آپ سب مشرک ہیں ، کافر ہیں ، گستاخ رسول ہیں ، معلوم نہیں کیوں میں آپ کے گھر پیدا ہوگیا .. " ہ "
==========================================================
.
یہ کہتے ہوئے میری آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں، چہرہ غصہ سے سرخ تھا اور آواز میں کپکپاہٹ .. سامنے میرے والد اور بڑے بھائی خاموش بیٹھے سن رہے تھے.
.
میری عمر اس وقت سترہ اٹھارہ سال کی تھی. اس عمر میں جیسے اکثر نوجوانوں کو دین سے وقتی یا موسمی لگاؤ ہوجاتا ہے، اسی طرح میں بھی کچھ مہینوں سے اسی لگاؤ میں مبتلا تھا. ہر نماز مسجد جا کر ادا کرتا ، مجھے گھر میں کبھی فرقہ واریت نہیں سکھائی گئی تھی لہٰذا میرے نزدیک مسجد کا مطلب صرف مسجد ہی تھا. کون سا مسلک یا کون سے فرقہ کا سوال مسجد جاتے ہوئے مجھے کبھی پیش نہ آیا تھا. گھر سے نزدیکی مسجد اس مسلک کی تھی جس سے میرے گھرانے کا تعلق نہ تھا مگر جیسا میں نے بیان کیا کہ اس ضمن میں مجھے کبھی شدت نہیں سکھائی گئی تھی ، اسلئے میں بے دھڑک اسی مسجد میں اپنی نمازیں ادا کرتا. ایک روز مغرب کی نماز ختم کر کے باہر جانے لگا تو دیکھا کہ کچھ دینی بھائی حلقہ بنائے بیٹھے ہیں اور ایک بڑی داڑھی والے حضرت انہیں حدیث کی تعلیم کر رہے ہیں. میں بھی یہ سوچ کر ان کے حلقہ میں بیٹھ گیا کہ الله رسول کی باتیں سنوں گا اور اپنی اصلاح کروں گا. ان بھائیوں نے بھی بہت محبت سے جگہ دی. تعلیم شروع ہوئی اور کچھ دیر میں ختم ہوگئی. تعلیم کے بعد ان دعوت دینے والے حضرت نے مجھے کچھ اور نوجوانوں کے ساتھ روک لیا اور مزید دینی باتیں ہونے لگیں. باتوں باتوں میں انہوں نے میرے خاندانی مسلک کا نام لے کر بتایا کہ وہ لوگ کتنے بڑے گستاخ رسول ہیں. انہیں یہ گمان بھی نہیں تھا کہ میرا اپنا تعلق اسی مسلک سے ہے لہٰذا وہ کھل کر بولتے رہے. پھر یہ سلسلہ چل نکلا ، روز مغرب کی تعلیم کے بعد میرے خاندانی مسلک کی گمراہی سب کو سمجھائی جاتی اور ساتھ ہی احادیث بطور ثبوت پیش کی جاتیں. آھستہ آھستہ مجھے اس حقیقت سے نفرت ہونے لگی کہ میں اسی گمراہ مسلک سے وابستہ گھر میں کیوں پیدا ہوگیا ؟ .. سمجھ نہ آتا کہ کیا کروں ؟ ... ادھر میرے گھر میں والد اور بھائی دونوں میرے رویہ کی شدت اور تبدیلی کو بھانپ چکے تھے. اسی ازیت والے دنوں میں ایک روز میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا، مسجد سے گھر آتے ہوئے زار زار روتا تھا ، یہ کہتا تھا کہ الله مجھے ایسے مسلک والے گھر میں کیوں پیدا کردیا ؟ مجھے معاف کردیں .. کافی دیر کے بعد آنسو پونچھے اور گھر پہنچا. گھر پہنچتے ہی والد صاحب نے نرمی سے کہا کہ عظیم مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے. میں چاہ کر بھی منع نہیں کرسکا اور خاموشی سے گردن ہلا دی. والد صاحب اور بڑے بھائی دونوں مجھے لے کر ڈرائنگ روم میں آگئے اور دروازہ بند کردیا گیا. یہ والد صاحب کا خاص طریق تھا کہ جب کسی سے اہم بات کرنا ہوتی تو ہمیشہ بند کمرے میں اکیلے کرتے یا صرف اسے ساتھ رکھتے جو اس گفتگو کا اہل ہو.
.
میں سنجیدہ پتھریلے چہرے کے ساتھ خاموش صوفہ پر بیٹھا تھا. سامنے والد اور بھائی دونوں براجمان تھے اور دونوں کے چہرے پر محبت بھری مسکراہٹ تھی. بڑے بھائی نے خاموشی توڑی .. "عظیم ماشااللہ ، آج کل تو خوب عبادت ہورہی ہے ، درس میں بھی روز جاتے ہو .. کچھ ہمیں بھی سمجھاؤ" ہ
.
میں نے بہت چاہا کہ ضبط کر سکوں مگر پیمانہ اتنا بھرا ہوا تھا کہ اس سادہ سوال پر بھی پوری شدت سے چھلک پڑا. وہ والد جن کے سامنے کبھی اونچی آواز نہ ہوئی تھی ، آج اچانک وہ حجاب اٹھ گیا. میں نے ڈبڈبائی آنکھوں اور غم و غصہ سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا
.
" آپ سب مشرک ہیں ، کافر ہیں ، گستاخ رسول ہیں ، معلوم نہیں کیوں میں آپ کے گھر پیدا ہوگیا" ہ
.
حیرت انگیز طور پر میرے اس تلخ جملہ کا بھائی اور والد پر کوئی منفی اثر نہ ہوا بلکہ بھائی نے پوچھا کہ "اچھا اگر ایسا ہے تو ہمیں بھی بتاؤ تاکہ ہم بھی حق بات کو قبول کرلیں اور گمراہی سے بچ سکیں" ہ
.
اب میں نے ایک ایک کر کے ان تمام عقائد کا پوسٹ مارٹم شروع کیا جو میرے آبائی مسلک میں موجود تھے اور جن کے خلاف مجھے کئی مہینوں سے تعلیم دی گئی تھی. میں ساتھ ہی وہ احادیث بھی روانی سے بیان کرتا جن سے میرے مسلک کی گمراہی ثابت ہوتی تھی. والد اور بھائی دونوں بناء مجھے ٹوکے خاموشی سے پوری توجہ کے ساتھ سنتے رہے. یہاں تک کہ میں بول بول کر تھک گیا.
.
اب والد نے سوال کیا کہ "کیا کچھ اور بھی ہے جو کہنا چاہتے ہو؟" میں نے نفی میں گردن ہلا دی. والد پھر پیار سے مخاطب ہوئے کہ "عظیم اچھا یہ بتاؤ کہ یہ جتنی احادیث تم نے سنائی ہیں ، کیا وہ مستند ہیں؟" ... مجھے جھٹکا لگا ... "مستند سے کیا مراد ہے؟ .. یہ میرے پیارے رسول صلی اللہ و الہے وسلم کے اقوال ہیں" ہ
.
پوچھا "پھر بھی کتاب کا کچھ نام تو ہوگا؟" میں نے کہا "ہاں شاید گلزار مدینہ" .. اب والد اور بھائی نے پیار سے احادیث صحیحہ اور ضعیف و موضوع کا فرق بتانا شروع کیا، یہ بتایا کہ صحاح ستہ کا کیا مقام ہے اور بناء حوالوں کی مسلکی کتابوں میں درج احادیث کا کیا درجہ ہے؟ اسی طرح صحیح بخاری اور صحیح مسلم کیوں علماء میں مقدم تسلیم ہوتی ہیں ؟ .. جب یہ بات کچھ سمجھ آنے لگی تو والد نے ایک ایک کر کے میرے اعتراضات کا جواب دینا شروع کیا ، وہ گاہے بگاہے قران اور صحیح احادیث کی طرف توجہ بھی دلاتے. میرے ذہن میں دھماکے ہورہے تھے. وہ نفرت اور استدلال جو کئی مہینوں سے میرے ذہن میں جگہ بنائے بیٹھا تھا ، وہ کسی ریت کی دیوار کی طرح ڈھ گیا تھا.
.
جب میں پوری طرح قائل ہوگیا تو والد نے پوچھا کہ "ہاں بیٹا ! جو میں نے کہا ، تم اس سے متفق ہو ؟" .. میں نے پورے اطمینان سے سر ہلا کر کہا کہ "صد فیصد" ..ہ
.
یہ سن کر والد نے ٹہرے ہوئے لہجہ میں کہا "لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم میری بات پر ایسے یقین نہ کرو ، دیکھو تم کچھ دیر پہلے اس دینی حلقہ کے پوری طرح قائل تھے اور اب میری بات سے بھی پوری طرح متفق ہوگئے ہو، کیا ہو کہ کل کوئی تیسرا آئے جو ہم سے زیادہ بیان کی قوت رکھتا ہو اور تم اس کے بھی قائل ہو جاؤ ؟ .. اور پھر کیا معلوم کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں ؟ یا میرا مقصد سچ نہیں بلکہ تمھیں خاندانی مسلک میں جکڑ کر رکھنا ہو ؟ یا پھر میرے نتائج ہی سرے سے غلط ہوں ؟ " ہ
.
میں بیچارگی سے والد اور بھائی کی جانب دیکھنے لگا جیسے خاموش آنکھوں سے پوچھ رہا ہوں کہ پھرآپ ہی بتا دیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے. والد نے میرے خیال کو بھانپتے ہوئے کہا " بیٹا تمھیں چاہیئے کہ تحقیق کرو، قران حکیم پڑھو ، صحیح بخاری و مسلم کو ازخود دیکھو ، اس پر فیصلہ نہ کرو کہ وہ دینی بھائی کیا کہہ رہے تھے یا تمہارے والد کیا کہہ رہے ہیں، .. بلکہ تحقیق کے رستے سے سچائی کو پاؤ" ہ
.
یہ وہ پہلا بیج تھا جو جانے انجانے میرے والد اور بھائی نے مجھ میں بودیا تھا. وہ چاہتے تو اس دن مجھے اپنی مرضی کے قالب میں ڈھال سکتے تھے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر اسے میرے لئے پسند نہیں کیا. اس نصیحت کا میں حق تو ادا نہیں کرسکا مگر ہاں آگے چل کر میرا طریق یہی تحققیق بنا ہے جو ایک طالبعلمانہ انداز میں انشااللہ ہمیشہ جاری رہے گی. مجھ پر بعد کی زندگی میں واضح ہوگیا کہ نوجوان اذہان کی اس طرز پر برین واشنگ کسی ایک مسلک کی میراث نہیں بلکہ ہر مسلک و فرقہ اس دوڑ میں آگے آگے ہے. دیوبندی ، بریلوی، سنی، شیعہ کی کوئی تخصیص نہیں. آج میں خود کو صرف مسلم کہنے پر اکتفاء کرتا ہوں، تمام مسالک کے اہل علم سے استفادہ کرنے کا قائل ہوں اور کسی طور اپنی شناخت کے ساتھ کسی فرقہ کا لیبل لگانے کو آمادہ نہیں
.
====عظیم نامہ====
.
نوٹ: یہ ایک سچا واقعہ ہے جو میرے ساتھ پیش آیا مگرلمبا وقت گزرنے کی وجہ سے الفاظ میں کمی بیشی کا بھرپور احتمال ہے، اس پر اللہ پاک سے معافی کا خواستگار ہوں ، نیز یہ کہ اسے ہرگز کسی مسلک کی پبلسٹی یا مخالفت نہ سمجھا جائے بلکہ جیسا میں نے درج کیا کہ یہ طریقہ واردات ہر مسلک نے ہی اپنا رکھا ہے ہ
یہ کہتے ہوئے میری آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں، چہرہ غصہ سے سرخ تھا اور آواز میں کپکپاہٹ .. سامنے میرے والد اور بڑے بھائی خاموش بیٹھے سن رہے تھے.
.
میری عمر اس وقت سترہ اٹھارہ سال کی تھی. اس عمر میں جیسے اکثر نوجوانوں کو دین سے وقتی یا موسمی لگاؤ ہوجاتا ہے، اسی طرح میں بھی کچھ مہینوں سے اسی لگاؤ میں مبتلا تھا. ہر نماز مسجد جا کر ادا کرتا ، مجھے گھر میں کبھی فرقہ واریت نہیں سکھائی گئی تھی لہٰذا میرے نزدیک مسجد کا مطلب صرف مسجد ہی تھا. کون سا مسلک یا کون سے فرقہ کا سوال مسجد جاتے ہوئے مجھے کبھی پیش نہ آیا تھا. گھر سے نزدیکی مسجد اس مسلک کی تھی جس سے میرے گھرانے کا تعلق نہ تھا مگر جیسا میں نے بیان کیا کہ اس ضمن میں مجھے کبھی شدت نہیں سکھائی گئی تھی ، اسلئے میں بے دھڑک اسی مسجد میں اپنی نمازیں ادا کرتا. ایک روز مغرب کی نماز ختم کر کے باہر جانے لگا تو دیکھا کہ کچھ دینی بھائی حلقہ بنائے بیٹھے ہیں اور ایک بڑی داڑھی والے حضرت انہیں حدیث کی تعلیم کر رہے ہیں. میں بھی یہ سوچ کر ان کے حلقہ میں بیٹھ گیا کہ الله رسول کی باتیں سنوں گا اور اپنی اصلاح کروں گا. ان بھائیوں نے بھی بہت محبت سے جگہ دی. تعلیم شروع ہوئی اور کچھ دیر میں ختم ہوگئی. تعلیم کے بعد ان دعوت دینے والے حضرت نے مجھے کچھ اور نوجوانوں کے ساتھ روک لیا اور مزید دینی باتیں ہونے لگیں. باتوں باتوں میں انہوں نے میرے خاندانی مسلک کا نام لے کر بتایا کہ وہ لوگ کتنے بڑے گستاخ رسول ہیں. انہیں یہ گمان بھی نہیں تھا کہ میرا اپنا تعلق اسی مسلک سے ہے لہٰذا وہ کھل کر بولتے رہے. پھر یہ سلسلہ چل نکلا ، روز مغرب کی تعلیم کے بعد میرے خاندانی مسلک کی گمراہی سب کو سمجھائی جاتی اور ساتھ ہی احادیث بطور ثبوت پیش کی جاتیں. آھستہ آھستہ مجھے اس حقیقت سے نفرت ہونے لگی کہ میں اسی گمراہ مسلک سے وابستہ گھر میں کیوں پیدا ہوگیا ؟ .. سمجھ نہ آتا کہ کیا کروں ؟ ... ادھر میرے گھر میں والد اور بھائی دونوں میرے رویہ کی شدت اور تبدیلی کو بھانپ چکے تھے. اسی ازیت والے دنوں میں ایک روز میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا، مسجد سے گھر آتے ہوئے زار زار روتا تھا ، یہ کہتا تھا کہ الله مجھے ایسے مسلک والے گھر میں کیوں پیدا کردیا ؟ مجھے معاف کردیں .. کافی دیر کے بعد آنسو پونچھے اور گھر پہنچا. گھر پہنچتے ہی والد صاحب نے نرمی سے کہا کہ عظیم مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے. میں چاہ کر بھی منع نہیں کرسکا اور خاموشی سے گردن ہلا دی. والد صاحب اور بڑے بھائی دونوں مجھے لے کر ڈرائنگ روم میں آگئے اور دروازہ بند کردیا گیا. یہ والد صاحب کا خاص طریق تھا کہ جب کسی سے اہم بات کرنا ہوتی تو ہمیشہ بند کمرے میں اکیلے کرتے یا صرف اسے ساتھ رکھتے جو اس گفتگو کا اہل ہو.
.
میں سنجیدہ پتھریلے چہرے کے ساتھ خاموش صوفہ پر بیٹھا تھا. سامنے والد اور بھائی دونوں براجمان تھے اور دونوں کے چہرے پر محبت بھری مسکراہٹ تھی. بڑے بھائی نے خاموشی توڑی .. "عظیم ماشااللہ ، آج کل تو خوب عبادت ہورہی ہے ، درس میں بھی روز جاتے ہو .. کچھ ہمیں بھی سمجھاؤ" ہ
.
میں نے بہت چاہا کہ ضبط کر سکوں مگر پیمانہ اتنا بھرا ہوا تھا کہ اس سادہ سوال پر بھی پوری شدت سے چھلک پڑا. وہ والد جن کے سامنے کبھی اونچی آواز نہ ہوئی تھی ، آج اچانک وہ حجاب اٹھ گیا. میں نے ڈبڈبائی آنکھوں اور غم و غصہ سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا
.
" آپ سب مشرک ہیں ، کافر ہیں ، گستاخ رسول ہیں ، معلوم نہیں کیوں میں آپ کے گھر پیدا ہوگیا" ہ
.
حیرت انگیز طور پر میرے اس تلخ جملہ کا بھائی اور والد پر کوئی منفی اثر نہ ہوا بلکہ بھائی نے پوچھا کہ "اچھا اگر ایسا ہے تو ہمیں بھی بتاؤ تاکہ ہم بھی حق بات کو قبول کرلیں اور گمراہی سے بچ سکیں" ہ
.
اب میں نے ایک ایک کر کے ان تمام عقائد کا پوسٹ مارٹم شروع کیا جو میرے آبائی مسلک میں موجود تھے اور جن کے خلاف مجھے کئی مہینوں سے تعلیم دی گئی تھی. میں ساتھ ہی وہ احادیث بھی روانی سے بیان کرتا جن سے میرے مسلک کی گمراہی ثابت ہوتی تھی. والد اور بھائی دونوں بناء مجھے ٹوکے خاموشی سے پوری توجہ کے ساتھ سنتے رہے. یہاں تک کہ میں بول بول کر تھک گیا.
.
اب والد نے سوال کیا کہ "کیا کچھ اور بھی ہے جو کہنا چاہتے ہو؟" میں نے نفی میں گردن ہلا دی. والد پھر پیار سے مخاطب ہوئے کہ "عظیم اچھا یہ بتاؤ کہ یہ جتنی احادیث تم نے سنائی ہیں ، کیا وہ مستند ہیں؟" ... مجھے جھٹکا لگا ... "مستند سے کیا مراد ہے؟ .. یہ میرے پیارے رسول صلی اللہ و الہے وسلم کے اقوال ہیں" ہ
.
پوچھا "پھر بھی کتاب کا کچھ نام تو ہوگا؟" میں نے کہا "ہاں شاید گلزار مدینہ" .. اب والد اور بھائی نے پیار سے احادیث صحیحہ اور ضعیف و موضوع کا فرق بتانا شروع کیا، یہ بتایا کہ صحاح ستہ کا کیا مقام ہے اور بناء حوالوں کی مسلکی کتابوں میں درج احادیث کا کیا درجہ ہے؟ اسی طرح صحیح بخاری اور صحیح مسلم کیوں علماء میں مقدم تسلیم ہوتی ہیں ؟ .. جب یہ بات کچھ سمجھ آنے لگی تو والد نے ایک ایک کر کے میرے اعتراضات کا جواب دینا شروع کیا ، وہ گاہے بگاہے قران اور صحیح احادیث کی طرف توجہ بھی دلاتے. میرے ذہن میں دھماکے ہورہے تھے. وہ نفرت اور استدلال جو کئی مہینوں سے میرے ذہن میں جگہ بنائے بیٹھا تھا ، وہ کسی ریت کی دیوار کی طرح ڈھ گیا تھا.
.
جب میں پوری طرح قائل ہوگیا تو والد نے پوچھا کہ "ہاں بیٹا ! جو میں نے کہا ، تم اس سے متفق ہو ؟" .. میں نے پورے اطمینان سے سر ہلا کر کہا کہ "صد فیصد" ..ہ
.
یہ سن کر والد نے ٹہرے ہوئے لہجہ میں کہا "لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم میری بات پر ایسے یقین نہ کرو ، دیکھو تم کچھ دیر پہلے اس دینی حلقہ کے پوری طرح قائل تھے اور اب میری بات سے بھی پوری طرح متفق ہوگئے ہو، کیا ہو کہ کل کوئی تیسرا آئے جو ہم سے زیادہ بیان کی قوت رکھتا ہو اور تم اس کے بھی قائل ہو جاؤ ؟ .. اور پھر کیا معلوم کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں ؟ یا میرا مقصد سچ نہیں بلکہ تمھیں خاندانی مسلک میں جکڑ کر رکھنا ہو ؟ یا پھر میرے نتائج ہی سرے سے غلط ہوں ؟ " ہ
.
میں بیچارگی سے والد اور بھائی کی جانب دیکھنے لگا جیسے خاموش آنکھوں سے پوچھ رہا ہوں کہ پھرآپ ہی بتا دیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے. والد نے میرے خیال کو بھانپتے ہوئے کہا " بیٹا تمھیں چاہیئے کہ تحقیق کرو، قران حکیم پڑھو ، صحیح بخاری و مسلم کو ازخود دیکھو ، اس پر فیصلہ نہ کرو کہ وہ دینی بھائی کیا کہہ رہے تھے یا تمہارے والد کیا کہہ رہے ہیں، .. بلکہ تحقیق کے رستے سے سچائی کو پاؤ" ہ
.
یہ وہ پہلا بیج تھا جو جانے انجانے میرے والد اور بھائی نے مجھ میں بودیا تھا. وہ چاہتے تو اس دن مجھے اپنی مرضی کے قالب میں ڈھال سکتے تھے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر اسے میرے لئے پسند نہیں کیا. اس نصیحت کا میں حق تو ادا نہیں کرسکا مگر ہاں آگے چل کر میرا طریق یہی تحققیق بنا ہے جو ایک طالبعلمانہ انداز میں انشااللہ ہمیشہ جاری رہے گی. مجھ پر بعد کی زندگی میں واضح ہوگیا کہ نوجوان اذہان کی اس طرز پر برین واشنگ کسی ایک مسلک کی میراث نہیں بلکہ ہر مسلک و فرقہ اس دوڑ میں آگے آگے ہے. دیوبندی ، بریلوی، سنی، شیعہ کی کوئی تخصیص نہیں. آج میں خود کو صرف مسلم کہنے پر اکتفاء کرتا ہوں، تمام مسالک کے اہل علم سے استفادہ کرنے کا قائل ہوں اور کسی طور اپنی شناخت کے ساتھ کسی فرقہ کا لیبل لگانے کو آمادہ نہیں
.
====عظیم نامہ====
.
نوٹ: یہ ایک سچا واقعہ ہے جو میرے ساتھ پیش آیا مگرلمبا وقت گزرنے کی وجہ سے الفاظ میں کمی بیشی کا بھرپور احتمال ہے، اس پر اللہ پاک سے معافی کا خواستگار ہوں ، نیز یہ کہ اسے ہرگز کسی مسلک کی پبلسٹی یا مخالفت نہ سمجھا جائے بلکہ جیسا میں نے درج کیا کہ یہ طریقہ واردات ہر مسلک نے ہی اپنا رکھا ہے ہ
No comments:
Post a Comment