Friday, 12 January 2018

نوجوانی کی مستی اور پاگل پن


نوجوانی کی مستی اور پاگل پن


.
زمانہ طالبعلمی میں ہمارا اولین شوق فن خطابت ہوا کرتا تھا. اس کے لئے ملک بھر میں منعقد مقابلوں میں شرکت ہوتی تھی. پشاور یونیورسٹی میں ایسے ہی ایک مقابلے میں شرکت کے بعد این-ای-ڈی یونیورسٹی کراچی اور سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کراچی کے مقررین نے کچھ اور دوستوں کے ساتھ مل کر مری جانے کا فیصلہ کیا. یہ نوجوانی کے دن تھے اور ہم سب کی عمریں انیس سے بائیس برس کے لگ بھگ تھیں. دل و دماغ پر صرف تفریح اور مستی سوار تھی. چند روز کے اس تفریحی سفر میں جی بھر کر تفریح کی. ایک بس کے ذریعے مری کی جانب نکلےتو پوری بس پٹھان بھائیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی. سب کو الگ الگ نشست ملی. پھر جگہ اسقدر تنگ تھی کہ بیٹھنا دوبھر ہورہا تھا. اچانک ایک دوست نے کچھ بولے بناء دیگر دوستوں کو آنکھ ماری اور نفسیاتی مریض کی سے ایکٹنگ کرنے لگا. وہ کبھی جھرجھری لیتا تو کبھی امیتابھ بچن کی آواز میں ہندی فلم کا کوئی غصیلا ڈائیلاگ دہرانے لگتا. باقی دوست اسے سہارا دینے کی ایکٹنگ کرنے لگے. سادہ مزاج پٹھان بھائی فوری ادھر ادھر ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پیچھے کی تمام نشستیں خالی ہوگئیں. اب سب دوست آرام سے ایک ساتھ براجمان ہوئے اور اسی ایکٹنگ کو برقرار رکھتے ہوئے پورا سفر مزے سے کیا.
.
مری پہنچے تو منفی دس ڈگری میں پورا علاقہ برف سے ڈھکا ہوا تھا. ایک چھوٹا سا سستا ترین کمرہ لے کر سب کے سب اس میں ٹھنس گئے. اندر ہیٹر تک نہ تھا لہٰذا سب نے جیکٹ مفلر لپیٹ رکھا تھا. باہر دکانوں میں جھانکنے نکلے تو کچھ دوستوں کو پھر مستی سوجھی. ایک اور دوست نے گونگے کا سوانگ بھرا اور مختلف گاہکوں سے جان بوجھ کر ٹکرا جاتا. جب وہ گاہک غصے سے کوئی جملہ بولتا تو وہ گونگے کی سی آوازیں نکال کر شکایت کرنے لگتا، رونے لگتا. باقی دوست اجنبی بن کر اسے دلاسہ دیتے تو دیکھتے ہی دیکھتے تمام گاہک اور دکان والے اس نقلی گونگے کے حق میں ہوجاتے. ایسا کر کے فری گفٹ بھی اس گونگے کو ملے اور زبردست ڈسکاونٹ بھی. دوست یار ایک اور تفریح یہ بھی کرتے کہ باہر کسی بھی اجنبی کو دیکھتے ہوئے اس کے سامنے آکر ٹھٹھک کر رک جاتے، پھر خوشی سے زور کا نعرہ مارتے ہوئے اس اجنبی شخص کے گلے لگ جاتے ... 'ارے بھائی آپ یہاں !!' .. باقی دوست بھی اس سے ایسے ملنے لگتے جیسے شناسائی ہو ... یہ بہت سے افراد کے ساتھ کیا تو معلوم ہوا کہ اکثر افراد انتہائی کنفیوز ہوکر پہچان لینے کی ایکٹنگ کرنے لگتے ہیں. لوگوں کی حرکتیں اور 'کنفیوز ری ایکشن' خوب لطف دیتا. ہمارا ہی ایک اور دوست جس نے ہمیں لیٹ جوائن کیا تھا، کہنے لگا کہ اب وہ سامنے والے اجنبی کے ساتھ یہی حرکت کرنے لگا ہے لہٰذا ہم سب اس کا ساتھ دیں. ہم سب نے سامنے سامنے حامی بھر لی مگر اسے سبق سیکھانے کیلئے اس کا ساتھ نہ دیا بلکہ اس اجنبی کو اپنے ساتھ ملا لیا. دوست اس اجنبی کے سامنے پورے اعتماد سے گیا، ٹھٹھک کر رکا اور خوشی سے چلایا .. 'ارے بھائی آپ یہاں !!' .. یہ کہہ کر اس نے ہماری جانب دیکھا تو ہم سب لاتعلق ہوگئے. وہ اجنبی شخص بھی کوئی تفریح انسان تھا اور ہم سے ملا ہوا تھا، بات سمجھ گیا لہٰذا جیسے ہی دوست نے کہا .. 'ارے بھائی آپ یہاں !!' .. تو وہ اجنبی جواب میں اور زیادہ زور سے خوش ہوکر چلایا .. 'ارے میرا دوست فتو بواسیر !' .. اور یہ کہہ کر دوست کو گلے لگا لیا. اب اس دوست کی شکل دیکھنے والی تھی اور ہم سب کا ہنس ہنس کر برا حال. آج تک اسے دوست یار 'فتو بواسیر' ہی کہہ کر چھیڑتے ہیں.
.
مری کی مال روڈ ایک نہایت مصروف جگہ ہے جہاں لوگوں کا اژدھام ہوتا ہے. ہم اس کے سب سے مصروف مقام پر پہنچے تو اب کوئی بڑی مستی کرنے کی ٹھانی. دوستوں کے اس گروپ میں دو بہترین اردو مقرر شامل تھے. ایک خود راقم یعنی میں اور دوسرا ایک دوست دانش. سر جوڑ کر پلان کیا گیا اور سب دوست چاروں طرف پھیل کر مختلف چیزوں میں مصروف نظر آنے کی ایکٹنگ کرنے لگے. میں اور دانش اس مصروف مقام کے عین وسط میں پہنچے اور ڈرامہ شروع کردیا. دانش نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک شعلہ بیاں تقریر شروع کردی. جسے میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سنجیدگی سے سننے لگا. جیسے ہی اس نے بات ختم کی تو میں نے اس کا جواب ایک اور شعلہ بیاں تقریر سے دیا. اب میں سنجیدگی سے بول رہا تھا اور وہ سنجیدگی سے سن رہا تھا. مثال کے طور پر دانش نے ابتداء کی کہ ... "عظیم اس ملک کی تباہی کا ذمہ دار ایک کھیل ہے جو ہم سب کھیل رہے ہیں اور وہ کھیل کچھ یوں ہے کہ آؤ کھیلیں دشمن دشمن، آؤ کھیلیں دشمن دشمن، آنکھ پر پٹی سامنے دشمن، صوبہ صوبہ دشمن دشمن، فرقہ فرقہ دشمن دشمن، بھائی بھائی دشمن دشمن، آؤ کھیلیں دشمن دشمن، آؤ کھیلیں دشمن دشمن" ......... میں نے سنجیدگی سے یہ سن کر تائید میں سر ہلایا اور جواب دیا .. "دانش تم ٹھیک کہتے ہو مگر اگر ہم دین کو تھام لیں، اگر ہم برداشت کو فروغ دیں تو پھر یہی دشمن دوست بھی بن سکتے ہیں، کھیل پھر کچھ یوں ہوگا کہ آؤ کھیلیں دوست دوست، آؤ کھیلیں دوست دوست، آنکھ کھلی تو سامنے دوست، صوبہ صوبہ دوست دوست، فرقہ فرقہ دوست دوست، بھائی بھائی دوست دوست، آؤ کھیلیں دوست دوست، آؤ کھیلیں دوست دوست"
.
ہم دونوں یہ جملے بازی پوری خطیبانہ مہارت سے اونچی آواز میں کررہے تھے اور دونوں کے چہروں پر پہاڑ جیسی سنجیدگی تھی. لوگ ہماری جانب تیزی سے متوجہ ہونے لگے. ابتداء میں اکثر ہنس رہے تھے، کوئی پاگل کہہ رہا تھا، کوئی جملے کس رہا تھا. پھر آھستہ آھستہ لوگ متاثر ہونے لگے. تعداد بڑھنے لگی. ہمارے دوست اس ہجوم میں ہر طرف موجود تھے، دائیں جانب ایک دوست بولا "کیا زبردست انداز ہے" .. بائیں جانب ایک دوست بولا "باتیں تو سچ کہہ رہے ہیں" .. سامنے سے ایک دوست نے واہ واہ کی صدا بلند کی .. پیچھے سے ایک دوست نے تالی بجائی .. لوگ ہاں میں ہاں ملانے لگے. زیادہ وقت نہ لگا کہ پورا مجمع انہماک سے ہمیں سننے لگا اور ہر طرف تالیاں بجنے لگی. لوگ دکانوں اور چھتوں پر آگئے. ہم سب خوب لطف لے رہے تھے مگر اب وہ ہوا جو ہمارے پلان میں شامل نہ تھا، .... پولیس آگئی! .... ایک انسپکٹر میری جانب آیا اور درشتگی سے بولا .. ' اوئے یہ کیا لگا رکھا ہے تم لوگوں نے، پورا ٹریفک جام کردیا، چلو تھانے!'.. یہ سن کر ہم سب کے ہوش اڑے. میں سوچ ہی رہا تھا کہ انسپکٹر کو کیا جواب دوں؟ کہ ہمارا ایک دوست ہنستا ہوا مجمعے سے نکل کر آیا اور انسپکٹر کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر نہایت کانفیڈینس سے بولا .. 'سر غصہ نہ ہوں .. یہ مشہور رئیلیٹی پروگرام "کیسا" کی لائیو شوٹنگ ہے اور ہم اس کی اجازت بھی حکام سے لے چکے ہیں. وہ دیکھیئے اپر ہمارا کیمرہ مین موجود ہے، پلیز ہاتھ ہلا دیں' ... جس طرف اشارہ کیا گیا وہاں ہمارا ایک اور دوست ذرا اونچائی پر کچھ گرم شالوں کا گولا تھامے کھڑا تھا. اس نے وہاں سے انسپکڑ اور مجمع کو ہاتھ ہلادیا. یہ دیکھ کر سب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور سینکڑوں افراد کا یہ مجمع ہمارے فرضی کیمرہ مین کی جانب ہاتھ ہلانے لگا. باقی جتنے دن ہم مری میں رہے، مقامی لوگ ہماری آؤ بھگت کرتے رہے اور پوچھتے رہے کہ پروگرام کب آن ائیر ہوگا؟ ایسے ہی معلوم نہیں کتنی کاروائیاں اس ٹرپ میں ہم سے سرزد ہوئیں.
.
آج جب ان واقعات کو زمانہ بیت چکا ہے تو سوچ کر حیرت ہوتی ہے. بے اختیار مسکرانے بھی لگتا ہوں. ہماری بہت سی حرکتیں اخلاقی طور پر یقیناً ٹھیک نہیں تھیں. جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، بیوقوف بنانا - انہیں دینی یا اخلاقی لحاظ سے کون درست کہے گا؟ آپ احباب بھی مجھ سے یا میرے دوستوں پر ان واقعات کے حوالے سے خفاء ہوسکتے ہیں. مگر نوجوانی کی اس مستی میں ہم دوست وہ وہ چیزیں کرگئے جس کی جرأت آج ہم دوستوں میں سے کسی ایک کے پاس بھی نہیں. اس پاگل پن سے یادوں کا ایک ایسا ذخیرہ بنا ہے جو عمر بھر ہمیں مسکراہٹیں دیتا رہے گا.
.
====عظیم نامہ====

Tuesday, 9 January 2018

خبردار ! ٹھرک لاعلاج ہے


خبردار ! ٹھرک لاعلاج ہے 



.
خوب جان لیں کہ مرد فطرتاً کنوارہ ہے اور اگر اسے ذرا بھٹکنے کا موقع مل جائے تو آوارہ بھی ہے. کوئی حاجی صاحب اگر ٹوپی لگا کر اور تسبیح تھام کر اس مخفی مردانہ رغبت کی اپنے اندر ہونے کی نفی کرتے ہیں تو ہمارے نزدیک یا تو انہیں میڈیکل چیک اپ کی ضرورت ہے یا پھر وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اور اگر کوئی خاتون یہ سوچتی ہیں کہ میرے شوہر یا میرے والد یا میرے بھائی یا میرے بہنوئی ایسے نہیں ہیں تو وہ ایک سراب میں جی رہی ہیں. حقیقت یہ ہے کہ مخالف جنس کیلئے ایک فزیکلی فٹ مرد کا دل ضرور بچوں کی طرح مچلتا ہے. گویا دل تو بچہ ہے جی !
.
کس کو پتہ تھا؟ پہلو میں رکھا .. دل ایسا پاجی بھی ہوگا 
ہم تو ہمیشہ، سمجھتے تھے کوئی .. ہم جیسا حاجی ہی ہوگا 
.
فرق فقط اتنا ہے کہ ایک مہذب انسان تہذیب نفس کے سبب اپنی نفسانی خواہشات کو لگام دیئے رکھتا ہے. جب کے دوسرا انسان اپنی نفسی و جنسی خواہش میں ایسا بے لگام ہوتا ہے کہ کچھ وقت بعد لاعلاج ہوجاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ بوڑھے مردوں میں بھی آپ کو ایسے ایسے ٹھرکی ملتے ہیں کہ آدمی سر پیٹ لے. 
.
کچھ خواتین یہ غلط فہمی بھی پال لیتی ہیں کہ 'کیونکہ' وہ بہت حسین ہیں اسلئے انکے لئے مردوں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے. حالانکہ مرد کی عورت سے رغبت کا یہ عالم ہے کہ اس کے لئے وہ اکثر کسی خاص سراپے کا محتاج نہیں ہوتا. گویا خاتون موٹی ہوں، دبلی ہوں، گوری ہوں، کالی ہوں، حسینہ ہوں، عام صورت ہوں. غرض جو بھی حال ہو مردوں کا ایک جم غفیر ان کا پرستار بن جائے گا. یہ اور بات کہ ان میں شاذ ہی کوئی ایسا نکلے جو فی الواقع نکاح کا متمنی ہو. اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گھر پر رشتے آنے کی لائن کبھی نہیں لگے گی مگر کالج، یونیورسٹی، محلے، فیس بک ہر جگہ مرد آگے پیچھے گھوم رہے ہوں گے. جیسے سب سے بڑی حور پری یہی ہیں. اصولاً تو جب باہر ہزاروں مرد مداح بنے ہوئے ہیں تو کم از کم آٹھ دس تو رشتے ہر وقت آئیں؟ ظاہر ہے کہ اکثر کیسز میں ایسا نہیں ہوتا. عقلمند عورت وہ ہے جو غیر مردوں کی اس پذیرائی سے مسرور ہوکر اٹھلاتی نہ پھرے بلکہ اپنی قابلیت اور شخصیت کو مضبوط بنانے پر دھیان دے. تاکہ کل جب رشتے کی بات ہو تو کوئی سینسبل انسان اس سے نکاح کا متمنی ہو.
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: یہ ایک ہلکی پھلکی 'غیر مذہبی' تحریر ہے لہٰذا درخوست ہے کہ اسے اسی طرح دیکھا یا پڑھا جائے)

Monday, 8 January 2018

عابی مکھنوی بھائی کی پوسٹ پر میرا کمنٹ



عابی مکھنوی بھائی کی پوسٹ پر میرا کمنٹ


۔
ویسے تو لکھنا لکھانا تقریباً چھوڑ ہی دیا ہے ۔ بھلا ہو فیس بُک کا کہ ہر روز گزشتہ چھ سات سال میں لکھا کہا گیا روزانہ سامنے رکھ دیتی ہے۔ کچھ مناسب لگا تو کاپی پیسٹ کیا اور یہ جا وہ جا !!!
کچھ تازہ نہ لکھنے کا محرک یہ بنا کہ قلم سے جلی کٹی اور مایوس کُن باتوں کے سوا کچھ برآمد ہی نہیں ہو رہا تھا جبکہ مخلوق خدا اُمید اور آسرے کی متلاشی ہے ۔ ایسے میں خاموشی بھی ثواب کا کام لگا ۔
لہذا خاموشی سادھ لی ہے ۔ کوئی مسخرانہ سوچ وارد ہوتے ہی ایک آدھ جملے میں نذر کر دیتا ہوں کہ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا بھی صدقہ ہے۔
میں نہیں جانتا کہ اس کیفیت کو کیا کہتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے بے حسی ہو !! خود غرضی ہو !! یا محض تھکاوٹ . دائمی ہے یا عارضی !! رب جانے !!
کچھ مہینوں سے سب اچھا لگنے لگا ہے ۔ بد ترین بُرا بھی معمول جیسا !! ہو سکتا ہے اس کیفیت کو ہار یعنی شکست کہتے ہوں ۔
ایک عرصہ کشتی کھیلی ہے ۔ ہم دیکھنے والوں کے لیے کشتی لڑتے تھے اور انہی کے لیے جیت کر بھی دِکھاتے تھے ۔
شاید کوئی تماشائی اس قابل نہیں بچا کہ جسے میچ جیت کر دکھانے کی لگن بیدار ہو ۔ میدان اُجڑا پڑا ہے اور اکھاڑا آباد ہے ۔ کوئی پاگل ہی ایسے میں کرتب دِکھا سکتا ہے ذی ہوش نہیں ۔
تو ہو جائے پھر ایک ایک لطیفہ :) میں تو روز ہی پوسٹ کرتا ہوں :) آپ بھی سُنائیے نا کُچھ !!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
السلام علیکم عابی بھائی

بارہا اظہار کرچکا ہوں کہ آپ کو فقط شاعر کہنا یا سمجھنا میں قطعی طور پر غلط قرار دیتا ہوں۔ آپ نے بہت سیکھ لیا، کہہ لیا، سوچ لیا ۔۔۔ اب واقعی وقت ہے جب یہ تھکا ماندہ مگر سکون سے مزین مسافر رک کر اپنے ماضی کا طائرانہ جائزہ لے، یادوں کی کرچیاں سمیٹے اور بناء کسی تصنع و بناوٹ کے اپنے اس سفر کی روداد لکھ ڈالے۔ ایسا سفر نامہ جس میں دوسروں سے زیادہ اپنے متعلق سچ بولا گیا ہو۔ اپنی توصیف کی بجائے اس جرات سے اپنی کردار کشی کی ہو کہ ممتاز مفتی بھی مرعوب ہوجائیں۔ آپ کو اب کتاب لکھنی چاہیئے مگر صرف شاعری کی نہیں بلکہ اپنے تجربات کے نثری اظہار کی۔ جون ایلیاء سے ہزار نظریاتی اختلافات سہی مگر وہ ایک سوچنے والے ذہن کے مالک تھے۔ ان کی شاعری کی پذیرائی ہونا اپنی جگہ ایک حقیقت مگر جو کام ان کا نثری مجموعہ 'فرنود' کرگیا ہے وہ ان کی تمام کاوش کا حاصل ہے۔ ہمیں آپ کی کتاب کا انتظار ہے عابی بھائی۔
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظیم الرحمن عثمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان



ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان

Image may contain: 1 person, suit
.
پاکستان کی اسٹریٹجک لوکیشن ایسی ہے کہ دنیا میں طاقت کے توازن کو قابو میں کرنے کیلئے اسے ساتھ لے کر چلنا لازمی ہے. یہی وجہ ہے کہ امریکہ، انگلینڈ وغیرہ کے اخبارات میں پاکستان کا ذکر اچھے برے انداز سے کسی نہ کسی بہانے ہوتا ہی رہتا ہے، حالانکہ بہت سے ممالک دنیا کے منظر نامے میں ایسے گمنام ہیں کہ وہاں ہوئے بڑے واقعات بھی ان اخبارات میں اپنی جگہ نہیں بنا پاتے. پاکستان کا جغرافیہ ایسا ہے کہ اگر کسی وقت تجارتی راستہ محفوظ ہو جائے تو وہ ترقی جسے حاصل کرنے میں دوسرے ممالک کو پچاس پچپن سال لگے ہیں، وہی ترقی یہ پانچ سے دس سال میں حاصل کرسکتا ہے. پاکستان کی سرزمین لوہے، کوئلے، نمک سمیت معدنیات و دیگر وسائل سے بھی بھرپور ہے اور امکان ہے کہ اگر صحیح طور پر کھدائی یا تحقیق کی جائے تو توقع سے کہیں زیادہ خزائن برآمد ہونگے. اسی طرح دنیا واقف ہے کہ پاکستان ایک نہایت مظبوط فوج اور صف اول کی انٹلیجنس ایجنسی کا مالک ہے. میزائل ٹیکنولوجی، ٹینک، آبدوز، جہاز سمیت ہر دفاعی ساز و سامان نہ صرف خود بنارہا ہے بلکہ دیگر ممالک کو بیچ بھی رہا ہے.
.
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ کو جن دو ممالک سے حقیقی معنوں میں سب سے زیادہ خطرہ رہتا ہے ، وہ ہیں روس اور چائنا. لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے روس اور چین دونوں کے ساتھ مل کر اپنا کیمپ امریکہ سے الگ کرلیا ہے. سی پیک اسی کا حصہ ہے. افغانستان میں روس اپنی شکست کا ذمہ دار بجا طور پر پاکستان کو مانتا آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان سے اپنی فوجی ہزیمت کے بعد کبھی مثبت تعلقات نہیں رکھے. یہ پہلی بار ہے کہ روس نے ماضی بھلا کر پاکستان سے ہاتھ ملا لیا ہے، اس کا ایک اور بڑا ثبوت حال ہی میں کی جانے والی روسی اور پاکستانی فوج کی پاکستان کی سرزمین پر مشترکہ مشقیں ہیں. روس کے اس اقدام نے انڈیا کا جس درجے میں دل توڑا ہے، اس کا اندازہ انڈین چینلز کے تجزیاتی پروگرامز دیکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے. زرداری کے دور حکومت میں امریکہ اور انڈیا گوادر پروجیکٹ کو التواع میں ڈالنے میں کامیاب ہوگئے تھے مگر پچھلے سالوں میں پاکستان آرمی نے براہ راست چین کو گوادر کی تعمیر اور تعمیر کی یقین دہانی کرائی ہے. جس کے بعد اب اس پروجیکٹ کو سیاسی دباؤ سے روکنا ممکن نہیں رہا ہے. پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ابھی بھی التواع کا شکار ہے مگر اب ایران کی جانب سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے اشارے دوبارہ مل رہے ہیں.
.
اگر یہ منصوبہ بنا تو چائنا اور ایران کو جو فائدہ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے مگر پاکستان کی بھی انرجی کی تمام ضروریات مکمل ہوسکیں گی. گوادر پورٹ کو چلانے کیلئے جب آغاز میں مختلف ممالک نے ٹینڈرز پیش کیئے تھے تو پاکستان نے دبئی پورٹ ورلڈ کو قبول کیا تھا مگر انڈیا نے دباؤ ڈال کر اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا تھا. اب چین نے اپنی ہی 'چائنیز اوور سیز پورٹ اتھارٹی' کو گوادر کی ذمہ داری سونپ دی ہے جسے چھیالیس بلین ڈالرز کی خطیر رقم سے کھڑا کیاجارہا ہے. لہٰذا انڈیا یا امریکہ اب اسے روکنے سے قاصر ہیں. گوادر پاکستان کی گہرے گرم پانی کی پہلی پورٹ ہوگا جو دنیا میں گنتی کے چند ممالک کو حاصل ہے اور جسے چائنا کو 2009 تک ٹھیکے پر سونپ دیا گیا ہے، اسکے بعد یہ پاکستان نیول بیس میں تبدیل کردینے کا امکان ہے. دھیان رہے کہ کراچی پورٹ گہرے پانی کی پورٹ نہیں ہے. گہرے پانی کی پورٹ میں جہاز کو پانی میں کھڑے رہتے ہوئے آف لوڈ کیا جاسکتا ہے، جس سے وقت و سرمایہ دونوں محفوظ ہوتے ہیں. گوادر کے ذریعے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟ اسکے بارے میں عالمی سطح پر بہت سی قیاس آرائیاں موجود ہیں. مگر جو بات حتمی ہے وہ یہ کہ چائنا سمیت کئی دیوقامت تجارتی حجم والے ممالک گوادر کو تیل سمیت دیگر اشیاء کیلئے تجارتی روٹ کے طور پر استعمال کریں گے جس سے پاکستان کو کروڑوں ڈالرز کی مستقل کمائی حاصل ہوگی، لاکھوں نوکریاں اور کاروباری سرگرمیاں پیدا ہونگی. یہ خدشہ اپنی جانب موجود ہے کہ کل گوادر چین کو گروی ہی نہ رکھنا پڑ جائے. دانشور یا ذہن ساز افراد زیادہ سے زیادہ توجہ دلاسکتے ہیں مگر اس ضمن میں ہمیں اپنی فوجی و سیاسی قیادت کی فراست پر بھروسہ رکھنا ہوگا.
.
اب چونکہ امریکہ اور انڈیا یہ جان چکے ہیں کہ اس سی پیک کو روکنا ممکن نہیں ہے لہٰذا اب ان کا لائحہ عمل یہ ہے کہ پاکستان کے حالات جو پہلے ہی خستہ ہیں، انہیں آخری حد تک خراب کردیا جائے. انڈیا اب اپنے آقا امریکہ کے آشیرباد سے پانچ طریقوں سے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے. پہلا طریقہ یہ کہ پاکستان کو اسکی ہندوستانی سرحد پر حالت جنگ یعنی ریڈ الرٹ میں کسی نہ کسی بہانے سے رکھا جائے تاکہ فوج کی توانائی ملک کے اندر دیگر سرگرمیوں میں اچھی طرح استعمال نہ ہوسکیں. دوسرا طریقہ انڈیا کا وہ خواب ہے کہ امریکہ کی طرح وہ بھی پاکستان میں سرجیکل اسٹرایکس کرسکیں، اس طریقے کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت تو یہ نہ کرسکے البتہ اسی سرجیکل حملے کا ایک جھوٹا ڈرامہ رچا کر انڈیا پوری دنیا میں لطیفہ بن گیا. تیسرا طریقہ امداد اور انٹلیجنس کے ذریعے پاکستان مخالف جماعتوں کو ملک کے اندر مدد پہنچانا ہے. بلوچ لبریشن آرمی سمیت دیگر تنظیموں کو اس وقت انڈیا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور ان کے لیڈر انڈیا میں بیٹھ کر بھی آپریٹ کررہے ہیں. امریکی سی آئی اے کا ریمنڈ ڈیوس ہو یا بلوچستان میں انڈین راء کا پکڑا جانے والا کلبھوشن یادو. سب کا مشن پاکستان کی 'پراکسی وار' کے ذریعے تباہی ہے. چوتھا طریقہ افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کا فروغ ہے. انڈیا اس وقت افغانستان میں جتنا مظبوط ہے، اس کا آدھا مظبوط بھی وہ تاریخی طور پر کبھی نہیں رہا. پھر پاکستان نے اپنی حماقتوں کے سبب بھی اپنے افغان بھائیوں کو اپنا دشمن بنالیا ہے. حامد کرزئی جیسے سکہ بند امریکی چمچے اسوقت طاقت میں ہیں جو پاکستان کے قبائلی علاقوں کی نفسیات سے بھی خوب واقف ہیں لہٰذا پاکستان کو مسلسل اس محاذ پر ہزیمت کا سامنا ہے. پاکستان کی جانب سے حال ہی میں افغان بارڈر کو سیل کرنا اسی کے تدارک کی پاکستانی کوشش ہے. پانچواں طریقہ جو اپنایا گیا ہے اسے 'فورتھ جنریشن وار' کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، جس میں دفاعی اداروں اور عوام کے مابین نفرت و دوری پیدا کی جاتی ہے. اس کے لئے سوشل میڈیا سمیت حقوق نسواں یا انسانی اداروں کی آڑ لے کر امریکہ اور انڈیا ان افراد کو فنڈ کررہا ہے جو عوام میں نفرت، غصہ اور مایوسی کو ہوا دے سکیں. افسوس یہ بھی ہے کہ بناء معاوضہ لئے بھی ایسے لوگ بکثرت دستیاب ہیں جو پاکستان کے خلاف دن رات زہر افشانی کرنے کو اپنا مشن بنائے ہوئے ہیں. ایک امکان یہ بھی ہے کہ ابھی حالیہ طور پر جن سوشل میڈیا پر متحرک افراد کو گرفتار یا غائب کیا گیا ہے ان کا شمار اسی فورتھ جنریشن وار کے متعلقین میں ہو. گو یہ فقط ایک امکان ہے.
.
اسکے علاوہ بھی مذہبی منافرت کے فروغ اور ثقافتی یلغار سمیت کئی ایسے زاویئے ہیں جن پر دشمن پوری تندہی سے کام کر رہا ہے. گویا اس وقت پاکستان کو جتنے محاذوں کا سامنا ہے اس کا تصور بھی دیگر ممالک نہیں کرپاتے. یقینی طور پر ابتداء میں ہم نے وہ اقدام نہیں کیئے جو کرنے تھے اور جس سے دشمن کو اپنے پاؤں کسی حد تک جمانے کا موقع حاصل ہوا مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ اب ہم کھل کر لڑرہے ہیں. قوم اب دشمن کو پہچان پارہی ہے. وزیرستان سے لے کر کراچی تک کیئے گئے آپریشن اگر مکمل نہیں تو بڑی حد تک دشمن کو کمزور کرنے میں کامیاب رہے ہیں. کسی بم دھماکے سے یہ نتیجہ نکالنا کہ آپریشن ناکام رہے، ایک نہایت غلط اپروچ ہے. یہ ایک طویل جنگ ہے جو ہم بہت سے محاذوں پر ایک ساتھ لڑ رہے ہیں لیکن کامیابی ان شاء اللہ پاکستان کی قسمت ہے.
.
ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ ٹویٹ اور اس ٹویٹ پر انڈین میڈیا کا واویلہ یہ ثابت کررہا ہے کہ روس، چین اور پاکستان کا اتحادی بلاک امریکہ اور انڈیا دونوں کے سر پر واقعی بلاک بن کر گرا ہے.
.
====عظیم نامہ====

ایک شیخ

ایک شیخ


کہتے ہیں کہ ایک شیخ اپنے طالبعلموں کو قران حکیم کی تعلیم دے رہے تھے. وہاں سے ایک الحاد زدہ شخص کا گزر ہوا. اس نے شیخ کو استہزائی انداز میں مخاطب کرکے جملہ کسا .... "شیخ ! تم سب کتنے احمق ہو ! دنیا والے سائنس پڑھ کر چاند پر پہنچ گئے اور تم لوگ ابھی تک قران و حدیث میں لگے ہوئے ہو" ....
.
شیخ مسکرا کر متوجہ ہوئے اور جواب دیا .... "اس میں کیا حیرت کی بات ہے؟ وہ مخلوق ہیں اور ایک مخلوق سے دوسری مخلوق تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو ایک عمدہ کوشش ہے. ہم مخلوق ہیں اور اپنے خالق تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو ایک بہترین کوشش ہے. دونوں گروہ اپنی اپنی جگہ کچھ نہ کچھ خیر ضرور حاصل کررہے ہیں. لیکن تم واقعی احمق ہو جس نے نہ سائنس پڑھ کر ان کے ساتھ مخلوقات کی حقیقت کو پانے کی سعی کی اور نہ ہی ہمارے ساتھ قران و سنت سمجھ کر خالق کو پانے کی کوشش کی. تم دونوں ہی حوالوں سے احمق ہو." ....
.
====عظیم نامہ====

(ایک انگریزی بیان کا تاثر)

نماز میں خشوع کا دوسرا درجہ

نماز میں خشوع کا دوسرا درجہ


خشوع کا اونچا درجہ تو یہی ہے کہ دوران نماز، عابد حضوری کے احساس سے سرشار ہو اور اس کا ارتکاز مکمل طور پر تلاوت و مفہوم پر قائم رہے۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے جھنجھٹوں میں پھنسے ہم لوگوں کی نماز طرح طرح کے خیالات سے نبردآزما رہتی ہے۔ ایسے میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ دوران نماز دین و رب سے متعلق خیالات کا آنا معصیت و گناہ کے خیالات کے مماثل نہیں ہے۔ گویا ہمارے نزدیک ذہن کا خیالات میں بھٹکنا ایک جیسا نہیں۔ ایک بھٹکنا محبوب یعنی قرب خدا سے دوری کا استعارہ ہے اور دوسرا بھٹکنا اپنے محبوب کی گلی میں بھٹکنا ہے۔ کسی عارف نے سچ کہا ہے کہ نماز میں آپ کا ذہن وہاں ہی رہتا ہے جہاں نماز سے باہر رہتا ہے۔ اگر آپ کی روزمرہ کی مصروفیات میں دین کو ترجیح حاصل ہے تو خیالات کی آمد بھی دین سے متعلق رہے گی مگر اگر اس کے برعکس آپ کی زندگی گناہ و معصیت یا حصول مادیت کے گرد گھومتی ہے تو دوران نماز بھی خیالات اسی سے وابستہ ہونگے۔ نیک خیالات نماز یا دین سے آپ کو کبھی دور نہیں لے جائیں گے۔ جبکہ گناہ سے آلودہ خیالات نہ صرف خشوع کو دور کردیں گے بلکہ جلد ہی نماز و دین کی پابندی سے بھی آپ کو محروم کردیں گے۔
۔
====عظیم نامہ====

آپ کیا پریکٹس کرتے آئے ہیں


آپ کیا پریکٹس کرتے آئے ہیں


انگریزی کا ایک مقبول مقولہ ہے کہ 'پریکٹس میکس دی مین پرفیکٹ'. یعنی کسی کام کا بار بار کرنا یا دہرانا آپ کو اس کام کا ماہر بنا دیتا ہے. 
.
اسی طرح کنگ فو کی فیلڈ میں ایک چینی کہاوت ہے کہ 'مجھے ان ایک لاکھ داؤ سے خطرہ نہیں ہے جو تم نے ایک بار پریکٹس کئے ہیں. مجھے تو اس ایک داؤ سے خوف ہے جو تم نے ایک لاکھ بار پریکٹس کئے ہیں'
.
ایک اور مشہور مقولہ یہ بھی ہے کہ 'ہم پہلے اپنی عادات بناتے ہیں اور پھر وہ عادات ہمیں بناتی ہیں' - گویا پہلے ہم کسی کام کو بار بار کر کے اس کی عادت ڈال لیتے ہیں مگر پھر وہی عادت ہماری مستقل صفت بن کر ہماری شخصیت کا تعارف بن جاتی ہے.
.
یہ تمام اور اس جیسے اور بہت سے اقوال و کہاوتیں دراصل ایک ہی حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہیں اور وہ یہ کہ کسی بھی کام کی بار بار پریکٹس آپ کو اس خاص کام کا ماہر بنادیتی ہے. اب سوال صرف اتنا ہے کہ آپ اپنی زندگی میں آج تک کیا پریکٹس کرتے رہے ہیں؟
.
اگر آپ شکایت پریکٹس کرتے آئے ہیں تو کچھ ہی عرصے میں آپ اس میں ایسے ایکسپرٹ ہوجائیں گے کہ جلد ہی لوگوں سے، معاشرے سے، رشتوں سے اور خدا سے آپ کو طرح طرح کی شکایات ہونے لگیں گی 
.
اگر آپ تنقید پریکٹس کرتے آئے ہیں تو یقین جانیئے کہ جلد ہی آپ تنقید کے اتنے بڑے ماہر بن جائیں گے کہ مثبت سے مثبت ترین بات میں بھی تنقیدی پہلو ڈونڈھ نکالیں گے 
.
اگر آپ سکون پریکٹس کرتے آئے ہیں تو بہت جلد آپ سخت سے سخت حالات میں بھی سکون کا پیغام بنے نظر آئیں گے. 
.
سوال بہرحال یہی ہے کہ آپ کیا پریکٹس کرتے آئے ہیں؟
.
====عظیم نامہ====