خام خیالی
یہ محض خام خیالی ہے کہ اگر فلاں ملحد فلاں فلاں غیبی حقیقت سامنے دیکھ لے
یا سن لے تو وہ ایمان لے آئے گا. حقیقت یہ ہے کہ جو شخص علمی دلائل سے خالق
کو نہیں پہچانتا، اپنی فطرت و وجدان میں رب کا سراغ نہیں پاتا وہ کسی
معجزاتی حقیقت کو بھی دیکھ کر کبھی حق تسلیم نہیں کرسکتا. انکار کرنے والے
کیلئے وجود خدا کا کوئی ثبوت نہیں اور ماننے والے کیلئے یہ پوری کائنات
اپنے خالق کی موجودگی و عظمت پر شاہد ہے.
.
ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے
.
آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگر ایک ملحد کو خدا کی آواز سنائی دے جو اسے بتائے کہ میں تمہارا خدا ہوں، مجھ پر ایمان لے آؤ تو کیا وہ واقعی ایمان لے آئے گا؟ .. ہر گز نہیں ! بلکہ وہ اسے اپنا دماغی خلل تصور کرے گا اور اسی پر اصرار کرتا رہے گا. آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگر ایک کٹر ملحد کو فرشتے یا جنات نظر آجائیں تو وہ ایمان لے آئے گا؟ قطعی نہیں ! بلکہ وہ اسے 'ھلوسنیشن' یعنی تصوراتی دھوکے سے تعبیر کرے گا. آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگر ایک پکا ملحد کسی پیر فقیر کو ہوا میں اڑتا یا پانی پر چلتا دیکھے تو ایمان لے آئے گا؟ بالکل نہیں ! بلکہ وہ اسے کرتب یا 'ہیپناٹزم' قرار دے دے گا.
.
یہ ایمان لانے کا 'احسان' اسی وقت کرسکتے ہیں جب خدا اپنی بادشاہی سمیت سارے غیب کے پردے چاک کرکے اس پوری خلق انسانی کو نظر آنے لگے. مگر اگر سب سامنے آنے کے بعد ہی ماننا ہے تو پھر کاہےکا امتحان؟ جیسے محاورہ ہے کہ 'آمد آفتاب - دلیل آفتاب' یعنی سورج کا طلوع ہونا سورج کے ہونے پر دلیل ہوتا ہے. ظاہر ہے جب سورج کو سب نے دیکھ لیا تو کون ہے جو سورج کے ہونے کا انکار کرے گا؟ مگر حضرت اس میں آپ کا کیا کمال ہوا ؟ اگر خدا کو اپنا وجود یونہی منوانا ہوتا اور اپنی اطاعت انسانیت سے یونہی کروانی ہوتی تو پھر اس دنیا میں امتحان کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا. تقاضہ تو یہ ہے کہ جیسے تصویر کو دیکھ کر مصور کو جان لیتے ہو، دھواں دیکھ کر آگ لگنے کا یقین کرلیتے ہو، مکان دیکھ کر معمار کو سوچ لیتے ہو - ویسے ہی اس پر ہیبت کائنات کو اور اس بے جان مادے سے اٹھنے والے اپنے باشعور وجود کو دیکھ کر خالق بزرگ و برتر خدائے رب العزت کو پہچان جاؤ. اور اگر پھر بھی یہ چاروں اطراف بکھری ان گنت نشانیاں تمہیں اپنے رب کا سراغ نہیں دیتی؟ تم پھر بھی ہٹ دھرمی سے یہ پکارتے رہتے ہو کہ مجھے خدا کا ثبوت حاصل نہیں تو پھر ڈوبے رہو اسی الحاد و شکوک کی دلدل میں اور انتظار کرو اپنی موت کا یا پھر ہمارے بقول اس روز جزاء کا جب ہر انسان اپنے کیئے کا بدلہ پائے گا.
.
".... اور اگر اللہ چاہتا تو ضرور تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ اس کے ذریعہ جو اس نے تمہیں دیا تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔ پس تم نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کا لَوٹ کر جانا ہے۔ پس وہ تمہیں ان باتوں کی حقیقت سے آگاہ کرے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔" (سورہ المائدہ ٤٨)
.
====عظیم نامہ====
.
ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے
.
آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگر ایک ملحد کو خدا کی آواز سنائی دے جو اسے بتائے کہ میں تمہارا خدا ہوں، مجھ پر ایمان لے آؤ تو کیا وہ واقعی ایمان لے آئے گا؟ .. ہر گز نہیں ! بلکہ وہ اسے اپنا دماغی خلل تصور کرے گا اور اسی پر اصرار کرتا رہے گا. آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگر ایک کٹر ملحد کو فرشتے یا جنات نظر آجائیں تو وہ ایمان لے آئے گا؟ قطعی نہیں ! بلکہ وہ اسے 'ھلوسنیشن' یعنی تصوراتی دھوکے سے تعبیر کرے گا. آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگر ایک پکا ملحد کسی پیر فقیر کو ہوا میں اڑتا یا پانی پر چلتا دیکھے تو ایمان لے آئے گا؟ بالکل نہیں ! بلکہ وہ اسے کرتب یا 'ہیپناٹزم' قرار دے دے گا.
.
یہ ایمان لانے کا 'احسان' اسی وقت کرسکتے ہیں جب خدا اپنی بادشاہی سمیت سارے غیب کے پردے چاک کرکے اس پوری خلق انسانی کو نظر آنے لگے. مگر اگر سب سامنے آنے کے بعد ہی ماننا ہے تو پھر کاہےکا امتحان؟ جیسے محاورہ ہے کہ 'آمد آفتاب - دلیل آفتاب' یعنی سورج کا طلوع ہونا سورج کے ہونے پر دلیل ہوتا ہے. ظاہر ہے جب سورج کو سب نے دیکھ لیا تو کون ہے جو سورج کے ہونے کا انکار کرے گا؟ مگر حضرت اس میں آپ کا کیا کمال ہوا ؟ اگر خدا کو اپنا وجود یونہی منوانا ہوتا اور اپنی اطاعت انسانیت سے یونہی کروانی ہوتی تو پھر اس دنیا میں امتحان کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا. تقاضہ تو یہ ہے کہ جیسے تصویر کو دیکھ کر مصور کو جان لیتے ہو، دھواں دیکھ کر آگ لگنے کا یقین کرلیتے ہو، مکان دیکھ کر معمار کو سوچ لیتے ہو - ویسے ہی اس پر ہیبت کائنات کو اور اس بے جان مادے سے اٹھنے والے اپنے باشعور وجود کو دیکھ کر خالق بزرگ و برتر خدائے رب العزت کو پہچان جاؤ. اور اگر پھر بھی یہ چاروں اطراف بکھری ان گنت نشانیاں تمہیں اپنے رب کا سراغ نہیں دیتی؟ تم پھر بھی ہٹ دھرمی سے یہ پکارتے رہتے ہو کہ مجھے خدا کا ثبوت حاصل نہیں تو پھر ڈوبے رہو اسی الحاد و شکوک کی دلدل میں اور انتظار کرو اپنی موت کا یا پھر ہمارے بقول اس روز جزاء کا جب ہر انسان اپنے کیئے کا بدلہ پائے گا.
.
".... اور اگر اللہ چاہتا تو ضرور تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ اس کے ذریعہ جو اس نے تمہیں دیا تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔ پس تم نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کا لَوٹ کر جانا ہے۔ پس وہ تمہیں ان باتوں کی حقیقت سے آگاہ کرے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔" (سورہ المائدہ ٤٨)
.
====عظیم نامہ====
ما شا اللہ
ReplyDeleteخوب انداز تحریر