Friday, 20 October 2017

علمی گمراہی کا سفر

علمی گمراہی کا سفر


.
یہ کوئی طے شدہ ضابطہ تو نہیں ہے مگر موجودہ دنیا میں اکثر ایک مسلمان کی علمی گمراہی کا سفر ان مراحل سے ہو کر گزرتا ہے.
.
منطق، فلسفے اور سائنس سے شدید ترین مرعوبیت 
----------------------------------------------------
.
اس پہلے مرحلے پر وہ مذہب بیزار مغربی اقوام کی مادی ترقی سے آخری درجے میں مرعوب ہونے لگتا ہے. وہ اس ترقی کے پیچھے مختلف فلسفوں، منطق اور سائنس کو کھڑا پاتا ہے. مغربی اقوام سے اس کے لگاؤ کا یہ حال ہوتا ہے کہ ان کا برا بھی اسے اچھا لگنے لگتا ہے. امور غیب جیسے ملائکہ، حیات بعد الموت وغیرہ کو بھی یہ سائنس کی لیبارٹری میں لے آنے کے متمنی ہوجاتے ہیں. انہیں ہر شے کے لئے اب فقط دلیل نہیں بلکہ 'امپیرئیکل ایویڈینس' درکار ہوتا ہے. گویا یہ سمجھ کر نہیں بلکہ دیکھ کر ایمان لانا چاہتے ہیں. انہیں 'ریشنلسٹ' کہا جاتا ہے.
.
مذہبی طبقے سے نفرت 
------------------------
.
اس کی نظر موجودہ عالم اسلام کی علمی پستی اور معاشی بدحالی کی جانب جاتی ہے تو اسے اس کے بڑے ذمہ دار مذہبی ٹھیکے دار محسوس ہوتے ہیں. لہٰذا اسے مولوی حضرات سے بناء تفریق نفرت ہونے لگتی ہے. وہ انہیں ہر اس معاشرتی، سماجی یا معاشی مسائل کا بھی مجرم گرداننے لگتا ہے جن سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہ ہو. انہیں ہر اس شخص سے الجھن ہونے لگتی ہے جس کی شرعی داڑھی ہو یا جو مسواک کرتا ہو یا ٹوپی پہنتا ہو. انہیں 'ناراض باغی طبقہ' یا پھر 'نیو-لیفٹسٹ' بھی کہہ سکتے ہیں. 
.
احادیث کا انکار 
----------------
.
اس میں شک نہیں ہیں کہ اسلامی تاریخ اور احادیث کے ذخیرے میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جو ایک انسان کو چکرا دیتی ہیں. مگر مسلمانوں نے ہمیشہ احادیث کے ذخیرے کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور ان کا انکار یا اقرار بعد از تحقیق اپنایا ہے. یہ شخص تحقیقی معیارات کو اپنانے کی بجائے مختلف احادیث (اخبار احاد) کا انکار اپنی ناقص سمجھ یا عقل کی بنیاد پر کرنے لگتا ہے. گویا ایسا نہیں ہے کہ وہ قطعی ثبوت کی بنیاد پر کسی ظنی حدیث کو ماننے سے انکار کررہا ہو بلکہ اس کے قبول و رد کا واحد معیار اسکی محدود عقل یا سمجھ ہوتی ہے. انہیں غلط طور پر لبرل کہا جاتا ہے. ہمارے نزدیک اگر انہیں نام دینا ہی ہے تو 'نیو-لبرل' کہہ لیجیئے. 
.
قران حکیم کی من مانی تفسیر 
--------------------------------
.
اس مقام پر ایک شخص قران حکیم میں درج آیات کی من مانی تفسیر کرنے لگتا ہے. ایسی تفسیر جو اس کے حساب سے موجودہ سائنس، فلسفے اور منطق سے مطابقت رکھتی ہو. گویا وہ قران حکیم کے اپنے پیغام کو سمجھنے کی بجائے، اس میں سے اپنے من پسند فلسفے برآمد کرنے میں جت جاتا ہے. اس مقام پر وہ مسلمانوں کی پوری تاریخ اور علمی ورثے کو ایک سازش سمجھتا ہے. لہٰذا نہ تواتر کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی اجماع کا خیال کرتا ہے بلکہ لغت سے کھیل کر قرانی الفاظ کو وہ وہ معنی فراہم کرتا ہے کہ انسان دنگ رہ جائے. دوسرے الفاظ میں وہ پہلے اپنی ناقص عقل سے قران کی ایک غلط تفسیر کرتا ہے اور پھر اسی غلط تفسیر کو قران کا اصل مقصود سمجھنے کی غلط فہمی پال لیتا ہے. اس سمجھ کی راہ میں کوئی قوی سے قوی حدیث بھی آجائے تو اسے یکسر مسترد کردیتا ہے اور اگر کوئی آیت رکاوٹ بنے تو اسے اصطلاحی مفہوم دے دیتا ہے. انہیں 'منکرین حدیث' کہا جاتا ہے. گو یہ اکثر خود کو 'قرانسٹ' کہلانا پسند کرتے ہیں. 
.
مذہب کا انکار 
--------------
.
یہ طبقہ مذہب سے اس درجے بدظن ہوچکا ہوتا ہے کہ اسے تمام مذاہب جعلی محسوس ہوتے ہیں. یہ خدا کے وجود کو تسلیم کرتا ہے، اسے خالق مانتا ہے، حیات بعد الموت تک کو تسلیم کرتا ہے مگر کسی بھی قسم کی شریعت کا منکر ہوجاتا ہے. اس کے نزدیک مذاہب لوگوں کےاپنے بنائے ہوئے ہیں جنہوں نے انسانیت کو فساد اور خون خرابے کے سوا کچھ نہیں دیا ہے. یہ خدا تک پہنچنے کے اپنے طریق بناتے ہیں جس کے لئے مختلف مراقبے اور طریقے اختیار کرتے ہیں. یہ مغرب اور ہند میں یکساں مقبولیت حاصل کررہے ہیں. لفظ خدا کا استعمال یہ کم ہی کرتے ہیں. اسکی جگہ یہ ایسی اصطلاحات خدا کیلئے استعمال کرتے ہیں جو جدید ذہن کیلئے زیادہ قابل قبول ہیں جیسے 'سپریم کانشیسس نیس' یا 'کاسمک انٹلینجینس' وغیرہ. اوشو سے لے کر سدھ گرو تک یہی سلسلہ چل رہا ہے. انہیں 'اسپریچولسٹ' کہا جاتا ہے.
.
خالق کا اقرار مگر رب کا انکار 
--------------------------------
.
یہ افراد اس حقیقت کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ اس کائنات کو لازمی بنانے والی ایک ذات موجود ہے. وہی ذات ہر شے کی خالق ہے مگر اس کائنات کو تخلیق کرنے کے بعد وہ ہم سے لاتعلق ہوگئی ہے. جس طرح ایک گھڑی ساز کوئی زبردست گھڑی تخلیق کرتا ہے، اس میں بہترین مشینری لگاتا ہے مگر پھر اسے چھوڑ دیتا ہے. جب تک مشینری چلتی رہتی ہے، گھڑی بھی چلتی رہتی ہے. جس دب اس کی مشینری میں ٹوٹ پھوٹ ہونے لگتی ہے اسی دن گھڑی بھی ختم ہوجاتی ہے. ٹھیک اسی طرح شائد خالق نے اس کائنات کو تخلیق کر کے اس میں بہترین نظم تو رکھ دیا مگر اسکے بعد وہ اس سے لاتعلق ہوگیا. اب جب تک یہ ستاروں سیاروں کا نظم خودبخود چل رہا ہے تب تک کائنات قائم ہے. ایک دن یہ نظم خود ہی تباہ ہو جائے گا اور ہم سب مٹ جائیں گے. نہ کوئی دوسری زندگی ہوگی اور نہ ہی کسی کے سامنے جواب دہی. یہ آسان الفاظ میں روز جزاء کے منکر ہیں اور انہیں اس طرح کے مفروضات بہت بھاتے ہیں کہ کسی خلائی مخلوق نے ہزاروں سال پہلے زمین پر آکر کلوننگ کے ذریعے ہماری نسل کو بنادیا. ان افراد کو انگریزی زبان میں 'ڈیسٹ' کہا جاتا ہے.
.
ہم نہیں جانتے 
--------------
.
یہ افراد کہتے ہیں کہ خدا کے وجود اور خدا کے انکار دونوں کیلئے آج تک جو استدلال اور شہادتیں ہم تک پہنچی ہیں. وہ اس امر کیلئے ناکافی ہیں کہ ہم خدا کے وجود کو حتمی طور پر تسلیم کرسکیں یا پھر حتمی طور پر اس کا انکار کرسکیں. لہٰذا یہ اس بحث میں ہی نہیں پڑنا چاہتے کہ کائنات کو بنانے والا کوئی خدا ہے یا اسکی کوئی اور سائنسی توجیح ممکن ہے؟ ایسے احباب کو ہم 'ایگنوسٹک' کے نام سے موسوم کرتے ہیں. ایک سچا ایگنوسٹک پیغام اور دلیل کو لپک کر قبول کرتا ہے. افسوس کے ایسے ایگنوسٹک تعداد میں کم ہیں. اکثر ہمیشہ ایگنوسٹک ہی بنے رہنا چاہتے ہیں، چاہے ان پر بات کتنی ہی واضح کیوں نہ ہوجائے. 
.
خدا کا انکار 
------------
.
یہ وہ افراد ہیں جو کسی بھی خالق کے وجود کا انکار کرتے ہیں. یہ دراصل اپنی حقیقت میں ایگنوسٹک ہی ہوتے ہیں مگر مذہب دشمنی یا مذہب کے نام پر کی گئی خونریزی و زیادتی سے اتنے زیادہ نالاں ہوتے ہیں کہ خدا کے ہونے کا کوئی بھی امکان ماننے سے انکار کردیتے ہیں. ان کا ایک طبقہ خاموش رہتا ہے مگر ایک بڑا طبقہ خدا کے انکار تک محدود نہیں ہے بلکہ تصور خدا سے دشمنی پر اتر آیا ہے. انہیں 'ایتھیسٹ' یعنی ملحد کہا جاتا ہے. 
.
خلاصہ 
--------
. 
جیسا کے ابتداء میں ہم نے عرض کیا کہ بیان کردہ مراحل کوئی حتمی ضابطہ یا اصول یا فارمولا نہیں ہیں. آپ ان مراحل کو ان بڑے فلسفوں کا ایک مختصر جائزہ کہہ سکتے ہیں جن سے آج کا ایک مسلم ذہن گزرتا ہے یا گزر سکتا ہے. گمراہی کا یہ سفر موجودہ دنیا میں اس قدر مزین کرکے پیش کیا جارہا ہے کہ مسافر اسے گمراہی نہیں بلکہ شعوری ارتقاء سمجھ بیٹھتا ہے. اچھی بات یہ ہے کہ یہ سفر صرف اپر سے نیچے نہیں آتا بلکہ نیچے سے اپر بھی جاتا ہے. یعنی بیان کردہ مراحل کی ترتیب کو اگر الٹ دیں تو ایسے بیشمار انسان موجود ہیں جو الحاد کی دلدل سے نکل کر خدا کی بھرپور معرفت کا سفر کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ دعوت دین کیلئے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود امریکہ ہو، کوئی بھی یورپی ملک ہو یا پھر کوئی افریقی ریاست. ہر جگہ اسلام سب سے زیادہ قبول کیا جانے والا مذہب ہے. 
.
====عظیم نامہ====

Saturday, 14 October 2017

ڈیرن براؤن کے ساتھ ایک یادگار شام


ڈیرن براؤن کے ساتھ ایک یادگار شام 

Related image


'ڈیرن براؤن' اس وقت دنیا کا نمایاں ترین عامل تنویم (ہپناٹسٹ) اور سراب نظر کا ماہر (الوزنسٹ) مانا جاتا ہے. پچھلے دنوں اپنے ایک دوست کے ہمراہ اس کا شو دیکھنے کا موقع ملا. درمیانے قد کا یہ دبلا پتلا ہم جنس ملحد نہایت غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے. شو ایک بہت ہی جاذب آڈیٹوریم میں منعقد ہوا. ڈیرن نے آغاز میں بتایا کہ وہ ایک شعبدہ باز اور انسانی ذہن و سوچ کا ماہر ہے. اس کے تمام تر کمالات ایک 'پرفیکٹ لائی' یعنی کامل جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں. اتنا بتانے کے بعد اس نے ہم سب سے کھڑا ہوجانے کو کہا. مجھ سمیت سینکڑوں موجود افراد اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے. اس نے کہا کہ ہم سب اپنے ہاتھ اپنی پشت کی  جانب لے جائیں اور تصور کریں کہ کسی ایک ہاتھ میں ہم نے کوئی چیز چھپا رکھی ہے. پھر سب سے کہا گیا کہ اپنی دونوں مٹھیاں آگے کردیں. میں نے کافی سوچ کر سیدھے ہاتھ میں چیز کو تصور کیا. اب ڈیرن مخاطب ہوا کہ جس جس کے سیدھے ہاتھ میں چیز ہے وہ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں. میں منہ بسور کر بیٹھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرے ساتھ ننانوے فیصد لوگ بھی بیٹھ گئے. گویا ننانوے فیصد نے سیدھا ہاتھ ہی منتخب کیا تھا. ایک اجتمائی قہقہہ بلند ہوا. جو چند لوگ کھڑے رہ گئے، انہیں ڈیرن نے دوسری بار میں جانچ لیا اور سب بیٹھ گئے. ایک لڑکی کو اسٹیج پر بھی بلایا گیا اور اسے بار بار کہا کہ چیز کسی ایک ہاتھ میں چھپائے اور لگاتار ڈیرن صحیح بتاتا رہا کہ چیز کس ہاتھ میں ہے. ساتھ ہی اس نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جب میں نے فلاں مذاق کیا تو یہ لڑکی ہنس کر پیچھے ہٹی. ایسے میں اس کا داہنا ہاتھ تیزی سے نیچے گیا لیکن بایاں ہاتھ ٹینشن میں رہا، جس سے اسے معلوم ہوگیا کہ اس نے چیز بائیں ہاتھ میں رکھی ہے. ڈیرن نے ایک کیلا میز پر رکھ دیا جو اسٹیج کے ایک کنارے پر پبلک کے نزدیک رکھی ہوئی تھی اور کہا کہ اسی پروگرام کے دوران ایک بن مانس اسٹیج پر سے یہ کیلا اٹھا لے جائے گا مگر اس بن مانس کو کوئی دیکھ نہ پائے گا. یہی ہوا کہ کیلا غائب ہوگیا اور کوئی بن مانس نہ دیکھ پایا. دوسری بار اس نے پھر کیلا رکھ کر یہی کہا اور دوسری بار بھی بن مانس کیلا لے کر چمپت ہوگیا مگر کوئی اسے نہ دیکھ پایا. سب اپنے اپر ہنس رہے تھے. ڈیرن نے بتایا کہ یہ سب ہمارے دماغ کا کھیل ہے. ہماری آنکھ ایک وقت میں بیشمار چیزیں دیکھ رہی ہوتی ہے مگر یاد صرف وہی رکھتی ہے جو اسے اس خاص وقت میں اہم لگے. بن مانس کیلا اس وقت لے کر چلا جاتا تھا جن ڈیرن نے ہم سب کی توجہ کسی اور کام پر مبذول کروا رکھی ہو. یہ بتا کر ڈیرن نے بن مانس کو اسٹیج پر بلایا. ایک بن مانس کا نقلی لباس پہنا ہوا انسان کودتا ہوا اسٹیج پر آگیا اور مضحکہ خیز انداز میں مٹکنے لگا. مجھ سمیت سب ہنس رہے تھے جب اس بن مانس نے اپنا ماسک کسی ہیلمٹ کی طرح اتارا. اندر سے جو شخص نکلا وہ ... وہ ڈیرن تھا ! .. ہم سب نے حیرت سے واپس ڈیرن کی جانب دیکھا تو اب وہاں کوئی نہیں تھا. گویا ڈیرن نے بن مانس کے ماسک والے کو ہمارے سامنے اسٹیج پر بلایا اور خود ہی بن مانس کے اندر سے برآمد ہوا. یہ کیسے ہوا ؟ کب ہوا ؟ میں نہیں جانتا. مگر یہی وہ شعبدہ گری یا سراب نظر ہے جس می ڈیرن ماہر ہے.
.
ڈیرن نے پبلک میں سے ایک آدمی کو کھڑا کر کے کہا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی دوسرے تماشائی کا  انتخاب کرے جسے اسٹیج پر بلایا  جاسکے. اس شخص نے ایک لڑکی کا انتخاب کیا جسے ڈیرن نے اسٹیج پر  بلالیا. لڑکی کو  آنکھیں بند کر کے اپنے کندھے پر ہاتھ رکھنے کو کہا. پھر کہا کہ اب اپنے ذہن میں کسی بھی مشہور شخصیت کی تصویر کو تصور کرو اور میں تمھارے ذہن سے معلومات لے کر پینٹنگ بناتا ہوں. ڈیرن نے پینٹنگ شروع کی. آنکھیں ، کچھ بال، بڑا سا سر ... مجھے لگا کہ ڈیرن بن مانس کی تصویر بنا رہا ہے. اچانک اس نے تصویر کو الٹا تو وہ درحقیقت البرٹ آئین اسٹائن کی تصویر تھی. لڑکی نے بناء تصویر دیکھے تصدیق کی کہ وہ ذہن میں آئین اسٹائن ہی کو تصور کررہی ہے. سب نے تالیاں بجائیں. ڈیرن نے مجمع سے اب پوچھا کہ کیا کوئی ایسا موجود ہے جس کے دادا، دادی، نانا، نانی میں سے کسی کا انتقال ہوا ہو اور وہ ان سے بہت محبت کرتا ہو؟ بہت سے ہاتھ بلند ہوگئے. ایک لڑکی کا انتخاب ہوا .. ساتھ ہی ایک ٹیبل لائی گئی جس میں کسی چیز کو سیاہ کپڑا ڈھانپے ہوئے تھا. ڈیرن نے لڑکی سے پوچھا کہ اس نے کسے کھویا ہے؟ لڑکی نے بتایا کہ اپنی نانی کو جو اس سے بے پناہ پیار کرتی تھیں. ان کا نام ھیلن تھا. ڈیرن اب ہماری جانب متوجہ ہوا اور اپنے بارے میں بتانے لگا کہ کیسے وہ  سائنسز اور ہیپناٹزم کا ماہر بنا. اس نے بتایا کہ یہ اس کی پرتجسس فطرت تھی جس نے اسے اس جانب راغب کیا مگر اس کی فطرت کو پرتجسس بنانے میں اسکے دادا کا بہت بڑا ہاتھ تھا. وہ انہیں پپا پکارا کرتا تھا. پپا نے اسے ہلکی پھلکی بچوں والی ٹرکس بھی بتائی. وہ اس کے ناز و نخرے اٹھاتے اور اس کی ہر خواہش پوری کرتے تھے. مگر ان کے پاس ایک نہایت خوبصورت باکس تھا جسے وہ اسے چھونے تک نہیں دیتے تھے. اس کے پاس جانے کی بھی ڈیرن کو اجازت نہیں تھی. ڈیرن تجسس سے بھرا رہتا کہ آخر اس باکس میں ایسا کیا ہے؟ لیکن جب بھی وہ دادا سے اسے مانگتا تو اچانک دادا کے چہرے کا رنگ بدل کر سپاٹ ہوجاتا اور وہ دوٹوک لہجے میں اس سے کہتے 'ڈیرن اس باکس کو کبھی نہیں چھونا'. وقت گزرتا گیا، ڈیرن بڑا ہوا اور والدین کے ساتھ دوسرے گھر شفٹ ہوگیا. پھر ایک روز پپا یعنی دادا کا انتقال ہوگیا. ڈیرن جب عرصے بعد دادا کے گھر آیا تو اس کے ذہن میں صرف وہی باکس گھوم رہا تھا. وہ چپکے سے کمرے میں گیا. الماری کے اپر وہ باکس رکھا ہوا تھا. اس نے باکس اٹھایا تو پیچھے ایک چابی بھی رکھی تھی. اس سے پہلے اس نے یہ چابی نہیں دیکھی تھی. خاموشی سے ڈیرن نے چابی جیب میں رکھی اور باکس لے کر اپنے کمرے میں آگیا. اتنا کہہ کر ڈیرن نے وہ چابی ہمیں دیکھائی اور ٹیبل پر ڈھانپا ہوا کالا غلاف ہٹادیا. نیچے ایک خوبصورت سا باکس برآمد ہوا. پرسکوت ماحول میں چابی ڈیرن نے لڑکی کو دی اور کہا کہ باکس کھولے اور لوگوں کو دیکھائے کہ اس میں کیا ہے؟ لڑکی نے کانپتے ہاتھوں سے باکس کھولا. اندر سے ایک اور چھوٹا باکس نکلا. اس چھوٹے باکس کو بھی کھولا گیا تو اندر سے ایک شیشے کا مرتبان نکلا جس میں رنگین اون کا ایک گولا رکھا ہوا تھا. سب ہنسنے لگے، ڈیرن بھی ہنستے ہوئے بولا کہ واقعی جب میں نے بھی اسے دیکھا تو بہت مایوس ہوا کہ یہ تھا وہ پپا کا سیکرٹ؟ لیکن پھر جب میں نے اون کے گولے کو کھولا تو اس میں ایک سکہ نکلا جس پر سات جادوئی الفاظ  کندے ہوئے تھے. ہم سب دم سادھے سننے لگے کہ آخر وہ سات جادوئی الفاظ کیا تھے؟ ڈیرن نے کچھ توقف کے بعد بتایا کہ  وہ سات جادوئی الفاظ یہ تھے 'ڈیرن کہا تھا نا باکس نہیں چھونا' یہ سن کر پھر اجتمائی قہقہے بلند ہوئے. ڈیرن نے لڑکی سے کہا کہ وہ بھی اس اون کے گولے کو کھولے. اس انداز میں اس کا سرا ہر آدمی مجمع میں دوسرے آدمی کو دیتا جائے. یوں اون کھلتا گیا. اون کے گولے میں سے واقعی ایک سکہ برآمد ہوا مگر یہ دیکھ کر اسٹیج پر موجود لڑکی کی چیخ نکل گئی کہ اس پر اسکی اپنی نانی کا نام یعنی ھیلن پیغام کے ساتھ کندہ ہوا تھا. یہ کیسے ممکن ہوا؟ ظاہر ہے اسکا جواب ہمارے پاس نہیں ہے.
.
اب ڈیرن کے چہرے کو اور بلخصوص آنکھوں کو پٹیوں سے باندھ دیا گیا. اسکا کوئی امکان نہ رہا کہ وہ دیکھ رہا ہے. ڈیرن نے ہم سب سے کہا کہ وہ ذہن میں کوئی بھی سوال یا واقعہ سوچیں مگر زبان سے نہ کہیں. ساتھ ہی ہمیں اپنا نام اور سیٹ کا نمبر بھی ذہن میں سوچنا تھا. اس کے بعد ڈیرن نے ایک کے بعد ایک یہ بتانا شروع کیا کہ فلاں سیٹ پر موجود فلاں شخص نے یہ سوال سوچا ہے. سب میں کھلبلی مچ گئی. ہر شخص نے تصدیق کی کہ ڈیرن صحیح کہہ رہا ہے اور وہ فی الواقع یہی سوال یا واقعہ سوچ رہے تھے. ڈیرن نے ہم سب کو مخاطب کیا اور پانچ مختلف جانوروں کے نام دے کر کہا کہ ذہن میں کسی بھی ایک جانور کا نام منتخب کرلیں. جب سب نے سوچ لیا تو اس نے بتایا کہ آپ کی اکثریت نے جس جانور کا نام سوچا ہے وہ 'ٹائیگر' ہے. اس کا یہ دعویٰ بھی درست نکلا اور نوے فیصد لوگو نے ٹائیگر ہی سوچا. باقی دس فیصد لوگ جن میں، میں خود بھی شامل تھا. انہوں نے بھی پہلے ٹائیگر سوچا اور پھر زبردستی ذہن میں نام تبدیل کیا. اس کی جو توجیہہ بعد میں مجھے سمجھ آسکی وہ یہ تھی کہ ڈیرن نے اپنے اشتہار سمیت کئی مقامات پر  ٹائیگر لکھ رہا تھا جسے پڑھ کر ہمارے تحت الشعور میں یہ لفظ غیرمحسوس طریق سے منتقل کیا گیا تھا. اس کے بعد ڈیرن نے پانچ 'فرس بی' نما چیزیں ہماری جانب اچھالی. جس جس کے ہاتھ میں وہ پہنچی انہیں اسٹیج پر بلا لیا گیا اور کہا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے پانچ میں سے کسی بھی ایک پوزیشن پر کھڑے ہو جائیں. اور سامنے رکھے پانچ لفافوں میں سے کسی بھی ایک لفافے کا انتخاب کریں اور اس میں پانچ میں جس کسی جانور کا نام درج ہو اس کا نام اور تصویر بنائیں مگر اسطرح کہ وہ پبلک یا ڈیرن کو نظر نہ آئے. جب پانچوں نے تصاویر بنا لی تو ڈیرن نے حیرت انگیز طور پر بناء دیکھے یہ بتایا کہ کس نے کون سا جانور بنایا ہے؟ یہاں تک کہ کس انداز میں بنایا ہے؟ ساتھ ہی مصوروں نے جانوروں کے جو نام مقرر کیئے تھے وہ بھی بوجھ دیئے.  یہاں تک کہ ایک شخص نے جانور کا نام درج کرتے ہوئے اسپیلنگ غلط لکھی تو اس نے وہی غلط اسپیلنگ بوجھ دی. اس موقع پر پروگرام کا اختتام ہوا اور پیچھے لگی بڑی سینما ٹائپ اسکرین پر ایک گانا چلنا شروع ہوگیا جس میں وہی بن مانس کھڑا تھا. مگر اب جو اس نے ماسک اتارا تو اندر ڈیرن نہیں بلکہ ایک ہیرو ٹائپ انسان موجود تھا. اس نے گا گا کر پورے شو کا ذکر کرنا شروع کیا اور یہ سن کر ہم سب حیرت زدہ رہ گئے کہ اب تک جو جو کچھ ہمارے سامنے پیش آیا. وہ سوالات، وہ لوگوں کا انتخاب، وہ کسی کا اعتراض، وہ کوئی غلطی اور اسی طرح بیشمار اور دوسری چیزیں جنہیں ہم سمجھتے تھے کہ 'ہم' کر رہے ہیں. وہ تو دراصل پہلے سے ہی ہمارے ذہن سے کھیل کر ڈیرن ہم سے کروا رہا تھا. گویا اس پورے وقت مجھ سمیت سینکڑوں لوگ ڈیرن کی سجائی بساط کے معمولی مہرے تھے جو اسی کی مرضی سے چل رہے تھے. یا یوں کہہ لیجیئے کہ ہم سب آدھے ہپناٹز تھے اور آدھے اس کی چال کے سامنے ذہنی غلام. یہ یادگار شو ختم ہوا تو ہم سب ہی تالیاں پیٹ رہے تھے. اسی سرشاری میں پنڈال سے باہر آئے تو مجھے وہ چائنیز شخص نظر آگیا جس نے اسٹیج پر جانور کی تصویر بنائی تھی اور غلط اسپیلنگ لکھی تھی. میں نے اس سے لپک کر دریافت کیا کہ ایسا کیسے ہوا؟ کہ اس نے غلط اسپیلنگ لکھی اور ڈیرن نے اسے پھر بھی بوجھ لیا؟ اس نے بتایا کہ وہ خود اب تک حیرت میں ہے مگر اس کے ذہن کو ہپناسسس سجیشن دیا گیا. میں نے پوچھا کیسے؟ اس نے بتایا کہ جس لفافے پر اسے جانور کی تصویر بنانے کو کہا گیا وہاں اس جانور کی اسپیلنگ ویسے ہی غلط لکھی ہوئی تھی. جب اس نے تصویر بنا کر اس جانور کا نام لکھنا چاہا تو صحیح اسپیلنگ جو اسے معلوم تھی بھول گیا اور وہی غلط اسپیلنگ لکھ ڈالی جو لفافے میں درج تھی. یوں میں اور میرا دوست ہنستے ہوئے اس یادگار شام سے رخصت ہوگئے.
.
====عظیم نامہ====

Monday, 18 September 2017

ذکر کثیر سے مراد


ذکر کثیر سے مراد


قران حکیم میں متعدد مقامات پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ کی یاد یعنی ذکر کا کثرت سے اہتمام کرو. جیسے سورہ الاحزاب میں حکم ہوا کہ " یَآ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُواللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا۔ اے اہل ایمان تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو" 
.
اسی طرح مختلف اسلوب و پیرائیوں میں قران و حدیث دونوں ذکر الہیٰ کا کثرت سے اہتمام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں. جیسے سورہ آل عمران کی ١٩١ آیت میں آئے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں "جو اللہ تعالٰی کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں .." ذکر الہیٰ کی اسی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر مختلف اہل علم ذکر اور کثیر دونوں الفاظ کی تشریحات پیش کرتے رہے ہیں. کچھ کے نزدیک کثرت زمانے کے عرف سے جانچی جاسکتی ہے. گویا فی زمانہ کسی عمل یا تسبیح کا کثیر ہونا یا نہ ہونا مختلف ہوسکتا ہے. اسی طرح بعض صوفیاء نے ذکر کثیر سے مراد یہ لی ہے کہ ذکر اتنی کثرت سے کیا جائے کہ کوئی دوسرا اختیاری یا طبعی فعل اس سے آگے نہ بڑھ پائے. یہ بزرگ یہاں تک تلقین کرتے ہیں کہ ذکر آپ کی قلبی دھڑکن سے بھی کم نہ ہو. چانچہ ذکر سے متعلق مختلف طریق و ریاضتیں اس ضمن میں اختیار کی جاتی ہیں. ذکر جہری، ذکر سری، ذکر جلی، ذکر خفی، ذکر لسانی، ذکر قلبی، ذکر انفرادی، ذکر اجتماعی اور اس طرح کی دیگر اصطلاحات عام ہیں.
.
راقم کی عاجز رائے میں یہ عمومی مقبول تشریحات نامکمل اور غیرفطری ہیں. (اللہ اعلم بالصواب) قبل اسکے کہ میں اپنی ناقص سمجھ قلمبند کروں، مناسب ہوگا کہ پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ ذکر اپنی اصل میں ہے کیا؟ اور اس کا مقصود کیا ہے؟ ذکر کا قریب ترین ترجمہ یاددہانی یا انگریزی میں لفظ 'ریمائنڈر' سے کیا جاسکتا ہے. یاددہانی ہمیشہ اس بات کی کرائی جاتی ہے جو آپ کو پہلے کسی درجے معلوم ہو مگر بھول جانے کے احتمال سے بچنے کیلئے اسے دہرایا جائے. گویا ہر وہ بات یا ذکر جو آپ کو اللہ پاک کی یاد سے جوڑے یا رب العزت کے سامنے جواب دہی کے احساس کو ابھارے، وہ ذکر الہیٰ ہے. اسے کچھ خاص اذکار، وظائف، استغفار یا تسبیحات تک محدود سمجھنا ایک صریح غلطی ہے. قران حکیم پنجگانہ نماز کو بھی ذکر تعبیر کرتا ہے اور سب سے بڑھ خود کو الذکر یعنی سب سے بڑا ذکر قرار دیتا ہے. سورہ البقرہ کی ٢٠٠ آیت میں درج مشرکین مکہ کو یہ الہامی تنبیہہ بھی "ذکر" کو سمجھنے کیلئے نہایت اہم ہے "فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا. اللہ کا خوب ذکر کیا کرو جیسے تم اپنے باپ دادا کا (بڑے شوق سے) ذکر کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ شدت شوق سے (اللہ کا) ذکر کیا کرو‘‘۔ دیکھیئے کیسی خوبی سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ ذکر الہیٰ فقط مخصوص کلمات نہیں. ظاہر ہے کہ مشرکین اپنے باپ دادا کا ذکر توصیفی انداز میں ایک دوسرے سے کیا کرتے تھے. اللہ پاک نے فرمایا کہ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شوق سے میرا ذکر کیا کرو.
.
یہاں دھیان رہے کہ ہم کسی مخصوص ذکر یا تسبیح پڑھنے کی نفی نہیں کر رہے بلکہ یہ بتا رہے ہیں کہ ذکر اپنے وسیع حقیقی معنوں میں صرف ان تک محدود نہیں ہے. وگرنہ ظاہر ہے کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مختلف مخصوص اذکار کے اہتمام کی تلقین کی ہے. جیسے کے ابتدا میں عرض کیا کہ ہر طرح کا ذکر اپنی اصل میں رب سے جڑے رہنے کی سعی ہے. بعض لوگ ذکر کا اصل مقصد 'سکون قلب' سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل میں سورہ الرعد کی ١٣ آیت پیش کرتے ہیں "أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ- جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس آیت میں مقصد کا بیان نہیں ہے بلکہ ذکر الہیٰ کے نمائندہ ثمرات میں سے ایک کا بیان ہے. اب جب اس مقام پر ذکر الہیٰ کی تعریف و مقصدیت واضح ہوگئی تو اسی کی روشنی میں یہ جائزہ بھی لے لیتے ہیں کہ کثرت یا مرکب لفظ ذکر کثیر سے کیا مراد ہے؟
.
ذکر کثیر اپنی حقیقت میں رب کو شب و روز مختلف انداز سے یاد کرنے یا رکھنے کا نام ہے. قران حکیم کی تلاوت و تدبر ہو، نماز قائم کرنا ہو، تسبیحات پڑھنا ہو، ہر کام کی ابتداء میں بسم اللہ اور آخر میں الحمدللہ کہنا ہو، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکھائی گئی روزمرہ کی دعائیں ہوں، دعوت و تبلیغ کی سرگرمی ہو، اصلاحی بیان سننا یا کہنا ہو. یہ اور ایسے ہی لاتعداد دیگر مظاہر دراصل ذکر الہی کی ہی مختلف اشکال ہیں. گویا درکار یہ ہے کہ بندہ اپنے معبود کو فقط ایک خیالی تصور خیال نہ کرے بلکہ اسے ایک زندہ حقیقت جانے. رب کی یاد کو عبادت و پرستش کے مظاہر تک ہی محدود نہ کردے بلکہ اپنے معاشی، سماجی، اخلاقی، خاندانی ، غرض زندگی کے ہر دائرے کو یاد الہی سے مزین رکھے. یہی ہماری عاجز و ناقص رائے میں ذکر کثیر کی تعریف بھی ہے اور ذکر کثیر کی معراج بھی..
.
====عظیم نامہ====

Friday, 14 July 2017

تعزیت


تعزیت



آج پھر میری زبان خشک ہو گئی اور آواز حلق میں اٹکنے لگی. معلوم نہیں کیوں؟ لیکن میں کسی سے تعزیت نہیں کر پاتا. ایسا نہیں ہے کے مجھے ان کے دکھ کا احساس نہیں ہوتا یا میں تعزیت کرنے کو برا سمجھتا ہوں.... بلکے میرے نزدیک تو کسی کے مشکل وقت میں اس سے تعزیت کرنا ایک خوبصورت نیکی ہے !.... مگر اس احساس کے باوجود مجھ سے تعزیت کے الفاظ ادا نہیں ہو پاتے. مجھے لگتا ہے کے جیسے میں یہ کہہ کر منافقت کر رہا ہوں کہ " بھائی مجھے آپ کے دکھ کا اندازہ ہے" .. یا یہ کہنا کہ "میں آپ کی تکلیف کو سمجھتا ہوں" ... میرا احساس صرف دعا میں ڈھل جاتا ہے یا پھر ان کی کسی عملی مدد میں ... لیکن کبھی آگے بڑھ کر الفاظ کی شکل اختیار نہیں کر پاتا. نتیجہ یہ ہے کہ میرے کئی احباب صرف اسلئے وقتی طور پر ناراض ہوگئے کہ میں نے ان سے تعزیت کے الفاظ نہیں کہے. الله مجھے یہ اخلاقی اور سماجی ہمّت عطا فرماییں. آمین.
.
====عظیم نامہ====

Monday, 12 June 2017

سورہ الحشر


سورہ الحشر


افف سورہ الحشر کی یہ آیات کس قدر پرہیبت اور طاقتورہیں.
رب العزت کے صفاتی ناموں کا جیسے ایک حسین گلدستہ ہو.
 ذرا ان درج ذیل آیات کی تلاوت و ترجمہ کو ایک بار دھیان سے پڑھیئے اور اس میں موجود ہیبت و کیفیت کو اپنے قلب میں محسوس کیجیئے. سبحان اللہ. میں نے تو نیت کرلی ہے کہ آج کل میں انہیں حفظ کرکے اپنی یاداشت کا حصہ بنالوں گا اور انہیں دہرا کر اپنے مالک سے مناجات 
کیا کروں گا. ان شاء اللہ

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (22)
 هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (23)
هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (24)
.
 وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا، وہی رحمٰن اور رحیم ہے (22)
 وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بادشاہ ہے نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، سب پر غالب، اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا، اور بڑا ہی ہو کر رہنے والا پاک ہے اللہ اُس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں (23)
 وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے اس کے لیے بہترین نام ہیں ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اُس کی تسبیح کر رہی ہے، اور وہ زبردست اور حکیم ہے (24)

مولوی و لبرل اور رمضان


 مولوی و لبرل



وہ مولوی پر جملے کس رہے ہیں ۔۔ یہ لبرل کا بینڈ بجا رہے ہیں
۔
وہ ان کے اکابر کی توہین کر رہے ہیں ۔۔ یہ ان کے اسکالرز کو گالی دے رہے ہیں
۔
وہ حکومتی لیڈر کو ذلیل کررہے ہیں ۔۔ یہ اپوزیشن لیڈر کی کردار کشی میں مصروف ہیں
۔ 
وہ سعودیہ کو بدمعاش کہہ رہے ہیں ۔۔ یہ ایران کو فسادی ثابت کررہے ہیں
۔ 
 غرض یہ کہ فیس بک پر رمضان المبارک کا مقدس مہینہ پورے مذہبی جوش و خروش سے منایا جارہا ہے۔ ایک عشرہ بیت چکا ہے، بس اب باقی دو عشروں میں اسی جذبے کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ لگے رہیں کہ اسی طرح کی پوسٹیں لکھنے میں آپ کی نجات پوشیدہ ہے۔ اگر مخاطب کو ذلیل کرنے والی پوسٹ نہیں لکھ سکتے تو پلیز کمنٹس میں ضرور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں۔ اگر کمنٹ بھی نہیں کرسکتے تو نفرت انگیز پوسٹوں کو بڑھ چڑھ کر لائیک ضرور کریں اور یہ فیس بکی خودساختہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔
۔
 ====عظیم نامہ====

پوچھوں گا خدا سے


پوچھوں گا خدا سے



فیس بک اسٹیٹس:
حشر کے روز میں پوچھوں گا خدا سے پہلے 
تونے روکا نہیں کیوں مجھ کو خطا سے پہلے
۔
ہمارا تبصرہ:
 اس نے تو ہمیشہ روکا۔ کبھی رسولوں کے زریعے، کبھی کتابوں کے زریعے، کبھی ضمیر کے زریعے اور کبھی فطرت سلیمہ کے زریعے۔
۔
 بس تمارے آزادی ارادہ و اختیار کو قائم رکھنے کیلئے تمہیں بندوق کے زور پر مجبور نہیں کیا۔ یہی آزادی اختیار تو انسان کو انسان بناتا ہے اور یہی تو اس دارالامتحان کی بنیاد ہے
۔
 ====عظیم نامہ====