Sunday, 29 September 2019
روایتی بیانیہ یا پھر جدید جوابی بیانیہ
اسلام کا روایتی بیانیہ یا پھر جدید جوابی بیانیہ ؟ کون سی فکر اسلام کی درست ترجمان ہے؟
====================================================
.
اگر اس جوابی بیانیہ سے آپ کی مراد وہ فکری تحریک ہے جو آج رائج و مقبول روایتی اسلامی فکر کے مقابل ہر دوسرے مذہبی موضوع کو للکار رہی ہے، اسے نئی تشریح فراہم کررہی ہے تو پھر یہ کوئی آسان سوال نہیں ہے. اس کا جواب کسی ایک کے مکمل اثبات و انکار میں دینا علمی دیانت کے خلاف ہوگا. میں حد سے حد آپ کو وہ زاویہ نظر دے سکتا جس سے میں خود اس موجودہ فکری کشمکش کو دیکھ پاتا ہوں. مگر اس سے پیشتر آپ کو ایک سادہ علمی نظریہ سمجھنا ہوگا.
.
مشہور جرمن فلسفی ہیگل کے فلسفہ سے ماخوز ایک نظریہ صاحبان دانش میں ہمیشہ معروف رہا ہے. اس نظریئے کے کی رو سے انسانی فکر کا سفر تھیسس (thesis) ، اینٹی تھیسس (antithesis) اور سینتھسس (synthesis) کے ذریعے اپنے شعوری مدارج طے کرتا آیا ہے. میں اسی فکر کو آج اپنے زاویہ نظر میں ڈھال کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں. آسان الفاظ میں کسی موضوع پر سب سے پہلے ایک تھیسس پیش کیا جاتا ہے، جس میں اس موضوع کا بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہوتا ہے. اس بیانیہ (thesis) کو عقل عام و خاص قبول کرلیتے ہیں مگر جب ایک لمبا وقت اسے پیش کئے گزر جاتا ہے تو کچھ نئے وقتی تقاضے پیدا ہونے لگتے ہیں، کچھ اس فکر کی خامیاں نمایاں ہوتی ہیں، کچھ نئی تحقیقات سامنے آتی ہیں، کچھ نئے زاوئیے جنم لیتے ہیں. اب اس مقام پر ہونا تو یہ چاہیئے کہ ان تازہ دریافتوں کا خیر مقدم کیا جائے مگر انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اکثر ایسا نہیں ہوتا. بلکہ اس روایتی بیانیہ سے افراد گہرے تقدس میں مبتلا ہوجاتے ہیں. وہ نہ صرف کسی نئی تحقیق کو قبول کرنے میں شدید تردد ظاہر کرتے ہیں بلکہ وہ سارا زور کسی ناقدانہ جدید سوچ کو کچلنے میں لگادیتے ہیں. اجتہاد کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور عقائد عقیدے کا لباس پہن لیتے ہیں. اس غیرفطری روک سے انسانوں میں ایک فکری بغاوت جنم لیتی ہے جو رستہ نہ پا کر اندر ہی اندر گھٹتی رہتی ہے مگر دم نہیں توڑتی بلکہ ہر گزرتا وقت اسے ایک خاموش طوفان بناتا رہتا ہے. بلاخر ایک وقت آتا ہے جب یہ بغاوت اس تھیسس (thesis) یعنی بیانیہ کے رد کی صورت میں برآمد ہوتی ہے. اسی رد کو اینٹی تھیسس (antithesis) کہا جاتا ہے. یہاں تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ چونکہ اس رد بیانیہ یعنی اینٹی تھیسس (antithesis) کو ایک زمانے تک زبردستی دبایا گیا ہوتا ہے لہٰذا اب اس کا ابھرنا ردعمل کی نفسیات کو ساتھ لئے ہوئے ہوتا ہے. جہاں روایتی بیانیہ یعنی تھیسس (thesis) فکری جمود اور عقیدت کی چادر اوڑھ لینے کے بعد ایک انتہا کی صورت اختیار کر چکا ہوتا ہے ، وہاں یہ جوابی بیانیہ یعنی اینٹی تھیسس (antithesis) اپنے آپ میں ایک دوسری انتہا لئے ہوئے آتا ہے اور اس کے داعی بھی اکثر نئے نتائج کی لاشعوری تقلید اپنالیتے ہیں.
.
اب اس تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) یا بیانیہ اور جوابی بیانیہ کی فکری کشتی ہوتی ہے جو ایک لمبا عرصہ جاری رہتی ہے. اس گھمسان کی لڑائی میں بہت ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے جو نہ صرف فریقین کیلئے اذیت کا سبب بنتی ہے بلکہ دیکھنے والوں پر بھی تھرتھراہٹ طاری رکھتی ہے. یہ خاموش ناظرین بیچارے بہت ہی قابل رحم ہوتے ہیں. ہوا کے جھونکوں کی طرح کبھی یہ ایک جانب قلابازی کھاتے ہیں تو کبھی کسی دوسرے کے زور بیان سے اس کی طرف لڑھکتے جاتے ہیں. آغاز میں اینٹی تھیسس (antithesis) کو بظاہر زیادہ کامیابی ہوتی نظر آتی ہے. جس کی بہت سی وجوہات ہیں. جیسے کچھ خاموش اقلیت روایتی بیانیہ (thesis) سے پہلے ہی ناراض بیٹھی ہوتی ہے. اس لئے وہ نئی فکر کا دل و جان سے خیر مقدم کرتی ہے. اسی طرح روایتی بیانیہ (thesis) کی خامیاں یا کچھ ناکامیاں .. جوابی بیانیہ (antithesis) پیش کرنے والے کے سامنے موجود ہوتی ہیں. جس کا وہ کھل کر فائدہ اٹھاتے ہیں. جب کے اسکے برعکس جوابی بیانیہ (antithesis) کی اپنی خامیاں اور ناکامیاں ابھی وقت کے امتحان سے نہ گزرنے کے سبب سامنے نہیں آئی ہوتیں. لہٰذا فطری طور پر آغاز میں اینٹی تھیسس (antithesis) یا جوابی بیانیہ ایک انقلابی سوچ کے طور پر نمودار ہوتا ہے. مگر جب اس علمی تصادم میں کچھ وقت گزر جاتا ہے تو اب بیانیہ (thesis) کے ساتھ ساتھ جوابی بیانیہ (antithesis) کی خامیاں بھی کھل کے سامنے آنے لگتی ہیں. پہلی بار یہ حاملین کو سمجھ آتا ہے کہ پیش کردہ تنقید یا فکر کے کئی حصے جزوی یا کلی طور پر غلط ہیں. یہی وہ مقام ہے جہاں کچھ اہل علم دونوں آراء میں تطبیق پیدا کرتے ہیں اور دونوں جانب کی مظبوط تر باتوں کو لے کر ایک مشترکہ بیانیہ پیش کردیتے ہیں. اسی مشترکہ بیانیہ کو سینتھیسس (synthesis) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. اب یہ سینتھیسس (synthesis) جو تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) دونوں کا نچوڑ اور علمی اعتبار سے افضل ہوتا ہے .. وقت گزرنے کے بعد پھر سے ایک نیا تھیس (thesis) بن جاتا ہے. پھر کوئی اینٹی تھیسس (antithesis) پیش کرتا ہے. پھر جنگ ہوتی ہے. پھر سینتھیسس (synthesis) نکالا جاتا ہے اور یوں انسانی فکر کا ارتقاء جاری رہتا ہے.
.
عزیزان من ، اس ساری تمہید و تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ آپ بالغ نظر ہوکر اسلام کی مذہبی فکری تشکیل نو کو نگاہ بصیرت سے دیکھ سکیں. علامہ اقبال رح نے اسی لئے اپنے خطبات پر مشتمل واحد کتاب کا نام 'اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو' رکھا تھا. آج ہم جس دور میں زندہ ہیں، وہاں یہ فکری تصادم اپنی جولانیوں پر نظر آرہا ہے. جو اپنے آپ میں ایک عامی کیلئے نہایت تکلیف دہ عمل ہے. مگر اس صورت سے مایوس ہرگز نہ ہوں. جان لیں کہ آپ دو انتہاؤں میں سفر کر رہے ہیں ، آپ تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) کے تصادم میں زندہ ہیں مگر ابھی سینتھیسس (synthesis) پیش ہونا ہے جو انشاللہ سراسر خیر کا پیش خیمہ ہوگا. جان لیں کہ آپ کا رب .. فرعون کے گھر میں آسیہ اور موسیٰ کو پروان چڑھاتا ہے. وہی ہے جو مردہ سے زندہ کو پیدا کرتا ہے اور شر سے بھی خیر کو برآمد کردیتا ہے. عقلمند وہ ہے جو دونوں فکری گروہوں کا غیر جانبداری سے جائزہ لیتا رہے. جو نہ روایتی فکر کو جہالت سمجھے اور نہ جدید فکر کو گالی دے. وقت کی کسوٹی جلد یا بدیر کھرے کو کھوٹے سے جدا کردے گی. روایتی بیانیہ سے منسلک دوستوں کو سمجھنا چاہیئے کہ اگر جدید تشریحات فاسد ہیں تو جلد ہی انکار حدیث یا معتزلہ جیسے فلسفوں کی طرح دم توڑ دیں گی. آپ بس ان کے موقف کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیں اور اگر غلط پائیں تو دلیل سے ان کی غلطی ثابت کرتے رہیئے. دوسری طرف جوابی بیانیہ سے منسلک احباب کو سمجھنا چاہیئے کہ جہاں آپ کو دلیل سے تنقید کی اجازت ہے ، وہاں مختلف موضوعات پر مسلمانوں کی پوری علمی روایت کیلئے تحقیر کا لب و لہجہ اپنانا صریح ظلم ہے. ایک دوسرے کو عزت دینے کی اداکاری نہ کیجیئے بلکہ فی الواقع عزت دیجیئے. مقابل نقطہ نظر کیلئے دل میں حقیقی محبت پیدا کیجیئے کہ دونوں گروہوں کی نیت مبنی بااخلاص ہے. اگر سامنے والے کی سمجھ میں غلطی ہوسکتی ہے تو پیغمبر آپ بھی نہیں ہیں. سمجھ کی غلطی آپ کو بھی ہوسکتی ہے. چنانچہ مدمقابل کی دلیل کو وسعت قلبی سے سنیں اور پھر شائستگی سے رد یا قبول کرلیں.
.
(نوٹ: پوسٹ میں درج بیانیہ اور جوابی بیانیہ کی اصطلاحات کا استعمال صرف خلافت و جہاد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے مراد قدیم و جدید تشریحات کا تصادم ہے)
.
====عظیم نامہ====
ناس پیٹی فیس بک
کوئی
کھیرا شریف کے چھلکوں سے تقدس سیکھا رہے ہیں تو کوئی اسٹرابیری کو زرقوم
کہہ کر ممنوع بتا رہے ہیں. کوئی ایک سے زائد شادی کرنے کو فرض کررہے ہیں تو
کوئی خوبصورت لڑکیوں سے بات کو مستحب بنارہے ہیں. کوئی مریدوں کو روحانیت
کے کرنٹ لگارہے ہیں تو کوئی متعدد حوروں سے تعلق کا نقشہ سمجھا رہے ہیں.
.
ہائے رے ناس پیٹی فیس بک تو نے گھر بیٹھے ہمیں کیا کیا دیکھا دیا !
.
ہائے رے ناس پیٹی فیس بک تو نے گھر بیٹھے ہمیں کیا کیا دیکھا دیا !
america
http://daleel.pk/2016/12/31/22965?fbclid=IwAR2OO6AzgL1EsPr0pxKC1zfOd6VFUbdW0zVGQNWfDmutkI_hG9AcHP_Tzh4
مولانا طارق جمیل
مولانا
طارق جمیل - 'تبلیغی جماعت' کا یقینی طور پر سب سے زیادہ مقبول نام ہے.
آپ بلا شبہ عالم اسلام کی ایک عظیم المرتبت شخصیت ہیں. جن کا پراثر طریقہ
تعلیم خواص وعوام دونوں کو دین سے جوڑتا آیا ہے. آپ دور حاضر میں وحدت امت
کے بہت بڑے داعی ہیں اور تفرقہ ختم کردینے کیلئے شب و روز کوشاں ہیں. دیگر
بہت سے احباب کی طرح میں بھی مولانا سے کئی فکری اختلافات رکھتا ہوں مگر
ساتھ ہی میں آپ کی وسعت قلبی، جذبہ ایمانی
اور پر سوز واعظانہ قابلیت کا تہہ دل سے مداح رہا ہوں. میں ہمیشہ ان کے
لئے دل میں بے پناہ محبت اور عزت محسوس کرتا ہوں. شائد اسلئے کہ میں ان میں
دوسروں کی طرح محقق یا مجدد تلاش نہیں کرتا بلکہ ایک واعظ اور داعی کو
دیکھتا ہوں. میں ان میں ایک ایسا عظیم مبلغ پاتا ہوں جو شیخ عبدلقادر
جیلانی رح کی طرح آپ کے روحانی وجود کو سادہ باتوں کے زریعے جھنجھوڑ دینے
کی صلاحیت رکھتا ہے. ان کے خطبات، میں علمی وسعت کیلئے نہیں سنتا بلکہ
اسلئے سنتا ہوں کہ مجھے اپنی موت یاد آجائے اور میری آنکھیں ندامت سے بھیگ
سکیں. یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی سننے والا مولانا کو بناء تعصب کو سنے اور
اسے فکر آخرت محسوس نہ ہو. میرا احساس یہ ہے کہ اللہ پاک نے مولانا کی دین
میں محنت کے سبب ان کی زبان میں عجب سا اثر پیدا کردیا ہے. وہی جملہ اور
وہی الفاظ جو کوئی اور ادا کرے تو عام سے محسوس ہوں وہی جب مولانا کی زبان
سے ادا ہوتے ہیں تو مخاطب کے قلب میں جا اترتے ہیں. کچھ عرصہ قبل مولانا
طارق جمیل انگلینڈ تشریف لائے تو حسن اتفاق سے آپ سے ملاقات ہوئی. آپ کے
ساتھ بیٹھے، نماز پڑھی اور خطاب سنا. مولانا کو اس سے پہلے بھی کئی بار
سامنے سن چکا تھا مگر آپ سے باقاعدہ ملاقات پہلی بار تھی. آپ کا ایک ایک
انگ دین کی محنت سے سجا محسوس ہوا. اس عمر میں اتنا سفر اور مشقت اٹھانا
صرف دین کی تبلیغ و ترویج کیلئے آپ ہی کا خاصہ ہے.
.
آپ کی فکر پر بہت سے اعتراض کئے جاتے ہیں جن میں سے کچھ احقر کی سمجھ میں حقیقت اور اکثر مذھبی منافرت پر مبنی ہیں. پہلا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ آپ کی دعوت کا محور صرف مشہور اشخاص ہیں. یہ ایک بے بنیاد بات ہے. اتنا ضرور ہے کہ عمران خان سے لے کر عامر خان تک اور فلمی اداکاروں، گلوکاروں سے لے کر کرکٹ ٹیم تک آپ کے ذریعے دین کا پیغام پاتے رہے ہیں مگر اسے بنیاد بناکر یہ کہنا کہ آپ عام لوگوں کو دین نہیں پہنچاتے بلکل غلط الزام ہے. اسی طرح ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہا کہ آپ فلاں عالم یا فلاں دہشت گرد گروہ یا فلاں سیاسی رہنما کا نام لے کر تنقید کیوں نہیں کرتے؟ یہ کہنے والے ایک لمحہ یہ نہیں سوچتے کہ تبلیغی جماعت بحیثیت مجموعی کبھی بھی نام لے لے کر کسی کو ملامت نہیں کرتے بلکہ ہر کسی کو محبت سے دین کی جانب بلاتے ہیں. مختلف مذہبی گروہ اپنی اپنی دینی فکر کو سب سے اہم سمجھ کر مولانا سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان کے حق میں بات کریں اور جب وہ ایسا نہیں کرتے تو تو آپ پر الزامات لگاتے ہیں جیسے جہادی گروہ چاہتے ہیں کہ وہ جہاد کریں، تجدید امت کے دعویدار چاہتے ہیں کہ وہ جہادی گروہوں کا نام لے لے کر ان کی مذمت کریں، خلافت کے گروہ چاہتے ہیں کہ وہ اقامت دین کی ذمہ داری ادا کریں اور تحقیقی مزاج کے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو قران ریسرچ اکیڈمی بنادیں. ان میں سے کوئی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ہر جماعت کا اپنا منہج ہے اور وہ اپنے لحاظ سے دین کا کام کر رہے ہیں. جس طرح ان پر تبلیغی جماعت اپنا منشور نہیں تھوپتی، اسی طرح انہیں بھی یہ حق نہیں کہ مولانا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کریں. اسی طرح سہہ روزہ یا چلہ وغیرہ کو بدعات قرار دیا جاتا ہے حالانکہ مولانا یا تبلیغی جماعت نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ دین کے لوازم ہیں بلکہ اسے ہمیشہ ایک تربیتی مشق کے طور پر پیش کیا. آپ پر جن اعتراضات سے میں متفق ہوں وہ تین ہیں. پہلا آپ کا دوران خطاب بعض اوقات ضعیف و موضوع احادیث کو پیش کردینا ہے. آپ کا ایسا کرنا احناف میں موجود اس رائے کے تحت ہے جس میں اگر قران اور صحیح حدیث کے نصوص سے اصول ثابت ہو تو فضائل کے ضمن میں ضعیف احادیث و واقعات بھی پیش کئے جاسکتے ہیں. میں خود کو اس سے بلکل متفق نہیں پاتا کہ اس سے بہت سے معاملات میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے. دوسرا اعتراض یہ کہ قران مجید کو تبلیغ اور تربیت دونوں کا محور ہونا چاہیئے. جو راقم کی رائے میں نہیں ہے یا اس درجہ میں نہیں ہے جس میں ہونا چاہیئے. تیسرا اور آخری اعتراض یہ کہ مولانا بعض اوقات منظر نگاری میں بہت دور نکل جاتے ہیں جیسے جنت، جہنم، حور وغیرہ جو ممکن ہے سادہ طبیعتوں کو تو مائل کرتا ہو مگر بہت سے پڑھے لکھے اذہان کو متنفر کردیتا ہے. بہرحال میرے یہ اعتراضات اگر صحیح بھی مان لئے جائیں تب بھی بیشمار خیر کے پہلوؤں سے استفادہ نہ کرنا بہت بڑی محرومی ہوگی. میں دین پر تحقیق کیلئے انہیں نہیں سنتا بلکہ مجھے جب خود کو فکر آخرت کی جانب مائل کرنا ہو تو مولانا بلاشبہ میری پہلی ترجیح ہوتے ہیں. آپ سب پہلے ہی مولانا کو سنتے ہونگے مگر اگر کسی مسلکی منافرت کی وجہ سے نہیں سنتے تو ضرور سنیں بلکہ ان کے خطبات پر مشتمل کتب بھی لے آئیں.
.
آپ کی فکر پر بہت سے اعتراض کئے جاتے ہیں جن میں سے کچھ احقر کی سمجھ میں حقیقت اور اکثر مذھبی منافرت پر مبنی ہیں. پہلا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ آپ کی دعوت کا محور صرف مشہور اشخاص ہیں. یہ ایک بے بنیاد بات ہے. اتنا ضرور ہے کہ عمران خان سے لے کر عامر خان تک اور فلمی اداکاروں، گلوکاروں سے لے کر کرکٹ ٹیم تک آپ کے ذریعے دین کا پیغام پاتے رہے ہیں مگر اسے بنیاد بناکر یہ کہنا کہ آپ عام لوگوں کو دین نہیں پہنچاتے بلکل غلط الزام ہے. اسی طرح ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہا کہ آپ فلاں عالم یا فلاں دہشت گرد گروہ یا فلاں سیاسی رہنما کا نام لے کر تنقید کیوں نہیں کرتے؟ یہ کہنے والے ایک لمحہ یہ نہیں سوچتے کہ تبلیغی جماعت بحیثیت مجموعی کبھی بھی نام لے لے کر کسی کو ملامت نہیں کرتے بلکہ ہر کسی کو محبت سے دین کی جانب بلاتے ہیں. مختلف مذہبی گروہ اپنی اپنی دینی فکر کو سب سے اہم سمجھ کر مولانا سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان کے حق میں بات کریں اور جب وہ ایسا نہیں کرتے تو تو آپ پر الزامات لگاتے ہیں جیسے جہادی گروہ چاہتے ہیں کہ وہ جہاد کریں، تجدید امت کے دعویدار چاہتے ہیں کہ وہ جہادی گروہوں کا نام لے لے کر ان کی مذمت کریں، خلافت کے گروہ چاہتے ہیں کہ وہ اقامت دین کی ذمہ داری ادا کریں اور تحقیقی مزاج کے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو قران ریسرچ اکیڈمی بنادیں. ان میں سے کوئی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ہر جماعت کا اپنا منہج ہے اور وہ اپنے لحاظ سے دین کا کام کر رہے ہیں. جس طرح ان پر تبلیغی جماعت اپنا منشور نہیں تھوپتی، اسی طرح انہیں بھی یہ حق نہیں کہ مولانا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کریں. اسی طرح سہہ روزہ یا چلہ وغیرہ کو بدعات قرار دیا جاتا ہے حالانکہ مولانا یا تبلیغی جماعت نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ دین کے لوازم ہیں بلکہ اسے ہمیشہ ایک تربیتی مشق کے طور پر پیش کیا. آپ پر جن اعتراضات سے میں متفق ہوں وہ تین ہیں. پہلا آپ کا دوران خطاب بعض اوقات ضعیف و موضوع احادیث کو پیش کردینا ہے. آپ کا ایسا کرنا احناف میں موجود اس رائے کے تحت ہے جس میں اگر قران اور صحیح حدیث کے نصوص سے اصول ثابت ہو تو فضائل کے ضمن میں ضعیف احادیث و واقعات بھی پیش کئے جاسکتے ہیں. میں خود کو اس سے بلکل متفق نہیں پاتا کہ اس سے بہت سے معاملات میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے. دوسرا اعتراض یہ کہ قران مجید کو تبلیغ اور تربیت دونوں کا محور ہونا چاہیئے. جو راقم کی رائے میں نہیں ہے یا اس درجہ میں نہیں ہے جس میں ہونا چاہیئے. تیسرا اور آخری اعتراض یہ کہ مولانا بعض اوقات منظر نگاری میں بہت دور نکل جاتے ہیں جیسے جنت، جہنم، حور وغیرہ جو ممکن ہے سادہ طبیعتوں کو تو مائل کرتا ہو مگر بہت سے پڑھے لکھے اذہان کو متنفر کردیتا ہے. بہرحال میرے یہ اعتراضات اگر صحیح بھی مان لئے جائیں تب بھی بیشمار خیر کے پہلوؤں سے استفادہ نہ کرنا بہت بڑی محرومی ہوگی. میں دین پر تحقیق کیلئے انہیں نہیں سنتا بلکہ مجھے جب خود کو فکر آخرت کی جانب مائل کرنا ہو تو مولانا بلاشبہ میری پہلی ترجیح ہوتے ہیں. آپ سب پہلے ہی مولانا کو سنتے ہونگے مگر اگر کسی مسلکی منافرت کی وجہ سے نہیں سنتے تو ضرور سنیں بلکہ ان کے خطبات پر مشتمل کتب بھی لے آئیں.
مجذوب فقیر
حکایت ہے کہ کسی شخص نے ایک اللہ والے مجذوب فقیر کی شہرت سنی تو منت سماجت
کرکے اسے اپنے گھر لے آیا۔ اس کے گھر والو نے فقیر کی دل کھول کر خدمت کی،
بہترین پکوان کھلائے، مہنگے کپڑے دیئے، اس کے پیر دبائے اور بیش قیمتی
تحائف پیش کیئے۔ آخر میں اس شخص نے فقیر سے التجا کی کہ وہ اسکے گھر اور
خاندان کیلئے دعا کرے۔ چنانچہ فقیر نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور کچھ یوں
کہا "اللہ کرے کہ پہلے تیرا باپ مرے، پھر تو مرے، پھر تیری اولاد مرے
آمین"۔ یہ الفاظ سنتے ہی اس شخص کی ساری عقیدت یکلخت ختم ہوگئی
اور اس نے غم و غصہ سے فقیر کو گریبان سے جکڑ کر کہا کہ کمبخت تو کیسا
انسان ہے؟ میں نے تیری اتنی خدمت کی، میری اولاد نے تیرے پیر دبائے اور
میرے والد نے تجھے سرآنکھوں پر رکھا۔ مگر تو نے ہمیں اتنی گھٹیا دعا دی؟
۔
فقیر نے محبت سے خود کو چھڑوایا اور کہا کہ اس میں کچھ بھی گھٹیا نہیں بلکہ یہ انتہائی رحمت والی دعا ہے۔ موت تو برحق ہے، جسے کوئی ٹال نہیں سکتا مگر خیر اسی میں ہے کہ رب موت کو فطری ترتیب میں دے۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے ضعیف باپ اور معصوم بچوں کو بے سہارا چھوڑ کر پہلے تم خود مرجائو؟ یا پھر تم یہ چاہتے ہو کہ تم سے پہلے تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہاری نوجوان اولاد مر جائے؟ میں نے تو رب سے یہی دعا و درخواست کی ہے کہ تم اس اضافی کرب و اذیت سے بچ سکو اور تمہارے گھر میں موت ترتیب سے آئے یعنی "اللہ کرے کہ پہلے تیرا باپ مرے، پھر تو مرے، پھر تیری اولاد مرے آمین"
۔
====عظیم نامہ====
۔
فقیر نے محبت سے خود کو چھڑوایا اور کہا کہ اس میں کچھ بھی گھٹیا نہیں بلکہ یہ انتہائی رحمت والی دعا ہے۔ موت تو برحق ہے، جسے کوئی ٹال نہیں سکتا مگر خیر اسی میں ہے کہ رب موت کو فطری ترتیب میں دے۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے ضعیف باپ اور معصوم بچوں کو بے سہارا چھوڑ کر پہلے تم خود مرجائو؟ یا پھر تم یہ چاہتے ہو کہ تم سے پہلے تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہاری نوجوان اولاد مر جائے؟ میں نے تو رب سے یہی دعا و درخواست کی ہے کہ تم اس اضافی کرب و اذیت سے بچ سکو اور تمہارے گھر میں موت ترتیب سے آئے یعنی "اللہ کرے کہ پہلے تیرا باپ مرے، پھر تو مرے، پھر تیری اولاد مرے آمین"
۔
====عظیم نامہ====
استنبول - میری نظر سے (قسط اول)
استنبول - میری نظر سے (قسط اول)
=====================
.
میں کچھ عرصہ قبل ترکی جاچکا ہوں اور انطالیہ، الانیہ، ائیوسلار، انسیکم، پاموکالے جیسے علاقے گھوم چکا ہوں. میرا یہ فیملی ہولیڈے توقع سے زیادہ بہترین گزرا تھا مگر ایک کمی پھر بھی رہ گئی تھی اور وہ یہ کہ میں نے اس خوبصورت ملک کا وہ شہر اب بھی نہیں دیکھا تھا جو اسکی شان ہے یعنی استنبول. ترکی کی سرزمین اور عوام دونوں نے ہی میرا دل جیت رکھا تھا. پچھلے سال ہی جب پاکستان جانے کا ارادہ کیا تو خیال آیا کہ کیوں نا ترکی کا ٹرانزٹ ویزہ لے کر تین روز استنبول قیام کرتے ہوئے کراچی جاؤں؟ ٹکٹ دیکھا تو قیمت کا معمولی سا فرق تھا. فوری ارادہ کرلیا اور اپنے قریبی دوست سے جو لندن میں مقیم ہے، اس کا ذکر کیا. پلان سن کر اس نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش کردی. نہ صرف وہ بلکہ ہمارا ایک اور مشترکہ انگریز دوست بھی پلان سن کر چلنے کیلئے راضی ہوگیا. چنانچہ استنبول کے ایک سلطانی طرز کے چھوٹے سے خوبصورت ہوٹل میں دو کمرے نہایت مناسب قیمت میں بک کروالیے گئے اور مقررہ دن پر ہم استنبول جاپہنچے. کیا ہی حسین اور منفرد شہر ہے استنبول ! ہزار سالہ اسلامی تاریخ جاننی ہو، خلافت عثمانیہ کا جاہ و جلال محسوس کرنا ہو یا پھر شاہی طرز تعمیر دیکھنا ہو. استنبول اپنی مثال آپ ہے. اسے مساجد کا شہر کہا جاتا ہے. جس طرف نظر کرو وہاں ایک سے ایک حسین مسجد قائم نظر آتی ہیں. سیاحوں کے اژدہام کے باوجود صفائی اور نظم و ضبط اپنے عروج پر دیکھائی دیتا ہے. مسکراتے ہوئے، مدد کیلئے تیار اور صفائی پسند ترک عوام سیاح کے تجربے کو مزید مثبت بنادیتے ہیں. ہوٹل، ریسٹورنٹ، سڑکیں، پارک .. جہاں بھی جاؤ ہر طرف خوبصورت بلیاں آزادانہ گھوم رہی ہیں. یوں لگتا ہے کہ مقامی باشندوں کو ان سے خاص انس ہے. کتوں کی بھی ایک اچھی تعداد آزادانہ گھوم رہی ہے، جن کے ساتھ گورنمنٹ نے ٹریکر لگا رکھے ہیں. یہ کتے دیکھنے میں ہرگز بھی آوارہ کتے نہیں لگتے بلکہ مہنگی نسل کے محسوس ہوتے ہیں. نہ جانوروں کو مقامی انسانوں سے کوئی خوف ہے اور نہ ہی رہائشیوں کو ان جانوروں سے کوئی خطرہ. مسلم ملک ہونے کی بناء پر تمام کھانے حلال ہیں. مقامی ڈشوں میں ہمیں سب سے زیادہ پسند ان کا ایک روایتی میٹھا آیا جس کا نام "کنافے" ہے اور جسے چیز یعنی پنیر کے ساتھ بنایا جاتا ہے. اسی طرح ان کی مٹھیاں جو ٹرکش ڈیلائیٹ کہلاتی ہیں مزیدار ہیں. خریداری کے حوالے سے اگر صحیح سودا کیا جائے تو قیمتیں مناسب ہیں. ترکی کے نقش و نگاری سے مزین برتن اور نہایت خوبصورت قمقمے خریداروں کے پیر جکڑ لیتے ہیں. دکانداروں کے ایجنٹ ہر مصروف چوک پر خریداروں کی تاک میں رہتے ہیں. ایک قالین فروش نے تو ہمارے دوست کی چڑ بنالی. ہم جہاں جاتے وہ مل جاتا اور لپک کر اسکے پاس جاپہنچتا. آتے جاتے ہر جگہ لوگ قہوے یا سیب کی چائے سے تواضع کرتے. مجھے سبز سیب کی چائے بہت پسند آئی جو میں پینے کا موقع نہیں چھوڑتا.
.
ممتاز سیاحی مقامات قریب قریب واقع ہیں. سب سے پہلے ہم نے 'ہیگیہ صوفیہ' کو دیکھا. یہ عظیم الشان عمارت اپنے آپ میں صدیوں کی تاریخ سموئے ہوئے ہے. یونانی کاریگروں کے ہاتھوں تیار کردہ یہ تعمیر دراصل اپنی ابتداء میں ایک چرچ تھا اور کہا مشہور ہے کہ اس نے فن تعمیر کی انسانی تاریخ کو بدل ڈالا. زمانے کے بہت سے سرد و گرم دیکھنے کے بعد خلافت عثمانیہ نے اسے مسجد میں تبدیل کردیا. محراب، منبر اور مینار اس میں شامل کردیئے گئے مگر ١٩٣٥ میں اسے عوام کیلئے ایک میوزیم کی طرح کھول دیا گیا. اس کے وسیع ہال میں کھڑے ہوکر انسان مبہوت رہ جاتا ہے کہ ایک جانب تو اللہ عزوجل، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے اسم مبارک آویزاں ہیں اور ساتھ ہی مریم علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور ملائک کی تصاویر بھی چھت پر نقش ہیں. یہاں سے نکل کر ہم دوسرے مقبول ترین سیاحی مقام 'بلیو موسق' یانی نیلی مسجد میں داخل ہوئے. اس مسجد کا حقیقی مگر غیرمقبول نام سلطان احمد مسجد ہے اور اسے عثمانی خلافت کے جاہ و جلال کے ساتھ سلطاں احمد نے 'ہیگیہ صوفیہ' کے بلکل سامنے تعمیر کیا تھا. یہ ایک خوبصورت اور فن تعمیر کی شاہکار مسجد ہے. اس کا ایک حصہ تمام سیاحوں کیلئے کھلا ہے مگر قانون ہے کہ مسجد کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے جسم اور سر ڈھانک کر اندر داخل ہوں. اسی مسجد کا دوسرا حصہ نمازیوں کیلئے خاص ہے. ہم تینوں دوستوں نے وہاں نماز ادا کی. اپنے غیر مسلم دوست کو وضو اور نماز کا طریق سیکھایا.
.
دوسرے روز ہم نے تاریخی مقامات میں خلافت عثمانیہ کا شاید سب سے بڑا مظہر 'ٹوپ کاپی پیلس (محل)' دیکھا. یہ ایک عالیشان محل ہے جو عثمانی سلطانوں یا خلفاء کی چار سو سال تک رہائش گاہ رہی ہے. یہ چار بڑے آنگنوں اور بہت سی چھوٹی چھوٹی عمارتوں پر مشتمل ہے. باغ، فوارے، سپاہیوں کی رہائش گاہیں، خاندان سلطان کا گھر، حرم، خدمت گزاروں کنیزوں کے ٹھکانے، مشاورت کی زبردست جگہیں، عدالتیں اور بیت المال. اس محل میں اتنا کچھ ہے کہ اسکی تفصیل پر کتاب لکھی جاسکتی ہے اور لکھی جاچکی ہیں. 'ٹوپ کاپی پیلس (محل)' کا ایک حصہ میوزیم بنادیا گیا ہے جہاں وہ وہ اسلامی تاریخی نوادرات موجود ہیں جو دنیا میں کہیں اور نہیں. اہل بیت سے لے کر صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین تک کی بیشمار استعمال شدہ چیزیں یہاں موجود ہیں. پھر وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا کرتا مبارک ہو، تیرہ سو سالہ پرانا قران حکیم ہو، غلاف کعبہ ہو یا پھر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواریں. تاریخ کا ایک خزانہ آپ کا منتظر ہے. تلواروں کا سائز دیکھ کر بے اختیار مجھے ان اصحاب کی جسمانی قد و قامت کا اندازہ ہونے لگا. حضرت جعفر بن طیار ، حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اجمعین کی تلواریں مجھے بقیہ تلواروں سے دیکھنے میں زیادہ بھاری محسوس ہوئیں. ایک حیرت انگیز مشاہدہ یہ بھی ہوا کہ کچھ برتنوں اور تلواروں پر جو صحابہ کے زیر استمال تھے یا صحابہ کے دور سے بہت قریب تھے، تصاویر بنی ہوئی تھیں. ان تصاویر میں زیادہ تر شبیہہ شیر، عقاب یا ڈریگن کی تھی. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہید دندان مبارک، موئے مبارک اور نقش قدم بھی یہاں موجود ہے. ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر نشانیاں جیسے آپ کا خط یا انگوٹھی مبارک بھی موجود ہے. قدیم قرانی نسخہ ہو یا دیگر تحاریر مجھے اعراب نظر نہیں آئے. اسی میوزیم کا ایک اور حصہ دیگر انبیاء کی نوادرات سے آراستہ ہے. جیسے حضرت یوسف الیہ السلام کی پگڑی یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا !! ان کا یہاں موجود ہونا میرے لئے نہایت حیرت کا سبب تھا اور میرے ذہن میں شکوک پیدا ہونے لگے. میں نے ایک ایک کر کے کئی لوگوں سے وہاں اسکے بارے میں دریافت کیا کہ اگر انبیاء کے یہ ہزاروں سال پرانے نوادرات سچے ہیں تو انہیں کہاں سے ملے؟ اور اسکا کیا ثبوت ہے؟ ثبوت تو ظاہر ہے مجھے کوئی نہ مل سکا مگر ایک صاحب علم سے یہ معلوم ہوا کہ خلافت عثمانیہ جب آدھی دنیا پر راج کررہی تھی تب ان نوادرات کو مصر اور حجاز سے یہاں لے آیا گیا. گویا یہ نوادرات مختلف حصوں میں نسل در نسل منتقل ہوئی تھیں اور ان سب کو سلطنت عثمانیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا اور آج اسے ہم اس محل میں دیکھ پارہے ہیں. بات میں کتنا سچ ہے؟ یہ تو اللہ ہی جانے مگر بہرحال ان کے صحیح یا غلط دونوں ہونے کا امکان موجود ہے.
.
====عظیم نامہ====
(جاری ہے)
=====================
.
میں کچھ عرصہ قبل ترکی جاچکا ہوں اور انطالیہ، الانیہ، ائیوسلار، انسیکم، پاموکالے جیسے علاقے گھوم چکا ہوں. میرا یہ فیملی ہولیڈے توقع سے زیادہ بہترین گزرا تھا مگر ایک کمی پھر بھی رہ گئی تھی اور وہ یہ کہ میں نے اس خوبصورت ملک کا وہ شہر اب بھی نہیں دیکھا تھا جو اسکی شان ہے یعنی استنبول. ترکی کی سرزمین اور عوام دونوں نے ہی میرا دل جیت رکھا تھا. پچھلے سال ہی جب پاکستان جانے کا ارادہ کیا تو خیال آیا کہ کیوں نا ترکی کا ٹرانزٹ ویزہ لے کر تین روز استنبول قیام کرتے ہوئے کراچی جاؤں؟ ٹکٹ دیکھا تو قیمت کا معمولی سا فرق تھا. فوری ارادہ کرلیا اور اپنے قریبی دوست سے جو لندن میں مقیم ہے، اس کا ذکر کیا. پلان سن کر اس نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش کردی. نہ صرف وہ بلکہ ہمارا ایک اور مشترکہ انگریز دوست بھی پلان سن کر چلنے کیلئے راضی ہوگیا. چنانچہ استنبول کے ایک سلطانی طرز کے چھوٹے سے خوبصورت ہوٹل میں دو کمرے نہایت مناسب قیمت میں بک کروالیے گئے اور مقررہ دن پر ہم استنبول جاپہنچے. کیا ہی حسین اور منفرد شہر ہے استنبول ! ہزار سالہ اسلامی تاریخ جاننی ہو، خلافت عثمانیہ کا جاہ و جلال محسوس کرنا ہو یا پھر شاہی طرز تعمیر دیکھنا ہو. استنبول اپنی مثال آپ ہے. اسے مساجد کا شہر کہا جاتا ہے. جس طرف نظر کرو وہاں ایک سے ایک حسین مسجد قائم نظر آتی ہیں. سیاحوں کے اژدہام کے باوجود صفائی اور نظم و ضبط اپنے عروج پر دیکھائی دیتا ہے. مسکراتے ہوئے، مدد کیلئے تیار اور صفائی پسند ترک عوام سیاح کے تجربے کو مزید مثبت بنادیتے ہیں. ہوٹل، ریسٹورنٹ، سڑکیں، پارک .. جہاں بھی جاؤ ہر طرف خوبصورت بلیاں آزادانہ گھوم رہی ہیں. یوں لگتا ہے کہ مقامی باشندوں کو ان سے خاص انس ہے. کتوں کی بھی ایک اچھی تعداد آزادانہ گھوم رہی ہے، جن کے ساتھ گورنمنٹ نے ٹریکر لگا رکھے ہیں. یہ کتے دیکھنے میں ہرگز بھی آوارہ کتے نہیں لگتے بلکہ مہنگی نسل کے محسوس ہوتے ہیں. نہ جانوروں کو مقامی انسانوں سے کوئی خوف ہے اور نہ ہی رہائشیوں کو ان جانوروں سے کوئی خطرہ. مسلم ملک ہونے کی بناء پر تمام کھانے حلال ہیں. مقامی ڈشوں میں ہمیں سب سے زیادہ پسند ان کا ایک روایتی میٹھا آیا جس کا نام "کنافے" ہے اور جسے چیز یعنی پنیر کے ساتھ بنایا جاتا ہے. اسی طرح ان کی مٹھیاں جو ٹرکش ڈیلائیٹ کہلاتی ہیں مزیدار ہیں. خریداری کے حوالے سے اگر صحیح سودا کیا جائے تو قیمتیں مناسب ہیں. ترکی کے نقش و نگاری سے مزین برتن اور نہایت خوبصورت قمقمے خریداروں کے پیر جکڑ لیتے ہیں. دکانداروں کے ایجنٹ ہر مصروف چوک پر خریداروں کی تاک میں رہتے ہیں. ایک قالین فروش نے تو ہمارے دوست کی چڑ بنالی. ہم جہاں جاتے وہ مل جاتا اور لپک کر اسکے پاس جاپہنچتا. آتے جاتے ہر جگہ لوگ قہوے یا سیب کی چائے سے تواضع کرتے. مجھے سبز سیب کی چائے بہت پسند آئی جو میں پینے کا موقع نہیں چھوڑتا.
.
ممتاز سیاحی مقامات قریب قریب واقع ہیں. سب سے پہلے ہم نے 'ہیگیہ صوفیہ' کو دیکھا. یہ عظیم الشان عمارت اپنے آپ میں صدیوں کی تاریخ سموئے ہوئے ہے. یونانی کاریگروں کے ہاتھوں تیار کردہ یہ تعمیر دراصل اپنی ابتداء میں ایک چرچ تھا اور کہا مشہور ہے کہ اس نے فن تعمیر کی انسانی تاریخ کو بدل ڈالا. زمانے کے بہت سے سرد و گرم دیکھنے کے بعد خلافت عثمانیہ نے اسے مسجد میں تبدیل کردیا. محراب، منبر اور مینار اس میں شامل کردیئے گئے مگر ١٩٣٥ میں اسے عوام کیلئے ایک میوزیم کی طرح کھول دیا گیا. اس کے وسیع ہال میں کھڑے ہوکر انسان مبہوت رہ جاتا ہے کہ ایک جانب تو اللہ عزوجل، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے اسم مبارک آویزاں ہیں اور ساتھ ہی مریم علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور ملائک کی تصاویر بھی چھت پر نقش ہیں. یہاں سے نکل کر ہم دوسرے مقبول ترین سیاحی مقام 'بلیو موسق' یانی نیلی مسجد میں داخل ہوئے. اس مسجد کا حقیقی مگر غیرمقبول نام سلطان احمد مسجد ہے اور اسے عثمانی خلافت کے جاہ و جلال کے ساتھ سلطاں احمد نے 'ہیگیہ صوفیہ' کے بلکل سامنے تعمیر کیا تھا. یہ ایک خوبصورت اور فن تعمیر کی شاہکار مسجد ہے. اس کا ایک حصہ تمام سیاحوں کیلئے کھلا ہے مگر قانون ہے کہ مسجد کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے جسم اور سر ڈھانک کر اندر داخل ہوں. اسی مسجد کا دوسرا حصہ نمازیوں کیلئے خاص ہے. ہم تینوں دوستوں نے وہاں نماز ادا کی. اپنے غیر مسلم دوست کو وضو اور نماز کا طریق سیکھایا.
.
دوسرے روز ہم نے تاریخی مقامات میں خلافت عثمانیہ کا شاید سب سے بڑا مظہر 'ٹوپ کاپی پیلس (محل)' دیکھا. یہ ایک عالیشان محل ہے جو عثمانی سلطانوں یا خلفاء کی چار سو سال تک رہائش گاہ رہی ہے. یہ چار بڑے آنگنوں اور بہت سی چھوٹی چھوٹی عمارتوں پر مشتمل ہے. باغ، فوارے، سپاہیوں کی رہائش گاہیں، خاندان سلطان کا گھر، حرم، خدمت گزاروں کنیزوں کے ٹھکانے، مشاورت کی زبردست جگہیں، عدالتیں اور بیت المال. اس محل میں اتنا کچھ ہے کہ اسکی تفصیل پر کتاب لکھی جاسکتی ہے اور لکھی جاچکی ہیں. 'ٹوپ کاپی پیلس (محل)' کا ایک حصہ میوزیم بنادیا گیا ہے جہاں وہ وہ اسلامی تاریخی نوادرات موجود ہیں جو دنیا میں کہیں اور نہیں. اہل بیت سے لے کر صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین تک کی بیشمار استعمال شدہ چیزیں یہاں موجود ہیں. پھر وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا کرتا مبارک ہو، تیرہ سو سالہ پرانا قران حکیم ہو، غلاف کعبہ ہو یا پھر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواریں. تاریخ کا ایک خزانہ آپ کا منتظر ہے. تلواروں کا سائز دیکھ کر بے اختیار مجھے ان اصحاب کی جسمانی قد و قامت کا اندازہ ہونے لگا. حضرت جعفر بن طیار ، حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اجمعین کی تلواریں مجھے بقیہ تلواروں سے دیکھنے میں زیادہ بھاری محسوس ہوئیں. ایک حیرت انگیز مشاہدہ یہ بھی ہوا کہ کچھ برتنوں اور تلواروں پر جو صحابہ کے زیر استمال تھے یا صحابہ کے دور سے بہت قریب تھے، تصاویر بنی ہوئی تھیں. ان تصاویر میں زیادہ تر شبیہہ شیر، عقاب یا ڈریگن کی تھی. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہید دندان مبارک، موئے مبارک اور نقش قدم بھی یہاں موجود ہے. ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر نشانیاں جیسے آپ کا خط یا انگوٹھی مبارک بھی موجود ہے. قدیم قرانی نسخہ ہو یا دیگر تحاریر مجھے اعراب نظر نہیں آئے. اسی میوزیم کا ایک اور حصہ دیگر انبیاء کی نوادرات سے آراستہ ہے. جیسے حضرت یوسف الیہ السلام کی پگڑی یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا !! ان کا یہاں موجود ہونا میرے لئے نہایت حیرت کا سبب تھا اور میرے ذہن میں شکوک پیدا ہونے لگے. میں نے ایک ایک کر کے کئی لوگوں سے وہاں اسکے بارے میں دریافت کیا کہ اگر انبیاء کے یہ ہزاروں سال پرانے نوادرات سچے ہیں تو انہیں کہاں سے ملے؟ اور اسکا کیا ثبوت ہے؟ ثبوت تو ظاہر ہے مجھے کوئی نہ مل سکا مگر ایک صاحب علم سے یہ معلوم ہوا کہ خلافت عثمانیہ جب آدھی دنیا پر راج کررہی تھی تب ان نوادرات کو مصر اور حجاز سے یہاں لے آیا گیا. گویا یہ نوادرات مختلف حصوں میں نسل در نسل منتقل ہوئی تھیں اور ان سب کو سلطنت عثمانیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا اور آج اسے ہم اس محل میں دیکھ پارہے ہیں. بات میں کتنا سچ ہے؟ یہ تو اللہ ہی جانے مگر بہرحال ان کے صحیح یا غلط دونوں ہونے کا امکان موجود ہے.
.
====عظیم نامہ====
(جاری ہے)
Subscribe to:
Posts (Atom)