بیت بازی
کراچی شہر کے رہائشیوں کیلئے 'کراچی کلب' کا نام اجنبی نہیں ہے. یہ ایک ایسا کلب ہے جس کی ممبرشپ حاصل کرنا قریب قریب ناممکن ہوتا ہے. اس کے ممبران میں بڑے بڑے ججز، فوجی جرنیل، نامور کاروباری حضرات، بیوروکریٹ اور سیاستدان وغیرہ شامل ہیں. بیشمار لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس کلب کے ممبر بن سکیں تاکہ ان کا اٹھنا بیٹھنا بھی پاکستان کی ایلیٹ کلاس میں ہو. لوگوں کے پاس پیسے کی کمی نہیں مگر اسکے باوجود کلب کی ممبر شپ آسانی سے اوپن نہیں کی جاتی. خیر جناب یہ میں کیا تفصیل لے کر بیٹھ گیا؟ اصل مطلوب تو آپ کو اپنی یونیورسٹی کے دنوں کا ایک چھوٹا سا دلچسپ واقعہ سنانا ہے. میں سرسید یونیورسٹی کراچی کی بزم ادب کا مرکزی منتظم ہوا کرتا تھا. ان ہی دنوں یونیورسٹی کے چانسلر زیڈ اے نظامی، میجر جنرل غلام عمر اور معروف ادبی شخصیت مظہر علی عارف صاحب نے میری ذمہ داری لگائی کہ بیت بازی کی دو بہترین ٹیمیں تیار کروں اور ان کا مقابلہ 'کراچی کلب' کیلئے تشکیل دوں. چنانچہ میں نے یونہی کیا اور چھ بہترین شرکاء کا دو مختلف ٹیموں کی صورت چناؤ کیا. مقررہ دن کراچی کلب ٹیمیں لے کر پہنچ گیا. بہت ہی عمدہ ادبی ماحول تشکیل دیا گیا. بڑے بڑے شاعر اور اہل ادب بھی سامعین و ناظرین میں شامل تھے. پروگرام کی ذمہ داری میرے کاندھوں پر تھی اور میزبانی معروف ٹی وی پروگرام 'کسوٹی' کے میزبان 'قریش پور' صاحب فرما رہے تھے. وقت مقررہ پر پوری ادبی شان کے ساتھ بیت بازی کا آغاز ہوا. میں دونوں ٹیموں کی حوصلہ افزائی کررہا تھا. دونوں جانب سے غضب کے اشعار پیش کیئے جارہے تھے جنہیں خوب واہ واہ حاصل ہورہی تھی. جب ضرورت پیش آئی تو میں نے بھی لقمہ دیا اور کوئی حسب موقع شعر سنا دیا. شعر سن کر ایک ادبی شخصیت نے سراہتے ہوئےمجھ پر تبصرہ کیا کہ
.
یہ اور بات کہ منبر پر جاکر کچھ نہ کہیں
خاموش لوگ بلا کے خطیب ہوتے ہیں !
.
محفل یونہی آب و تاب سے چل رہی تھی. محسوس ہوتا تھا کہ دونوں ٹیمیں گویا شاعری کا خزانہ ہیں جو کسی صورت ہار نہ مانیں گی. مگر کب تک؟ آخر ایک وقت آیا جب ایک ٹیم حرف 'پ' پر پھنس گئی. اس حرف پر کئی اشعار پہلے ہی ہوچکے تھے اور اب سمجھ نہ آتا تھا کہ 'پ' سے مزید کیا شعر کہا جائے؟ جب شکست سامنے نظر آنے لگی تو اس ٹیم کی ایک لڑکی نے مائیک تھام لیا کہ مجھے 'پ' سے شعر یاد آگیا ہے. سب لوگ ہمہ تن گوش ہوگئے، اس لڑکی نے سانس کھینچا اور پوری لہک سے ایک ایسا شعر پڑھا کہ پوری محفل پہلے حالت سکتہ میں گئی اور پھر کِشتِ زعفران ہو گئی۔ شعر کچھ یوں تھا
.
پستول سے نہ مارو !! خنجر سے نہ مارو !!
ہم خود ہی مرجائیں گے، ذرا آنکھ تو مارو !
.
کافی تنقید و بحث کے بعد شعر قبول کرلیا گیا اور یہی ٹیم آگے جاکر کامیاب بھی ہوگئی. آج بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار لبوں پر مسکان چھا جاتی ہے. کبھی اس کی اس جرأت پر ہنسی آتی ہے اور کبھی سوچتا ہوں کہ اگر وہ لڑکی یہ جرأت نہ کرتی تو اسکی ٹیم کامیابی سے محروم ہوجاتی.
:)

.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment