Wednesday, 27 January 2016

غار حرا میں مراقبہ


غار حرا میں مراقبہ





سوال: 

آپ کی مراقبہ والی پوسٹ کے حوالے سے میرا سوال ہے کہ جب رسالت نہیں ملی تھی تو رسول صلی الله علیہ وسلم کیا غار حرا میں مراقبہ نہیں کیا کرتے تھے ؟ اگر نہیں تو پھر کیا کرتے تھے؟
.
جواب:
اس کی تفصیل قران و حدیث میں موجود نہیں. جس بات کا غالب امکان ہے وہ یہ ہے کہ وہ خالق اور اس کی تخلیقات پرتفکر و تدبر کرتے تھے. قران حکیم میں حضرت ابراہیم علیہ سلام کے اسی غور و فکر کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے. رسول پاک صلی الله علیہ وسلم بھی دین ابراہیمی لے کر آئے اور اسی کی تجدید کر کے جاریکیا. اسکے علاوہ ہر قران کا طالبعلم یہ بات جانتا ہے کہ الله عزوجل نے جگہ جگہ مظاہر کائنات جیسے سورج ، چاند ، ستاروں ، سمندر کو اپنی آیات کہا اور ان پر غور و فکر کی تلقین کی. کسی بھی مقام پر تفکر سے خالی کسی مراقبہ کا ذکر موجود نہیں. لہٰذا اگر کوئی امکان بیان ہوسکتا ہے تو وہ غور و تدبر ہی کا ہے، تفکر سے عاری مراقبہ کا نہیں. اسی طرح اس زمانے میں بھی سنت ابراہیمی کے پیرو موجود تھے جو 'حنیف' کہلاتے تھے اور ایک الله کی عبادت کرتے تھے. چنانچہ یہ کہنا بھی قرین قیاس ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ذکر و عبادات بھی کیا کرتے ہونگے. ہمارے پاس اس بات کے بہرحال کوئی قرائن موجود نہیں کہ رسول عربی صلی الله علیہ وسلم آنکھیں بند کرکے ذہن کو خیالات سے خالی کرنے کی مشق کا اہتمام کرتے تھے. ایسی کسی بات کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارک سے امکان کے درجہ میں بھی منسوب کرنا میری نظر میں جسارت ہے 
.
====عظیم نامہ=====

مراقبہ یا تفکر؟



مراقبہ یا تفکر؟


.
خالی الذہن ہو کر کسی مخصوص موضوع پر توجہ کا ارتکاز کرنا اور پھر یکسوئی سے اس کا ہر ممکنہ پہلو سے جائزہ لینا 'تفکر و تدبر' کہلاتا ہے. قران حکیم  ہمیں اسی تفکر کی جانب آنے کی رغبت دلاتا ہے. اگر کوئی مراقبہ، ذکر، تسبیح یا وظیفہ اس تفکر سے خالی ہے تو وہ دین کا مطلوب و مقصود ہرگز نہیں اور نہ ہی اس سے حاصل شدہ ثمرات دیرپا ثابت ہوسکتے ہیں. میں بارہا مختلف عقائد کے ایسے اشخاص سے مل چکا ہوں جو مراقبہ کے ذریعے سکون حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں یا اس مراقبہ سے سکون کے حصول کے متمنی ہوتے ہیں. مگر جب ان کا قریب سے جائزہ لیا تو انہیں خود فریبی میں مبتلا پایا. اکثر ان کے قریبی احباب ان کے خراب مزاج کی شکایت یا ان کی حرکات سے نالاں نظر آئے. دوسرے الفاظ میں وہ ایسے بے سکون لوگ ہیں جو سکون کی صرف نقاب اوڑھے ہوئے ہیں.
.
مراقبہ کے ذریعے ذہن کو خیالات سے خالی کرنے کی مشق انسان کو عارضی ذہنی سکون تو ضرور دے سکتی ہے مگر زندگی میں حقیقی سکون پیدا نہیں کرسکتی. اس کیلئے لازم ہے کہ انسان تفکر و تدبر کے مدارج طے کرکے بیک وقت قلبی و فکری اطمینان حاصل کرے. یہی وہ کیفیت ہے جو نفس انسانی کو قرانی اصطلاح میں نفس المطمئنہ بنا دیتی ہے. یہ بات بھی ملحوظ رکھیئے کہ وہ مراقبہ جس میں تفکر اہم جزو کی صورت موجود ہو ، ایک احسن فعل ہے اور یہاں اس کی مذمت ہرگز مراد نہیں ہے. درجہ احسان کی تعریف میں جو حدیث جبرئیل موجود ہے، اسمیں ترغیب دی گئی ہے کہ نماز ایسے قائم کرو جیسے الله کو دیکھ رہے ہو یا ایسے کہ الله تمھیں دیکھ رہا ہے. نماز میں الہامی کلمات ادا کرتے ہوئے یہ حضوری کا تصور اپنی حقیقت میں مراقبہ ہی تو ہے، مگر ایسا مراقبہ جو آیات و اذکار پر مستقل تفکر سے بھی مزین ہے. انگریزی زبان میں وہ مراقبہ جو تفکر سے خالی ہو اکثر میڈیٹیشن کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. جب کہ وہ مراقبہ جس کی بنیاد تفکر پر ہو کنٹمپلشن کہلاتا ہے.
.
====عظیم نامہ====



Thursday, 21 January 2016

انسان کی حقیقت اور اس کا مقصد



انسان کی حقیقت اور اس کا مقصد



.اگر کوئی بکری یہ کہے کہ میں بکری نہیں گھوڑا ہوں یا کوئی پلیٹ یہ سمجھے کہ میں پلیٹ نہیں چمچہ ہوں تو صرف ان کے کہنے یا سمجھنے سے ان کی حقیقت نہیں بدلے گی. بکری پھر بھی بکری ہی رہے گی اور پلیٹ بہرحال پلیٹ ہی رہے گی. عقلمندی سراب یا دھوکے میں جینا نہیں بلکہ اپنی حقیقت کو تسلیم کرلینے کا نام ہے. کسی بھی تخلیق کی حقیقت و مقصد اس کا بنانے والا ہی سب سے بہتر بتاسکتا ہے. اسی لئے مختلف تخلیق کار مینوفیکچرنگ کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کا مقصد، حقیقت اور استمعال کو تفصیل سے بیان کرتی ہیں. الله رب العزت نے انسان کو تخلیق کیا ہے اور انہوں نے صاف الفاظ میں یہ بتادیا ہے کہ انسان کی حقیقت عبدیت ہے. اسے الله کا عبد بنایا گیا ہے اور اسی رعایت سے اس کا مقصد عبادت یعنی رب کی پرستش و اطاعت کرنا ہے. یہی وہ حقیقت ہے جسے کلام پاک میں ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے ”اور ہم نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔“ سورہ الذاریات ٥١:٥٦۹.خالق نے انسان کی حقیقت بتا دی. اب عقلمندی اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہے. اگر آج کوئی احمق اپنے عبدالله ہونے کا منکر ہوتا ہے تو اس سراب سے اسکی اپنی ذات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا مگر یہ حقیقت تبدیل نہ ہوگی کہ وہ عبد بنا کر بھیجا گیا ہے. 

ہمارے خوش یا غمگین ہونے سے یہ حق نہیں بدلتا کہ زمین گول ہے. کسی پر ظلم ہو یا کسی کو اعزاز ملے ، اس سے یہ حق نہیں بدلتا کہ پانی حیات کے لیے ضروری ہے. ہمارے جذبات، احساسات یا حالات سے دنیا کا کوئی بھی حق تبدیل نہیں ہوتا. پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ کسی بشر کے چاہنے نہ چاہنے سے اس کی حقیقت بطورعبد تبدیل ہو جائے؟ یہ ممکن ہی نہیں ہے. عبد اگر معبود کو تسلیم نہ کرے گا تو اپنی حقیقت ذات سے ہی اندھا ہو جائے گا. دیکھیئے قران حکیم اس بات کو کیسے بلیغ انداز میں بیان کرتا ہے : "اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کر دیا، اور ایسے ہی لوگ نافرمان ہوتے ہیں" .. غور کیجیئے ، یہ نہیں کہا گیا کہ انہوں نے الله کو بھلا دیا تو الله نے بھی انہیں بھلا دیا بلکہ یہ سمجھایا گیا کہ انہوں نے الله کو بھلا دیا تو الله نے انہیں ان کا اپنا آپ بھلا دیا ! یعنی معبود کو فراموش کرنے کا لازمی نتیجہ عبد کا خود اپنی حقیقت سے غافل ہوجانا ہے. .اس کا بڑا عملی مظاہرہ الحاد سے متاثر ان معاشروں میں واضح نظر آتا ہے جو انسان کیلئے 'شتر بے مہار' جیسی آزادی کے طالب ہیں. ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اگر خالق کی غلامی پر راضی نہ ہو تب بھی آزاد نہیں رہ پاتا بلکہ عبدیت کے اس باطنی احساس کی تسکین کیلئے طرح طرح کی غلامیاں اختیار کرلیتا ہے. وہ کبھی کسی سیاستدان کو ، کبھی کسی گلوکار یا فنکار کو ، کبھی کسی کھیل یا کاروبار کو اور کبھی اپنی خواہشات نفس کو معبود بنا کر اس کی عبدیت اختیار کرلیتا ہے. ظاہر ہے کہ جب مخلوق اپنی جیسی مخلوق کی عبادت کرتی ہے تو اس کا نتیجہ پستی، ذہنی انتشار اور روحانی فساد کی صورت میں برآمد ہوتا ہے. اس کی امیدوں کا محل دیر یا سویر مسمار ہوجاتا ہے. اسی لئے علامہ نے کہا تھا
.
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات


ایسے ہی دھوکے زدہ انسان کو کلام پاک میں کچھ یوں بیان کیا ہے


اَفَرَایْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہ ھَوَاہ"کیا تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟" .


====عظیم نامہ====

Wednesday, 20 January 2016

نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ؟



نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ؟


.


گناہوں کی کثرت کی وجہ سے کبھی اپنے نیک اعمال ترک نہ کریں ... یہ شیطان کا دھوکہ ہے کہ وہ کبھی تو آپ کو اللہ کی رحمت سے مایوس کرتا ہے تو کبھی منافقت کا طعنہ مار کر نیک عمل سے روکتا ہے ... وہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ تمھاری اس لنگڑی لولی عبادت کا کیا فائدہ ؟ ... تمھاری کھوکھلی نماز کس کام کی؟ .. تمھاری بار بار کی جھوٹی توبہ کی کیا اہمیت؟ ... یا تمھارے ان تھوڑے سے صدقات کا کیا مصرف ؟ ... اگر آپ کسی نیکی کا ارادہ کریں تو وہ جلدی سے آپ کو آپ کے بیشمار گناہ یاد دلا کر اس ایک نیکی سے باز رکھتا ہے .. اسکی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اگر آپ نے اب تک ننانوے گناہ کئے ہیں تو اس کے اپر آپ ایک اور گناہ ہی کریں ، اگر کہیں آپ ان ننانوے گناہوں کے بعد ایک نیکی کا ارادہ کرلیں تو وہ آپ کا تمسخر اڑا کر سرگوشی کرتا ہے کہ 'اچھا نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ؟' .. ہرگز اس مکار کے دھوکے میں نہ آئیں .. وہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ آپ اپنے اس رب سے مایوس ہوجائیں جس کی نمائندہ ترین صفات رحمٰن و رحیم کی ہیں .. وہ جانتا ہے کہ مایوسی کفر ہے اور رب تعالیٰ کی رحمت سے مایوس شخص کو کہیں پناہ نہیں ملتی .. 
.
جان لیجیئے کہ آپ کے گناہ اگر زمین و آسمان کی وسعت اور سمندر پر پھیلے جھاگ سے بھی زیادہ ہیں تو وہ ہرگز ہرگز الله کی رحمت سے زیادہ نہیں ہو سکتے ... ہمارا رب ایسا رحمٰن ہے جو گنہگار ترین بندے کی توبہ کا انتظار کرتا ہے کہ کب وہ توبہ کرے اور کب میں اپنے بندے کو معاف کردوں ؟ ... لہٰذا یہ نہ سوچو کہ ادھر توبہ کرتا ہوں اور ادھر ٹوٹ جاتی ہے .. بلکہ یہ سوچو کہ ادھر سچی توبہ کی اور ادھر سارے سابقہ گناہ معاف ! .. ہمارا رب ایسا ہی غفار ہے جو ایک نیکی کا شمار کم از کم دس سے سات سو نیکیوں کے برابر کرتا ہے. جب کے گناہ کو ایک ہی شمار کرتا ہے. اگر نیکی کی صرف نیت کرلو تو نیکی لکھ دیتا ہے لیکن بدی کی محض نیت پر گناہ نہیں لکھتا .. کہیں وہ کہتا ہے کہ بڑے گناہوں سے بچ جاؤ تو چھوٹے گناہ میں ایسے ہی معاف کردوں گا .. اور کہیں وہ دعوت دیتا ہے کہ بس ایک ندامت کا آنسو گرا کر ، توبہ کیساتھ میری جانب پلٹنے کا ارادہ کر لو تو میں سب صغیرہ کبیرہ گناہ تمہارے حساب سے مٹا دوں گا .. اگر توبہ پر قائم رہے تو گناہ کو نیکی سے بدل دوں گا اور اگر اگر توبہ ٹوٹ گئی تو مایوس نہ ہونا .. لاکھ بار واپس آؤ گے لاکھ بار تمھیں معاف کردوں گا ... میرا اور آپ کا رب ایسا ہی رحیم ہے .. بس سرکشی نہ کرنا ، کھلا شرک نہ کرنا ، زمین پر فساد نہ کرنا ، جانتے بوجھتے حق کو نہ چھپانا اور دیگر انسانوں کے حقوق نہ مارنا .. یاد رکھو کہ اگر گناہ کوشش کے باوجود نہیں چھوٹ پارہے تو اسکی وجہ سے نیکی کرنا نہ چھوڑ دینا ! .. کلام پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ (بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں) .. لہٰذا اگر گناہ زیادہ ہے تو نیکیاں اس سے بھی زیادہ کردو !! .. معروف عالم دین حکیم محمد اختر صاحب اپنے مریدوں سے فرمایا کرتے تھے کہ ' بری شراب کب چھوٹتی ہے ؟ .. جب اچھی والی ملنے لگے .. اگر برائی چھوڑنا چاہتے ہو تو اچھائی کا ان ٹیک بڑھا دو' 
.
====عظیم نامہ====

Monday, 18 January 2016

انسان کا چہرہ اس کی شخصیت کا عکاس


انسان کا چہرہ اس کی شخصیت کا عکاس



یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات معصوم چہرے بھی نہایت کریہہ کردار کے حامل ہوتے ہیں مگر میری ناقص رائے میں یہ کلیہ عام نہیں ہے. اگر ہمیشہ نہیں تو اکثر انسان کا چہرہ اس کی شخصیت کا عکاس بن جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ایک صاف دل انسان کے چہرے پر نرمی اور ایک غصیلے چڑچڑے انسان کے چہرے پر کرختگی نمایاں نظر آتی ہے. ایک فراڈیئے شخص کے چہرے پر مکاری اور ایک ذہین انسان کی آنکھوں میں ذہانت عیاں ہوتی ہے. ایک مذہب فروش کا چہرہ بناوٹ اور ایک دین کے سچے عامل کا چہرہ عجز و سکون سے مزین ہوتا ہے. 

.
میں نے اپنے ذاتی مشاہدے میں ایک ہی شخص کے چہرے کو اس کے کردار کے ساتھ بدلتے دیکھا ہے. کئی ایسے نومسلم میرے سامنے موجود ہیں جو قبول اسلام سے قبل ایک مکروہ کردار اور چہرے کے حامل تھے. لوگوں کے پیسے لوٹنا اور عورتوں کی آبروریزی کرنا ان کا مشغلہ تھا. مگر جب اسلام نے ان کے قلب کو روشن کیا تو وہ چہرہ جس سے وحشت ٹپکتی تھی ، آج معصومیت کی تصویر بن گیا. وہ آنکھیں جن سے حیوانیت جھانکا کرتی تھی ، آج ان سے محبت آنسو بن کر بہتی ہے. وہ چال جس سے فرعون کی سی رعونیت ظاہر تھی ، آج انکسار کی پوشاک میں سج گئی. میری اس تحریر کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم لوگوں کے چہرے کو دیکھ کر ان کے کردار پر فتوے دینے لگیں. نہیں ہرگز نہیں. اس طرح کے منفی ظن و گمان صریح گناہ بن سکتے ہیں. یہاں بس اتنی توجہ دلانا مقصود ہے کہ باطن کی پاکیزگی یا خباثت آپ کے ظاہری وجود پر بھی اپنے اثرات مرتب کرتی ہے. یہاں دوسروں کے سراپے پر فیصلہ سنانا مقصود نہیں بلکہ اپنی ذات و کردار کا احتساب مطلوب ہے.
.
====عظیم نامہ====

Sunday, 17 January 2016

تقدیر کا مسئلہ

تقدیر کا مسئلہ
========
.
مسئلہ جبر و قدر یا تقدیر کا مسئلہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے. یہ کہنا شائد غلط نہ ہوگا کہ انسان کے شعوری ارتقاء کی تاریخ کا یہ پیچیدہ ترین مسئلہ رہا ہے. بیشمار فلسفی، ان گنت محقیقین، تمام تر مذہبی رہنما، بہت سے لکھاری، سائنسدان اور شاعر روز اول سے اس موضوع کو تختہ مشق بناتے رہے ہیں. تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ اس طویل مکالمہ اور غور و فکر کے بعد بھی انسان جبر و قدر کی گتھیاں سلجھا کر کسی ایک نتیجہ پر متفق ہونے سے قاصر رہا ہے. مسئلہ جبر و قدر کی ڈور کو جتنا سلجھانے کی کوشش کی گئی ، یہ اتنا ہی الجھتی چلی گئی. جتنے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ، اتنے ہی نئے سوال جنم لیتے چلے گئے. بحیثیت مسلم ہمارے لئے اس عنوان کو سمجھنا اور بھی زیادہ ضروری ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تقدیر پر ایمان رکھنا مومن بننے کیلئے ایک لازمی تقاضہ ہے.
.
کچھ سال قبل جب میرے ذہن و قلب میں تقدیر سے متعلق سوالات پیدا ہوئے جیسا کے اکثر سوچنے والے اذہان کے ہاں اس موضوع کے حوالے سے پیدا ہوا کرتے ہیں. میں نے چاہا کہ ان سوالات کی جواب دہی کیلئے مختلف لکھاری اور علماء سے استفادہ حاصل کروں. دور جدید کے اہل علم میں سے ڈاکٹر اسرار احمد ، پروفیسر احمد رفیق، جاوید احمد غامدی ، غلام احمد پرویز ، مغربی تحقیقی ادارے کیون ڈش کی تحقیقات اور بھی بہت سے مختلف نکتہ نظر کو اس ضمن میں پڑھا مگر سچ یہ ہے کہ اسکے باوجود تشنگی مکمل طور پر دور نہ ہوئی. یہاں انگلینڈ میں استاد ابو اسمعیل سے بھی تقدیر کے جزیات پر کئی نشستوں میں گفتگو ہوتی رہی. آج میں اپنی اس تحقیق کا حاصل یہاں ثبت کر رہا ہوں ، یہ سوچ کر کہ اگر اس تحریر سے تمام سوالات کے جواب حاصل نہ بھی ہوں تب بھی میری سمجھ آگے منتقل ہوسکے.
.
تقدیر کے حوالے سےتاریخی طور پر آپ کو علماء دو گروہوں میں بٹے نظر آتے ہیں ، پہلے وہ ہے جو کہتے ہیں کہ تقدیر پر گفتگو کرنے سے دور رہا جائے کیونکہ یہ متشابہات میں سے ہے اور اس کی حقیقت کو جاننے کی کوشش سالک کو مزید شکوک میں مبتلا کرسکتی ہے. اپنے اس موقف کے حق میں وہ یہ ایسی احادیث کو پیش کرتے ہیں جن میں قدر پر سوالات یا مکالمہ کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے. نمونہ کے طور پر ترمزی شریف کی اس حدیث کو یاد کریں جس کے مطابق جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرام کی ایک جماعت کو قدر کے موضوع پر مکالمہ اور اختلاف کرتے دیکھا تو غصہ سے آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور آپ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی امتیں اسی موضوع پر بحث و مباحثہ کی وجہ سے برباد ہوگئیں.

Friday, 15 January 2016

سچا محقق

سچا محقق


کیا آپ ایک عرصہ سے دینی کتب کا مطالعہ کرتے رہے ہیں ؟ ... اگر ہاں تو ایک بار اپنے ذاتی کتب کے اس ذخیرہ کو سامنے رکھیئے جو آپ پڑھ چکے ہیں اور دیانتداری سے جائزہ لیجیئے کہ کہیں ان کتب کی غالب اکثریت کسی ایک مکتب فکر یا کسی خاص عالم سے متعلق تو نہیں ہیں ؟ ... اگر جواب ہاں میں ہے تو آپ کی تحقیق کا غیرجانبدار ہونا ناممکن ہے. 

.
ایک سچا محقق ہر مکتب فکر کا ایمانداری سے مطالعہ کرتا ہے. وہ جہاں کسی عالم یا مسلک کی کسی بات سے علمی اختلاف رکھتا ہے وہاں اس میں اتنی اخلاقی جرات بھی ہوتی ہے کہ وہ اسی عالم یا مسلک کی کسی دوسری بات کی تعریف کرسکے. ایک انسان چاہے وہ کسی روایتی مسلک سے وابستہ ہو یا کسی جدید مفکر کا معتقد، اگر اس کا عمل یہ ہے کہ وہ ایک ہی نکتہ نظر کی کتب کو پڑھنا پسند کرتا ہے اور دیگر آراء پر مرتب کتب اس کی طبعیت پر شدید گراں گزرتی ہیں تو یہ شخص یقینی طور پر اندھی تقلید کا حامل ہے. چاہے اسے اپنے غیرجانبدار ہونے کے بارے میں کتنا ہی اطمینان کیوں نہ حاصل ہو. اس شخصیت پرستی یا مسلک پرستی کا شکار صرف روایتی مسالک نہیں ہیں بلکہ اندھے مقلد آپ کو جدید اہل علم جیسے غامدی صاحب ، پروفیسر احمد رفیق اور مولانا وحید کے ہاں بھی بکثرت مل جاتے ہیں. گو کے اکثر جدید و قدیم اہل علم یا محققین اپنی اندھی تقلید سے روکتے رہے ہیں
.
====عظیم نامہ=====

انسان و حیوان


 انسان و حیوان




انسان کی طرح دیگر حیوانات بھی "شعور" کی روشنی سے منور ہوتے ہیں مگر "خود شعوری" کی صلاحیت صرف انسان کا خاصہ ہے. یہ "خود شعوری" اگر "خود شناسی" میں ڈھل جائے تو پھر معرفت یعنی "خدا شناسی" الہام ہونے لگتی ہے.

.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: یہاں بات صرف انسان و حیوان کے تقابل میں کی گئی ہے، جنات و ملائک کو دانستہ موضوع نہیں بنایا گیا)
.
شعور = Conciousness
خود شعوری = Self Conciousness
خود شناسی = Knowing Self
خدا شناسی = Knowing God

Wednesday, 13 January 2016

دو عورتوں کا جھگڑا


 دو عورتوں کا جھگڑا 


ہمارے ایک جہاندیدہ دوست خاندانی مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے شوخی سے بولے 

.
عظیم میاں ! یاد رکھیں مرد اور عورت کے جھگڑے میں ہمیشہ مرد ہی ہارتا ہے، مرد عورت سے جیت نہیں سکتا 
.
ہم نے مسکرا کر استفسار کیا ... اور قبلہ اگر جھگڑا دو عورتوں کے بیچ میں ہو، تب ہارنے یا جیتنے والا کون ہوگا؟
انہوں نے جوابی مسکان کے ساتھ کامل اطمینان سے جواب دیا ...  اگر جھگڑا دو عورتوں کے بیچ ہو تو کوئی نہ جیتتا ہے نہ ہارتا ہے ، کیونکہ جیت ہار کے فیصلہ کیلئے ایک کا ہار ماننا ضروری ہے
.
====عظیم نامہ====

مہلک ترین گناہ اور سوشل میڈیا

مہلک ترین گناہ اور سوشل میڈیا 


گناہ وہ اعمال ہیں جو آپ کے نفس کو آلودہ کردیں یا آپ کی روحانی ترقی پر روک لگا دیں. حضرت نواس بن سمعانؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا ’’نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جوتمہارے دل میں کھٹکے اور لوگوں کو اس کی اطلاع ہونا تجھے اچھا نہ لگے‘‘۔ اسی طرح وابصہ بن معبدؓ نے کہا کہ ’’ میں نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا ’’تم نیکی کے بارے میں پوچھنے کیلئے آئے ہو؟ میں نے کہا ’’جی ہاں!‘‘ اس پر آپﷺ نے فرمایا ’’ اپنے دل سے فتویٰ پوچھ، نیکی وہ ہے جس پر نفس(من) میں اطمینان ہو اور اس پر دل مطمئن ہو جائے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور سینے میں بے چینی ہو اگرچہ (مفتی) لوگ تجھے (اس کیلئے جائز ہونے کا) فتویٰ دے دیں۔‘‘ 
.

یوں تو ہر گناہ سے پرہیز لازم ہے اور ہر گناہ ہی ہلاکت ہے مگر سوچتا ہوں کہ کم از کم ان مہلک ترین گناہوں سے خود کو کوسوں دور رکھوں  
.
شرک
===
قران مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
"بے شک اللہ یہ گناہ ہرگز نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور وہ اس کے سوا جسے چاہے معاف کر دیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، تو وہ یقینا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ہے۔" (٤:١١٦)
.
یہاں یہ احتیاط لازم ہے کہ شرک کی بہت سی اقسام ہیں جیسے شرک خفی اور شرک جلی. اسی اعتبار سے ان کی شدت میں بھی فرق ہے. دانا انسان شرک کے معمولی امکان سے بھی میلوں دور رہنے کی کاوش کرتا ہے. ذرا اس حدیث کو آنکھیں کھول کر دیکھیں 
.
حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا۔" مسند احمد ۔ج ۴، ص۱۲۵
یعنی کوئی عمل جو بظاھر دینی ہو مگرکرنے والے کی نیت دکھاوے کی ہو تو یہ شرک کی ہی ایک قسم ہے. اس لحاظ سے ہر وہ دینی پوسٹ جو ہم فیس بک پر یا کسی اور پلیٹ فارم پر شیئر کرتے ہیں، اگر اسکے پیچھے نیت دکھاوے اور اپنی واہ واہ کی ہے تو یہ ازخود شرک خفی کا ارتکاب ہے  
.
منافقت 
====
.
منافقت ایک ایسی روحانی بیماری ہے جو جونک کی طرح اپنے شکار کو پکڑے رکھتی ہے اور اس کی آخرت مکمل طور پر تباہ کردیتی ہے. یہی وجہ ہے کہ مومن ہمیشہ اپنا جائزہ لیتا رہتا ہے کہ اس میں شعوری یا غیرشعوری نفاق تو موجود نہیں ؟  یہی حقیقت ہے جسے حضرت حسن بصریؒ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’نفاق کا خوف مومن ہی کو ہوتا ہے، اور نفاق سے بے خوف تو منافق ہی رہتا ہے۔‘‘ 
.
قران و حدیث دونوں کے مطابق منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہونگے. اس آیت کو پڑھیں:  
"یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے اور تم کسی کو اُن کا مدد گار نہ پاؤ گے" (7:145)
.
یعنی ابوجہل جیسے مشرکین سے بھی نیچے کا درجہ منافقین کیلئے ہے. سوشل میڈیا پر مجھ سمیت تمام لکھاریوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ خدا نخواستہ ایسا تو نہیں کہ ہماری تحریر تو تقویٰ سے دھلی ہو مگر ہمارا کردار منافقت سے تعفن زدہ ہو 
فتنہ و فساد 
======
.
کسی انسان کو قتل کرنا اسلام میں ایک کریہہ ترین جرم ہے اور ایسا کرنا پوری انسانیت کو قتل کردینے کے مترادف ہے مگر قران حکیم کی رو سے فتنہ و فساد میں معاونت کرنا قتل سے بھی کہیں زیادہ بڑا جرم ہے. ملاحظہ ہو:
.
"آپ سے حرمت والے مہینے میں لڑائی کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دو اس میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے اور الله کے راستہ سے روکنا اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے رہنے والوں کو اس میں سے نکالنا الله کے نزدیک اس سے بڑا گناہ ہے اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے اور وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر ان کا بس چلےاور جو تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے پھر کافر ہی مرجائے پس یہی وہ لوگ ہیں کہ ان کے عمل دنیا اور آخرت میں ضائع ہو گئے اور وہی دوزخی ہیں جو اسی میں ہمیشہ رہیں گے" (٢:٢١٧)
.
یہ فتنہ و فساد کے شوقین انٹرنیٹ کی دنیا میں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں جو کبھی مذہبی منافرت کے نام پر اور کبھی سیاسی عصبیت کے نام پر فتنہ و فساد برپا کرتے نظر آتے ہیں. ایسے احباب کی کوئی کمی نہیں جن کی فیس بک وال کسی مخصوص فرقہ یا مسلک کی پذیرائی اور دوسرے فرقہ یا مسلک کی تحقیر سے بھری ہوتی ہے 
.
حقوق العباد 
======
.
گنہگارکو کم از کم اپنے رب کے رحم کی قوی امید رہتی ہے. مگر حقوق العباد میں کوتاہی کا مطلب یہ ہے کہ اب معاملہ صرف الله سے نہیں بلکہ اس شخص سے بھی ہے جس کا آپ نے حق سلب کیا ہے. ظاہر ہے روز قیامت یہ توقع خام خیالی سے زیادہ نہیں کہ کوئی اپنا حق بناء قیمت لئے چھوڑ دے گا اور وہاں قیمت نیکیاں ہی ہیں 
.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے"آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز،روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں گھسیٹ کر پھینک دیا جائے گا"(رواہ مسلم)
.
سوشل میڈیا میں اس کی ایک مثال کسی کے شعر یا تحریر کو چرا کر اپنے نام سے منسوب کر کے پیش کرنا ہے. ایسا کرکے آپ اس کے حقیقی مصنف کی حق تلفی کرتے ہیں اور یہ بلاشبہ چوری کے متبادل ہے 
تکبر 
===
.
رب تعالیٰ کو مخلوق کی جانب سے کسی طرح کا کبر شدید ناپسند ہے. کائنات کا پہلا گناہ جو ابلیس نے کیا وہ شائد کبر ہی تھا. ترمزی میں ارشاد ہے " وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل می رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہو گا " لہٰذا مومن ہمیشہ تکبر سے خالی اور عاجزی سے مزین ہوتا ہے. تکبر صرف بادشاہ ہی نہیں کرتے بلکہ مذہبی چوغہ پہن کر وہ مذہبی علماء بھی کرتے ہیں. اس کا اظہآر کبھی وہ اپنے نام کے ساتھ قطب الاقطاب، شیخ ال شیوخ جیسے ڈیڑھ درجن القابات جوڑ کر کرتے ہیں اور کبھی اپنے ہاتھ پیر مریدوں سے دانستہ چموا کر کیا کرتے ہیں. سوشل میڈیا پر بھی یہ تکبر کبھی لایکس کی تعداد کا زعم دکھا کر اور کبھی مخاطب کی تحقیر کر کے کیا جاتا ہے.
.
سود 
===
.
یہ واحد گناہ ہے جسے کلام پاک میں الله اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کے مترادف بیان کیا گیا ہے. ملاحظہ کیجیئے:
.
"اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہوo پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلان جنگ پر خبردار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال (جائز) ہیں، (اِس صورت میں) نہ تم خود ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گاo" (٢:٢٧٢،٢٧٣)
.
سودی نظام میں کسی بھی طرح کی معاونت دراصل باطل نظام کے ہاتھ مظبوط کرنا ہے. قرانی اصولوں کی بنیاد پر معاشرہ سود کی بجائے صدقات کی ذہنیت پیدا کرتا ہے. اسی حوالے سے ارشاد پاک ہے:
"الله تعالیٰ سود کو گھٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔“ (٢:١٧٦)
.
سنن ابن ماجہ کی یہ حدیث بھی قابل غور ہے : حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سود کے ستر (70) گناہ ہیں ان میں سے ادنی درجہ کا گناہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔“
.
سود سوشل میڈیا پر گو کے براہ راست نہیں موجود مگر بناء علم کے اس حساس ترین موضوع کی حرمت کو تختہ مشق بنانا ہلاکت ہے 
.
کفر کی روش 
========
.
جانتے بوجھتے حق کو چھپانا یا اس کا انکار کرنا کفر ہے اور اس کفر کی روش کو کسی فائدے کیلئے اختیار کرلینا انسان کو کافر بنادیتا ہے. یہ بہت بری سرکشی ہے کہ حق آپ پر واضح ہو مگر آپ اس سے پہلوتہی اختیار کریں. جہنم کافروں کی ہی ضیافت کیلئے ہے. یہ بات واضح رہے کہ ہر کفر کا مرتکب کافر نہیں ہے. علماء کفر کرنے اور کافر ہونے میں امتیاز کرتے ہیں. آیت پڑھیئے:
"اور حق کو باطل سے خلط ملط نہ کرو اور حق کو چھپاؤ نہیں جبکہ تم جانتے ہو۔" (٢:٤٣)
کافر ضروری نہیں کہ غیر مسلم ہی ہو بلکہ ایک کلمہ گو بھی حق چھپانے کی وجہ سے کافر ہوسکتا ہے. گو اس کا فیصلہ الله کریں گے. آج اپنے اپنے فرقہ یا عالم یا لیڈر کی اندھی تقلید میں حق کا انکار کرنا یا اسے چھپانا ایک عام روش ہے. اس کی لاتعداد مثالیں سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتی ہیں  
.
مایوسی
====
رحمٰن کی رحمت سے مایوسی بذات خود کفر ہے. اللہ پاک بارہا اپنے بندوں کو اپنی بےمثل اور بےحساب رحمت کا یقین دلاتے ہیں. یہ مایوسی ہی ہے جو انسان کو توبہ سے روک دیتی ہے. ایک تنبیہہ دیکھیں:
.
"اے میرے بیٹو! جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش کرو اور الله کی رحمت سے نا امید نہ ہو بے شک الله کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو کافر ہیں" (١٢:٨٧)
.
مایوسی کی ایک مثال سوشل میڈیا پر ان افراد کی ہے جنہیں ان کا محبوب دھوکہ دے کر چلا جاتا ہے اور اب صبح و شام یہ حسرت و یاس کی تصویر بنے کبھی دکھ بھری شاعری سے اور کبھی خدا کی رحمت کو جھٹلا کر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے رہتے ہیں 
.
گناہ کا پرچار کرنا 
===========
گناہ پر ندامت ایک فطری عمل ہے چنانچہ اس سے شرمندہ ہو کر اسے چھپانا بھی ایک فطری فعل ہے. ایسا شخص شدید مغضوب ہے جو اپنے گناہ پر نادم ہونے کی بجائے دوسروں کو بتا کر اسکی ترغیب دے . آج یہ کام فیس بک پر عام ہے کہ لوگ پہلے گناہ کرتے ہیں اور پھر اسے شیئر کرکے مزہ لیتے ہیں. اسمیں اخلاق سوز ویڈیوز سے لیکر فحش لطائف تک سب شامل ہیں  
.
یہ طریق ناقابل معافی ہے. جیسا کہ حدیث میں موجود ہے:((کل أمتی معافی الا المجاھرین))
’’اپنے گناہوں کی تشہیر کرنے والوں کے علاوہ میری امت کے سارے لوگوں کو معاف کر دیا جائیگا ۔‘‘
 .
گناہ کبیرہ 
======
.
متقی انسان چھوٹے بڑے ، دانستہ نادانستہ ہر طرح کے گناہوں سے پرہیز کرتا ہے. مگر یہ بھی سچ ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے. یہ جذبات کی رو میں بہہ کر گناہ کا ارتکاب ضرور کرتا رہتا ہے. اسی لئے مسلسل توبہ استغفار کی تلقین کی گئی ہے. ایسی صورت میں الله رب العزت نے اپنی بےمثال رحمت  سے مومنین کو یہ نوید سنائی ہے.
.
"گر تم ان بڑے گناہوں سے بچو گے جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تم سے تمھارے چھوٹے گناہ معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دینگے." ( سورۃ النساء ، آیت : 21 ) 
لہٰذا عقلمندی کا تقاضہ ہے کہ انسان کبیرہ گناہوں سے خصوصی طور پر متنبہ رہے. کبیرہ گناہ حقوق العباد سے متعلق بھی ہوتے ہیں جیسے تہمت لگانا، جھوٹی گواہی دینا وغیرہ اور کبیرہ گناہ حقوق اللہ سے بھی متعلق ہوا کرتے ہیں جیسے فرض عبادات کا مکمل تارک ہونا، زکات و صدقات میں ڈنڈی مارنا وغیرہ 
.
ان دونوں سے متعلق گناہ آپ کو سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں. جہاں کبھی کسی سیاسی یا مذہبی رہنما پر تہمت و بہتان باندھے جاتے ہیں اور کہیں شرک زدہ مواد کی تشہیر کی جاتی ہے. یہ بھی دھیان رہے کہ کوئی صغیرہ گناہ اگر انسان کی مسلسل عادت و فطرت بن جائے تو پھر وہ صغیرہ نہیں رہتا بلکہ گناہ کبیرہ بن جاتا ہے 
.
میں جانتا ہوں کہ قارئین کی نظر میں اور بھی کئی ایسے گناہ ہونگے جنہیں مہلک ترین کی فہرست میں داخل کیا جاسکتا ہے مگر احقر اسی پر اکتفاء کرتا ہے.  
.
====عظیم نامہ====