Wednesday, 27 January 2016

مراقبہ یا تفکر؟



مراقبہ یا تفکر؟


.
خالی الذہن ہو کر کسی مخصوص موضوع پر توجہ کا ارتکاز کرنا اور پھر یکسوئی سے اس کا ہر ممکنہ پہلو سے جائزہ لینا 'تفکر و تدبر' کہلاتا ہے. قران حکیم  ہمیں اسی تفکر کی جانب آنے کی رغبت دلاتا ہے. اگر کوئی مراقبہ، ذکر، تسبیح یا وظیفہ اس تفکر سے خالی ہے تو وہ دین کا مطلوب و مقصود ہرگز نہیں اور نہ ہی اس سے حاصل شدہ ثمرات دیرپا ثابت ہوسکتے ہیں. میں بارہا مختلف عقائد کے ایسے اشخاص سے مل چکا ہوں جو مراقبہ کے ذریعے سکون حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں یا اس مراقبہ سے سکون کے حصول کے متمنی ہوتے ہیں. مگر جب ان کا قریب سے جائزہ لیا تو انہیں خود فریبی میں مبتلا پایا. اکثر ان کے قریبی احباب ان کے خراب مزاج کی شکایت یا ان کی حرکات سے نالاں نظر آئے. دوسرے الفاظ میں وہ ایسے بے سکون لوگ ہیں جو سکون کی صرف نقاب اوڑھے ہوئے ہیں.
.
مراقبہ کے ذریعے ذہن کو خیالات سے خالی کرنے کی مشق انسان کو عارضی ذہنی سکون تو ضرور دے سکتی ہے مگر زندگی میں حقیقی سکون پیدا نہیں کرسکتی. اس کیلئے لازم ہے کہ انسان تفکر و تدبر کے مدارج طے کرکے بیک وقت قلبی و فکری اطمینان حاصل کرے. یہی وہ کیفیت ہے جو نفس انسانی کو قرانی اصطلاح میں نفس المطمئنہ بنا دیتی ہے. یہ بات بھی ملحوظ رکھیئے کہ وہ مراقبہ جس میں تفکر اہم جزو کی صورت موجود ہو ، ایک احسن فعل ہے اور یہاں اس کی مذمت ہرگز مراد نہیں ہے. درجہ احسان کی تعریف میں جو حدیث جبرئیل موجود ہے، اسمیں ترغیب دی گئی ہے کہ نماز ایسے قائم کرو جیسے الله کو دیکھ رہے ہو یا ایسے کہ الله تمھیں دیکھ رہا ہے. نماز میں الہامی کلمات ادا کرتے ہوئے یہ حضوری کا تصور اپنی حقیقت میں مراقبہ ہی تو ہے، مگر ایسا مراقبہ جو آیات و اذکار پر مستقل تفکر سے بھی مزین ہے. انگریزی زبان میں وہ مراقبہ جو تفکر سے خالی ہو اکثر میڈیٹیشن کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. جب کہ وہ مراقبہ جس کی بنیاد تفکر پر ہو کنٹمپلشن کہلاتا ہے.
.
====عظیم نامہ====



No comments:

Post a Comment