ایک مشکل پوسٹ
کوئی سال بھر سے مجھ پر ایک اہم بات واضح ہوئی ہے کہ اگر کوئی واقعی دین کا سنجیدہ طالبعلم بننا چاہتا ہے اور فی الواقع موجود مذہبی افکار و مقدمات کا دیانتدارانہ تجزیہ کرنا چاہتا ہے. وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ حنفی، شافعی. مالکی، حنبلی اختلافات کیونکر ہوئے اور انہیں کیوں فروعی کہہ دیا جاتا ہے؟ اور اشعری، خوارج، معتزلہ جیسے گروہوں میں آپس کے اختلاف کی نوعیت سنجیدہ کیوں ہے؟ دیوبندی، بریلوی، سلفی، اہل حدیث وغیرہ کے اختلافات کن بنیادوں پر استوار ہیں؟ برصغیر کی اسلامی فکر کو لیں تو امام فراہی کا مکتب فکر کن بنیادوں پر کھڑا ہے؟ کیا وہ احناف یا دیگر گروہوں سے الگ ہیں؟ مودودی صاحب کے فہم کی جڑیں کون سی ہیں؟ غلام احمد پرویز جیسے ذہن ساز .. اہل علم کے سود اعظم میں کیوں رد کئے جاتے ہیں؟ بیشمار بڑے بڑے صاحبان علم جہاد اور خلافت کے فلسفہ کو کیوں تقویت دیتے ہیں؟ غامدی صاحب کی تحقیق کے نتائج اکثر الگ کیوں برآمد ہوتے ہیں؟ ... یہ اور ایسے بیشمار اختلافات کا فہم اور ان کے درمیان حقیقت کی کھوج اسی وقت ممکن ہے جب ہمیں اس بنیاد اور جڑ کا ٹھیک علم ہو جہاں سے یہ سب برآمد ہورہا ہے
.
احقر کی رائے میں اس کا تجزیہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب آپ 'اصول الفقہ' کے بارے میں اور اس کی معروف اصطلاحات کے ضمن میں کم از کم بنیادی سمجھ رکھتے ہوں. دھیان رہے کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ فقیہہ بن جائیں بلکہ فقہ کے اصولوں کا طالبعلم بننے کا مشورہ دے رہا ہوں اور اس مشورے کا مخاطب سب سے پہلے میری اپنی ذات ہے. کسی بھی جدید و قدیم عالم دین کی پیش کردہ فکر پر تحقیق اس وقت تک ناقص و نامکمل رہے گی جب تک آپ ان اصولوں کو نہ جان لیں جن کو بنیاد بنا کر اس عالم نے اپنے تحقیقی نتائج پیش کئے ہیں. ان اصولوں کو جان لینے کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ کیا وہ کسی موجودہ دینی روایت کے اصولوں سے متصادم تو نہیں؟ اگر ہاں تو اس کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ تصادم شرع میں گوارا بھی ہے یا اس کی ضرب دین کی عمارت پر پڑتی ہے؟ اگر یہ اصول قابل قبول ہوسکتے ہیں تو پھر اس عالم کو اپنی ہر تحقیق میں ان کا پابند رہنا ہوگا. یہ نہیں کہ کسی ایک مقام پر وہ ایک طرح کے اصول اپنائے اور دوسرے مقام پر اس کے برعکس کوئی اصول بنالے. اگر مستقبل میں کسی غلطی کے واضح ہونے پر کوئی اصول بدل لیتا ہے تو اس کا اطلاق بیک وقت اسکی تمام موجودہ تحقیقات پر ہوگا
قطعی اور ظنی میں کیا فرق ہے؟ قطعی الدلالہ اور ظنی الدلالہ میں کیا تفریق ہے؟ قطعی الثبوت اور ظنی الثبوت کیا ہوتے ہیں؟ احادیث متواتر اور اخبار احاد کے بارے میں کیا فقہی اصول ہیں؟ کن بنیادوں پر مرسل احادیث کو قبول یا رد کیا جاتا ہے؟ اختلاف کن امور میں جائز ہے اور کن میں ناجائز؟ قرینہ کیا ہوتا ہے؟ اس کی کی اقسام کیا ہوتی ہیں؟ کون سی دلیل طلب جازم کیساتھ ہے اور کون سی غیر جازم؟ اگر کوئی عالم اجتہاد کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کی شروط کیا ہیں؟ کیسے کوئی حکم فرض، واجب، مندوب، حرام، مکروہ یا مباح قرار پاتا ہے؟ قران، سنت، اجماع صحابہ (رض) یا قیاس وغیرہ کی کیا ترتیب و حقیقت ہے؟ تقلید کب حلال ہے اور کب حرام ؟ کسی حکم کی علت، حکمت یا رخصت کیسے طے پاتی ہے؟
.
یہ اور ایسی ہی اور بہت سی اصول الفقہ میں رائج اصطلاحات ہیں جنہیں سمجھ لینا کٹھن ضرور ہے مگر کسی عالم یا مکتب فکر کے پیش کردہ بیانیہ کو سمجھنے میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے
.
(نوٹ: راقم خود نہایت ناقص العلم ہے اور اصول الفقہ کا حد سے حد ایک ابتدائی طالبعلم کہلاسکتا ہے. اس پوسٹ لکھنے کا محرک افادیت کا وہ داخلی احساس ہے جو پچھلے کچھ عرصے میں احقر نے محسوس کیا)
.
====عظیم نامہ=====