Thursday, 22 September 2016

خودبخود

خودبخود



زیرو کا بلب ایڈیسن نے بنایا اور سورج خودبخود بن گیا.
ملک کا نظام انسانوں نے بنایا اور کائنات کا نظم خودبخود بن گیا.
اداروں کے قوانین قانون سازوں نے بنائے اور مادی قوانین خود بخود بن گئے. 
مادے کے ڈھیر سے جیتا جاگتا عاقل انسان خود بخود بن گیا. 
"یہ کائنات خودبخود چل رہی ہے". یہ بات ملحد نے گاڑی چلاتے ہوئے کہی.

کون بہتر؟


کون بہتر؟



ایک شخص کے تین بیٹے تھے. ایک روز اس نے ان تینوں کو جمع کرکے تلقین کی کہ دیکھو میں شام تک کیلئے گھر سے باہر جارہا ہوں. اگر میری غیرموجودگی میں کچھ مہمان آجائیں تو تم لازمی مہمان نوازی کے حقوق ادا کرنا. یہ کہہ کر وہ شخص اپنا کام نمٹانے گھر سے چلا گیا. کچھ دیر بعد کسی نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا. معلوم ہوا کہ کچھ مہمان ملنے آئے ہیں. اب ان بیٹوں نے جب مہمانوں کی صورت دیکھی تو پہلا سب سے بڑا بیٹا تو جلدی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا. دوسرا منجھلا بیٹا کمرے میں تو نہ چھپا مگر واجبی سا سلام کرکے کونے میں بیٹھ کر لاتعلقی سے اپنا ناول پڑھنے لگا. ان دونوں بڑے بیٹوں کے برعکس چھوٹے بیٹے نے جو اپنی عمر اور طاقت کے لحاظ سے بہت کم تھا، نہ صرف مہمانوں کا پرجوش استقبال کیا بلکہ اپنی ٹوٹی پھوٹی گفتگو سے ان کا دل بھی بہلانے لگا. گو چھوٹا ہونے کے سبب اسے ٹھیک سے بات کرنا نہیں آتا تھا. پھر وہ اٹھا اور جا کر مہمانوں کیلئے چائے بنانے لگا لیکن اسے تو چائے بنانا بھی ٹھیک سے نہ آتی تھی. لہٰذا اس نے پانی سے پہلے دودھ ڈال دیا اور دودھ کے بعد پتی ڈالی. چینی بھی کچھ زیادہ گرگئی اور اس نے پیالی بھی زیادہ بھر دی. اب وہ اس چائے کو بامشکل سنبھالتا، لڑکھڑاتا، ڈگمگاتا مہمانوں کے پاس لانے لگا. اس کے ہاتھ توازن نہ رکھ پاتے تھے اور چائے تھوڑا تھوڑا اچھل کر طشتری میں پھیلتی جاتی تھی. اس نے بسکٹ بھی پیش کئے مگر جس برتن میں انہیں رکھا وہ چٹخا ہوا تھا. ان سب کوتاہیوں کے باوجود وہ مہمانوں کی ہر ممکنہ تواضع کرتا رہا. شام ڈھلے باپ واپس آیا تو اسے اندازہ ہوگیا کہ کچھ مہمان گھر آئے تھے. اس نے بیٹوں سے استفسار کیا کہ تم میں سے کس نے مہمان نوازی کے حقوق ادا کئے ؟
.
قارئین آپ کا کیا خیال ہے کہ ان تینوں بیٹوں میں سے وہ کون تھا جس نے حقیقی معنوں میں مہمان کے حقوق ادا کرنے کی سعی کی؟ مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے ہر ایک کا جواب یہی ہوگا کہ چھوٹے بیٹے نے حقوق ادا کئے. اس نے چاہے کتنی ہی غلطیاں کی ہوں مگر کم از کم اس نے اپنی صلاحیت کے مطابق مقدور بھر کوشش تو کی. دوستو اس فرضی کہانی کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جو افراد عملی طور پر بہتری کی کوشش کرتے ہیں، وہ اپنی اس کوشش میں کسی ممکنہ کمی اور غلطی کے باوجود بھی ان افراد سے بہرحال ہزار درجے بہتر ہیں جو صرف فصیح و بلیغ باتیں بگھارتے ہیں. افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے خود ساختہ مفکرین تنقید کرنے میں تو سب سے آگے ہیں مگر عملی میدان میں ان کا اپنا کردار صفر بٹا صفر ہے. یہ لوگ فلاحی (چیریٹی) اداروں میں کیڑے نکالتے ہیں مگر خود کسی فلاحی کام کا عملی حصہ نہیں بنتے. یہ تعلیمی شرح کے کم ہونے پر طعنہ کستے ہیں مگر خود کسی غریب کی تعلیم کا بندوبست نہیں کرتے. یہ ملک میں بڑھتی بیروزگاری کا رونا روتے ہیں مگر ذاتی وسائل رکھنے کے باوجود کسی مجبور کی نوکری کا بندوبست نہیں کرتے. 
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا 
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے 
.
====عظیم نامہ====

Monday, 19 September 2016

مایوسی کے پیغمبر


مایوسی کے پیغمبر



بد مزاج انسان کا پسندیدہ جملہ: "بھائی سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے" 
(حالانکہ اکثر سچ کڑوا نہیں ہوتا بلکہ آپ کا لہجہ اور الفاظ کا انتخاب اسے کڑوا بنادیتا ہے)
.
منفی ذہنیت والے انسان کا پسندیدہ جملہ: "بھائی میں تو بس آئینہ دکھاتا ہوں" 
(حالانکہ منفیت کا مریض مثبت زاویہ دیکھ ہی نہیں سکتا. وہ تو صرف ماتم کرسکتا ہے، کوسنے دے سکتا ہے)
بے عمل ناقد انسان کا پسندیدہ جملہ: "بھائی میں تو مسلسل تنقید ہی سے لوگوں میں آگہی پیدا کرنے کا فریضہ انجام دیتا ہوں." 
(حالانکہ عملی میدان میں مثبت تبدیلی لانے والے افراد ہمیشہ اپنی گفتگو میں مثبت ہوتے ہیں اور صرف 'تعمیری' تنقید کیا کرتے ہیں) 
.
مایوس انسان کا پسندیدہ جملہ: "بھائی یہ معاشرہ ہی سڑ چکا ہے، مجھ اکیلے کے کرنے سے کیا ہوگا؟
(حالانکہ سچی تبدیلی کے خواہشمند شکوے کرنے کی بجائے اپنا اپنا کردار نبھاتے ہیں)
.
دوستو میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تنقید نہ کریں یا مسائل کو زیر بحث نہ لائیں. ضرور لائیں مگر اس میں توازن پیدا کریں. جہاں زید حامد کی طرح خوش فہمی کا چیمپئن بننا حماقت ہے وہاں حسن نثار کی طرح مایوسی کا پیغمبر بن جانا بھی دانش کی دلیل نہیں. تنقید ضرور کریں مگر تعریف کے پہلوؤں پر بھی اپنی نظر کرم کیجیئے. مثبت انداز میں تنقید کیجیئے کہ جسے پڑھ کر قاری مایوسی کی دلدل میں نہ جاگرے بلکہ اس میں اپنے سدھار کا جذبہ پیدا ہو. یہ کلیہ کسی سے مخفی نہیں ہے کہ جس صحبت میں بیٹھو گے ویسے ہی جلد یا دیر تم بھی ہو جاؤ گے، لہٰذا اپنی صحبت کا فیصلہ سوچ سمجھ کر اس حدیث کی روشنی میں کرو 
.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے اور برے ساتھی کی مثال ایسی ہے جیسے مشک والا اور لوہاروں کی بھٹی. تو مشک والے کے پاس سے تم بغیر فائدے کے واپس نہ ہوگے، یا تو اسے خریدو گے یا اس کی بو پاؤ گے. اور لوہار کی بھٹی تیرے جسم کو یا تمہارے کپڑے کو جلا دے گی یا تم اس کی بدبو سونگھو گے۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2021)
.
====عظیم نامہ====

Friday, 16 September 2016

جو کرتا ہے سو اللہ کرتا ہے


جو کرتا ہے سو اللہ کرتا ہے



کہتے ہیں کہ ایک درویش اپنی دھن میں مگن یہ کہتا جارہا تھا 
.
"جو کرتا ہے سو اللہ کرتا ہے ... جو کرتا ہے سو اللہ کرتا ہے" . 
.
ایک شریر انسان کو جو مستی سوجھی تو اس نے درویش کو کنکر پھینک مارا. 
.
درویش نے پلٹ کر اس شخص کو گھورا تو اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے طنزیہ جملہ کسا 
.
"ارے کیا ہوا میاں؟ مجھے کیوں دیکھتے ہو؟ تم ہی تو کہتے ہو کہ جو کرتا ہے سو اللہ کرتا ہے؟"
.
درویش نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا 
.
"ہاں یہی سچ ہے کہ جو کرتا ہے سو اللہ کرتا ہے .. میں تو بس یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کرنے کرانے میں اپنا منہ کس نے کالا کیا؟"
عزیزان من ، اس کائنات میں سب کچھ اللہ ہی کی مرضی اور اجازت سے ہورہا ہے. مگر اسی نے اپنی مرضی و اجازت سے انسان کو آزادی اختیار دے رکھا ہے. وہ 'علم' رکھتا ہے مگر اس کا 'علم' رکھنا آپ کو دیئے 'اختیار' کو سلب نہیں کرتا. 
.
====عظیم نامہ====

Thursday, 15 September 2016

تقدیر سادہ الفاظ میں کیا ہے؟



تقدیر سادہ الفاظ میں کیا ہے؟


.
تقدیر کے مسئلے کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پیچیدہ ترین مسئلہ تسلیم کیا جاتا ہے. فلسفہ، مذہب، سائنس، منطق سب اس موضوع پر طبع آزمائی کرتے رہے ہیں اور کسی متفقہ مدلل نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں. متکلمین بھی ایک زمانے تک جبریہ یعنی مکمل جبر اور قدریہ یعنی مکمل اختیار جیسی انتہاؤں میں مبتلا رہے ہیں. لہٰذا یہ سوچنا درست نہیں کہ اس کی باریکیوں کو آپ سوشل میڈیا پر سمجھ لیں گے. بہرحال میری سمجھ کا ایک اجمالی خاکہ درج ذیل پانچ حقیتوں میں مذکور ہے. جو تمام ایک دوسرے سے منسلک تو ضرور ہیں مگر اپنا جداگانہ وجود رکھتی ہیں اور جنہیں اگر آپ جدا جدا سمجھ لیں تو مسئلہ تقدیر کو کسی حد تک جان پائیں گے ان شاء للہ
.

١. علم الٰہی
_____________
یعنی اللہ کو ہر بات کا بناء ماضی، حال اور مستقبل کی تفریق کے علم ہے لیکن کسی بات کا رب کو علم ہونا اور کسی پر رب کا جبر کرنا دو علیحدہ حقیقتیں ہیں. رب کا علم کیسے کام کرتا ہے؟ یہ ہم اپنی انسانی عقل سے کبھی نہیں جان سکتے کہ محدود غیر محدود کا احاطہ نہیں کرسکتا. زمان و مکان میں مقید مخلوق زمان و مکان سے آزاد خالق کے علم کو نہیں جان سکتی.
.
"اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور جانتا ہے جو کچھ زمین میں اور دریا میں ہے، اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسے بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر یہ سب کچھ کتاب روشن میں ہیں۔" (سورہ الانعام ٥٩)
.
٢. تقدیر مبرم حقیقی
______________________
.
تقدیر دو حصوں میں منقسم ہے. اس کا پہلا حصہ وہ ہے جس میں ہم مجبور محض ہیں اور جسے بدلا نہیں جاسکتا. جیسے ہمارا مرد یا عورت ہونا یا ایک خاص ملک و گھر میں پیدا ہونا، ہمارا 'ڈی این اے کوڈ' وغیرہ. اسی طرح کسی کی موت کا یا عذاب کا حتمی فیصلہ بھی اسی میں شامل ہے
.
"’’(فرشتوں نے کہا:) اے ابراہیم! اس (بات) سے درگزر کیجئے، بیشک اب تو آپ کے رب کا حکمِ (عذاب) آچکا ہے، اور انہیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتا۔‘‘ (سورہ الهود ١١)

.
٣. تقدیر مبرم غیر حقیقی
__________________________
تقدیر کا وہ دوسرا حصہ جس میں دعا اور کوشش سے تبدیلی ممکن ہے جیسے دعا اور دوا کرو گے تو فلاں بیماری سے نجات پاؤ گے ورنہ نہیں.
.
"صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے۔‘‘ (ترمذی)
.
٤. آزادی ارادہ و اختیار
_______________________
دین کا سارا مقدمہ اسی پر قائم ہے کہ انسان اس دنیا میں آزادی ارادہ و اختیار کے ذریعے جو فیصلے کرے گا، روز آخرت اسی کی جزاء پائے گا. لہٰذا اس سے بڑا کوئی مغالطہ نہیں کہ کوئی عقلمند یہ سوچے کہ وہ مطلق مجبور ہے. یہ بات ہم پر دین اور تجربے دونوں سے ثابت ہے کہ انسان زندگی کے اچھے برے فیصلے اکثر اپنی مرضی سے لینے پر قادر ہوتا ہے. یہ اختیار 'تقدیر مبرم غیر حقیقی' کے دائرے میں ہی کام کرتا ہے.
.
"ہم نے تو اسے راہ دکھائی تو اب وہ خواہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا" (سورہ الدھر ٣)
.
" یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی، پھر اس کو اس کا پورا پورا بدل دیا جائے"
(سورہ النجم)
.
٥. نتیجہ 
_________
.
کوشش انسان کے ہاتھ میں ہے مگر موافق و مخالف نتیجہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے. اسی لئے شریعت میں ہم صرف کوشش کے مکلف ہیں نتائج کے نہیں. گو عموم میں اس دارالا متحان کا اصول یہی ہے کہ اچھے برے دونوں اقدام کو انسان کے مطلوبہ نتیجے تک پہنچنے دیا جائے. مگر دو صورتوں میں قادر المطلق نتیجہ انسانی ارادے کے برخلاف کردیتے ہیں. پہلا جب کی گئی کوشش رب کے مجموعی نظام و مشیت یعنی اس کے کائناتی گرینڈ پلان سے ٹکراتی ہو. دوسرا جب کسی کی دعا اس عمل کے خلاف مقبول ہوچکی ہو. چانچہ بعض اوقات ایک قاتل اپنے ارادہ و اختیار سے گولی چلاتا ہے مگر گولی اسی بندوق میں اٹک جاتی ہے اور یوں اس کا ارادہ مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں کرپاتا.
.
"اور پھر اس کے باغ کے پھل آفت میں گھیر دیئے گئے تو وہ ان اخراجات پر ہاتھ ملنے لگا جو اس نے باغ کی تیاری پر صرف کئے تھے جب کہ باغ اپنی شاخوں کے بل اُلٹا پڑا ہوا تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ اے کاش میں کسی کو اپنے پروردگار کا شریک نہ بناتا " (سورہ الکہف ٤٢)
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 14 September 2016

وہ عورت پڑوسی کے ساتھ بھاگ گئی


 وہ عورت پڑوسی کے ساتھ بھاگ گئی



سوال:

میرے ایک کزن نے بہت محبت سے شادی کی اور اسی سے اس کے بچے ہوئے. وہ عورت پڑوسی کے ساتھ چکر چلا کر بھاگ گئی. میرا کزن اب پانچ ماہ سے شدید اذیت میں رہتا ہے. مرنے مارنے اور خودکشی کا سوچتا رہتا ہے. میں اسے کئی مولوی صاحبان کے پاس بھیج چکا ہوں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا. آپ کسی اچھے مولوی کو جانتے ہیں؟ سمجھ نہیں آتا اسے کیسے ہینڈل کروں؟ اس عورت نے بچوں کی ماں ہوکر بھی ایسا کیوں کیا؟ سوچا آپ بہتر مشورہ دیں گے 
.
جواب:
آپ کے کزن کے ساتھ جو ہوا وہ انتہائی افسوسناک ہے مگر وہ پہلا انسان نہیں ہے جس کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آیا ہو. ایسے ہلا دینے والے واقعات ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں. ہم ایسے کسی واقعہ پر افسوس تو کرسکتے ہیں مگر اسے بنیاد بنا کر کسی کو مارنے یا خودکشی کرلینے کا جواز نہیں تراش سکتے. ایسی سوچ عقل اور دین دونوں کے خلاف ہے. آپ کے کزن کو مولوی کی نہیں بلکہ کسی ایسے قابل نفسیاتی معالج کی ضورت ہے جسے وہ اپنا دکھ کھل کر بیان کرسکے اور جو اس کی باقاعدہ کونسلنگ کرسکے. ممکن ہے کہ اسے ایک خاص ذہنی تھیراپی کروائی جائے جسے "کاگنیٹیو بحویور تھیراپی" یعنی 'سی-بی-ٹی' سے موسوم کیا جاتا ہے. ساتھ ہی اسے ذہنی دباؤ کو دور کرنے کی ایسی ادویات دی جائیں گی جو اسے اپنی اس داخلی کیفیت سے لڑنے میں مدد کرسکیں. ساتھ ہی لازمی ہے کہ اسے دین کی اصل روح کے قریب لایا جائے. ذکر الٰہی سے قلوب سکون پاتے ہیں. دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ کوئی غیرمعمولی واقعہ بھی فرد کو ڈپریشن میں لے جاتا ہے. مایوسی پیدا ہونا، خودکشی کا سوچتے رہنا، روتے رہنا - یہ سب ڈپریشن کی علامات میں شامل ہیں. آپ نے اس حادثے پر کوئی پی ایچ ڈی تھیسس نہیں جمع کروانا ہے. اسلئے یہ سوال کہ اس عورت نے بچوں کی ماں ہوکر ایسا کیوں کیا؟ اسے کریدتے رہنے کا اب کوئی فائدہ نہیں. اکثر ایسے حادثات کے پیچھے سالوں پر محیط بہت سے مخفی عوامل ہوا کرتے ہیں. جیسے مناسب وقت اور توجہ نہ دینا، بات بے بات جھگڑا کرتے رہنا، عزت نفس کو کچلتے رہنا وغیرہ 
.
وقت کرتا ہے پرورش برسوں 
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا 
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: نازیبا کمنٹس ڈیلیٹ کردیئے جائیں گے جیسے اس عورت کو گالی دینا یا اس مرد کا مذاق بنانا)

Tuesday, 13 September 2016

پتھر کے شیطان کو حج میں کنکریاں مارنا کہاں کی عقلمندی ہے؟


پتھر کے شیطان کو پتھر مارنا کہاں کی عقلمندی ہے؟




کچھ دیر قبل کسی کی شیئر کردہ پوسٹ اپنی فیس بک وال پر شیئر کی جسے میرے علاوہ بھی بہت سے افراد شیئر کرچکے ہیں. ان افراد میں محترم رعایت اللہ فاروقی، محترم جمیل اصغر جامی، محترم قیصر شہزاد اور محترم مولانا اسحٰق عالم جیسے صاحبان علم بھی شامل ہیں. اس شیئر کردہ پوسٹ کو جہاں بہت سے لوگوں نے سراہا وہاں کچھ سادہ لوح افراد ایسے بھی تھے جو اسے پڑھ کر بھڑک اٹھے. کچھ کی غیرت ایمانی تو اس وقت تک ٹھنڈی نہ ہوئی جب تک انہوں نے مجھے برابھلا نہ کہہ لیا. گو کے اس پوسٹ کی خوبصورتی یہی تھی کہ اسے مزید نہ کھولا جائے مگر اب یہ حال دیکھ کر اس کا مختصر خلاصہ لکھ رہا ہوں 
.
پوسٹ کے پہلے حصے میں ملحدین اور مخالفین اسلام کا وہ مشہور اعتراض درج ہے جو وہ ہر سال حج کے موقع پر اٹھایا کرتے ہیں. اعتراض کچھ یوں ہے کہ : "پتھر کے شیطان کو کنکریاں مارنا کہاں کی عقلمندی ہے؟" . اس سوال یا اعتراض کا جواب ایک مسلم کیلئے تو اتنا کافی ہے کہ یہ حکم خداوندی ہے اسلئے ہمیں مزید کسی دلیل کی حاجت نہیں. مگر کیا یہی جواب کسی ملحد کیلئے بھی درست ہوگا؟ ظاہر ہے کہ نہیں. لہٰذا پوسٹ میں اس سوال کا جواب مکالمے کے اس انداز سے دیا گیا جسے 'الزامی جواب' کہا جاتا ہے. جواب کچھ یوں ہے کہ : اگر پتھر کے شیطان کو کنکری مارنا عقلمندی نہیں تو پھر امریکہ کے جھنڈے کو سیلوٹ مارنا کیسے عقلمندی ہوگی؟ جس طرح امریکہ کا جھنڈا امریکہ کے وجود کا علامتی اظہار ہے اور اسی لئے امریکی فوجی اسے ملک کی علامت سمجھ کر سیلوٹ مارتے ہیں. ٹھیک اسی طرح پتھر کا یہ مجسمہ شیطان کا علامتی نشان بنایا گیا ہے جسے کنکریاں مار کر مسلمان اپنی شیطان بیزاری کا اعلان کرتے ہیں. 
یہ پوسٹ ملحدین کے ایک گستاخانہ اعتراض کا الزامی جواب ہے. امید ہے کہ اب بات واضح ہوئی ہوگی.