Saturday, 26 April 2014

کائنات - اضداد کی پہیلی -ایک مختلف تجزیہ


کائنات - اضداد کی پہیلی -ایک مختلف تجزیہ


یہ کائنات مجموعہ اضداد ہے. یہاں ہر شے کا وجود اسکی ضد سے ہے. اگر تاریکی نہ ہو تو روشنی کا کیا تصور؟ اگر تکلیف نہ ہو تو راحت کے کیا معنی؟ اگر بدصورتی نہ ہو تو خوبصورتی کو کون سراہے گا؟ اگر بیماری کا وجود نہ ہو تو صحت کو نعمت کون تسلیم کرے گا؟ اور اگر موت ہی نہ ائے تو زندگی کی تمنا کسے ہوگی؟ .. ہر چیز کا وجود اسکی ضد سے منسلک ہے

ایک اور زاویہ سے سوچیں تو معلوم ہوگا کہ کوئی بھی شے اپنی ضد کے ساتھ ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ موجود نہیں رہ سکتی. یعنی روشنی آئے گی تو اندھیرے کو جانا پڑے گا، صحت آئے گی تو بیماری باقی نہیں رہے گی،خوشی آئے گی تو غم مٹ جائے گا اور دن نکلے گا تو رات کو اپنا بوریا بستر سمیٹنا پڑے گا. سادہ الفاظ میں کوئی بھی شے اپنی ضد سے منسلک اور مشروط تو ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ایک ہی وقت میں موجود نہیں ہوتی


یہ بھی دیکھیں کہ ہر شے اپنی ضد سے ایک نہ ختم ہونے والے دائرے میں بندھی ہوئی ہے یا یوں کہیں کہ ایک دوسرے کی جگہ لیتی رہتی ہے. یعنی دن اور رات کا مستقل ایک دوسرے کی جگہ لینا، تکلیف اور راحت دونوں کا ایک کے بعد ایک آتے ہی جانا، سردی اور گرمی کا مسلسل ایک مدار میں چلتے رہنا وغیرہ. یہ سب اسی امر کی دلیل ہیں کہ ہر شے اپنی ضد سے ایک مستقل اور مسلسل دائرے میں بندھی ہوئی ہے

اب ذرا سوچیں کہ زندگی کی ضد کیاہے؟ ہر لغت آپ کو زندگی کی ضد موت بتائے گی تواب جب ہم اضداد کی فطرت دیکھ چکے ہیں کہ ہر شےاپنی ضد کی جگہ مستقل اور مسلسل لیتی رہتی ہے تو یہی اصول زندگی اور موت پر بھی لاگو ہونا چاہیئے. قران حکیم میں سورہ غافر کی بائیسوی آیت کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کو دو زندگیاں اور دو موتیں دی جائیں گی.

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ

وہ (کفار) کہیں گے اے ہمارے رب ! تو نے ہمیں دو بار موت دی, اور دو بارہ زندگی عطاء کی , سو ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے , تو کیا نکلنے کا کوئی راستہ ہے ؟

 پہلی موت سے ہم عالم ارواح میں گزرچکے ہے، پہلی زندگی کو اس وقت اس عالم خلق میں ہم گزار رہے ہیں. دوسری موت طبعی طور پر ہم سب پر وارد ہوگی اور بیشمار افراد پر ہمارے سامنے وارد ہوچکی. اور دوسری زندگی ہمیں روز جزا عطا کی جائیگی. یعنی زندگی اور موت بھی ایک دوسرے کی جگہ مسلسل لیتے رہینگے. اب فطری سوال یہ ہے کہ اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو پھر تو روز جزا والی زندگی کو بھی موت سے ہمکنار ہونا ہوگا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ جواب یہ ہے کہ ہاں اصولی طور پر تو ایسا ہی ہونا چاہیئے مگر وہ خالق جس نے اشیاء کو انکی ضد کے ساتھ دائرے میں باندھ رکھا ہے وہ یقیناً اس پر بھی قادر ہے کہ کسی مقام پر وہ اس دائرے کو ازخود توڑ ڈالے. بلکل ایسے ہی جیسے وہ اپنے بنائے ہوئے فطری اصولوں کو بھی معجزہ کے زریعے معطل کر دیتا ہے. حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ روز جزا میں زندگی اور موت کے اس مستقل جاری سلسلے کو سب کے سامنے توڑ دیا جائے گا، موت کو علامتی طور پر ایک مینڈھے کی صورت میں سامنے لایا جائے گا اور اسے ذبح کر کے یہ اعلان ہوگا کہ موت کو ختم کر کے اب زندگی کو مسلسل کر دیا گیا ہے یا دوسرے الفاظ میں زندگی کی ضد کو ہمیشہ کے لئے مٹادیا گیا ہے اور اب اسکی جگہ کوئی نہیں لے گا

اس مقام پر شائد آپ کو ایسا محسوس ہو کہ اب ہم اشیاء کا تعلق ان کی ضد کیساتھ سمجھ چکے ہیں مگر ذرا ایک گہری سانس لے کر یہ سوچیئے کہ کیا واقعی اشیاء کی ضد موجود ہوتی ہیں ؟ کیا 
 کسی بھی شے کی کوئی حقیقی ضد موجود ہے؟

ذرا سوچیں تو کہ کیا اندھیرے کا کوئی حقیقی وجود ہے ؟ اگر ہاں تو ہم اسے کیسے بیان کر سکتے ہیں؟  آج سائنس کی رو سے ہم سب روشنی کی رفتار سے واقف ہیں مگر اندھیرے کی رفتار کیا ہے ؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں؟ اگر اندھیرا واقعی ایک حقیقی وجود رکھتا ہے تو ہم اسکی رفتار کا حساب کیوں نہیں لگا سکتے؟

جواب یہ ہے کہ اندھیرے کا فی الواقع کوئی حقیقی وجود نہیں ہے. اندھیرا تو نام ہے روشنی کی عدم موجودگی کا ! حقیقی وجود تو صرف روشنی کا ہے ، اسکی ضد یعنی اندھیرے کا تصور محض تصوراتی ہے یہ تو بس ایک نام ہے جو ہم نے روشنی کے نہ ہونے والی صورتحال کو بیان کرنے کیلئے اختیار کرلیا ہے. اسی طرح ٹھنڈک کا تصور حقیقی نہیں خیالی و تصوراتی ہے، حقیقی وجود تو گرمی یا حرارت کا ہے. سائنس بس یہی بتاتی ہے کہ ایک شے زیادہ گرم ہے، بہت زیادہ گرم ہے، کم گرم ہے یا بہت کم گرم ہے. وہ ہمیں حرارت یعنی ٹمپریچر بیان کرتی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں. ٹھنڈک تو بس ایک لفظ ہے جو ہم نے کم حرارت والی کیفیت کو بیان کرنے کیلئے اختیار کرلیا ہے. موت بھی زندگی کا نقطہ اختتام نہیں ہے بلکہ حیات کا ایک مختلف نقطہ آغاز ہے

اگر اسی استدلال کو مزید گہرائی میں کھوج کر دیکھیں تو ایک مشکل سوال کا آسان جواب سامنے آجاتا ہے. سوال یہ کہ جب الله کی ذات ہی ہر شے کی خالق ہے اور ہر شر یا برائی سے پاک ہے تو پھر اس نے شر کو تخلیق ہی کیوں کیا ؟جواب یہ ہے کہ اس نے کبھی شر کو تخلیق نہیں کیا، اس نے تو صرف خیر کو پیدا فرمایا لیکن ساتھ ہی انسان کو آزمانے کے لئے اختیار کی آزادی دی کہ وہ چاہے تو خیر کو اپنا لے یا نہ اپنائے. یہ ہمارا خیر کو نہ اپنانا ہے جو شر کو جنم دیتا ہے، ہمارے اردگرد پھیلا ہوا شر ہمارا اپنے ہاتھوں سے لایا ہوا ہے ، خدا نے تو خیر پیدا کیا اور اسی کو اپنانے کا حکم دیا. مثال کے طور پر اس نے  زمین میں ہر مخلوق کیلئے رزق بکثرت رکھ دیا لیکن یہ انسان کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جس نے بھوک و افلاس کو جنم دیا. ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک مخلوق کی ضرورت دوسری مخلوق کے لئے شر بن جائے. جیسے شیر کی بھوک بکری کے لئے بظاہرشر بن سکتی ہے یا بکری کا چرنا گھاس پھونس کیلئے شر کہلاسکتا ہے. یہ فطرت کے اصول ہیں جو اس نظم کائنات کو برقرار رکھنے کیلئے الله رب العزت نے مختص کئے ہیں مگر اس سے یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکالا جاسکتا کہ اس نے شر کو پیدا   کیا جیسا کہ قتل ، چوری، فاقہ وغیرہ یہ انسان کا اپنا ارادے کا سوئے استمعال ہے جو شر وجود میں لاتا ہےابلیس کو بھی ملعون الله نے پیدا نہیں کیا بلکہ اسکے ارادے کے غلط استمعال نے بنایا

اگر اس پورے استدلال کو سمیٹا جائے تو مندرجہ ذیل نتیجہ سامنے آجاتا ہے

ہر شے سے اسکی ضد منسلک ہے جو اسکی صحیح اہمیت سے ہمیں روشناس کراتی ہے. کوئی بھی شے ایک ہی وقت میں
ایک ہی جگہ اپنی ضد کیساتھ موجود نہیں رہ سکتی بلکہ فطرت کا اصول یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی جگہ مسلسل اور مستقل لیتے رہتے ہیں. شے حقیقی وجود رکھتی ہے اور اسکی ضد کا وجود محض تصوراتی ہے

  واللہ و عالم بلصواب


====عظیم نامہ====




2 comments:

  1. نوازش ... اپنی راۓ سے ہمیشہ آگاہ کرتے رہیں

    ReplyDelete