لیزلی ہیزلٹن امریکی نژاد برطانوی مصنفہ ہیں, مذاہب اور ان کے سیاسی و سماجی اثرات پہ لکھتی ہیں, عیسائیت اور اسلام پہ بہت سی کتابوں کی مصنف ہیں, نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہ "The First Muslim" کے نام سے ان کی ایک کتاب بہت مقبول ہوئی...اسی پہ TED کے فورم پہ انہوں نے ایک لیکچر دیا جس کا ناقص سا ترجمہ پیشِ خدمت ہے- ترجمہ ہرگز میرا میدان نہیں اور جہاں آپ کو بے ربطگی یا تشنگی کا احساس ہو اسے میرا قصور سمجھئے گا- اصل میں سیرتِ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وہ گوشہ ہے جس پہ ہم مسلمانوں نے کبھی اس انداز سے غور نہیں کیا, اس لئے اسے سن کر آپ تک پہنچائے بنا رہا نہیں گیا-
"شک...جو ایمان کے لئے ضروری ہے"
کسی کی داستانِ حیات لکھنا مشکل کام ہے- یہ ایک انجان منزلوں کا سفر ہے جو آپ کسی اور کی زندگی میں کر رہے ہوتے ہیں, وہ منزلیں جو آپ کے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ رکھی ہوتیں, وہ منزلیں جہاں جا کر بھی آپ کو یقین نہیں آتا کہ آپ وہاں جا چکے ہیں, خصوصا" اس صورت میں جب لکھنے والا مجھ جیسا لادین یہودی ہو اور جس ہستی کی داستانِ حیات لکھی جارہی ہو, وہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہو-
مثلا پانچ سال قبل, ہر روز صبح آنکھ کھلتے ہی میرے ذہن میں ایک ناممکن سا سوال جنم لیتا- آدھی دنیا اور تقریبا آدھی تاریخ پہلے صحرا کی اس رات کیا ہوا تھا؟ یعنی 610 عیسوی کی اس رات جب محمد ص پہ ایک غار میں پہلی مرتبہ قرآن کی وحی نازل ہوئی تھی, آخر کیا ہوا تھا؟ یہ اسلام کی بنیادی ترین اور پراسرارترین گھڑی ہے اور شاید اسی لئے اس کا کوئی منطقی تجزیہ ممکن نہیں- اس کے باوجود یہ سوال میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا- میں جانتی تھی کہ مجھ جیسے سیکولر انسان کی طرف سے یہ سوال پوچھنا بھی گستاخی سمجھی جائے گی- اور میں اس جرم کا اعتراف کرتی ہوں, کیونکہ میرے خیال میں ہر طبعی یا ذہنی دریافت بہرحال ایک قسم کی گستاخی, ایک حدود سے تجاوز کا نتیجہ ہی ہوا کرتی ہے- مگر کچھ حدود باقیوں سے زیادہ حساس ہوا کرتی ہیں, اور جیسا کہ مسلمان سمجھتے ہیں محمد کا اس روز اللہ سے (بالواسطہ) رابطہ ہونا, حقیقت پسندوں کیلئے ایک فسانہ ہی ہے- اور میں بھی اس وقت تک خود کو حقیقت پسند ہی سمجھتی تھی-
شاید یہی وجہ ہے کہ جب میں نے ان قدیم روایات کا مطالعہ کیا جن میں اس رات کے واقعات کا تذکرہ ہے تو میرے لئے سب سے زیادہ حیران کن وہ واقعات نہیں تھے جو پیش آئے, بلکہ وہ واقعات تھے جو پیش نہیں آئے- محمد ص پہاڑ سے ہواؤں میں تیرتے ہوئے نہیں اترے- انہوں نے اللہ کی حمد یا کبریائی کے نعرے نہیں بلند کئے- ان سے روشنی یا مسرت نہیں پھوٹ رہی تھی- نہ کوئی نغمے فضاؤں میں بلند ہوئے, نہ کوئی موسیقی بجی, نہ کوئی سنہری ہالہ ان کے گرد چھایا, نہ کوئی لطف و انبساط کی کیفیت, نہ ہی اپنے اللہ کا نبی ہونے کا اعتماد و غرور- میرے کہنے کا مطلب یہ کہ انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا, جس سے اس واقعے کو غیرحقیقی یا مقدس تخیل کی پیداوار قرار دے دینا آسان ہوجاتا- اس کے بالکل برعکس ہوا- آپ ص کے اپنے بیان کردہ الفاظ کے مطابق, آپ کو یقین تھا کہ جو کچھ پیش آیا وہ حقیقت نہیں ہے- آپ کو لگا کہ یہ آپ کا واہمہ ہے, بصارت یا سماعت کا دھوکا, آپ کا اپنا ذہن آپ کو فریب دے رہا تھا- یا پھر اس سے بھی برا...کہ آپ پہ کسی جن, کسی بری طاقت کا قبضہ ہوگیا ہو- حقیقت میں انہیں اس آخری خیال کا اس حد تک یقین تھا اور اس نے انہیں اس حد تک پریشان کیا کہ انہوں نے یہاں تک سوچ لیا کہ پہاڑ سے خود کو گرا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا جائے-
تو جو ہستی پہاڑ سے نیچے اتری, وہ خوشی سے نہیں بلکہ ایک گھمبیر اور قدیم خوف سے کپکپا رہی تھی- وہ یقین سے نہیں بلکہ شک سے مغلوب تھی- اور یہ تکلیف دہ بے سمتی کا احساس, یہ ہر مانوس چیز سے ہٹ کر تجربہ, یہ انسانی فہم سے ماورا شے کی خوفزدہ کر دینے والی آگاہی....اسے ایک خوفناک حیرانی کہا جا سکتا ہے- آج کل ہم Awesome کا لفظ کمپیوٹر ایپس اور وائرل وڈیوز کیلئے استعمال کرتے ہیں اور زلزلے کے علاوہ شاید ہی ہمیں کوئی ایسا تجربہ ہو جو ہمیں بتا سکے کہ Awe ہوتی کیا ہے, اس لئے آج شاید اس لفظ کا مفہوم سمجھنا لوگوں کیلئے مشکل ہے- ہم اپنے دروازے بند کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں اور ہر چیز ہمارے قابو میں ہے- ہم یہ بھلا دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے فہم سے ماورا ہیں-
مگر پھر بھی خواہ آپ ایک حقیقت پسند ہیں یا پراسراریت پہ یقین رکھنے والے, خواہ آپ اس رات جو الفاظ محمد ص نے سنے انہیں ان کے تخیل کا کرشمہ سمجھیں یا کسی بیرونی طاقت کی آواز, جو بات واضح ہے وہ یہ کہ انہیں واقعی یہ تجربہ ہوا, اور اس قدر طاقت سے ہوا کہ جس نے انہیں اور ان کے اردگرد کی دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا اور ایک شرمیلا سا انسان سماجی و اقتصادی انقلاب کا انقلابی وکیل بن کر ابھرا- بلاشبہ خوف ان کا پہلا ردعمل تھا اور یہی واحد فطری ردعمل ہو سکتا تھا, واحد انسانی ردعمل-
کچھ لوگوں جیسا کہ قدامت پسند مسلمان علماء کے نزدیک شاید یہ ردعمل ضرورت سے زیادہ انسانی ہے, کیونکہ وہ آپ ص کے اپنی جان لینے کا ارادہ رکھنے کا ذکر بھی کیا جانا پسند نہیں کرتے, حالانکہ یہ ابتدائی روایات میں محفوظ ہے- وہ اصرار کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک لمحے کیلئے بھی شک نہیں ہوا تھا, افسردگی یا مایوسی تو رہی دور کی بات- کاملیت چاہتے ہوئے وہ انسانی نفسیات کو نظرانداز کر دیتے ہیں- مگر آخر اس میں غیر کامل کیا ہے؟ میں نے جب وہ واقعات پڑھے تو مجھے احساس ہوا کہ محمد ص کا وہ شک ہی تھا جس نے میرے سامنے انہیں زندہ جاوید کر دیا, مجھے انہیں مکمل طور پہ دیکھنے کا موقع دیا اور مجھے ان کی سچائی پہ اعتبار دیا- اور جتنا میں سوچتی چلی گئی اتنا ہی ان کے شک کرنے کی مجھے سمجھ آتی چلی گئی کیونکہ شک ایمان کا لازمی جزو ہے-
شک, ایمان کا حصہ ہے...یہ خیال شاید آپ کو بہت عجیب لگے, مگر جیسا کہ گراہم گرین نے کہا تھا, ہر چیز کی اصل شک ہے- شک نکال دیجئے, اور پیچھے جو بچے گا وہ ایمان نہیں بلکہ ایک مطلق, جذبات سے عاری عقیدہ ہوگا- آپ یقین رکھتے ہیں کہ آپ ہی حقیقتِ مطلق سے واقف ہیں اور آپ کا یہ یقین فورا عقائد و نظریات میں ڈھل جاتا ہے, اور خود راستی میں- خود راستی سے میری مراد اپنے درست ہونے کا دکھائی دینے والا, مغرورانہ رویہ ہے جسے آپ مختصرا وہ غرور کہہ سکتے ہیں جو شدت پسندی میں ہوا کرتا ہے-
تاریخ کی ستم ظریفیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عیسائیت اور اسلام دونوں میں بنیاد پرستوں نے اپنے مخالفین کو قتل کرنے کیلئے کافر کا لفظ استعمال کیا- مزید ستم ظریفی اس میں یہ ہے کہ ان کا یہ مطلقانہ رویہ بجائے خود ان کے مذہب کی نفی ہے, وہ خود گویا کافر ہیں- ان کے پاس سوال نہیں صرف جواب ہوا کرتے ہیں, دیگر تمام مذاہب کے شدت پسندوں کی طرح- انہوں نے سوچ اور ایمان کی سخت آزمائشوں کا تریاق دریافت کر لیا ہے- انہیں یعقوب کی طرح تمام رات جنگ لڑنے کی, موسٰی کی طرح چالیس دن اور رات ویرانوں میں بھٹکنے کی, یا محمد ص کی مانند تمام زندگی جدوجہد میں گزارنے کی کوئی ضرورت نہیں- محمد ص جنہیں قرآن بار بار تسلی دیتا ہے کہ وہ مایوس مت ہوں, افسردہ مت ہوں, اور قرآن ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اور یہ کہ وہی حق پہ ہیں-
اور پھر یہ بھی کہ ہم نے جو کہ ایک وسیع اور خاموش اکثریت ہیں, مذہب کا عوامی تاثر اس اقلیت کے حوالے کر دیا ہے- ہم نے مغربی کنارے کے جنونی آبادکاروں کو یہودیت کی نمائندگی کا, انسانوں سے خوفزدہ اور عورتوں کے خلاف لوگوں کو عیسائیت کی نمائندگی کا اور خودکش بمباروں کو اسلام کی نمائندگی کا اختیار دے دیا ہے- اور ہم نے اس حقیقت سے آنکھیں چرا لی ہیں کہ بنیاد پرست خواہ عیسائی ہونے کا دعوٰی کریں یا یہودی یا مسلمان ہونے کا, وہ کچھ بھی نہیں ہیں- وہ سب, دوسروں کے لہو میں نہائے شدت پسند دراصل ایک ہی ہیں- یہ ایمان نہیں جنون ہے اور ہمیں ان دونوں میں امتیاز کرنے کی ضرورت ہے- ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصل ایمان میں سوالوں کے اتنے آسان جوابات نہیں ہوا کرتے- ایمان مشکل ہے, یہ ساری زندگی حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کی کوشش کا نام ہے, یہ زندگی بھر مختلف خیالات کو قبول یا رد کرنے کا نام ہے, ایمان شک کے ساتھ ساتھ چلتا ہے, بعض اوقات ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے, کبھی اسے شعوری طور پہ جھٹلاتے ہوئے بھی-
اور یہ شعوری انکار ہی ہے جس کی مدد سے مجھ جیسی لادین بھی کچھ چیزوں پہ ایمان رکھ سکتی ہے- مثلا میرا ایمان ہے کہ مشرقِ وسطٰی میں امن کا قیام بالکل ممکن ہے, باوجودیکہ تمام شہادتیں اس کے خلاف ہوں- میں اس کی قائل نہیں ہوں, میں بمشکل کہہ سکتی ہوں کہ مجھے اس پہ یقین ہے- میں امن پہ ایمان رکھتی ہوں, خود کو شکست خوردگی کے احساس سے بچانے کیلئے کیونکہ وہ ہر وقت ساتھ چلتا ہے- یہ شکست خوردگی, مایوسی کا احساس خود کو مکمل کر دیتا ہے- جب آپ سوچ لیتے ہیں کہ کچھ ہونا ناممکن ہے تو آپ کچھ ہونے کے تمام امکانات ختم کر دیتے ہیں- میں اس شکست خوردگی کے ساتھ نہیں جی سکتی, ہم میں سے اکثر نہیں جی سکتے, اسی لئے خواہ ہم خدا کو مانیں یا نہ مانیں, اپنے شکوک کے باوجود یا ان کے سبب, ہم ہر چیز ختم کردینے والی مایوسی سے لڑتے رہتے ہیں- ہم مستقبل پہ اور ایک دوسرے پہ یقین رکھتے ہیں- اسے سادگی کہہ لیجئے, حماقت کہہ لیجئے, آئیڈیلزم کہہ لیجئے, مگر اسے انسانیت تو ماننا پڑے گا آپ کو-
کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کے ایمان کے بغیر اور ذہن کو بند کر دینے والے اندھے مغرورانہ یقین کا انکار کئے بغیر, اس قدر انقلابی طور پہ تبدیل ہو سکتے تھے؟ میرا خیال ہے ہرگز نہیں-
بطور ان کی داستانِ حیات کی مصنفہ کے میرا اور ان ص کا پانچ برس کا ساتھ رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ آج اگر وہ ہوتے تو ان لوگوں پہ انتہائی غضبناک ہوتے جو مشرقِ وسطٰی یا دنیا بھر میں ان کا نام استعمال کرتے ہوئے قتل و غارت گری کرتے پھرتے ہیں- وہ دنیا کی نصف سے زائد خواتین پہ مشتمل آبادی کے حقوق سلب کئے جانے پہ انتہائی دکھی ہوتے- اپنی امت کو تفرقے میں پڑا دیکھ کر ان کا دل کس قدر مجروح ہوتا, وہ دہشت گردی کو نہ صرف جرم سمجھتے بلکہ اپنی تعلیمات اور اپنے عقائد کے خلاف بغاوت بھی- آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی فرماتے جو قرآن کہتا ہے- جس نے ایک انسان کی جان لی اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا, اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا- اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا خود کو دنیا میں امن کے قیام کیلئے وقف کردیتے-
صلی اللہ علیہ وسلم-
No comments:
Post a Comment