ہم دوست ہیں
ممکن ہے کہ آپ کے والد آپ کے بہترین دوست ہوں مگر اگر آپ انہیں والد جیسا درجہ نہیں دیں گے تو شکایت ہوگی
ممکن ہے کہ آپ کی والدہ آپ کی بہترین دوست ہوں مگر اگر آپ انہیں والدہ جیسی عزت نہیں دیں گے تو شکایت ہوگی
ممکن ہے کہ آپ کا بھائی آپ کا بہترین دوست ہو مگر اگر آپ اسے بھائی جیسا ساتھ نہ دیں گے تو شکایت ہوگی
ممکن ہے کہ آپ کی بہن آپ کی بہترین دوست ہو مگر اگر آپ اسے بہن جیسا پیار نہ دیں گے تو شکایت ہوگی
ممکن ہے کہ آپ کا شوہر آپ کا بہترین دوست ہو مگر اگر آپ اسے شوہر جیسی عزت نہ دیں گی تو شکایت ہوگی
ممکن ہے کہ آپ کی بیوی آپ کی بہترین دوست ہو مگر اگر آپ اسے بیوی جیسے حقوق نہ دیں گے تو شکایت ہوگی
.
گویا ہر رشتہ اپنے مراتب، اپنی تکریم، اپنی حدود، اپنا مقام اور اپنے حقوق رکھتا ہے. آپ فقط یہ کہہ کر کہ 'ہم دوست ہیں' ، کسی بھی رشتے سے منسلک حقوق سے غافل نہیں ہوسکتے. 'دوستی' ایک عمدہ وصف ہے جو ہر تعلق کا حصہ ہوسکتا ہے اور ہونا بھی چاہیئے مگر دوستی اس وقت تک ہی خیر ہے جب تک اسے حقیقی رشتے کے مراتب پر سوار نہ کیا جائے. ورنہ ہم نے ایسی اولاد بھی دیکھی ہے جو اسی 'دوستی' کا نعرہ لگا کر اپنے والدین سے بدتمیزی کرتے ہیں اور اپنی عاقبت تباہ کرلیتے ہیں. ہم نے ایسے شادی شدہ جوڑے بھی دیکھے ہیں جو اسی 'دوستی' کے دلفریب نام پر غیر حقیقی توقعات قائم کرتے ہیں اور بلآخر اپنا ازدواجی تعلق برباد کرلیتے ہیں.
.
یہ سوال البتہ اہم ہے کہ رشتوں کے باہمی تعلق میں ان حدود اور حقوق کا تعین انسان کیسے کرے؟ یہ سوال فی الواقع غیر مسلم دنیا کیلئے ایک معمہ سے کم نہیں. ان کے پاس ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سوا کوئی ایسی معتبر یا حتمی بنیاد نہیں ہے جسے اپنا کر وہ حقوق و مراتب قائم کرسکیں. یہی وجہ ہے کہ مغرب آج اجتماعی شعور اور مادی دنیا میں غیر معمولی ترقی کے باوجود بھی خاندانی نظم کے اعتبار سے قابل رحم حالت میں ہے. پھر چاہے وہ بوڑھے والدین کو اولڈ ہوم بھیج دینا ہو، اکثریت کا ساری زندگی شادی نہ کرنا ہو، بناء شادی کے بچے پیدا کرنا ہو یا پھر حلال رشتوں سے شرمناک جنسی تعلق قائم کرنا ہو. یہ سب حقائق مہذب مغرب کے خاندانی نظام کی تباہی کا نوحہ پڑھ رہے ہیں. مسلمان کو کم از کم اس ضمن میں مغرب کی پیروی سے آخری حد تک گریز کرنا چاہیئے. مسلم دنیا کیلئے رشتوں کے باہمی تعلق میں حقوق و مراتب کا تعین قائم رکھنا نہایت آسان ہے اور اس کیلئے ان کے پاس ایک حتمی الہامی بنیاد موجود ہے. ہمیں یہ سمجھا چاہیئے کہ "ہیومن رائٹس" ، "وومن لبریشن"، " فری ڈم آف اسپیچ" وغیرہ کے جو معنی اور جو تعریف آج مغرب ہمیں پیش کررہا ہے وہ ان معنی اور تعریف سے مختلف ہیں جو اسلام اس ضمن میں ہمیں مہیا کرتا ہے. لازم ہے کہ مغربی تہذیب کی اس یلغار اور غلبے میں بہہ کر ہم اسلامی اقدار کا سودا نہ ہونے دیں.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment