Thursday, 16 November 2017

صرف دین کے سنجیدہ طلباء و طالبات کے لئے

 

صرف دین کے سنجیدہ طلباء و طالبات کے لئے  ..


.
اصول الفقہ کی رو سے دین میں درج احکامات، چاہے وہ عملی نوعیت کے ہوں یا ایمان کے حوالے سے. ہم انہیں دو بڑی اقسام میں بانٹ کر دیکھتے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
.
١. قطعی (یعنی وہ احکام جن کے سچ ہونے میں اختلاف و شک کی گنجائش نہیں)
٢. ظنی (یعنی وہ احکام جن کے سچ ہونے نا ہونے میں اختلاف و شک ممکن ہے)
.
پہلی قسم یعنی 'قطعی' کی بھی دو نمایاں شاخیں ہیں.
.
١. قطعی الثبوت (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے ارسال یا منتقلی میں اختلاف و شک کی گنجائش نہیں)
٢. قطعی الدلالہ (یعنی ان کے معنی و مفہوم اتنے عیاں ہیں کہ اختلاف و شک ممکن نہیں)

.
یہ ممکن ہے کہ کوئی حکم یا بات قطعی الثبوت تو ہو مگر قطعی الدلالہ نہ ہو. یا پھر قطعی الدلالہ تو ہو قطعی الثبوت نہ ہو. یا پھر بیک وقت قطعی الدلالہ بھی ہو اور قطعی الثبوت بھی. یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جس حوالے سے بھی وہ حکم یا بات 'قطعی' تسلیم ہوگی، اس حوالے سے اس میں اختلاف و شک نہیں کیا جاسکتا. گویا اگر کوئی شخص قطعی امور میں سے کسی امر کو رد کرتا ہے یا مختلف بات پیش کرتا ہے تو اسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا. اختلاف صرف 'ظنی' امور میں ہی ہوسکتا ہے اور ہوتا آیا ہے.
.
دوسری قسم یعنی 'ظنی' کی بھی دو نمایاں شاخیں ہیں.
.
١. ظنی الثبوت (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ارسال یا منتقلی یقینی نہیں لہٰذا اختلاف و شک کی گنجائش ممکن ہے)
٢. ظنی الدلالہ (یعنی ان کے معنی و مفہوم واضح نہیں لہٰذا مختلف مفہوم اخذ کرنے کی گنجائش ہے)

.
ہمارے سامنے جب کسی محقق کی اختلافی رائے آتی ہے تو ہم قران و سنت سے یہ جانتے ہیں کہ وہ اختلاف 'قطعی امور' سے متعلق ہے یا 'ظنی امور' سے؟ اگر پیش کردہ رائے یا اختلاف 'ظنی امور' میں سے ہے تو ہم اس کا استقبال کرتے ہیں اور علمی طور پر اس کے رد یا قبول کا فیصلہ کرتے ہیں. البتہ اگر یہ اختلاف 'قطعی امور' سے متعلق ہے تو ہم اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں اور اس کا بھرپور علمی رد کرتے ہیں.
.
کوئی بات اسی وقت 'قطعی' تسلیم کی جائے گی جب وہ دو میں سے کسی ایک زریعے سے ہم تک پہنچی ہو.
.
١. قران حکیم
٢. متواتر سنت یا احادیث
.

پہلے ذریعے یعنی قران حکیم کی بات کریں تو تمام تر امت کے نزدیک قران حکیم کی ہر ہر آیت 'قطعی الثبوت' ہے یعنی یقینی طور ہم تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ارسال ہوا ہے. البتہ علماء کی غالب ترین اکثریت کے نزدیک قران حکیم کی تمام آیات 'قطعی الدلالہ' نہیں ہیں. بلکہ کچھ 'ظنی الدلالہ' بھی ہیں. آسان الفاظ میں یہ بات تو یقینی ہے کہ تمام تر آیات جو ہم تک پہنچی ہیں وہ من جانب اللہ ہیں مگر یہ بات حتمی نہیں ہے کہ ہر ہر کا صرف ایک ہی یقینی معنی ہو. یہی وجہ ہے کہ کئی آیات کے معنی و مفہوم میں مفسرین ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں. مثال کے طور پر جنت و جہنم کا قیام اسی زمین پر ہوگا یا پھر وہ آسمانوں میں واقع ہوگی؟ اس میں مفسرین کچھ آیات کی تفسیر کرتے ہوئے اختلاف کرتے ہیں. گو یہ آیات بنیادی ایمانیات یا عبادت کی اصل سے متعلق نہیں ہیں. چناچہ اس میں معنوں کا اختلاف جائز بھی ہے اور اس سے دین کی بنیاد پر کوئی ضرب بھی نہیں پڑتی. یہاں یہ بھی نوٹ کرلیجیئے کہ علماء کا ایک چھوٹا گروہ مکمل قران حکیم کو 'قطعی الثبوت' کے ساتھ ساتھ 'قطعی الدلالہ' بھی تسلیم کرتا ہے. ان کے نزدیک قران مجید کی ہر آیت کا ایک ہی حتمی معنی ہے اور اس میں مفسرین کی مختلف رائے ان کی اپنی سمجھ کی غلطی ہے.
.
دوسرے ذریعے یعنی 'متواتر سنت یا احادیث' وہ احادیث ہیں جو اتنی زیادہ تعداد میں اور اتنے زیادہ راویوں سے ہم تک پہنچی ہیں کہ ان کے سچ ہونے میں اب کسی ابہام و شک کی گنجائش نہیں. گویا کسی بات کو پہنچانے والے اتنے سارے ہوں کہ اس بات کا جھوٹ ہونا عقلی و تحقیقی دونوں حوالوں سے ناممکن بن جائے. متواتر میں ہم اخبار احاد (عام انفرادی روایت و احادیث) کی طرح راوی کی صحت کے محتاج نہیں ہوتے. لہٰذا اس کا سچ ہونا کم و بیش ایسا ہی یقینی ہے جیسا آیات قرانی کا. تواتر کی تین نمائندہ اقسام ہے.
.
١. تواتر قولی (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد جو تواتر سے ہم تک پہنچے)
٢. تواتر عملی (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عمل جو تواتر سے ہم تک پہنچے)
٣. تواتر تقریری (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموش اجازت جو تواتر سے ہم تک پہنچے)
.
تواتر قولی کو بھی ہم دو بڑی اقسام میں بانٹتے ہیں
.
١. تواتر بلفظی (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد لفظ بالفظ ہم تک تواتر سے پہنچا ہو)
٢. تواتر بلمعنی (یعنی کسی ایک حقیقت سے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادمختلف الفاظ میں ہم تک تواتر سے پہنچا ہو)
.
گویا اب تحریر کے اس مقام پر ہمیں یہ حقیقت سمجھ آگئی کہ ہر وہ بات یا حکم جو قران حکیم یا متواتر احادیث سے ہم تک منتقل ہوا ہے، وہ قطعی نوعیت کا حامل ہے. جس میں اختلاف و انکار دینی لحاظ سے ممکن و جائز نہیں. اب رہ گیا احادیث مبارکہ کا وہ 'ظنی' حصہ جس میں صحت روایت یا درایت سمیت مختلف قرینوں سے اختلاف و انکار ممکن ہے. اسی کو 'اخبار احاد' کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. اخبار احاد کے بھی اس حصے کا انکار نہیں کیا جاسکتا جو 'عمل یعنی شریعت' سے متعلق ہے. البتہ وہ اخبار حاد جن میں ایمانیات کی ضمنی تفاصیل کا بیان ہوا ہے یا کسی ماضی و مستقبل کی خبر دی گئی ہے، اس میں رائے کا اختلاف یا قبول و رد ممکن ہے. یہاں ہم اخبار احاد کے اس ذخیرے کو بھی دو اقسام میں بانٹ رہے ہیں.
.
١. ایمانیات و اخبار سے متعلق احادیث (جن میں مظبوط تر قرینے سے انکار یا اختلاف ممکن ہے)
٢. عمل یعنی شریعت سے متعلق احادیث (ظنی ہونے کے باوجود بھی مطلق رد نہیں کیا جاسکتا)

.
یہاں یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ ان ظنی اخبار احاد کو تسلیم کرنا کیوں لازمی ہے؟ جو عمل یعنی شریعت کا بیان کرتی ہیں؟ ظنی تو اپنی تعریف ہی میں قطعی نہیں ہوتا اور اس کے غلط ہونے کا ہمیشہ امکان ہوا کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عمل یا شریعت کے امور میں اخبار احاد کو ظنی ہونے کے باوجود قبول کرنا قران حکیم اور متواتر احادیث دونوں سے ثابت ہے. قران کریم میں جہاں قصاص کا حکم اور کا بیان ہوا ہے، وہاں جرم ثابت کرنے کیلئے دو گواہوں کی گواہی کو کافی کہا گیا. دو گواہ کسی بھی صورت میں 'تواتر' نہیں کہلا سکتے. اس کا امکان ہوسکتا ہے کہ وہ دو گواہ آپس میں گٹھ جوڑ کرکے جھوٹ بول رہے ہوں جسے قاضی نہ سمجھ پائے. اس غلطی کے امکان کے باوجود رب العزت نے صرف دو گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے. اگر گواہ جھوٹ بولتے ہیں تو ان کی سزا روز جزاء کو نافظ کی جائے گی. جب ہاتھ کاٹنے اور انسانی جان لینے کے اہم ترین معاملے میں دو گواہوں پر اکتفاء کیا جاسکتا ہے تو ظاہر ہے لازمی طور پر کمتر شرعی معاملات میں بھی احاد گواہوں کو تسلیم کیا جاسکتا ہے. اسی طرح متواتر احادیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ شرعی یا قانونی معاملات کا فیصلہ کرتے ہوئے خلفاء یا قاضیوں نے اخبار احاد سن کر اسکی بنیاد پر فیصلہ سنایا.
.
یہ اخبار احاد کا آخری حصہ ہے جو ایمانیات یا اخبار یا اذکار و عادات سے متعلق ہے اور جس کا دلیل کی بنیاد پر انکار و رد ممکن ہے. محقق دیکھتا ہے کہ بیان کردہ حدیث کہیں عقل عام یا واضح زمینی حقائق کے صریح خلاف تو نہیں؟ وہ جائزہ لیتا ہے کہ پیش کردہ حدیث صحت کے اعتبار سے کس مقام پر ہے؟ صحیح، حسن، ضعیف، موضوع، مرسل وغیرہ بہت سی تفریق ہیں جو محدثین بعد از تحقیق کرتے ہیں. اسی طرح وہ حدیث کو جانچتا ہے کہ وہ کسی قطعی حکم سے تو نہیں ٹکرا رہی؟ تطبیق کی صورت نہ ہو تو قبول نہیں کرتا. یہی وجہ ہے کہ احادیث احاد میں موجود بہت سے موضوعات جیسے امام مہدی، دجال، واقعہ معراج، رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہونا وغیرہ پر صحیح حدیث ہونے کے باوجود آپ کو محققین مختلف آراء پر کھڑے نظر آتے ہیں. ایسے موضوعات اخبار احاد کے اسی حصے سے متعلق ہوا کرتے ہیں.
.
====عظیم نامہ====

.
(نوٹ: یہ دین کے ایک ابتدائی طالبعلم یعنی راقم کی ناقص سمجھ ہے. جس میں غلطی کا امکان ہوسکتا ہے. اقسام کی شاخوں کی زیادہ تفصیل سے اختصار کی خاطر دانستہ گریز کیا گیا ہے. اہل حدیث حضرات یا دیگر محققین جیسے مکتب فراحی وغیرہ اپر درج تفصیل سے کچھ اختلاف لازمی رکھتے ہیں. تحریر کے اصل مخاطبین عوام الناس نہیں بلکہ دین کے وہ سنجیدہ طالبعلم ہیں جو عرق ریزی کا شوق رکھتے ہوں.)

Sunday, 12 November 2017

ارتقاء




جاننا چاہیئے کہ ہم حاملین قران ایک ایسے خدا کو ماننے والے ہیں جو جہاں الخالق ہے (ایک تخلیق سے دوسری تخلیق کرنے والا) وہاں وہ الفاطر بھی ہے (بناء کسی موجود مثال کے بنانے والا). جو جہاں البدیع ہے (بناء کسی شے کے وجود بخشنے والا) وہاں وہ الباری بھی ہے (آغاز کرنے والا). گویا ہم صرف اس پر اکتفاء نہیں کرتے کہ کائنات کو بنانے والا ایک رب ہے بلکہ ہم اس رب کی لامحدود قوت کے قائل ہیں. ہم یہ مانتے ہیں کہ تخلیق کیلئے وہ رب چاہے تو کسی ایک طریق کو اپنائے، چاہے تو کسی دوسرے طریق کو اپنالے، چاہے تو کسی کے ذریعے تخلیق کا کام لے اور چاہے تو بناء ذریعے تخلیق کردے. آج جب معروف ملحد سائنسدان 'پروفیسر لارنس کراس' اپنی کتاب 'یونیورس فرام نتھنگ' میں یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کائنات 'کچھ نہیں' سے وجود میں آگئی تو تمام ناقدین نفی میں مسکرانے لگتے ہیں. مگر بحیثیت مسلم ہم سب اس کے قائل ہے کہ ہمارے رب نے کائنات کو عدم (کچھ نہیں) سے وجود بخشا ہے. ہمارا رب وہ ہے جو 'کن فیکون' سے بھی چیزوں کو وجود میں لاتا ہے اور ارتقائی سفر سے گزار کر بھی چیزوں کو روپ دیتا ہے. وہ عموم میں ماں باپ کے زریعے اولاد کو دنیا میں لاتا ہے. مگر اگر چاہے تو عیسیٰ علیہ السلام کو بناء باپ کے پیدا فرمادیتا ہے اور آدم علیہ السلام کو ماں باپ دونوں کے بناء وجود بخش دیتا ہے. وہی تو ہے جو اپنے اذن سے عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں مٹی کے پرندوں کو زندہ فرما دیتا ہے. ابراہیم علیہ السلام کے لئے ذبح شدہ پرندوں کے اعضاء جوڑ کر انہیں زندگی لوٹا دیتا ہے اور اصحاب الکہف کو موت نما نیند سے سینکڑوں سال تک سلا کر جگا دیتا ہے. اس تمام تمہید کو بیان کرنے کا فقط یہی مقصد ہے کہ ہم مسلمانوں کیلئے اہم یہ ہے کہ اس کائنات کو ، مخلوقات کو اور بلخصوص ہم انسانوں کو رب کریم نے پیدا فرمایا ہے. اب انہوں نے تخلیق کرنے کا جو بھی طریق ابتداء میں اختیار کیا ہو، یہ جاننا ہمارے ایمان سے متعلق نہیں ہے بلکہ ایک ضمنی و ظنی موضوع ہے. جب یہ واضح ہوگیا تو ان شاء اللہ اب ہم اپنے موضوع کی جانب آتے ہوئے ان ممکنہ طریقوں کو جاننے کی کوشش کریں گے جو مختلف مسلم اہل علم 'تخلیق انسان' کے متعلق اختیار کیئے ہیں. 

Sunday, 5 November 2017

سورہ الفیل اور ہاتھی


سورہ الفیل اور ہاتھی


سوال:
سورہ الفیل میں جو ہاتھی والو کا ذکر ہوا ہے، وہ صحرا میں کیسے رہ سکے؟ صحرا کا موسم ہاتھوں کیلئے موافق نہیں ہے؟ پھر ہاتھی یمن سے مکہ سینکڑوں میل کا فاصلہ کیسے طے کرپائے؟ ہاتھیوں کیلئے اتنے پانی کا بندوبست کیسے کیا گیا؟
.
جواب:
یہ سوال نیا نہیں ہے اور ملحدین کی جانب سے دیگر اعتراضات کی طرح ماضی میں کیا جاتا رہا ہے۔ یقین نہ آئے تو گوگل کرکے دیکھ لیجیئے۔ چنانچہ اس سوال کا جواب دینے سے قبل ہمیں یہ جاننے میں دلچسپی ضرور ہوگی کہ پوچھنے والا کوئی مسلم ہے یا ملحد؟ اگر ملحد ہے تو اس سوال کا جواب دینا کوئی خاص سودمند ثابت نہیں ہوگا. وجہ یہ ہے کہ جب تک اس سے بنیادی سوالات جیسے وجود خدا اور رسالت پر اتفاق نہیں ہوگا تب تک اس طرح کے سوالات ختم نہ ہونگے. ایک سوال کا جواب ملے گا تو وہ دوسرا پوچھے گا اور دوسرے کا جواب دو گے تو وہ تیسرے پر چھلانگ لگا دے گا. گویا جب تک ترتیب سے پہلے بنیادی سوالات کے جوابات اسے حاصل نہیں ہوں گے تب تک اس کا دماغ نت نئے سوالات اور الجھنیں تراشتا ہی رہے گا. لیکن اگر پوچھنے والا ملحد نہیں مسلم ہے تب ہمیں اعتماد ہے کہ پوچھتے وقت اس کا مقصد فقط قرانی آیات پر تفکر و تدبر ہے. ایسے میں اسے اس واقعہ کے سچ ہونے میں ذرا بھی شائبہ نہ ہوگا. ہم یہاں یہ تصور کررہے ہیں کہ پوچھنے والا ایک مسلم ہے اور یہی ملحوظ رکھتے ہوئے کچھ گزارشات پیش کیئے دیتے ہیں. 
.
تمہید میں دو باتیں بتانا بھی ضروری ہیں. پہلی بات یہ کہ سورہ الفیل میں جس واقعہ کا ذکر ہوا ہے وہ عرب دنیا میں نزول قران سے قبل معروف تھا. اس کی دلیل کسی تاریخی کتاب سے بھی زیادہ یہ بنتی ہے کہ وہ مشرکین مکہ یا اہل کتاب جنہوں نے معمولی سے معمولی بات پر بھی شدید الزامات لگائے، رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم، امہات المومنین، صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین کی ہر طرح سے کردار کشی کی، قران حکیم کی مختلف آیات پر جی بھر کے اعتراضات کیئے. انہوں نے اس واقعہ کو نہ جھوٹ کہا نہ جھوٹ ثابت کرنے کی کوشش کی. ایسا تب ہی ممکن ہے جب وہ اس واقعہ کی صحت کے پہلے ہی قائل ہوں یا ان تک اسکی اطلاع پہلے سے موجود ہوں. زمانہ جاہلیہ کی شاعری میں بھی اس واقعہ کے اشارے موجود ہیں. جیسے ابو قیس سیفی اپنی نظم میں خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ کیسے خدا نے ابی سینیا کے ہاتھی والے لشکر پر کنکر برسائے اور کیسے ہاتھیوں نے تشدد کے باوجود کعبہ کی طرف پیش قدمی نہیں کی. اس نظم کا انداز، الفاظ، اسلوب اور واقعہ کی تفصیل سب قران حکیم سے کئی حوالوں میں مختلف ہیں، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ابو قیس کی شاعری قران مجید سے ہٹ کر ہے. چانچہ محققین کے نزدیک غالب امکان یہی ہے کہ اس نظم کا زمانہ قبل از نزول قران ہے.
.
دوسری بات یہ کہ سورہ میں 'ہاتھی والو' کا ذکر ہوا ہے. ان ہاتھیوں کی کیا تعداد تھی؟ یہ نہیں بتایا گیا. جہاں مفسرین بہت سے ہاتھیوں کے اس لشکر میں شامل ہونے کی بات کرتے ہیں. وہاں کئی نمائندہ مفسرین کے نزدیک اس لشکر میں صرف ایک ہاتھی تھا جسے یمن کے ایک ابراہہ نامی بادشاہ نے پکڑوایا اور سدھایا تھا. کہاں سے پکڑوایا تھا؟ اسکی تفصیل نہیں ملتی۔ گویا ہاتھی ایک تھا یا زیادہ دونوں امکانات ہوسکتے ہیں. کیا یمن میں یا یمن کے نزدیکی علاقے میں کبھی ہاتھی موجود تھے؟ یا اسے کسی دور دراز کے علاقے سے پکڑ کر بحری راستے سے یمن منتقل کیا گیا؟ ہم نہیں جانتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہاتھی کو یمن (صنعا) کی بجائے کسی اور علاقے/ ملک میں رکھا گیا ہو جہاں سے حملے کے موقع پر اسے لایا گیا ہو. ماضی میں ایسی کئی مثالیں ہمیں مل جاتی ہیں جب ہاتھی سمیت دیگر جانوروں کو جنگی مقاصد کیلئے کسی ایسے ملک لایا گیا جہاں ان کا پہلے وجود نہ تھا اور جہاں کا موسم ان کیلئے موزوں نہ تھا. ایسے میں ان کی افزائش کیلئے خصوصی انتظامات کیئے جاتے ہیں. یمن یا عرب میں چونکہ ہاتھی لشکروں میں شامل نہیں ہوا کرتے تھے یا کم از کم عام نہ تھے، اس وجہ سے ابراہہ کے لشکر میں ہاتھی کا ہونا ایک غیرمعمولی بات تھی اور اسی لئے لشکر کا نام ہی ہاتھی والا لشکر کہلانے لگا.
.
اب پوچھے جانے والے سوالات کی جانب آتے ہیں. پہلے دو سوالات کو اگر ایک سوال میں جمع کردیا جائے تو پوچھا یہ جارہا ہے کہ ہاتھی چونکہ صحرائی جانور نہیں ہے اسلئے وہ صحرا میں کیسے رہ سکتا ہے؟ اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ پوچھنے والا شائد افریقی نسل کے صحرائی ہاتھیوں سے واقف نہیں ہے. یہ ایشیائی ہاتھی کے مقابل قدرے چھوٹے صحرائی ہاتھی صحرا ہی میں بستے ہیں اور اب ان کی نسل کم سے کم ہوتی جارہی ہے. گو یہ آج بھی چھ سو کے قریب موجود ہیں آج بھی نمیبیا اور مالی کے افریقی ممالک میں یہ صحرا میں رہتے ہیں. گویا کسی خاص نسل کے ہاتھی کا صحرا میں زندہ رہ لینا کوئی انوکھی بات نہیں ہے. ایک اور سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ ہاتھیوں کیلئے اتنے پانی کا بندوبست کیسے کیا گیا؟ اسی افریقی صحرائی ہاتھی ہی کی مثال لے لیجیئے تو یہ قدرتی طور پر تین دن تک بناء پانی پیئے چلنے کی استعداد رکھتا ہے. ساتھ ہی یہ اپنی پیاس اور بھوک ان صحرائی پودوں سے باآسانی پوری کرلیتا ہے جو اپنے اندر قدرتی طور پر لیس دار پانی رکھتے ہیں. ان کی رفتار بھی صحرا کے حساب سے حیرت انگیز طور پر تیز رہتی ہے. یوں تو ان پر بیشمار دستاویزات یا دستاویزی فلمیں موجود ہیں مگر ہم قارئین کی آسانی کیلئے ایک چھوٹا سا ویڈیو کلپ پہلے کمنٹ میں شیئر کررہے ہیں. 
.
آخر میں یہ ضرور سمجھ لیجیئے کہ یہ جواب فقط ایک ممکنہ صورت کی طرف نشاندھی ہے. حقیقت میں ہاتھی ایک تھا یا دس؟ وہ خود چل کر آیا تھا یا بحری جہاز سے؟ اپنی پیاس واقعی صحرائی پودوں سے بجھاتا تھا یا لشکر میں اس کے لئے پانی کا کوئی خاص انتظام تھا؟ اسے ہم میں سے کوئی نہیں جانتا اور ایسے سوالات میں بلاوجہ سر کھپانے کی چنداں کوئی ضرورت بھی نہیں ہے. زمانہ جاہلیہ کی شاعری میں بھی اس واقعہ کے اشارے موجود ہیں. جیسے ابو قیس سیفی اپنی نظم میں خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ کیسے خدا نے ابی سینیا کے ہاتھی والے لشکر پر کنکر برسائے اور کیسے ہاتھیوں نے تشدد کے باوجود کعبہ کی طرف پیش قدمی نہیں کی. اس نظم کا انداز، الفاظ، اسلوب اور واقعہ کی تفصیل سب قران حکیم سے کئی حوالوں میں مختلف ہیں، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ابو قیس کی شاعری قران مجید سے ہٹ کر ہے. چانچہ محققین کے نزدیک غالب امکان یہی ہے کہ اس نظم کا زمانہ قبل از نزول قران ہے. کچھ جیالوجسٹ بتاتے ہیں کہ موجودہ یمن اور چودہ سو برس قبل کے یمن کی سرحدوں میں خاصہ فرق تھا. بہت سے علاقے جو پہلے یمن کہلاتے تھے، مختلف جنگی کاروائیوں کے نتیجے میں اب یمن نہیں کہلاتے. محمد العمری جو کنگ سعود یونیورسٹی میں ہیڈ آف جیالوجی ہیں، انہوں نے باقاعدہ اپنی تحقیق میں ابراہہ کے اس ہاتھی والے لشکر کا پورا راستہ ڈھونڈھ کر پیش کرنا چاہا ہے. اس راستے میں مختلف جگہ 'ہمیریا' زبان میں درج نقوش و کلمات ملے ہیں جو انکی تحقیق کو تقویت دیتے ہیں. نجران کے رستے پر ملنے والے نقوش کا ایک نمونہ پہلے کمنٹ کے نیچے دیا جارہا ہے. اب اس تحقیق میں کتنا سچ ہے اور کتنا ابہام؟ اسے کماحقہ جاننے کا دعویٰ راقم نہیں کرسکتا. اسکے لئے اتنا کافی ہے کہ یہ واقعہ دنیا کی سب سے مستند کتاب قران الحکیم میں درج ہے.
.
====عظیم نامہ====

https://www.youtube.com/watch?v=U0v5MIdyxZc

Wednesday, 1 November 2017

لڑکا ہوں مگر مجھے بچپن سے لڑکے پسند ہیں


لڑکا ہوں مگر مجھے بچپن سے لڑکے پسند ہیں

 سوال:

السلام علیکم. بہت ہمت کرکے یہ سوال پوچھ رہا ہوں. میں چوبیس برس کا ایک لڑکا ہوں لیکن مجھے بچپن سے لڑکے ہی پسند ہیں. مجھے لڑکیوں سے ذرا بھی جنسی لگاؤ محسوس نہیں ہوتا بلکہ خود اپنا ظاہر اور باطن لڑکی جیسا محسوس ہوتا ہے. میں نے نارمل ہونے کی بہت کوشش کی مگر میری دلچسپی مردوں ہی کی جانب ہوتی ہے. شرمندگی سے بتا رہا ہوں کہ ایک بار ہم جنسی کا ارتکاب بھی کیا ہے. اسلام میرے بارے میں کیا کہتا ہے؟ کیا اس گندے عمل کے بعد بھی میں مسلمان کہلاسکتا ہوں؟ کیا ہم جنسی کی کوئی گنجائش ہے؟ کیا میں سیکس چینج آپریشن کروا سکتا ہوں؟ میری شادی کی عمر ہے، کیا میں شادی کرسکتا ہوں؟ مجھے خود سے نفرت ہوتی ہے، میں خود کو کیسے بدل سکتا ہوں؟
.
جواب:
وعلیکم السلام. سب سے پہلے تو مبارکباد قبول کریں کہ آپ میں یہ احساس موجود ہے کہ یہ عمل یا رجحان غلط ہے اور آپ کو اپنی تصحیح کرنی ہے. یہ آپ کے رب کا آپ پر احسان ہے کہ اس نے آپ کو اس احساس سے مزین رکھا ہے. یقین کیجیئے بیشمار افراد ایسے ہیں جو بڑی بڑی برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں مگر ساری زندگی اس کی سنگینی کا احساس ہی نہیں کرتے یا اسے جسٹیفائی کرتے رہتے ہیں اور یوں ہی مرجاتے ہیں. میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ ایک مسلسل کرب سے گزر رہے ہیں اور اس سچویشن سے نکلنا آپ کے لئے نہایت کٹھن ہے. میں عالم دین نہیں ہوں بلکہ دین کا ایک معمولی طالبعلم ہوں. لہٰذا ایک طالبعلم اور آپ کے خیر خواہ کی حیثیت سے کچھ گزارشات اپنی ناقص سمجھ کے مطابق لکھے دیتا ہوں.
.
سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ آپ الحمدللہ مسلم ہیں. کسی شیطان کو یہ نہ بتانے دیجیئے کہ آپ مسلم نہیں. لہٰذا ذکر، عبادت اور دین کے دیگر شعائر کا اسی طرح بھرپور اہتمام کیجیئے جیسے کے ایک مسلم کو کرنا چاہیئے. جس طرح سود، زنا سمیت دیگر کبیرہ گناہوں کا مرتکب انسان غیرمسلم نہیں ہوتا. ٹھیک اسی طرح ہم جنسی جیسے کریہہ عمل کے ارتکاب سے آپ غیر مسلم نہیں ہوجاتے. البتہ یہ ایک بہت بہت بڑا گناہ ہے. ایک ایسا غلیظ گناہ جس سے فوری توبہ لازمی ہے. آپ کے ساتھ تو بچپن سے جسمانی و نفسیاتی طور پر یہ رجحان غیر اختیاری طور پر چمٹے رہے ہیں. ورنہ ایسے بھی ہیں جو مذہبی چوغہ پہن کر بچوں سے ہم جنسی کربیٹھتے ہیں. لہٰذا اس گندے عمل سے توبہ کی فکر ضرور کیجیئے مگر اسے دین چھوڑنے کا سبب نہ بننے دیجیئے.
.
ہم جنسی کے اس رجحان کی دو ممکنہ وجوہات ہوسکتی ہیں. پہلی نفسیاتی اور دوسری جسمانی. بہت سے اہل علم کے مطابق اصل وجہ تمام یا اکثر کیسز میں صرف نفسیاتی ہی ہوا کرتی ہے مگر اس وقت ہم دونوں زاویوں سے بات کو دیکھ لیتے ہیں. اگر وجہ جسمانی ہے جیسے آپ کے جنسی اعضاء میں کوئی نقص ہے یعنی کچھ زنانہ اور کچھ مردانہ ہے تو ایسے میں آپ کو فوری طور پر میڈیکل ایکسپرٹس سے رجوع کرنا چاہیئے. ایسی صورت میں سیکس چینج آپریشن کیا جاسکتا ہے تاکہ کسی ایک جنس کا تعین ہوسکے. یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی بچہ جینیٹک ڈیزیز یا معذوری کے ساتھ پیدا ہو اور جسے آپریشن سے ٹھیک کیا جائے. ایسی انتہائی صورت میں علماء کی ایک جماعت اس کی اجازت دیتی ہے اور دوسری مخالفت کرتی ہے. میں خود اجازت کا قائل ہوں. باقی مزید تحقیق کی جاسکتی ہے.
.
لیکن اگر مسئلہ دوسرا ہو یعنی وجہ جسمانی بلکل نہ ہو بلکہ فقط نفسیاتی ہو تو ایسے میں توبہ اور تزکیئے ہی کو راستہ بنانا ہوگا. اس عمل سے آئندہ بچنے کو یقینی بنائیں. خدا نہ کرے کہ بہت کوشش کے بعد بھی یہ گناہ کبیرہ سرزد ہوجائے تو اس پر پشیمان رہیں. ہم جنسی کو کبھی جسٹیفائی نہ کریں. اس کا اعلان نہ کرتے پھریں بلکہ اسے ایک کریہہ گناہ جان کر اسے چھوڑنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں. یاد رکھیں کہ اپنے گناہ پر بناء اشد ضرورت گواہ نہ کیجیئے. اسی میں عافیت ہے کہ گناہ بندے اور اسکے رب کے درمیان ہی رہے. پھر گناہ کا اعلان سرکشی اور تکبر کی علامت ہے جو بارگاہ الہی میں آخری درجے کا جرم ہے. میں سمجھتا ہوں کہ جنسی میلانات انسان میں بہت شدید ہوا کرتے ہیں. بالخصوص عمر کے اس حصے میں جس میں آپ ہیں. مگر ان میلانات سے بھی زیادہ طاقتور آپ کا وہ ارادہ و اختیار ہے جو رب نے فطرت میں ودیعت کررکھا ہے. ایسے بھی بیشمار لوگ ہیں جو ساری عمر شادی نہیں کرتے. آپ بھی اس وقت تک شادی نہ کیجیئے جب تک خود کو نارمل محسوس نہ کرنے لگیں. ایسی حالت میں کسی لڑکی سے شادی کرنا اسکی زندگی تباہ کردینے کے مصداق ہوگا. ایک مثال لیجیئے کہ آپ کے کسی ہم عمر دوست کو اپنی والدہ کے ساتھ ایک گھر میں تیس چالیس سال کیلئے قید کردیا جاتا ہے. کیا ایسی صورت میں اس مرد کا معاز اللہ ثم معاز اللہ اپنی والدہ سے جنسی تعلق پیدا کرلینا درست قرار پائے گا؟ ظاہر ہے کہ نہیں. ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیونکہ اس لڑکے میں جنسی میلان شدید ہے اسلئے کوئی حرج نہیں. ہم اسے یہی نصیحت کریں گے کہ وہ اسے اپنے نفس کا امتحان سمجھ کر صبر کرے. ٹھیک اسی طرح آپ کو بھی ایک امتحان کا سامنا ہے جو مشکل ضرور ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں ہے. بحیثیت مسلمان آپ یہ خوب جانتے ہیں کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے جہاں کبھی بیماری سے، کبھی غربت سے اور کبھی مختلف میلانات سے آزمایا جاتا ہے. اس ضمن میں کسی نفسیاتی ماہر یا ھپناسس ایکسپرٹ سے کچھ کونسلنگ سیشن لینا بھی آپ کی اس اندرونی جنگ میں ان شاء اللہ معاون ثابت ہوگا۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے اپنے امتحان میں سرخروئی نصیب فرمائے آمین.
.
====عظیم نامہ====

.
(اس سوال کو راقم نے ماضی میں پوچھے کئی سوالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے خود مرتب کیا ہے)

Friday, 20 October 2017

علمی گمراہی کا سفر

علمی گمراہی کا سفر


.
یہ کوئی طے شدہ ضابطہ تو نہیں ہے مگر موجودہ دنیا میں اکثر ایک مسلمان کی علمی گمراہی کا سفر ان مراحل سے ہو کر گزرتا ہے.
.
منطق، فلسفے اور سائنس سے شدید ترین مرعوبیت 
----------------------------------------------------
.
اس پہلے مرحلے پر وہ مذہب بیزار مغربی اقوام کی مادی ترقی سے آخری درجے میں مرعوب ہونے لگتا ہے. وہ اس ترقی کے پیچھے مختلف فلسفوں، منطق اور سائنس کو کھڑا پاتا ہے. مغربی اقوام سے اس کے لگاؤ کا یہ حال ہوتا ہے کہ ان کا برا بھی اسے اچھا لگنے لگتا ہے. امور غیب جیسے ملائکہ، حیات بعد الموت وغیرہ کو بھی یہ سائنس کی لیبارٹری میں لے آنے کے متمنی ہوجاتے ہیں. انہیں ہر شے کے لئے اب فقط دلیل نہیں بلکہ 'امپیرئیکل ایویڈینس' درکار ہوتا ہے. گویا یہ سمجھ کر نہیں بلکہ دیکھ کر ایمان لانا چاہتے ہیں. انہیں 'ریشنلسٹ' کہا جاتا ہے.
.
مذہبی طبقے سے نفرت 
------------------------
.
اس کی نظر موجودہ عالم اسلام کی علمی پستی اور معاشی بدحالی کی جانب جاتی ہے تو اسے اس کے بڑے ذمہ دار مذہبی ٹھیکے دار محسوس ہوتے ہیں. لہٰذا اسے مولوی حضرات سے بناء تفریق نفرت ہونے لگتی ہے. وہ انہیں ہر اس معاشرتی، سماجی یا معاشی مسائل کا بھی مجرم گرداننے لگتا ہے جن سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہ ہو. انہیں ہر اس شخص سے الجھن ہونے لگتی ہے جس کی شرعی داڑھی ہو یا جو مسواک کرتا ہو یا ٹوپی پہنتا ہو. انہیں 'ناراض باغی طبقہ' یا پھر 'نیو-لیفٹسٹ' بھی کہہ سکتے ہیں. 
.
احادیث کا انکار 
----------------
.
اس میں شک نہیں ہیں کہ اسلامی تاریخ اور احادیث کے ذخیرے میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جو ایک انسان کو چکرا دیتی ہیں. مگر مسلمانوں نے ہمیشہ احادیث کے ذخیرے کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور ان کا انکار یا اقرار بعد از تحقیق اپنایا ہے. یہ شخص تحقیقی معیارات کو اپنانے کی بجائے مختلف احادیث (اخبار احاد) کا انکار اپنی ناقص سمجھ یا عقل کی بنیاد پر کرنے لگتا ہے. گویا ایسا نہیں ہے کہ وہ قطعی ثبوت کی بنیاد پر کسی ظنی حدیث کو ماننے سے انکار کررہا ہو بلکہ اس کے قبول و رد کا واحد معیار اسکی محدود عقل یا سمجھ ہوتی ہے. انہیں غلط طور پر لبرل کہا جاتا ہے. ہمارے نزدیک اگر انہیں نام دینا ہی ہے تو 'نیو-لبرل' کہہ لیجیئے. 
.
قران حکیم کی من مانی تفسیر 
--------------------------------
.
اس مقام پر ایک شخص قران حکیم میں درج آیات کی من مانی تفسیر کرنے لگتا ہے. ایسی تفسیر جو اس کے حساب سے موجودہ سائنس، فلسفے اور منطق سے مطابقت رکھتی ہو. گویا وہ قران حکیم کے اپنے پیغام کو سمجھنے کی بجائے، اس میں سے اپنے من پسند فلسفے برآمد کرنے میں جت جاتا ہے. اس مقام پر وہ مسلمانوں کی پوری تاریخ اور علمی ورثے کو ایک سازش سمجھتا ہے. لہٰذا نہ تواتر کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی اجماع کا خیال کرتا ہے بلکہ لغت سے کھیل کر قرانی الفاظ کو وہ وہ معنی فراہم کرتا ہے کہ انسان دنگ رہ جائے. دوسرے الفاظ میں وہ پہلے اپنی ناقص عقل سے قران کی ایک غلط تفسیر کرتا ہے اور پھر اسی غلط تفسیر کو قران کا اصل مقصود سمجھنے کی غلط فہمی پال لیتا ہے. اس سمجھ کی راہ میں کوئی قوی سے قوی حدیث بھی آجائے تو اسے یکسر مسترد کردیتا ہے اور اگر کوئی آیت رکاوٹ بنے تو اسے اصطلاحی مفہوم دے دیتا ہے. انہیں 'منکرین حدیث' کہا جاتا ہے. گو یہ اکثر خود کو 'قرانسٹ' کہلانا پسند کرتے ہیں. 
.
مذہب کا انکار 
--------------
.
یہ طبقہ مذہب سے اس درجے بدظن ہوچکا ہوتا ہے کہ اسے تمام مذاہب جعلی محسوس ہوتے ہیں. یہ خدا کے وجود کو تسلیم کرتا ہے، اسے خالق مانتا ہے، حیات بعد الموت تک کو تسلیم کرتا ہے مگر کسی بھی قسم کی شریعت کا منکر ہوجاتا ہے. اس کے نزدیک مذاہب لوگوں کےاپنے بنائے ہوئے ہیں جنہوں نے انسانیت کو فساد اور خون خرابے کے سوا کچھ نہیں دیا ہے. یہ خدا تک پہنچنے کے اپنے طریق بناتے ہیں جس کے لئے مختلف مراقبے اور طریقے اختیار کرتے ہیں. یہ مغرب اور ہند میں یکساں مقبولیت حاصل کررہے ہیں. لفظ خدا کا استعمال یہ کم ہی کرتے ہیں. اسکی جگہ یہ ایسی اصطلاحات خدا کیلئے استعمال کرتے ہیں جو جدید ذہن کیلئے زیادہ قابل قبول ہیں جیسے 'سپریم کانشیسس نیس' یا 'کاسمک انٹلینجینس' وغیرہ. اوشو سے لے کر سدھ گرو تک یہی سلسلہ چل رہا ہے. انہیں 'اسپریچولسٹ' کہا جاتا ہے.
.
خالق کا اقرار مگر رب کا انکار 
--------------------------------
.
یہ افراد اس حقیقت کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ اس کائنات کو لازمی بنانے والی ایک ذات موجود ہے. وہی ذات ہر شے کی خالق ہے مگر اس کائنات کو تخلیق کرنے کے بعد وہ ہم سے لاتعلق ہوگئی ہے. جس طرح ایک گھڑی ساز کوئی زبردست گھڑی تخلیق کرتا ہے، اس میں بہترین مشینری لگاتا ہے مگر پھر اسے چھوڑ دیتا ہے. جب تک مشینری چلتی رہتی ہے، گھڑی بھی چلتی رہتی ہے. جس دب اس کی مشینری میں ٹوٹ پھوٹ ہونے لگتی ہے اسی دن گھڑی بھی ختم ہوجاتی ہے. ٹھیک اسی طرح شائد خالق نے اس کائنات کو تخلیق کر کے اس میں بہترین نظم تو رکھ دیا مگر اسکے بعد وہ اس سے لاتعلق ہوگیا. اب جب تک یہ ستاروں سیاروں کا نظم خودبخود چل رہا ہے تب تک کائنات قائم ہے. ایک دن یہ نظم خود ہی تباہ ہو جائے گا اور ہم سب مٹ جائیں گے. نہ کوئی دوسری زندگی ہوگی اور نہ ہی کسی کے سامنے جواب دہی. یہ آسان الفاظ میں روز جزاء کے منکر ہیں اور انہیں اس طرح کے مفروضات بہت بھاتے ہیں کہ کسی خلائی مخلوق نے ہزاروں سال پہلے زمین پر آکر کلوننگ کے ذریعے ہماری نسل کو بنادیا. ان افراد کو انگریزی زبان میں 'ڈیسٹ' کہا جاتا ہے.
.
ہم نہیں جانتے 
--------------
.
یہ افراد کہتے ہیں کہ خدا کے وجود اور خدا کے انکار دونوں کیلئے آج تک جو استدلال اور شہادتیں ہم تک پہنچی ہیں. وہ اس امر کیلئے ناکافی ہیں کہ ہم خدا کے وجود کو حتمی طور پر تسلیم کرسکیں یا پھر حتمی طور پر اس کا انکار کرسکیں. لہٰذا یہ اس بحث میں ہی نہیں پڑنا چاہتے کہ کائنات کو بنانے والا کوئی خدا ہے یا اسکی کوئی اور سائنسی توجیح ممکن ہے؟ ایسے احباب کو ہم 'ایگنوسٹک' کے نام سے موسوم کرتے ہیں. ایک سچا ایگنوسٹک پیغام اور دلیل کو لپک کر قبول کرتا ہے. افسوس کے ایسے ایگنوسٹک تعداد میں کم ہیں. اکثر ہمیشہ ایگنوسٹک ہی بنے رہنا چاہتے ہیں، چاہے ان پر بات کتنی ہی واضح کیوں نہ ہوجائے. 
.
خدا کا انکار 
------------
.
یہ وہ افراد ہیں جو کسی بھی خالق کے وجود کا انکار کرتے ہیں. یہ دراصل اپنی حقیقت میں ایگنوسٹک ہی ہوتے ہیں مگر مذہب دشمنی یا مذہب کے نام پر کی گئی خونریزی و زیادتی سے اتنے زیادہ نالاں ہوتے ہیں کہ خدا کے ہونے کا کوئی بھی امکان ماننے سے انکار کردیتے ہیں. ان کا ایک طبقہ خاموش رہتا ہے مگر ایک بڑا طبقہ خدا کے انکار تک محدود نہیں ہے بلکہ تصور خدا سے دشمنی پر اتر آیا ہے. انہیں 'ایتھیسٹ' یعنی ملحد کہا جاتا ہے. 
.
خلاصہ 
--------
. 
جیسا کے ابتداء میں ہم نے عرض کیا کہ بیان کردہ مراحل کوئی حتمی ضابطہ یا اصول یا فارمولا نہیں ہیں. آپ ان مراحل کو ان بڑے فلسفوں کا ایک مختصر جائزہ کہہ سکتے ہیں جن سے آج کا ایک مسلم ذہن گزرتا ہے یا گزر سکتا ہے. گمراہی کا یہ سفر موجودہ دنیا میں اس قدر مزین کرکے پیش کیا جارہا ہے کہ مسافر اسے گمراہی نہیں بلکہ شعوری ارتقاء سمجھ بیٹھتا ہے. اچھی بات یہ ہے کہ یہ سفر صرف اپر سے نیچے نہیں آتا بلکہ نیچے سے اپر بھی جاتا ہے. یعنی بیان کردہ مراحل کی ترتیب کو اگر الٹ دیں تو ایسے بیشمار انسان موجود ہیں جو الحاد کی دلدل سے نکل کر خدا کی بھرپور معرفت کا سفر کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ دعوت دین کیلئے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود امریکہ ہو، کوئی بھی یورپی ملک ہو یا پھر کوئی افریقی ریاست. ہر جگہ اسلام سب سے زیادہ قبول کیا جانے والا مذہب ہے. 
.
====عظیم نامہ====

Saturday, 14 October 2017

ڈیرن براؤن کے ساتھ ایک یادگار شام


ڈیرن براؤن کے ساتھ ایک یادگار شام 

Related image


'ڈیرن براؤن' اس وقت دنیا کا نمایاں ترین عامل تنویم (ہپناٹسٹ) اور سراب نظر کا ماہر (الوزنسٹ) مانا جاتا ہے. پچھلے دنوں اپنے ایک دوست کے ہمراہ اس کا شو دیکھنے کا موقع ملا. درمیانے قد کا یہ دبلا پتلا ہم جنس ملحد نہایت غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے. شو ایک بہت ہی جاذب آڈیٹوریم میں منعقد ہوا. ڈیرن نے آغاز میں بتایا کہ وہ ایک شعبدہ باز اور انسانی ذہن و سوچ کا ماہر ہے. اس کے تمام تر کمالات ایک 'پرفیکٹ لائی' یعنی کامل جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں. اتنا بتانے کے بعد اس نے ہم سب سے کھڑا ہوجانے کو کہا. مجھ سمیت سینکڑوں موجود افراد اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے. اس نے کہا کہ ہم سب اپنے ہاتھ اپنی پشت کی  جانب لے جائیں اور تصور کریں کہ کسی ایک ہاتھ میں ہم نے کوئی چیز چھپا رکھی ہے. پھر سب سے کہا گیا کہ اپنی دونوں مٹھیاں آگے کردیں. میں نے کافی سوچ کر سیدھے ہاتھ میں چیز کو تصور کیا. اب ڈیرن مخاطب ہوا کہ جس جس کے سیدھے ہاتھ میں چیز ہے وہ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں. میں منہ بسور کر بیٹھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرے ساتھ ننانوے فیصد لوگ بھی بیٹھ گئے. گویا ننانوے فیصد نے سیدھا ہاتھ ہی منتخب کیا تھا. ایک اجتمائی قہقہہ بلند ہوا. جو چند لوگ کھڑے رہ گئے، انہیں ڈیرن نے دوسری بار میں جانچ لیا اور سب بیٹھ گئے. ایک لڑکی کو اسٹیج پر بھی بلایا گیا اور اسے بار بار کہا کہ چیز کسی ایک ہاتھ میں چھپائے اور لگاتار ڈیرن صحیح بتاتا رہا کہ چیز کس ہاتھ میں ہے. ساتھ ہی اس نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جب میں نے فلاں مذاق کیا تو یہ لڑکی ہنس کر پیچھے ہٹی. ایسے میں اس کا داہنا ہاتھ تیزی سے نیچے گیا لیکن بایاں ہاتھ ٹینشن میں رہا، جس سے اسے معلوم ہوگیا کہ اس نے چیز بائیں ہاتھ میں رکھی ہے. ڈیرن نے ایک کیلا میز پر رکھ دیا جو اسٹیج کے ایک کنارے پر پبلک کے نزدیک رکھی ہوئی تھی اور کہا کہ اسی پروگرام کے دوران ایک بن مانس اسٹیج پر سے یہ کیلا اٹھا لے جائے گا مگر اس بن مانس کو کوئی دیکھ نہ پائے گا. یہی ہوا کہ کیلا غائب ہوگیا اور کوئی بن مانس نہ دیکھ پایا. دوسری بار اس نے پھر کیلا رکھ کر یہی کہا اور دوسری بار بھی بن مانس کیلا لے کر چمپت ہوگیا مگر کوئی اسے نہ دیکھ پایا. سب اپنے اپر ہنس رہے تھے. ڈیرن نے بتایا کہ یہ سب ہمارے دماغ کا کھیل ہے. ہماری آنکھ ایک وقت میں بیشمار چیزیں دیکھ رہی ہوتی ہے مگر یاد صرف وہی رکھتی ہے جو اسے اس خاص وقت میں اہم لگے. بن مانس کیلا اس وقت لے کر چلا جاتا تھا جن ڈیرن نے ہم سب کی توجہ کسی اور کام پر مبذول کروا رکھی ہو. یہ بتا کر ڈیرن نے بن مانس کو اسٹیج پر بلایا. ایک بن مانس کا نقلی لباس پہنا ہوا انسان کودتا ہوا اسٹیج پر آگیا اور مضحکہ خیز انداز میں مٹکنے لگا. مجھ سمیت سب ہنس رہے تھے جب اس بن مانس نے اپنا ماسک کسی ہیلمٹ کی طرح اتارا. اندر سے جو شخص نکلا وہ ... وہ ڈیرن تھا ! .. ہم سب نے حیرت سے واپس ڈیرن کی جانب دیکھا تو اب وہاں کوئی نہیں تھا. گویا ڈیرن نے بن مانس کے ماسک والے کو ہمارے سامنے اسٹیج پر بلایا اور خود ہی بن مانس کے اندر سے برآمد ہوا. یہ کیسے ہوا ؟ کب ہوا ؟ میں نہیں جانتا. مگر یہی وہ شعبدہ گری یا سراب نظر ہے جس می ڈیرن ماہر ہے.
.
ڈیرن نے پبلک میں سے ایک آدمی کو کھڑا کر کے کہا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی دوسرے تماشائی کا  انتخاب کرے جسے اسٹیج پر بلایا  جاسکے. اس شخص نے ایک لڑکی کا انتخاب کیا جسے ڈیرن نے اسٹیج پر  بلالیا. لڑکی کو  آنکھیں بند کر کے اپنے کندھے پر ہاتھ رکھنے کو کہا. پھر کہا کہ اب اپنے ذہن میں کسی بھی مشہور شخصیت کی تصویر کو تصور کرو اور میں تمھارے ذہن سے معلومات لے کر پینٹنگ بناتا ہوں. ڈیرن نے پینٹنگ شروع کی. آنکھیں ، کچھ بال، بڑا سا سر ... مجھے لگا کہ ڈیرن بن مانس کی تصویر بنا رہا ہے. اچانک اس نے تصویر کو الٹا تو وہ درحقیقت البرٹ آئین اسٹائن کی تصویر تھی. لڑکی نے بناء تصویر دیکھے تصدیق کی کہ وہ ذہن میں آئین اسٹائن ہی کو تصور کررہی ہے. سب نے تالیاں بجائیں. ڈیرن نے مجمع سے اب پوچھا کہ کیا کوئی ایسا موجود ہے جس کے دادا، دادی، نانا، نانی میں سے کسی کا انتقال ہوا ہو اور وہ ان سے بہت محبت کرتا ہو؟ بہت سے ہاتھ بلند ہوگئے. ایک لڑکی کا انتخاب ہوا .. ساتھ ہی ایک ٹیبل لائی گئی جس میں کسی چیز کو سیاہ کپڑا ڈھانپے ہوئے تھا. ڈیرن نے لڑکی سے پوچھا کہ اس نے کسے کھویا ہے؟ لڑکی نے بتایا کہ اپنی نانی کو جو اس سے بے پناہ پیار کرتی تھیں. ان کا نام ھیلن تھا. ڈیرن اب ہماری جانب متوجہ ہوا اور اپنے بارے میں بتانے لگا کہ کیسے وہ  سائنسز اور ہیپناٹزم کا ماہر بنا. اس نے بتایا کہ یہ اس کی پرتجسس فطرت تھی جس نے اسے اس جانب راغب کیا مگر اس کی فطرت کو پرتجسس بنانے میں اسکے دادا کا بہت بڑا ہاتھ تھا. وہ انہیں پپا پکارا کرتا تھا. پپا نے اسے ہلکی پھلکی بچوں والی ٹرکس بھی بتائی. وہ اس کے ناز و نخرے اٹھاتے اور اس کی ہر خواہش پوری کرتے تھے. مگر ان کے پاس ایک نہایت خوبصورت باکس تھا جسے وہ اسے چھونے تک نہیں دیتے تھے. اس کے پاس جانے کی بھی ڈیرن کو اجازت نہیں تھی. ڈیرن تجسس سے بھرا رہتا کہ آخر اس باکس میں ایسا کیا ہے؟ لیکن جب بھی وہ دادا سے اسے مانگتا تو اچانک دادا کے چہرے کا رنگ بدل کر سپاٹ ہوجاتا اور وہ دوٹوک لہجے میں اس سے کہتے 'ڈیرن اس باکس کو کبھی نہیں چھونا'. وقت گزرتا گیا، ڈیرن بڑا ہوا اور والدین کے ساتھ دوسرے گھر شفٹ ہوگیا. پھر ایک روز پپا یعنی دادا کا انتقال ہوگیا. ڈیرن جب عرصے بعد دادا کے گھر آیا تو اس کے ذہن میں صرف وہی باکس گھوم رہا تھا. وہ چپکے سے کمرے میں گیا. الماری کے اپر وہ باکس رکھا ہوا تھا. اس نے باکس اٹھایا تو پیچھے ایک چابی بھی رکھی تھی. اس سے پہلے اس نے یہ چابی نہیں دیکھی تھی. خاموشی سے ڈیرن نے چابی جیب میں رکھی اور باکس لے کر اپنے کمرے میں آگیا. اتنا کہہ کر ڈیرن نے وہ چابی ہمیں دیکھائی اور ٹیبل پر ڈھانپا ہوا کالا غلاف ہٹادیا. نیچے ایک خوبصورت سا باکس برآمد ہوا. پرسکوت ماحول میں چابی ڈیرن نے لڑکی کو دی اور کہا کہ باکس کھولے اور لوگوں کو دیکھائے کہ اس میں کیا ہے؟ لڑکی نے کانپتے ہاتھوں سے باکس کھولا. اندر سے ایک اور چھوٹا باکس نکلا. اس چھوٹے باکس کو بھی کھولا گیا تو اندر سے ایک شیشے کا مرتبان نکلا جس میں رنگین اون کا ایک گولا رکھا ہوا تھا. سب ہنسنے لگے، ڈیرن بھی ہنستے ہوئے بولا کہ واقعی جب میں نے بھی اسے دیکھا تو بہت مایوس ہوا کہ یہ تھا وہ پپا کا سیکرٹ؟ لیکن پھر جب میں نے اون کے گولے کو کھولا تو اس میں ایک سکہ نکلا جس پر سات جادوئی الفاظ  کندے ہوئے تھے. ہم سب دم سادھے سننے لگے کہ آخر وہ سات جادوئی الفاظ کیا تھے؟ ڈیرن نے کچھ توقف کے بعد بتایا کہ  وہ سات جادوئی الفاظ یہ تھے 'ڈیرن کہا تھا نا باکس نہیں چھونا' یہ سن کر پھر اجتمائی قہقہے بلند ہوئے. ڈیرن نے لڑکی سے کہا کہ وہ بھی اس اون کے گولے کو کھولے. اس انداز میں اس کا سرا ہر آدمی مجمع میں دوسرے آدمی کو دیتا جائے. یوں اون کھلتا گیا. اون کے گولے میں سے واقعی ایک سکہ برآمد ہوا مگر یہ دیکھ کر اسٹیج پر موجود لڑکی کی چیخ نکل گئی کہ اس پر اسکی اپنی نانی کا نام یعنی ھیلن پیغام کے ساتھ کندہ ہوا تھا. یہ کیسے ممکن ہوا؟ ظاہر ہے اسکا جواب ہمارے پاس نہیں ہے.
.
اب ڈیرن کے چہرے کو اور بلخصوص آنکھوں کو پٹیوں سے باندھ دیا گیا. اسکا کوئی امکان نہ رہا کہ وہ دیکھ رہا ہے. ڈیرن نے ہم سب سے کہا کہ وہ ذہن میں کوئی بھی سوال یا واقعہ سوچیں مگر زبان سے نہ کہیں. ساتھ ہی ہمیں اپنا نام اور سیٹ کا نمبر بھی ذہن میں سوچنا تھا. اس کے بعد ڈیرن نے ایک کے بعد ایک یہ بتانا شروع کیا کہ فلاں سیٹ پر موجود فلاں شخص نے یہ سوال سوچا ہے. سب میں کھلبلی مچ گئی. ہر شخص نے تصدیق کی کہ ڈیرن صحیح کہہ رہا ہے اور وہ فی الواقع یہی سوال یا واقعہ سوچ رہے تھے. ڈیرن نے ہم سب کو مخاطب کیا اور پانچ مختلف جانوروں کے نام دے کر کہا کہ ذہن میں کسی بھی ایک جانور کا نام منتخب کرلیں. جب سب نے سوچ لیا تو اس نے بتایا کہ آپ کی اکثریت نے جس جانور کا نام سوچا ہے وہ 'ٹائیگر' ہے. اس کا یہ دعویٰ بھی درست نکلا اور نوے فیصد لوگو نے ٹائیگر ہی سوچا. باقی دس فیصد لوگ جن میں، میں خود بھی شامل تھا. انہوں نے بھی پہلے ٹائیگر سوچا اور پھر زبردستی ذہن میں نام تبدیل کیا. اس کی جو توجیہہ بعد میں مجھے سمجھ آسکی وہ یہ تھی کہ ڈیرن نے اپنے اشتہار سمیت کئی مقامات پر  ٹائیگر لکھ رہا تھا جسے پڑھ کر ہمارے تحت الشعور میں یہ لفظ غیرمحسوس طریق سے منتقل کیا گیا تھا. اس کے بعد ڈیرن نے پانچ 'فرس بی' نما چیزیں ہماری جانب اچھالی. جس جس کے ہاتھ میں وہ پہنچی انہیں اسٹیج پر بلا لیا گیا اور کہا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے پانچ میں سے کسی بھی ایک پوزیشن پر کھڑے ہو جائیں. اور سامنے رکھے پانچ لفافوں میں سے کسی بھی ایک لفافے کا انتخاب کریں اور اس میں پانچ میں جس کسی جانور کا نام درج ہو اس کا نام اور تصویر بنائیں مگر اسطرح کہ وہ پبلک یا ڈیرن کو نظر نہ آئے. جب پانچوں نے تصاویر بنا لی تو ڈیرن نے حیرت انگیز طور پر بناء دیکھے یہ بتایا کہ کس نے کون سا جانور بنایا ہے؟ یہاں تک کہ کس انداز میں بنایا ہے؟ ساتھ ہی مصوروں نے جانوروں کے جو نام مقرر کیئے تھے وہ بھی بوجھ دیئے.  یہاں تک کہ ایک شخص نے جانور کا نام درج کرتے ہوئے اسپیلنگ غلط لکھی تو اس نے وہی غلط اسپیلنگ بوجھ دی. اس موقع پر پروگرام کا اختتام ہوا اور پیچھے لگی بڑی سینما ٹائپ اسکرین پر ایک گانا چلنا شروع ہوگیا جس میں وہی بن مانس کھڑا تھا. مگر اب جو اس نے ماسک اتارا تو اندر ڈیرن نہیں بلکہ ایک ہیرو ٹائپ انسان موجود تھا. اس نے گا گا کر پورے شو کا ذکر کرنا شروع کیا اور یہ سن کر ہم سب حیرت زدہ رہ گئے کہ اب تک جو جو کچھ ہمارے سامنے پیش آیا. وہ سوالات، وہ لوگوں کا انتخاب، وہ کسی کا اعتراض، وہ کوئی غلطی اور اسی طرح بیشمار اور دوسری چیزیں جنہیں ہم سمجھتے تھے کہ 'ہم' کر رہے ہیں. وہ تو دراصل پہلے سے ہی ہمارے ذہن سے کھیل کر ڈیرن ہم سے کروا رہا تھا. گویا اس پورے وقت مجھ سمیت سینکڑوں لوگ ڈیرن کی سجائی بساط کے معمولی مہرے تھے جو اسی کی مرضی سے چل رہے تھے. یا یوں کہہ لیجیئے کہ ہم سب آدھے ہپناٹز تھے اور آدھے اس کی چال کے سامنے ذہنی غلام. یہ یادگار شو ختم ہوا تو ہم سب ہی تالیاں پیٹ رہے تھے. اسی سرشاری میں پنڈال سے باہر آئے تو مجھے وہ چائنیز شخص نظر آگیا جس نے اسٹیج پر جانور کی تصویر بنائی تھی اور غلط اسپیلنگ لکھی تھی. میں نے اس سے لپک کر دریافت کیا کہ ایسا کیسے ہوا؟ کہ اس نے غلط اسپیلنگ لکھی اور ڈیرن نے اسے پھر بھی بوجھ لیا؟ اس نے بتایا کہ وہ خود اب تک حیرت میں ہے مگر اس کے ذہن کو ہپناسسس سجیشن دیا گیا. میں نے پوچھا کیسے؟ اس نے بتایا کہ جس لفافے پر اسے جانور کی تصویر بنانے کو کہا گیا وہاں اس جانور کی اسپیلنگ ویسے ہی غلط لکھی ہوئی تھی. جب اس نے تصویر بنا کر اس جانور کا نام لکھنا چاہا تو صحیح اسپیلنگ جو اسے معلوم تھی بھول گیا اور وہی غلط اسپیلنگ لکھ ڈالی جو لفافے میں درج تھی. یوں میں اور میرا دوست ہنستے ہوئے اس یادگار شام سے رخصت ہوگئے.
.
====عظیم نامہ====