Saturday, 5 December 2015

کراچی کی ایک دوپہر


کراچی کی ایک دوپہر




سڑک پر بے ہنگم ٹریفک کا اژدھام تھا اور میں اس جامد مگر چیختی تصویر کا ایک حصہ بنا ہوا تھا. چلچلاتی دھوپ میں حلق سوکھ رہا تھا۔ میری نظر گھومتی ہوئی ان پنجروں پر جاٹکی ، جن میں نہ جانے کتنی ہی ننھی چڑیائیں قید ، بھوک پیاس سے نڈھال پھڑپھڑا رہی تھیں۔ یہ پنجرے چڑی مار افراد کے تھے جن کا ذریعہ معاش ان ہی چڑیوں کو پکڑنا اور بیچنا تھا۔ ذہن و قلب میں عجب مخمصہ پیدا ہونے لگا۔ ایک جانب وارفتگی سے دل چاہتا کہ ان پیاسی چڑیوں کو خرید کر اس سخت قید سے نجات دلا دوں اور دوسری جانب ذہن بتاتا کہ یہ تو ان چڑی ماروں کے اس روز کے دھندہ کو تقویت پہنچانا ہے۔ اسی شش و پنج میں کتنے ہی لمحے بیت گئے۔ پھر کہیں اندر سے کسی نے سرگوشی کی۔ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم نےاپنے اصحاب کو جہاں غلامی کے طوق کو توڑنا سکھایا ، وہاں یہ بھی تلقین کی کہ اگر مال رکھتے ہو تو غلام خرید کر آزاد کرو۔ گو کہ ایسا کرنا غلام بیچنے والے کے کاروبار کو تقویت دیتا تھا۔ مگر اس غلط کاروبار کو ختم کرنا فرد کا نہیں بلکہ حاکم وقت کا کام تھا۔ لہذا مدینہ میں اسلامی نظم کا قیام ہوا تو پھر غلامی کو بطور کاروبار کرنے کا تدریج سے خاتمہ کردیا گیا۔ 

۔ 
میں جانتا تھا کہ ان چڑی ماروں کا یہ ذریعہ معاش درست نہیں۔ یہ بھی علم تھا کہ یہ مسلسل دوسری چڑیائوں کو ناکردہ جرم پر قید کرتے رہیں گے مگر انہیں ایسا نہ کرنے دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا ، تب تک ان بے بس چڑیوں کو خرید کر آزاد کرنا ہی شائد مجھ جیسے کم اختیار کیلئے درست قدم ہے۔ یہ بات سمجھ آتے ہی سکون ہو گیا۔ میں نے اللہ پاک کا نام لے کر انہیں ایک ایک کرکے آزاد کردیا۔ سب چڑیائیں چہچہاتی فضا میں چاروں سمت پھیل گئیں۔ لگتا تھا ان کے ساتھ میں بھی آزاد ہوگیا ہوں۔ میرا دل شاد ہوگیا اور زبان دعاگو۔
۔
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment