تزکیہ قلب کیسے حاصل ہو؟
انسان کا قلب ایک آئینے کی مانند ہے جو اگر شفاف ہو تو اس میں تجلیات کا عکس نظر آنے لگتا ہے. چار امور ایسے ہیں جنہیں اپنا کر یہ عکس حاصل ہوجاتا ہے
.
١. پہلا ہے گناہوں کو ترک کی کوشش کرنا بلخصوص وہ گناہ جو جنسی شہوات یا منفی جذبات و خیالات سے متعلق ہوں
.
١. پہلا ہے گناہوں کو ترک کی کوشش کرنا بلخصوص وہ گناہ جو جنسی شہوات یا منفی جذبات و خیالات سے متعلق ہوں
.
٢. دوسرا ہے استغفار کی کثرت ، یہ دل پر موجود گناہوں کی تاریکی کو مٹاتا ہے
.
٢. دوسرا ہے استغفار کی کثرت ، یہ دل پر موجود گناہوں کی تاریکی کو مٹاتا ہے
.
٣. تیسرا ہے خاموشی اور تنہائی میں ذکر الٰہی یعنی تسبیحات میں مشغول رہنا ، یہ اس آئینے کو چمک فراہم کرتا ہے
.
٤. چوتھا ، آخری اور سب سے زیادہ ضروری امر ہے آیات قرانی، صحیفہ کائنات، موجودات، نفس انسانی اور واقعات و حالات پر قران حکیم کی روشنی میں مسلسل تدبر و تفکر کرنا. اس سے اس آئینے کو صحیح زاویہ اور رخ عطا ہوتا ہے
.
٤. چوتھا ، آخری اور سب سے زیادہ ضروری امر ہے آیات قرانی، صحیفہ کائنات، موجودات، نفس انسانی اور واقعات و حالات پر قران حکیم کی روشنی میں مسلسل تدبر و تفکر کرنا. اس سے اس آئینے کو صحیح زاویہ اور رخ عطا ہوتا ہے
.
یہ دھیان رہے کہ مومن کی تمام کوشش و عبادات کا مقصد الله پاک کی قربت، خوشنودی اور عرفان ہوتا ہے. کسی کمتر درجے میں بھی آپ کا مقصد کشف و الہام نہیں ہونا چاہیئے. یہ اور بات ہے کہ ان چاروں امور کی بجا آوری سے اکثر روحانی وارداتوں کی کھڑکی کھل جاتی ہے. سچے خواب، ماوراء عقل واقعات، کشف، الہام، سکون و سرشاری، دل کی نرمی، آنسوؤں کا جاری ہونا، خود کو ہلکا پھلکا اڑتا محسوس کرنا، سینہ کشادہ محسوس ہونا، چیزیں زیادہ روشن نظر آنا، دعاؤں کی حیرت انگیز قبولیت وغیرہ اس مرحلے پر حاصل ہونے لگتے ہیں. یہی وہ موقع ہے جب شیطان دو دھاری تلوار سے حملہ اور ہوتا ہے.
.
١. پہلا وار یہ کہ اسکی جانب سے گناہ اور شہوات نفسانی کی تبلیغ و دعوت کئی گنا زیادہ کر دی جاتی ہے تاکہ کسی طرح سے سالک کو واپس دھکیلا جاسکے.
.
٢. دوسرا کاری وار یہ کہ وہ سالک کو خود پسندی میں مبتلا کردے یعنی یہ کہ تم کتنے نیک ہو، کتنے الله والے ہو گئے ہو، تم تو روحانیت رکھتے ہو وغیرہ.
.
اگر سالک اس دوسرے وار میں آجائے تو آھستہ آھستہ اس کا اعتبار اپنے ان نفسی تجربات پر اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ قران و شریعت کو ان تجربات کی عینک سے دیکھنے لگتا ہے. یہ بیماری بڑھتی چلی جائے تو انسان نبوت یا مہدیت کا دعویٰ کرنے سے بھی نہیں چوکتا. شیطان غیرمحسوس انداز میں اپنے شیطانی اعمال کو روحانیت کے دھوکے میں اس شخص پر مسلط کرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ نہ صرف وہ شخص خود برباد ہوتا ہے بلکہ اپنے اردگرد معتقدین کا جھمگھٹ لگا کر انہیں بھی تباہ کردیتا ہے. اس سے بچنے کا واحد علاج یہ ہے کہ سالک سختی سے قران حکیم کو حق و باطل میں فرق کرنے والی کسوٹی بنائے رکھے. جو خواب، کشف، الہام وغیرہ قران و سنت سے متصادم نہ ہو اسے صرف اپنی ذات کے اعتبار سے قبول و رد کرے ، اسکا اطلاق کسی دوسرے پر نہ کرے اور اگر یہ تجربہ قران و سنت سے کسی بھی درجے میں ٹکراتا نظر آئے تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دے. الله سے مستقل توفیق مانگتا رہے اور یہ جانے کہ شیطان کا سب سے مہلک وار احساس پارسائی ہے..
١. پہلا وار یہ کہ اسکی جانب سے گناہ اور شہوات نفسانی کی تبلیغ و دعوت کئی گنا زیادہ کر دی جاتی ہے تاکہ کسی طرح سے سالک کو واپس دھکیلا جاسکے.
.
٢. دوسرا کاری وار یہ کہ وہ سالک کو خود پسندی میں مبتلا کردے یعنی یہ کہ تم کتنے نیک ہو، کتنے الله والے ہو گئے ہو، تم تو روحانیت رکھتے ہو وغیرہ.
.
اگر سالک اس دوسرے وار میں آجائے تو آھستہ آھستہ اس کا اعتبار اپنے ان نفسی تجربات پر اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ قران و شریعت کو ان تجربات کی عینک سے دیکھنے لگتا ہے. یہ بیماری بڑھتی چلی جائے تو انسان نبوت یا مہدیت کا دعویٰ کرنے سے بھی نہیں چوکتا. شیطان غیرمحسوس انداز میں اپنے شیطانی اعمال کو روحانیت کے دھوکے میں اس شخص پر مسلط کرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ نہ صرف وہ شخص خود برباد ہوتا ہے بلکہ اپنے اردگرد معتقدین کا جھمگھٹ لگا کر انہیں بھی تباہ کردیتا ہے. اس سے بچنے کا واحد علاج یہ ہے کہ سالک سختی سے قران حکیم کو حق و باطل میں فرق کرنے والی کسوٹی بنائے رکھے. جو خواب، کشف، الہام وغیرہ قران و سنت سے متصادم نہ ہو اسے صرف اپنی ذات کے اعتبار سے قبول و رد کرے ، اسکا اطلاق کسی دوسرے پر نہ کرے اور اگر یہ تجربہ قران و سنت سے کسی بھی درجے میں ٹکراتا نظر آئے تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دے. الله سے مستقل توفیق مانگتا رہے اور یہ جانے کہ شیطان کا سب سے مہلک وار احساس پارسائی ہے..
.
ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment