Friday, 10 July 2015

قران پر تدبر کا آغاز کیسے کیا جائے؟


قران پر تدبر کا آغاز کیسے کیا جائے؟




.
سوال : بھائی جان قران پر تفکر کا آغاز کیسے کروں ؟ کیسے سمجھوں ؟ تھوڑا گائیڈ کر دیں
.
جواب:
.
السلام و علیکم 
.
مطالعہ قرآن کے دو مقاصد ہیں۔
.
١. تزکر
٢. تدبر
.
تذکر کے لئے اس سے آسان کتاب کوئی نہیں. تدبر کیلئے اس سے مشکل کتاب کوئی نہیں. تزکر ایک بار نیک نیتی سے پڑھنے سے حاصل ہوسکتا ہے. تدبر کی کوئی حد نہیں. ساری زندگی تحقیق کرتے رہیں. قران حکیم کے خزائن الله کی توفیق اور قاری کے ظرف و علم کے مطابق افشاں ہوتے رہیں گے 
.
اِرشاد خداوندی ہے:
.
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْآ اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَاُولُوا اْلاَلْبَابِ۔ ص، ۳۸:۲۹
.
’’(یہ قرآن) برکت والی کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل فرمائی تاکہ وہ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ عقل مند لوگ نصیحت قبول کریں۔‘‘
.
تذکر کے حوالے سے قرآن یوں گویا ہوتا ہے
.
وَلَقَدْ یَسَّرنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکِرْ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ۔ القمر، ۵۴:۱۷
.
’’اور بے شک ہم نے نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے قرآن کو آسان کیا، تو ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا‘‘
.
تزکر اور تدبر کے بتدریج سفر کو شروع کرنے کے لئے چند تجاویز درج ذیل ہیں. یہ کوئی حتمی تجاویز نہیں ہیں مگر وہ طریق ہے جسے میں نے خود اپنے لئے اپنایا اور فائدہ مند پایا. ان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور کئی اہل علم اس ترتیب سے اختلاف رکھتے بھی ہیں. لہٰذا اسے ایک کم علم انسان کا ذاتی سفر اور ناقص تجربہ سمجھیں 
.
١. قران مجید کا سادہ ترین ترجمہ لے لیں جو آپ کو سمجھ میں آتا ہو. کسی خاص مسلک یا عالم کا ہونا ضروری نہیں 
.
٢. ساتھ میں تفصیلی تفسیر نہ ہو بلکہ سادہ ترجمہ ہو 
.
٣. ایک نوٹ بک لے لیں جس میں آپ نوٹ بنا سکیں 
.
٤. الله پاک سے دعا کریں کہ وہ آپ کو اپنی کتاب سمجھا دیں اور کسی طرح کی ملاوٹ سے محفوظ رکھیں 
.
٥. اپنے دل میں مصمم ارادہ کر لیں کہ آپ اس کتاب کو مسلکی عینک سے نہیں پڑھیں گے 
.
٦. پڑھنے سے پہلے تمام فرسودہ خیالات اور نظریات کو اپنے ذہن کی تختی سے کھرچ پھینکیں اور یہ ٹھان لیں کہ اس الہامی پیغام کے سامنے اپنا سر جھکا دیں گے 
.
٧. الله کا نام لے کر آغاز کریں. اتنا پڑھیں جتنا شوق سے پڑھ سکتے ہیں. عربی ساتھ پڑھیں تو بہت اچھا ہے ورنہ سادہ ترجمہ پڑھیں. رک رک کر سوچ سوچ کر پڑھیں. ایک خاص وقت مقرر کر سکتے ہیں تو کرلیں
.
٨. جو آیت پسند آئے یا سمجھ نہ آئے ، اسے نوٹ بک میں لکھ لیں. 
.
٩. کھل کر سوال پوچھیں اور سوچیں. آیت کے متعلق جو اشکال پیدا ہوں، انہیں سوالات یا طالبعلمانہ اعتراضات کی صورت میں آیت کے نیچے بریکٹ لگا کر لکھ لیں. یہ سوالات آگے جا کر قران خود حل کردے گا. اگر کچھ سوالات پھر بھی نہ سمجھ آئیں تو بعد میں اہل علم سے پوچھ لیجئے. اس وقت تک جواب پر راضی نہ ہوں جب تک وہ آپ کو قلبی و فکری طور پر مطمئن نہ کردے. 
.
10. ایک دفعہ قران شروع کردیا ہے تو اب رکیئے نہیں. شروع میں شیطان خوب بہکائے گا ، قران کے مزاج کو سمجھنے میں کافی مشکل ہوگی مگر ہمت ہارے بناء رب سے مانگ کر پڑھتے جائیں. دس گیارہ سپاروں کے بعد آپ کو انشااللہ شدید لگاؤ پیدا ہو جائے گا اور نتیجہ میں پڑھنا بہت اچھا لگے گا 
.
١١. اسی طرح پہلی بار قران مجید کو پورا ختم کریں. چار سے چھ مہینہ میں یہ پوراہو جائے گا. ایک بار جب ایسے پورا ہو جائے تو پھر اس کے بعد دوسری بار پڑھیں گے اور اس بار تحقیق کے زاویہ اور بھی گہرے ہوں گے. عربی زبان کو سیکھنا، اس کی لغت کو دیکھنا ، شان نزول کو سمجھنا، مختلف مفسرین کی آراء کا تقابل کرنا، مضامین قران کو الگ الگ دیکھنا وغیرہ اس میں شامل ہوگا
.
واللہ اعلم بلصواب 
.
====عظیم نامہ====

Thursday, 9 July 2015

گناہ کو گناہ سمجھنا



گناہ کو گناہ سمجھنا


گناہ کو گناہ سمجھنا نہایت ضروری ہے، یہ بات بظاہر اہم محسوس نہیں ہوتی مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان میں احساس ندامت باقی رہے تو پلٹ آنے کی امید باقی رہتی ہے. مگر اگر گناہ کی سنگینی کا احساس دل سے رفو ہو جائے تو پھر ایسا شخص پوری زندگی اسی عمل میں ملوث رہتا ہے. ہم جانتے ہیں کہ ابلیس نے الله رب العزت کے حکم کو ماننے سے انکار کیا تھا اور ہم اس سے بھی واقف ہے کہ آدم الہے سلام نے بھی ممنوعہ شجر کا پھل کھاکر الله رب العزت کے صریح حکم کی خلاف ورزی کی تھی. پھر وہ کون سا فرق تھا جس کی بنیاد پر ابلیس تاقیامت ملعون قرار پایا اور آدم الہے سلام کو پھر بھی خلیفہ الارض کی خلعت پہنائی گئی؟ 
.
فرق اس سے زیادہ کچھ نہ تھا کہ ابلیس نے اعتراف جرم کی بجائے ، الله تعالیٰ پر بھٹکانے کا الزام لگایا. جبکہ آدم الہے سلام نے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے احساس ندامت ظاہر کیا. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احساس ندامت رکھنا کس قدر موثر اور ضروری ہے
.
بچپن میں میرے والد مجھے ایک کہانی سنایا کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ شروع شروع میں شیطان بہت پریشان رہا کرتا تھا، وہ بڑی سخت محنت کے بعد کسی کو گناہ پر آمادہ کرتا. اسے نماز پڑھنے سے روکتا یا جھوٹ بولنے پر اکساتا مگر جیسے ہی اس شخص کو اپنے گناہ کا احساس ہوتا تو وہ فوری الله پاک سے معافی مانگ لیتا. نتیجہ یہ کہ میری رب کی رحمت سے وو نہ صرف معافی حاصل کرلیتا بلکہ بعض اوقات اسکا مرتبہ بھی بڑھا دیا جاتا. یہ دیکھ کر شیطان نے ایک نئی پالیسی بنائی ، اور وہ یہ کہ انسان سے گناہ کچھ اس ڈھنگ میں کرواۓ جایئں کہ وہ انہیں گناہ سمجھ کر نہیں بلکہ ثواب جان کر انجام دے. اب جب کسی عمل کو گناہ سمجھا ہی نہ جائے بلکہ یہ سوچا جائے کہ اس سے آپ متقی ہو رہے ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ توبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ آج لوگ ثواب سمجھ کر کبھی تو کسی پیر کو سجدہ کرتے ہیں تو کبھی ہزاروں بیگناہوں کو جان سے مار دیتے ہیں. ضروری ہے کہ کم از کم گناہ کو گناہ تسلیم کیا جائے ، اس کے کرنے کے لئے کوئی بہانہ یا تاویل نہ گھڑی جائے
.
====عظیم نامہ====

رمضان المبارک میں ایک بہترین عمل



رمضان المبارک میں ایک بہترین عمل 



رمضان المبارک میں ایک بہترین عمل یہ بھی ہے کہ آپ چند ایسی آیات حفظ کرلیں، جن میں آپ کی انفرادی ربیت کا بیان ہوا ہو اور وہ اپنے حجم میں کم از کم کسی چھوٹی سورہ جیسے سورہ العصر کے برابر ہوں. ان آیات کو پھر آپ ساری زندگی اپنی نمازوں میں تلاوت کرسکیں گے. میرا اپنا طریق یہی ہے کہ پہلے میں اپنا داخلی جائزہ لیتا ہوں کہ وہ کون سے گناہ یا کمزوریاں ہیں جو مجھ میں موجود ہیں اور جن سے اجتناب کرنا میرے لئے خاصہ کٹھن ہے. جب یہ واضح ہو جائے تو ان کمزوریوں سے متعلق قران حکیم کی آیات کو سمجھ کر حفظ کرلیتا ہوں. پھر نماز میں بار بار غور کرکے تلاوت کرتا رہتا ہوں. اس ترکیب سے گناہ کا چھوڑنا یا اس کمزوری کو ٹھیک کرلینا آسان ہوجاتا ہے. اسی طرح قران پاک کے وہ مقامات جو میرے دل کے زیادہ نزدیک ہیں ، انہیں بھی نماز میں پڑھنے کیلئے یاد کرلیتا ہوں اور یوں اس پر تدبر گہرا ہوتا جاتا ہے. وہ معنی سمجھ آنے لگتے ہیں جو ایک بار پڑھنے یا تفکر کرنے سے کبھی نہیں آتے. رمضان قران کا مہینہ ہے لہٰذا آپ بھی کچھ آیات یا سورہ ضرور سمجھ کر حفظ کریں جو انشااللہ پھر پوری زندگی آپ کے حافظہ میں محفوظ ہوں اور آپ بھی ان فوائد کو حاصل کرسکیں جن کا ذکر میں نے اپر کیا ہے. آزمائش شرط ہے.

.
====عظیم نامہ====

قران حکیم کے وسیع تر معنی کیسے سمجھے جائیں ؟


قران حکیم کے وسیع تر معنی کیسے سمجھے جائیں ؟



اگر میرے دل کا بس چلے تو میں قران حکیم کے سنجیدہ طالبعلموں کیلئے علم طبیعات (فزکس) ، علم نفسیات (سائیکولوجی)، علم حیاتیات (بائیولوجی) ، علم فلکیات (کاسمولوجی) ، علم فلسفہ (فلاسفی) ، علم تاریخ (ہسٹری) اور علم ادب (لٹریچر) کی تعلیم حاصل کرنے کو لازم قرار دے دوں. میری احقر رائے میں قران حکیم کے معنوی خزائن کو گہرائی میں اس وقت تک نہیں سمجھا جاسکتا جب تک ان علوم کے ذریعے زمانوی تحقیق سے مطابقت پیدا نہ کی جائے. میرا اپنا معاملہ یہ ہے کہ جب پہلی بار قران مجید پر تفکر مکمل کیا تو لامحالہ سائنس، فلسفہ اور دیگر مضامین سے دلچسپی پیدا ہوگئی. پہلی بار شوق سے بازار جا کر فزکس کی کتاب خریدی، فلکیات اور فطرت سے متعلق تحقیقی پروگرامز دیکھنے لگا، فلسفہ اور دلیل سے دلچسپی پیدا ہوگئی، انسان کے شعوری ارتقاء کی تاریخ جاننے کیلئے میوزیم جاتے رہنا میرا معمول بن گیا. سچ پوچھیں تو ایک لمحے کو میں خوفزدہ ہوگیا کہ شائد میں نے قران کریم کو غلط انداز میں سمجھ لیا ہے ورنہ میرے اردگرد موجود بیشمار قران کے طالبعلموں کو تو یہ دلچسپی نہیں پیدا ہوئی. ایک زمانے بعد مجھے پھر اطمینان حاصل ہوا کہ اگر اس الہامی کتاب پر اسکی روح کے ساتھ تدبر کیا جائے تو یہ ناممکن ہے کہ قاری کو کائناتی علوم سے غیرمعمولی دلچسپی نہ پیدا ہوجائے. الله عزوجل اپنے کلام میں سورج ، چاند، بارش، پودے ، ہماری نفسیات اور دیگر فطری مظاہر کو اپنی 'آیات' قرار دیتے ہیں. گویا اگر قران حکیم الله کی آیات کا مجموعہ ہے تو یہ صحیفہ کائنات بھی خالق بزرگ و برتر کی آیات سے مزین ہے. اگر قران حکیم الله کا کلام ہے تو پھر یہ کائنات بھی الله کا کام ہے. قران پاک میرے رب کا قول ہے اور سائنسی حقائق میرے رب کا عمل... یہ ممکن نہیں کہ پروردگار دو عالم کے قول و فعل میں کسی معمولی درجہ کا بھی تضاد ہو. میرے نزدیک اگر شریعت کا عالم بننا ایک عظیم کام ہے تو ان کائناتی علوم کا عالم یعنی سائنسدان بننا بھی عین عبادت ہے

.
====عظیم نامہ====