گناہ کو گناہ سمجھنا
گناہ کو گناہ سمجھنا نہایت ضروری ہے، یہ بات بظاہر اہم محسوس نہیں ہوتی مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان میں احساس ندامت باقی رہے تو پلٹ آنے کی امید باقی رہتی ہے. مگر اگر گناہ کی سنگینی کا احساس دل سے رفو ہو جائے تو پھر ایسا شخص پوری زندگی اسی عمل میں ملوث رہتا ہے. ہم جانتے ہیں کہ ابلیس نے الله رب العزت کے حکم کو ماننے سے انکار کیا تھا اور ہم اس سے بھی واقف ہے کہ آدم الہے سلام نے بھی ممنوعہ شجر کا پھل کھاکر الله رب العزت کے صریح حکم کی خلاف ورزی کی تھی. پھر وہ کون سا فرق تھا جس کی بنیاد پر ابلیس تاقیامت ملعون قرار پایا اور آدم الہے سلام کو پھر بھی خلیفہ الارض کی خلعت پہنائی گئی؟
.
فرق اس سے زیادہ کچھ نہ تھا کہ ابلیس نے اعتراف جرم کی بجائے ، الله تعالیٰ پر بھٹکانے کا الزام لگایا. جبکہ آدم الہے سلام نے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے احساس ندامت ظاہر کیا. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احساس ندامت رکھنا کس قدر موثر اور ضروری ہے
.
بچپن میں میرے والد مجھے ایک کہانی سنایا کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ شروع شروع میں شیطان بہت پریشان رہا کرتا تھا، وہ بڑی سخت محنت کے بعد کسی کو گناہ پر آمادہ کرتا. اسے نماز پڑھنے سے روکتا یا جھوٹ بولنے پر اکساتا مگر جیسے ہی اس شخص کو اپنے گناہ کا احساس ہوتا تو وہ فوری الله پاک سے معافی مانگ لیتا. نتیجہ یہ کہ میری رب کی رحمت سے وو نہ صرف معافی حاصل کرلیتا بلکہ بعض اوقات اسکا مرتبہ بھی بڑھا دیا جاتا. یہ دیکھ کر شیطان نے ایک نئی پالیسی بنائی ، اور وہ یہ کہ انسان سے گناہ کچھ اس ڈھنگ میں کرواۓ جایئں کہ وہ انہیں گناہ سمجھ کر نہیں بلکہ ثواب جان کر انجام دے. اب جب کسی عمل کو گناہ سمجھا ہی نہ جائے بلکہ یہ سوچا جائے کہ اس سے آپ متقی ہو رہے ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ توبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ آج لوگ ثواب سمجھ کر کبھی تو کسی پیر کو سجدہ کرتے ہیں تو کبھی ہزاروں بیگناہوں کو جان سے مار دیتے ہیں. ضروری ہے کہ کم از کم گناہ کو گناہ تسلیم کیا جائے ، اس کے کرنے کے لئے کوئی بہانہ یا تاویل نہ گھڑی جائے
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment