Monday, 30 July 2018

جانوروں کا درد


جانوروں کا درد 


چندروز قبل کچھ ظالم شیطانوں نے ایک گدھے پر نوازشریف لکھ کر اس بےزبان کو مار مار کر ادھ موا کردیا۔ اب پھر کچھ شیاطین نے ایک کتے پر پی ٹی آئی کا جھنڈا باندھ کر، اس بے زبان کو گولیوں سے تڑپا تڑپا کر ہلاک کردیا۔ کیسے لوگ ہیں ہم؟ کیا ہم اسی دین کے نام لیوا ہیں جو ہمیں ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے پر اخروی نجات کی بات بتاتا ہے؟ اور ایک بلی کو بھوکا مارنے پر ابدی جہنم کا واقعہ سناتا ہے؟ آخر کب ہم بحیثیت قوم شعور کی منزل طے کریں گے؟ ہماری روح کیوں نہیں کانپتی جب ہم لوگوں کو بطور مزاح آوارہ کتوں بلیوں کو پتھر مارکے زخمی کرتے دیکھتے ہیں؟ ہماری آنکھ کیوں نہیں بھیگتی جب اس کے سامنے کسی بےزبان گدھے کو اس کا مالک چھڑی سے مار مار کر لہولہان کردیتا ہے تاکہ وہ اپنی قوت سے بڑھ کر بوجھ اٹھاسکے؟ یاد رکھیں انسانی جان کی قدر بھی ہم اسوقت تک نہیں کرسکتے جب تک ہمارے دل ان بے زبان جانوروں کا درد محسوس نہیں کرتے۔
۔
====عظیم نامہ====

احتساب ہوگا .. ضرور ہوگا


احتساب ہوگا .. ضرور ہوگا


.
ملک سے لوٹی گئی دولت کا جب ہم سنتے ہیں تو کیا سوچتے ہیں؟ یہی نا کہ وہ دولت واپس لائی جائے اور یہ سلسلہ آئندہ کیلئے بند ہوسکے؟ اس کی تین بڑی ممکنہ صورتیں ہم سب ہی سوچتے یا جانتے ہیں
.
١. لوٹی ہوئی ساری دولت واپس لائی جائے، مجرموں کو سزا ملے اور آئندہ کیلئے یہ سلسلہ بند ہو
.
٢. لوٹی ہوئی دولت کا جتنا حصہ ممکن ہوسکے واپس لایا جائے، جو مجرم گرفت میں آسکیں انہیں سزا ملے اور آئندہ کیلئے یہ سلسلہ بند ہو
.
٣. لوٹی ہوئی دولت واپس نہ بھی آپائے اور مجرمین سزا سے بچ بھی جائیں تب بھی آئندہ کیلئے یہ سلسلہ بند ہو
.
اس تمہید کو پڑھ کر آپ یقیناً اس تحریر کو سیاسی سمجھ بیٹھے ہونگے. لیکن نہیں ! .. بلکہ یہاں مقصد یہ ہے کہ آپ اور ہم مل کر اپنے ذاتی خرچوں اور بینک بیلنس کا جائزہ لیں. اپر لکھے تین امکانات جنہیں ہم سب ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کیلئے بیان کرتے ہیں، ان ہی امکانات کا اطلاق ہم اپنی معیشت یعنی اخراجات و بچت پر کریں اور پھر دیکھیں کہ ہماری تنخواہ و دولت کہاں غائب ہو رہی ہے؟ کون ہے جو ہماری ممکنہ بچت کو لے اڑتا ہے؟ اور کیسے اسے آئندہ کیلئے نہ صرف روکا جائے بلکہ کوشش کی جائے کہ جو چلا گیا اسے کسی حد تک واپس لایا جاسکے؟
.
اگر آپ کا مزاج مجھ سے ملتا جلتا ہے تو یقیناً آپ کیلئے بھی بینک اسٹیٹمنٹ یا حساب کتاب دیکھنا کٹھن اور کوفت زدہ ہوتا ہوگا. مگر لازمی ہے کہ ہم اسکے باوجود ایک ایسی کاپی یا 'ایکسل شیٹ' بنائیں جس میں ہماری ماہانہ آمدنی اور ماہانہ اخراجات بلترتیب لکھے ہوئے ہوں. ایسا کرنے کیلئے آپ کو کوئی معاشیات کا ماہر نہیں بننا پڑے گا. بس اپنے سابقہ بینک اسٹیٹمنٹس کو دیکھتے ہوئے سادگی سے ایک جانب آمدنی لکھیں، دوسری طرف اخراجات کے نام ثبت کریں اور تیسری جانب خرچ ہونے والی رقم لکھ لیجیئے. یہ کرنا ممکن ہے آپ کی طبیعت پر شدید گراں گزرے مگر ایک بار جو آپ نے یہ کرلیا تو اب آپ کے سامنے اپنے اخراجات کی ایک کھلی تصویر آجائے گی جسے دیکھتے ہوئے آپ کو یہ اندازہ ہوسکے گا کہ بڑے اخراجات کون سے ہیں؟ مخفی خرچے کون سے ہیں؟ اور فضول خرچی کہاں ہورہی ہے؟ . اسکے بعد آپ ممکنہ طور پر سمجھ پائیں گے کہ کہاں خرچہ کم کیا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی ایسا خرچہ ہے جسے روکا جاسکے؟ کیا کوئی ایسی شے ہے جو آپ کسی اور سے کم قیمت پر لےسکیں؟ کیا کوئی ایسا بل تو موجود نہیں جو آپ سے زیادہ پیسے لے رہا ہے یا جس سے آپ اپنے پیسے واپس طلب کرسکیں؟ کوئی ایسا معاملہ تو نہیں جو سود کی صورت میں آپ کی تنخواہ کا حصہ کھا رہا ہے؟ -
.
یقین کیجیئے کہ اکثر کیسز میں اپنے بینک اکاؤنٹ کی یہ خود احتسابی ایک بڑی بچت کا سبب بن سکتی ہے. کچھ اور نہیں تو اتنا تو ضرور ہوگا کہ آپ فضول خرچی پر بہتر انداز میں نظر رکھ سکیں گے. ساتھ ہی اپنی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کیجیئے. یہ دیکھیئے کہ کیا بہتر نوکری یا کاروبار ممکن ہے؟ کیا پارٹ ٹائم انکم کا کوئی امکان ہے؟ اگر آپ نے کسی کو قرض دیا تھا تو کیا وہ واپس مل سکتا ہے؟ اگر بینک کی جانب سے قرضہ آپ پر ہے تو سود سے بچنے کا کوئی امکان ہے؟ کیا اپنے گھر کی کوئی شے یا زیور یا زمین بیچ کر قرضے سے نکلنا ممکن ہے؟ .. غرض ایسے بہت سے امکانات ہیں جن کا آپ جائزہ لے کر اپنی معاشی حالت کو بہتری کی جانب لے جاسکتے ہیں. گو اسکے لئے آپ کو کمر کسنا ہوگی اور نظر چرانے کی بجائے صورتحال کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا.
.
====عظیم نامہ====
.

(نوٹ: ہمیں اپنے عملی تجربے سے جو سود مند لگا وہ قارئین کیلئے بھی درج کردیا.البتہ راقم آپ کی ذاتی معاشی مشکلات کا نہ مداوا کرسکتا ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی مشورہ دے سکتا ہے
)

گھٹیا فعل


گھٹیا فعل


کچھ دیر قبل کسی نے ایک ویڈیو کلپ بھیجا جس میں بطور مذاق ایک سات آٹھ سال کے بچے کو بیوقوف بنا کر اس کی نیکر اتار دی گئی. وہ بچہ چیخیں مار مار کر شرم سے رو رہا ہے لیکن ساتھ کھڑے اسکے بےغیرت رشتہ دار نہ صرف اس بچے کی بے بسی پر قہقہے لگا رہے ہیں بلکہ اسکی ویڈیو بھی بنا رہے ہیں. یقین کیجیئے یہ پہلی بار نہیں ہے جب میرے سامنے ایسا ویڈیو کلپ آیا ہو. میں ایسے واقعات بہت بار سن یا دیکھ چکا ہوں جہاں کسی بچے یا سادہ مزاج انسان کو مذاق کا نشانہ بناتے ہوئے دھوکے سے برہنہ کردیا جاتا ہے. ہمارے ملک میں ذہنی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ لوگ اسے لطیفہ سمجھ کر لوٹ پوٹ ہوتے ہیں. حالانکہ یہ ایسا گھٹیا فعل ہے جس پر کرنے والے کا منہ توڑ دینا چاہیئے. ان ذہنی مفلوج لوگوں کو یہ اندازہ بھی نہیں کہ وہ اس بچے یا انسان کو کیسا ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں؟ جو ممکن ہے ساری زندگی اس کی نفسیات پر تباہ کن اثرات مرتب کرے. خدا کیلئے ایسے کسی مذاق پر دانت نکالنا بند کریں اور سمجھیں کہ اس طرح کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنا کریہہ ترین جرم اور گناہ کبیرہ ہے.
.
====عظیم نامہ====

اِدھر اُدھر کی معلومات



اِدھر اُدھر کی معلومات 


شہد کی مکھی جب کسی انسان یا جانور کو ڈنک مارتی ہے تو ایسا کرنا درحقیقت اسکے لئے خود کشی ثابت ہوتا ہے. شہد کی مکھی ڈنک مار کر جب اڑتی ہے تو اس کا ڈنک انسانی و حیوانی چمڑی میں پھنس کر ٹوٹ جاتا ہے. یہی نہیں بلکہ اس کے معدے کا کچھ حصہ، ہاضمے کی نالی، کچھ نسیں اور جسمانی پٹھے بھی کاٹنے والی جگہ میں پیوست ہو کر ٹوٹ جاتے ہیں. نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ڈنک مارنے کے بعد کچھ ہی دیر میں شہد کی مکھی کی موت ہوجاتی ہے.
.
مچھر کے کاٹنے سے ہوجانے والا دانہ ہم سب ہی کو تنگ کرتا ہے. مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ دانہ ہوتا کیوں ہے؟ دراصل جب مچھر خون چوسنے آپ کی کھال پر بیٹھتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے تھوک کے ذریعے جسم کی اس جگہ کو سن یعنی غیر حساس کرتا ہے جہاں سے خون چوسنا ہے. وہ ڈنک کے ذریعے اپنے لعاب کو آپ کے جسم میں داخل کردیتا ہے. یہی وجہ ہے کہ اکثر افراد کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ کوئی مچھر ڈریکولا بنا ان کے خون کا سافٹ ڈرنک پی رہا ہے. یہی لعاب یا تھوک ہمارے جسم سے الرجک ری ایکشن کرتا ہے تو جسم پر دانہ نمودار ہوجاتا ہے. اگر مچھر کو اسکی کاروائی کے دوران اڑا دیا جائے یا مار دیا جائے تو دانہ ہوجانے کا امکان بھی زیادہ ہوجاتا ہے. اسی طرح اگر دانہ ہوجانے کے بعد اسے رگڑا جائے تو مچھر کا یہ زہریلا لعاب مزید حصے پر پھیل کر اس دانے کو اور بھی تکلیف دہ اور حجم میں بڑا بنا دیتا ہے.
.
====عظیم نامہ====

ہلکی پھلکی معلومات


ہلکی پھلکی معلومات


.
کبھی سوچا کہ پیراسیٹامول یا پیناڈول وغیرہ کھانے سے ہمارا درد کیسے دور ہو جاتا ہے؟ اور اس دوا کو کیسے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں جسم کے کس حصے میں درد ہو رہا ہے؟ گویا درد سر میں ہو یا ٹانگ میں - پیراسیٹامول کھانے سے افاقہ کیونکر ممکن ہوتا ہے؟
.
دراصل دوا کو یہ قطعی معلوم نہیں ہوتا کہ درد کہاں ہورہا ہے؟ اس میں شامل اجزاء کا کام فقط اتنا ہے کہ وہ جسم میں پیدا ہونے والے ایک خاص کیمکل (پرسوٹاگلینڈن) کی پیداوار پر روک لگا دیتا ہے. عموماً یہ کیمکل درد اور حرارت بڑھانے کا کام کرتا ہے. لہٰذا اس کی پیداوار رکنے سے درد کی شدت کم محسوس ہوتی ہے. یہ بھی یاد رکھیں کہ ہمارے جسم کی ہر نس کے کنارے سے درد کے پیغامات ہمارے دماغ تک پہنچتے ہیں. پیراسیٹامول جیسی ادویات ان درد کے سگنلز یا پیغامات پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں. جس کی وجہ سے ہمارا دماغ ویسا درد محسوس نہیں کرپاتا جیسا دوا کے اثر ہونے سے قبل کررہا تھا.
.
کبھی سوچا کہ ایلفی یعنی گلو جس کی چپک ہر سخت شے پر نہایت شدید ہوتی ہے، اپنی ٹیوب کے اندر کیوں نہیں چپکتا؟
.
دراصل یہ ایلفی گلو اپنی ٹیوب کے اندر مائع (پانی) کی صورت موجود ہوتا ہے. لیکن جیسے ہی یہ اپنی ٹیوب سے باہر آتا ہے تو اطراف میں موجود ہوا سے ری ایکٹ کر کے اسکا پانی بھاپ کی صورت اڑ جاتا ہے جس سے ایلفی گلو فوری چپک جاتا ہے. دوسرے الفاظ میں ایلفی کی ٹیوب ایلفی گلو کو ہوا سے محفوظ رکھتی ہے، جسکے نتیجے میں ایلفی کا مواد گیلا (مائع) ہی رہتا ہے اور ہوا نہ ملنے کے سبب چپکتا نہیں.
.
====عظیم نامہ====

چھلنی کرتا ہوا صدمہ


چھلنی کرتا ہوا صدمہ


بعض اوقات دل کو چھلنی کرتا ہوا صدمہ بھی بندے کو اپنے رب کے قریب لے آتا ہے. انسان عجیب مطلب پرست ہے، مسرتوں میں ایسا مگن ہوتا ہے کہ گناہوں سے بچنے کی پرواہ ہی چھوڑ دیتا ہے. مومن کا مغموم دل بھلے کسی بھی دکھ کی بدولت ہو ، اپنے رب کے حضور اشک ریزی کا سبب بن ہی جاتا ہے. شائد یہی وجہ رہی ہو کہ بیشمار ولی عشق مجازی میں ٹوٹے تب ہی عشق حقیقی میں راہ پاسکے. پھر وہ مخلوق کی تکلیف کو اپنے سینے میں موجزن پاتے ہیں. پھر ان کی روح اپنے رب کے فراق میں پل پل سسکتی ہے. اس مسلسل کرب کا اندازہ کون کرسکتا ہے ؟ مگر کتنے ہی اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جو اس درد کی آرزو کرتے ہیں.
.
درد سے میرا دامن بھر دے ... یا اللہ !
پھر چاہے دیوانہ کردے ... یا اللہ !
.
میں نے تجھ سے چاند ستارے کب مانگے؟
روشن دل، بیدار نظر دے ... یا اللہ !
.
سینہ تان کے چلتا رہنے دے مجھ کو
دینا ہے تو اپنا ڈر دے ... یا اللہ !

یا دھرتی کے زخموں پر مرہم رکھ دے
یا میرا دل پتھر کر دے ... یا اللہ !

.
====عظیم نامہ====

ایک ہی خواہش


ایک ہی خواہش


ایک نے ووٹ بلے کو دیا کہ وہ اس کرپٹ نظام کا خاتمہ اور کرپٹ سیاستدانوں کا محاسبہ چاہتا ہے.
ایک نے ووٹ شیر کو دیا کہ وہ اسٹیٹس-کو اور اسٹیبلشمنٹ کو نیچا دیکھانا چاہتا ہے.
ایک نے ووٹ پتنگ کو دیا کہ وہ اپنے شہر میں صفائی اور رونق دوبارہ دیکھنا چاہتا ہے.
ایک نے ووٹ کتاب کو دیا کہ وہ اسے اسلامی نظام کی جانب پیش رفت سمجھتا ہے.
ایک نے ووٹ دیا ہی نہیں کہ وہ چہروں کا نہیں بلکہ اس باطل نظام کا خاتمہ چاہتا ہے.
.
تمام تر سیاسی اختلاف و رنجش کے باوجود ان میں سے ہر ایک کے دل میں صرف اور صرف ایک ہی خواہش ہے - اور وہ ہے پاکستان کی خوشحالی - پاکستان کا بہتر مستقبل - امن و انصاف کی جیت - کرپشن و دہشت گردی سے نجات. گویا ہر پاکستانی کی تمنا ایک ہی ہے.
.
لہٰذا جو بھی جیتے، ایک دوسرے کو جھپی ڈال لیں. آج پچیس جولائی کو دعا ہم سب کی یہی ہونی چاہیئے کہ رب کریم اس مملکت خداداد کو استحکام و ترقی عطا فرمائے اور اسے امن و اسلام کا گہوارہ بنا دے. آمین یا رب العالمین.
.
====عظیم نامہ====

کہیں آپ پھر سے ماموں تو نہیں بن رہے


کہیں آپ پھر سے ماموں تو نہیں بن رہے؟


.
وہ 'دانشور' جو سوشل میڈیا پر آپ کو یہ پٹی پڑھاتے تھے کہ عمران صرف فیس بک پر ہی وزیر اعظم تھا اور اب وہ بھی انکی بدولت پچھلے سال سے نہیں رہا.
.
وہ 'عالی دماغ' جو آپ کو یہ کہہ کر ہنساتے تھے کہ عمران میراثی ہے اور پورا پنڈ چوہدری بن سکتا ہے - میراثی نہیں بن سکتا.
.
وہ 'اسکالرز' جو شریف خاندان کے ہر سیاہ کو سفید اور عمران کے ہر سفید کو بھی سیاہ بناکر پیش کرتے رہے.
.
وہ 'تہذیب یافتہ' جو ایک جانب عمران کے حامیوں کی بداخلاقی کا رونا روتے تھے اور دوسری جانب اسے 'کوکین شاہ'، 'طالبان خان'، 'یہودی ایجنٹ' وغیرہ کے القاب دے کر اس پر تحقیر آمیز جملے کستے تھے.
.
وہ 'علامہ' جو پانامہ لیکس سے لے کر ڈان لیکس تک اور اقامہ سے لے کر اربوں کی جائیداد تک سیاستدانوں کی جسٹفکیشن دیتے رہے.
.
بتانا یہ تھا کہ وہ زبردست 'تجزیہ نگار' ابھی بھی آپ کی فرینڈ لسٹ میں براجمان ہو کر آپ کو اپنے 'ماہرانہ' تجزیئے دے رہے ہیں. کل تک دھاندھلی کی بات سن کر 'رو عمران رو' کے نعرے مارنے والے آج سینہ کوبی کرتے ہوئے آپ کو سمجھا رہے ہیں کہ دھاندھلی نہیں دھاندھلا ہوا ہے. وہ جو کل موبائل کیمرے کی ویڈیو تصاویر کو پیش کرنے پر ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ عدالت میں جا کر ثابت کرو. آج ویسے ہی ویڈیو کلپس یا تصاویر پوسٹ کرکے رونا ڈالے ہوئے ہیں. انتہائی غلط تجزیئے دینے اور نہایت گمراہ کن پیشن گوئیاں پیش کرنے کے باوجود بھی آج وہ آپ کو اپنی سیاسی بصیرت کے گن گاتے نظر آئیں گے. اس کا ثبوت بھی وہ اپنی پچھلی ایک لاکھ سیاسی پوسٹوں میں سے کسی ایک دو پوسٹوں کو دوبارہ دیکھا کر دیں گے. گو ان ہزاروں غلط اندازوں کو دانستہ چھپا جائیں گے جنہیں آج پڑھ کر عامیانہ لفظ میں فقط 'بونگی' ہی کہا جاسکتا ہے.
.
اب یہ آپ قارئین کی دانست پر ہے کہ اب بھی ان کے عالمانہ تجزیوں پر واری واری جائیں یا پھر پڑھتے ہوئے اپنی یادداشت کو ہاتھ ماریں اور سوچیں کہ خوبصورت الفاظ کے جال بن کر اور تجربے و بردباری کی پوشاک پہن کر پھر سے ہمیں گول شکل کو تکون کرکے تو نہیں دکھایا جا رہا؟ کہیں آپ پھر سے ماموں تو نہیں بن رہے؟
.
====عظیم نامہ====

ایم کیو ایم کیوں ناکام ہوئی


ایم کیو ایم کیوں ناکام ہوئی؟


.
اس سوال کا ایک جواب تو وہ ہے جو ایم کیو ایم کا جذباتی کارکن آپ کو دے گا اور وہ یہی کہ دھاندھلی ہوئی ہے. اس کا ایک اور جواب پی ٹی آئی کا جذباتی کارکن بھی آپ کو دے گا اور وہ یہی کہ ایم کیو ایم کو مافیا مان کر کراچی والو نے اس سے ہمیشہ کیلئے نجات حاصل کرلی ہے. ہماری نظر میں یہ دونوں ہی باتیں حقیقت سے دور اور جذباتیت پر مبنی ہیں. راقم کی نظر میں ایم کیو ایم کی حالیہ ناکامی کے چھ بنیادی اسباب ہیں.
.
١. بانی تحریک الطاف حسین کا ذہنی توازن متاثر ہوجانا، ایسے بیانات دینا یا ویڈیوز میں گانے گانا جو ایک سنجیدہ سربراہ کی پہچان نہیں اور ان کا انڈین ایجنسی راء سے امداد کا اعتراف کرنا. اس کے نتیجے میں مہاجر عوام دو بڑے گروہوں میں نفسیاتی طور پر منقسم ہوگئی. پہلا گروہ جو خود کو پہلے پاکستانی اور بعد میں مہاجر تسلیم کرتا ہے. جب کے دوسرا گروہ وہ جو خود کو پہلے مہاجر اور بعد میں پاکستانی مانتا ہے.
.
٢. مصطفیٰ کمال کا پی ایس پی بنا کر ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے خلاف میڈیا پر تقریریں کرنا. مصطفیٰ کمال کو بھلے کراچی نے ایجنسیوں کا بندہ مان کر الیکشن میں مسترد کردیا ہے مگر اس کے زہر آلود انکشافات نے ایم کیو ایم کے ووٹر کے اذہان کو شدید متاثر کیا.
.
٣. ایم کیو ایم کا تین دھڑوں میں تقسیم ہوجانا اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا. عوام کو نظر آنے لگا کہ الطاف حسین کی منظوری کے بغیر بھی رابطہ کمیٹی کے مختلف لیڈرز نے مال بنایا.
.
٤. کراچی میں اقتدار رکھتے ہوئے ایم کیو ایم کا اسے لاوارث چھوڑ دینا. پیپلز پارٹی نے تو ہمیشہ ہی اس شہر کو لاوارث رکھا مگر اس بار اپنے اختلافات میں ایم کیو ایم ایسی الجھی کہ کراچی کو بلکل ہی چھوڑ بیٹھی. نتیجہ یہ کہ سڑکیں تباہ ہو گئیں اور کچرے کے پہاڑ ہر گلی میں نظر آنے لگے.
.
٥. عمران خان نے پی ٹی آئی کی صورت میں کراچی والو کو ایک متبادل پیش کردیا. چانچہ اس وقت کراچی کا یہ حال ہے کہ میں اپنے خاندان یا محلے یا دوستوں کے کسی ایک گھر سے بھی ایسا آگاہ نہیں ہوں جہاں گھر کے کچھ افراد پی ٹی آئی کے سپورٹر نہ ہوں.
.
٦. الطاف حسین کا خود کو مجبور پاکر ایم کیو ایم (پتنگ) اور الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان. مہاجروں کی ایک تعداد جو آج بھی خود کو قائد تحریک کا جیالا مانتی ہے، اس نے ووٹ ہی نہیں دیا یا پھر پی ٹی آئی کو دے دیا.
.
یہ وہ چھ بنیادی اسباب ہیں جو ایم کیو ایم کی تاریخ ساز شکست کا موجب بنے ہیں. ایم کیو ایم کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ ان اسباب کو سمجھ کر سبق سیکھے، خامیوں کو دور کرے اور پھر اگلی بار اپنی کھوئی ہوئی سیٹوں کو واپس پانا چاہے. کسی کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے ؟ حقیقت یہ ہے کہ کراچی والو کا دل آج بھی کہیں نہ کہیں ایم کیو ایم کیلئے دھڑکتا ہے. کیونکہ یہی وہ جماعت ہے جس نے ان کے ساتھ اس شہر کے ہر سرد و گرم کو بھگتا ہے. مگر ساتھ ہی کراچی کی عوام ایم کیو ایم سے انتہا درجے کی خفا ہے ، غصہ ہے کہ ان کا بھروسہ ٹوٹا ہے. ان کے شہر کو لاوارث چھوڑ دیا ہے. آج پی ٹی آئی کے پاس سنہرا موقع ہے کہ وہ کراچی کی قسمت پلٹ دے. دیکھا دے کہ وہ اس شہر کی قیادت کے واقعی اہل تھے. یہ بھی جان لیں کہ انہیں تھوڑی بہت نہیں بلکہ غیرمعمولی پیش رفت دیکھانا ہوگی ورنہ بہت جلد عوام واپس ایم کیو ایم ہی کے ساتھ ہوگی کہ وہ انہیں 'اپنا' تسلیم کرتے ہیں. ایک بہت برا چیلنج پی ٹی آئی کو یہ بھی درپیش ہوگا کہ کراچی والو کے مسائل دیگر شہر والو جیسے نہیں ہیں بلکہ قبضہ مافیا سے لے کر تاوان و اغوا کے گروہوں تک ہیں. ایم کیو ایم کے ہر علاقے میں قائم سیکٹر آفسوں میں مسائل ایسے بھی آتے رہتے ہیں کہ فلاں فلیٹوں پر فلاں اثر و رسوخ والے گروہ نے غیرقانونی قبضہ کرلیا ، اسے چھڑائیں. یا پولیس والو نے خود ڈکیتی مار کر گھر لوٹ لیا یا فلاں مسلح گینگ ہمارا بیٹا اغوا کرکے لے گیا وغیرہ. ایسے میں ایم کیو ایم خود ایکشن لیتی تھی ، بدمعاشوں کو بدمعاشی کی زبان میں جواب دیتی تھی. جو چاہے اصولی طور پر درست نہ ہو مگر قانون کی عدم موجودگی میں ایک لازمی ضرورت ہے. اب کراچی والو کے ان مسائل کو کون حل کرے گا؟ پی ٹی آئی کے پاس واحد راستہ پولیس کے ادارے کو ایسا شفاف و طاقتور بنانا ہے جو اس طرح کی شکایتوں پر موثر ایکشن لے سکے. میری خواہش ہے کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی میں الحاق ہوجائے اور وہ مل کر اس شہر کی تقدیر بدل سکیں.
.
====عظیم نامہ====

Thursday, 5 July 2018

شدید ناشکرے

 

شدید ناشکرے

.
ایسے لوگ شدید ناشکرے ہوتے ہیں جو خود سے متعلق حالات و واقعات میں فقط عیب ہی نکالتے رہتے ہیں. ہمارے نزدیک یہ ایک طرح کی ذہنی و روحانی بیماری ہے جس کا مریض خود کو مظلوم سمجھنے کی خوش فہمی اور اپنے اردگرد کے ماحول و حالات کو ظالم سمجھنے کی غلط فہمی پالے رکھتا ہے. ایسے ذہنی بیمار جب پاکستان میں ہوتے ہیں تو پاکستان میں انہیں کوئی ایک اچھائی نظر نہیں آتی اور مغربی ممالک انہیں ہر اچھائی کا مرکز نظر آتے ہیں. پھر جب یہی مریض ترقی یافتہ ممالک جیسے انگلینڈ امریکہ وغیرہ میں جا بسیں تو انہیں جہاں بھر کی برائیاں و خامیاں وہاں نظر آنے لگتی ہیں اور پھر اسی آبائی ملک کو یاد کرکرکے ٹسوے بہاتے ہیں جسے گالی دیتے زبان نہیں رکتی تھی. یہ لوگ اگر کوئی کاروبار شروع کریں گے تو ملکی پالیسیوں سے لے کر امارت کی تقسیم تک کا رونا ڈال کر اپنی ناکامی کا ذمہ دار انہیں ٹہراتے رہیں گے اور نوکری کرتے لوگ انہیں خوش قسمت نظر آتے ہیں. مگر جب یہی لوگ نوکری پیشہ بنتے ہیں تو باس سے لے کر کمپنی کی روش تک انہیں شکایت ہی شکایت ہوتی ہے. اب انہیں کامیابی کی کلید کاروبار میں دیکھائی دیتی ہے. غرض ان کے اردگرد حالات واقعات بدلتے رہتے ہیں مگر ان کا رونا نہیں رکتا، بس رونے کا بہانہ بدل جاتا ہے.
.
ہر جگہ اور ہر شے میں کچھ اچھائیاں اور کچھ برائیاں ہوا کرتی ہیں. نہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں اور نہ قریب کی زندگی گلستان. یہ آپ پر ہے کہ آپ شے کی اچھائی یا برائی میں سے کیا زیادہ دیکھنا چاہتے ہیں؟ جو آپ دیکھنا چاہیں گے، یقین کیجیئے وہی آپ کو نظر آئے گا. اگر مثبت پہلو کو سراہنے لگیں گے تو شکر و خوشی سے نہال ہوجائیں گے اور اگر منفی پہلو کرید کرید کر نکالیں گے تو اسی منفیت کے ایکسپرٹ اور چیمپئن بن جائیں گے. پھر آپ ان باتوں میں بھی منفی پہلو ڈھونڈھ نکالیں گے جو باقی سب کی نظروں سے اوجھل تھے. یہ ممکن ہے کہ آپ کے فراہم کردہ منفی پہلو جھوٹ بھی نہ ہوں مگر وہ ایسا آدھا ادھورا سچ ہوں گے جو مسائل کے حل کی بجائے آپ کی طبیعت کو مایوسی کی طرف مائل کرتے ہونگے. زندگی تو مسلسل کشمکش کا نام ہے. خوشی اور غم کے درمیان ایک اونچا نیچا مستقل سفر. یہاں تک کے سانس کی ڈور ٹوٹ جائے. آپ مانیں یا نا مانیں ، حقیقت یہی ہے کہ آپ کا خوشی و سکون آپ کے حالات و واقعات سے کہیں زیادہ آپ کے رویئے پر منحصر ہوتے ہیں. اگر ایسا نہ ہوتا تو غربت کی چادر میں خوشی اور امیری کی دستار میں ڈپریشن و خودکشی نظر نہیں آتے. حالات و مشکلات کے سدھار کی ضرور کوشش کریں مگر اس سے بھی پہلے خود کو حاصل نعمتوں کو سراہنا سیکھیں کہ یہی اصل کلید بھی ہے اور بہتری کی جانب پہلا قدم بھی.
.
====عظیم نامہ====