Friday, 26 September 2014

بدگمانی سے پرہیز کتنا ضروری ہے؟

 

بدگمانی سے پرہیز کتنا ضروری ہے؟

 
 
 
دو سال قبل جب میں نے ایک کمپنی میں ملازمت کی تو وہاں کم و بیش سب ہی خوش مزاج لوگ تھے. مگر ایک انگریز نوجوان ایسا بھی تھا جو اکثر میری بات کا جواب نہیں دیتا، میں اسے آواز دیتا تو بعض اوقات وہ میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا اور کبھی میں مذاق کرتا تو مسکراتا تک نہیں. میرے دل میں یہ بات آگئی کہ کیسا بدمزاج آدمی ہے ، شائد اپنی گوری چمڑی پر نازاں ہے ..... یہاں تک کہ ایک سال یوں ہی گزر گیا ، پھر ایک روز اس نے کسی بات کے دوران مجھے بتایا کہ وہ سماعت سے جزوی طور پر محروم ہے ، اسلئے اکثر لوگوں کی باتیں سن نہیں پاتا. مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا کہ میں کیسے اس سے اتنا عرصہ بدگمان رہا !
.
میرے گھر سے قریبی علاقے میں ایک شخص مجھے اکثر نظر آتا ، وہ ڈبل روٹی یا چپس کھاتا تو کافی سارا کونے میں پھینک دیتا. میں سوچنے لگا کہ کیسا ناشکرا ہے، رزق کی بے حرمتی کرتا ہے، اسے ضائع کردیتا ہے ، اگر نہیں کھانا ہوتا تو تھوڑا لیا کرے. یہی سوچتے ایک روز اس سے آنکھیں چار ہوئی تو اس نے مسکرا کر چمکتی آنکھوں کے ساتھ کہا کہ 'بھائی یہ دیکھو ، یہ میں کیڑوں کو کھانا ڈالتا ہوں ، الله انہیں کیسے رزق دیتا ہے' .. میں ٹھٹھک کر رک گیا ، میں جسے ناشکرا سمجھتا تھا، وہ تو الله کی ناتواں مخلوق کو رزق دینے کا ذریعہ بنا ہوا تھا. ندامت سے میرا سر جھک گیا.
.
یہاں انگلینڈ میں رواج ہے کہ ہمارے دیسی لوگ اپنا نام بدل کر انگریزو جیسا بنا لیتے ہیں. جیسے جمشید بدل کر 'جم' بن جاتا ہے یا تیمور بدل کر ' ٹم ' رہ جاتا ہے وغیرہ .. ایک روز اپنے دوستوں سے ملنے ایک دوسرے علاقے گیا تو وہاں دیکھا کہ سب گورے میرے ایک دوست محمد کو 'مو' کہہ کر بلا رہے ہیں. مجھے شدید تکلیف ہوئی کہ کائنات کے حسین ترین نام کو بدل کر کیسا کرڈالا ؟ صرف اسلئے کہ گوروں سے مناسبت ہو جائے؟ .. اسی خیال کو دل میں دبائے رکھا لیکن کہا نہیں. واپس گھر آگیا. کچھ عرصہ بعد پھر ملاقات ہوئی اسی دوست سے، اس بار نہیں رہا گیا. میں نے کہا محمد تمہارا نام تو سب سے بلند ہے اور تم نے اسے بدل کر 'مو' کر دیا ، ایسا نہ کرو ! ... میری بات سن کر اس نے جواب دیا کہ 'عظیم بھائی ، میں نے ایسا جان کر کیا ہے، جب کام پر ہوتا ہوں تو یہ لوگ غصہ یا مذاق میں مجھے گالیاں دیتے ہیں، میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے نبی کے نام کے ساتھ کوئی نازیبا کلمہ یہ کہیں، لہٰذا میں نے اپنا نام 'مو' لکھوا دیا تاکہ یہ 'مو' کو گالی دیں ، 'محمد' کو نہیں ! ...... یہ سن کر میری حالت ایسی تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں ، میں دہل گیا کہ اگر آج میری ملاقات نہ ہوتی اور میں اس سے یہ نہ پوچھتا تو ساری زندگی میں اپنے اس بھائی کے بارے میں بدگمانی سینے میں دبائے رکھتا. وہ حرکت جسکا کرنا مجھے گستاخی لگتا تھا ، وہ تو حب رسول کا اعلی نمونہ تھی.
.
میں اب جان گیا ہوں، میں اب سمجھ گیا ہوں کہ میری یہ آنکھ مجھے جو بھی دکھائے ، میں کسی کے بارے میں بدگمانی نہیں رکھوں گا ! میرے رب نے اپنی کتاب میں سچ کہا ہے کہ
.
سورہ الحجرات ١٢
''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، گمانوں سے بہت اجتناب کیا کرو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں؛ اور ٹوہ میں نہ لگو
  
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 17 September 2014

ہمارے اس دور میں اہل علم کیوں موجود نہیں ؟

ہمارے اس دور میں اہل علم کیوں موجود نہیں ؟



انسان کی ناقدری کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے گزرے ہوئے سلف کو تو بڑھا چڑھا کر یاد رکھتا ہے مگر اپنے زمانہ موجود میں اہل علم کی قدر نہیں کرتا. میں خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں
.
ڈاکٹر اسرار احمد جیسے مفکر کو پایا
جاوید احمد غامدی جیسے محقق کو پایا

احمد جاوید جیسے صوفی کو پایا 
پروفیسر احمد رفیق جیسے استاد کو پایا
اشفاق احمد جیسے مصنف کو پایا
مولانا طارق جمیل جیسے مبلغ کو پایا
ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے داعی کو پایا
مولانا وحید الدین خان جیسے ناصح کو پایا
.

یہ اور بہت سے دیگر اہل علم ہمارے اسی دور میں اور ہماری زندگی میں وارد ہوئے ہیں کہ جنکے علمی کام کو زمانوں یاد رکھا جائے گا. بدنصیب ہے وہ شخص جو کسی اختلاف یا تفرقہ کی بناء پر ان اشخاص کی قابلیت سے استفادہ حاصل نہ کرے. اس فہرست میں اور بھی کئی نام شامل کئے جاسکتے ہیں، مگر یہ وہ چند استاد الاساتذہ ہیں جن کی دانش سے میں مستفید ہوا ہوں
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 10 September 2014

سبق آموز لطائف

 

سبق آموز لطائف

 
 
ایک صاحب فٹ پاتھ پر سکون سے چلے جارہے تھے کہ اچانک ایک گاڑی تیزی سے فٹ پاتھ پر چڑھ گئی اور صاحب کو ٹکر مار دی. ابھی وہ صاحب زمین سے اٹھے بھی نہ تھے کہ گاڑی کا دروازہ کھلا اور ایک خاتون آگ بگولہ ہوئی باہر نکلیں اور بولی "اندھے ہو گئے ہیں سب کے سب ! صبح سے یہ ساتواں آدمی ہے جو میری گاڑی سے آکر ٹکرایا ہے"
.
میرے لئے یہ محض لطیفہ نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی حقیقت کا بیان ہے. ہمارے ارد گرد ایسے بیشمار لوگ ہوتے ہیں جو کسی حال اپنی غلطی ماننے کو رضامند نہیں ہوتے ، لوگ بار بار انکی کسی... اخلاقی کمی کی جانب اشارہ کرتے ہیں مگر وہ بجائے اپنی اصلاح کرنے کے ، اسی گردان میں مشغول رہتے ہیں کہ میرا کوئی قصور نہیں باقی سب برے ہیں. یہاں فیس بک پر بھی معاملہ مختلف نہیں، آپ کو ایسے احباب بآسانی میسر آجائیں گے جنہیں ہر دوسرے تیسرے ہفتے یہ شکایت ہوتی ہے کہ فلاں نے مجھے بلاک کردیا جبکہ میری کوئی بھی غلطی نہ تھی. وہ اس بات پر نظرثانی کرنے کو قطعاً تیار نہیں ہوتے کہ ان کا لہجہ یا الفاظ کا غلط انتخاب اسکی وجہ ہوسکتا ہے. پھر اس پر طرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اسے حق گوئی سے تعبیر کرنے لگتے ہیں. یہ ان حضرات کا پسندیدہ جملہ ہوتا ہے کہ 'سچ کڑوا ہوتا ہے' .. کاش کے انہیں کوئی سمجھائے کہ کڑوا اکثر سچ نہیں ہوتا ، بلکہ کڑوا اکثر آپ کا لہجہ یا الفاظ کا انتخاب ہوتا ہے
 
============
 
============ 
ایک شخص اکثر کہتا میں غلیل بناؤں گا اور چڑیا ماروں گا .
میں غلیل بناؤں گا اور چڑیا ماروں گا .
.
ایک دن اسکو پاگلوں کے ڈاکٹر . کے پاس لے گئے ؟
اس کا علاج ہوا اور وہ ٹھیک ہو گیا . ...
.
پھر اس سے ڈاکٹر . نے پوچھا : اب جا کے کیا کرو گے ؟
اس نے کہا : میں سب سے پہلے شادی کروں گا .
ڈاکٹر . نے کہا : بہت اچھا پھر ؟
میرے بچے ہونگے .
ڈاکٹر . : گڈ پھر ؟
ان کی برتھ ڈے پر اچھی سی نیکر اور شرٹ لا کر دونگا .
ڈاکٹر . : فائن پھر ؟
انکی نیکر سے لاسٹک نکالوں گا پھر غلیل بناؤں گا اور چڑیا ماروں گا
.
ذرا غور کریں تو ہماری حکومتی پالیسیوں کا آج تک یہی حال رہا ہے کہ لاسٹک نکالوں گا پھر غلیل بناؤں گا اور چڑیا ماروں گا
 
====عظیم نامہ====

Wednesday, 3 September 2014

فرقہ پرستی کے خاتمے کا آزمودہ نسخہ


فرقہ پرستی کے خاتمے کا آزمودہ نسخہ




آج سے کم و بیش دو ڈھائی برس قبل ، دو تین دوستوں کے کہنے پر ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اسکائپ پر روز جمع ہوں اور قران حکیم پر مل کر تفکر کریں. ایک دوسرے سے کسی بات پر متفق ہوں نہ ہوں مگر پھر بھی خوش اسلوبی سے سب کو سنا جائے اور کسی قسم کے تفرقہ کو موضوع بننے نہ دیا جائے. قران حکیم ہی وہ کتاب ہے جس کی سند و اہمیت ہر مسلک و فرقہ کا اجماع ہے. طریقہ یہ رکھا گیا کہ پہلے چند آیات کی تلاوت لگائی جائے ، پھر ایک بھائی اس کا ترجمہ پڑھے اور پھر باری باری سب اس پر اظہار خیال کریں. کیونکہ دوستوں کا تعلق مختف فرقوں اور مسالک سے تھا لہٰذا اسکی مکمل اجازت رکھی گئی کہ ہر ایک اپنے مسلک کے عالم کی تفسیر کو پیش کر سکے. مولانا مودودی، مولانا اصلاحی، ڈاکٹر اسرار، جاوید غامدی صاحب، مولانا تقی عثمانی، مولانا شبیر عثمانی، نعمان علی خان اور دیگر کئی مفسرین و مبلغین کی سمجھ پیش کی جانے لگی. جب کبھی کوئی اختلافی آراء آتی تو یہ کہہ کر بات کو فوری سمیٹ دیا جاتا کہ "یہ علماء کی اختلافی رائے ہیں ، آپ سب خود غور کر کے اپنی سمجھ قائم کریں" یوں پیار محبت سے یہ سلسلہ جاری ہوگیا

.
رفتہ رفتہ دوستوں کی دلچسپی اور تعداد بڑھنے لگی. تین چار افراد سے دس، دس سے بیس اور بیس سے چالیس. نئے آنے والوں کے لئے اس بات کا بار بار اعلان کیا جاتا کہ ہم میں سے نہ کوئی عالم ہے، نہ فاضل، نہ ہی کوئی مستند تحقیق نگار اور اگر اردو میں کوئی لفظ ہمارا تعارف فراہم کرسکتا ہے تو وہ ہے لفظ "طالبعلم". ہم دین اور قران حکیم کے معمولی طالبعلم ہیں جن سے سمجھ میں غلطی ہو سکتی ہے. جہاں کوئی مشکل پیش آتی تو کسی مقامی عالم سے جاکر پوچھ لیتے. اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ کوئی گدی نشینی نہ ہو، یعنی سب کو بولنے کا نہ صرف حق ہو بلکہ ایسا کرنے پر اسکی حوصلہ افزائی کی جائے. ترجمہ بھی ہر بار مختلف شخص پڑھے تاکہ عملی شمولیت کا احساس سب کو رہے. قران مجید کے اس مسلسل مطالعہ کا اثر تمام دوستوں پر نظر آنے لگا، جو نماز نہ پڑھتا تھا وہ نمازی ہوگیا، جو صدقہ میں کنجوس تھا اسکا ہاتھ فراخ ہوگیا، حقوق العباد ترجیح بن گئے، الله رسول کی محبت دلوں میں گھر کرنے لگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تفرقہ کی سوچ کا خاتمہ ہوگیا. اب نہ کوئی سنی تھا نہ شیعہ، نہ دیوبندی نہ بریلوی، نہ صوفی اور نہ کوئی اہل حدیث. سب نے خود کو صرف مسلمان کہنے پر اکتفاء کرلیا. اختلافات گھٹ کر علمی رائے میں تبدیل ہوگئے اور برداشت پیدا ہونے لگی. دوستوں کی یہ محفل چونکہ مختلف شعبوں سے وابستہ پڑھے لکھے افراد پر مشتمل تھی لہٰذا ایمان و عمل کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور مکالمہ کی صلاحیت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوگیا
.
ایسے بہت سے لوگ ہم میں شامل ہو گئے جنہیں ہم نے دیکھ بھی نہ رکھا تھا، لہٰذا یہ فیصلہ کیا کہ مہینہ میں ایک بار سب کسی کے گھر پر اکٹھا ہو جائیں اور آپس میں دین پر گفتگو کریں. دو تین بھائیوں نے مختلف موضوعات جیسے 'قران سے تعلق'، 'تزکیہ نفس'، 'اتحاد امت' وغیرہ پر خوب تحقیق کرکے لیکچر تیار کئے. محفل کا فورمٹ یہ رکھا گیا کہ پہلے ایک بھائی اپنی تحقیق پیش کرے گا اور اس کے بعد باقی بھائی اس سے سوال جواب کریں گے. یہ تجویز بھی نہایت کامیاب ہوئی اور ہر مہینہ اس کا انعقاد کیا جانے لگا. شرط یہ کہ ہر بار کوئی نہ کوئی نیا بھائی موضوع تیار کرے گا اور یوں سب ایک دوسرے سے سیکھیں گے. جلد ہی بڑے بڑے محققین اور علماء ہم سے جڑنے لگے، یہ اہل علم فی سبیل اللہ آتے اور اس امر سے نہایت خوش ہوتے کہ اس محفل میں موجود شرکاء کی ذہنی و علمی قابلیت خاصی بلند ہے. لوگوں کو سارا مہینہ اس محفل کا انتظار رہنے لگا اور لوگوں کی شمولیت اتنی بڑھی کہ ایک بڑا ہال کرائے پر لینا پڑا. اس روایت کو برقرار رکھا گیا کہ ان اہل علم کے ساتھ ساتھ ہر بار کسی نئے دوست کو خطاب کا موقع دیا جائے. اس محفل میں ہر مسلک اور ہر نقطہ نظر کے مقررین اپنی تحقیق پیش کرتے اور حاظرین کھلے ذہن سے اس کو سن کر اپنے سوالات پیش کرتے. دوستوں کی وہ محفل جو کبھی بھانت بھانت کے فرقوں کی مبلغ تھی، آج تفرقہ سے دور اور دین سیکھنے کی جستجو سے سرشار ہو گئی، جہاں وہ مانا جاتا ہے جو قران و سنت کی دلیل سے ثابت ہو اور جہاں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ رائے کا اختلاف رکھ کر بھی آپس میں محبت سے رہا جا سکتا ہے


 اسی طرح اور بھی کئی تجویز اس محفل کے ذریعے روبہ عمل ہوئیں. جیسے خاندانوں کا تعلیم اور تفریح کیلئے جمع ہونا، دوسرے شہروں آباد دوستوں کے پاس جا کر اسی اصلاحی سلسلے کو جاری کرنا، عربی سیکھنے کی مشترکہ کوشش کرنا، صدقات دینے کی مشترکہ کاوش کرنا، ایک دوسرے کو مختلف دنیاوی علوم بھی فری سکھانا جیسے کمپیوٹر کورس وغیرہ

 

.
یہ سلسلہ الحمد الله آج دو سال بعد بھی پوری آب و تاب سے جاری ہے، جہاں ہفتے میں چھ دن ایک گھنٹے سے زائد سکائپ کلاس کا اہتمام کیا جاتا ہے، جہاں سب مسالک کے دوست مل کر مختلف تفاسیر ، ترجموں اور فہم سے غور کرتے ہیں. سوالات پوچھتے ہیں. اسی طرح ہر مہینہ ایک بڑی علمی محفل کا انعقاد ہوتا ہے جہاں مختلف علمی و فکری موضوع زیر بحث آتے ہیں اور بڑے اہل علم کا ساتھ ہوتا ہے. ایک دفع قران ختم کیا جاچکا ہے اور دوسری بار مزید گہرائی سے غور و تدبر جاری ہے. یہ دوست اب صرف دوست نہیں بھائی بن چکے ہیں. ایسی محبت ہے دلوں میں جو کسی بھی دنیاوی فائدے سے بےنیاز ہے اور الله کے قرب سے معمور ہے
 
.
جناب یہ ہے وہ آزمودہ عملی نسخہ جسے ہم نے اختیار کیا اور الله کے فضل کو خود پر برستا پایا. آپ بھی یہ کر سکتے ہیں، چند دوست مل کر روز یا ہفتے میں چند دن قران حکیم پر غور کرنے کیلئے بیٹھیں ، پھر دیکھیں الله پاک آپ کا ہاتھ کیسے تھام لیتے ہیں. الله ہمیں دین سیکھنے کی کوشش کرنے والا بنائے اور ہمارے لئے ہدایت کے دروازوں کو کھول دے. آمین یا رب العالمین
 
.
====عظیم نامہ=====