امریکہ بہادر اور میں - سفر نامہ
.
کوئی سال بھر قبل مجھے یہ مرحلہ درپیش ہوا کہ ایک قریبی سسرالی عزیز نے امریکہ اپنی بیٹی کی شادی میں مجھے مدعو کیا. اول تو یہ میزبان گھرانہ میرے دل سے بہت نزدیک ہے (جن سے ملنا ہمیشہ اچھا لگتا ہے) اور پھر رشتہ بھی سسرال کا تھا لہٰذا بہانہ کرنے کا کوئی امکان نہ تھا. یہ جاننے کے باوجود کہ اکثر پاکستانیوں کے ویزا امریکہ کیلئے مسترد کردیئے جاتے ہیں، میں نے بادل نخواستہ اپنی سی کوشش کرنے کا وعدہ کرلیا. وقت مقررہ پر ویزا آفس اپنے کاغذات کے ساتھ پہنچ گیا. عمارت کے اپر نسب ایک بہت بڑا فیلکن یعنی شہباز کا مجسمہ نسب تھا. یوں لگا جیسے میں اسے اور مجسمہ مجھے خونخوار آنکھوں سے گھور رہے ہیں. دل میں کہیں نہ کہیں امریکہ کے خلاف ایک شدید غم و غصہ بھرا ہوا محسوس ہورہا تھا لہٰذا مجھے ذرا فکر نہ تھی کہ وہ میرا یہ ویزہ مسترد کرتے ہیں یا قبول. بلکہ سچ پوچھیئے تو ایک لمحہ کو دل چاہا کہ اچھا ہی ہے مسترد کردیں تو اس دشمن مسلم ملک نہ جانا پڑے. پھر امریکہ میں بسے اپنے ان عزیزوں کے چہرے ذہن میں آئے تو خود کو قابو کیا. کاغذات جمع کرانے کے کافی دیر بعد مجھے انٹرویو کے لئے بلایا گیا. سامنے تاثرات سے عاری ایک کرخت چہرے کی انگریز عورت براجمان تھی. اس نے مجھ سے روکھے انداز میں کچھ سوال پوچھے. میں چونکہ خود اسوقت ایک ناراض ذہن کے ساتھ موجود تھا چنانچہ میں نے عادت کے برخلاف اس کے روکھے سوالات کے جوابات خاصی بدتمیزی سے دیئے. حیران کن طور پر وہ دوران انٹرویو ہی خوش اخلاق ہوگئی اور فوری طور پر مجھے ویزا گرانٹ کردیا. میں نے خود کلامی کی کہ لو جناب اب تو سامان باندھ لو، امریکہ بہادر جانا ہی ہوگا.
.
میری فلائٹ لندن (انگلینڈ) سے پہلے ڈبلن (آیرلینڈ) رکتے ہوئے نیویورک (امریکہ) جارہی تھی. ذہن کو مسلسل اس کوفت نے جکڑ رکھا تھا کہ کہیں یہ چیکنگ کے نام پر میرے کپڑے ہی نہ اتر وا لیں جو کہ اب ایک عام بات ہے. الحمدللہ یہ خدشہ حقیقت نہیں بنا. البتہ لندن اور ڈبلن دونوں جگہ 'رینڈم چیکنگ' کے نام پر حسب توقع میرا نام نکلا. پورا سامان چیک کیا گیا، یہاں تک کے وہ بیگ جو سامان میں جاچکے تھے انہیں واپس منگوایا گیا اور میرے سامنے کھولا گیا. ایک دیو قامت سیاہ فام آفیسر مجھ سے معزرت خواہانہ انداز میں سوالات کرتا رہا اور ایک گوری آفیسر سامان کھول کر دیکھتی رہی. میں نے گپ لگانا شروع کی تو جلد ہی ہم تینوں کے قہقہے چیکنگ روم میں گونجنے لگے. میں نے انگریز عورت سے کہا کہ تم سامان بے رحمی سے کھول تو رہی ہو لیکن یاد رکھو میری بیوی میرے ساتھ نہیں ہے اسلئے واپس اب اسی تمیز سے تم ہی نے رکھنا ہے. خیر یہ مرحلہ ختم ہوا اور ہم سارا راستہ انگریزی موویز دیکھتے ہوئے نیویورک جاپہنچے. یہاں خلاف توقع کوئی چیکنگ نہیں کی گئی، وجہ یہ تھی کہ انہوں نے پہلے ہی مجھے ڈبلن میں چیک کرلیا تھا. ائیرپورٹ سے ہی ہم اپنے میزبان کے گھر کیلئے روانہ ہوگئے جو کہ اسپرنگ فیلڈ (میسوچیوسٹ) نامی شہر میں تھا. گھر ماشاللہ غیرمعمولی طور پر خوبصورت اور کشادہ تھا. میزبان رشتے داروں نے میرا نہایت محبت سے استقبال کیا اور مجھے میرا کمرہ دیکھا دیا گیا. گھر میں مہمانوں کی ریل پیل تھی جو مختلف شہروں اور ملکوں سے شادی میں شرکت کرنے جمع ہورہے تھے. سب سے اتنی محبت و عزت ملی کہ جلد ہی مجھے یہ گھر اپنا گھر لگنے لگا. امریکہ میں موجود بڑے بڑے گھر دیکھ کر محروم سے انگلینڈ کے دڑبے نما گھر یاد آگئے جن کی سیڑھیاں اتنی تنگ ہوتی ہیں کہ اگر ایک جانب سے مرد اور دوسری جانب سے خاتون آرہی ہوں تو یوسفی صاحب کے بقول نکاح کے سوا کوئی مہذب صورت باقی نہیں رہتی. اگلا پورا ہفتہ میں نے شادی کی تیاریاں کرواتے اور رونق سے لطف اندوز ہوتے گزارا. گھر کا گارڈن مجھے سب سے دلفریب لگا جہاں ایک چھوٹا سا تالاب بھی تھا اور جہاں صبح ہوتے ہی گلہریاں، خرگوش، رنگ برنگی چڑیاں کھانا کھانے جمع ہو جایا کرتے. اسپرنگ فیلڈ شہر بھی گھومتا رہا اور یہاں کی مشھور جگہوں کا جائزہ لیا. یونیورسٹی آف میسوچیوسٹ بھی گیا جو ایک عمدہ یونیورسٹی تسلیم کی جاتی ہے. شاپنگ مالز میں شاپنگ کیلئے گیا تو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہاں سیل ہی سیل لگی رہتی ہے اور قیمتیں واقعی انگلینڈ کے مقابلے میں آدھی ہیں. بڑے برانڈز جیسے پولو اور نائیک وغیرہ ان قیمتوں میں مل رہے تھے جن کا تصور بھی میں انگلینڈ میں نہیں کرسکتا. خوب شاپنگ کی اور دل میں سوچا کہ عقلمند ہیں وہ لوگ جو امریکہ آتے ہی شاپنگ کی نیت سے ہیں. یہاں ایک دلچسپ مشاہدہ یہ بھی ہوا کہ اس شہر میں بسے ہوئے لوگوں کی اکثریت بہت موٹی تھی جن کے سامنے میرا چھ فٹ ایک انچ کا بھاری وجود بھی سلم لگ رہا تھا. معلوم ہوا کہ یہ شہر موٹے مرد و عورتوں کیلئے جانا جاتا ہے اور یہاں ایسے لوگ بسے ہوئے ہیں جو گورنمنٹ سے مختلف الاؤنس لیتے ہیں. پورے امریکہ میں ہی جنک فوڈ کا بہت زور ہے اور ہر گلی کونے پر 'ڈونٹس' کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں. کہتے ہیں امریکی ڈونٹس پر جیتے ہیں. برگر کا سائز بھی انگلینڈ کے مقابلے میں بہت بڑا تھا. کچھ مقامی میک ڈونلڈز میں ایسی چیزیں دستیاب تھیں جو کسی اور ملک کے میک ڈونلڈ میں نہیں ملتی جیسے 'لابسٹر رول' وغیرہ.
.
ان ہی دنوں ایک عجیب مسلہ سامنے آگیا جس سے پورا ماحول متاثر ہوا. وہ یہ کہ نکاح خواں صاحب جو کہ کوئی مذہبی ڈاکٹر تھے انہوں نے ایسی شرائط عائد کردی جو گھرانوں میں قبول نہ تھی. مثال کے طور پر وہ مہر کے غیر موجل ہونے کے قائل ہی نہ تھے. اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی ایسی باتیں بیان کی جس کا مطلب تھا کہ اگر مجھے نکاح خواں بنانا ہے تو میری مان کر چلنا ہوگا. میرے لئے ان کے یہ نخرے حیرانی کا سبب تھے. معلوم ہوا کہ ان کے علاوہ پورے شہر میں صرف اور صرف ایک اور مولانا صاحب ہیں جو نکاح پڑھاتے ہیں. گویا یہاں ڈیمانڈ زیادہ تھی اور مولوی کی سپلائی بلکل بھی نہیں. ان دوسرے مولانا صاحب کے پاس میں اپنے میزبان کے ساتھ گیا جو فی الواقع ایک علمی مہذب شخصیت کے مالک تھے. بہت اصرار کے باوجود بھی انہوں نے اپنی مصروفیت کا کہہ کر معزرت کر لی. ایک جانب یہ مسلہ تھا تو دوسری جانب دلہن کا اپنے گھر والو سمیت پہلے دن سے یہ شدید اصرار تھا کہ نکاح عظیم خالو پڑھائیں یعنی میں پڑھاؤں. میں نے ہر بار ان سے معزرت کی اور سمجھایا کہ بہتر یہی ہے کہ یہ کام کوئی عالم دین کرے. اسلئے نہیں کہ میں یا کوئی اور نہیں کرسکتا بلکہ اسلئے کہ مجھے اس کا زیادہ تجربہ نہیں ہے (صرف ایک بار بحالت مجبوری نکاح پڑھا چکا ہوں). جب اصرار حد سے بڑھا تو میں نے یہ حامی بھر لی کہ نکاح تو وہ ڈاکٹر صاحب ہی پڑھائیں البتہ میں اسٹیج پر آکر انگریزی میں مختصر خطبہ دے دوں گا. معاملہ سمٹ گیا اور ان نکاح خواں صاحب سے بھی معاملات تفہیم پاگئے. تیاریاں پھر زور و شور سے جاری ہو گئیں. اللہ اللہ کرکے شادی کا دن آگیا. شیریٹن فائیو اسٹار ہوٹل میں دو دن قیام رکھا گیا جس میں پہلے روز شادی اور دوسرے روز دعوت ولیمہ ہونی تھی. یہ شادی توقع سے بھی زیادہ عالیشان کی گئی. فی الواقع بالی وڈ کے یش چوپڑا کی فلم کا کوئی سیٹ معلوم ہوتا تھا. پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ انگریزوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جن کیلئے پاکستانی ملبوسات بنائے گئے تھے (شیروانی، شرارے، ساڑھیاں وغیرہ). نکاح کے وقت نکاح خواں صاحب نے بھی ایک طویل تقریر کی جو میری احقر رائے میں خاصی قابل اعتراض تھی. بجائے اچھی نصیحت کے ان کا زور اس بات پر رہا کہ آدم و حوا کی نسل آپس میں شادیاں کرکے بڑھی ہے اور پہلے بہن بھائی کی شادی جائز تھی. میں نہیں جانتا کہ ان باتوں کا کیا اثر ان انگریزوں نے لیا ہوگا جو سامنے بیٹھے ہوئے سن رہے تھے مگر میں اپنا منہ چھپاتا رہا. اس ماحول میں مجھے اسٹیج پر مدعو کیا گیا اور مائیک تھما دیا گیا. میں نے بھی ایک مختصر تقریر کی جس میں مختلف آیات و احادیث سے اس رشتے کی اہمیت کو سمجھایا اور میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق کا بیان کیا. الحمدللہ لوگوں نے اسے خوب پسند کیا اور آخر وقت تک مجھ سے مل کر سراہتے رہے. شادی دو دن میں اختتام کو پہنچی اور ہم واپس گھر آگئے.
.
اب چونکہ شادی انجام پاچکی تھی لہٰذا ہم نے امریکہ کے دیگر شہر گھومنے کی ٹھانی. سب سے پہلے ہماری نظر انتخاب پڑوسی شہر 'بوسٹن' پر پڑی. میری خواہش تھی کہ میں ہارورڈ یونیورسٹی اور ایم آئی ٹی جیسی شہرہ آفاق درس گاہوں کو دیکھ سکوں. خوش قسمتی سے مجھے دیگر احباب کیساتھ ساتھ ایک ایسے عزیز کا ساتھ بھی حاصل تھا جو ہارورڈ یونیورسٹی سے ہی پڑھے ہوئے ہیں اور پاکستان کے ایک نامور ڈاکٹر و سرجن ہیں. اس شہر اور اس میں موجود یونیورسٹیوں کی تاریخ و میعار پر بات کرتے ہوئے ہم نے جی بھر کر سیر کی. ہارورڈ یونیورسٹی میں واقعی سحر انگیز ماحول نظر آتا ہے مگر سچ کہوں تو امریکہ کی یہ یونیورسٹیاں ہرگز وہ جاذبیت نہیں رکھتی جو انگلینڈ میں موجود یونیورسٹیوں کا خاصہ ہے جیسے کیمبرج، آکسفورڈ وغیرہ. بیس بال امریکہ میں بہت مقبول ہے اور بوسٹن میں 'ریڈ ساکس' کے نام سے ایک معروف اسٹیڈیم موجود ہے جسے جا کر ہم نے دیکھا. واپسی میں ایک ایسی جگہ گئے جو انواع و اقسام کی چاکلیٹس کیلئے بہت مقبول ہے. 'میکس برینر چاکلیٹ بار' اس کا نام ہے. یہاں اتنی چاکلیٹیں کھائیں کہ اگلے روز تک منہ میں صرف چاکلیٹ ہی کا ذائقہ رہا.
.
بوسٹن سے واپسی کے اگلے ہی روز ہم نے نیویورک جاکر وہاں ایک عزیز کے گھر چار روز قیام کا ارادہ کرلیا. نیویورک پہنچ کر پہلی بار ترقی و تعمیر کا خوشگوار احساس ہوا. کشادہ سڑکیں، فلک بوس عمارتیں اور نت نئی تفریحات چاروں طرف پھیلی ہوئی تھیں. اسی رات سب مل کر ٹائم اسکوائر گئے. مجھے گمان تھا کہ نیویورک کا یہ 'ٹائم اسکوائر' لندن کے 'پکڈلی سرکس' کی کوئی ایڈوانس فارم ہوگا. مگر سچ کہوں تو وہاں پہنچا تو دنیا ہی نئی تھی. اونچی عمارتیں، آنکھوں کو خیرہ کرتے روشن قمقمے، طرح طرح کے کرتب اور لوگوں کا اژدھام. مجھے فطری طور پر سادگی اور فطرت کے مظاہر پسند ہیں مگر اس وقت ایک لمحے کو میں اس انسانی ترقی و تعمیر میں مبہوت ہو کر رہ گیا. چوک کے بیچ کچھ سیاہ فام لڑکے اژدھے نما سانپ (پائی تھن) لئے کھڑے تھے. باقی افراد کی طرح مجھے بھی انہیں دیکھ کر خوف محسوس ہوا. بچپن سے میری ایک بری عادت یہ ہے کہ اگر مجھے کسی چیز سے خوف محسوس ہو تو وہ میں لازمی کرتا ہوں. پھر وہ چاہے کوئی آسیب زدہ مکان جانا ہو، کسی سرکش بیل کو قابو کرنا ہو، اونچائی سے چھلانگ لگانا ہو یا پھر سمندر میں غوطہ زنی. اسوقت بھی یہی عادت روبہ عمل آئی اور میں نے اس اژدھے کو گلے میں لپیٹ لیا. قریب قریب ساری رات اسی علاقے میں گھومتے رہے. یہ دوسری ایسی مصروف جگہ دیکھی جو رات میں بھی دن کا سماں رکھتی تھی. پہلی اور اس سے زیادہ جاگتی جگہ مسجد الحرام یعنی خانہ کعبہ ہے.
.
اگلے دن صبح ہی صبح میں نیویورک گھومنے نکل گیا. یہاں کا سب وے ٹرین کارڈ بنوایا اور سفر شروع کردیا. سب سے پہلا احساس یہ ہوا کہ انگلینڈ کا زمین دوز ٹرین نظام نیویورک سے کہیں زیادہ بہتر ہے. حالانکہ یورپ کے دیگر شہروں میں انگلینڈ سے بھی بہتر ٹرین سسٹم موجود ہیں. ٹرینیں پرانی اور ٹکٹ مشینیں بھی اڈوانس نہیں تھیں. شراب اور پیشاب کے بھبھکے گاہے بگاہے سٹیشن پر محسوس ہوئے. نیویورک کے لوگ پیسہ کمانے کیلئے خود کو ہلکان کئے ہوئے ہیں اور ایک آدمی دو دو تین تین نوکریاں عام کررہے ہوتے ہیں. بارہ سے چودہ گھنٹے کام کرنا معمول ہے. ٹورسٹوں کے علاوہ ٹرین میں موجود مقامی لوگوں کے چہرے ان کی تھکن اور بیزاری کا احوال سنا رہے تھے. اس کے برعکس انگلینڈ میں آپ کو اکثر چہرے مسکراتے اور آسودہ نظر آتے ہیں. یہاں ایک تبصرہ کردوں کہ امریکہ مجموعی طور پر انگلینڈ سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے، ٹیکنالوجی میں بھی بہت آگے ہے لیکن ڈسپلن یعنی نظم کے حوالے سے انگلینڈ سے پھیچے معلوم ہوتا ہے. یہ ڈسپلن چاہے کمپنی کی سطح پر ہو یا حکومتی اداروں کے حوالے سے. امریکہ میں موجود ہمارے ایک اور عزیز جنہیں امریکہ، کینیڈا اور انگلینڈ تینوں ملکوں کے سفارت خانوں میں کام کرنے کا طویل تجربہ ہے. انہوں نے بھی یہی گواہی دی کہ ڈسپلن کے حوالے سے سب سے بہتر ملک اور نظم انہیں انگلینڈ کا محسوس ہوا. نیویورک ایک خوبصورت جدید شہر ہے. مجھے کئی بار ایسا محسوس ہوا کہ اگر میرے آبائی شہر کراچی کو ترقی یافتہ بنادیا جائے تو اس کی شکل بلکل نیویورک ہی کے جیسی برآمد ہو. یہ دن بھرپور ثابت ہوا اور میں نے شہر کے حسن کو پوری طرح محسوس کیا. جن جگہوں پر گیا ان میں ٹائم اسکوائر، وال اسٹریٹ، ٹرمپ ٹاور، اسٹیچو آف لبرٹی، نائن الیون گراؤنڈ زیرو، ہسٹری میوزیم، اٹلی ٹاؤن، چائنا ٹاؤن، فری ڈم ٹاور، سینٹرل پارک، کونی آئی لینڈ، جیکسن ہائٹس، راک فیلر سینٹر، ففتھ ایونیو، ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ، بروک لن برج وغیرہ شامل ہیں. ان میں سے اکثر جگہیں شاہکار ہیں اور بار بار جانے لائق ہیں.
.
ہسٹری میوزیم میں ایک لائیو اسپیس شو کا ٹکٹ خریدا. آڈیٹوریم اور شو کچھ اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا تھا کہ آپ کو اپنا وجود خلا میں ستاروں سیاروں کے مابین تیرتا ہوا محسوس ہو. ایک بار جو بلیک ہول کا حال دکھایا تو بیک وقت مجھ سمیت تمام افراد کی چیخ نکل گئی. یوں لگا کہ اس بلیک ہول نے ہمیں تیزی سے نگل لیا ہو. اسٹیچو آف لبرٹی پانی کے بیچ واقع ایک جگہ پر نصب ہے اور وہاں ایک بحری جہاز ہمیں لے گیا. چھوٹا سا سفر دلنشیں اور موسم خوشگوار تھا. لبرٹی کے اس مجسمے کو اگر امریکی نظریات کی نمائندہ علامت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا. میں معلوم نہیں کتنی ہی دیر اپنے ذہن میں ان نظریات اور اسلام کے نظریات کا تقابل کرتا رہا. اس نظریاتی تصادم کو سوچتا رہا جو آج ساری دنیا میں برپا ہے. بے ساختہ اللہ سے نصرت دین کی دعا مانگی. یہ مجسمہ لبرٹی یعنی آزادی کا ہے. ایک ایسی آزادی جو کئی حوالوں سے غلامی ہی کی ایک صورت ہے. آزادی کپڑوں سے، روایات سے، مذہب سے، الہامی احکامات سے اور غلامی سودی نظام کی، نفس کی، شہوات کی، فیشن کی. امریکہ کے اس سفر میں مجھے ہمیشہ یہ احساس ہوا کہ یہاں حکومتی سطح پر عوام کو ایک خاص طرح سے برین واش کیا جارہا ہے اور اس برین واشنگ سے عوام خود واقف نہیں ہیں. یہی لبرٹی کا نعرہ اب ایک عقیدہ سا بن گیا ہے. بچے تک ایسے جملے جابجا استعمال کرتے ہیں کہ 'آئی ایم فری' ، 'آئی کین ڈو واٹ آئی وانٹ' وغیرہ. بہت اچھی بات ہے اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ فری ہیں مگر بار بار اس قسم کے جملے کہنا دراصل اس پروگرامنگ کو ظاہر کرتا ہے جو ان اذہان کی کی جارہی ہے. ہر دوسرے گھر پر امریکہ کا جھنڈا لہرا رہا ہے، اشتہاروں اور پروڈکٹس پر امریکی جھنڈے بنے ہوئے ہیں جو غیر محسوس انداز میں لوگوں میں امریکی ہونے کا فخر انجیکٹ کررہے ہیں. ایسا محسوس ہوا کہ وہاں موجود وہ مسلمان جو امریکہ میں پیدا نہیں ہوئے آج بھی نائن الیون پر بات کرتے ہوئے گھبراتے ہیں. امریکہ کو پولیس اسٹیٹ بھی کچھ لوگ کہتے ہیں اور شاید یہ اتنا غلط بھی نہیں ہے. مجھے کئی ایسی عام گاڑیاں دکھائی گئیں جس میں سادہ لباس میں موجود کوئی فرد گاڑی چلا رہا ہے مگر درحقیقت وہ پولیس کی گاڑی تھی. کئی مختلف افراد سے بات ہوئی جنہیں ایف بی آئی نے اپروچ کیا اور اپنے ساتھ خفیہ کام کرنے کی دعوت دی. میری کچھ نوجوانوں سے الحاد اور دیگر موضوعات پر خوشگوار گفتگو رہی. ان کے ذہن میں موجود مغربی فلسفوں اور سوالات کے میں نے حتی الامکان جوابات دیئے.
.
ایک مصروف ترین سڑک پر چلتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک پیاری سے گلہری کا کرتب دکھایا جارہا ہے. میں بھی کرتب دیکھنے پہنچا تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ کوئی کرتب دکھانے والا نہ تھا بلکہ گلہری خود ہی طرح طرح کی اٹھکلیاں کرکے مونگ پھلیاں لے رہی تھی. یہ ایک سیکھنے والی بات ہے کہ اتنی مصروف سڑک پر بھی جانور خود کو اس درجے محفوظ محسوس کرتے ہیں کہ انسانوں سے بلکل نہیں خوف کھاتے. نیویورک کی اسکائی لائن عظیم الشان عمارات سے مزین ہے اور ورطہ حیرت میں ڈال دینے والی ہے. دریا کے کنارے بیٹھ کر اس اسکائی لائن کو دیکھنا ایک خوش کن تجربہ تھا. نیویورک میں کئی دن گزارنے کے بعد ہم نے واپس اسپرنگ فیلڈ کا رخ کیا اور دوسرے ہی روز مشہور عجوبہ 'نایگرا فال' کا رخ کیا. ایک وین بک کرلی گئی جس میں کوئی آٹھ گھنٹے کا سفر کرکے ہم بوقت فجر نایگرا فال پہنچے. نماز ادا کرنے کے بعد نظارہ کرنے جو پہنچا تو فطرت کے حسن کا ایک ناقابل بیان شاہکار آنکھوں کے سامنے تھا. پہاڑوں سے گرتی ہوئی یہ عظیم آبشار بیک وقت حسین بھی ہے اور پر ہیبت بھی. اس پر کمال یہ کہ دو یا تین طرف سے قوس و قزاح (رین بو) کے رنگ نظر آرہے تھے. وقت اور سانسیں دونوں ہی تھمی ہوئی محسوس ہوئی. گھنٹوں اسی منظر کو تکتا رہا. جب ہمارے میزبان نے ہمیں بتایا کہ سامنے نظر آنے والی آبشار کینیڈا میں واقع ہے. گویا نایگرا فال کا ایک حصہ امریکہ میں اور دوسرا حصہ کینیڈا میں واقع ہے. ہم نے کینیڈا کی جانب جانے کی بابت سوال کیا تو معلوم ہوا کہ پانی کا جہاز ایک جانب سے چلتا ہے اور دوسری جانب آبشار کے عین نیچے سے لے کر جاتا ہے. فوری طور پر جانے کا ٹکٹ لیا اور جہاز میں جا بیٹھے. ہمیں برساتی پہنا دی گئی. امریکہ والے نیلی برساتی پہنے ہوتے ہیں اور کینیڈا والے سرخ برساتی. جہاز کا یہ سفر یادگار تھا. اتنا خوبصورت منظر پہلے کبھی نہ دیکھا تھا. گرتی ہوئی آبشار ایک برف کی طویل دیوار سی محسوس ہوتی تھی. آبشار کے نیچے پہنچے تو ہر طرف سے پانی کے چھینٹے آنے لگے. پانی کا شور اتنا کہ کان پڑی آواز نہ سنائی دے. کچھ تصویریں کھینچی مگر خوف یہ تھا کہ کیمرے اور موبائل میں پانی چلا جائے گا. جب کنارے پر اتارا تو سب تھکن سے چور ہوچکے تھے. میری نظر ایک چوٹی پر گئی جو ایک آبشار کے بلکل برابر میں تھی اور اس تک جانے کی سیڑھیاں لگی ہوئی تھیں. کوئی پندرہ بیس منٹ سیڑھیاں چڑھ کر چوٹی پر جاپہنچا اور نظارے سے لطف اندوز ہوتا رہا.
.
یوں میرا یہ امریکہ کا سفر اپنے اختتام کو پہنچا. مجھے اعتراف ہے کہ نہ صرف میں نے اسے بھرپور انجوائے کیا بلکہ میں بہت سی چیزوں کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کے قابل ہوسکا. سچ ہے کہ سفر انسان کو وہ سیکھاتا ہے جو کوئی کتب یا استاد نہیں سیکھا سکتا. آخر میں یہ کہ جو لکھا وہ اپنے ناقص مشاہدے اور مختصر سفر کی بنیاد پر لکھا. لہٰذا ہرگز ضروری نہیں کہ یہ مشاہدات فی الواقع اصل حقیقت بیان کرتے ہوں. آپ اسے کلی یا جزوی طور پر مسترد کرسکتے ہیں.
.
====عظیم نامہ====