Wednesday, 9 January 2019

ہاتھ نہیں دھوتے

ہاتھ نہیں دھوتے


ہمارے ایک شکی فلسفی دوست کا کہنا ہے کہ:
آپ سب درحقیقت اپنے ہاتھ نہیں دھوتے
بلکہ دونوں ہاتھ ایک دوسرے کو دھوتے ہیں
آپ سب تو بس کسی ٹھرکی کی مانند انہیں گھورتے رہتے ہیں

فقط دروازہ

فقط دروازہ


انسان کیلئے کسی بھی شے کا علم یا کسی بھی شخص کی محبت منزل نہیں. فقط دروازہ ہے. اور دروازے کا کام یا تو راستہ دینا ہوتا ہے یا پھر راستہ روکنا. اب یہ ہمیں خود دیکھنا ہے کہ کسی کی محبت نے ہمارا راستہ روک تو نہیں دیا؟ اس خاکی جسم کے پنجر میں جکڑی انسان کی یہ روح اپنے اس بنانے والے سے ملنے کو بیتاب ہے. مومن کی ترجیح اول، مومن کی حتمی منزل صرف خدا ہے. یہ خود سے خودی اور خودی سے خدا کا سفر ہے. کسی بھی شے کا علم اگر اس شے کے صانع تک نہیں پہنچاتا تو وہ حقیقی علم نہیں بلکہ اس شے پر انسانی نظریات کا غاصبانہ قبضہ ہے. کسی بھی مخلوق کی محبت اگر اس کے خالق تک آپ کو نہیں لے جاتی تو وہ حقیقی محبت نہیں بلکہ ایک نادیدہ حجاب ہے.
.
====عظیم نامہ====

عقل نامہ

عقل نامہ

.
عقل بلاشبہ انسان کو ملی ایک بہت بڑی نعمت ہے. مگر اس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اپنا تسلط چاہتی ہے. اپنے بنائے ہوئے معیارات کے تحت اپنے اطراف پر جائز یا ناجائز قبضہ کرتی ہے. یہ اپنے فکری محلات تعمیر کرتی ہے مگر جلد ان سے بور ہوجاتی ہے. پھر وہ انہیں خود مسمار کرتی ہے اور پھر دوبارہ تعمیر کرتی ہے. تعمیر و مسماری کا یہ سلسلہ رکتا نہیں بلکہ مسلسل جاری رہتا ہے. اس روش سے اس کا شعوری ارتقاء ضرور ہوتا ہے. ایک پرلطف علمی چسکا بھی اسے میسر رہتا ہے. مگر حتمیت و قطعیت تک اس کی رسائی کبھی نہیں ہوپاتی. جو کل عقلی تھا وہ آج غیر عقلی ہوگیا. جو آج عقلی ہے، بہت ممکن کے کل غیر عقلی کہلائے گا. اسکے باوجود عقل اپنی اجارہ داری چاہتی ہے مگر اس حکومت کے قیام کیلئے اسے ان حواس خمسہ پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے جو اپنی اصل میں کئی نقائص رکھتے ہیں. وہ دیکھنے، سننے، چھونے، چکھنے یا سونگھنے سے حقیقت کا ادراک کرنا چاہتی ہے. مگر ان حواس سے اسے جزوی ادراک ہی نصیب ہوسکتا ہے، "كُل" کو جاننے سے وہ محروم ہی رہتی ہے. اس موقع پر اسے کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے. مگر عقل بھوکی مرجاتی ہے، کسی سے مدد نہیں لیتی. عقل کا ہدف چیزوں کو فتح کرنا ہے، ان پر اپنا جھنڈا لہرانا ہے. اپنے وجود کی تذکیر و تطہیر، اپنی کردار سازی اس کا مقصد نہیں. عقل مخلوق ہے مگر یہ خالق بننا چاہتی ہے. یہ اول تو کسی خالق کو ماننا نہیں چاہتی اور اگر مان بھی لے تو اپنی شرائط پر تسلیم کرتی ہے. عقل محدود ہے مگر یہ اپنے عجز اپنی حدود کو پہچاننے کے باوجود اس کا ڈھٹائی سے انکار کردیتی ہے. بلکہ وہ لامحدود کو اپنے محدود میں مقید کرنا چاہتی ہے. لہٰذا اب وہ ٹامک ٹوئیاں مارتی ہے، اندازے لگاتی ہے اور اسی پر مصر رہتی ہے.
.
عقل کی اہمیت کا انکار ہرگز نہیں. عقل وہ نماندہ وصف ہے جو انسان کی بڑی پہچان ہے. بے عقلی تو بڑی شرمندگی کی بات ہے. مگر عقل کا خود پسند ہو کر اپنی حدود کا اعتراف نہ کرنا ازخود حماقت ہے. گویا عقل یہ نہیں کہ آپ سب جان لیں بلکہ عقل یہ بھی ہے کہ آپ یہ جان لیں کہ آپ کیا نہیں جان سکتے؟ عقل کی سب سے بڑی خواہش خود بادشاہ بن جانا ہے. مگر اس کی حقیقی حیثیت وزیر کی ہے. جب تک عقل وزیر بن کر وحی اور فطری داعیات سے رہنمائی نہیں لے گی تب تک بینائی سے محروم رہے گی. عقل کی مثال ان آنکھوں کی سی ہے جن سے ہم سب کچھ دیکھتے ہیں. مگر اگر ایک شخص آنکھیں رکھ کر بھی بینائی سے محروم ہو تو پھر وہ دیکھ نہیں سکتا. اسی طرح اگر کوئی شخص آنکھیں اور بینائی دونوں رکھتا ہو مگر اس کے ارد گرد گھٹاٹوپ اندھیرا چھا جائے تو یہ بینائی و آنکھیں بھی اسے حقیقت نہیں دیکھا سکتی. گویا جب تک انسان کے اندر بینائی کی روشنی اور باہر ماحول کی روشنی یکجا نہ ہو تب تک اسکی آنکھوں کو "بصارت" حاصل نہیں ہو سکتی. یہ اندر کی روشنی وہ فطری داعیات ہے جو انسان کے اندر خدا نے الہام کردیئے ہیں اور باہر خارج کی روشنی درحقیقت اس وحی کا نور ہے جسے ہم تک پیغمبروں کے ذریعے منتقل کیا گیا ہے. عقل اسی وقت "بصیرت" بنے گی جب وہ ان دونوں کی چھتری تلے کام کرے. وگرنہ عقل پرستی کا یہ بت جعلی خدا بن کر آپ پر مسلط ہوجائے گا.
.
”کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش ِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمّہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سُنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گُزرے۔”
(قرآن44 ,25:43)

.
====عظیم نامہ====

سوال جواب


سوال جواب


سوال ١: رسول اللہ محبوب خدا اور وجہ تخلیق کائنات تھے۔ علم کا شہر تھے۔ ان کے پاس زیادہ علم تھا یا جبرئیل کے پاس؟

جواب: قران حکیم نے اسے موضوع ہی نہیں بنایا. نہ ہی بنانے کی ضرورت تھی. اس پر نہ ہماری آخرت کا مدار ہے اور نہ ہی دین کا کوئی حکم اس پر منحصر ہے. تخلیق کائنات قران حکیم کے بقول خلیفہ الارض اور جنات کے امتحان کیلئے برپا ہوئی جو درحقیقت اس ابدی کائنات کا فقط ضمیمہ ہے جہاں داخلہ اس عارضی کائنات کے امتحان میں کامیابی یا ناکامی کی صورت میں ہوگا.

سوال ٢: مجھے یقین ہے کہ رسول اللہ کے پاس زیادہ علم ہوگا کیونکہ وہ جبرئیل سے افضل تھے؟

جواب: قران حکیم میں افضلیت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے. اللہ پاک نے درجات ضرور بنائے ہیں مگر ہمیں یہ ہدایت کردی ہے کہ ہم نبیوں میں بھی فرق نہ کریں. کئی احادیث مبارکہ بھی ایسی موجود ہیں جن میں کسی ایسے تقابل سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا. صحیح بخاری کی ایک حدیث کچھ یوں ہے لَا تُخَيِّرُوا بَيْنَ الْأَنْبِيَاءِ (انبیاء کو ایک دوسرے سے بہتر نہ بناؤ) یا اسی طرح صحیح بخاری کی ایک اور حدیث ہے لَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى (کوئی بندہ میرے بارے میں یہ نہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں)

سوال ٣: پھر جبرئیل رسول اللہ کو کیا پڑھانے آتا تھا؟ جو ہستی مادی کائنات کی تشکیل سے پہلے وجود رکھتی تھی، کیا اسے علم نہیں دیا گیا تھا؟

جواب: جبرئیل علیہ السلام اللہ سے پیغام پاکر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتقل فرماتے اور وہ اس امت کو. یہ اللہ رب العزت پر ہے کہ وہ علم کا کون سا حصہ کسے کس وقت عطا کرے؟ علم کی بہت سی جہتیں ایسی بھی ممکن ہیں جو صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی ہوں اور جبرئیل علیہ السلام اس سے محروم ہوں. افضلیت کا پیمانہ اللہ پاک کے نزدیک کیا ہے؟ وہ وہی جانتا ہے. میرا رب ہی العلیم ہے اور وہ ہی یہ بھی بہتر جاننے والا ہے کہ کب کسے کتنا دیا جائے؟. قران حکیم کے بقول تو مادی کائنات کی تشکیل سے پہلے ہم سب ہی 'روحانی' وجود رکھتے تھے. عہد الست اسی کی روداد ہے. مگر آج ہماری جسمانی یادداشت اس کا مکمل ادراک نہیں رکھتی. صرف احساس رکھتی ہے. لہٰذا ایسی کسی بات کو دلیل بنا کر یہ استفسار عبث ہے. خاص کر تب جب قران حکیم نے خود بتادیا ہے کہ وحی کے ذرائع کیا ہیں؟

سوال 4: بعض تاریخ دانوں کے مطابق حضرت موسیٰ ساڑھے تین ہزار سال پہلے (پندرہ سو سال قبل مسیح) تشریف لائے تھے۔(جدید تاریخ داں کہتے ہیں کہ موسیٰ محض ایک کردار تھا، کوئی حقیقی شخصیت نہیں)حضرت داؤد نے ایک ہزار سال قبل مسیح اسرائیل پر حکمرانی کی۔ حضرت عیسیٰ اور رسول پاک کی حیات طیبہ کا دور ہمیں معلوم ہے۔سادہ سا سوال ہے کہ چاروں الہامی کتب فقط بائیس سو سال کے عرصے میں کیوں نازل کردی گئیں؟
یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ ارتقا کی تاریخ بیان کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہوموسیپئنز یا ماڈرن ہیومن یا موجودہ انسانی نسل کی عمر ڈیڑھ سے دو لاکھ سال کے درمیان ہے۔ مان لیتے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ سال تک انسان کے پاس شعور نہیں تھا اس لیے اس کے باشعور ہونے کا انتظار کیا گیا۔لیکن انسانی شعور کو حقیقی ترقی تو گزشتہ سو سال میں ملی ہے۔پھر الہامی کتابوں کو ایک مخصوص مختصر مدت میں بھیجنے کا کوئی خاص سبب؟

جواب: گویا مسئلہ تاریخ دانوں کے متفرق اور بدلتے نتائج کا نہیں ہے. بلکہ سوال آپ کا سادہ سا اتنا ہے کہ " چاروں الہامی کتب فقط بائیس سو سال کے عرصے میں کیوں نازل کردی گئیں؟"
قران واشگاف الفاظ میں متعدد مقامات پر یہ اعلان کرتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ہر دور اور ہر قوم میں اپنے رسول بھیجے. مثال کے طور پر سوره نحل میں کہا گیا کہ "اور ہم نے ہر قوم میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ کی ہی عبادت کرو.." یا پھر سوره ابراہیم میں ارشاد ہے کہ "اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہ اپنی قوم کی زبان میں بولتا تھا .." .. غور کیجیے ، اگر صرف عربی زبان یا جزیرہ العرب میں ہی رسولوں کو بھیجنا مقصود ہوتا تو کبھی یہ الفاظ نہیں کہے جاتے کہ 'اپنی قوم کی زبان میں بولتا تھا' . گویا یہ ان چار کتابوں کے علاوہ بھی مختلف ادوار میں مختلف اقوام کی زبان میں صحائف نازل ہوتے رہے ہیں.

قران جہاں رہتی دنیا کے لئے ہدایت ہے وہاں یہ نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسکی براہ راست مخاطب عرب میں بسنے والی وہ اقوام ہیں جو دور نزول میں موجود تھی. لہٰذا یہ بات نہایت سادہ، عقلی اور سمجھ میں آنے والی ہے کہ قران میں صرف ان چند انبیاء کا تفصیلی ذکر ہوا ہے جن سے عرب کسی نہ کسی حوالے سے آگاہ تھے. وگرنہ قران میں کئی ایسے پیغمبروں کے نام مذکور ہیں جنکا علاقہ، قوم یا ملک نہیں بیان کیا گیا جیسے حضرت نوح علیہ السلام یا حضرت آدم علیہ السلام وغیرہ. ایک مشہور حدیث کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں بھیجے گئے، جن میں سے صرف چند کا ذکر قران میں موجود ہے. یہ سوچنا بھی سراسر حماقت ہے کہ یہ ایک لاکھ سے زائد پیغمبر صرف عرب ہی میں آتے رہے.
مسلم محققین نے ہر دور میں تحقیق کر کے مختلف مشہور اشخاص کے پیغمبر ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے. مثال کے طور پر کچھ تحقیق نگاروں نے عبادات اور تعلیمات کا تقابلی جائزہ لے کر 'زرتشت' کو پیغمبر کہا ہے جو ملک ایران میں آے تھے. اسی طرح مولانا شمس نوید عثمانی نے اپنی گراں قدر تصنیف میں ہندوؤں کے ویدوں کو پرکھہ کر بہت سے علمی ثبوت فراہم کئے ہیں جو اشارہ کرتے ہیں کہ ہندودھرم یا قوم دراصل نوح علیہ السلام کی امّت ہیں. ان کےابتدائی صحائف میں ایک عظیم شخصیت کا ذکر آتا ہے جس کا نام 'مانو' ہے ، سنسکرت کے اعتبار سے دراصل یہ نام 'مہا نوح' بنتا ہے یعنی 'عظیم نوح' ! .. یہی نہیں بلکے مہا نوح سے وابستہ ایک پورا واقعہ بھی درج ہے جو ایک عذاب والے سیلاب کے آنے اور کشتی می سوار ہونے کی پوری روداد بیان کرتا ہے. بہرحال یہ تحقیقات چونکہ قران اور تاریخ میں واضح انداز میں موجود نہیں ہیں اس لئے تحقیق کی بنیاد پر صرف علمی قیاس قایم کیا جاسکتا ہے. انہیں حتمی درجہ دینا ممکن نہیں ہے مگر یہ تحقیقات بلند آواز میں اعلان کر رہی ہیں کہ الله عزوجل نے ہر امّت میں ہدایت کے لئے اپنے نبی بھیجے. اب اس باشعور انسان کا آغاز جو انسانیت کا جوہر رکھتا ہو، اسکی عمر اس کائنات میں جتنی بھی رہی ہو. قران مجید کے مطابق ان میں پیغمبر بھیجے جاتے رہے.
.
====عظیم نامہ====

تین توجیہات جو ملحدین پر شدید گراں

   تین توجیہات جو ملحدین پر شدید گراں

دین کی جانب سے پیش کی جانے والی تین توجیہات ایسی ہیں جو ملحدین پر شدید گراں گزرتی ہیں. گفتگو کے دوران ان توجیہات کو سن کر ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ انہیں کس طرح بدل ڈالیں؟ مگر انکے لئے مصیبت یہ ہے کہ مومن ان توجیہات کو پیش کرنے سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹتا. مومنین کی جانب سے پیش کردہ وہ تین توجہات درج ذیل ہیں:
.
١. پہلی توجیہہ کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے. گویا جب انہیں سمجھاتا جاتا ہے کہ اس دنیا میں موجود یا ہم پر وارد ہونے والی پریشانیاں، بیماریاں، اذیتیں، نعمتیں سب ہمارا امتحان لینے کے واسطے ہیں. یہ دیکھنے کیلئے ہیں کہ ہم نعمت یا مصیبت میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں؟ تو ملحدین اس پر خوب کروٹیں بدلتے ہیں. چاہتے ہیں کہ آپ یہ توجیہہ نہ دیں بلکہ کوئی اور وجہ ڈھونڈھ کر لائیں.
.
٢. دوسری توجیہہ کہ اصل اجر آخرت کی ابدی حیات میں ملے گا اور ہم میں سے ہر ایک اپنے ہر عمل کے بارے میں جواب دہ ہوگا. ملحد ایک لمحے کو خدا کو ماننے کیلئے تیار ہوسکتا ہے مگر کسی ایسے خدا کے تصور کو ماننے سے اسے سخت الجھن ہے جو اس سے اسکے اعمال کا حساب لے. جو سزا و جزا کیلئے جنت و جہنم میں داخل کرے. جب آپ اس دنیا میں ہونے والی زیادتی، ظلم اور بھوک کا بدلہ و انصاف جنت و جہنم سے منسلک کرکے بتاتے ہیں تو ملحدین سخت بے چین ہوتے ہیں، چاہتے ہیں کہ آپ یہ توجیہہ نہ دیں بلکہ کوئی ایسا جواب بتائیں جس سے اسی دنیا میں مکمل انصاف ہونا ثابت ہوجائے.
.
٣. تیسری توجیہہ کہ خدا ایک غیر مادی وجود ہے، جو زمان و مکان سے آزاد ہے اور جس پر اس مادی دنیا کے قوانین کا اطلاق ہرگز نہیں ہوتا. ملحدین مادی علوم بشمول سائنس کے حوالے سے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کائنات کی ابتداء سے لے کر وجود انسان تک کوئی بھی مادی وجود خود بخود بناء بنانے والے کے وجود نہیں پاسکتا. اب جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ بنانے والا خدا ہے تو اٹھلا کر پوچھتے ہیں کہ پھر خدا کو کس نے بنایا؟ ہم انہیں بتاتے ہیں کہ خدا تو اپنی تعریف میں کہتے ہی اسے ہیں جسے کسی نے نہ بنایا ہو اور جو ان مادی قوانین کی بندش سے آزاد ہو، جن کے پابند تمام مادی مخلوقات ہیں. اب یہ بات ملحدین سے ہضم نہیں ہوتی. چاہتے ہیں کہ آپ یہ توجیہہ نہ دیں بلکہ خدا کو بھی ایک مادی وجود مانیں اور اس پر مادی قوانین اپلائی یعنی منطبق کریں.
.
ان تین پیش کردہ توجیہات کو قبول کرنا ملحدین پر سخت گراں گزرتا ہے. ان کی خواہش ہوتی ہے کہ مذہبی طبقہ ان توجیہات سے برطرف ہوجائے. مگر خواہش کرتے ہوئے وہ دانستہ یا نادانستہ یہ فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ ان توجیہات کو بنانے والا کوئی ذاکر نائیک یا عظیم عثمانی نہیں ہے، جو ان کی خواہش کے احترام میں اسے بدل ڈالے. بلکہ یہی دین کا وہ مقدمہ ہے جو قران حکیم میں درج ہے. بلکہ یوں کہیئے کہ جو تمام الہامی صحائف میں بلاتفریق موجود ہے. یہی وہ دنیا، آخرت اور خدا کی ہستی کا تعارف ہے جو رب نے ہمیشہ اپنے انبیاء کے ذریعے ہم تک منتقل کیا ہے. اب یہ توجیہات آپ کی طبیعت ناگفتہ پر کتنی ہی گراں کیوں نہ گزریں؟ یا آپ کی سمجھ عالیشان سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں؟ ہم اسے نہیں بدلیں گے اور نہ ہی بدل سکتے ہیں. ہم نے کسی فلسفی کی مانند خدا کا تصور اپنے ذہن سے نہیں تراشا ہے بلکہ ہم نے تصور خدا اس خدا کے بھیجے ہوئے کلام ہی سے لیا ہے. دوسرے الفاظ میں اگر آپ اپنی خواہشات کے مطابق کسی ' ٹیلر میڈ' خدا کے تصور کے متمنی ہیں تو معذرت ہم آپ کی احقر درجے میں بھی مدد نہیں کرسکتے.
.
====عظیم نامہ====

تاریخ انسانی ایک کونسپریسی تھیوری

تاریخ انسانی ایک کونسپریسی تھیوری


بدھ مت مذہب کے بانی 'گوتم بدھا' کا نام کسی کیلئے اجنبی نہیں ہے. آپ سے منسوب اقوال حکمت کا ایک خزانہ معلوم ہوتے ہیں اور ساری دنیا میں لوگ ان سے سبق اخذ کرتے ہیں. مگر آپ کو جان کر شائد حیرت ہو کہ کچھ محققین کا یہ دعویٰ ہے کہ گوتم بدھا نام کا کوئی انسان تاریخ میں موجود نہیں رہا اور ان سے منسوب تعلیمات و اقوال یا احوال زندگی لوگوں نے خود گھڑ لئے ہیں. ان سے منسوب باتیں یا کتب فی الواقع ان ہی کی ہیں؟ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں. کچھ کا کہنا یہ بھی ہے کہ گوتم بدھا دراصل ایک بااثر انسان تھا، جس کی موت کے بعد ذہین افراد کی ایک پوری کونسل نے اسے لیجنڈ بنانے کیلئے یہ سارا ڈھونگ رچایا.
.
سقراط کا نام غالباً فلسفے کی دنیا کا سب سے معتبر نام ہے. مگر کیا آپ جانتے ہیں؟ کہ فلسفے اور تاریخ کے کچھ استادوں کا یہ کہنا ہے کہ سقراط نام کا کوئی آدمی تاریخ میں نہیں رہا یا اگر تھا بھی تو کوئی قابل ذکر انسان نہیں رہا. ان محققین کا دعویٰ ہے کہ یہ تو درحقیقت افلاطون نامی فلسفی نے ایک فرضی کردار گھڑ لیا اور اس کردار کا نام سقراط رکھ دیا. تاکہ سقراط کے نام سے منسوب کرکے وہ ان باتوں کا بیان کرسکے جو اسکے اپنے دور میں اسکے اپنے نام سے کہنا مشکل تھیں. یاد رہے کہ سقراط کی اکثر تعلیمات ہمیں افلاطون ہی کے ذریعے منتقل ہوئی ہیں.
.
موسیٰ علیہ السلام یہودیت، عیسائییت اور اسلام تینوں نمائندہ مذاہب کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں. جن کا تفصیلی ذکر ان مذاہب کے صحائف میں موجود ہے. مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ آثار قدیمہ اور تاریخ کے کچھ ماہرین ایسے بھی ہیں جن کے بقول موسیٰ علیہ السلام کا تاریخ میں کوئی نام و نشان نہیں. گویا وہ ایک فرضی کردار ہیں جو یہودیت کے مشائخ نے گھڑ کر لوگوں کو سنادیا تاکہ ان پر حکومت کرسکیں.
.
عیسیٰ علیہ السلام کی عالی مرتبت شخصیت سے کون واقف نہیں؟ اسلام ہو یا عیسائییت - سب کے سب یسوع مسیح کو مانتے ہیں اور ان کے واقعات و اقوال سے بہرہ یاب ہوتے ہیں. مگر عجیب بات یہ ہے کہ کچھ تاریخ دانوں اور محققین کے حساب سے عیسیٰ علیہ السلام کا کردار انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے. اس نام کا کوئی شخص سرے سے موجود ہی نہ تھا اور اگر تھا بھی تو وہ ایک عام سا آدمی تھا. نبوت وغیرہ سے کوسوں دور. ان احباب کی جانب سے عیسیٰ علیہ السلام کے فرضی ہونے کا پرچار پورے زور و شور سے کیا جاتا ہے. انٹرنیٹ پر آپ کو ان گنت مقالے، مکالمے اور کانفرنسز کی رودادیں باآسانی دستیاب ہیں.
.
نبی کریم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم وہ واحد نبی ہیں جو معلوم تاریخ میں آئے. جن کی موجودگی و تعلیمات کی تفصیل ابتداء سے لکھی ہوئی بھی موجود ہے اور لاکھوں افراد کی گواہی کی صورت میں بھی دستیاب ہے. مگر کیا آپ جانتے ہیں؟ کہ کچھ تاریخ دان محققین کے نزدیک محمد بن عبداللہ نام کی کوئی شخصیت تاریخ میں کبھی موجود ہی نہیں تھی اور یہ سب کی سب تعلیمات کچھ لوگوں نے اقتدار کیلئے لکھی ہیں؟ اگر یقین نہ آئے تو معروف بیسٹ سیلر مصنف 'رابرٹ اسپنسر' کی کتاب ملاحظہ فرمائیں. عنوان ہے "کیا محمد کا وجود تھا؟" (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
.
ایسی ہی اور بہت سی مثالیں موجود ہیں. عزیزان من ! تاریخ انسانی سے سیکھنے کی اہمیت اپنی جگہ ایک حقیقت ہے. ہم سب کو تاریخ کو پڑھنا اور سیکھنا چاہیئے مگر ان تاریخ دانوں یا 'محققین' کی ادائیں بھی خوب ہیں. اگر ان سب کے نتائج کو آپ بیک وقت تسلیم کرلیں تو یقین کیجیئے یہ پوری تاریخ انسانی ایک 'کونسپریسی تھیوری' بن کر رہ جائے. یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کسی معروف ترین تاریخی شخصیت کے وجود کا انکار کرنا اور اس انکار کیلئے استدلال پیش کرنا. آپ کو آپ کے ناظرین و قارئین میں نہایت تیزی سے مقبول کردیتا ہے. بالخصوص اگر اس شخصیت کی کوئی نسبت مذہب سے جڑتی ہو تو سمجھیئے ہر طرف آگ لگ جانی ہے اور آپ کا مثبت یا منفی ڈنکا بج جانا ہے. اب ظاہر ہے وہ تاریخی شخصیت اپنے دفاع کیلئے خود تو آنے سے رہی کہ آپ کو آکر بتائے کہ وہ کس دور میں، کس جگہ پر، کن افراد کے مابین موجود تھی؟ موجود آثار میں سے کون سے اس کی یادگار ہیں؟ وغیرہ. لہٰذا آج ان ہستیوں کے رخصت ہونے کے سینکڑوں ہزاروں سال بعد کچھ محققین جو علمی موشگافیاں کرتے ہیں، انہیں ایک عامی نہ رد کر پاتا ہے نہ قبول. جبکہ دیگر محققین ایسے بھی موجود ہوتے ہیں جو اسی روایتی سمجھ کے اثبات میں اپنی رائے دیا کرتے ہیں. ایسے میں اس مبہم تاریخ کو بنیاد بنا کر کسی مذہبی یا غیر مذہبی شخص کا مکمل انکار کردینا، سمجھ سے بالاتر ہے.
.
یقین کیجیئے کچھ منچلے تو اس حد تک جانے کی بھی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں کہ سکندر اعظم (الیگزینڈر دی گریٹ) جس نے آدھی دنیا فتح کی، اسے بھی کسی صورت فرضی کردار بنا چھوڑیں. یہی ماجرا سائرس دی گریٹ کے بارے میں بھی ہے. جتنے پرانے دور کی شخصیت ہوتی ہے، اتنا ہی اس کا انکار پیش کرنا آسان ہوجاتا ہے. اگر آپ کے پاس ایک اچھی سی ڈگری ہے تو بس ایک مقالہ یا کتاب لکھ دو کہ تاریخی آثار ہمیں اس شخصیت کے نہیں لگتے یا ہمیں ثابت نہیں ہوتے اور یہ کہ اس شخصیت سے منسوب تعلیمات، حالات و واقعات بعد کے لوگوں کی سازش ہے. بس ہوگیا کام. اب ایک نہ ختم ہونے والی بحث ہوتی رہے گی اور آپ کی کتاب خوب بکے گی. یہ سوچے بغیر کہ اگر یہ معروف کردار کسی سپرمین، اسپائیڈر مین کی طرح نقلی و فرضی تھے تو ان کے ادوار میں موجود یا ان کے زمانے کے نزدیک ہزاروں لاکھوں لوگ کیا اتنے احمق و لاچار تھے کہ انہوں نے اس جھوٹ پر کوئی کھلا یا چھپا احتجاج نہ کیا؟ ہمیں کوئی ایک بیان یا احتجاج یا گروہ ایسا نہیں ملتا جس نے سقراط سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی بھی تاریخی شخصیت کو فریب قرار دیا ہو. اس کے برعکس ان کی موجودگی کے اثبات کی ان گنت گواہیاں ہمیں لوگوں کی زبانی منتقل ہوتی آئی ہیں.
.
====عظیم نامہ====

حضرت میں غلط دور میں پیدا ہوگیا

حضرت میں غلط دور میں پیدا ہوگیا


غالب کے دو اشعار سنا کر وہ صاحب تاسف کیساتھ مخاطب ہوئے کہ حضرت میں غلط دور میں پیدا ہوگیا ہوں. مجھے تو غالب و میر کے دور میں ہی پیدا ہونا چاہیئے تھا.
.
ہم نے عرض کیا کہ مانا وہ دور اردو ادب کی ترقی کا تھا اور آج کا دور اردو کی تنزلی و پستی کا. مگر غالب کو بھی ان کے اپنے دور میں نہیں پہچانا گیا اور شائد ہم بھی آج اپنے غالب و میر کو نہیں پہچانتے. جس تعصب و ناقدری کا شکار غالب اپنے دور میں ہوئے اسی اذیت و گمنامی کی چکی میں آج کا غالب بھی پس رہا ہے. کیا معلوم اگلی صدیوں میں آنے والا کوئی ادب پسند شخص یونہی یوسفی کے اقتباس سنا کر اور فراز و فیض کی شاعری پیش کرکے پھر یہ آہ بھرے کہ حضرت میں غلط دور میں پیدا ہوگیا ہوں.
.
====عظیم نامہ====