Friday, 29 April 2016

وقت میں برکت اور ترجیحات زندگی


وقت میں برکت اور ترجیحات زندگی



سوال: 
عظیم بھائی ، لوگ دین کیلئے اتنا وقت نکال کیسے لیتے ہیں؟ وہ کس طرح کتابیں بھی پڑھ لیتے ہیں، اچھےاجتماعی کاموں میں بھی بھی لگے رہتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی جاب یا کاروبار بھی سنبھال لیتے ہیں؟ میرے وقت میں تو برکت ہی نہیں ہے، بہت مصروف رہتا ہوں. کیا آپ کوئی ٹائم ٹیبل بناکر دے سکتے ہیں؟
.
جواب:
حاجی صاحب کو اپنے مصروف معمولات میں قران حکیم کو سمجھنے کا وقت نہیں ملتا. 
چوہدری صاحب کو دینی مطالعہ کی فرصت نہیں ہوتی.
ملک صاحب عبادات ، صوفی صاحب تبلیغ اور سردار صاحب فلاحی کاموں کیلئے وقت نہیں نکال پاتے. 
.
حالانکہ یہ مصروف صاحبان معاشی طور پر اپنے اردگرد کے لاکھوں افراد سے زیادہ مستحکم ہیں. اپنے کاروباری معاملات کیلئے ہمیشہ وقت نکال لیتے ہیں. سیاست، کھیل، تقریبات، تفریحات، سیاحت سب کیلئے انہیں فرصت مل ہی جاتی ہے. 
.
اگر آپ بھی ایسے ہی 'مصروف' انسان ہیں تو جان لیجیئے مسلہ وقت کی کمی کا نہیں ہے بلکہ آپ کی اپنی 'ترجیحات' کا ہے. جس کام کو آپ کی زندگی میں ترجیح حاصل ہے ، اس کے لئے وقت بھی اپنے آپ پیدا ہوجاتا ہے. آپ آج سے دین اور نجات اخروی کو حقیقت میں اپنی ترجیح اول بنا لیجیے ، میں اطمینان دلاتا ہوں کہ وقت میں برکت رب کریم پیدا کردیں گے. اس کے لئے کسی ٹائم ٹیبل سے زیادہ سچا ارادہ و نیت درکار ہے. 
.
====عظیم نامہ====

اظہار رائے


اظہار رائے 




نہ آپ کسی کی زبان پکڑ سکتے ہیں نہ ہی میں کسی کا قلم روک سکتا ہوں. آپ بعد از تحقیق اپنی بات دیانتداری سے اخلاص کیساتھ کہہ دیں مگر خدارا اسی انداز میں مجھے بھی اپنی بات کہہ دینے کی اجازت دیں. پھر اگر ایک دوسرے کی بات سمجھ آجائے تو بسم اللہ .. اگر نہ آئے تو خیر کی دعا. میرا یہی طریق ہے. خوب جان لیں کہ میں ہر بریلوی اور شیعہ کو اتنا ہی مسلمان سمجھتا ہوں جتنا خود کو یا آپ کو. میں ہر دیوبندی اور سلفی کو اتنا ہی مومن مانتا ہوں جتنا خود کو یا آپ کو. اور میں ان کی سمجھ میں غلطی کا اتنا ہی امکان محسوس کرتا ہوں جتنا خود میں یا آپ میں. میرے نزدیک ہر وہ شخص مسلمان و مومن ہے جو پانچ ارکان اسلام اور چھ ارکان ایمان کو مانتا ہے. اس کے بعد اسکی سمجھ میں غلطیاں ہونگی، جن کی ہمیں نشاندھی کرنی ہے مگر اس کا انداز ایسا ہی ہوگا جیسے ایک مسلم بھائی کا دوسرے مسلم بھائی سے ہونا چاہیئے. اسی کے ساتھ میری اپنی سمجھ میں بھی لازمی غلطیاں ہونگی، اسلئے مجھے دیگر مکاتب کو کھلے ذہن سے سننا اور پڑھنا ہے. اگر کوئی برتر حق میرے پاس قران و سنت کی دلیل سے واضح ہوگا جو میری موجودہ سمجھ سے مختلف ہے تو وہ جس جانب سے بھی آئے گا اسے لپک کر قبول کرلینا ہی میرے لئے دین کی منشا ہے. 
.
====عظیم نامہ====

اجتہاد یا تجدد


اجتہاد یا تجدد



ہم نے اپنے حال کو دین کے مطابق ڈھالنا ہے مگر ہم میں سے کچھ دین کو اپنے حال کے مطابق بنانے میں کوشاں ہیں. اپنے حال کو دین کے مطابق بنانے کیلئے 'اجتہاد' کیا جاتا ہے مگر دین پر اپنے حال کا رنگ چڑھا دینا 'تجدد پسندی' کہلاتا ہے. آپ کا یہ اعلان اور مطالبہ تسلیم ہے کہ 'اجتہاد' وقت کی اہم ضرورت ہے مگر 'اجتہاد' کا نام لے کر 'تجدد پسندی ' کا دروازہ نہیں کھولا جاسکتا. ہمیں دین کے مسلمہ اصولوں پر رہتے ہوئے دور جدید کے نئے تقاضوں کو دین سے ہم آہنگ کرنا ہے. مگر ان تقاضوں کو بنیاد بناکر اصولوں اور پوری علمی روایت کا جنازہ نہیں نکالا جاسکتا.
.
====عظیم نامہ=====

صداقت کا سفر



صداقت کا سفر



.
دین کے ہر سچے طالبعلم کو یہ چاہیئے کہ وہ اپنے مذہبی و مسلکی عقائد کا باریکی سے گہرائی میں اتر کر جائزہ لے. یہ جائزہ کسی دوسرے کو قائل کرنے کیلئے نہ ہو اور نہ ہی اس کا مقصد اپنی جھوٹی تسلی کے جواز تراشنا ہو. یہ ایک خاموش خود احتسابی اور تلاش حق کا عمل ہو جہاں انسان اپنے آپ میں جھانک کر پوری دیانت سے اپنے عقائد کو دلیل کی بنیاد پر للکار سکے. وہ خود سے پوچھ سکے کہ کہیں آج تک وہ مخاطبین سے اور اس سے بھی بڑھ کر خود اپنے آپ سے جھوٹ تو نہیں بولتا رہا؟ .. وہ جن عقائد کا حامل و مبلغ بنا پھرتا ہے ، کیا فی الواقع وہ انہیں ایک بدیہی حقیقت عقلی و قلبی طور پر سمجھتا بھی ہے یا وہ خود بھی آج تک ان کی صداقت پر مطمئن نہیں؟ .. کہیں ان عقائد سے اس کی وابستگی صرف جذباتی حد تک تو محدود نہیں؟ .. 
.
یہ صداقت کی تلاش کا سفر آسان نہیں بلکہ نہایت اذیت ناک ہے. یہ شعور کی تاروں کو ہلادینے اور لاشعور میں نصب بتوں کو ڈھا دینے کے مترادف ہے، جس کا تصور بھی مسافر کو خوف زدہ کرنے کیلئے کافی ہے. اس سفر کیلئے جو عزیمت و جرأت درکار ہے ، اس کا قصد یا حوصلہ کم ہی اذہان کرسکتے ہیں. مگر اے سالکین حق ، خوب جان لو کہ معرفت کا بیج ان ہی گھاٹیوں میں تناور درخت بنتا ہے. خدا اور دین کی سچی معرفت اپنے آپ میں دریافت کا عمل ہے. پھر کون ہے ؟ جو عقیدے کے گداز بستر اور عقیدت کی نرم چادر سے نکل کر تحقیق و تلاش کے یخ بستہ منجمد راستے پر برہنہ قدم چل سکے؟ 
.
لازم ہے کہ طالبعلم سابقہ فلسفوں،عقیدتوں اور تعصبات کا چشمہ اپنی آنکھوں سے اتار کر فقط سچ جاننے کا متمنی ہو. ضروری ہے کہ وہ تحقیق میں ترتیب کا خاص خیال رکھے. پہلی سیڑھی کو چھوڑ کر دسویں سیڑھی پر کودنا نقصان اور چوٹ کے سوا کچھ نہیں دے گا. اسے بنیاد سے شروع ہونا ہوگا اور پھر بقیہ عمارت کی تعمیر و توثیق کرنی ہوگی. اسے سب سے پہلے خود سے پوچھنا ہوگا کہ کیا وہ آخری درجہ میں اس حقیقت کا قائل ہے کہ اس کائنات کو بنانے والی کوئی ذات موجود ہے؟ اگر ہاں تو کیا وہ ایک ہے یا ایک سے زائد؟ کیا وہ صرف خالق ہے یا پھر مجھے اس کے سامنے جواب دہ بھی ہونا ہوگا؟ اگر خدا ہے تو اس کی صفات کیا ہیں؟ کیا اس کی ذات کا ادراک ممکن ہے؟ اگر ہاں تو کیوں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ . یہ وہ ابتدائی سوالات کا خاکہ ہے جو ایک سچے محقق کے ذہن میں سب سے پہلے ہونا چاہیئے. جب تک ان کے پرتشفی جوابات حاصل نہ ہوں، اسے دیگر سوالات میں الجھنے کی حماقت نہیں کرنی چاہیئے. یہی وہ بنیاد ہے جو معرفت کا دروازہ کھولتی ہے. اسی کی ترغیب ہمیں قران حکیم میں درج حضرت ابراہیم (ع) کے اس شعوری سفر کو پڑھنے سے ملتی ہے، جہاں وہ ایک مقام پر سورج، چاند، ستارے جیسے فطری مظاہر کو ایک کے بعد ایک خدا کی تعریف پر منطبق کرکے جائزہ لیتے ہیں اور بلاخر پکار اٹھتے ہیں کہ یہ مظاہر اپنی حقیقت میں خود مخلوقات ہیں جن کے نظم و وجود کو ایک نادیدہ مگر پرحکمت قوت سنبھالے ہوئے ہے. تفکر و تدبر کی یہی وہ بھٹی ہے جس میں سے دیگر رسل جیسے موسیٰ (ع) ، عیسیٰ (ع)، یوسف (ع)، محمد (ص) نبوت کے ظہور سے پہلے گزارے گئے ہیں. طالب حق کو چاہیئے کہ وہ فطری، تاریخی، عقلی اور نقلی تمام زاویوں سے ان سوالات کو پرکھے . یہاں تک کہ ایک بار اچھی طرح سے یہ حقیقت ذہن میں جاگزیں ہوجائے کہ 
.
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے .. 
دیکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آرہا ہے، وہی خدا ہے .. 
جو خانہ لاشعور میں جگمگا رہا ہے، وہی خدا ہے ..
.
اب ترتیب وار طالب دیانتداری سے ساری محنت ان سوالات کو جاننے میں لگائے کہ کیا رسول (ص) واقعی اللہ کے رسول ہیں؟ کیا قران فی الواقع الله ہی کا کلام ہے؟ . ان جوابات کے لئے اسے قران حکیم کو سمجھنا ہوگا، پیش کردہ دین پر غور کرنا ہوگا، اہل علم سے سوالات پوچھنے ہونگے اور سیرت رسول (ص) پر تدبر کرنا ہوگا. اسے اس وقت تک خود کو ان ہی چند سوالوں میں باندھے رکھنا ہوگا جب تک کہ وہ پوری صداقت سے ان کی حقانیت کا شعوری قائل نہ ہو جائے. یہی وہ مقام ہے جب عقیدہ عقیدت کے ساتھ حقیقت بن جاتا ہے. اب کوئی مشکل سے مشکل سوال بھی آپ کے ایمان کی بنیاد نہ ہلا سکے گا. آپ کو کسی ملحد، منکر یا فلسفی سے کوئی خوف نہ ہوگا. یاد رکھیئے کہ علم و کھوج کا سفر ختم نہیں ہوگا بلکہ اپنے جزیات میں غیر جانبداری سے جاری و ساری رہنا چاہیئے. گو چونکہ آپ نے عقائد کی بنیاد تحقیق سے گزر کر مستحکم کی ہے لہٰذا اب اگر کسی اٹھائے گئے سوال کا جواب آپ کو نہ بھی معلوم ہو تب بھی آپ کو یہ اطمینان موجود رہے گا کہ جواب ضرور موجود ہے، بس اب تک آپ کے علم میں نہیں ہے. یہ بھی دھیان رہے کہ جب وجود خدا یا رسالت جیسے کلیدی سوالات کے مشفی جواب عقل نے پالئے اور آخری درجہ میں کلام کا من جانب الله ہونا ثابت ہوگیا تو اب عقل اپنے بنانے والے کی نازل کردہ وحی کی پابند ہوگئی. اب یہ احکامات کی پوشیدہ حکمت تو ضرور کھوج سکتی ہے، طالبعلمانہ سوالات تو کرسکتی ہے مگر ان احکامات کے قبول و رد کا میعار ہرگز نہیں بن سکتی.
.
====عظیم نامہ=====

فیس بک لکھاری


فیس بک لکھاری



لگتا ہے کہ فیس بک کی اس دنیا میں آج ہر کسی کو لکھاری بننا ہے. بہت اچھی بات ہے. ضرور لکھاری بنیں مگر اپنی علمی استعداد کا سچا اعتراف کرکے لکھیں اور صرف وہ لکھیں جس کے حق ہونے پر بعد از تحقیق آپ کو کامل اطمینان ہو. یہ کیسا انصاف ہے کہ آپ دین کے دقیق ترین موضوعات پر اپنا قلم چلائیں مگر حقیقت میں آپ نے کبھی قران و حدیث کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش نہ کی ہو؟ آپ معاشرتی ناہمواریوں پر تو مسلمانوں یا پاکستانیوں کو خوب کوسنے دیں مگر کبھی خود آپ نے عملی طور پر معاشرے کی فلاح کیلئے کوئی اقدام نہ کیا ہو؟ آپ خلافت، تصوف، جہاد جیسے عنوانات پر اپنے تجزیئے درج کریں مگر کبھی آپ نے ان کے حق اور مخالفت میں لکھی نمائندہ کتب نہ پڑھی ہوں؟ یاد رکھیئے کہ جو آپ لکھتے ہیں وہ صرف آپ کی فیس بک وال پر ہی نہیں بلکہ کرام الکاتبین کے قلم سے آپ کے اعمال نامہ میں بھی لفظ بلفظ درج ہوجاتا ہے. جب بھی کوئی تحریر پوسٹ کرنے لگیں تو پہلے اپنی نیت کی تجدید و تزکیہ کیجیئے. سوچیئے کہ کیا واقعی آپ نے یہ تحریر ترویج دین کیلئے اور اصلاحی مقاصد کے لئے لکھی ہے؟ یا پھر اس کا مقصد واہ واہ سمیٹ کر اپنے نفس کو موٹا کرنا ہے؟ شیئر کا بٹن دبانے سے پہلے الله رب العزت سے یہ دعا کیجیئے کہ وہ اس تحریر کو پڑھنے والو کے لئے خیر کا سبب بنا دیں اور نفس میں اٹھنے والے کسی بھی فاسد خیال کو آپ سے دور کرکے معاف فرما دیں. آمین 
.
====عظیم نامہ====

Friday, 22 April 2016

ایک مشکل پوسٹ



ایک مشکل پوسٹ


کوئی سال بھر سے مجھ پر ایک اہم بات واضح ہوئی ہے کہ اگر کوئی واقعی دین کا سنجیدہ طالبعلم بننا چاہتا ہے اور فی الواقع موجود مذہبی افکار و مقدمات کا دیانتدارانہ تجزیہ کرنا چاہتا ہے. وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ حنفی، شافعی. مالکی، حنبلی اختلافات کیونکر ہوئے اور انہیں کیوں فروعی کہہ دیا جاتا ہے؟ اور اشعری، خوارج، معتزلہ جیسے گروہوں میں آپس کے اختلاف کی نوعیت سنجیدہ کیوں ہے؟ دیوبندی، بریلوی، سلفی، اہل حدیث وغیرہ کے اختلافات کن بنیادوں پر استوار ہیں؟ برصغیر کی اسلامی فکر کو لیں تو امام فراہی کا مکتب فکر کن بنیادوں پر کھڑا ہے؟ کیا وہ احناف یا دیگر گروہوں سے الگ ہیں؟ مودودی صاحب کے فہم کی جڑیں کون سی ہیں؟ غلام احمد پرویز جیسے ذہن ساز .. اہل علم کے سود اعظم میں کیوں رد کئے جاتے ہیں؟ بیشمار بڑے بڑے صاحبان علم جہاد اور خلافت کے فلسفہ کو کیوں تقویت دیتے ہیں؟ غامدی صاحب کی تحقیق کے نتائج اکثر الگ کیوں برآمد ہوتے ہیں؟ ... یہ اور ایسے بیشمار اختلافات کا فہم اور ان کے درمیان حقیقت کی کھوج اسی وقت ممکن ہے جب ہمیں اس بنیاد اور جڑ کا ٹھیک علم ہو جہاں سے یہ سب برآمد ہورہا ہے
.
احقر کی رائے میں اس کا تجزیہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب آپ 'اصول الفقہ' کے بارے میں اور اس کی معروف اصطلاحات کے ضمن میں کم از کم بنیادی سمجھ رکھتے ہوں. دھیان رہے کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ فقیہہ بن جائیں بلکہ فقہ کے اصولوں کا طالبعلم بننے کا مشورہ دے رہا ہوں اور اس مشورے کا مخاطب سب سے پہلے میری اپنی ذات ہے. کسی بھی جدید و قدیم عالم دین کی پیش کردہ فکر پر تحقیق اس وقت تک ناقص و نامکمل رہے گی جب تک آپ ان اصولوں کو نہ جان لیں جن کو بنیاد بنا کر اس عالم نے اپنے تحقیقی نتائج پیش کئے ہیں. ان اصولوں کو جان لینے کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ کیا وہ کسی موجودہ دینی روایت کے اصولوں سے متصادم تو نہیں؟ اگر ہاں تو اس کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ تصادم شرع میں گوارا بھی ہے یا اس کی ضرب دین کی عمارت پر پڑتی ہے؟ اگر یہ اصول قابل قبول ہوسکتے ہیں تو پھر اس عالم کو اپنی ہر تحقیق میں ان کا پابند رہنا ہوگا. یہ نہیں کہ کسی ایک مقام پر وہ ایک طرح کے اصول اپنائے اور دوسرے مقام پر اس کے برعکس کوئی اصول بنالے. اگر مستقبل میں کسی غلطی کے واضح ہونے پر کوئی اصول بدل لیتا ہے تو اس کا اطلاق بیک وقت اسکی تمام موجودہ تحقیقات پر ہوگا

قطعی اور ظنی میں کیا فرق ہے؟ قطعی الدلالہ اور ظنی الدلالہ میں کیا تفریق ہے؟ قطعی الثبوت اور ظنی الثبوت کیا ہوتے ہیں؟ احادیث متواتر اور اخبار احاد کے بارے میں کیا فقہی اصول ہیں؟ کن بنیادوں پر مرسل احادیث کو قبول یا رد کیا جاتا ہے؟ اختلاف کن امور میں جائز ہے اور کن میں ناجائز؟ قرینہ کیا ہوتا ہے؟ اس کی کی اقسام کیا ہوتی ہیں؟ کون سی دلیل طلب جازم کیساتھ ہے اور کون سی غیر جازم؟ اگر کوئی عالم اجتہاد کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کی شروط کیا ہیں؟ کیسے کوئی حکم فرض، واجب، مندوب، حرام، مکروہ یا مباح قرار پاتا ہے؟ قران، سنت، اجماع صحابہ (رض) یا قیاس وغیرہ کی کیا ترتیب و حقیقت ہے؟ تقلید کب حلال ہے اور کب حرام ؟ کسی حکم کی علت، حکمت یا رخصت کیسے طے پاتی ہے؟ 
.
یہ اور ایسی ہی اور بہت سی اصول الفقہ میں رائج اصطلاحات ہیں جنہیں سمجھ لینا کٹھن ضرور ہے مگر کسی عالم یا مکتب فکر کے پیش کردہ بیانیہ کو سمجھنے میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے
.
(نوٹ: راقم خود نہایت ناقص العلم ہے اور اصول الفقہ کا حد سے حد ایک ابتدائی طالبعلم کہلاسکتا ہے. اس پوسٹ لکھنے کا محرک افادیت کا وہ داخلی احساس ہے جو پچھلے کچھ عرصے میں احقر نے محسوس کیا)
.
====عظیم نامہ=====

Monday, 18 April 2016

میرے لئے دین کی منشا


میرے لئے دین کی منشا


نہ آپ کسی کی زبان پکڑ سکتے ہیں نہ ہی میں کسی کا قلم روک سکتا ہوں. آپ بعد از تحقیق اپنی بات دیانتداری سے اخلاص کیساتھ کہہ دیں مگر خدارا اسی انداز میں مجھے بھی اپنی بات کہہ دینے کی اجازت دیں. پھر اگر ایک دوسرے کی بات سمجھ آجائے تو بسم اللہ .. اگر نہ آئے تو خیر کی دعا. میرا یہی طریق ہے. خوب جان لیں کہ میں ہر بریلوی اور شیعہ کو اتنا ہی مسلمان سمجھتا ہوں جتنا خود کو یا آپ کو. میں ہر دیوبندی اور سلفی کو اتنا ہی مومن مانتا ہوں جتنا خود کو یا آپ کو. اور میں ان کی سمجھ میں غلطی کا اتنا ہی امکان محسوس کرتا ہوں جتنا خود میں یا آپ میں. میرے نزدیک ہر وہ شخص مسلمان و مومن ہے جو پانچ ارکان اسلام اور چھ ارکان ایمان کو مانتا ہے. اس کے بعد اسکی سمجھ میں غلطیاں ہونگی، جن کی ہمیں نشاندھی کرنی ہے مگر اس کا انداز ایسا ہی ہوگا جیسے ایک مسلم بھائی کا دوسرے مسلم بھائی سے ہونا چاہیئے. اسی کے ساتھ میری اپنی سمجھ میں بھی لازمی غلطیاں ہونگی، اسلئے مجھے دیگر مکاتب کو کھلے ذہن سے سننا اور پڑھنا ہے. اگر کوئی برتر حق میرے پاس قران و سنت کی دلیل سے واضح ہوگا جو میری موجودہ سمجھ سے مختلف ہے تو وہ جس جانب سے بھی آئے گا اسے لپک کر قبول کرلینا ہی میرے لئے دین کی منشا ہے. 

.
====عظیم نامہ====