Saturday, 11 March 2017

شریعت اور ساس سسر کے حقوق


شریعت اور ساس سسر کے حقوق




"شریعت نے ساس سسر کی خدمت کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی ہے"

.
 یہ وہ جملہ ہے جسے آج کل ہر دوسری لڑکی نے حفظ کررکھا ہے. کچھ بڑے مولانا حضرات نے بھی سسرال میں بہو پر ہونے والی زیادتیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس جملے کو خوب تعلیم کیا ہے. مگر جہاں اس سے سے ایک خیر برآمد ہوا کہ مرد یعنی شوہر کو ایسی توقعات نہ رکھنے کا احساس ہوا. وہاں اس سے دوسرا کریہہ تر شر بھی برآمد ہوا اور وہ یہ کہ آج کی عورت یعنی بیوی نے اس رخصت کو بہانہ بنا کر اپنے ساس سسر کی خدمت یا ان کی فرمانبرداری سے منہ پھیر لیا. محترمہ شریعت نے تو آپ کو اس بات کا بھی مکلف نہیں کیا کہ آپ لازمی راہ گیروں، مسافروں، دور کے رشتہ داروں وغیرہ کے کام آئیں. لیکن ہر عملی مسلمان اس سب کا لازمی اہتمام کرتا ہے کیونکہ دین یہی مزاج ہمیں دیتا ہے. یہی تربیت ہمیں فراہم کرتا ہے کہ ہر بوڑھے ہر بچے سے محبت و احترام کا معاملہ کریں. پھر یہ کیسی منطق ہے؟ کہ شوہر کا رشتہ جسے کسی مرد نے نہیں بلکہ آپ کے رب نے اونچے ترین مقام پر رکھا تھا، جس کی اطاعت و موافقت کو بطور بیوی آپ کی پہلی ذمہ داری بنایا تھا .. اسی کے بوڑھے والدین کی خدمت سے آپ یہ کہہ کر انکار کردیں کہ شریعت مجھے اس کا مکلف نہیں کرتی؟ اسی کے والدین سے آپ بدتہذیبی سے پیش آئیں اور ان کے جائز مطالبوں کو بھی جوتے کی نوک پر رکھ لیں؟ کیسے بھول جاتی ہیں آپ ؟ کہ آپ کا شوہر اپنے ماں باپ کا بیٹا بھی ہے، جن کی رضا میں اسکی جنت و جہنم کا فیصلہ چھپا ہے.  جس دین میں پڑوسی کے حقوق اتنے زیادہ ہوں کہ صحابہ رض کو لگنے لگا کہیں وراثت میں بھی ان کا حصہ مقرر نہ کردیا جائے، اس میں ساس سسر کے حقوق نہ ہوں؟عجیب بات ہے. مانا کہ اس مرد کو بطور شوہر آپ کے حقوق کا پورا خیال رکھنا ہے مگر بحیثیت انسان فطری طور پر وہ آپ سے کیسے خوش رہ پائے گا یا آپ کو عزت کیسے دے پائے گا اگر آپ اسکے والدین کو ناراض رکھیں گی اور انکی عزت نہ کریں گی؟ یہ ناممکن ہے. 
.
 ایک عورت اپنے آنسو دیکھا کر بہت جلد مظلومیت کا میڈل خود پر سجا لیتی ہے مگر ایک مرد شدید ذہنی کرب سے گزرتے ہوئے بھی اپنی داخلی کیفیت کے درست اظہار سے محروم رہتا ہے. مجھے غلط نہ سمجھیں، میں سسرال میں کیئے جانے والے مظالم اور حق تلفیوں سے بھی بخوبی آگاہ ہوں اور اس بات کا قائل ہوں کہ اگر والدین گھر کی بہو پر زندگی تنگ کردیں تو مرد پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو الگ گھر فراہم کرے. مگر ساتھ ہی میں پاکستانی معاشرے میں بڑھتے ہوئے اس رجحان سے بھی خوب آگاہ ہوں جہاں ماں باپ کا درجہ دینا تو دور کی بات، ایک لڑکی اپنے ساس سسر کی بات کو اہمیت دینے کو بھی ذہنی طور پر تیار ہی نہیں ہوتی. ساس سسر کا کوئی جائز مطالبہ بھی اسے اپنے 'فریڈم' کے خلاف نظر آتا ہے اور ساس سسر کا اپنی اولاد کو کوئی مشورہ دینا اسے اپنی 'پرائیویسی' کی موت محسوس ہوتا ہے. ہمارے معاشرے میں طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح میں یہ جدید رجحان بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے. اپنے ماں باپ کے زمانے میں جھانک کر دیکھیئے تو جو زیادتیاں یا حق تلفیاں اس زمانے میں ایک عورت کے ساتھ سسرال کی جانب سے ہوتی تھی اس کا عشر عشیر بھی آج نہیں ہوتی مگر ان عورتوں نے ان زیادتیوں کو سہہ کر گھر بنائے اور آج اکثر گھرانوں میں یہی مائیں .. باپوں سے زیادہ مستحکم و زورآور نظر آتی ہیں. لیکن شائد آج کی لڑکیاں کچھ زیادہ عقلمند ہوگئی ہیں ، اسی لئے اپنے مزاج کے خلاف معمولی بات پر بھی ایسا تلملاتی ہیں کہ مانو ان سے جینے کا حق ہی چھین لیا گیا ہو. آخری بات، فی زمانہ آپ کو ایسے بہت سے 'دانشور' مل جائیں گے جو آپ کے ہم آواز ہو کر عورت کی مظلومیت اور مرد کے مظالم کے نعرے لگائیں گے. اب یہ آپ پر ہے کہ آپ کو اپنے مطلب کا 'آدھا سچ' قبول ہے یا پھر تکلیف دہ 'پورا سچ'. 
.
 ====عظیم نامہ====

Thursday, 9 March 2017

دی لائن کنگ

دی لائن کنگ

میں کارٹون موویز آج بھی اتنے انہماک سے دیکھتا ہوں کہ ادرگرد کی کوئی خبر نہیں ہوتی. میرا احساس ہے کہ ان کارٹون موویز میں انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ عام موویز یا ڈراموں سے کہیں زیادہ مثبت پیغامات چھپے ہوتے ہیں. 'دی لائن کنگ' ان کارٹون موویز میں میری پسندیدہ رہی ہے. کل یوٹیوب پر سالوں بعد اسے دوبارہ دیکھا تو لطف ہی آگیا. بہت ممکن ہے کہ آپ میں سے کئی دوست میری اس تحریر پر ہنسیں مگر کوئی بات نہیں ہنسنا صحت کیلئے برا نہیں ہے. کہانی کا آغاز 'موفاسہ' نامی ایک ببر شیر کی بادشاہت کے بیان سے ہوتا ہے. دیکھاتے ہیں کہ موفاسہ کے گھر بیٹا پیدا ہوتا ہے جس کا نام 'سمبا' رکھا جاتا ہے. ایک 'رافیکی' نام کا کاہن نما شاہی لنگور اسے گود میں اٹھا کر پورے جنگل کو دیکھاتا ہے اور سب جانور ادب سے سر جھکا لیتے ہیں. یہ اس بات کا اعلان تھا کہ 'سمبا' مستقبل کا بادشاہ بنے گا. 'موفاسہ' ایک نہایت طاقتور، حکیم اور انصاف پسند بادشاہ ہے. جو اپنے بیٹے 'سمبا' کی مختلف انداز سے تربیت کرتا ہے. ایک موقع پر وہ اسے جانوروں سے محبت اور انصاف کی تلقین کرتا ہے تو سمبا پوچھتا ہے کہ "..لیکن ہم تو انہیں شکار کرکے کھا جاتے ہیں؟". 'موفاسہ' سمجھاتا ہے کہ بیٹا آج تم ان چوپایوں کو کھا جاتے ہو، کل جب ہم شیر مر جائیں گے تو ہمارے جسم مٹی ہو کر گھاس اور چارہ بن جائیں گے، جنہیں یہ چوپائے کھائیں گے. یہی 'زندگی کا دائرہ' ہے جس کا احترام لازم ہے. اسی طرح 'موفاسہ' اپنے لاڈلے 'سمبا' کو غیر ضروری خطرات مولتے دیکھ کر سمجھاتا ہے کہ بہادر ہونے کا مطلب قطعی یہ نہیں کہ تم زبردستی خود کو خطرات میں ڈال لو۔ صرف اسی وقت بہادر بنو جب بہادری کی ضرورت پڑ جائے۔ 'موفاسہ' کا ایک حسد کرنے والا بھائی بھی ہے، جس کا نام 'اسکار' ہے اور جو اپنی شاطر و خبیث فطرت کی وجہ سے خونخوار لکڑبھگوں میں رہنا پسند کرتا ہے. اسکار چونکہ سمبا کا چچا ہے لہٰذا وہ 'سمبا' کو ہلاک کرنے کی سازش کرتا ہے مگر 'موفاسہ' عین وقت پر پہنچ کر اپنے بیٹے کو بچا لیتا ہے. 'اسکار' ایک بار پھر لکڑبھگوں کیساتھ مل کر بڑی سازش کرتا ہے اور 'موفاسہ' کو قتل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے. چھوٹے سے 'سمبا' کو وہ یہ تاثر دیتا ہے کہ اس کا باپ 'موفاسہ' اسکی وجہ سے حادثاتی موت مرگیا ہے. وہ 'سمبا' کو بھاگ جانے کا مشورہ دیتا ہے اور اسکے جاتے ہی اسکے پیچھے لکڑبھگوں کو اسے ہلاک کرنے کیلئے بھیج دیتا ہے. یہ لکڑبھگے اسے ہلاک نہیں کر پاتے اور 'سمبا' بچ نکلتا ہے.
.
'سمبا' احساس جرم دل میں لئے دوسرے جنگل جاکر کچھ نئے دوست بناتا ہے جو اسے 'اکونو مٹاٹا' کا ایک نیا فلسفہ سکھاتے ہیں. جس کے مطابق بے حس ہو کر بناء کسی ٹینشن کے زندگی گزارنی چاہیئے. شکار کی بھی فکر نہ کرو، بلکہ بکھرے ہوئے کیڑے مکوڑے کھالو. 'سمبا' ان ہی کے ساتھ پل بڑھ کر جوان ہوجاتا ہے اور پھر ایک روز اچانک اسکی ملاقات اپنی بچپن کی منگیتر 'نالا' سے ہوجاتی ہے. وہ بتاتی ہے کہ سب کو یہی بتایا گیا ہے کہ تم مر چکے ہو. 'اسکار' نے لکڑبھگوں کیساتھ مل کر بادشاہت سنمبھال رکھی ہے. بربریت سے تمام جنگل تباہ ہوچکا ہے. 'نالا' اسے واپس جا کر اپنا تخت چھیننے کیلئے ابھارتی ہے، جواب میں 'سمبا' انکار کرکے اسے بھی 'اکونو مٹاٹا' کی تھیوری سمجھاتا ہے. 'نالا' غصہ کرکے کہتی ہے کہ بے فکری کا نام لے کر تم اپنی ذمہ داری اور حقیقت سے فرار حاصل نہیں کرسکتے. 'سمبا' تنہائی میں جاکر سوچنے لگتا ہے تو وہاں وہی شاہی کاہن لنگور 'رافیکی' آجاتا ہے جو اس سے اپنے ملنگ انداز میں پرمغز گفتگو کرتا ہے. 'سمبا' کہتا ہے کہ ماضی نے اسے جکڑ رکھا ہے. جواب میں لنگور اس کے سر پر اپنی لاٹھی سے ضرب لگاتا ہے. 'سمبا' تکلیف سے پوچھتا ہے کہ کیوں مارا؟ لنگور کہتا ہے فکر نہ کرو وہ ماضی تھا. 'سمبا' شکایت کرتا ہے مگر یہ تکلیف دہ تھا. اب لنگور اس کے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہتا ہے کہ ہاں ماضی تکلیف دہ ہوسکتا ہے مگر تم دو رویئے اپنا سکتے ہو. یا تو ماضی سے بھاگتے رہو یا پھر ماضی سے سبق حاصل کرو. یہ جملہ کہتے ہی لنگور دوبارہ ضرب لگانے کی کوشش کرتا ہے مگر اس بار 'سمبا' سر جھکا کر خود کو بچا لیتا ہے. گویا 'سمبا' نے ماضی یعنی پہلی ضرب سے سیکھ کر دوسری ضرب سے خود کو بچالیا تھا. اسی دوران اس ملنگ لنگور کے ذریعے 'سمبا' پر کشف کی کیفیت طاری ہوتی ہے جس میں اسے اپنا باپ 'موفاسہ' یہ شکایت کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ 'سمبا' تم نے مجھے بھلا دیا. 'سمبا' چیختا ہے کہ نہیں میں آپ کو کیسے بھلا سکتا ہوں بابا؟ 'موفاسہ' جواب دیتا ہے کہ تم نے اپنی حقیقت بھلا دی یعنی مجھے بھلادیا. اس کشف کے بعد 'سمبا' واپس اپنے آبائی جنگل جاتا ہے اور 'اسکار' سے اسکا خونی معرکہ ہوتا ہے. جس کے دوران 'اسکار' یہ اعتراف بھی کرلیتا ہے کہ 'موفاسہ' کا قاتل وہی ہے. 'اسکار' کا انجام دردناک ہوتا ہے کہ اس کے ساتھی سینکڑوں لکڑبھگے اس کی مطلب پرستی سے ناراض ہوکر اس پر حملہ کردیتے ہیں اور اسے کھا جاتے ہیں. 'سمبا' اپنے باپ کا تخت بلاخر سنبھال لیتا ہے اور ایک بار پھر جنگل میں خوشحالی اور انصاف لوٹ آتا ہے. مووی کا اختتام اس پر ہوتا ہے کہ 'سمبا' اور 'نالا' کے گھر بیٹی/بیٹا پیدا ہوا ہے. جسے وہی ملنگ شاہی لنگور 'رافیکی' گود میں اٹھا کر سارے جنگل کو دیکھاتا ہے اور سب جانور احترام سے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں.
.
====عظیم نامہ====

Tuesday, 7 March 2017

میری ایک جذباتی سیاسی تحریر


میری ایک جذباتی سیاسی تحریر 


.
وہ احباب جو زرداری، نواز شریف، الطاف حسین یا کسی اور لیڈر کے دن رات گن گاتے رہتے ہیں. ان لیڈروں کی ہر جائز ناجائز بات کا دفاع کرنا خود پر فرض سمجھتے ہیں اور ان پر کسی بھی قسم کی تنقید سن کر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں. دل چاہتا ہے کہ ان سے کہوں کہ اگر آپ اپنے لیڈر کو اتنا ہی پرفیکٹ اور نیک تسلیم کرتے ہیں تو دو رکعت نفل پڑھ کر یا صرف ہاتھ اٹھا کر دل سے  رب کریم سے دعا کریں کہ وہ آپ کی اولاد کو اسی لیڈر جیسا بنادے اور آپ کا حشر آخرت میں اسی لیڈر کے ساتھ کرے. اگر آپ ایسی دعا کر سکتے ہیں تو کم از کم آپ اپنے قول و فعل میں سچے ہیں. آپ اپنے کہے میں صحیح یا غلط تو ہوسکتے ہیں مگر جھوٹے نہیں. لیکن  اگر آپ ایسی کوئی دعا اس لئے نہیں کرتے کہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کا من پسند لیڈر کرپٹ ہے یا اس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں تو امکان ہے کہ روز قیامت آپ کو پیشانی کے بالوں سے پکڑا جائے اور آپ کو ایک مجرم کا دست بازو بننے پر اسی کا ساتھی شمار کیا جائے. 
.
میں جانتا ہوں کہ وطن عزیز میں ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے لہٰذا ہمیں کسی بہتر الو کا ہی انتخاب کرنا ہوگا. مگر خدا کے لئے نواز ہو یا عمران، الطاف ہو یا فضل الرحمٰن کسی کی بھی شخصیت پرستی اختیار نہ کیا کریں. افسوسناک امر یہ ہے کہ فیس بک پر بھی کچھ ذہن ساز لکھاری اسی شخصیت پرستی میں مبتلا نظر آتے ہیں. اتنا حوصلہ رکھیں کہ جہاں کسی کی اچھی بات پر تعریف کرسکتے ہوں وہاں اسی کی کسی بری بات پر کھل کر تنقید بھی کرسکیں. عجیب ماحول بنالیا ہم نے کہ یہاں یا تو ایک لیڈر کو موسیٰ کی مسند پر بیٹھا دیا جاتا ہے یا پھر سیدھا فرعون کا تمغہ دیا جاتا ہے. بیچ کا کوئی امکان ہی نہیں .. یہاں ایسا کوئی تصور نہیں ہے کہ ایک شخص کی بیک وقت کچھ باتیں غلط اور کچھ صحیح تسلیم کی جایئں .. یہاں حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے کا رواج نہیں ہے. یہاں حق و باطل کی کسوٹی انصاف نہیں عقیدت بن گئی ہے. یہاں اگر آپ نے کسی لیڈر کو حق کہنا ہے تو اسکے باطل کو بھی حق کہنا ہے، اور اگر کسی کو باطل پکارنا ہے تو اسکے حق کو بھی باطل پکارنا ہے. مجھ سے واقف لوگ یہ بات خوب جانتے ہیں کہ میں نے اگر آج تک کسی لیڈر کی کھل کر حمایت کی ہے، اسکے حق میں تحریریں لکھی ہیں تو وہ عمران خان ہے. ایک پرانی تحریر کا لنک نمونے کے طور پر پہلے کمنٹ میں درج کررہا ہوں. میں آج بھی خان صاحب کی کچھ باتوں سے ناراض ہونے کے باوجود ان سے محبت محسوس کرتا ہوں، ان سے امید رکھتا ہوں مگر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی پے درپے حماقتوں کا وکیل بن کر دفاع کرتا رہوں؟ ان پر تنقید نہ کروں؟ خان صاحب نے کوئی ایک بیوقوفی نہیں کی ہے بلکہ سیاسی و شخصی حماقتوں کی ایک طویل فہرست مرتب کردی ہے. جن میں سے کوئی نہ کوئی ہر دوسرے روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہے. جب آپ نے خود کو قومی لیڈر  بنا کر پیش کردیا تو اب آپ پبلک پراپرٹی ہیں. جس طرح کرپشن کرنے والے کو کرپٹ کہا جاتا ہے ویسے ہی بیوقوفیاں کرنے والے کو بیوقوف پکارا جائے گا. نواز لیگ، انصافی کارکنان اور تمام جماعتوں کے اراکین میں یہ جرأت ہونی چاہیئے کہ وہ اپنے من پسند لیڈر پر بھی جہاں وہ غلط ہے تنقید کرسکیں. ساتھ ہی اپنے مخالف کی تنقید کو کھلے ذہن سے سننے کی ہمت پیدا کریں. یہ ہوگا تو حقیقی شعور بیدار ہوسکے گا. یہ نہیں ہوگا تو شعور کے نام پر صرف دھینگا مشتی ہوگی. 
.
====عظیم نامہ====



Sunday, 5 March 2017

فیس بک کو ہلکا نہ لیں




فیس بک کو ہلکا نہ لیں


.
 فیس بک اپنی سوچ کے اظہار کیلئے ایک انتہائی طاقتور ذریعہ بنتا جا رہا ہے. پہلے عظیم نامہ کے عنوان سے میری تحریر کچھ احباب پڑھتے تھے، پھردیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں لوگ پڑھنے لگے، سینکڑوں سے تعداد ہزاروں تک چلی گئی، پھر معلوم ہوا کہ کچھ معروف فیس بک پیجز اور گروپس بھی ان تحریروں کو شیئر کررہے ہیں، پھر کچھ بڑی اردو ویب سائٹس نے تحریروں کو شائع کیا، پھر کچھ رسالوں نے تحریروں کو شامل کیا، پھر ملک کے نمائندہ اخبارات نے کئی تحریروں کو خود ہی چھاپ دیا، پھر سیک سیمینار لاہور میں مجھے بطور لکھاری خطاب کا موقع دیا گیا، پھر کچھ اخبارات نے مجھے مستقل کالم نگار بننے کی دعوت دی (جو تاحال میں نے قبول نہیں کی)، پھر بڑے صاحبان علم نے میری کچھ تحریروں کو اپنی کتب میں جگہ دی (جو منظر عام پر بہت جلد آرہی ہیں)، پھر میری تحریروں اور کچھ ویڈیوز کو دیکھ کر دو ٹی وی چینلز کے متعلقین نے خود رابطہ کیا (امید ہے کہ مستقبل قریب میں کوئی ترتیب بن جائے)
.
 یہ سب مجھے بناء کسی اضافی کوشش کے، صرف فیس بک پر تحریریں لکھنے سے حاصل ہورہا ہے. حالانکہ میں پوری دیانتداری سے اور بناء کسی انکساری کے یہ بات بخوبی جانتا ہوں کہ حد سے حد میں ایک اوسط درجے کا لکھاری ہوں اور مجھ جیسے بلکہ مجھ سے کہیں بہتر بہت سے لکھاری اسی فیس بک پر موجود ہیں. اس فیس بک نے عوام میں موجود ہر اس سوچنے والے ذہن کو ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کردیا ہے جو اظہار کی صلاحیت و قوت رکھتا ہے. اب یہ آپ پر ہے کہ اچھا لکھ کر اپنا لوہا منوائیں.
.
 ====عظیم نامہ====

ایک بزرگ کی دو نصیحتیں



ایک بزرگ کی دو نصیحتیں



۔
 کبھی تھوڑے سے مزہ کیلئے گناہ نہ کرنا ۔۔ کیونکہ مزہ جلد مٹ جائے گا مگر گناہ آخرت تک تمہارے ساتھ رہے گا۔
۔
 کبھی تھوڑی سی مشقت کیلئے ثواب نہ چھوڑنا ۔۔ کیونکہ مشقت جلد مٹ جائے گی مگر ثواب آخرت تک تمہارے ساتھ رہے گا۔
۔
 گویا ہر گناہ کے کرنے میں لطف ہے تب ہی تو ہم جانتے بوجھتے اس کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ مگر یہ لطف بہت تھوڑا سا اور عارضی ہے جبکہ اس کے عیوض ملنے والا گناہ بناء توبہ کے دائمی ہے۔ لہذا میرے دوست بدنظری سمیت کسی بھی گناہ کو لطف کے سبب کبھی نہ کرنا۔ 
۔
 اس کے برعکس تہجد میں اٹھنا ہو، فجر میں مسجد کیلئے گھر سے نکلنا ہو یا پھر کسی عزیز کی عیادت کو جانا ہو۔ ہر نیکی میں ایک مشقت ہے۔ مگر یہ مشقت تھوڑی اور عارضی ہے جبکہ اسکے عیوض حاصل ہونے والا اجر دائمی ہے۔ لہذا میرے رفیق عبادات ہوں یا معاملات، کسی بھی نیکی کے موقع کو مشقت کے سبب کبھی نہ چھوڑنا۔ 
۔
 ====عظیم نامہ====

Friday, 3 March 2017

وہ 'ایک' صلاحیت


وہ 'ایک' صلاحیت 



ہم تین بھائی ہیں، جن میں سب سے چھوٹا میں ہوں. میرے سب سے بڑے بھائی اور میں اسپورٹس میں کم و بیش ایک ہی جیسے تھے مگر منجھلا یعنی مجھ سے بڑا بھائی اپنی نوجوانی میں غیرمعمولی کرکٹر تھا. کرکٹ کا شوق بلکہ جنون وہ لے کر پیدا ہوا تھا. گھر والے بتاتے ہیں کہ تمام کھلونے چھوڑ کر اسے اپنے پاس بیٹ بال چاہیئے ہوتا. بچے پہلا لفظ اللہ بولتے ہیں یا اماں بولتے ہیں یا ابا بولتے ہیں. میرے اس بھائی نے زندگی کا پہلا لفظ 'ٹی بال' یعنی ٹینس بال بولا تھا. سوتے ہوئے بھی کرکٹ بال اپنے ہاتھوں میں بھینچ کر رکھتا اور اگر کوئی ہاتھ سے نکالنا چاہے تو بیدار ہوجاتا. جب تھوڑا بڑا ہوا تو اپنی سے دگنی عمر کے لڑکے اسے بیٹنگ کیلئے ساتھ رکھتے. جوان ہوا تو اسے کھیلنے کے پیسے آفر ہونے لگے. ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایک دن میں پانچ مختلف ٹیموں کیلئے بیٹنگ کرتا. ایک جگہ بیٹنگ پوری ہو جائے تو دوسری ٹیم اسے لے جانے کیلئے منتظر ہوتی اور دوسری ٹیم کیلئے بیٹنگ کر لے تو تیسری انتظار کر رہی ہوتی. ٹیمیں اس سے صرف بیٹنگ کرواکر گیارہ کی جگہ دس کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنا گوارہ کرلیتی. اس کے برعکس میں کرکٹ کا شوقین ضرور تھا مگر چاہ کر بھی اس جیسا اسٹائلش کھیلنے سے قاصر تھا. میری اور بھائی کی شکلیں ان دنوں خاصی ایک سی لگتی تھیں، قد کاٹھ بھی ایک سا تھا لہٰذا اکثر ایسا ہوتا کہ کچھ اجنبی مجھے کھیلتا دیکھا کر میدان میں تماشائی بن کر بیٹھ جاتے کہ فہیم کا بھائی عظیم کھیل رہا ہے، ضرور اچھا کھیلے گا. پھر چاہے میں کتنا ہی اسکور کیوں نہ کرلوں؟ وہ یہ ہی کہتے نظر آتے کہ اس میں اپنے بھائی جیسی بات نہیں ہے.
 :)
.
 اخبارات جب کبھی کسی میچ کی روداد میں بڑے بھائی کی شاندار کارکردگی کا ذکر کرتے تو وہ مجھے دیکھا کر مجھے چھیڑتا کہ کبھی تمہارا نام بھی آیا ہے؟ خود کو ملنے والے میڈل اور ٹرافیاں بھی وہ مجھے دیکھا کر ایسے تنگ کرتا جیسے بڑے بھائی چھوٹے بھائیوں کو کیا کرتے ہیں. اس دوران میں خوب جان لگاتا رہا کہ اس جیسا کھیل سکوں لیکن نہیں کر پایا. پھر کچھ والدین کی ترغیب نے اور کچھ حالات کے الٹ پلٹ نے مجھے یہ بات سمجھائی کہ لازمی نہیں کہ بھائیوں میں ایک ہی جیسی صلاحیت ہو. مجھ پر یہ واضح ہونے لگا کہ غیرمعمولی صلاحیتیں تو مجھ میں بھی موجود ہیں مگر وہ مختلف ہیں. اللہ تعالیٰ نے مجھے انداز بیان کا سلیقہ عطا کیا تھا جس پر محنت کرکے میں نے جلد ہی اپنا مقام پیدا کرلیا. اسکول، کالج، یونیورسٹی لیول پر میرے ڈنکے بجنے لگے. شہری اور ملکی سطح پر قریب قریب تمام نمائندہ اعزازات میں نے اپنے نام کرلیئے. اخبارات اور ریڈیو پر کئی انٹرویوز ہوئے. ٹی وی پر کئی بار ذکر ہوا. یونیورسٹی نے فیسیں معاف کر دی اور چینلز طرح طرح کی آفرز دینے لگے. کمرہ ٹرافیوں، میڈلز اور انعامات سے بھر گیا. اب میں اپنے بھائی کو چھیڑتا کہ کبھی تمہارا بھی اتنا بڑا انٹرویو شائع ہوا ہے؟ اور وہ محبت سے ہنس دیتا. 
.
 اپنی اس روداد کو آپ سے بانٹنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ ہر انسان کوئی نہ کوئی ایسی صلاحیت ضرور رکھتا ہے جو اسے اکثریت سے ممتاز کرسکتی ہے مگر افسوس کہ ہم کبھی خود میں اس صلاحیت کو کھوجتے ہی نہیں. بلکہ کسی دوسرے شخص کی صلاحیت کا خود سے زبردستی تقابل کرتے رہتے ہیں. خود میں جھانک کر دیکھیئے کہ وہ کون سی 'ایک' چیز ہے جو قدرت کے تحفے کی طرح آپ میں ودیعت کی گئی ہے. اسی طرح میرے والد ایک انتہائی ٹیکنیکل ذہن والے انسان ہیں جو الیکٹرک سے لے کر پلمبنگ تک کا پیچیدہ ترین کام بڑی آسانی سے بناء کسی باقاعدہ ٹریننگ کے کرنے پر قادر ہیں. شائد میں نے اپنے دونوں بھائیوں سے زیادہ ان کے ساتھ کھڑے ہوکر کام کیا ہے مگر ان کی آدھی مہارت بھی حاصل نہیں کر پایا. آج بھی چھوٹا سا الیکٹرک کا کام بھی مجھے پریشانی میں ڈال دیتا ہے. اسکے بلکل برعکس جب میں کسی فلسفے، ادبی یا مذہبی نششت و کلاس میں ہوتا ہوں تو بقیہ حاضرین سے کہیں زیادہ تیزی سے بات کو سمجھ جاتا ہوں الحمدللہ. ایک بار کوئی اچھی نظم یا کلام سن لوں تو بناء کوشش مجھے حفظ ہوجاتا ہے. گویا وہ عظیم جو ٹیکنکل معاملات میں مشکل سے گزارا کررہا ہوتا ہے وہی عظیم ادبی و تحقیقی معملات میں باآسانی آگے نکل جاتا ہے. آپ بھی خود سے ملاقات کیجیئے اور اگر صاحب اولاد ہیں تو اپنی اولاد کو اسکی 'ایک' انمول صلاحیت ڈھونڈھنے میں مدد کیجیئے. شاعر غالب کو سائنسدان آئین اسٹائن اور باکسر محمد علی کو فلسفی سقراط بنانے کی کوشش حماقت ہے. 
.
 ====عظیم نامہ====

Thursday, 2 March 2017

پاکستان ایک ممکنہ سپر پاور



پاکستان ایک ممکنہ سپر پاور 


.
اللہ پاک مجھے بطور نعمت اولاد سے نوازتے ہیں. میں اس اولاد کی ٹھیک پرورش نہیں کرتا اور نتیجہ میں وہ بگڑ کر غنڈہ یا بدمعاش بن جاتی ہے. اب کیا یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ اولاد نعمت تھی ہی نہیں ؟ یا بات یوں ہوگی کہ اللہ نے تو نعمت سے نوازا تھا مگر میں نے کفران نعمت کیا جس کا نتیجہ تخریب میں نکلا. پاکستان اللہ کی ایک عظیم ترین نعمت ہے مگر ہم نے کفران نعمت کیا ہے، جس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں. ہم نے ان کرپٹ حکمرانوں کو اپنے سر پر مسلط ہونے دیا ہے جو قیام سے لے کر اب تک باری باری اس ملک کی بوٹیاں بھنبھوڑ رہے ہیں. سیاستدان، وڈیرے، بیوروکریٹس، افواج، میڈیا، قانون ساز  ادارے سب نے ستر سالوں سے یہی کیا. جس کا جبڑا جتنا بڑا تھا، وہ اتنی ہی بڑی بوٹی اتارتا رہا. لیکن مجھے آپ جذباتی احمق کہیئے یا ذہنی مریض، میں آج بھی پورے اعتماد سے یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ وقت قریب ہے جب ان شاء اللہ یہ ملک ترقی کی بلندیاں چھوئے گا. گو بحیثیت مسلمان ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ مسلم ممالک میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کا قیام اسلام کے نام پر ماہ رمضان کی ستائیسویں شب کو ہوا مگر میری اس ملک سے وابستہ خوش گمانی کی بنیاد فقط روحانی پیشن گوئی نہیں بلکہ زمینی حقائق ہیں. کرپشن اور لاقانونیت اپنی جگہ سچ ہے مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ اس خطہ زمین اور اس میں بسنے والی قوم کو رب کریم نے ایسی خصوصییتوں سے مالامال کیا ہے جو اسے منفرد بنادیتے ہیں. پاکستان کی اسٹریٹجک لوکیشن ایسی ہے کہ دنیا میں طاقت کے توازن کو قابو میں کرنے کیلئے اسے ساتھ لے کر چلنا لازمی ہے. یہی وجہ ہے کا امریکہ، انگلینڈ وغیرہ کے اخبارات میں پاکستان کا ذکر اچھے برے انداز سے کسی نہ کسی بہانے ہوتا ہی رہتا ہے، حالانکہ بہت سے ممالک دنیا کے منظر نامے میں ایسے گمنام ہیں کہ وہاں ہوئے بڑے واقعات بھی ان اخبارات میں اپنی جگہ نہیں بنا پاتے. پاکستان کا جغرافیہ ایسا ہے کہ اگر کسی وقت تجارتی راستہ محفوظ ہو جائے تو وہ ترقی جسے حاصل کرنے میں دوسرے ممالک کو پچاس پچپن سال لگے ہیں، وہی ترقی یہ پانچ سے دس سال میں حاصل کرسکتا ہے.  پاکستان کی سرزمین لوہے، کوئلے، نمک سمیت معدنیات و دیگر وسائل سے بھرپور ہے اور امکان ہے کہ اگر صحیح طور پر کھدائی یا تحقیق کی جائے تو توقع سے کہیں زیادہ خزائن برآمد ہونگے. 
.
پاکستان اپنی کرپٹ و بزدل قیادت کی وجہ سے دنیا میں مغلوب و مجبور ضرور نظر آتا ہے مگر یہ ناقابل تردید سچ ہے کہ وہ دنیا کی ساتویں اور اسلامی ممالک کی پہلی ایٹمی قوت ہے، ایسی جدید فوج رکھتا ہے جس کی پوری دنیا معترف ہے، ایسی انٹلیجنس اجینسی کا مالک ہے جسے سی آئی اے، موساد وغیرہ سے بھی اپر پہلے مقام پر رکھا جاتا ہے، ایسی میزائل ٹیکنالوجی سے مزین ہے جو اکثر ترقی یافتہ ممالک کو بھی حاصل نہیں، ٹینک، آبدوز، جہاز سمیت ہر دفاعی ساز و سامان نہ صرف خود بنارہا ہے بلکہ دیگر ممالک کو بیچ بھی رہا ہے. گویا یہی فوج جس پر آج کچھ شہریوں کی جانب سے طنز و طعنہ کیا جاتا ہے، کل پاکستان کی معاشی ترقی کے ساتھ اسکے دفاع کی مظبوط ترین فوج بن سکتی ہے. جو نہ صرف ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے بلکہ دیگر ممالک پر بھی کسی زیادتی کے خلاف موثر زور ڈال سکے.  پاکستانی قوم کا شمار بجا طور پر دنیا کی ذہین ترین اقوام میں کیا جاسکتا ہے. یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ ساری دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی کمیونٹی موجود ہے وہاں نمائندہ ڈاکٹروں سے لے کر مہنگے ترین وکیلوں تک، کامیاب ترین تاجروں تک، زہین ترین سیاستدانوں تک دوسری اقوام سے کہیں زیادہ پاکستانی بیٹھے نظر آتے ہیں. یہ بھی درست ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں دو نمبر کام ہورہے ہیں ان میں بھی اکثر سب سے نمایاں کوئی نہ کوئی پاکستانی نام ہوتا ہے مگر اسکی وجہ بھی یہی غیر معمولی ذہانت ہے جو تعمیری و تخریبی دونوں کاموں میں ایک پاکستانی کو سب سے اپر لے آتی ہے. کتنے سارے مسلم مالک دنیا میں موجود ہیں مگر میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ مغربی ممالک میں موجود مساجد، دعوتی مراکز، چیریٹی آرگنئزیشن اور مسلم فلاحی اداروں کا دورہ کیجیئے. آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ قریب قریب تمام ادارے یا تو کوئی پاکستانی براہ راست چلا رہا ہے یا اس ادارے کی ٹاپ مینجمنٹ کا لازمی حصہ ہے. یہاں بھی وہی پاکستانی ذہانت کا کلیہ ہے کہ جہاں دینی مثبت کاموں میں پاکستانی نمایاں ہیں وہاں تفرقہ و دیگر منفی کاموں میں بھی پاکستانی ہی سب سے اپر نظر آئیں گے. حالانکہ کر سب رہے ہیں مگر ذہانت کی وجہ سے نظر پاکستانی سب سے زیادہ آتے ہیں. اسی طرح کس میں جرات ہے جو یورپ سے لے کر عرب ممالک تک پاکستانیوں کے جفاکش محنتی ہونے کی گواہی نہ دے؟ 
'
پاکستانی قوم کے بحیثیت مجموعی "اسپورٹس نیشن" ہونے میں کس کو شبہ ہوسکتا ہے؟ حکومتی سپورٹ نہ ہونے کے باوجود اسکواش میں تیس برٹش اور چودہ بار ورلڈ اوپن ٹائٹل جیتنے والے پاکستانی ہی ہیں، ہم ہی ہیں جنہوں نے چار بار ہاکی کا ورلڈ کپ جیتا، ١٩٩٢ میں کرکٹ کے ورلڈ چیمپئن بنے، اسنوکر کا ورلڈ کپ جیت لائے، شطرنج میں انٹرنیشنل ماسٹر کہلائے، ہمارے کوہ پیماؤں نے بلند ترین چوٹیاں سر کی، حال ہی میں باڈی بلڈنگ کا ورلڈ ٹائٹل جیتا، انسانی دوڑ اور باکسنگ وغیرہ کے مقابلوں میں تمغے جیتے. یہ سب ہم نے بناء ذرائع اور مناسب ٹریننگ کے حاصل کیا. سوچیئے جو کل ہمیں کچھ سپورٹ حاصل ہو تو کیا کریں گے؟ ہمارا تو حال یہ ہے کہ آج گراؤنڈز نہ ہونے کے سبب اگر عالمی مقابلوں میں فٹبال نہیں کھیل سکتے تو ورلڈ کپ میں استعمال ہونے والی فٹبال ہم ہی بناتے ہیں. اس کے علاوہ بھی کبڈی، باکسنگ، آرم ریسلنگ، نشانے بازی، پولو سمیت معلوم نہیں کون کون سے کھیل ایسے ہیں جن میں پاکستانیوں نے دنیا بھر میں نام پیدا کیا ہے. یہ سب کامیابیاں اس قوم میں موجود صلاحیتوں کی عکاس ہیں. 
.
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا میں پاور بننے کیلئے فوج یا دیگر کسی بھی شعبہ سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ اس ملک کی معیشت مظبوط ہو. گوادر اور سی پیک معائدے کی صورت میں آج وطن عزیز کو قدرت نے ایک ایسا زبردست موقع دیا ہے جس سے صرف پاکستان ہی کا نہیں پورے خطے کا نقشہ بدل سکتا ہے. یہ کوئی دیوانے کا خواب نہیں بلکہ فی الواقع گیم چینجنگ پروجیکٹ ہے. عالمی سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے والے احباب بخوبی آگاہ ہیں کہ پچھلی ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ سے امریکہ سمیت بہت سے ممالک اس پروجیکٹ کو روکنے کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں. سب سے زیادہ اذیت میں اس وقت انڈیا ہے جو جلتے توے پر بیٹھا ہے. انڈین پرائم منسٹر اور صدر سے لے کر آرمی چیف تک ان گنت بار گوادر کو روکنے کا عندیہ دیتے رہے ہیں. وہ بخوبی جانتا ہے کہ گوادر اور سی پیک کی کامیابی دراصل اس کے ایشین ٹائیگر بننے کے خواب کو چکنا چور  کردے گی اور طاقت کے توازن کو پاکستان کے حق میں لے جائے گی. اب کبھی وہ امریکہ کو دہائیاں دیتا ہے، کبھی پروپیگنڈا کمپین چلاتا ہے، کبھی سرجیکل اسٹرائیک کے ڈرامے کرتا ہے اور کبھی پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی سفارتی کوششیں کرتا ہے. حد تو یہ ہے کہ انڈیا نے تگڑا سرمایہ پیش کرکے ایران کے ساتھ چاھبار پورٹ بنانے کا اعلان کیا ہے، جس کا نمایاں مقصد گوادر کی اثر انگیزی کم کرنے کی کوشش ہے. دنیا کے کم و بیش تمام مبصرین چائنا کو مستقبل کی سپر پاور قرار دیتے ہیں اور گوادر کو 'چائنیز پرل' یعنی 'چین کا موتی' کہہ کر پکارتے ہیں. ظاہر ہے امریکہ یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ چائنا مزید مظبوط ہو مگر باوجود کوشش اس کا بس چین پر نہیں چل پایا ہے اور وہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے. امریکہ چائنا کو روکنے کیلئے انڈیا کو مظبوط کرتا آیا ہے تاکہ اسکی معاشی ترقی کو ممکنہ حد تک روک سکے مگر دوسری جانب چائنا بھی بیوقوف نہیں ہے وہ انڈیا پر روک لگانے اور اسے الجھائے رکھنے کیلئے ہمیشہ سے پاکستان کو زبردست مدد فراہم کرتا رہا ہے. امریکہ ویسے تو اپنے باپ کا بھی سگا نہیں رہا ہے مگر پاکستان کو وہ ہمیشہ کبھی طاقت کا رعب دیکھا کر اور کبھی امداد کا لالی پاپ دے کر اپنے اشاروں پر چلاتا آیا ہے. ٹرمپ جیسے جنونی کے آنے کے بعد امریکی منافقت کی چادر چاک ہوگئی ہے اور لیاقت علی خان کے دور کے بعد آج پہلی بار یوں محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان امریکہ کی جھولی سے نکل رہا ہے. سونے پر سہاگہ یہ کہ ٹرمپ نے انڈیا کی محبت میں جو بیانات دیئے ہیں، اسکے بعد پاکستان کو امریکہ سے کوئی خاص امید باقی نہیں رہی ہے. 
.
سب واقف ہیں کہ امریکہ کو جن دو ممالک سے سب سے زیادہ خطرہ رہتا ہے ، وہ ہیں روس اور چائنا. لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے روس اور چین دونوں کے ساتھ مل کر اپنا کیمپ امریکہ سے الگ کرلیا ہے. سی پیک اسی کا حصہ ہے. افغانستان میں روس اپنی شکست کا ذمہ دار بجا طور پر پاکستان کو مانتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان سے اپنی فوجی ہزیمت کے بعد کبھی مثبت تعلقات نہیں رکھے. یہ پہلی بار ہے کہ روس نے ماضی بھلا کر پاکستان سے ہاتھ ملا لیا ہے، اس کا ایک اور بڑا ثبوت حال ہی میں کی جانے والی روسی اور پاکستانی فوج کی پاکستان کی سرزمین پر مشترکہ مشقیں ہیں. روس کے اس اقدام نے انڈیا کا جس درجے میں دل توڑا ہے، اس کا اندازہ انڈین چینلز کے تجزیاتی پروگرامز دیکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے. زرداری کے دور حکومت میں امریکہ اور انڈیا گوادر پروجیکٹ کو التواع میں ڈالنے میں کامیاب ہوگئے تھے مگر پچھلے سالوں میں پاکستان آرمی نے براہ راست چین کو گوادر کی تعمیر اور تعمیر کی یقین دہانی کرائی ہے. جس کے بعد اب اس پروجیکٹ کو سیاسی دباؤ سے روکنا ممکن نہیں رہا ہے. پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ابھی بھی التواع کا شکار ہے مگر اب ایران کی جانب سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے اشارے دوبارہ مل رہے ہیں. اگر یہ منصوبہ بنا تو چائنا اور ایران کو جو فائدہ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے مگر پاکستان کی بھی انرجی کی تمام ضروریات مکمل ہوسکیں گی.  گوادر پورٹ کو چلانے کیلئے جب آغاز میں مختلف ممالک نے ٹینڈرز پیش کیئے تھے تو پاکستان نے دبئی پورٹ ورلڈ کو قبول کیا تھا مگر انڈیا نے دباؤ ڈال کر اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا تھا. اب چین نے اپنی ہی 'چائنیز اوور سیز پورٹ اتھارٹی' کو گوادر کی ذمہ داری سونپ دی ہے جسے چھیالیس بلین ڈالرز کی خطیر رقم سے کھڑا کیاجارہا ہے. لہٰذا انڈیا یا امریکہ اب اسے روکنے سے قاصر ہیں. گوادر پاکستان کی گہرے گرم پانی کی پہلی پورٹ ہوگا جو دنیا میں گنتی کے چند ممالک کو حاصل ہے اور جسے چائنا کو ٢٠٥٩ تک ٹھیکے پر سونپ دیا گیا ہے، اسکے بعد یہ پاکستان نیول بیس میں تبدیل کردینے کا امکان ہے. دھیان رہے کہ کراچی پورٹ گہرے پانی کی پورٹ نہیں ہے. گہرے پانی کی پورٹ میں جہاز کو پانی میں کھڑے رہتے ہوئے آف لوڈ کیا جاسکتا ہے، جس سے وقت و سرمایہ دونوں محفوظ ہوتے ہیں. گوادر کے ذریعے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟ اسکے بارے میں عالمی سطح پر بہت سی قیاس آرائیاں موجود ہیں. مگر جو بات حتمی ہے وہ یہ کہ چائنا سمیت کئی دیوقامت تجارتی حجم والے ممالک گوادر کو تیل سمیت دیگر اشیاء کیلئے تجارتی روٹ کے طور پر استعمال کریں گے جس سے پاکستان کو کروڑوں ڈالرز کی مستقل کمائی حاصل ہوگی، لاکھوں نوکریاں اور کاروباری سرگرمیاں پیدا ہونگی. 
.
اب چونکہ امریکہ اور انڈیا یہ جان چکے ہیں کہ اس سی پیک کو روکنا ممکن نہیں ہے لہٰذا اب ان کا لائحہ عمل یہ ہے کہ پاکستان کے حالات جو پہلے ہی خستہ ہیں، انہیں آخری حد تک خراب کردیا جائے. انڈیا اب اپنے آقا امریکہ کے آشیرباد سے پانچ طریقوں سے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے. پہلا طریقہ یہ کہ پاکستان کو اسکی ہندوستانی سرحد پر حالت جنگ یعنی ریڈ الرٹ میں کسی نہ کسی بہانے سے رکھا جائے تاکہ فوج کی توانائی ملک کے اندر دیگر سرگرمیوں میں اچھی طرح استعمال نہ ہوسکیں. دوسرا طریقہ انڈیا کا وہ خواب ہے کہ امریکہ کی طرح وہ بھی پاکستان میں سرجیکل اسٹرایکس کرسکیں، اس طریقے کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت تو یہ نہ کرسکے البتہ اسی سرجیکل حملے کا ایک جھوٹا ڈرامہ رچا کر انڈیا پوری دنیا میں لطیفہ بن گیا. تیسرا طریقہ امداد اور انٹلیجنس کے ذریعے پاکستان مخالف جماعتوں کو ملک کے اندر مدد پہنچانا ہے. بلوچ لبریشن آرمی سمیت دیگر تنظیموں کو اس وقت انڈیا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور ان کے لیڈر انڈیا میں بیٹھ کر بھی آپریٹ کررہے ہیں. امریکی سی آئی اے کا ریمنڈ ڈیوس ہو یا بلوچستان میں انڈین راء کا پکڑا جانے والا کلبھوشن یادو. سب کا مشن پاکستان کی 'پراکسی وار' کے ذریعے تباہی ہے. چوتھا طریقہ افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کا فروغ ہے. انڈیا اس وقت افغانستان میں جتنا مظبوط ہے، اس کا آدھا مظبوط بھی وہ تاریخی طور پر کبھی نہیں رہا. پھر پاکستان نے اپنی حماقتوں کے سبب بھی اپنے افغان بھائیوں کو اپنا دشمن بنالیا ہے. حامد کرزئی جیسے سکہ بند امریکی چمچے اسوقت طاقت میں ہیں جو پاکستان کے قبائلی علاقوں کی نفسیات سے بھی خوب واقف ہیں لہٰذا پاکستان کو مسلسل اس محاذ پر ہزیمت کا سامنا ہے. حالیہ بم دھماکوں سے یہ محاذ ایک بار پھر واضح ہوگیا ہے. پاکستان کی جانب سے حال ہی میں افغان بارڈر کو سیل کرنا اسی کے تدارک کی پاکستانی کوشش ہے. پانچواں طریقہ جو اپنایا گیا ہے اسے 'فورتھ جنریشن وار' کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، جس میں دفاعی اداروں اور عوام کے مابین نفرت و دوری پیدا کی جاتی ہے. اس کے لئے سوشل میڈیا سمیت حقوق نسواں یا انسانی اداروں کی آڑ لے کر امریکہ اور انڈیا ان افراد کو فنڈ کررہا ہے جو عوام میں نفرت، غصہ اور مایوسی کو ہوا دے سکیں. افسوس یہ بھی ہے کہ بناء معاوضہ لئے بھی ایسے لوگ بکثرت دستیاب ہیں جو پاکستان کے خلاف دن رات زہر افشانی کرنے کو اپنا مشن بنائے ہوئے ہیں. ایک امکان یہ بھی ہے کہ ابھی حالیہ طور پر جن سوشل میڈیا پر متحرک افراد کو گرفتار یا غائب کیا گیا ہے ان کا شمار اسی فورتھ جنریشن وار کے متعلقین میں ہو. گو یہ فقط ایک امکان ہے. اسکے علاوہ بھی مذہبی منافرت کے فروغ اور ثقافتی یلغار سمیت کئی ایسے زاویئے ہیں جن پر دشمن پوری تندہی سے کام کر رہا ہے. گویا اس وقت پاکستان کو جتنے محاذوں کا سامنا ہے اس کا تصور بھی دیگر ممالک نہیں کرپاتے. یقینی طور پر ابتداء میں ہم نے وہ اقدام نہیں کیئے جو کرنے تھے اور جس سے دشمن کو اپنے پاؤں کسی حد تک جمانے کا موقع حاصل ہوا مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ اب ہم کھل کر لڑرہے ہیں. قوم اب دشمن کو پہچان پارہی ہے. وزیرستان سے لے کر کراچی تک کیئے گئے آپریشن اگر مکمل نہیں تو بڑی حد تک دشمن کو کمزور کرنے میں کامیاب رہے ہیں. حالیہ بم دھماکوں سے یہ نتیجہ نکلنا کہ آپریشن ناکام رہے، ایک نہایت غلط اپروچ ہے. یہ ایک طویل جنگ ہے جو ہم بہت سے محاذوں پر ایک ساتھ لڑ رہے ہیں لیکن کامیابی ان شاء اللہ پاکستان کی قسمت ہے. 
.
ممکن ہے کہ میری اس تحریر کو پڑھ کر کچھ قارئین مجھ پر زید حامد ہونے کا گمان کریں مگر ایسا نہیں ہے. میں اپنے ملک کی ناکامیوں اور خامیوں دونوں سے اتنا ہی آگاہ ہوں جتنا کے آپ سمیت ہر پاکستانی مگر مجھے لگتا ہے کہ مسلسل مشکلات اور مایوسی کے مبلغ نام نہاد دانشوروں کی وجہ سے ہم آج بحیثیت قوم اپنی خوبیاں چاہ کر بھی نہیں دیکھ پاتے. ہم کسی نفسیاتی مریض کی طرح اپنی خوبی میں بھی زبردستی خامی تلاش کرنے لگے ہیں. ہم تو بس  کسی لٹی ہوئی بیوہ کی طرح ماتم کررہے ہیں، کوسنے دے رہے ہیں، صلواتیں سنارہے ہیں. میرا ماننا ہے کہ اپنی خامیوں کا ادرک جتنا ضروری ہے، اتنا ہی یا شائد اس سے بھی زیادہ لازمی اپنی خوبیوں کو جاننا ہے. خامیوں اور خوبیوں دونوں کا دیانت دارانہ تجزیہ ہی ہمیں درست سمت میں اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ کرسکتا ہے.  صرف خامیوں کی تسبیح پڑھتے رہنا مایوسی کی دلدل کے سوا اور کچھ نہیں پیدا کرسکتا. 
.
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
.
====عظیم نامہ====