Monday, 23 April 2018

معتزلہ اور ہم



معتزلہ اور ہم 

.
معتزلہ تاریخ اسلامی کا وہ گروہ ہے جو آج مسلمانوں میں عموماً اچھی شہرت کا حامل نہیں سمجھا جاتا. مگر ذرا دقت نظر سے دیکھیئے تو ہمیں ان کی قدر محسوس ہونے لگتی ہے. سوچیئے اگر معتزلہ اتنے ہی برے تھے تو انہیں کیسے عالم اسلام میں ایک عرصے تک مقبولیت حاصل رہی؟ کیسے خلیفہ مامون کی خلافت میں انہیں سرکاری فکر کا درجہ حاصل ہوگیا؟ آخر کوئی تو وجہ رہی ہوگی؟ یہ تو ان کے مخالف بھی مانتے ہیں کہ وہ کوئی یہودی ایجنٹ نہیں تھے. ان کی فکر میں خامیاں چاہے جتنی ہوں مگر ان کی نیک نیتی پر شک کرنا درست نہیں. ہوا کچھ یوں کہ خلافت کے غیرمعمولی پھیلاؤ کے سبب جب سادہ مزاج عربوں کا سامنا ایران اور رومن تہذیبوں سے ہوا تو وہ وہ سوال اٹھائے جانے لگے جو پہلے کبھی پیدا ہی نہ ہوئے تھے. فلسفہ جبر و قدر، مسئلہ نقل و عقل، صفات خداوندی عین ذات ہیں یا نہیں، عالم امثال، کائنات محدود یا لامحدود، خدا محدود یا لامحدود، موجود شر میں خدائی انصاف اور اسی طرح دیگر سوالات مسلم اذہان کو متاثر کرنے لگے. محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت کے مذہبی علماء ان متفرق فلسفوں کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دے سکے. نئی مسلمان نسل میں ایک اچھی خاصی تعداد ان گریک اور رومن فلسفوں سے اس درجے متاثر ہوئی کہ مذہب سے ہی بدظن ہوگئے. کچھ نے الحاد میں پناہ ڈھونڈھی تو کچھ عیسائیت کی موشگافیوں سے زیر ہونے لگے. 
.
ایسے میں ضرورت تھی کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں جو عقلی و علمی سطح پر ان جدید فلسفوں کا جواب دے سکیں. لہٰذا مسلمانوں میں سے کچھ فلاسفہ پیدا ہوئے جنہوں نے یونانی فلسفے کے زیر اثر اسلام کی جدید تفسیر کی مگر ان کے اذہان پر فلسفہ اس درجے حاوی تھا کہ اس کاوش میں وہ دین کے کئی قطعی احکامات و آیات کا انکار کر بیٹھے. پھر اسی مقصد کو لے کر دوسری صدی حجرہ میں ایک نیا گروہ سامنے آیا جنہیں تاریخ میں 'معتزلہ' کے نام سے جانا جاتا ہے. یہیں سے علم الکلام کا باقاعدہ آغاز ہوا. معتزلہ سے منسلک متکلمین نے خارج سے آئے جدید فلسفوں کو ان ہی کی زبان اور میزان پر موثر جواب دینا شروع کیا. معتزلہ نے نہ صرف غیرمسلم فلسفے کا موثر ترین جواب دیا بلکہ ان سیاسی سوالات کے بھی جواب دیئے جو اس وقت عوام کی دل کی آواز تھے. معتزلہ کی اسی 'ریشنلسٹ اپروچ' نے انہیں مسلمانوں میں تیزی سے مقبولیت عطا کی. ہمیں بھی ان کا معترف ہوتے ہوئے ماننا چاہیئے کہ یہ ایک وقت کی ضرورت اور بڑی خدمت تھی جو اس گروہ نے انجام دی. المیہ یہ ہوا کہ وہ بھی مقابل کو ان ہی کی میزان پر جواب دیتے دیتے ایسا بہے کہ قران و سنت کو کسوٹی رکھنے کی بجائے ان ہی فلسفیانہ اصولوں پر اپنی تحقیق کی بنیاد بھی اٹھانے لگے. گویا ان کی نیت خالص تھی، ان کا طرز استدلال عمدہ تھا، ان کا غیر اسلامی فسلفوں کے مقابل دفاع قابل تعریف تھا مگر ان کا اکثر معاملات میں عقل کو نقل پر حکم بنانا انہیں اعتدال سے ہٹا گیا. چنانچہ اشعری اور ماتریدی فکر سے وابستہ علماء نے ان پر علمی تنقید کی اور بلاخر غلبہ پایا. انہیں آج جماعت اہل السنہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. 
.
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ معتزلہ نے اسلام کو اسوقت درپیش چیلنجز کا موثر جواب دے کر ایک خدمت انجام دی تھی. مگر وہ اپنی خامیاں دیکھنے سے قاصر رہے. یہاں تک کہ روایتی فکر نے ان پر دوبارہ غلبہ پایا. گو یہ روایتی فکر بھی اس علمی ارتقاء سے لاشعوری طور پر فیضیاب ہوئی اور دین کی بہتر سمجھ تک پہنچ سکی. آج بھی اسلام کو فکری سطح پر نیا معرکہ اور جدید چیلنجز درپیش ہیں. الحاد سمیت دیگر مغربی فلسفوں نے مسلم نوجوان اذہان کو ہلا رکھا ہے. ہمارا روایتی مذہبی طبقہ نہ اس کا کوئی موثر جواب دے پا رہا ہے اور نہ ہی جدید ذہن کو مخاطب کر سکا ہے. فرقہ پرستی، اکابر پرستی اور علمی جمود نے دین کے سادہ احکامات کو بھی مشکل بنا دیا ہے. دین میں موجود مختلف رخصتوں سے عوام کو لاعلم رکھا جاتا ہے اور نوافل و سنتوں کو فضائل کے بیان سے فرض جیسا بنا کر پیش کیا جاتا ہے. یہ اور اس جیسے کئی عوامل نئی نسل کو روایتی مذہبی سمجھ سے دور لے گئے ہیں. ایسے میں ایک بار پھر مسلمانوں میں سے وہ گروہ برآمد ہو رہے ہیں جنکی کوشش ہے کہ وہ ان مغربی فلسفوں کا موثر جواب دے سکیں اور دینی سمجھ میں موجود خامیوں کو دور کریں. ان گروہوں میں سابقہ مسلم فلاسفہ کی طرح کے افراد بھی ہے جو دین کے قطعی احکامات کی بھی جداگانہ تشریح پیش کرہے ہیں. یہ گروہ کبھی بھی قبول عام تک نہیں پہنچ سکتے بلکہ اپنی موت آپ مر جائیں گے. ان ہی گروہوں میں سے معتزلہ کی طرح سے 'ریشنلسٹ اپروچ' والے بھی برآمد ہوئے ہیں جو مغربی فلسفوں کا موثر جواب تو دے رہے ہیں اور اسکے نتیجے میں جدید نسل میں تو مقبولیت پارہے ہیں مگر اس وقت اپنی خامیاں دیکھنے سے قاصر ہیں. ہمارے نزدیک یہ 'موڈرنیسٹ' مخلص ہیں، علم دوست ہیں اور اخلاص دل سے دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں. مگر بہرحال ان کی فکر میں اصولی سقم موجود ہے. جس کا ادراک ممکن ہے کئی دہائیوں کے بعد ہو. ہم مسلمانوں کو چاہیئے کہ ایک دوسرے کو اسلام دشمن نہ سمجھیں بلکہ اس کشمکش کو علمی ارتقاء کی کڑیاں سمجھیں. ہمارا احساس ہے کہ کل پھر روایتی فکر ہی غالب ہوگی مگر اس علمی و فکری ٹکراؤ سے بہت کچھ سیکھ کر اور شائد کافی کچھ اپنا کر. 
.
====عظیم نامہ====

منظور پشتین اور سوشل میڈیا


منظور پشتین اور سوشل میڈیا 



.
جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے سنتا آرہا ہوں کہ 'وطن عزیز تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا ہے'. آج بھی دوست یار پوچھتے ہیں کہ پاکستان کیسے چلے گا؟ اب انہیں کیا بتاؤں کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ پاکستان کیسے چلے گا؟ مجھے تو یہ فکر ہے کہ پاکستان کہیں ایسے ہی نہ چلتا رہے. آج پھر منظور پشتین اور ان کی پختون تحفظ مومنٹ کا معاملہ درپیش ہے اور آج ایک بار پھر ملک تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا ہے. ایک جانب بھائی عاصم اللہ بخش جیسے عالی دماغ دوست ہیں جو اس تحریک کے پیچھے بین الاقوامی سازش کی نوید دے رہے ہیں تو دوسری طرف بھائی فرنود عالم جیسے صاحبان دانش ہیں جو اس تحریک کو صبر کا لاوا پھٹنے سے تعبیر کرکے جواز دے رہے ہیں. ہمارے نزدیک تو 'مظلوم کی داد رسی' اور 'ملکی سالمیت' دو ایسے سنجیدہ معاملے ہیں جن پر کسی قسم کا اختلاف ہونا ہی نہیں چاہیئے. اگر ہم بس اتنا کرلیں کہ فریقین میں سے کسی بھی ایک سے خود کو جوڑنے کی بجائے جس کی جتنی بات درست ہو اتنی تائید کریں اور جس کی جتنی بات غلط ہو اتنی تنقید. اگر ایسا ہو تو کوئی مشکل نہیں کہ ہم اس سوشل میڈیا سے عوامی موقف کو ارباب اختیار کے سامنے بھرپور طور پر پیش کرسکیں. 
.
منظور پشتین کی جانب سے پیش کردہ مطالبے یعنی لاپتہ افراد سے لے کر لینڈ مائننگ ہٹانے تک فی الواقع درست نظر آتے ہیں. لہٰذا یہ سوشل میڈیا پر ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ارباب اختیار، سیاستدان اور فوج سب پر بھرپور زور ڈالیں کہ وہ اس ظلم کا مداوا کریں اور آئندہ ایسی کسی زیادتی کو نہ ہونے دیں. لیکن ساتھ ہی لسانیت پر مبنی کسی بھی نفرت انگیز جملے، تقریر یا مہم کی بھی اسی شدت سے مذمت کریں. یہ اپروچ درست نہیں کہ آپ کسی ایک فریق سے وابستہ ہو کر اس کے سیاہ کو بھی سفید کہنے لگیں اور سامنے والے کو مقابل بنا کر اسکے سفید کو بھی سیاہ قرار دے دیں. ہمیں اپنے پشتون بھائیوں کو یہ بتانا ہوگا کہ ان کے ہر جائز مطالبے میں ہر پاکستانی بناء تفریق انکے ساتھ کھڑا ہے. ہمیں انہیں سمجھانا ہوگا کہ پاکستان کی شان آپ سے ہے مگر آپ کی پہچان بھی اس پاکستان سے ہے. آپ تحریک ضرور چلائیں، احتجاج ضرور کریں، دھرنے ضرور دیں مگر نفرت انگیز جملے کہہ کر ملک دشمنی کو فروغ نہ دیجیئے کہ ایسا کرنا لامحالہ پاکستان دشمن قوتوں کو سنہری موقع فراہم کرنا ہے. 
.
====عظیم نامہ====

اخلاقیات کا نوحہ


اخلاقیات کا نوحہ



فلسفے کی دنیا میں ایک سوچ یہ بھی فروغ پائی کہ ہم سب اس وقت خواب دیکھ رہے ہیں اور حقیقت نام کی کوئی شے وجود نہیں رکھتی۔ لہذا اس فلسفیانہ سوچ کے حاملین نے ہر اچھا برا کام یہی کہہ کر بناء تامل انجام دیا کہ یہ سب خواب ہی تو ہے۔ 
۔
ہندوستان کے "آگھوری" قبائل نے ایک فلسفہ و عقیدہ یہ تراشا کہ یہ نجس اور پاک کی کوئی تفریق نہیں۔ کائنات کی ہر چیز اپنی اصل میں پاک ہے۔ اس خودساختہ عقیدے کو اپنا کر انہوں نے اپنی انسانی غلاظت کھانے پینے سمیت ہر گندگی کو تناول کرنا اپنے لیئے معمول کرلیا۔ لہذا یہ گلے سڑے انسانی مردے کھانے سمیت گٹر میں پڑی ہر شے کھایا کرتے ہیں۔
۔
مہذب دنیا کے کچھ فلسفیانہ اذہان نے یہ فکر اپنائی کہ انسان بھی کسی دوسرے جانور کی طرح ایک جانور ہی ہے جس نے خود پر بلاوجہ پابندیاں عائد کرلی ہیں۔ لہذا اس گروہ نے کپڑے پہننے یعنی جسم ڈھانپنے کو خود ساختہ پابندی سمجھ کر ترک کردیا۔ آج اسی فلسفے کے تحت دنیا بھر میں "نیوڈ بیچز" ہیں جہاں مرد و زن کا ننگ دھڑنگ رہنا شرط ہے۔ اسی گروہ نے جنسی تعلق میں سگے رشتے نہ ہونے کی شرط کو بھی ایک اختراع مانا۔ چنانچہ کسی دوسرے جانور کی مانند ماں نے بیٹے کے ساتھ اور بھائی نے بہن کیساتھ جنسی تعلق قائم کرلیا۔ اسے دنیا بھر میں "انسیسٹ ریلیشن شپ" کہا جاتا ہے۔ جو اس حد تک نہ جاسکے انہوں نے ہم جنسی یعنی "ھومو سیکشوئلٹی" کو عین فطری مان کر اپنا لیا اور باقاعدہ شادی کرنے کو غیر ضروری قرار دیا۔
۔
یہ اور اسطرح کے متعدد فلسفے جو اخلاقیات کا نوحہ پڑھتے ہیں تاریخ انسانی میں بدلتے خیالات کے ساتھ اپنائے جاتے رہے ہیں۔ یہ اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ اگر انسانی ذہن کو وحی الہی کا پابند نہ کیا جاتا یا نہ کیا جائے تو وہ عقل و فطرت کے نام پر کیا کیا گل کھلائے گا۔ ہماری فطرت کے حقیقی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر خالق کی جانب سے جو الہامی ہدایات و پابندیاں ہمیں عطا ہوئی ہیں وہ پوری نوع انسانی کیلئے ایک عظیم نعمت ہے۔ اسی طرح دیگر معاملات میں بھی جہاں جہاں انسانی فہم کے ٹھوکر کھانے کا امکان تھا وہاں وہاں بذریعہ وحی حدود کا تعین کردیا گیا۔ جیسے انسان نے طعام کیلئے کبھی تو یہ انتہا اپنائی کہ درندے کھانے اور خون پینے کو بھی جائز سمجھا تو کبھی دوسری انتہا اپنائی کہ گوشت کو مطلق ناجائز مان لیا۔ جنسی تعلق میں کبھی ایسا آزاد ہوا کہ جو سامنے آئی اسے رسوا کردیا اور کبھی رہبانیت اختیار کرکے ایسا پاکباز بننا چاہا کہ شادی کرنا بھی جرم سمجھا۔ جرائم کی سزا پر بات آئی تو کبھی ایسا بے رحم ہوا کہ مجرم کو سر سے پاوں تک آرے سے کاٹ ڈالا اور زندہ انسان کی کھال اتار لی۔ پھر آج ایسارحمدل ہونا چاہتا ہے کہ قاتل کو بھی نفسیاتی مریض اور حالات کا مارا سمجھ کر سزا دینے گریز کرتا ہے۔ ان سب معاملات میں وحی الہی نے حد فاصل کھینچ کر ایک ایسا اعتدال قائم کردیا ہے جو انتہا پسندی سے دور ہے۔ الحمدللہ۔
۔
====عظیم نامہ====

مفتی تقی عثمانی صاحب کے بیان کا خلاصہ



مفتی تقی عثمانی صاحب کے بیان کا خلاصہ


۔
کل 'سو ایس یونیورسٹی آف لندن' میں ایک پروقار علمی نشست کا اہتمام ہوا جو اپنی حقیقت میں دو انگریزی کتابوں کی تقریب رونمائی تھی۔ پہلی کتاب اردن کے شہزادے اور پی ایچ ڈی اسکالر "پرنس غازی بن محمد" کی تصنیف تھی جو تدبر قران سے متعلق ہے اور دوسری کتاب "اسلام اینڈ پولیٹکس" (اسلام اور سیاست) "محترم مفتی محمد تقی عثمانی" کی تحریر کردہ تھی جو اسلام کے سیاسی نظام اور اس کے نفاز کی بات کرتی ہے۔ یہ تقریب بہترین نظم کے ساتھ ایک خوبصورت یونیورسٹی کے کشادہ آڈیٹویم میں منعقد ہوئی۔ میرے لئے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ سامعین میں غیر مسلم طالبعلم بھی اچھی تعداد میں موجود تھے۔ ہم نے سب سے پہلے مفتی صاحب کی کتاب خریدی اور پھر بیچ کی ایک نشست پر براجمان ہوگئے۔ پروگرام کا آغاز ہوا اور قدآور علماء اکرام اسٹیج پر رکھی نشستوں پر بیٹھ گئے جن میں مفتی تقی عثمانی صاحب اور پرنس غازی محمد نمایاں تھے۔ ان معزز علماء کا مختصر مگر جامع تعارف دیا گیا اور پھر دونوں کتابوں کی اہمیت و پیغام پر گفتگو کی گئی۔ اردن کے شہزادے پرنس غازی محمد نے اپنی کتاب پر خود روشنی ڈالنے سے یہ کہہ کر عاجزی ظاہر کی کہ وہ استاد محترم مفتی تقی عثمانی صاحب کے سامنے یہ جرات نہیں کرسکتے۔ انہوں نے شاندار الفاظ میں مفتی صاحب کے علمی کارناموں کی مثالیں دے کر بتایا کہ وہ کس قدر غیر معمولی انسان ہیں۔ بلآخر کئی مراحل سے گزر کر مائیک مفتی تقی عثمانی صاحب کی جانب آیا اور انہوں نے بلیغ انداز میں اپنی کتاب کو بیان کیا۔ ہم اس کا مختصر خلاصہ یادداشست سے آپ احباب کیلئے لکھے دیتے ہیں۔
۔
سب سے پہلے انہوں نے بیان کیا کہ آج کس طرح ساری دنیا پر سیکولزم کا غلبہ ہے۔ انہوں نے سیکولرزم کو تھیوروکریسی کا ردعمل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ تھیوروکریسی اپنی اصل میں غلط نہیں مگر اس کی عملی شکل جو دنیا کو دیکھائی گئی وہ غلط تھی۔ عیسائیت سمیت دیگر غیر اسلامی مذاہب میں سیاست کیلئے اسلام کی طرح واضح احکامات نہیں موجود ہیں۔ لہذا ان مذاہب نے خدا کی حکومت یعنی تھیوروکریسی کے نام پر مذہبی رہنماوں کی حکومت قائم کردی۔ جنہوں نے حرام کو حلال بناکر اپنی طاقت قائم رکھنا چاہی۔ اس مسلسل ظلم سے بددل ہوکر مغربی عوام نے تھیوروکریسی کا تختہ الٹا اور سیکولرزم کو مقابل پیش کیا۔ جس کے تحت الہامی ہدایات کا ملکی قوانین سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اسلام اس نظریئے کو مسترد کرتا ہے اور یہ اصول دیتا ہے کہ زمین اللہ کی ہے تو اس پر قانون بھی اللہ ہی کا نافذ ہوگا۔ مسلمانوں میں وہی شخص حکمران ہوسکتا ہے جو اس اصول کو تسلیم کرتا ہو۔ خلافت راشدہ اور اسکے بعد بھی کچھ صالح خلفاء کی ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے کتاب و سنت کا بہترین حکومتی اطلاق کرکے دیکھایا۔ افسوس کہ مسلمانوں میں بھی بہت سے خلیفہ ایسے گزرے جنہوں نے اس نفاز میں ذاتی مفاد کو محبوب رکھا۔ خلیفہ کو خلیفہ کہتے ہی اسلئے ہیں کہ وہ اپنی مرضی نہیں چلاتا بلکہ وہ 'سب آرڈینیٹ'ہوتا ہے 'وائسرائے' ہوتا ہے جو پوری صلاحیت سے خدائی نظم کے نفاز کا قیام کرتا ہے۔ البتہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ آپ اسے خلیفہ کا ہی نام دیں۔ یہ آپ کی مرضی ہے کہ آج کے دور میں آپ اسے ملک کہیں، امیر کہیں یا پریذیڈینٹ۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ مغالطہ ہے کہ خلیفہ ایک ڈکٹیٹر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس خلیفہ قرانی اصول شوری بینھم یعنی مشورے کو اپناتا ہے۔ 
۔
آج کے مسلمانوں نے اس ضمن میں دو مختلف انتہائیں اختیار کی ہیں۔ پہلا گروہ ان ماڈرنسٹ اہل علم کا ہے جو مغربی جمہوریت اور سیکولرزم کے داعی بن بیٹھے ہیں۔ حالانکہ جمہوریت یعنی ڈیموکریسی دراصل عوام کی حاکمیت کا نام ہے جو اس اصول کی نفی ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہوگی۔ اسلام میں قانون سازی کیلئے یا خلیفہ منتخب کرنے کیلئے صرف ووٹوں کا زیادہ ہونا کافی نہیں ہیں بلکہ ساتھ ہی کئی اور شرائط ہیں جن کا اس شخص میں موجود ہونا لازم ہے جو خلیفہ بنایا جائے گا۔ مسلمانوں میں دوسری انتہا ان گروہوں نے اپنائی ہے جو فقط خلافت ہی کے قیام و کوشش کو دین کا واحد مقصد سمجھ بیٹھے ہیں۔ حالانکہ جس طرح تجارت کے قوانین و ہدایات اسلام کا حصہ ہیں ویسے ہی حکومت چلانے کے قوانین و احکامات بھی اسلام میں شامل ہیں۔ کسی ایک حصے کو پورا مدعا بنالینا درست نہیں۔ اس گروہ میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو اسی غلو کے تحت حج کو بھی عبادت کی بجائے ایک انٹرنیشنل میٹنگ برائے خلافت کہتے ہیں۔ ان سے پوچھو کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے بہت سے انبیاء خلافت نہیں قائم کرپائے تو کیا وہ ناکام رہے؟ جواب میں وہ معازاللہ کہتے ہیں کہ وہ دین کے بنیادی مقصد کو قائم کرنے میں ناکام ہوئے۔ یہ دوسری انتہا ہے۔ انہوں نے سیاست کو اسلامی کرنے کی چاہ میں اسلام کو سیاسی بناڈالا۔ حدیث کے مطابق کوئی مسلمان خلیفہ بننے کی تگ و دو نہیں کرتا یا اسکی لالچ نہیں رکھتا جیسا کہ آج اسکے برعکس سیاسی رہنماء کرسی کیلئے تحریکیں چلاتے ہیں۔ دور خلافت میں کچھ اہل دانش کا انتخاب ہوا کرتا تھا جو مل کر کسی اہل شخص کو حکومتی مظم کیلئے بطور خلیفہ نامزد یا مقرر کرتے تھے۔ آج کے دور میں ایسی مجلس کا قیام ممکن نہیں رہا۔ اپنی اس کتاب میں مفتی عثمانی صاحب نے اس کا حل پیش کیا ہے جو اسوقت راقم کے علم میں نہیں۔ 
۔
انہوں نے خلافت سے متعلق غلط فہمیوں کا بھی جواب دیا جیسے انہوں نے ثابت کیا کہ خلافت میں غیر مسلم کو برابر کے شہری حقوق حاصل ہوتے ہیں ۔ جزیہ ایک ٹیکس ہے جو غیر مسلم دیتے ہیں۔ اس کے مقابل زکات ہے جو صرف مسلم ادا کرتے ہیں۔ جزیہ کی شرح ہمیشہ زکات سے کم رکھی گئی ہے۔ لہذا جزیہ کو ظلم سمجھنا بلکل غلط ہے۔ آج خلافت کے قیام پر آپ جزیہ کا کوئی اور نام رکھ سکتے ہیں۔ اسمیں کوئی مسئلہ نہیں۔ اسی طرح یہ بھی غلط فہمی ہے کہ خلافت غیر مسلم ممالک سے حالت جنگ میں رہتی ہے۔ انہوں نے مثالیں دے دے کر یہ واضح کیا کہ کس طرح خلافت دیگر ممالک سے عمومی طور پر امن معائدہ کرکے رکھتی ہے۔ نشست کی طوالت کے سبب سوال و جواب کا سیشن منسوخ کرنا پڑا اور یوں یہ بہترین محفل اپنے اختتام پر پہنچی۔ مغرب کی امامت تقی عثمانی صاحب نے کی بعد از نماز اچانک عوام میں ایک مانوس چہرہ نظر آیا۔ وہ استاد نعمان علی خان تھے جو بالخصوص مفتی صاحب کا بیان سننے آئے تھے۔ میں ان تک پہنچا اور کچھ دیر ہلکی پھلکی گفتگو کی۔ ان کا شکریہ ادا کیا کہ فہم قران میں ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ الحمدللہ۔
۔
(نوٹ: تحریر راقم کی اپنی سمجھ اور یادداشت پر مبنی ہے۔ لہذا اس میں کمی بیشی کا امکان ہے۔ درست تفصیل قاری اس پروگرام کی ریکارڈنگ سن کر کرسکتا ہے جو باآاسانی دستیاب ہے)
۔
====عظیم نامہ====

تو میرا بھائی نہیں ہے


تو میرا بھائی نہیں ہے؟


۔
ہمارے گھر کے پاس کئی حجام کی دکانیں موجود ہیں مگر ہم ہمیشہ ایک مخصوص حجام کی دکان پر ہی جایا کرتے ہیں جہاں دو عراقی حجام بال تراشنے میں بہت ماہر ہیں۔ مجال ہے کہ گاہک کو کبھی شکایت ہو۔ کچھ ماہ قبل ہم حسب معمول دکان پہنچے تو دیکھا کہ ایک نئے عراقی بھائی نے بطور حجام اسی دکان میں کام شروع کیا ہے مگر کوئی بھی گاہک اس سے بال کٹوانے کو رضامند نہیں۔ اس کا خوفزدہ چہرہ اور بوکھلاہٹ ہمیں بھی اس سے دور رہنے کا عندیہ دے رہے تھے۔ ہماری باری آئی تو اس نے نہایت بیچارگی سے ہمیں دیکھا، جیسے ہمیں بلاتے ہوئے کہہ رہا ہو 'تو میرا بھائی نہیں ہے؟' ہمارے دل نے اس کی دل آزاری گوارہ نہ کی اور خوشی خوشی خود کو اسکے غیر محفوظ ہاتھوں میں سونپ دیا۔ اس نے دگنا وقت لیکر بہت احتیاط سے بال تراشے مگر نتیجہ حسب توقع نکلا ۔۔۔ بال خراب ہوگئے۔ ہم نے صرف شکریہ ادا کیا اور باہر آگئے۔ 
۔
اسکے بعد پچھلے کئی ماہ سے جب بھی دکان پہنچتا تو یہی منظر ہوتا اور اسی طرح ہم خود کو اس نیم حجام کے حوالے کرکے تختہ مشق بن جاتے۔ لہذا واپسی پر کبھی یوں لگتا کہ جیسے بال تراشے ہی نہ ہوں اور کبھی اپنا سر بلکل ابلا ہوا آلو محسوس ہوتا۔ کبھی ایک جانب سے بال زیادہ کٹے ہوئے نظر آتے تو کبھی لمبائی کا تناسب ہی موجود نہ رہتا۔ کل ہم پھر اپنی 'حجامت' کروانے اسی مرد مومن کے پاس جاپہنچے۔ اس بار جو اس نے قینچی اٹھائی تو بے اختیار ہم نے نظروں نظروں میں اس سے التجا کی ۔۔۔ 'تو میرا بھائی نہیں ہے؟' ۔۔۔ اس نے پراعتماد مسکراہٹ سے دیکھا اور پھر ہمارے بالوں پر ہتھیاروں سے لیس ٹوٹ پڑا۔ خبر یہ ہے کہ اس بار اس نے بال کسی ماہر حجام کی طرح بہترین تراشے ہیں۔ لگتا ہے مجھ پر یا مجھ جیسو پر ہاتھ صاف کرکرکے بھائی کو مہارت حاصل ہوگئی ہے۔ آج آئینہ دیکھ کر سمجھ نہیں آرہا کہ خوشی سے بھنگڑا کروں یا شکرانے کے نوافل ادا کروں۔
۔
====عظیم نامہ====

عیاشی کی زندگی



عیاشی کی زندگی 


.
ہم میں سے ہر ایک انسان عیش و عشرت کی زندگی گزارنا چاہتا ہے اور ایسی عیاشی کا متمنی ہے جہاں اسے ہر من چاہی شے حاصل ہو. کسی بھی ملک، قوم، نسل یا عقیدے سے منسلک شخص سے پوچھیئے کہ ایک لمحے کیلئے حلال وحرام کی تفریق بھلا کر سچائی سے یہ بتائے کہ عیش و عشرت والی زندگی سے اسکی کیا مراد ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ عموماً تھوڑے بہت ذوق کے فرق سے ایک جیسی فہرست مرتب ہوتی نظر آئے گی. جیسے انسان عیش و عشرت کیلئے یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس محل جیسا گھر ہو. یہ محل یا بنگلہ کسی جزیرے یا باغ جیسے پرسبز مقام پر قائم ہو. اسکی یہ پراپرٹی 'واٹر فرنٹ' ہو یعنی گھر کے سامنے کوئی خوبصورت جھرنا یا ندی بہتی نظر آتی ہو. اس کے پہننے کو برانڈڈ گوچی یا ارمانی جیسے قیمتی لباس ہوں، مہنگی ترین خوشبوئیں ہوں، کھانے کو بوفے کی مانند ان گنت لذیذ پکوان ہوں، خدمت کرنے کیلئے مستعد نوکروں کی ایک قطار ہو، برق رفتار سواریاں ہوں، خوبصورت پالتو جانور ہوں، بہترین سوشل لائف ہو، بھرپور جوانی اور صحت حاصل ہو وغیرہ. اگر کسی بھی شریف خاتون سے پوچھیں تو ممکن ہے کہ وہ کسی ایسے کے ساتھ کی بھی تمنا کرے جو خوابوں کے شہزادے جیسا یا فلمی ہیرو جیسا ہینڈسم ہو. کسی ایسے پارٹنر یا جیون ساتھی کا ساتھ ہی عورت کے نزدیک عیاشی ہے. اسکے لئے دس بیس مردوں کے نرغے میں رہنا عیاشی نہیں بلکہ ہولناک تصور ہے. اس کے برعکس کسی شریف مرد سے "اکیلے" میں پوچھیں گے تو بہت امکان ہے کہ وہ تمام تر شرافت کے باوجود بھی بہت سی عورتوں کا ساتھ چاہے کیونکہ اس کے نزدیک عیاشی حسینوں کے جھرمٹ میں رہنا ہے. دھیان رہے کہ یہاں عموم کی بات ہو رہی ہے، استثنات ہمیشہ ہوا کرتی ہیں اور ان کے لئے گفتگو بھی استثنیٰ کے طور پر ہی کی جاتی ہے. 
.
یہ ایک مختصر سا خاکہ ہے جو حضرت انسان ایک عیاشی بھری زندگی کے بارے میں کھینچ سکتا ہے. دین نے اسی انسانی نفسیات کو مدنظر رکھ کر جنت کی زندگی کے بیان میں ان تمام کا بھرپور نقشہ کھینچ دیا ہے. دین میں بنیادی طور پر تو جنت کیلئے ایک اصولی بات بیان کردی گئی ہے جس کے مطابق جنت وہ جگہ و انعام ہے جس کی شان ہمارے ادراک کی حدوں سے بھی بہت آگے ہے. اسی حقیقت کو صحیح مسلم و بخاری کی متفق عليه ایک حدیث قدسی میں کچھ یوں بیان کیا گیا کہ "میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ کچھ (جنت میں) تیار کر رکھا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے اسکے بارے میں سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا تصور(خیال) آیا۔" اب ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ یہ اصولی بات ہمیں کافی ہو مگر مسئلہ یہ ہے کہ انسانی فطرت اجمال پر راضی نہیں ہوتی اور تفصیل کا تقاضہ کرتی ہے. لہٰذا اسی فطرت کی تشفی کیلئے جنت میں موجود ان نعمتوں کا کچھ بیان کتاب الہی میں کردیا گیا جسے ہم کمتر درجے میں دنیاوی نعمتوں کی تشبیہہ سے سمجھ سکتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ قران حکیم میں اس حوالے سے جنت میں موجود عالیشان گھر، پرتعیش نعمتیں، بہتی نہریں، غلامان، حور، جیون ساتھی، ریشم کے قیمتی لباس، عمدہ پکوان، بھرپور صحت، لازوال جوانی، اقارب کا ساتھ وغیرہ کا بیان سب اسی تشفی کے واسطے ہے. ایک سوال جو اس ضمن میں جھٹ سے پوچھا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ باقی بیشمار نعمتیں تو مرد اور عورت دونوں کو برابر ملتی ہوئی نظر آتی ہیں مگر یہاں ناانصافی لگتی ہے کہ مرد کو تو حوریں ملیں اور عورت کو کچھ بھی نہیں؟ یہ سوال کئی زاویوں سے غلط ہے. سب سے پہلے تو ایک مومن دو سو فیصد اس امر پر ایمان رکھتا ہے کہ اس کا رب ناانصافی نہیں کرتا. روز جزاء میں ہمارے رب کا انصاف ایسا بے مثال ہوگا کہ مجرم تک اپنی زبان اور مرضی سے اس عدل کی گواہی دیں گے. لہٰذا اس کا کوئی امکان نہیں کہ عورت یا مرد سے احقر درجے میں بھی زیادتی ہو. عورت اور مرد کی فطرت اس حوالے سے الگ الگ ہے، اسی حقیقت کا بیان ہم نے تحریر میں اپر یہ بتا کر کیا ہے کہ عورت کیلئے نعمت اپنے خوابوں کے شہزادے کو پانا ہے. جبکہ مرد خوابوں کی ملکہ کو پاکر بھی حسینوں کے جھرمٹ میں رہنے کو حسین خواب تصور کرتا ہے. جنت میں نعمت دونوں جنسوں کی فطرت کو مدنظر رکھ کر عطا ہونگی. بیوی کو دنیا والا شوہر اور شوہر کو دنیا والی بیوی ان تمام خواص و حسن کے ساتھ عطا ہونگے جو انکے دل کی آواز تھے. رب تعالیٰ جنتیوں کے دل میں موجود کسی بھی دنیاوی کدورت و شکایت کو ان کے قلوب سے صاف کردیں گے. لہٰذا یہ سمجھنا قرین قیاس ہے کہ جنتی جوڑوں کے بھی دل ایک دوسرے کیلئے بلکل صاف ہونگے. اب اگر کوئی عورت اس سب کے باوجود بھی عموم سے ہٹ کر تقاضہ کرتی ہے تب بھی بھروسہ رکھیئے کہ جنت وہ مقام ہے جہاں ہر جنتی کے دل کی خواہش اکمل درجے میں پوری ہونگی. یہ حقیقت ساتھ میں ملحوظ رہے کہ قران حکیم کے بیان کے مطابق جنت میں وہی داخل ہوگا جو صاف دل لے کرائے گا یعنی اچھے کردار کا حامل ہوگا. جنتیوں کو بیہودہ باتیں پسند نہ ہونگی. اسی لئے ایک آیت میں بطور نعمت یہ بیان ہوا کہ جنتی جنت میں کوئی بیہودہ بات نہ سنیں گے. گویا یہ کہنا درست ہوگا کہ جنت میں جانے والے کی خواہش پاکیزہ اور طیب ہونگی. اگر کوئی شخص جنت میں ایسی خواہش کے ساتھ داخل ہوبھی گیا جو طیب نہیں بلکہ نجس ہو جیسے ہم جنسی کی خواہش وغیرہ تو ایسے میں اہل علم کے مطابق اس کے قلب سے اس بیماری یا خواہش کو صاف کردیا جائے گا. 
.
یہاں ضمنی طور پر یہ بھی سمجھیئے کہ جن نعمتوں کا ذکر کتاب میں ہوا ہے، وہ صرف عموم کے حوالے سے ہے. کسی پر کوئی نعمت زبردستی تھوپی نہیں جائے گی لہٰذا اگر کوئی شخص دودھ اور شہد سے الرجک ہے تو اسے زبردستی دودھ و شہد کی نہریں نہیں دی جائیں گی. یہی وجہ ہے کہ ہر شخص کی جنتیں الگ الگ ہیں. اسی طرح کوئی شخص اپنی ایک بیوی پر راضی ہے تو اس کے پلے زبردستی ایک سے زائد بیویاں یا حوریں نہیں باندھی جائیں گی. ایسے ہی عین ممکن ہے کہ سائنسی علوم کے شوقین جنتی انسان کو کائناتی حقائق یا خدائی قدرت کا کماحقہ مشاہدہ و تجربہ کروایا جائے یا مطالعہ کے شوقین فرد کو ان مخفی علوم کو جاننے کا مواد دیا جائے جو اسکی پیاس کی سیرابی کا سبب بن سکیں. جنت میں یکسانیت نہیں ہے. سوچیئے جس خالق نے اس عارضی دنیا میں اتنا تنوع و ارتقاء رکھا ہے، وہ خالق اس ہمیشہ رہنے والی دنیا کو کیسے جامد یا بورنگ بنا سکتا ہے؟ وہاں تو اسکی خلاقیت اپنے اس جوہر کیساتھ نمایاں ہوگی جس کا تصور بھی آج محال ہے. اس کا ایک اشارہ ان آیات میں ملتا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ کسی پھل کو جب جنتی کھائے گا تو ہر بار اس میں ذائقے کی نئی بہار پائے گا. اسی طرح اس عارضی دنیا کو مقصدیت سے بھرپور رکھنے والے رب سے یہ امید بھی بجا ہے کہ وہ اس ابدی دنیا کی زندگی کو بھی برتر مقاصد عطا کرے گا. اب وہ مقاصد جنت کے اونچے درجات تک پہنچنے کیلئے ہوں یا کسی اور منزل کے واسطے. یہ وہاں جاکر ہی منکشف ہوگا. آج ہم خیالی دنیا اور حقیقی دنیا میں تفریق کرتے ہیں. ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ابدی کائنات میں یہ تفریق جزوی یا کلی طور پر اٹھا لی جائے گی. جنتی کے خیالات اور اعمال مجسم ہوکر اسکے سامنے ہونگے. پھر چاہے وہ اس کی عبادات ہوں، اذکار ہوں یا جذبات. سب کو ایک پیرہن دے کر اس کے سامنے موجودکیا جائے گا. کئی احادیث اسی جانب اشارہ کرتی ہیں جیسے فلاں فلاں ذکر کرنے سے جنت میں ایک درخت لگا دیا جاتا ہے یا فلاں عمل سے جنت میں ایک محل تعمیر ہوجاتا ہے وغیرہ.
.
قران حکیم میں نیک اعمال کی جانب بلانے کیلئے تین باتوں کا بیان کیا ہے. پہلا محبت الہی، دوسرا جنت کی لازوال نعمتیں اور تیسرا جہنم کی وعید. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں اور اکابر صحابہ کے احوال زندگی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان تینوں محرکات کو مدنظر رکھتے ہوئے تقویٰ اپناتے تھے. عجیب یہ ہے کہ آج وہ شخص جو ایک معمولی مکان لیتے ہوئے بھی بہتر سے بہتر کی کوشش میں جان لڑا دیتا ہے،چاہتا ہے کہ اسکا گھر کشادہ ہوں، فلاں علاقے میں ہو، ہو، کونے کا ہو، پارک یا واٹر فیسنگ ہو وغیرہ. وہ شخص بھی رابعہ بصری رح سے منسوب ایک قول کو سنا کر یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ میں جنت کی یا جنت کے اونچے درجات کی خواہش نہیں رکھتا کہ یہ تو مطلب پرستی ہے اور میرے لئے بس ایک یہی محرک کافی ہے کہ میرا تقویٰ محبت الہی کے سبب ہے. یہ جملہ سننے میں جاذب ضرور ہے مگر یہ کہہ کر دراصل آپ ان تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے جذبے کو کمتر ٹہرا رہے ہوتے ہیں جنہوں نے جنت کی خواہش کو اپنے دل میں مزین رکھا. کسی بزرگ سے ایک شخص نے پوچھا کہ جنت کے بارے میں مجھے کوئی ایسی بات بتایئے جس سے مجھ میں جنت جانے کی مزید خواہش پیدا ہو. بزرگ نے جواب دیا "وہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہونگے" ... اللہ اکبر ... ذرا سوچیئے تو کہ ابراہیم علیہ السلام سے لے کر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تک کی قدم بوسی کا شرف ہمیں جس جگہ حاصل ہوسکتا ہے. وہ مقام جنت ہے. پھر یہ بھی تصور کیجیئے کہ آپ اللہ عزوجل سے مل رہے ہیں. جنت کی سب سے بڑی سب سے اونچی نعمت دیدار الہی ہے، اپنے رب سے ملاقات ہے جو اس جنت کے خوش نصیب باسیوں کو حاصل ہوگی. پھر کیا محرومی اور کسی حماقت ہے کہ کسی بشر کو جنت میں جانے کی تمنا و حسرت محسوس نہ ہو؟ 
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: جنت و جہنم کا حقیقی احوال پردہ غیب میں ہے اور اس کا درست طور پر بیان ممکن نہیں. یہ تحریر فقط ایک ممکنہ زاویہ ہے جو راقم کے چشم تصور سے پھوٹا ہے)

Monday, 12 March 2018

انبیاء سے خلفاء راشدین تک

انبیاء سے خلفاء راشدین تک ..


.
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ کی رحمت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی تربیت کا اثر تھا کہ قرون وسطیٰ کے مردہ شہروں نے زندہ انسان پیدا کئے. گویا انسان کو جہالت کی عمیق گہرائیوں سے نکال کر انسانیت کی معراج پر پہنچا دیا. یہ تربیت یافتہ جماعت یعنی صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ اجمعین ایسے عالی اوصاف کے مالک بنے کہ رہتی دنیا کیلئے مثال قرار پائے. راقم کا دیانتدارانہ احساس یہ ہے کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ پیارے دوست و شاگرد اخلاق و اوصاف میں مختلف انبیاء کا عکس بن گئے تھے. بلخصوص خلفاء راشدین میں یہ پرتو اور بھی گہرا محسوس ہوتا ہے.
.
خلیفہ اول صدیق اکبر یعنی محترم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حیات پر نظر ڈالتا ہوں تو رب العزت کی قسم یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات کو دیکھ رہا ہوں. اگر ایک خلیل اللہ ہیں تو دوسرے خلیل رسول اللہ ہیں. (ﷺ)
.
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسولﷺ بس

.

دونوں صدیقین کے گروہ کا تاج محسوس ہوتے ہیں. دونوں کے اوصاف میں ایمان کی گہرائی، صداقت، توکل وغیرہ ایک ہی جیسی شان کے ساتھ جلوہ گر محسوس ہوتے ہیں. دونوں نے ایمان کو تحقیق و فکر کی گھاٹیوں سے گزر کر حاصل کیا ہے. ایک طرف ابراہیم ہیں جو بتوں کے انکار سے اپنا فکری سفر شروع کرتے ہیں. پھر دیگر فطرت کے مظاہر جیسے سورج، چاند، ستارے وغیرہ میں خدا کو ڈھونڈھتے ہیں اور بلآخر اپنی سلیم العقلی کے سبب یہ جان لیتے ہیں کہ یہ سب خود اپنی اصل میں مخلوق ہیں. خالق سبب نہیں مسبب الاسباب ہے. کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے .. وہی خدا ہے .... دیکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آرہا ہے ... وہی خدا ہے ! .. دوسری جانب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں جو اپنے تدبر و تفکر اور سلیم الفطرت ہونے کے سبب دعوت دین پہنچنے سے پہلے ہی ذہن و قلبی طور پر تیار ہوچکے تھے. چانچہ جب رسول کریم  ﷺ کی دعوت پر لپک کر فوری لبیک کہنے والے پہلے مرد آپ ہی بنے. انسان فکری و عملی طور پر اکثر دو اقسام میں منقسم ہوتے ہیں. پہلی قسم ہے 'انٹرو ورٹ' یعنی خاموش طبع ، نرم مزاج، سوچنے والے اذہان اور دوسری قسم ہے 'ایکسٹرو ورٹ' یعنی عملی میدان میں متحرک اور اپنا موقف عوام تک پورے زور و اعتماد کیساتھ پہنچانے والے اشخاص. ہر انسان ان ہی میں سے کسی ایک قسم کا مزاج رکھتا ہے. گو تھوڑے سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو 'ایمبی ورٹ' یعنی بیک وقت دونوں بڑی اقسام ('انٹرو ورٹ' اور 'ایکسٹرو ورٹ') کے خواص اپنی فطرت میں سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں. حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ دونوں ان ہی چند لوگوں یعنی 'ایمبی ورٹ' میں سے محسوس ہوتے ہیں. یہ دونوں بزرگ جہاں حلیم المزاج اور تنہائی میں تدبر کرنے والے تھے. وہاں حق بات دوٹوک انداز میں عوام تک پہنچانے اور زبردست قائدانہ صلاحیتوں سے بھی مزین تھے. 
.
خلیفہ دوم محترم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ پر طائرانہ نظر ڈالیں تو ممکن ہی نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یاد نہ آجائے. اگر ایک کلیم اللہ ہیں تو دوسرے کی تائید میں کلام اللہ کی آیات موجود ہیں. یہ دونوں بزرگ 'ایکسٹرو ورٹ' یعنی عملی میدان میں انتہائی متحرک اور حکم الہی یعنی شریعت کے اطلاق میں شدید محسوس ہوتے ہیں. حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کی روداد ایک سبق یہ بھی دیتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام شریعت کے اطلاق میں کس قدر شدید تھے. اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ کی حیات میں ایسے ان گنت واقعات نظر آتے ہیں جہاں دور نبوی ﷺ میں اور اپنے دور خلافت میں، آپ نے آگے بڑھ کر شرعی قوانین کے نفاز میں کلیدی کردار ادا کیا. غالباً یہی وجہ رہی کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا. حضرت موسیٰ علیہ السلام قتل خطاء کے نتیجے میں تربیتی مراحل سے گزرتے ہیں اور پھر نبوت سے سرفراز ہوتے ہیں. حضرت عمر رضی اللہ عنہ قتل عمد کی نیت سے نکلتے ہیں اور تربیت پاکر اسلام کی نعمت پاجاتے ہیں. حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ کی جانب بڑھتے ہیں اور اللہ کو خود سے ہم کلام پاتے ہیں. حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیت اللہ میں چھپ کر رسول کریم ﷺ کی دوران نماز تلاوت سنتے ہیں اور اللہ رب العزت کو سورہ الحاقہ میں خود سے ہمکلام پاتے ہیں. جسمانی طور پر اور غصے کے اعتبار سے بھی یہ دونوں بزرگ ایک ہی شخصیت کا سا بیان محسوس ہوتے ہیں.
.
خلیفہ سوم محترم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ میں حضرت ایوب علیہ السلام کی جھلک محسوس ہوتی ہے. صبر و حلم کی وہی پیغمبرانہ شان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں بھی جھلکتی ہے جو صابر و شاکر حضرت ایوب علیہ السلام کا خاصہ تھی. ایک طرف شدید ترین بیماری میں حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کا تمام حلقہ احباب چھوڑ دیتا ہے مگر یہ اللہ کے ولی ذرہ برابر شکوہ نہیں کرتے اور دوسری طرف عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہے جن کے دور خلافت میں ہی ان کے خلاف ایک زبردست محاز برپا کردیا جاتا ہے، الزامات لگائے جاتے ہیں، یہاں تک کے شہید کردیا جاتا ہے مگر یہ اللہ کے ولی صبر و استقامت کا ایسا پہاڑ بنے نظر آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے. بلکہ سچ پوچھیئے تو ان کے حالات خلافت پڑھ کر کبھی ان کی نرمی طبیعت سے شکایت سی ہونے لگتی ہے. مگر وہ ہم جیسے عام انسان کہاں تھے؟ وہ تو سراسر صبر اور سر تا پیر محبت ہی محبت تھے. شائد یہی وجہ تھی جو رسول کریم ﷺ نے پہلے اپنی ایک بیٹی کو آپ کے نکاح میں دیا اور جب ان کا انتقال ہوا تو دوسری بیٹی کو بھی آپ کے نکاح میں دے دیا. اسی وجہ سے آپ کو ذوالنورین یعنی دو نور والا کہا جاتا ہے. نبی پاک ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو یکے بعد دیگرے عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیتا. آپ دونوں بزرگ 'انٹرو ورٹ' یعنی خاموش طبع ، شرمیلے، نرم مزاج، سوچنے والے انسان محسوس ہوتے ہیں.
.
خلیفہ چہارم محترم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی مبارک شخصیت میں جلیل القدر رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت پوری آب و تاب سے چمکتی دمکتی نظر آتی ہے. اگر ایک اللہ کا کلمہ بن کر آئے تو دوسرے رسول اللہ کا کلمہ بن گئے. میرا اشارہ اس حدیث کی جانب ہے جس میں ارشاد ہوا کہ میں ﷺ علم کا شہر ہوں اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہیں. کوئی مانے نہ مانے مگر دونوں بزرگوں کی شخصیت میں ایک روحانی پراسراریت ضرور نظر آتی ہے. جہاں عیسیٰ علیہ السلام اپنے بلیغ کلام اور حکیمانہ وعظ کے سبب مقبول و معروف ہیں. وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکیمانہ اقوال و خطبات آج بھی امت کیلئے عظیم خزانہ ہیں. ان دونوں بزرگوں میں ایک زبردست مماثلت کا بیان مسند احمد کی ایک حدیث میں کچھ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ مزید کچھ کہنے لکھنے کی حاجت نہیں رہتی. 
.
وعن علي رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " فيك مثل من عيسى أبغضته اليهود حتى بهتوا أمه وأحبته النصارى حتى أنزلوه بالمنزلة التي ليست له " . ثم قال : يهلك في رجلان : محب مفرط يقرظني بما ليس في ومبغض يحمله شنآني على أن يبهتني . رواه أحمد
.
اور حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو فرمایا " تم میں عیسیٰ علیہ السلام سے ایک طرح کی مشابہت ہے یہودیوں نے ان (عیسیٰ علیہ السلام ) سے بغض رکھا تو اتنا زیادہ رکھا کہ ان کی ماں (مریم علیہ السلام ) پر بہتان باندھا اور عیسائیوں نے ان سے محبت و وابستگی قائم کی تو اتنی کہ ان کو اس مرتبہ ومقام پر پہنچا دیا جو ان کے لئے ثابت نہیں ہے (یعنی ان کو " اللہ " یا ابن اللہ " قرار دے ڈالا معاذ اللہ) یہ حدیث بیان کرنے کے بعد حضرت علی نے کہا (مجھے یقین ہے کہ اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح میرے بارے میں بھی ) دو شخص یعنی دو گروہ اس طرح ہلاک ہوں گے کہ ان میں سے ایک تو جو مجھ سے محبت رکھنے والا ہوگا اور اس محبت میں حد سے متجاوز ہوگا ، مجھ کو ان خوبیوں اور بڑائیوں کا حامل قرار دے گا جو مجھ میں نہیں ہونگی ، اور ایک جو مجھ سے بغض وعناد رکھنے والا ہوگا ، میری دشمنی سے مغلوب ہو کر مجھ پر بہتان باندھے گا ۔" (احمد)
.
====عظیم نامہ====