Saturday, 26 April 2014

کائنات - اضداد کی پہیلی -ایک مختلف تجزیہ


کائنات - اضداد کی پہیلی -ایک مختلف تجزیہ


یہ کائنات مجموعہ اضداد ہے. یہاں ہر شے کا وجود اسکی ضد سے ہے. اگر تاریکی نہ ہو تو روشنی کا کیا تصور؟ اگر تکلیف نہ ہو تو راحت کے کیا معنی؟ اگر بدصورتی نہ ہو تو خوبصورتی کو کون سراہے گا؟ اگر بیماری کا وجود نہ ہو تو صحت کو نعمت کون تسلیم کرے گا؟ اور اگر موت ہی نہ ائے تو زندگی کی تمنا کسے ہوگی؟ .. ہر چیز کا وجود اسکی ضد سے منسلک ہے

ایک اور زاویہ سے سوچیں تو معلوم ہوگا کہ کوئی بھی شے اپنی ضد کے ساتھ ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ موجود نہیں رہ سکتی. یعنی روشنی آئے گی تو اندھیرے کو جانا پڑے گا، صحت آئے گی تو بیماری باقی نہیں رہے گی،خوشی آئے گی تو غم مٹ جائے گا اور دن نکلے گا تو رات کو اپنا بوریا بستر سمیٹنا پڑے گا. سادہ الفاظ میں کوئی بھی شے اپنی ضد سے منسلک اور مشروط تو ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ایک ہی وقت میں موجود نہیں ہوتی


یہ بھی دیکھیں کہ ہر شے اپنی ضد سے ایک نہ ختم ہونے والے دائرے میں بندھی ہوئی ہے یا یوں کہیں کہ ایک دوسرے کی جگہ لیتی رہتی ہے. یعنی دن اور رات کا مستقل ایک دوسرے کی جگہ لینا، تکلیف اور راحت دونوں کا ایک کے بعد ایک آتے ہی جانا، سردی اور گرمی کا مسلسل ایک مدار میں چلتے رہنا وغیرہ. یہ سب اسی امر کی دلیل ہیں کہ ہر شے اپنی ضد سے ایک مستقل اور مسلسل دائرے میں بندھی ہوئی ہے

اب ذرا سوچیں کہ زندگی کی ضد کیاہے؟ ہر لغت آپ کو زندگی کی ضد موت بتائے گی تواب جب ہم اضداد کی فطرت دیکھ چکے ہیں کہ ہر شےاپنی ضد کی جگہ مستقل اور مسلسل لیتی رہتی ہے تو یہی اصول زندگی اور موت پر بھی لاگو ہونا چاہیئے. قران حکیم میں سورہ غافر کی بائیسوی آیت کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کو دو زندگیاں اور دو موتیں دی جائیں گی.

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ

وہ (کفار) کہیں گے اے ہمارے رب ! تو نے ہمیں دو بار موت دی, اور دو بارہ زندگی عطاء کی , سو ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے , تو کیا نکلنے کا کوئی راستہ ہے ؟

 پہلی موت سے ہم عالم ارواح میں گزرچکے ہے، پہلی زندگی کو اس وقت اس عالم خلق میں ہم گزار رہے ہیں. دوسری موت طبعی طور پر ہم سب پر وارد ہوگی اور بیشمار افراد پر ہمارے سامنے وارد ہوچکی. اور دوسری زندگی ہمیں روز جزا عطا کی جائیگی. یعنی زندگی اور موت بھی ایک دوسرے کی جگہ مسلسل لیتے رہینگے. اب فطری سوال یہ ہے کہ اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو پھر تو روز جزا والی زندگی کو بھی موت سے ہمکنار ہونا ہوگا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ جواب یہ ہے کہ ہاں اصولی طور پر تو ایسا ہی ہونا چاہیئے مگر وہ خالق جس نے اشیاء کو انکی ضد کے ساتھ دائرے میں باندھ رکھا ہے وہ یقیناً اس پر بھی قادر ہے کہ کسی مقام پر وہ اس دائرے کو ازخود توڑ ڈالے. بلکل ایسے ہی جیسے وہ اپنے بنائے ہوئے فطری اصولوں کو بھی معجزہ کے زریعے معطل کر دیتا ہے. حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ روز جزا میں زندگی اور موت کے اس مستقل جاری سلسلے کو سب کے سامنے توڑ دیا جائے گا، موت کو علامتی طور پر ایک مینڈھے کی صورت میں سامنے لایا جائے گا اور اسے ذبح کر کے یہ اعلان ہوگا کہ موت کو ختم کر کے اب زندگی کو مسلسل کر دیا گیا ہے یا دوسرے الفاظ میں زندگی کی ضد کو ہمیشہ کے لئے مٹادیا گیا ہے اور اب اسکی جگہ کوئی نہیں لے گا

اس مقام پر شائد آپ کو ایسا محسوس ہو کہ اب ہم اشیاء کا تعلق ان کی ضد کیساتھ سمجھ چکے ہیں مگر ذرا ایک گہری سانس لے کر یہ سوچیئے کہ کیا واقعی اشیاء کی ضد موجود ہوتی ہیں ؟ کیا 
 کسی بھی شے کی کوئی حقیقی ضد موجود ہے؟

ذرا سوچیں تو کہ کیا اندھیرے کا کوئی حقیقی وجود ہے ؟ اگر ہاں تو ہم اسے کیسے بیان کر سکتے ہیں؟  آج سائنس کی رو سے ہم سب روشنی کی رفتار سے واقف ہیں مگر اندھیرے کی رفتار کیا ہے ؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں؟ اگر اندھیرا واقعی ایک حقیقی وجود رکھتا ہے تو ہم اسکی رفتار کا حساب کیوں نہیں لگا سکتے؟

جواب یہ ہے کہ اندھیرے کا فی الواقع کوئی حقیقی وجود نہیں ہے. اندھیرا تو نام ہے روشنی کی عدم موجودگی کا ! حقیقی وجود تو صرف روشنی کا ہے ، اسکی ضد یعنی اندھیرے کا تصور محض تصوراتی ہے یہ تو بس ایک نام ہے جو ہم نے روشنی کے نہ ہونے والی صورتحال کو بیان کرنے کیلئے اختیار کرلیا ہے. اسی طرح ٹھنڈک کا تصور حقیقی نہیں خیالی و تصوراتی ہے، حقیقی وجود تو گرمی یا حرارت کا ہے. سائنس بس یہی بتاتی ہے کہ ایک شے زیادہ گرم ہے، بہت زیادہ گرم ہے، کم گرم ہے یا بہت کم گرم ہے. وہ ہمیں حرارت یعنی ٹمپریچر بیان کرتی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں. ٹھنڈک تو بس ایک لفظ ہے جو ہم نے کم حرارت والی کیفیت کو بیان کرنے کیلئے اختیار کرلیا ہے. موت بھی زندگی کا نقطہ اختتام نہیں ہے بلکہ حیات کا ایک مختلف نقطہ آغاز ہے

اگر اسی استدلال کو مزید گہرائی میں کھوج کر دیکھیں تو ایک مشکل سوال کا آسان جواب سامنے آجاتا ہے. سوال یہ کہ جب الله کی ذات ہی ہر شے کی خالق ہے اور ہر شر یا برائی سے پاک ہے تو پھر اس نے شر کو تخلیق ہی کیوں کیا ؟جواب یہ ہے کہ اس نے کبھی شر کو تخلیق نہیں کیا، اس نے تو صرف خیر کو پیدا فرمایا لیکن ساتھ ہی انسان کو آزمانے کے لئے اختیار کی آزادی دی کہ وہ چاہے تو خیر کو اپنا لے یا نہ اپنائے. یہ ہمارا خیر کو نہ اپنانا ہے جو شر کو جنم دیتا ہے، ہمارے اردگرد پھیلا ہوا شر ہمارا اپنے ہاتھوں سے لایا ہوا ہے ، خدا نے تو خیر پیدا کیا اور اسی کو اپنانے کا حکم دیا. مثال کے طور پر اس نے  زمین میں ہر مخلوق کیلئے رزق بکثرت رکھ دیا لیکن یہ انسان کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جس نے بھوک و افلاس کو جنم دیا. ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک مخلوق کی ضرورت دوسری مخلوق کے لئے شر بن جائے. جیسے شیر کی بھوک بکری کے لئے بظاہرشر بن سکتی ہے یا بکری کا چرنا گھاس پھونس کیلئے شر کہلاسکتا ہے. یہ فطرت کے اصول ہیں جو اس نظم کائنات کو برقرار رکھنے کیلئے الله رب العزت نے مختص کئے ہیں مگر اس سے یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکالا جاسکتا کہ اس نے شر کو پیدا   کیا جیسا کہ قتل ، چوری، فاقہ وغیرہ یہ انسان کا اپنا ارادے کا سوئے استمعال ہے جو شر وجود میں لاتا ہےابلیس کو بھی ملعون الله نے پیدا نہیں کیا بلکہ اسکے ارادے کے غلط استمعال نے بنایا

اگر اس پورے استدلال کو سمیٹا جائے تو مندرجہ ذیل نتیجہ سامنے آجاتا ہے

ہر شے سے اسکی ضد منسلک ہے جو اسکی صحیح اہمیت سے ہمیں روشناس کراتی ہے. کوئی بھی شے ایک ہی وقت میں
ایک ہی جگہ اپنی ضد کیساتھ موجود نہیں رہ سکتی بلکہ فطرت کا اصول یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی جگہ مسلسل اور مستقل لیتے رہتے ہیں. شے حقیقی وجود رکھتی ہے اور اسکی ضد کا وجود محض تصوراتی ہے

  واللہ و عالم بلصواب


====عظیم نامہ====




Saturday, 5 April 2014

معجزہ کیا ہے ؟ کیا یہ سب الف لیلیٰ کی کہانی نہیں ؟


معجزہ کیا ہے ؟ کیا یہ سب الف لیلیٰ کی کہانی نہیں ؟ 


سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ معجزہ - قران کی اصطلاح نہیں ہے. قران حکیم میں معجزہ کے لئے لفظ "آیت" یا پھر "سلطان" استمعال کیۓ گئے ہیں. معجزہ کا مادہ لفظ "عجز" ہے جسکے معروف معنی  مجبور کردینے کے ہیں. معجزہ درحقیقت وہ عمل یا فعل ہے جو الله رب العزت کی جانب سے وقت کے رسول کو عطا کیا جاتا ہے اور اسکا مقصد مخاطب قوم کے حاضر علم کو عاجز یا مجبور کردینا ہوتا ہے  معجزہ ایک ایسا عمل ہے جو اپنے اندر بیک وقت دو خصوصیات سموئے ہوتا ہے



١. یہ فطرت کے معلوم اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا لہٰذااسکی کوئی عقلی توجیح ممکن نہیں  

٢. یہ وہ عمل ہوتا ہے جسکے زریعے نبی یا رسول اپنی قوم کے موجودہ علم کو للکارے اور قوم کا علم معجزہ کے سامنے 'عاجز' ہوجاۓ , اسی رعایت سے اسے معجزہ کہا جاتا ہے

معجزات کے انتخاب کی بنیاد رسول کی اپنی پسند ناپسند نہیں ہوتی بلکہ یہ خالص منشاء الہی پر منحصر ہے کہ وہ اپنی مشیت سے کس رسول کو کونسا معجزہ عطا فرما دے؟ ہم اس حقیقت سے بھی خوب آشنا ہیں کہ ہمارے پروردگار کا کوئی بھی حکم بناء حکمت کے نہیں ہوتا ، جائزہ لیں تو صاف ظاہر ہے کہ الله پاک رسولوں کو وہی معجزہ عطا فرماتے ہیں جسکے زریعے انکی مخاطب قوم کے نمایندہ علم کو عاجز کر دیا جاۓ. تاریخ شاہد ہے کہ آل فرعون کا نمایندہ علم جادو و سحر تھا، برٹش میوزیم میں موجود سابقہ آثار  آج بھی اسی کی گواہی دے رہے ہیں لہٰذا موسیٰ الہے سلام کو ایسے معجزات دیئے گئے جو جادو کو اسی کے طریق سے نیچا دکھا دینے والے ہوں. لاٹھی کا سانپ بننا یا ہاتھ کا روشن ہوجانا اسی امر کی دلیل ہیں. دوسری مثال لیں، حضرت عیسیٰ الہے سلام کا زمانہ گریک میڈیسن کے عروج کا تھا چنانچہ آپ کے معجزات علاج و شفاء کی نوعیت کے ہیں. جیسے پیدائشی اندھے کو بینائی حاصل ہوجانا، جلدی بیماری برص کو ٹھیک کر دینا، مردہ یا مرتے ہوۓ انسان کو الله کے حکم سے زندگی لوٹانا وغیرہ. ایک آخری مثال رسول الله محمد صلی الله و الہے وسلم کی ہے، ہم سب واقف ہیں کہ عرب اپنی زبان اور شاعری پر اس حد تک نازاں تھے کہ وہ غیرعرب اشخاص کو حقارت سے عجمی کہا کرتے تھے. عجمی یعنی گونگے، عربوں کے نزدیک غیر عرب کی مثال گونگوں کی تھی. عرب میں بڑے بڑے شاعر موجود تھے، جنکے کلام کے مقابلے منعقد کیۓ جاتے تھے. ایسے میں محمد صلی الله و الہے وسلم کی زبان اطہر سے الله رب العزت نے قران کریم کو بطور معجزہ جاری فرمایا. اس معجزہ میں عرب اقوام کو زبان و کلام کے حوالے سے للکارا گیا، پہلے کہا گیا کہ قران جیسا کلام بنا کر لے آؤ؟ پھر کہا گیا کہ اگر یہ ممکن نہیں تو پھر دس سورتیں پیش کر دو ؟ پھر مزید کہا گیا کہ اچھا اگر اتنا بھی ممکن نہیں تو سارے انسان و جنات ملکر ایک سورت ایسی لا کر دکھا دو؟ .. سادہ الفاظ میں قران نے بطور معجزہ عربوں کے علمی غرور کو عاجز کردیا. یہ چیلنج یا للکار آج بھی ساری دنیا کے موجود ہے لیکن اسکا جواب نہ کل کوئی قابل تشفی دے پایا اور نہ ہی آئندہ دے پائے گا


غور کریں تو فطرت ازخود اپنی ہر ہر ادا میں معجزات سمیٹے ہوۓ ہے، مگر چونکہ یہ سب ہمارے مستقل مشاہدے میں ہے ، اسی لئے ہم اسے معجزہ تسلیم نہیں کرتے. اپنی پیدائش پر ہی غور کر لیں، کس طرح ایک گندے پانی کی بوند سے ایک جیتا جاگتا باشعور انسان وجود پاجاتا ہے؟. آنکھوں کی صورت میں جدید ترین کیمرے، کانوں کی صورت بہترین مائکروفون ، آواز کی صورت میں بہترین ساؤنڈ اسپیکر اور دماغ کی صورت میں تیزترین سوپر کمپیوٹر کیسے وجود پاجاتا ہے؟  ایسے ان گنت واقعات ہمارے اردگرد رونماء ہوتے رہتے ہیں ، جو کسی معجزہ سے کم نہیں مگر کیونکہ ان واقعات نے مشاہدے اور فطری قوانین کا چوغہ اوڑھ رکھا ہے اسلیئے ہم اسے نارمل یا فطری گردانتے ہیں. ایک مومن اس پر ایمان رکھتا ہے کہ وہ خالق جو فطرت کے اصول بنا سکتا ہے، وہ اس پر بھی پوری طرح قادر ہے کہ انہیں کسی وقت معطل یا تبدیل کر دے. درحقیقت معجزات کا وجود تو خالق کے وجود پر ایک قوی اور اضافی دلیل ہے. یہ اور بات کہ جو شخص عقلی استدلال کو خاطر میں نہیں لاتا وہ معجزات کو قبول کرنے سے بھی قاصر ہوتا ہے. قوموں کے انکار کی وجہ یہی اندھے انکار کی روش رہی ہے

مسلمانوں کا ایک گروہ معجزات کا انکار یہ کہہ کر کردیتا ہے کہ معجزہ فطرت کی خلاف ورزی ہے ، فطرت الله کی سنت ہے  اور ہم قران سے یہ بات جانتے ہیں کہ الله اپنی سنت کی خلاف ورزی کبھی نہیں کرتے. یہ ایک منتقی الجھاؤ ہے ، جو ایک سادہ مثال سے واضح کیا جاسکتا ہے. مثال لیں کہ زید عمومی طور پر کھیر نہیں کھاتا مگر عید یا کسی خاص موقع پر وہ ہمیشہ کھیر ہی کھاتا ہے. اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کھیر کھانا زید کی سنت نہیں ہے بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خصوصی مواقع پر کھیر کھانا زید کی سنت ہے. اسی طرح معجزہ الله کی وہ سنت ہے جسکا ظہور صرف خاص حالات و مواقع میں ہی ہوتا ہے

محققین کے نزدیک معجزہ اور خرق عادت کرامت میں بھی ایک واضح فرق موجود ہے. خرق عادت کسی ایسی چیز کا رونما ہونا  ہے، جو الله کی جانب سے وقتی مدد  ہو مگر کیونکہ اس میں چیلنج کا عنصر نہیں ہوتا اسلیئے اسے معجزہ نہیں قرار دیا جاسکتا. مثال کے طور پر آگ کی فطرت ہے کہ وہ جلاتی ہے مگر ابراہیم الہے سلام کے لئے اسی آگ کو وقتی طور پر ٹھنڈا و سلامتی والا بنا دیا گیا. یہ ایک وقتی مدد تھی اور اسکا ظہور مستقل نہ تھا، یعنی ایسا نہیں تھا کہ آگ کبھی بھی ابراہیم الہے سلام کو نہیں جلاسکتی تھی. لہٰذا اس عظیم واقعہ کو خرق عادت سے تعبیر کیا جائے گا اور یہ معجزہ نہیں قرار پائے گا. معجزہ ہونے کے لئے کسی عمل کا صرف غیرفطری ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ اسے مستقل طور پر مخاطب قوم کے سامنے چیلنج کے طور پر پیش کیا جاۓ 

واللہ عالم بلصواب 

====عظیم نامہ====

Friday, 4 April 2014

قبر میں جزا و ثواب کی کیا نوعیت ہوگی؟ کیا یہ قران و حدیث سے ثابت ہے؟


قبر میں جزا و ثواب کی کیا نوعیت ہوگی؟ کیا یہ قران و حدیث سے ثابت ہے؟



قبر میں جزا و ثواب کی نوعیت کیا ہوگی ؟ اس بارے میں محققین کی مختلف آراء موجود ہیں. میں اس وقت انکا تقابلی جائزہ نہیں لوں گا بلکہ صرف اپنے تجزیہ سے آپ کو آگاہ کروں گا. پڑھنے والوں پر فرض ہے کہ وہ میری اس تحقیق کو ایک علمی کاوش سمجھیں اور اپنا نتیجہ خود قائم کریں



سب سے پہلے تو تمہیدی طور پر یہ جان لیں کہ یقین کے تین درجے ہیں پہلا درجہ ہے علم الیقین - یعنی وہ یقین جو علمی استدلال سے حاصل ہو. اس دنیاوی زندگی میں ہم سے صرف علم الیقین ہی مطلوب ہے. دوسرا درجہ ہے عین الیقین - یعنی آنکھوں دیکھا یقین، یہ وہ یقین ہے جو عالم برزخ یعنی یعنی موت کے بعد قبر میں حاصل ہوگا. تیسرا اور اعلیٰ ترین درجہ حق الیقین کا ہے جو روز محشر یعنی قیامت کے بعد قائم ہوگا. علم الیقین چونکہ اس مادی دنیا میں مطلوب ہے لہٰذا اس میں ہمارے مادی یعنی جسمانی حواس غالب ہیں. قبر میں کیونکہ جسم مٹی ہوجانے ہیں تو یہاں ہمارا روحانی وجود یا روحانی حواس کا غلبہ ہے لہٰذا معاملات بھی عین الیقین سے متعلق ہیں. روز حساب ہمارے جسمانی اور روحانی دونوں حواس پوری طرح بیدار ہونگے تو یہاں حقیقت اپنے دونوں پہلوؤں سے سامنے آئے گی جسے حق الیقین سے تعبیر کیا گیا ہے.

قران حکیم کے بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیند اور موت میں ایک یقینی مشابہت موجود ہے. نیند اور موت جیسے دو بہنیں ہیں. قران کی سورہ الزمر میں درج ٤٢ آیت ملاحظہ ہو

خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں (نفوس) قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں (ان کی روحیں) سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن پر موت کا حکم کرچکتا ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں

جس طرح نیند میں ہمارا شعور جزوی اور عارضی طور پر معطل ہوجاتا ہے اور جس طرح ہمارا لاشعور ہمارے خیالات کو خواب کی صورت میں تصویری خاکہ بنا دیتا ہے بلکل ویسے ہی موت میں اس سے ملتے جلتے لیکن کہیں زیادہ گہرے نفسی و روحانی تجربات پیش آیئنگے. اس بارے میں بابائے نفسیات فرائیڈ کی تحقیقات بھی قابل غور ہیں ، وہ کہتا ہے کہ خواب میں آپ کے جذبات و خیالات تصویری پیغام بن جاتے ہیں. انکی تعبیر بھی ہر شخص کے انفرادی تصورات کے مطابق جدا جدا ہوتی ہے. ایک مثال سے اسے سمجھتے ہیں، اگر بلی میرا پسندیدہ جانور ہے اور آپ بلی سے خوف کھاتے ہیں تو میرے خواب میں بلی کا نظر آنا محبت کا اشارہ ہوسکتا ہے ، اسکے برعکس آپ کے خواب میں بلی کا نظر آنا خوف کی علامت ہوسکتا ہے. ہر خوابیدہ تصویر کی تعبیر کے پیچھے اس سے متعلق تصورات وابستہ ہوتے ہیں.

اب جب ہم اسی تحقیق کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان احادیث کا جائزہ لیتے ہیں جن میں احوال قبر بیان ہوئے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی نماز یا نیک اعمال اسکے سامنے ایک خوبصورت چہرے والے انسان کے روپ میں ظاہر ہونگے. اسی طرح ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے پیچھے بھاگنے والے کے سامنے دنیا ایک بدصورت بڑھیا کی صورت میں نمودار ہوگی. اسی رعایت سے یہ بہت ممکن ہے کہ حسد اور کینہ سانپ بچھو بن کر عذاب کا بائث بن جاۓ. مگر یہ سب احوال روحانی سطح پر ہونگے. عذاب قبر سے متعلق موجود تمام احادیث غالباً اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں. اس کے لئے عالم برزخ کی اصطلاح رائج ہے. یعنی یہ ایک علیحدہ روحانی عالم ہے ، یہ لفظ برزخ دراصل 'پردہ ' کا متبادل ہے اور اُس حد فاصل کے لیے استعمال ہوا ہے ، جہاں مرنے والے قیامت تک رہیں گے۔یہ گویا ایک روکاٹ ہے جو اُنہیں واپس آنے نہیں دیتی 

" 'من ورائھم برزخ الی یوم یبعثون "

'( اُنکے آگے ایک پردہ ہے اُس دن تک کے لیے،جب وہ اُٹھائے جائیں گے (المومنون٢٣: ١٠٠) ۔ 

اسے صرف قبر کے گڑھے تک محدود رکھنا شائد درست نہ ہو. ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کو قبر میسر ہی نہیں ہوتی ، بعض پانی میں ڈوب جاتے ہیں، بعض کو جنگلی درندے کھا جاتے ہیں، بعض کو جلادیا جاتا ہےاور وہ جنہیں قبر میسر آجائے ، انکے اجسام کو بھی ایک وقت بعد کیڑے کھا جاتے ہیں اور ان کیڑوں کو بھی دوسرے کیڑے کھا جاتے ہیں لہٰذا قبر میں جسمانی سطح پر جزا و ثواب کا نظریہ ایک مشکل نظریہ ہے. حد سے حد یہ کہا جاسکتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی روح کا کوئی نہ کوئی تعلق جسم کہ ذرات سے باقی رہتا ہے مگر جزا و ثواب کے احوال اسکی روح پر ہی وارد ہوتے ہیں. غور کریں تو یہی معاملہ ہمیں خواب میں بھی درپیش آتا ہے، مثال کے طور پر آپ خواب میں دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص آپ کے پیچھے خنجر لئے دوڑ رہا ہے یا آپ کے پیچھے بھیانک کتے لگے ہوئے ہیں اور آپ ان سے بچنے کی خاطر سرپٹ دوڑ رہے ہیں، اچانک آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ .سارا جسم پسینہ میں شرابور ہے، سانس تیز تیز چل رہی ہے اور خوف سے دل بھی زور زور دھڑک رہا ہے . حالانکہ نہ تو حقیقت میں کوئی آپ کے پیچھے بھاگ رہا تھا اور نہ ہی آپ کسی سے بچ رہے تھے. اس سے تین اہم باتیں ثابت ہوتی ہیں پہلی یہ کہ اصل تکلیف یا فرحت روح محسوس کرتی ہے، دوسری یہ کہ روح پر گزرے احوال آپ کے جسم پر بھی اثرات مرتب کرتے ہیں اور تیسری یہ کہ خواب کے دوران آپ خواب ہی کو اصل حقیقت تسلیم کرتے ہیں. برزخ میں بھی جو فرحت و عذاب آپ کی اصل نفسانی شخصیت یعنی روح پر وارد ہونگے اس کا احساس  بلکل حقیقی محسوس ہوگا ، یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا جسم جو شائد ذرات کی صورت میں کہیں موجود ہو وہ بھی ایک نامعلوم تعلق کی بنیاد پر اس اثر کو محسوس کرے مگر وہ تعلق کتنا مظبوط ہے؟ ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو کیا وہ وقتاً فوقتاً کمزور ہوتا جاتا ہے؟ ان سب باتوں سے قطع نظر حقیقی معاملہ دراصل روح ہی کو پیش ہوگا اور قبر کی شکل یا ان میں سوال و جواب بھی شائد تمثیلی روحانی سطح پر ہی ہونگے البتہ روح اپنے جسم سے انسیت کے باعث اس سے ایک غیبی تعلق برقرار رکھے گی

شائد اسی بنیاد پر احادیث میں یہ آتا ہے کہ منکر و نکیر فرشتوں کے سوالات کے بعد قبر میں جنت یا جہنم کی کھڑکی کھول دی جاۓ گی جس میں صاحب قبر اپنے ٹھکانے کا شب و روز مشاھدہ کرے گا. قبر کو اعمال کے اعتبار سے خوب کشادہ کر دیا جاۓ گا یا پھر نہایت تنگ. یہاں قبر سے مراد میرے نزدیک برزخی یعنی روحانی قبر ہے جسکا تعلق اس مادی قبر سے انس کی بنیاد پر قائم رہتا ہے .زندہ انسان کی آنکھوں کے سامنے چونکہ صرف مرنے والے کی مادی قبر ہے اور وہ برزخ کو نہیں دیکھ پاتا لہٰذا اس کی دعا اسی قبر کے سرہانے ہوتی ہے. جسے صاحب قبر الله کی اجازت سے اور اس غیبی تعلق کی بنیاد پر اپنے حقیقی برزخی ٹھکانے میں سن پاتا ہے. ہم اپنی سمجھ کی آسانی کیلئے اصحاب قبر کو تین گروہ میں کرکے دیکھ سکتے ہیں. پہلے وہ جو سرکش تھے، دوسرے وہ جو نیک و پارسا تھے اور تیسرے وہ جن کی زندگی گناہ و ثواب دونوں میں گڈمڈ گزری 

قرآن سے یہ بات  واضع ہوتی ہے کہ جن لوگوں کا معاملہ اِس پہلو سے بالکل واضح ہوگا کہ وہ سرکشی اور تکبر سے جھٹلانے والے اور اپنے پروردگار کے کھلے نافرمان تھے یا ہونگے ۔ اُن کے لیے ایک نوعیت کا عذاب بھی اِسی عالم برزخ میں شروع ہوجائے گا۔ اسی مشاہدے کی دلیل ہمیں قران پاک کی سورۂ مومن (غافر) میں ملتی ہے جہاں فرمایا :

وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَاب
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَاب

فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا ، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور قیامت کے دن تو فرعون والوں کے لئے کہا جائے گا ان کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔
( غافر:40 - آيت:45-46 )

یعنی صاف ظاہر ہے کہ آل فرعون پر قبر میں عذاب اسی صورت میں ہوتا ہے کہ انہیں انکا ٹھکانہ دکھایا جاتا رہتا ہے جسے دیکھ کر وہ خوفزدہ ہوتے ہیں اور روز آخر انہیں اس عذاب میں حقیقی طور پر داخل کردیا جاۓ گا

قرآن کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا معاملہ اِس پہلو سے بالکل واضح ہوگا کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے لیے درجہ کمال میں وفاداری کا حق ادا کیا ہے اور کرنے والے ہیں ۔ اُن کے لیے ایک نوعیت کا ثواب اِسی عالم میں شروع ہوجائے گا ۔قرآن کے مطابق اِس کی مثال وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اپنے پروردگار کے حکم پر اُس کے دشمنوں سے جنگ کی اور پھر شہید ہوگئے۔

قرآن کا ارشاد ہے کہ وہ زندہ ہیں،اور اپنے پروردگا کی عنایتوں سے بہرہ یاب ہورہے ہیں (آل عمران٣: ١٦٩-١٧١) ۔

ان دو انتہاؤں کے بیچ بیچ جو افراد ہونگے ، جن کے گناہ و ثواب دونوں بکثرت موجود ہوں ایسے افراد کے لئے جنت و جہنم دونوں امکانات کا مشاہدہ رکھا جاۓ گا اور انکا حتمی اعلان آخرت میں حساب و کتاب سے ہی واضح ہو پاۓ گا. ان پر ایک طرح کی نیند طاری رہے گی جس میں یہ خوابیدہ مشاہدہ مختلف شعوری سطح پر کرتے رہے گے. یہ زندگی چونکہ جسم کے بغیر ہوگی لہٰذا روح کے شعور،احساس اور مشاہدات وتجربات کی کیفیت اِس زندگی میں کم وبیش وہی ہوگی جو خواب کی حالت میں ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ قیامت کے صور سے یہ خواب ٹوٹ جائے گا، روح کو جسم سے پھر جوڑا جاۓ گا اور مجرمین اپنے آپ کو یکایک میدان حشر میں جسم و روح کے ساتھ زندہ پاکر کہیں گے

'یویلنا من بعثنا من مرقدنا

ہائے ہماری بد بختی ،یہ ہماری خواب گاہوں سے ہمیں کون اُٹھالایا ہے (یس٣٦: ٥٢)۔

یہ وہ مختصر روداد ہے جو احوال قبر کے بارے میں میرے نقطہ نظر کو بیان کرتی ہے. میری پھر استدعا ہے کہ اسے محض ایک علمی کاوش سمجھا جاۓ اور کوئی بھی نتیجہ انفرادی تحقیق کے بعد قائم کیا جاۓ. الله رب العزت ہم سب کو اپنے دین کی ٹھیک سمجھ اور اچھا عمل عطا کرے. آمین.

واللہ و عالم بلصواب

====عظیم نامہ====

Tuesday, 1 April 2014

میرے اپنے تزکیہ کیلئے

 

میرے اپنے تزکیہ کیلئے

 
١. نظر کی سب سے بڑھ کر حفاظت کی جائے، جہاں بے حیائی ہو وہاں جانے سے ہی مکمل پرہیز کریں، اگر جانے کے سوا چارہ نہ ہو تو نظر بچا کر وہاں سے گزر جائیں

٢. کم کھایا جائے. ہمیشہ بھوک چھوڑ کر کھایا جائے.

٣. ہفتہ میں کم از کم ایک دن نفلی روزہ رکھا جائے.

٤. قدرتی اور موسم کے پھل و سبزیاں استمعال کی جایئں. غیرفطری اشیاء جیسے چاکلیٹ، انرجی ڈرنکس وغیرہ سے اجتناب کریں

٥. گوشت کا استمعال کم کیا جائے، یہ حیوانی نفس کو فربہ کرتا ہے.

٦. جسمانی پاکی کا بہت خیال رکھا جائے. کم از کم ایک بار روز نہانا، غیر ضروری بالوں کی صفائی رکھنا، ناخن نہ بڑھنے دینا، سر اور داڑھی کے بالوں کو سلیقے سے رکھنا وغیرہ

٧. باوضو سونا ہے، کپڑے صاف رہیں

٩. دینی معاملات میں کم سے کم بولا جائے اور بات کو مختصر رکھا جائے. زیادہ سننے کی عادت ڈالیں اور ہر بات سے سبق حاصل کریں. ہر طرح کی بحث سے پرہیز کریں، یہ روح کو آلودہ کرتی ہے.

١٠. اگر گناہ سرزد ہو جائے تو فوری طور پر کوئی نیک عمل کیا جائے جیسے دو رکعت نماز یا صدقہ اور پھر توبہ کی جائے

١١. نماز وقت ہوتے ہی فوری طور پر پڑھی جائے، دیر نہ کی جائے

١٢. تہجد کا اہتمام ہو

١٣. روز ایک صفحہ کم از کم قران پر تدبر کے لئے اختیار کیا جائے

١٤. اپنے نفس پر اور کائنات پر مسلسل غور و فکر کیا جائے ،  مخلوق سے خالق کا عرفان حاصل کریں تاکہ ایک زندہ تعلق وجود میں آئے

١٥. کم سے کم ایک نماز مسجد میں ضرور ادا کی جائے

١٦. کم سے کم ہفتہ میں ایک بار کسی ایسی دینی محفل میں جایئں جہاں بولنا نہ ہو صرف سننا ہو

١٧. اپنی نیکی یا کسی بھی اچھی بات پر پردہ ڈالیں تاکہ نہ کوئی تعریف کرے نہ ریاکاری کا اندیشہ لاحق ہو

١٨. کسی ایک نماز کے بعد جائے نماز پر کچھ دیر آنکھیں بند کرکے مراقبہ کریں جس میں صرف الله سے تعلق کا احساس ہو
 
 
====عظیم نامہ====