Saturday, 25 February 2017

دور حاضر کے بچے


دور حاضر کے بچے



بیشمار ایجادات کے اس جدید سائنسی دور نے جہاں انسانی ذہن کو نئی وسعتیں عطا کی ہیں وہاں بچوں پر اس کے اثرات و ثمرات حیرت انگیز ہیں. جس عمر میں سابقہ انسانی نسلیں کھیل کود کے سوا کچھ بھی سنجیدہ سوچنے سے قاصر ہوا کرتی تھیں، آج اسی عمر کے بچے مشکل انسانی موضوعات کو گہرائی میں سوچتے نظر آتے ہیں. مجھے ہمیشہ سے بچوں سے گپ شپ لگانا بہت پسند ہے، میرا ماننا ہے کہ اگر انسان خود سے ملاقات کرنا چاہے تو اسے چاہیئے کہ بچوں کی گفتگو اور مزاج پر غور کرے. بعض اوقات مجھ سے بچے تقدیر اور وجود خدا سے متعلق ایسے پیچیدہ سوالات پوچھتے ہیں کہ انسان سن کر دنگ رہ جائے. کچھ روز قبل انگلینڈ ہی میں مقیم کچھ پاکستانی بچے ایک نجی تقریب میں بیٹھے بحث کر رہے تھے، مجھے اشتیاق ہوا تو پوچھا کہ بچہ پارٹی کیا بات ہو رہی ہے؟ ایک بچے نے سنجیدہ چہرے کے ساتھ مجھے بتایا کہ عظیم انکل ہم بات کر رہے ہیں کہ اصل میں "زندگی" ہے کیا؟ .. میں نے حیرت سے ان کے استدلال اور سوچ کو سنا تو اس میں زندگی کی حقیقتوں سے متعلق ایسے بہترین نکات موجود تھے کہ مزید حیرت زدہ ہوگیا. آج بھی ایک چھ سات برس کا بچہ اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر آیا ہوا تھا. بتانے لگا کہ اسے خواب دیکھنا پسند ہیں. پوچھا کہ بیٹا ذرا یہ تو بتاؤ تمہارے لحاظ سے خواب کیا ہوتے ہیں؟ کچھ دیر توقف کے بعد بولا کہ "مجھے لگتا ہے کہ جیسے خواب بہت سے آئینے ہیں جن میں میری سوچوں کا عکس نظر آتا ہے." کم از کم خواب کی ایسی خوبصورت اور مختصر تعریف میں نے تو نہیں سنی. سوچتا ہوں کہ یہ بحث اپنی جگہ کہ انسانی جسم کا ارتقاء ہوا یا نہیں ہوا؟ مگر انسانی شعور کا ارتقاء آج بھی پورے زور و شور سے جاری ہے. 
.
 ====عظیم نامہ====

دیواریں



دیواریں 



اردگرد دیواریں کھینچ لینے سے انسان کو تحفظ کا احساس ضرور ہوتا ہے مگر یہی دیواریں اس کی نقل و حرکت کو سلب کر کے اسے قید بھی کردیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم اپنے گرد دیواریں کھینچتے ہیں تو ساتھ ہی ان میں دروازے کھڑکیاں بنانا نہیں بھولتے۔ گویا جہاں تحفظ اہم ہے وہاں آزادی اہم تر ہے۔ انسان فکری سطح پر بھی اپنے اطراف مختلف فلسفوں اور عقائد کی دیواریں قائم کرتا ہے جو اسے ایک نادیدہ احساس تحفظ دیئے رکھتی ہیں۔ ضروری ہے کہ وہ اس فکری دیواروں میں بھی تازہ تحقیق اور برتر حقائق کے حصول کیلئے دروازے کھڑکیاں موجود رہنے دے۔ ورنہ یہی دیوار اس کے شعوری ارتقاء کیلئے قبر بن جاتی ہے۔ 
۔
 ====عظیم نامہ====

Tuesday, 21 February 2017

برائے مہربانی انتظار فرمایئے


برائے مہربانی انتظار فرمایئے 



.
 انسان میں حقیقی سکون اور عاجزی ہونے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ایسا انسان الجھے بناء انتظار کرسکتا ہے. سکون سے عاری یا خود پسند انسان پر انتظار پہاڑ بن کر گزرتا ہے. یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ راقم انتظار کا نام لے کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کی ترغیب نہیں دے رہا، نہ ہی یہ کہہ رہا ہے کہ اپنے مقصد کو کم وقت میں حاصل کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ اسکی مراد وہ مواقع ہیں جب انسان کے پاس انتظار کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہوا کرتا. 
.
 دیہات میں بسنے والے لوگ عمومی طور پر زیادہ پرسکون ہوتے ہیں لہٰذا اگر انہیں کسی آفس یا قطار میں دو چار گھنٹے انتظار کرنا پڑجائے تب بھی وہ پورے سکون سے یہ وقت بناء شکایت گزار لیتے ہیں. اس کے برعکس اگر آپ کسی پڑھے لکھے شہری کو بیس پچیس منٹ بھی انتظار کا کہہ دیں تو اس کے پورے وجود پر بے چینی سوار ہوجاتی ہے اور وہ ہر دوسرے منٹ گھڑی تکتا رہتا ہے. اسے لگتا ہے کہ یہ انتظار اس کی جان لے رہا ہے یا اسے ایسا کرنا اپنی بے عزتی محسوس ہوتا ہے یا پھر اسے گمان ہوتا ہے کہ اس انتظار کی وجہ سے اس کے فلاں فلاں کام نہ ہو پائیں گے. حقیقت یہ ہے کہ اکثر وہ اس دیہاتی سے زیادہ مصروف نہیں ہوتا جو کھیتوں میں ھل جوتتا ہے یا سخت مزدوری کرتا ہے. اس کیلئے مال کا حصول بھی اصولی طور پر اتنا ضروری نہیں ہونا چاہیئے جتنا کے ایک غریب یا مفلس دیہاتی کیلئے. مگر چونکہ یہ شہری مادیت کا شکار ہوتا ہے، سکون سے خالی ہوتا ہے اسلئے یہ سکون سے ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتا، خود سے مخاطب نہیں ہوسکتا، اپنی ذات میں جھانک نہیں سکتا، خاموشی کو سن نہیں سکتا، توجہ کا ارتکاز نہیں کرسکتا اور انتظار میں صبر و شکر سے نہیں رہ سکتا. 
.
 ====عظیم نامہ====

Monday, 20 February 2017

سب سے زیاده جھگڑالو



 سب سے زیاده جھگڑالو



یہودیوں نے یہودیت کا نام لے کر انبیاء سمیت کروڑوں انسانوں کا استحصال اور خون کیا 
عیسائیوں نے عیسائیت کا نام لے کر کروسیڈ نامی مذہبی جنگ میں کروڑوں انسانوں کا قتل عام کیا 
 مسلمانوں نے اسلام کا نام لے کر آئی ایس ایس جیسی کئی تنظیموں سے ان گنت بے گناہوں کی زندگی چھین لی
 ہندوؤں نے ہندو دھرم کا نام لے کر سکھوں کے خون سے ہولی کھیلی 
سکھوں نے سکھ خالصہ کا نام لے کر مسلمانوں کی گردنیں اتاری 
بھکشوؤں نے بدھ ازم کا نام لے کر میانمار میں لاشوں کے انبار لگا دیئے 
 ملحدوں نے کبھی جوزف اسٹالن اور کبھی مسولینی جیسے درندوں کے ذریعے انسانی خون کی ندیاں بہا دی 
امریکہ نے جمہوریت کا نام لے کر پورے پورے ممالک پر بمباری کی 
انگلینڈ نے بادشاہت کا نام لے کر پوری پوری بستیوں کو موت کی نیند سلا دیا
روس نے کمیونزم کا نام لے کر لاتعداد انسانوں کو کچل ڈالا 
.
 گویا خرابی کسی مذہب یا فلسفے میں نہ تھی بلکہ انسان نے اس کا غلط استعمال کرکے خرابی و فساد پیدا کیا. شائد یہی وجہ تھی جس پر فرشتوں نے اللہ رب العزت سے استفسار کیا تھا کہ آپ اس انسان کو خلافت دیں گے جو زمین میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟ 
.
سورہ الاعراف کی ٥٤ آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
.
 "ہم نے اس قرآن میں ہر ہر طریقے سے تمام کی تمام مثالیں لوگوں کے لئے بیان کردی ہیں لیکن انسان سب سے زیاده جھگڑالو ہے"
.
 ====عظیم نامہ====

ہر دہشت گرد دیوبندی ؟



ہر دہشت گرد دیوبندی ؟

.
اگر آپ کی توجہ صرف ذکر، فقہ  یا نعت خوانی تک محدود ہے اور جہاد و خلافت آپ کی محافل میں موضوع ہی نہیں بنتے تو ظاہر ہے کہ ان موضوعات کے حوالے سے صحیح یا غلط سمجھ کا محفل کے شرکاء میں سوال بھی پیدا نہیں ہوگا. کمال تو تب ہے جب ان عنوانات کو موضوع بنایا جائے اور سننے والے اس ضمن میں دین کی درست سمجھ حاصل کریں. اس میں شک نہیں کہ جہادی اور دہشت گرد دونوں طرح کے طبقات کی غالب اکثریت دیوبندی یا اہل حدیث (سلفی) مکاتب فکر میں پائی جاتی ہے مگر اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اہل السنہ میں یہ ہی وہ دو مسالک ہیں جو ان عنوانات کو شدید مخالفت کے باوجود بھی اپنی محافل میں اہمیت دیتے ہیں اور ان پر بات کرتے ہیں. یہ اور بات ہے کہ ان عنوانات کی مد میں جو سمجھ پیش کی جارہی ہے وہ کس حد تک درست ہے؟ اور کس حد تک اصلاح کی متقاضی ہے؟
.
 ====عظیم نامہ====

Tuesday, 14 February 2017

کوئی کہہ رہا تھا



کوئی کہہ رہا تھا


کوئی کہہ رہا تھا کہ
محبوب نیکی کی طرح ہوتا ہے، اگر اس سے واقعی شادی ہو جائے تو دریا میں ڈال دینے کو جی چاہتا ہے 
.
اسی طرح بعض لوگ خزانے کی مانند ہوتے ہیں، دیکھتے ہی گاڑ دینے کو من کرتا ہے 
.
 اور کچھ رشتے چھینک کے جیسے ہوتے ہیں، ختم ہوتے ہی الحمدللہ کہنے کو دل کرتا ہے

Monday, 13 February 2017

نہیں۔ یہ درست نہیں


نہیں۔ یہ درست نہیں


۔
جملہ: "محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے"
.
جواب: قطعی نہیں. بحیثیت مسلمان ہمارے لئے محبت اور جنگ دونوں کی متعین حدود ہیں، جن سے تجاوز جائز نہیں.
.
جملہ: "دوستی میں کوئی شکریہ نہیں کوئی معذرت نہیں"
.
جواب: ہرگز نہیں. بحیثیت مسلمان آپ کیساتھ جو رشتہ دار، دوست، پڑوسی، اجنبی یا کوئی بھی انسان بھلائی کرے، آپ پر فرض ہے کہ اس کا شکریہ ادا کریں اور اگر دوست سمیت کسی سے بھی زیادتی کر بیٹھیں تو اس سے نادم دل سے معافی مانگیں.
.
جملہ: "نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی- اب نیک ہونے کا کیا فائدہ؟"
.
جواب: بالکل نہیں. بحیثیت مسلمان نو سو کی جگہ نو کروڑ چوہے کھا کر بھی اگر بلی حج کو جائے گی تو ان شاء اللہ رب کی رحمت کو اپنا دستگیر پائے گی. گویا کوئی شخص کتنا ہی گناہ سے آلودہ کیوں نہ رہا ہو؟ اگر سچی توبہ کر کے پلٹ آنا چاہے تو مغفرت کا دروازہ کھلا ہے.
.
جملہ: "ایک غلطی تو خدا بھی معاف کردیتا ہے"
۔
جواب: ہرگز نہیں۔ خدا صرف ایک نہیں بلکہ ایک ارب کھرب غلطیاں بھی سچی توبہ پر معاف کردیتا ہے۔ یہ تو کچھ تنگ دل انسانوں کا مزاج ہے کہ وہ دوسرے انسان کی ایک غلطی بھی معاف نہیں کرتے۔
۔
جملہ: "بھائی زندگی ایک بار ہی ملتی ہے۔ (یو اونلی لیو ونس)"
۔
جواب: بالکل نہیں۔ دین کے مطابق زندگی دو بار ملتی ہے۔ (یو اونلی لیو ٹوائس)۔ پہلی یہ عارضی زندگی جو دارالامتحان میں ہے۔ اور دوسری وہ دائمی زندگی جو دارالآخرت سے تعبیر ہے۔
۔
جملہ: "کسی کا مسلک چھیڑو نہیں اور اپنا مسلک چھوڑو نہیں"
.
جواب: قطعی نہیں. بحیثیت مسلمان مسلکی سمجھ چھیڑتے ہوئے، ہمیں اپنے بھائی کی غلطی محبت و حکمت سے واضح بھی کرنی ہے اور اگر برتر حق اپنے موجودہ مسلک کے برخلاف سمجھ آجائے تو اپنا مسلک چھوڑ بھی دینا ہے.
.
 ====عظیم نامہ====