Wednesday, 18 January 2017

ہم دوست ہیں



ہم دوست ہیں


ممکن ہے کہ آپ کے والد آپ کے بہترین دوست ہوں مگر اگر آپ انہیں والد جیسا درجہ نہیں دیں گے تو شکایت ہوگی 
ممکن ہے کہ آپ کی والدہ آپ کی بہترین دوست ہوں مگر اگر آپ انہیں والدہ جیسی عزت نہیں دیں گے تو شکایت ہوگی
ممکن ہے کہ آپ کا بھائی آپ کا بہترین دوست ہو مگر اگر آپ اسے بھائی جیسا ساتھ نہ دیں گے تو شکایت ہوگی
ممکن ہے کہ آپ کی بہن آپ کی بہترین دوست ہو مگر اگر آپ اسے بہن جیسا پیار نہ دیں گے تو شکایت ہوگی
ممکن ہے کہ آپ کا شوہر آپ کا بہترین دوست ہو مگر اگر آپ اسے شوہر جیسی عزت نہ دیں گی تو شکایت ہوگی
ممکن ہے کہ آپ کی بیوی آپ کی بہترین دوست ہو مگر اگر آپ اسے بیوی جیسے حقوق نہ دیں گے تو شکایت ہوگی
.
گویا ہر رشتہ اپنے مراتب، اپنی تکریم، اپنی حدود، اپنا مقام اور اپنے حقوق رکھتا ہے. آپ فقط یہ کہہ کر کہ 'ہم دوست ہیں' ، کسی بھی رشتے سے منسلک حقوق سے غافل نہیں ہوسکتے. 'دوستی' ایک عمدہ وصف ہے جو ہر تعلق کا حصہ ہوسکتا ہے اور ہونا بھی چاہیئے مگر دوستی اس وقت تک ہی خیر ہے جب تک اسے حقیقی رشتے کے مراتب پر سوار نہ کیا جائے. ورنہ ہم نے ایسی اولاد بھی دیکھی ہے جو اسی 'دوستی' کا نعرہ لگا کر اپنے والدین سے بدتمیزی کرتے ہیں اور اپنی عاقبت تباہ کرلیتے ہیں. ہم نے ایسے شادی شدہ جوڑے بھی دیکھے ہیں جو اسی 'دوستی' کے دلفریب نام پر غیر حقیقی توقعات قائم کرتے ہیں اور بلآخر اپنا ازدواجی تعلق برباد کرلیتے ہیں. 
.
یہ سوال البتہ اہم ہے کہ رشتوں کے باہمی تعلق میں ان حدود اور حقوق کا تعین انسان کیسے کرے؟ یہ سوال فی الواقع غیر مسلم دنیا کیلئے ایک معمہ سے کم نہیں. ان کے پاس ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سوا کوئی ایسی معتبر یا حتمی بنیاد نہیں ہے جسے اپنا کر وہ حقوق و مراتب قائم کرسکیں. یہی وجہ ہے کہ مغرب آج اجتماعی شعور اور مادی دنیا میں غیر معمولی ترقی کے باوجود بھی خاندانی نظم کے اعتبار سے قابل رحم حالت میں ہے. پھر چاہے وہ بوڑھے والدین کو اولڈ ہوم بھیج دینا ہو، اکثریت کا ساری زندگی شادی نہ کرنا ہو، بناء شادی کے بچے پیدا کرنا ہو یا پھر حلال رشتوں سے شرمناک جنسی تعلق قائم کرنا ہو. یہ سب حقائق مہذب مغرب کے خاندانی نظام کی تباہی کا نوحہ پڑھ رہے ہیں. مسلمان کو کم از کم اس ضمن میں  مغرب کی پیروی سے آخری حد تک گریز کرنا چاہیئے. مسلم دنیا کیلئے رشتوں کے باہمی تعلق میں حقوق و مراتب کا تعین قائم رکھنا نہایت آسان ہے اور اس کیلئے ان کے پاس ایک حتمی الہامی بنیاد موجود ہے. ہمیں یہ سمجھا چاہیئے کہ "ہیومن رائٹس" ، "وومن لبریشن"، " فری ڈم آف اسپیچ" وغیرہ کے جو معنی اور جو تعریف آج مغرب ہمیں پیش کررہا ہے وہ ان معنی اور تعریف سے مختلف ہیں جو اسلام اس ضمن میں ہمیں مہیا کرتا ہے. لازم ہے کہ مغربی تہذیب کی اس یلغار اور غلبے میں بہہ کر ہم اسلامی اقدار کا سودا نہ ہونے دیں.
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment