ذکر کثیر سے مراد
قران حکیم میں متعدد مقامات پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ کی یاد یعنی ذکر کا کثرت سے اہتمام کرو. جیسے سورہ الاحزاب میں حکم ہوا کہ " یَآ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُواللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا۔ اے اہل ایمان تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو"
.
اسی طرح مختلف اسلوب و پیرائیوں میں قران و حدیث دونوں ذکر الہیٰ کا کثرت سے اہتمام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں. جیسے سورہ آل عمران کی ١٩١ آیت میں آئے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں "جو اللہ تعالٰی کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں .." ذکر الہیٰ کی اسی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر مختلف اہل علم ذکر اور کثیر دونوں الفاظ کی تشریحات پیش کرتے رہے ہیں. کچھ کے نزدیک کثرت زمانے کے عرف سے جانچی جاسکتی ہے. گویا فی زمانہ کسی عمل یا تسبیح کا کثیر ہونا یا نہ ہونا مختلف ہوسکتا ہے. اسی طرح بعض صوفیاء نے ذکر کثیر سے مراد یہ لی ہے کہ ذکر اتنی کثرت سے کیا جائے کہ کوئی دوسرا اختیاری یا طبعی فعل اس سے آگے نہ بڑھ پائے. یہ بزرگ یہاں تک تلقین کرتے ہیں کہ ذکر آپ کی قلبی دھڑکن سے بھی کم نہ ہو. چانچہ ذکر سے متعلق مختلف طریق و ریاضتیں اس ضمن میں اختیار کی جاتی ہیں. ذکر جہری، ذکر سری، ذکر جلی، ذکر خفی، ذکر لسانی، ذکر قلبی، ذکر انفرادی، ذکر اجتماعی اور اس طرح کی دیگر اصطلاحات عام ہیں.
.
راقم کی عاجز رائے میں یہ عمومی مقبول تشریحات نامکمل اور غیرفطری ہیں. (اللہ اعلم بالصواب) قبل اسکے کہ میں اپنی ناقص سمجھ قلمبند کروں، مناسب ہوگا کہ پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ ذکر اپنی اصل میں ہے کیا؟ اور اس کا مقصود کیا ہے؟ ذکر کا قریب ترین ترجمہ یاددہانی یا انگریزی میں لفظ 'ریمائنڈر' سے کیا جاسکتا ہے. یاددہانی ہمیشہ اس بات کی کرائی جاتی ہے جو آپ کو پہلے کسی درجے معلوم ہو مگر بھول جانے کے احتمال سے بچنے کیلئے اسے دہرایا جائے. گویا ہر وہ بات یا ذکر جو آپ کو اللہ پاک کی یاد سے جوڑے یا رب العزت کے سامنے جواب دہی کے احساس کو ابھارے، وہ ذکر الہیٰ ہے. اسے کچھ خاص اذکار، وظائف، استغفار یا تسبیحات تک محدود سمجھنا ایک صریح غلطی ہے. قران حکیم پنجگانہ نماز کو بھی ذکر تعبیر کرتا ہے اور سب سے بڑھ خود کو الذکر یعنی سب سے بڑا ذکر قرار دیتا ہے. سورہ البقرہ کی ٢٠٠ آیت میں درج مشرکین مکہ کو یہ الہامی تنبیہہ بھی "ذکر" کو سمجھنے کیلئے نہایت اہم ہے "فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا. اللہ کا خوب ذکر کیا کرو جیسے تم اپنے باپ دادا کا (بڑے شوق سے) ذکر کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ شدت شوق سے (اللہ کا) ذکر کیا کرو‘‘۔ دیکھیئے کیسی خوبی سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ ذکر الہیٰ فقط مخصوص کلمات نہیں. ظاہر ہے کہ مشرکین اپنے باپ دادا کا ذکر توصیفی انداز میں ایک دوسرے سے کیا کرتے تھے. اللہ پاک نے فرمایا کہ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شوق سے میرا ذکر کیا کرو.
.
یہاں دھیان رہے کہ ہم کسی مخصوص ذکر یا تسبیح پڑھنے کی نفی نہیں کر رہے بلکہ یہ بتا رہے ہیں کہ ذکر اپنے وسیع حقیقی معنوں میں صرف ان تک محدود نہیں ہے. وگرنہ ظاہر ہے کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مختلف مخصوص اذکار کے اہتمام کی تلقین کی ہے. جیسے کے ابتدا میں عرض کیا کہ ہر طرح کا ذکر اپنی اصل میں رب سے جڑے رہنے کی سعی ہے. بعض لوگ ذکر کا اصل مقصد 'سکون قلب' سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل میں سورہ الرعد کی ١٣ آیت پیش کرتے ہیں "أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ- جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس آیت میں مقصد کا بیان نہیں ہے بلکہ ذکر الہیٰ کے نمائندہ ثمرات میں سے ایک کا بیان ہے. اب جب اس مقام پر ذکر الہیٰ کی تعریف و مقصدیت واضح ہوگئی تو اسی کی روشنی میں یہ جائزہ بھی لے لیتے ہیں کہ کثرت یا مرکب لفظ ذکر کثیر سے کیا مراد ہے؟
.
ذکر کثیر اپنی حقیقت میں رب کو شب و روز مختلف انداز سے یاد کرنے یا رکھنے کا نام ہے. قران حکیم کی تلاوت و تدبر ہو، نماز قائم کرنا ہو، تسبیحات پڑھنا ہو، ہر کام کی ابتداء میں بسم اللہ اور آخر میں الحمدللہ کہنا ہو، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکھائی گئی روزمرہ کی دعائیں ہوں، دعوت و تبلیغ کی سرگرمی ہو، اصلاحی بیان سننا یا کہنا ہو. یہ اور ایسے ہی لاتعداد دیگر مظاہر دراصل ذکر الہی کی ہی مختلف اشکال ہیں. گویا درکار یہ ہے کہ بندہ اپنے معبود کو فقط ایک خیالی تصور خیال نہ کرے بلکہ اسے ایک زندہ حقیقت جانے. رب کی یاد کو عبادت و پرستش کے مظاہر تک ہی محدود نہ کردے بلکہ اپنے معاشی، سماجی، اخلاقی، خاندانی ، غرض زندگی کے ہر دائرے کو یاد الہی سے مزین رکھے. یہی ہماری عاجز و ناقص رائے میں ذکر کثیر کی تعریف بھی ہے اور ذکر کثیر کی معراج بھی..
.
اسی طرح مختلف اسلوب و پیرائیوں میں قران و حدیث دونوں ذکر الہیٰ کا کثرت سے اہتمام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں. جیسے سورہ آل عمران کی ١٩١ آیت میں آئے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں "جو اللہ تعالٰی کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں .." ذکر الہیٰ کی اسی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر مختلف اہل علم ذکر اور کثیر دونوں الفاظ کی تشریحات پیش کرتے رہے ہیں. کچھ کے نزدیک کثرت زمانے کے عرف سے جانچی جاسکتی ہے. گویا فی زمانہ کسی عمل یا تسبیح کا کثیر ہونا یا نہ ہونا مختلف ہوسکتا ہے. اسی طرح بعض صوفیاء نے ذکر کثیر سے مراد یہ لی ہے کہ ذکر اتنی کثرت سے کیا جائے کہ کوئی دوسرا اختیاری یا طبعی فعل اس سے آگے نہ بڑھ پائے. یہ بزرگ یہاں تک تلقین کرتے ہیں کہ ذکر آپ کی قلبی دھڑکن سے بھی کم نہ ہو. چانچہ ذکر سے متعلق مختلف طریق و ریاضتیں اس ضمن میں اختیار کی جاتی ہیں. ذکر جہری، ذکر سری، ذکر جلی، ذکر خفی، ذکر لسانی، ذکر قلبی، ذکر انفرادی، ذکر اجتماعی اور اس طرح کی دیگر اصطلاحات عام ہیں.
.
راقم کی عاجز رائے میں یہ عمومی مقبول تشریحات نامکمل اور غیرفطری ہیں. (اللہ اعلم بالصواب) قبل اسکے کہ میں اپنی ناقص سمجھ قلمبند کروں، مناسب ہوگا کہ پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ ذکر اپنی اصل میں ہے کیا؟ اور اس کا مقصود کیا ہے؟ ذکر کا قریب ترین ترجمہ یاددہانی یا انگریزی میں لفظ 'ریمائنڈر' سے کیا جاسکتا ہے. یاددہانی ہمیشہ اس بات کی کرائی جاتی ہے جو آپ کو پہلے کسی درجے معلوم ہو مگر بھول جانے کے احتمال سے بچنے کیلئے اسے دہرایا جائے. گویا ہر وہ بات یا ذکر جو آپ کو اللہ پاک کی یاد سے جوڑے یا رب العزت کے سامنے جواب دہی کے احساس کو ابھارے، وہ ذکر الہیٰ ہے. اسے کچھ خاص اذکار، وظائف، استغفار یا تسبیحات تک محدود سمجھنا ایک صریح غلطی ہے. قران حکیم پنجگانہ نماز کو بھی ذکر تعبیر کرتا ہے اور سب سے بڑھ خود کو الذکر یعنی سب سے بڑا ذکر قرار دیتا ہے. سورہ البقرہ کی ٢٠٠ آیت میں درج مشرکین مکہ کو یہ الہامی تنبیہہ بھی "ذکر" کو سمجھنے کیلئے نہایت اہم ہے "فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا. اللہ کا خوب ذکر کیا کرو جیسے تم اپنے باپ دادا کا (بڑے شوق سے) ذکر کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ شدت شوق سے (اللہ کا) ذکر کیا کرو‘‘۔ دیکھیئے کیسی خوبی سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ ذکر الہیٰ فقط مخصوص کلمات نہیں. ظاہر ہے کہ مشرکین اپنے باپ دادا کا ذکر توصیفی انداز میں ایک دوسرے سے کیا کرتے تھے. اللہ پاک نے فرمایا کہ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شوق سے میرا ذکر کیا کرو.
.
یہاں دھیان رہے کہ ہم کسی مخصوص ذکر یا تسبیح پڑھنے کی نفی نہیں کر رہے بلکہ یہ بتا رہے ہیں کہ ذکر اپنے وسیع حقیقی معنوں میں صرف ان تک محدود نہیں ہے. وگرنہ ظاہر ہے کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مختلف مخصوص اذکار کے اہتمام کی تلقین کی ہے. جیسے کے ابتدا میں عرض کیا کہ ہر طرح کا ذکر اپنی اصل میں رب سے جڑے رہنے کی سعی ہے. بعض لوگ ذکر کا اصل مقصد 'سکون قلب' سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل میں سورہ الرعد کی ١٣ آیت پیش کرتے ہیں "أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ- جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس آیت میں مقصد کا بیان نہیں ہے بلکہ ذکر الہیٰ کے نمائندہ ثمرات میں سے ایک کا بیان ہے. اب جب اس مقام پر ذکر الہیٰ کی تعریف و مقصدیت واضح ہوگئی تو اسی کی روشنی میں یہ جائزہ بھی لے لیتے ہیں کہ کثرت یا مرکب لفظ ذکر کثیر سے کیا مراد ہے؟
.
ذکر کثیر اپنی حقیقت میں رب کو شب و روز مختلف انداز سے یاد کرنے یا رکھنے کا نام ہے. قران حکیم کی تلاوت و تدبر ہو، نماز قائم کرنا ہو، تسبیحات پڑھنا ہو، ہر کام کی ابتداء میں بسم اللہ اور آخر میں الحمدللہ کہنا ہو، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکھائی گئی روزمرہ کی دعائیں ہوں، دعوت و تبلیغ کی سرگرمی ہو، اصلاحی بیان سننا یا کہنا ہو. یہ اور ایسے ہی لاتعداد دیگر مظاہر دراصل ذکر الہی کی ہی مختلف اشکال ہیں. گویا درکار یہ ہے کہ بندہ اپنے معبود کو فقط ایک خیالی تصور خیال نہ کرے بلکہ اسے ایک زندہ حقیقت جانے. رب کی یاد کو عبادت و پرستش کے مظاہر تک ہی محدود نہ کردے بلکہ اپنے معاشی، سماجی، اخلاقی، خاندانی ، غرض زندگی کے ہر دائرے کو یاد الہی سے مزین رکھے. یہی ہماری عاجز و ناقص رائے میں ذکر کثیر کی تعریف بھی ہے اور ذکر کثیر کی معراج بھی..
.
====عظیم نامہ====
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment