میں جانا ہرگز دین کی منشاء نہیں. اگر کوئی واقعی جوابات جاننا چاہتا ہے اور آپ علم رکھتے ہیں تو اس سے پرائیویٹ گفتگو پر رضامند کیجیئے اور اسے اسکائپ پر بلالیجیئے. سورہ النساء کی یہ آیت ملاحظہ ہو

 اور خدا نے تم (مومنوں) پر اپنی کتاب میں (یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم (کہیں) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہورہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں (نہ) کرنے لگیں۔ ان کے پاس مت بیٹھو۔ ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہوجاؤ گے۔ کچھ شک نہیں کہ خدا منافقوں اور کافروں سب کو دوزخ میں اکھٹا کرنے والا ہے (سورہ النساء ١٤٠)

تیسری بات یہ کہ دعوت دین دیتے ہوئے تذلیل نہیں کی جاتی اگر کوئی گندی زبان استمعال کررہا ہے تو جواب میں آپ ناشائستہ گفتگو نہیں کرسکتے.ہماری اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ ملحدین سے یا قادیانیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے خودساختہ غلط عقیدوں کو گالی دینے لگتے ہیں جو صریح طور پر اسلام کے خلاف ہے. یاد رکھیں گالی صرف ماں بہن کی نہیں ہوتی بلکہ مذھبی بھی ہوتی ہیں

 اور خبردار تم لوگ انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے ہم نے اسی طرح ہر قوم کے لئے اس کے عمل کو آراستہ کردیا ہے اس کے بعد سب کی بازگشت پروردگار ہی کی بارگاہ میں ہے اور وہی سب کو ان کے اعمال کے بارے میں باخبر کرے گا (سورہ الانعام ١٠٨)

چوتھی بات یہ کہ ہم نے داروغہ نہیں بننا ہے پولیس میں نہیں بننا ہے بلکہ شائستگی سے پیغام پہنچانا ہے. اگر دوران گفتگو احساس ہوجائے کہ مخاطب کی بات درست ہے تو لپک کر قبول کرلیں اگر لگے کہ مخاطب کی رائے غلط ہے مگر پھر بھی اگر اپنی رائے پر مصر ہے تو ہرگز بدتمیزی نہ کریں بلکہ مکالمہ احسن انداز سے ختم کر دیں کہ پہنچانے کا کام ہوگیا

پانچویں بات یہ کہ تکبر سے بچا جائے. فیس بک پر علم کے تکبر سے لے کر تقویٰ پر استکبار تک نظر آتا ہے. اگر اللہ نے آپ کو لکھنے کی صلاحیت دی ہے تو اس کا استمعال انکسار سے کیجیئے ، اپنی برائیاں نہ مارییئے، مثل فرعون نہ بن جایئے

اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا 36؀ۙ [04/36]
بیشک خدا تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔

چھٹی بات یہ کہ دین کی ترویج کیلئے جھوٹ کی بیساکھی نہ لیجیئے. یہ لڑکیوں کی آئی ڈی بنا کر اسلامی تحریریں لکھنا کہ دین کی ترویج کر رہا ہوں ، شیطانی دھوکے کے سوا اور کچھ نہیں

ایک وقت تھا جب جعلی آئی ڈی بنانا کسی شہوت پرست کا ہی کام سمجھا جاتا تھا مگر اب حال یہ ہے کہ بیشمار لمبی داڑھی والے صاحبان فیس بک پر "مما پاپا کی لاڈلی" بنے بیٹھے ہیں. طرہ یہ ہے کہ اس برقی جنسی تبدیلی کو مذہبی جواز دے کر طرح طرح کی تاویلیں بھی گھڑ لیتے ہیں. جیسے خواتین کی شناخت سے شائع کردہ دینی پوسٹوں کو لوگ زیادہ لائیک کرتے ہیں اور اس طرح دین کا پیغام زیادہ پھیلتا ہے. بہت معزرت کیساتھ مگر پھر ایک نیم برہنہ تصویر بھی لگا لیجیئے ، اس سے اور بھی لوگ آپ کی 'مذہبی' پوسٹیں لائیک کریں گے. ایک اور جواز یہ دیا جاتا ہے کہ ہم فلاں فلاں وجہ سے اپنی حقیقی شناخت نہیں بتاسکتے، اسلئے ایسی آئی ڈی بنانی پڑتی ہے. جناب اگر یہ بات ہے تو اپنا پروفائل نام 'طالب حق' یا 'طالب علم' یا اسی کے مساوی کوئی اور نام رکھ لیجیئے. اس کے لئے آپ کو شبانہ یا رقیہ بننے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں.
 
.عرض اتنی ہے کہ آپ بصد شوق اپنی تسکین کے لئے مخالف جنس کی آئی ڈی بنائیں اور جھوٹ کے داعی بن کر خوش ہوں مگر اسے دین، تبلیغ یا مصلحت کا نام لے کر جواز نہ دیں. آپ میں اور کسی 'بوبی ڈارلنگ' میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے، بس اتنا ہی کہ وہ سامنے ساڑھی پہن لیتے ہیں اور آپ انٹرنیٹ پر. پھر امکان تو یہ بھی ہے کہ برقی عورت بننے کے شوقین حقیقی زندگی میں بھی بناؤ سنگھار کرکے اور گھاگھرا چولی پہن کر آئینہ میں خود پر فدا بھی ہوتے ہوں؟

اگر جھوٹ بولنا گناہ ہے تو اسلام کا نام لے کر جھوٹ بولنا گناہ کبیر ہے. آج ہم میں سے بہت سے افراد ایسے موبائل یا سوشل میڈیا پیغامات بھیجتے نظر آتے ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہوتا ہے کہ فلاں صاحب کو ایک خواب آیا جس میں اس نے فلاں مقدس شخصیت جیسے بی بی زینب رض کو دیکھا جو کہہ رہی ہیں کہ فلاں عمل اتنی بار لازمی کرو. ساتھ ہی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں نے عمل کیا تو اسے مالی فائدہ پہنچا اور فلاں نے عمل نہ کیا تو اسے نقصان ہوگیا یا وہ کسی حادثے سے دوچار ہوگیا (استغفراللہ). کیا اس طرح کی خرافات چاہے وہ بظاہر کتنی ہی مقدس کیوں نہ نظر آئیں، لوگوں میں پھیلا کر آپ کون سے دین کی خدمت کررہے ہیں؟ کیا اسلام کا پیغام معاذ اللہ اتنا اپاہج ہے کہ اسے پہنچانے کیلئے ان کہانیوں کا سہارا لینا پڑے؟ صحیح مسلم میں میرے نبی ص نے کی ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ” کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی بات سُنے اور بغیر تصدیق کے آگے بیان کر دے“۔


لکھاریوں کی تحریر پر تعریف کے ڈونگرے برسانا ممنوع ہے.

===================

اب جب یہ جان لیا کہ کیا نہیں کرنا؟ تو اب دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے؟

تین کام کرنے کے ہیں

سب سے اہم کام مسلمان کیلئے یہی ہے کہ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا اپنے دائرہ اختیار میں اہتمام کرے. لہٰذا سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے

تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکہتے ہو .. (سورہ آل عمران ١١٠)

آج کل مذہبی حلقوں میں ایک جملے بہت مقبول ہے کہ
 "دوسرے کے عقیدہ کو چھیڑو نہیں .. اور اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں"
 .
 مجھے تو یہ جملہ قرانی پیغام کی سراسر مخالفت نظر آتا ہے. اسلام میں تو 'مائنڈ یور اون بزنس' کی اپروچ نہیں سکھائی گئی. بحیثیت مسلمان اور مومن اگر مجھ پر کوئی حق ثابت ہو جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ میرا بھائی اس حق کے خلاف عقیدہ اپنائے ہوئے ہے تو مجھ پر فرض ہے کہ میں محبت اور احسن طریق سے اس کے عقیدہ کی اصلاح کی کوشش کروں. ٹھیک اسی طرح اگر مجھے اپنے عقیدہ کے برخلاف کوئی برتر حق معلوم ہوجاتا ہے تو مجھ پر فرض ہے کہ میں اپنا عقیدہ فوری چھوڑ کر اس برتر حق کو اپنا عقیدہ بنالوں. احتیاط بس اتنی کرنی ہے کہ ہمارا کام پیغام کو احسن طریق سے پہنچانا ہے اور ہر وقت حق کو قبول کرنے کیلئے راضی رہنا ہے. اگر اس کے باوجود اختلاف موجود رہتا ہے تو نفرت نہیں کرنی، تکفیری انداز نہیں اپنانا بلکہ بھائی سمجھ کر کوشش جاری رکھنی ہے

دوسرا اہم ترین کام یہ ہے کہ انکسار و اخلاص سے اور کسی فرقے کی شناخت اپنائے دعوت دین کا اہتمام کریں
جیسا کے سورہ الفصلت میں ارشاد ہے کہ

اور اس شخص سے بات کا اچھا کون ہوسکتا ہے جو خدا کی طرف بلائے اور عمل نیک کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں

تیسرا کام اس وقت کرنے کا ہے جب دیکھو کہ دو مسلمان بھائیوں میں چپقلش ہوگئی ہے
.
 اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے۔ پس جب وہ رجوع لائے تو وہ دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو۔ کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے. مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے (سورہ  الحجرات ٩ -
١٠
افسوس کے ہمارے ہاں تو باقاعدہ چٹخارہ لیا جاتا ہےاور جملے کسے جاتے ہیں

چوتھا کام یہ ہے کہ لوگوں میں امید پیدا کی جائے. تنقید بھی تعمیری انداز (کنسترکٹو کرٹسزم) میں ہو جسے سن کر انسان میں اپنی اصلاح کا جذبہ پیدا ہو ، یہ نہ ہو کہ وہ مایوسی کی دلدل میں جاگرے



===================


اب جب یہ واضح ہو گیا کہ کیا نہیں کرنا،اور کیا کرنا ہے؟ تو اب یہ بھی جان لیتے ہیں کہ کیسے کرنا ہے؟

کوئی بھی تحریر پوسٹ کرنے یا مکالمہ کا آغاز کرنے سے پہلے اپنی نیت کی تجدید کریں. صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں کی پہلی حدیث یہی ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے. نیت کی تجدید کریں کہ اس پوسٹ یا جواب سے مراد واہ  واہ سمیٹنا نہیں ہے

دوسری عملی بات اور مکالمہ کا پہلا اصول حکمت اور تہذیب سے مخاطب ہونا ہے. سورہ النحل میں ارشاد ہوتا ہے

 لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔ جو اس کے رستے سے بھٹک گیا تمہارا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے اور جو رستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے (سورہ النحل ١٢٥)

اب تو حال یہ ہے کہ جب تک مناظرہ میں متکلم کے منہ سے جھاگ نہ نکل رہا ہو تب تک وہ مناظرہ لگتا ہی نہیں ہے
مکالمہ کی بنیاد اور ابتدا مشترک عقائد اور باتوں سے کیجیئے
سورہ آل عمران میں بیان ہوا

کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے

جب یکساں باتوں پر گفتگو کرلیں گے تو اختلافی باتیں یا تو ختم ہو جائیں گی یا برداشت پیدا ہو جائے گی. پھر ایک دوسرے کی بات کو سمجھنا اور قبول کرنا کہیں آسان ہوگا

چوتھی بات اسی آیت کے دوسرے حصے میں بیان ہوئی اور وہ کہ ہمیشہ گفتگو میں ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے

 کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرماں بردار ہیں سورہ آل عمران
3:64
ایک شخص خدا کو نہیں مانتا اور آپ اسے حضرت عائشہ رض کی عمر سمجھا رہے ہیں یا یہ بتا رہے ہیں کہ قران میں ڈائنو سار کیوں ذکر نہیں ہوئے
یہ کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوگا

پانچویں بات یہ کہ اپنی بات دلیل سے کرنی ہےاور مخاطب سے بھی دلیل ہی کا تقاضا کرنا ہے

 یہ تو محض نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے ان کو دے رکھے ہیں۔ اللہ نے ان کی تائید میں کوئی غالب دلیل نہیں اُتاری۔ وہ محض ظن کی پیروی کررہے ہیں اور اُس کی جو نفس چاہتے ہیں۔ جبکہ اُن کے ربّ کی طرف سے یقیناً اُن کے پاس ہدایت آچکی ہے۔ (سورہ النجم ٢٤)

دین کے معاملے میں دلیل کا مطلب نصوص سے گفتگو کرنا ہے، جیسے سورہ القصص میں ارشاد ہوا

 کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم خدا کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو ان دونوں (کتابوں) سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو۔ تاکہ میں بھی اسی کی پیروی کروں (سورہ القصص ٤٩)

اگر کوئی شخص جذبات سے مغلوب جاہل ہے اور بدتمیزی سے بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتا بلکہ صرف جیتنا چاہتا ہے تو اس سے بحث ڈر بحث نہیں کرنی بلکہ اسے سلامتی کی دعا دے کر جدا ہوجانا ہے

 اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں (سورہ الفرقان ٦٣)

ساتویں اور آخری اہم ترین بات یہ کہ دعوت محبت کے بنا نہیں دی جاسکتی. لازمی ہے کہ آپ اپنے مختبین کیلئے دل میں محبت محسوس کریں اور ان کی فلاح کیلئے دل سے دعا گو ہوں

"اللہ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ۔سو آپ ان سے در گزر کریں اور ان کے لیے استغفار کریں ۔ "(سورہ ِ آل ِ عمران ، آیت نمبر 159)

٠ امت کیلئے رونا
"پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے ۔"(سورۃ الکہف ، آیت نمبر 6)

طالبعلمی کے دور میں ایک شعر پڑھا کرتے تھے. آج پھر یاد  آرہا ہے

چشم ساقی کی عنایات پر پابندی ہے
ان دنوں وقت پر حالات پر پابندی ہے

ہر محفل میں ہر چیز پر ہر بات پر پابندی ہے
باطل پر اطلاق حق آفات پر پابندی ہے

اور اتنی دیر میں جو دل کا حال بول دیا
یہ گھڑی کہہ رہی ہے اوقات کی پابندی ہے

میری گفتگو کا وقت تجاورز کرگیا. اجازت لیتا ہوں اس دعا کے ساتھ کہ جو حق کہا ہو وہ آپ کے کردار میں راسخ ہو جائے اور جو غلطی کی ہو وہ آپ کی یادداشت سے محو ہوجائے. اور یہ بھی کہ الله آپ کو خیر عطا فرمائیں اور ہمیشہ آپ کی ذات سے خیر کا صدور فرمائیں. آمین

وآخر دعوانا الحمدللہ رب العالمین

===================

٠ تورات یا انجیل یا کوئی اور دلیل

اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو اس کی دلیل پیش کرو (111:2)

٠ نصوص سے گفتگو ہو

کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم خدا کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو ان دونوں (کتابوں) سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو۔ تاکہ میں بھی اسی کی پیروی کروں (سورہ القصص ٤٩)

٠ظن کی پیروی نہ کرو

یہ تو محض نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے ان کو دے رکھے ہیں۔ اللہ نے ان کی تائید میں کوئی غالب دلیل نہیں اُتاری۔ وہ محض ظن کی پیروی کررہے ہیں اور اُس کی جو نفس چاہتے ہیں۔ جبکہ اُن کے ربّ کی طرف سے یقیناً اُن کے پاس ہدایت آچکی ہے۔ (سورہ النجم ٢٤)

٠ داروغہ نہ بنو بات پہنچاؤ ہدایت صرف اللہ کے ہاتھ میں

آپ(ص) کے ذمہ صرف پیغام پہنچانا ھے اورحساب لینا ھماری ذمہ داری ھے" (الرعد#۴۰)
تمہارا پروردگار تم سے خوب واقف ہے۔ اگر چاہے تو تم پر رحم کرے یا اگر چاہے تو تمہیں عذاب دے۔ اور ہم نے تم کو ان پر داروغہ (بنا کر) نہیں بھیجا (الاسراء ٥٤)

٠ دو مسلمانوں میں صلح کرواؤ

اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے۔ پس جب وہ رجوع لائے تو وہ دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو۔ کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے. مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے (سورہ  الحجرات ٩ -١٠)

٠ نہی عن المنکر (کسی کو چھیڑو نہیں اپنی چھوڑو نہیں)

تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکہتے ہو .. (سورہ آل عمران ١١٠)

٠ جو ہم دونوں میں مشترک ہے

کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے .. سورہ آل عمران ٦٤ 3:64

٠ ترتیب میں گفتگو پہلے وجود خدا

کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرماں بردار ہیں سورہ آل عمران 3:64

٠ ان کے نقلی خداؤں کو برا بھلا نہ کہو

اور خبردار تم لوگ انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے ہم نے اسی طرح ہر قوم کے لئے اس کے عمل کو آراستہ کردیا ہے اس کے بعد سب کی بازگشت پروردگار ہی کی بارگاہ میں ہے اور وہی سب کو ان کے اعمال کے بارے میں باخبر کرے گا (سورہ الانعام ١٠٨)

٠ جو کہتے ہو کرتے نہیں

اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو. اللہ کے نزدیک بہت سخت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے (سورہ الصف ٢ -٣)

٠ احسن انداز میں گفتگو کرو اُدعُ الیٰ سبیل ربک بالحکمہ

 لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔ جو اس کے رستے سے بھٹک گیا تمہارا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے اور جو رستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے (سورہ النحل ١٢٥)

٠. جاہل کو سلام

اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں (سورہ الفرقان ٦٣)

٠ اس محفل میں نہ بیٹھو جہاں مذاق اڑایا جائے

اور خدا نے تم (مومنوں) پر اپنی کتاب میں (یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم (کہیں) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہورہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں (نہ) کرنے لگیں۔ ان کے پاس مت بیٹھو۔ ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہوجاؤ گے۔ کچھ شک نہیں کہ خدا منافقوں اور کافروں سب کو دوزخ میں اکھٹا کرنے والا ہے (سورہ النساء ١٤٠)

٠ محبت سے دعوت

"اللہ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ۔سو آپ ان سے در گزر کریں اور ان کے لیے استغفار کریں ۔ "(سورہ ِ آل ِ عمران ، آیت نمبر 159)

٠ امت کیلئے رونا

"پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے ۔"(سورۃ الکہف ، آیت نمبر 6)

No comments:

Post a Comment