Thursday, 4 May 2017

رضا میں راضی


رضا میں راضی



میرے ایک قریبی دوست کا گھرانہ دینی ماحول کا نمونہ ہے. یہاں صوفیانہ رنگ غالب ہے. ایک ایسا گھر جہاں فی الواقع دین پہلی ترجیح نظر آتا ہے. مجھے یاد ہے کہ شروع دنوں میں جب ان کے گھر پڑھائی کیلئے رات کو رکنا ہوا تو کچھ دیر کیلئے آنکھ لگ گئی. آنکھ کھلی تو دیکھا گھر میں خوب چہل پہل ہے، کوئی وضو کررہا ہے تو کوئی نماز کی تیاری میں مصروف ہے. میں بھی جلدی سے اٹھا کہ ایسا نہ ہو صرف میں ہی فجر سے محروم رہ جاؤں. وضو کرکے جب نماز کو تیار ہوا تو منکشف ہوا کہ یہ وقت فجر کا نہیں ہے ! بلکہ تہجد کا ہے اور سب اسی کی تیار میں جاگے ہوئے ہیں. سبحان اللہ. 
.
 خیر ان دنوں یہ معمول بنا رہا کہ ہم دوست کبھی میرے گھر پر اور کبھی اس دوست کے گھر پر پڑھائی کی نیت سے جمع ہوجاتے. اسی طرح ایک موقع پر دوست کے چھوٹے بھائی نے داخلے کیلئے مختلف اداروں میں اینٹری ٹیسٹ دیئے. حسن اتفاق سے اسے دو بڑی یونیورسٹیوں میں قبول کرلیا گیا. اب مرحلہ یہ تھا کہ کون سی یونیورسٹی کا انتخاب کیا جائے؟ سب بڑے سر جوڑ کر بیٹھے، مذاکرے ہونے لگے. مجھے بھی مشورے میں شریک کیا گیا. سب نے خوب سوچ بچار کرکے ایک یونیورسٹی کے حق میں فیصلہ کیا. مجھ سمیت سب کا اسی پر اتفاق ہوگیا. دوست کا بھائی بھی خوب مطمئن تھا کہ اچانک اسی وقت کسی نے آکر بتایا کہ جن شیخ سے استخارے کا کہا گیا تھا، انہیں اشارہ اس دوسری یونیورسٹی کے حق میں ملا ہے جو ہم سب کی متفقہ پسند کے خلاف ہے. میں نے یہ سنا تو ایک لمحہ کو دھچکا لگا کہ اب کیا ہوگا؟ مگر یہ دیکھ کر ناقابل یقین سی حیرت ہوئی کہ پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی. سب ایک دوسرے کے گلے لگ کر مبارکباد دینے لگے. کسی نے مجھے بھی گلے لگا لیا. میں نے کن انکھیوں سے دوست کے بھائی کو دیکھا تو حیرت مزید بڑھ گئی. وہ مٹھائی کھا اور کھلا رہا تھا. چہرہ خوشی سے کھلا ہوا تھا. میں حیران تھا کہ کیسے یہ انسان ابھی ایک لمحہ قبل ایک یونیورسٹی میں داخلے پر مسرور تھا اور اب استخارہ میں دوسری یونیورسٹی کا سن کر دگنا خوش ہے؟. کچھ توقف کے بعد میں یہ سمجھ پایا کہ اسی کو توکل یا رضا میں راضی ہونا کہتے ہیں. اس دن مجھے بندگی کا صحیح مفہوم نظر آیا کہ جب استخارہ کے ذریعے یہ اطمینان ہوگیا کہ خیر کا اشارہ ان کی پسند کے برعکس ہے، تب بھی انہیں اسے قبول کرنے میں ذرا دقت نہ ہوئی بلکہ وہ مزید خوشی میں سرشار ہوگئے. 
.
====عظیم نامہ====
.
 نوٹ: قارئین سے استدعا ہے کہ تحریر کا مقصد یہ قطعی نہیں کہ ہم یہ فیصلہ کرنے لگیں کہ استخارہ کرنا چاہیئے تھا یا نہیں؟ یا پھر استخارہ خود کیوں نہ کیا؟ شیخ سے کیوں کروایا؟ میں خود اسی کا قائل ہوں کہ استخارہ دعا ہے جو انسان کو خود ہی کرنی چاہیئے. لیکن جیسا عرض کیا کہ یہاں یہ موضوع نہیں بلکہ مومن کا وہ رویہ موضوع ہے جو اسے خدا کی رضا کے سامنے اختیار کرنا چاہیئے.

No comments:

Post a Comment