مکہ مکرمہ - ایک پرفیکٹ سیکولر سوسائٹی
رسالت سے قبل مکہ مکرمہ کی سوسائٹی کا تصور کیجیئے. ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی موجودہ مغربی ملک کی طرح ایک پرفیکٹ سیکولر سوسائٹی کا نقشہ ہے. ایک ایسا سیاسی و سماجی ماحول جہاں ہر کسی کو مذہبی آزادی ہے. کوئی 'حبل' کو پوجتا ہے تو کوئی 'لات' کو مانتا ہے. کوئی 'منات' کو حاجت روا سمجھتا ہے تو کوئی خود کو 'عبدالعزی' کہتا ہے. کوئی 'یغوث' کا پیرو ہے تو کوئی 'اساف و نائلہ' کا طواف کر رہا ہے. کوئی تمام بتوں کو خدائی میں شریک کرتا ہے تو کوئی خود کو خالص حنیف کہنے پر اکتفاء کرتا ہے. غرض ہر گروہ اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرتا تھا اور دیگر عقائد کو بناء کسی تنقید کے روا رکھتا تھا. مگر دین اسلام کا مزاج یہ نہیں ہے. وہ جب رسول کی زبان سے کسی کفر زدہ سوسائٹی میں ادا ہوتا ہے تو پھر کسی 'جنٹلمین اگریمنٹ' کے پیچھے نہیں چھپتا بلکہ آگے بڑھ کر کلمہ حق کہتا ہے. حق اور باطل کی تفریق کرتا ہے. اس کا انداز محض مدافعانہ نہیں ہوتا بلکہ علمی انداز میں جارحانہ بھی ہوتا ہے. الله کا دین یہ جملے کہنے نہیں آتا کہ 'سب مذاہب ٹھیک ہیں' یا 'سب رستے جنت ہی کے ہیں'. وہ ان میٹھے میٹھے جملوں کی بجائے رائج شدہ راسخ عقائد کو للکارتا ہے. معاشرے کے ٹہرے پانی میں پہلا پتھر ہی 'لا' کہہ کر مارا جاتا ہے کہ اپنے تمام خداؤں کا انکار کر دو اور پھر دعوت دیتا ہے کہ بس الله کو اپنا معبود تسلیم کرو. قران حکیم جابجا مشرکین کے عقائد کو جو اسکے براہ راست مخاطبین بھی ہیں دعوتی اسلوب کے ساتھ تنقید کا بھی نشانہ بناتا ہے. کبھی وہ سورہ الحج میں کہتا ہے کہ اگر تمہارے یہ تمام بت مل کر بھی آجائیں تو ایک مکھی نہیں بنا سکتے اور اگر مکھی کوئی چیز ان سے چھین بھاگے تو اسے پکڑ نہیں سکتے. کبھی وہ ابراہیم علیہ سلام کی بت شکنی کا بیان کرتا ہے اور کبھی مشرکین کے دیگر عقائد جیسے ملائکہ کو بیٹیاں ماننے پر کڑی تنقید کرتا ہے. یہ بات ٹھیک سے سمجھ لینی چاہیئے کہ اسلام اپنے ماننے والو کو 'مائنڈ یور اون بزنس' کی اپروچ نہیں سکھاتا. نہ ہی وہ مغربی فکر کی طرح مذھب کو 'پرسنل میٹر' کہہ کر چھوڑ دیتا ہے. اسلام فرد اور معاشرے دونوں کی سطح پر تذکیر و تطہیر کا اہتمام کرتا ہے. وہ فرد سے معاشرے اور معاشرے سے فرد کا سفر کرتا ہے. وہ اپنا دائرہ فرد تک محدود نہیں رکھتا بلکہ سیاست، معیشت اور معاشرت سب کو الہامی اصولوں کا پابند کردیتا ہے. وہ جہاں فرد کا تزکیہ کر کے اسے اسلامی معاشرے کا ستون بناتا ہے ، وہاں معاشرے کے نظم کو قران کے اصولوں کا تابع کرکے تزکیہ کی اجتماعی فضا تشکیل دیتا ہے. وہ جہاں دیگر عقائد، مسالک یا مذاہب کو تحفظ فراہم کرتا ہے وہاں وہ ایسی مکالمہ کی فضا بھی پیدا کرتا ہے جہاں حق دلیل کی بنیاد پر واضح اور قائم ہوسکے. وہ معاشرے میں موجود فاسد عقائد یا نظریات کو زیر گفتگو لاتا ہے. اس کے حق میں دلائل کا تقاضا کرتا ہے اور اپنے مقدمہ کے ثبوت میں دلائل پیش کرتا ہے.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment