Wednesday, 31 August 2016

جدید ذہن اور انکار آخرت



جدید ذہن اور انکار آخرت 



.
جدید تشکیک زدہ اذہان کا اصل مسئلہ خدا کے وجود کو تسلیم کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مسئلہ خدا کے سامنے جواب دہ ہونے کو قبول کرنا ہے. یہ احساس کہ وہ موت کے بعد کسی کو جواب دہ ہونگے؟ اور اپنے اپنے اعمال کا اچھا برا اجر پائیں گے؟ اس نظریئے کو تسلیم کرلینا بہت سے اذہان کیلئے ممکن نہیں ہے. ان کے لئے خود کو جواب دہ ماننا اپنی آزادی کو سلب کردینے کے مترادف ہے. وہ اپنی شتر بے مہار جیسی آزادی پر کسی بیرونی پہرے کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں. لہٰذا سچ پوچھیئے تو ان کا یہ انکار عقلی سے زیادہ جذباتی بنیاد پر استوار ہے. اس پر طرہ یہ ہے کہ دین بھی اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے بناء جھجھک اس کا اعلان کردیتا ہے کہ اس فانی دنیا میں انسان کو فی الواقع اپنی آزادی کو خدا کی مرضی کے سامنے قربان کرنا ہوگا اور اس کا عبد یعنی غلام بن کر رہنا ہوگا. اس کے برعکس دور حاضر کا جائزہ لیجیئے تو جو ممالک الحاد سے جتنا متاثر ہیں اتنا ہی انسان کی مادر پدر آزادی کے مبلغ ہیں. فری ڈم آف اسپیچ ، لبرٹی اور لبرلزم ان معاشروں میں عقائد کی طرح رائج ہیں. اس آزادی انسان کیلئے وہ اتنے متشدد ہیں کہ ہم جنسی کے فروغ اور ہر طرح کے فطری انسانی رشتے کو قربان کرنے کیلئے تیار ہیں. اسی آزادی کا نام لے کر وہ مرد و زن کی ہر قیود کو توڑ کر انہیں کپڑوں اور دیگر ہر حرمت سے بے نیاز کرنے پر مصر ہیں. گویا ایک طرف یہ مغربی ذہن ہے جو پوری شدت سے مکمل 'آزادی' کا دلفریب نعرہ لگا رہا ہے تو دوسری جانب دین کا پیرو ذہن خود کو عبد کہنے پر مسرور ہے اور اسی جانب دوسروں کو نصیحت کرتا ہے. یہی وہ کشمکش ہے جس کے نتیجے میں بعض لوگ خدا کے منکر یعنی 'ایتھیسٹ' ہوجاتے ہیں تاکہ جواب دہی کے کسی امکان پر بات ہی نہ ہو. جبکہ بعض دوسرے خدا کو ایک زندہ ہستی کی بجائے مختلف تاویلوں سے ایک ایسے وجود کا نقشہ کھینچ لاتے ہیں جس نے اس کائنات کو لامحالہ تخلیق تو کیا ہے مگر وہ کسی سے اس کے اعمال کا حساب نہیں لے گا. اس دوسرے گروہ میں مختلف نظریات سے منسلک لوگ وابستہ ہیں جن میں سے کچھ خود کو 'ڈیسٹ' اور کچھ کو 'اسپرچولسٹ' کہلواتے ہیں. 
.
آپ انسانی تاریخ کے مقبول ترین سائنسدان 'البرٹ آئین سٹائن' کی مثال لیجیئے جو خدا کے وجود کو کھلے الفاظ میں قبول کرتا ہے مگر ساتھ ہی یہ کہتا ہے کہ میں کسی 'پرسنل گاڈ' کو نہیں مان سکتا. 'پرسنل گاڈ' سے مراد اس کی ایک ایسی خدائی ہستی ہے جو اعمال کا حساب لے گی. اسی طرح سے دور حاضر کا شائد سب سے معروف سائنسدان 'اسٹیفن ہاکنگ' کی مشہور زمانہ تصنیف 'بریف ہسٹری آف ٹائم' دیکھیئے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بذریعہ سائنس 'خدائی ذہن' کو سمجھنے کی سعی کررہا ہے ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کو کسی نہ کسی صورت مان رہا ہے مگر حال ہی میں اس نے خدا کے وجود کا مطلق انکار کر دیا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ بظاہر یہی نظر آتی ہے کہ اسکے لئے ایک ایسے خدا کے وجود کو ماننا ممکن نہیں ہے جو صرف خالق و مدبر ہی نہیں بلکہ 'مالک الیوم الدین' بھی ہے. آپ دیگر ملحدانہ سوچ سے متاثر سائنسدانوں کی گفتگو سنیئے تو معلوم ہوگا کہ وہ ایک جانب تو وجود خدا کا انکار کرتے ہیں مگر دوسری طرف کائناتی قوانین و توازن کو 'مدر نیچر' کہہ کر اس سے ان ہی صفات کو منسلک کرتے ہیں جو روایتی طور پر خدا ہی کی صفات سمجھی گئی ہیں. لفظ خدا کی جگہ 'مدر نیچر' کی اس اصطلاح کو اسی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ روز آخرت یا خدا کو جواب دہی کے امکان کو ختم کیا جاسکے. اسی طرح ذرا دقت نظر سے دیکھیں تو جدید فلسفوں پر استوار ان 'اسپرچولسٹ' گروؤں کا بھی حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں. لہٰذا آپ گرو رجنیش یعنی 'اوشو' کی تعلیمات دیکھیئے تو اس کا ماننا ہے کہ خدا موجود نہیں ہے مگر ساتھ ہی کہتا ہے کہ وجود خدا کا انکار اسے 'ایتھیسٹ' نہیں بناتا. وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں خدا کا نہیں لیکن ایک 'کائناتی شعور' (کاسمک کونشئیس نیس) کے وجود کا قائل ہوں. جس میں انسانی شعور ضم ہوکر ابدی حیات پاسکتا ہے. ایک اور مثال راقم کے مطابق اس وقت کے سب سے ذہین گرو 'سدھ گرو' کی ہے جو ایک بار پھر خدا کے وجود کو منفرد استدلال سے ایک ایسی نادیدہ برتر ذہانت (سپریم انٹلیجنس) تک محدود کرنا چاہتے ہیں جو تخلیق کے مختلف رنگوں میں ڈھل گیا ہے اور جس کا روپ انسان خود ہے. گویا آج کا جدید ذہن کبھی 'مدر نیچر'، کبھی 'کاسمک کونشئیس نیس'، کبھی 'سپریم انٹلیجنس' جیسی دلفریب 'فینسی' اصطلاحات کا استعمال کرکے وجود خدا پر ایمان کو روز جزا پر ایمان سے جدا کردینا چاہتا ہے. 
.
اس کے بلکل برعکس دین کا وہ مقدمہ ہے جو اسلام پیش کرتا ہے. جس طرح رسول ص کی رسالت پر ایمان لانے والا کسی صورت یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ قران حکیم پر ایمان نہیں رکھتا. ٹھیک اسی طرح خدا پر ایمان کا دعویٰ کرنے والا روز آخرت کا انکار نہیں کرسکتا. کلام پاک بڑی شان سے جابجا اعلان کرتا ہے کہ قیامت یا روز جزا کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا اور ہر شخص بلاتفریق اپنے ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل کا بھی بدلہ پائے گا. اتنا ہی نہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دیگر عقائد کے مقابلے میں قران مجید روز آخرت کے عقیدے پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے. پورے قران پاک کا شائد ہی کوئی ایسا صفحہ موجود ہو جہاں بلواسطہ یا بلاواسطہ قیامت یا روز آخرت کا زکر نہ کیا گیا ہو. اسی کی نمائندہ مثال سورہ البقرہ کی وہ ابتدائی آیات ہیں جن میں جہاں مومنین و متقین کی صفات بتاتے ہوئے بیان ہوا کہ وہ غیب پر 'ایمان' لاتے ہیں، موجودہ کلام یعنی قران مجید پر 'ایمان' لاتے ہیں اور سابقہ صحائف پر 'ایمان' لاتے ہیں. وہاں اختتام اس پر کیا کہ وہ آخرت پر 'یقین' لاتے ہیں. غور طلب امر یہ ہے کہ بقیہ عقائد پر فقط 'ایمان' لانے کی بات ہوئی جبکہ روز آخرت پر 'یقین' لانے کی بات کی گئی. دین کے طالبعلم واقف ہیں کہ محققین کے مقبول موقف کے مطابق ایمان بڑھتا یا گھٹتا ہے مگر 'یقین' ایمان کی مستحکم و مستقل صورت کا نام ہے. گویا مطالبہ یہ ہے کہ آخرت پر ایمان بھی اس درجے کا ہو جو یقین کا درجہ حاصل کرلے. حقیقت یہ ہے کہ روز آخرت یا خدا کو جواب دہی کا تصور ہی وہ بنیادی عقیدہ ہے جو ایک انسان کے مومن ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے. 
.
====عظیم نامہ====

سنتوں پرعمل نہیں تو قربانی کی سنت پر زور کیوں

جب دوسری سنتوں پر عمل نہیں تو قربانی کی سنت پر  زور کیوں؟



سوال:
کیا قربانی ہر مسلم پر فرض ہے جسکی انکم ہے یا صرف حج پر جانے والو کیلئے؟ میں ہر سنّت تو پوری نہیں کرتی امی کا کہنا ہے اپنی الگ قربانی کرو کیونکہ تم خود کماتی ہو، میں کہتی ہوں جب میں دوسری سنتیں پوری نہیں کر رہی تو صرف جانور قربان کرنے والی کیوں کروں؟ سوال یہ ہے وہ لوگ جو حج پر نہیں جاتے لیکن قربانی کرتے ہیں کیا وہ اور بھی ساری سنتیں پوری کرتے ہیں ، آخر عید کے موقع پر قربانی پہ اتنا زور کیوں؟ قران و سنت میں اس کا کیا حوالہ ہے؟ دوسرا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم تھا کہ اپنی سب سے پیاری چیز قربان کریں، کیا یہ بکرے ہم کو سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں جو ان کی قربانی کریں؟
جواب:
السلام و علیکم بہن
قربانی کرنا بعض فقہاء کے نزدیک اہم سنت اور بعض کے نزدیک واجب ہے. قربانی کرنے کیلئے حج پر جانا لازم نہیں ہے بلکہ ہر وہ انسان جو اتنی سکت رکھتا ہوں کہ قربانی کرسکے، اسے اس شعار اسلامی کو انجام دینے کی اجازت ہے. اس کا واضح ثبوت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ میں رہتے ہوئے ہر سال قربانی کرنا ہے. حدیث کا متن کچھ یوں ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ میں قیام فرمایا اس عرصہ قیام آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے" (ترمذی ). میں چونکہ قربانی کو سنت سمجھتا ہوں واجب نہیں، اسلئے 'اجازت ہے' کے الفاظ کا استعمال کیا ہے. گویا اگر کوئی شخص قربانی کرتا ہے تو یہ بہت اجر کی بات ہے مگر اگر کوئی کسی وجہ سے نہیں کرپاتا تو وہ ان شاء للہ گنہگار نہیں. 
.
آپ کی یہ سوچ درست نہیں کہ میں جب دوسری سنتوں کا پوری طرح اہتمام نہیں کرتی تو اس سنت کا اہتمام کیوں کروں؟ یہ سچ ہے کہ ہمیں ہر سنت پر عمل کی کوشش کرنی چاہیئے لیکن امت میں شائد ہی کوئی ایسا انسان ہو جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر سنت کا اہتمام کرپاتا ہو، تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ وہ بقیہ سنتوں کا بھی تارک ہوجائے جنہیں وہ انجام دیتا آیا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں. پھر بیشمار ایسی سنتیں موجود ہیں جن کی وہ فضیلت بیان نہیں ہوئی جو قربانی کی سنت کی ہے. اس کا شمار بجا طور پر اہم ترین سنتوں میں سے ہے اور یہ اپنی حقیقت میں صرف رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں بلکہ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور اسی رعایت سے حضرت اسمعیل، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اجمعین سمیت تمام پیغمبروں کی سنت رہی ہے. گویا یہ کوئی خوشبو لگانے یا ہر وضو کے وقت مسواک کرنے والی سنتوں جیسی نہیں ہے بلکہ بہت بہت اہم سنت ہے. اسکی اسی اہمیت کی وجہ سے کچھ فقہاء اس کے وجوب یعنی واجب ہونے کے قائل ہیں. یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ کوئی اتنی قیمتی سنت کو یہ سوچ کر قربان کردے کہ بقیہ سنتوں کا مکمل اہتمام بھی تو نہیں کرتا. اس کی اہمیت کا ایک اور نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ قربانی کی سنت کا اثر رمضان کے روزوں کی طرح فرد کیساتھ ساتھ پورے مسلم معاشرے پر مرتب ہوتا ہے. 
.
قران حکیم میں بنی اسرائیل کو بچھڑے کی قربانی دینے کا حکم ہو، ہابیل کا اپنے رب کو قربانی پیش کرنا ہو یا پھر حضرت اسمعیل علیہ السلام کی جگہ مینڈھے کی قربانی ہو. یہ سب قربانی کے اسی عمل کی اہمیت کے غماز ہیں. پھر قران مجید میں دیگر مقامات پر قربانی کا ذکر ملتا ہے جیسے سورہ الکوثر میں ارشاد ہوا فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔) اسی طرح سورہ الانعام میں ارشاد پاک ہوتا ہے قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب اللہ پروردگارعالم کے لیے ہے۔) اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ مومن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو قران کی عملی تفسیر مانتے ہیں. چانچہ جب ہم رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی اسوہ اور صحابہ اکرام رض کے عمل پر نظر ڈالتے ہیں تو احقر درجے میں بھی قربانی کی اہمیت کے ضمن میں کوئی احتمال باقی نہیں رہتا. سنن ابن ماجہ کی اس حدیث ٣١٢٣ کو ہی پڑھ لیجیئے. "جس کے پاس گنجائش ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو اسے چاہئیے کہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے" . کیا اس سب کے بعد بھی کسی کو گوارا ہوگا کہ وہ قربانی کی سنت کو سکت رکھنے کے باوجود نہ کرے؟ 
.
یہ جملہ کہ کئی صاحب حیثیت افراد اپنے مال سے قربانی تو کرتے ہیں مگر حج نہیں کرتے. یہ اس زاویئے سے تو درست ہے کہ لوگوں کو حج کی فرضیت کو زندگی میں ایک بار انجام دینے کی جانب توجہ دلائی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ جہاں تم ایک واجب یا سنت پر مال خرچ کرتے ہوں وہاں ضروری ہے کہ تم حج کے فرض پر بھی مال خرچ کرو. مگر اسے بنیاد بنا کر یہ کہنا کہ کیونکہ حج نہیں کرتے اسلئے قربانی بھی نہ کرو؟ یہ کہاں کی دانشمندی ہے؟ گویا اگر ایک صاحب نصاب زکات کا سالانہ اہتمام نہیں کرتا مگر کسی دوسرے وقت مال سے صدقہ دیتا ہے تو میں کہنے لگوں کہ کیونکہ زکات کا فرض ادا نہیں کر تے اسلئے یہ نفلی صدقہ بھی نہ دو؟. زکات نہ دینے کا وبال اس پر الگ ہے مگر صدقہ دینے کا ثواب اپنی جگہ ہے. اسی طرح ایک مالدار انسان کا حج نہ کرنے کا گناہ الگ ہے اور قربانی کی سنت کو پورا کرنے کا ثواب جدا ہے. یہ نفس کا وسوسہ ہے کہ وہ اس وقت تو آپ کو کبھی نہ ٹوکے جب آپ اپنا مال گاڑی، زیورات، مہنگے کپڑوں اور دنیاوی تقریبات پر خرچ کریں مگر جیسے ہی آپ اپنے مال سے قربانی میں حصے کے تھوڑے سے پیسے دیں تو شور مچانے لگے کہ اسی پیسے سے حج کیوں نہ کیا؟ اسی طرح وہ دوسرے افراد کو یہ دھوکہ بھی دیتا ہے کہ یہ جو حج پر پیسہ خرچ کرتے ہو ، اسے کسی اسکول بنانے پر خرچ کیوں نہیں کردیتے؟ حالانکہ یہی لوگ شادی بیاہ یا سالگرہ پر لاکھوں لگاتے ہوئے بھی نہیں جھجھکتے. 
.
آپ کا یہ استفسار کہ ابراہیم علیہ السلام کو سب سے پیاری چیز قربان کرنے کا حکم تھا، تو کیا ہمیں بکرے سب سے پیارے ہیں؟ .. اللہ کی اس نعمت پر شکر ادا کیجیئے کہ اس نے آپ سے ابراہیم علیہ السلام کی طرح آپ کی اولاد یا کسی اور رشتے کی قربانی نہیں مانگی بلکہ اس قربانی کا ایک سمبل بکرے ، دنبے وغیرہ کی صورت میں پیدا کردیا. یہ بکرے کی قربانی ایک 'سمبولک ایکسپریشن' ہے جو ہماری تربیت کرتا ہے. آج ہماری جیب سے قربانی کیلئے کچھ پیسہ نکالنا مشکل ہورہا ہے، کیا ہوتا جو شریعت میں فی الواقع ہم سے کسی بہت قریبی چیز کو قربان کرنے کا تقاضا کیا گیا ہوتا؟ لہٰذا یہ مقام شکر ہے کہ رب نے ہمیں ایسے امتحان میں نہ ڈالا جس میں کامیاب ہونا ہم میں سے اکثر کیلئے ممکن ہی نہ ہوتا. الحمدللہ 
.
امید ہے کہ کچھ تشفی ہوئی ہوگی. ان شاء للہ 
.
====عظیم نامہ====

Sunday, 28 August 2016

جدید ذہن اور انکار آخرت



جدید ذہن اور انکار آخرت 

.
جدید تشکیک زدہ اذہان کا اصل مسئلہ خدا کے وجود کو تسلیم کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مسئلہ خدا کے سامنے جواب دہ ہونے کو قبول کرنا ہے. یہ احساس کہ وہ موت کے بعد کسی کو جواب دہ ہونگے؟ اور اپنے اپنے اعمال کا اچھا برا اجر پائیں گے؟ اس نظریئے کو تسلیم کرلینا بہت سے اذہان کیلئے ممکن نہیں ہے. ان کے لئے خود کو جواب دہ ماننا اپنی آزادی کو سلب کردینے کے مترادف ہے. وہ اپنی شتر بے مہار جیسی آزادی پر کسی بیرونی پہرے کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں. لہٰذا سچ پوچھیئے تو ان کا یہ انکار عقلی سے زیادہ جذباتی بنیاد پر استوار ہے. اس پر طرہ یہ ہے کہ دین بھی اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے بناء جھجھک اس کا اعلان کردیتا ہے کہ اس فانی دنیا میں انسان کو فی الواقع اپنی آزادی کو خدا کی مرضی کے سامنے قربان کرنا ہوگا اور اس کا عبد یعنی غلام بن کر رہنا ہوگا. اس کے برعکس دور حاضر کا جائزہ لیجیئے تو جو ممالک الحاد سے جتنا متاثر ہیں اتنا ہی انسان کی مادر پدر آزادی کے مبلغ ہیں. فری ڈم آف اسپیچ ، لبرٹی اور لبرلزم ان معاشروں میں عقائد کی طرح رائج ہیں. اس آزادی انسان کیلئے وہ اتنے متشدد ہیں کہ ہم جنسی کے فروغ اور ہر طرح کے فطری انسانی رشتے کو قربان کرنے کیلئے تیار ہیں. اسی آزادی کا نام لے کر وہ مرد و زن کی ہر قیود کو توڑ کر انہیں کپڑوں اور دیگر ہر حرمت سے بے نیاز کرنے پر مصر ہیں. گویا ایک طرف یہ مغربی ذہن ہے جو پوری شدت سے مکمل 'آزادی' کا دلفریب نعرہ لگا رہا ہے تو دوسری جانب دین کا پیرو ذہن خود کو عبد کہنے پر مسرور ہے اور اسی جانب دوسروں کو نصیحت کرتا ہے. یہی وہ کشمکش ہے جس کے نتیجے میں بعض لوگ خدا کے منکر یعنی 'ایتھیسٹ' ہوجاتے ہیں تاکہ جواب دہی کے کسی امکان پر بات ہی نہ ہو. جبکہ بعض دوسرے خدا کو ایک زندہ ہستی کی بجائے مختلف تاویلوں سے ایک ایسے وجود کا نقشہ کھینچ لاتے ہیں جس نے اس کائنات کو لامحالہ تخلیق تو کیا ہے مگر وہ کسی سے اس کے اعمال کا حساب نہیں لے گا. اس دوسرے گروہ میں مختلف نظریات سے منسلک لوگ وابستہ ہیں جن میں سے کچھ خود کو 'ڈیسٹ' اور کچھ کو 'اسپرچولسٹ' کہلواتے ہیں. 
.
آپ انسانی تاریخ کے مقبول ترین سائنسدان 'البرٹ آئین سٹائن' کی مثال لیجیئے جو خدا کے وجود کو کھلے الفاظ میں قبول کرتا ہے مگر ساتھ ہی یہ کہتا ہے کہ میں کسی 'پرسنل گاڈ' کو نہیں مان سکتا. 'پرسنل گاڈ' سے مراد اس کی ایک ایسی خدائی ہستی ہے جو اعمال کا حساب لے گی. اسی طرح سے دور حاضر کا شائد سب سے معروف سائنسدان 'اسٹیفن ہاکنگ' کی مشہور زمانہ تصنیف 'بریف ہسٹری آف ٹائم' دیکھیئے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بذریعہ سائنس 'خدائی ذہن' کو سمجھنے کی سعی کررہا ہے ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کو کسی نہ کسی صورت مان رہا ہے مگر حال ہی میں اس نے خدا کے وجود کا مطلق انکار کر دیا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ بظاہر یہی نظر آتی ہے کہ اسکے لئے ایک ایسے خدا کے وجود کو ماننا ممکن نہیں ہے جو صرف خالق و مدبر ہی نہیں بلکہ 'مالک الیوم الدین' بھی ہے. آپ دیگر ملحدانہ سوچ سے متاثر سائنسدانوں کی گفتگو سنیئے تو معلوم ہوگا کہ وہ ایک جانب تو وجود خدا کا انکار کرتے ہیں مگر دوسری طرف کائناتی قوانین و توازن کو 'مدر نیچر' کہہ کر اس سے ان ہی صفات کو منسلک کرتے ہیں جو روایتی طور پر خدا ہی کی صفات سمجھی گئی ہیں. لفظ خدا کی جگہ 'مدر نیچر' کی اس اصطلاح کو اسی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ روز آخرت یا خدا کو جواب دہی کے امکان کو ختم کیا جاسکے. اسی طرح ذرا دقت نظر سے دیکھیں تو جدید فلسفوں پر استوار ان 'اسپرچولسٹ' گروؤں کا بھی حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں. لہٰذا آپ گرو رجنیش یعنی 'اوشو' کی تعلیمات دیکھیئے تو اس کا ماننا ہے کہ خدا موجود نہیں ہے مگر ساتھ ہی کہتا ہے کہ وجود خدا کا انکار اسے 'ایتھیسٹ' نہیں بناتا. وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں خدا کا نہیں لیکن ایک 'کائناتی شعور' (کاسمک کونشئیس نیس) کے وجود کا قائل ہوں. جس میں انسانی شعور ضم ہوکر ابدی حیات پاسکتا ہے. ایک اور مثال راقم کے مطابق اس وقت کے سب سے ذہین گرو 'سدھ گرو' کی ہے جو ایک بار پھر خدا کے وجود کو منفرد استدلال سے ایک ایسی نادیدہ برتر ذہانت (سپریم انٹلیجنس) تک محدود کرنا چاہتے ہیں جو تخلیق کے مختلف رنگوں میں ڈھل گیا ہے اور جس کا روپ انسان خود ہے. گویا آج کا جدید ذہن کبھی 'مدر نیچر'، کبھی 'کاسمک کونشئیس نیس'، کبھی 'سپریم انٹلیجنس' جیسی دلفریب 'فینسی' اصطلاحات کا استعمال کرکے وجود خدا پر ایمان کو روز جزا پر ایمان سے جدا کردینا چاہتا ہے. 
.
اس کے بلکل برعکس دین کا وہ مقدمہ ہے جو اسلام پیش کرتا ہے. جس طرح رسول ص کی رسالت پر ایمان لانے والا کسی صورت یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ قران حکیم پر ایمان نہیں رکھتا. ٹھیک اسی طرح خدا پر ایمان کا دعویٰ کرنے والا روز آخرت کا انکار نہیں کرسکتا. کلام پاک بڑی شان سے جابجا اعلان کرتا ہے کہ قیامت یا روز جزا کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا اور ہر شخص بلاتفریق اپنے ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل کا بھی بدلہ پائے گا. اتنا ہی نہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دیگر عقائد کے مقابلے میں قران مجید روز آخرت کے عقیدے پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے. پورے قران پاک کا شائد ہی کوئی ایسا صفحہ موجود ہو جہاں بلواسطہ یا بلاواسطہ قیامت یا روز آخرت کا زکر نہ کیا گیا ہو. اسی کی نمائندہ مثال سورہ البقرہ کی وہ ابتدائی آیات ہیں جن میں جہاں مومنین و متقین کی صفات بتاتے ہوئے بیان ہوا کہ وہ غیب پر 'ایمان' لاتے ہیں، موجودہ کلام یعنی قران مجید پر 'ایمان' لاتے ہیں اور سابقہ صحائف پر 'ایمان' لاتے ہیں. وہاں اختتام اس پر کیا کہ وہ آخرت پر 'یقین' لاتے ہیں. غور طلب امر یہ ہے کہ بقیہ عقائد پر فقط 'ایمان' لانے کی بات ہوئی جبکہ روز آخرت پر 'یقین' لانے کی بات کی گئی. دین کے طالبعلم واقف ہیں کہ محققین کے مقبول موقف کے مطابق ایمان بڑھتا یا گھٹتا ہے مگر 'یقین' ایمان کی مستحکم و مستقل صورت کا نام ہے. گویا مطالبہ یہ ہے کہ آخرت پر ایمان بھی اس درجے کا ہو جو یقین کا درجہ حاصل کرلے.  حقیقت یہ ہے کہ روز آخرت یا خدا کو جواب دہی کا تصور ہی وہ بنیادی عقیدہ ہے جو ایک انسان کے مومن ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے. 
.
====عظیم نامہ====

Thursday, 25 August 2016

مشکلات کا سامنا مسکرا کر کرنا


مشکلات کا سامنا مسکرا کر کرنا



جب میں پرائمری اسکول میں تھا تو ہمارے گھر کام کیلئے ایک ماسی (ماں سی) آیا کرتی تھیں. ان کی جھونپڑی ہمارے گھر کے پیچھے دیوار سے لگی ہوئی تھی. ان کے بیٹے بیٹیاں جو مجھ جتنے یا مجھ سے چھوٹے تھے سارا دن یہاں سے وہاں آوارہ گھومتے رہتے. میری والدہ اکثر انہیں میرے ساتھ پڑھنے کے لئے کبھی پیار سے اور کبھی ڈانٹ سے بیٹھا دیا کرتیں تاکہ وہ بھی کچھ پڑھ لیں. ان میں سے صرف ایک لڑکا جو عمر میں مجھ سے کچھ زیادہ تھا، پڑھنے میں دلچسپی دیکھانے لگا تو اس کا ایڈمیشن اسکول میں کروا دیا گیا. اس کی فیس کبھی ہمارے گھر سے جایا کرتی تو کبھی کسی اور گھر سے. کبھی کوئی یونیفارم دلا دیتا تو کبھی کوئی اپنی پرانی کورس کی کتابیں اسے دے دیتا. انتہائی ناموافق حالات کے باوجود وہ بچہ خوشی خوشی پڑھتا رہا اور میری والدہ اس کی والدہ کی ہمت بڑھاتی رہیں. یوں ہی پڑھتے پڑھتے ایک روز اس نے میٹرک پاس کرلیا. شاید میرے والد نے یا کسی اور صاحب نے اس کو کلرک کی نوکری دلا دی جہاں وہ اپنی محنت سے آگے بڑھتا گیا. کچھ ہی دنوں میں ان کے حالات سدھرنے لگے تو اس نے اپنی والدہ کو گھر گھر جاکر جھاڑو پونچھے کی تکلیف سے نجات دلادی. اب اس کی نسل الحمدللہ اچھے اسکولوں سے تعلیم حاصل کر رہی ہے. 
.
جب میں سیکنڈری اسکول میں پہنچا تو محلے کا ایک گھر معاشی تنگدستی کا شکار نظر آتا تھا. وہ لوگ گھر پر اچار اور چٹنی تیار کرکے اسے بیچا کرتے تھے. ان کے بیٹے اور بیٹیاں اسکول جاتے تھے مگر ایک روز ان کے والد کی طبیعت بگڑی اور وہ انتقال کرگئے. بڑا بیٹا جو مجھ سے کافی چھوٹا تھا ، اسے اسکول چھوڑنا پڑا اور وہ کبھی پرچون کی دکان اور کبھی میڈیکل اسٹور پر دن رات کام کرنے لگا. مجھے اس کے اسکول چھوڑ جانے کا بہت صدمہ تھا اور میں بہانے بہانے اس کے چہرے پر کرب ڈھونڈھتا رہتا تھا مگر وہ بناء شکایت خاموشی سے اسی خوش مزاجی سے کام کرتا رہا جو اسے پہلے حاصل تھی. صاف نظر آتا تھا کہ وہ اپنا کام دیگر ملازمین سے زیادہ تندہی سے کرتا ہے. ساتھ ہی اس نے اپنی تعلیم کے سلسلے کو جوڑ لیا اور معلوم نہیں کتنا پڑھ پایا؟ جو بات معلوم ہے وہ یہ کہ آج اسی کی محنت کے صدقے اللہ نے ان کے گھر کو خوشحال کردیا ہے. بہنوں کی شادی اور چھوٹے بھائی کی تعلیم کے پیچھے بھی ضرور اسی بھائی کی محنت پوشیدہ ہوگی. 
.
جب میں کالج پہنچا تو ایک دوست میرا جگری بن گیا. نوجوانی کی ہر تفریح ہم نے ساتھ ساتھ کی. اس کے گھریلو حالات معاشی اعتبار سے تنگ تھے. میرے اس دوست کا چہرہ ماشاللہ اتنا مسکراتا ہوا تھا کہ کبھی شک ہوتا کہ کہیں سوتے میں بھی تو مسکراتا نہیں رہتا؟ مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ دوسری نمائندہ صفت اس میں خودداری کی تھی. یہ خودداری کا ایسا پہاڑ تھا کہ دو پیسے کی مدد لینا تو دور اس سے کوئی ایسی بات کرتے ہوئے بھی میری جان نکلتی تھی کہ لامحالہ کہیں برا ہی نہ مان جائے. ہم دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ خوب دل لگتا تھا اور مستقبل میں کچھ بننے کے خواب ہم ساتھ ہی دیکھا کرتے تھے. پھر انٹر کے امتحانات ہوئے تو اس نے اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ اب وہ تعلیم جاری نہیں رکھ پائے گا. والد کے جانے کے بعد گھر کی ساری ذمہ داری اس کے کندھوں پر ہے. اسلئے وہ درزی بن رہا ہے اور اگر اللہ نے چاہا تو مستقبل میں تعلیم حاصل کرے گا. میں دھک سے رہ گیا لیکن اس نے میری کوئی مدد نہ لی اور ایک جانب درزی بن کر کپڑے سیتا رہا تو دوسری جانب بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا رہا. وقت کا پہیہ تیز چلا تو رابطہ ٹوٹ گیا مگر دونوں ایک دوسرے کو کبھی نہیں بھولے. کچھ سال پہلے میری اس سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس نے تعلیم کا سلسلہ اپنے دم پر پورا کرلیا تھا اور اب ایک معروف کمپنی میں مینجر ہے. ساتھ ہی کراچی میں ایک بزنس بھی کر رہا ہے اور ملایشیا میں ایک ریسٹورنٹ کا بھی مالک ہے. گاہے بگاہے وہاں جاتا رہتا ہے. بجا طور پر معاشی اعتبار سے آج وہ مجھ سے کہیں زیادہ کامیاب ہے. 
.
یونیورسٹی میں جب مجھے انجینئرنگ کے لئے داخلہ ملا تو ایک ایسا دوست بھی ملا جو ہم عمر ہونے کے باوجود ہم سے ایک سال جونیئر تھا. شاید مالی تنگدستی کی وجہ سے اس کا سال ضائع ہوچکا تھا. کمپیوٹر انجینئرنگ کیلئے کمپیوٹر کا گھر پر ہونا قریب قریب لازمی ہوتا ہے مگر ہمارے اس دوست کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ کمپیوٹر خرید سکتا لہٰذا ساری ساری رات اور دن ایک دوست کے گھر منڈلاتا رہتا. جہاں اگر کمپیوٹر فارغ مل جائے تو اسے استعمال کرپاتا. یہ غیر معمولی ذہانت کا حامل انسان تھا جو نہ صرف اپنے امتحانات میں نمائندہ نمبروں سے پاس ہوتا بلکہ مجھ سمیت اپنے دیگر سینئر دوستوں کو بھی ان کے امتحان کی تیاری کروادیتا. یونیورسٹی کے چار سالوں میں سے کچھ سال اسے اسکالر شپ مل گئی اور یوں شدید مشکلات سے لڑتا ہوا وہ اپنی انجینرنگ مکمل کرگیا. آج الحمدللہ وہ ایک عرب ملک میں نہایت اچھی نوکری پر فائز ہے اور مجھ جیسے اکثر دوستوں سے آگے ہے. دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ پاک اسے اور ان دیگر دوستوں کو جن کا ذکر اپر ہوا مزید سے مزید کامیابیاں عطا کریں آمین.
.
آپ جانتے ہیں کہ ان سب دوستوں میں تنگی و تنگدستی کے علاوہ کیا قدر مشترک تھی؟ وہ قدر یہ تھی کہ یہ مشکلات کا سامنا مسکرا کر کرنا جانتے تھے. انہوں نے نامناسب حالات پر واویلا نہیں کیا اور تکلیف دہ واقعات پر شکوہ زبان پر نہ لائے. انہوں نے حقیقت کو خوش دلی سے قبول کیا اور محنت سے اپنے راستے کو متعین کئے رکھا. وہ زبان حال سے دنیا کو اس شعر کی عملی تفسیر سمجھاتے رہے کہ 
.
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے؟
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے؟
.
====عظیم نامہ====

حسد کو کیسے ختم کیا جائے؟

حسد کو کیسے ختم کیا جائے؟




سوال:
السلام علیکم ، حسد کو کیسے ختم کیا جائے؟
.
میرا ایک کزن ہے ، وہ امریکہ سیٹ ہو گئے .. پہلے میں اس سے بلکل جیلس نہیں تھا .. پھر جب میرے گھر والو نے مجھے اس سے کمپیئر کرنا شروع کیا اور اس کے چاچو نے ہر معاملے میں اس کی مثال دینا شروع کی تو اب مجھے لگتا ہے کہ میں بہت زیادہ حسد کر رہا ہوں. میں پہلے کی طرح ہونا چاہتا ہوں، یہ فیلنگ بہت زیادہ تکلیف دہ ہے. میں اس کمزوری کو کس طرح ہینڈل کروں؟
.
جواب:
وعلیکم السلام 
.
خوش آئند بات یہ ہے کہ الحمدللہ آپ کو اس کا احساس ہے کہ حسد ایک کریہہ گناہ اور تباہ کن بیماری ہے. چنانچہ آپ اس کا تدارک چاہتے ہیں. آپ نے اس کا محرک بھی شائد درست پالیا ہے کہ جب انسان کو کسی دوسرے انسان سے زبردستی تقابل کیا جائے تو یہ جذبہ جڑ پکڑ لیتا ہے. حالانکہ اگر کوئی باریکی سے غیر متعصب جائزہ لے تو یقینی طور پر آپ میں ایسی کئی خوبیاں ہونگی جس سے آپ کا کزن محروم ہے اور اس میں ایسی کئی برائیاں ہونگی جس سے آپ آزاد ہیں. مگر چونکہ اس وقت اسکی خامیوں پر دانستہ یا نادانستہ پردہ پڑا ہوا ہے اور صرف اس کی خوبیوں یا کامیابیوں کو بنیاد بناکر آپ کے سامنے تحقیر آمیز انداز میں پیش کیا جارہا ہے. اسلئے اس منفی جذبے نے آپ کے قلب کو داغدار کررکھا ہے. سب سے پہلے تو وہ معروف حدیث یاد کرلیں، جس میں رسول ص کا ارشاد پاک ہے کہ 'حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو' .. ذرا سوچیں اس حدیث کو کہ یہ جذبہ اتنا منفی ہے کہ اس سے باقی نیکیاں بھی اکارت ہوجاتی ہیں. یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حسد اگر گھر بنالے تو انسان کی ذہنیت آھستہ آھستہ شکست خوردہ ہوتی جاتی ہے. یہ میں آپ کو اسلئے بتارہا ہوں تاکہ اس خبیث برائی کی خباثت جان کر اس کو ختم کرنے کی آپ جی جان سے کوشش کریں.
.
سب سے پہلے تو تنہائی میں دو رکعت نماز توبہ کی نیت سے ادا کریں. توبہ بناء نفل کے بھی ہوسکتی ہے مگر جیسے ہر بات کا ایک پراسسس ہوا کرتا ہے، اسی طرح سے رب کریم سے مانگنے کا یہ ایک اچھا پراسسس ہے. گو شریعت میں ایسا کرنا لازم نہیں. نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر یا سجدے میں جاکر اللہ پاک سے وہ سب کہہ دیں جو آپ نے مجھ سے کہا ہے. ان سے معافی مانگیں اور انہیں بتائیں کہ میں اس جذبے سے نجات چاہتا ہوں مگر کر نہیں پارہا. آپ دل کے بدلنے والے ہیں، میرا دل بھی بدل دیجیئے. خوب گڑگڑا کر دعا کیجیئے، رونا نہ آئے تب بھی لرزتے ہوئے اللہ پاک سے مانگیئے. ہر فرض نماز کے بعد سجدے میں جا کر اس دعا کو معمول بنالیجیئے. 
.
دوسری تجویز وہ ہے جو میری اپنی زندگی کا مستقل حصہ ہے. میں جب بھی کسی کی ترقی دیکھتا ہوں، اسے خوش دیکھتا ہوں، کامیاب دیکھتا ہوں یا اسے حاصل کسی نعمت کو دیکھتا ہوں تو فوری دل سے اس کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسے مزید برکت دے اور نظر بد سے محفوظ رکھے. اس میں یہ قید نہیں ہے کہ میں فرد کو جانتا ہوں یا نہیں. مجھے اگر کوئی زبردست گاڑی بھی روڈ پر چلتی نظر آئے تو فوری اس کے لئے برکت اور حفاظت کی دل سے دعا کرتا ہوں. حالانکہ میں میں اس گاڑی کے مالک سے زندگی میں کبھی نہیں ملا. آپ بھی اس عادت کو فوری اپنا لیجیئے. جس کو بھی کسی نعمت میں دیکھیں جو آپ کو حاصل نہیں تو اس کیلئے دل سے دعا کریں کہ یا اللہ میرے اس بھائی کی حفاظت کیجیئے اور اسے نظر بد سے بچائیں اور اسکی اس نعمت میں مزید اضافہ فرمائیں. آمین. خاص کر اپنے اس کزن کیلئے جب بھی خیال آئے یہی دعا کیجیئے. شروع میں ایسا کرنا طبیعت پر بہت بھاری گزرے گا مگر آھستہ آھستہ یہ اچھی روش آپ کی شخصیت کا جزو بن جائے گی. اس کی وجہ سے آپ کو کم از کم دو بہت بڑے فائدے ہونگے. پہلا فائدہ ظاہر ہے اور دوسرا چھپا ہوا. ظاہری فائدہ یہ ہے کہ اس طرح آپ کبھی بھی کسی کے حسد میں گرفتار نہیں ہونگے ان شاء للہ اور چھپا ہوا فائدہ یہ ہے کہ احادیث صحیحہ کے مطابق جب مومن اپنے بھائی کیلئے کسی خیر کی دعا کرتا ہے تو ملائکہ مل کر اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ مانگنے والے کو بھی ایسا ہی خیر عطا کیجیئے. اب سوچیئے جب ملائکہ آپ کیلئے دعا گو ہونگے تو آپ کو اگر ٹھیک ویسی ہی نعمت نہ بھی ملے تب بھی رب کی جانب سے کوئی دوسرا خیر ان شاء للہ بلضرور حاصل ہوگا. شرط اتنی ہے کہ دعا اخلاص سے کی گئی ہو. یاد رکھیں کہ آپ دنیا نہیں بدل سکتے لیکن خود کو بدل سکتے ہیں. یہی ذاتی بدلاؤ حیرت انگیز طور پر آپ کے اردگرد موجود حقیقتوں کو بدل کر آپ کے موافق کردے گا. میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو اپنے مقصد میں کامیابی دیں آمین
.
====عظیم نامہ====

تہجد میں دعا


تہجد میں دعا 



آج کچھ گھنٹوں قبل میں اپنے ایک عزیز عطر فروش دوست کی دکان میں موجود تھا. ظاہر ہے کہ طرح طرح کے گاہکوں کا آنا جانا دکان میں معمول ہوتا ہے. ایسے میں دو خوش مزاج سیاہ فام نوجوان داخل ہوئے. ان میں سے ایک نوجوان جس کے بال افریقی گھنگھریالے انداز میں بندھے ہوئے تھے ، مجھ سے باتیں کرنے لگا. پہلے ایک سعودی طرز کے لباس کو دیکھ کر بتانے لگا کہ اس کے آبائی ملک 'گامبیہ' میں صرف وہی لوگ یہ لباس پہنتے ہیں جنہوں نے حج کررکھا ہو. حاجی بنے بناء یہ لباس پہننا معیوب سمجھتے ہیں. میں اس کے ساتھ خوب ہنسا اور دونوں نے دین کے نام پر ملکی ثقافت کے اثرات پر گفتگو کی. یہ کھلکھلاتا نوجوان کچھ دیر بعد مجھ سے کچھ دکھی انداز میں کہنے لگا کہ بھائی آپ کو معلوم ہے آپ مجھ سے اسلام کی باتیں کر رہے ہیں مگر بہت سے لوگ مجھے مسلمان ہی نہیں سمجھتے کیونکہ میرا حلیہ انہیں اسلامی نہیں لگتا؟ (نوجوان نے گلے میں لاکٹ، ہاتھ میں مختلف رنگین دھاگے اور دیگر فیشن کر رکھے تھے.) میں نے تعجب اور افسوس کا اظہار کیا تو وہ مزید بتانے لگا کہ میں اسلام پر عمل کی حتی الامکان کوشش کرتا ہوں لیکن کئی لوگوں کے خود ساختہ اسلامی معیار پر پورا نہیں اترتا. مگر بھائی حقیقت تو یہ ہے کہ میرا رب میری ہمیشہ سنتا ہے اور میں نے جب بھی کچھ مانگا اس نے مجھے دیا. بلکہ اگر سچ بتاؤں تو مجھے دیکھا بھی دیتا ہے. یہ کہتے ہوئے اس نوجوان کا چہرہ خوشی اور سچائی سے دمک رہا تھا. میں نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ کیسے دعا کرتے ہو؟ اور کیا مطلب کہ دیکھا بھی دیتا ہے؟ کہنے لگا کہ رات کے آخری پہر جب سب سورہے ہوتے ہیں تو میں اٹھ کر نوافل اور وتر پڑھتا ہوں. پھر ہاتھ اٹھا کر اور خوب رو کر روز اپنے رب سے اپنے لئے بھی نعمت و حاجت مانگتا ہوں اور تمام مسلمانوں کیلئے بھی مانگتا ہوں. کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میری کوئی بھی مشکل تہجد میں دعا مانگنے سے حل نہ ہوگئی ہو. میں نے کہا ارے واہ ! کوئی مثال تو سناؤ. میری اس خواہش پر یہ نوجوان پہلی بار کچھ جھجھکا اور کچھ رک کر بولا کہ میں بتاتا نہیں ہوں مگر آپ کو بتاؤں گا. ایک بار جب میں شدید مسائل میں پھنسا اور میرا اس ملک میں رہنا ناممکن سا ہوگیا تو مجھے وکیلوں نے کہہ دیا کہ تم جو ہوم آفس اپنے کاغذات بھیجنا چاہتے ہو، ان کی قبولیت کا کوئی امکان نہیں. مگر میں نے پھر بھی کاغذات بھیج دیئے اور اسی طرح تہجد میں رب سے رو رو کر دعا مانگتا رہا. کچھ ہی دنوں میں مجھے ایک خواب نظر آیا کہ کوئی انگریز عورت ہوم آفس میں بیٹھی میرے کاغذات چیک کر رہی ہے اور اس نے دیکھنے کہ بعد تبصرہ کیا کہ تمھارے کاغذات مکمل ہیں. یہ سن کر میری آنکھ کھل گئی. ان ہی دنوں پھر ایک اور خواب آیا جس میں دیکھا کہ مجھے ایک ڈاک آئی ہے، لفافہ کھولتا ہوں تو اس میں میرے نام کا 'لامتناہی ویزا کارڈ' ہے. میں نے اس کارڈ کا رنگ تک بھی دیکھا. پھر اچانک جیسے میرے کانوں میں کچھ لوگوں نے خوشی سے میرا نام لے کر کہا کہ ارے تم سو کیوں رہے ہو؟ اٹھ جاؤ تمہیں ویزا مل گیا ہے ! ... یہ سن کر میری آنکھ کھل گئی. میں نے خواب کسی کو نہیں سنایا مگر میں جانتا تھا کہ وکیلوں کی سمجھ کے برخلاف ہوم آفس مجھے ضرور 'لامتناہی ویزا' دینے والا ہے. پھر یہی ہوا اور ہوم آفس نے میرے کاغذات کو قبول کرتے ہوئے مجھے 'لامتناہی ویزا' دے دیا. 
.
میں نے اپنے اس بھائی کو گرمجوشی سے بانہوں میں جکڑ کر مبارکباد دی اور درخواست کی کہ وہ مستقل یا کم از کم آج رات تہجد میں میرے لئے بھی خیر کی دعا کرے. اس نے کھلکھلاتے ہوئے حامی بھری اور مجھے بھی اپنے لئے دعا کا کہا. اللہ میرے اس بھائی کو مزید سے مزید خیر عطا کرے اور ہم سب کو تہجد کا اہتمام کرنے والا بنادے. آمین 
.
====عظیم نامہ====

فجر کے لئے وظیفہ

فجر کے لئے وظیفہ 


میرے استاد شیخ عبدالہادی اروانی شہید ایک نہایت ہنس مکھ شخصیت کے مالک انسان تھے. آپ کا بے ساختہ انداز اکثر سننے والو کو ہنسنے پر مجبور کردیتا تھا. ان کے ایک اصلاحی لیکچر کے دوران بہنوں کی جانب سے کسی بہن کا سوال آیا کہ شیخ میں سب نمازیں وقت پر پڑھتی ہوں مگر نماز فجر میں آنکھ نہیں کھل پاتی. میں کئی کئی الارم بھی لگاتی ہوں، ایک الارم خود سے دور بھی رکھتی ہوں، اپنے خاوند سے بھی کہتی ہوں کہ وہ مجھے ساتھ اٹھائیں. غرض ہر تدبیر آزما چکی ہوں مگر فجر میں مجھے شیطان نے ایسا جکڑ رکھا ہوتا ہے کہ میں چاہ کر بھی اٹھ نہیں پاتی. شیخ نے اپنے مسکراتے چہرے کے ساتھ نظر جھکائے سوال سنا اور پھر مخاطب ہوئے کہ بیٹی میں آپ کو ایک ایسا ثابت شدہ نسخہ بتا سکتا ہوں جس سے آپ کی آنکھ فجر کے لئے لازمی کھل جائے گی. مجھ سمیت تمام حاضرین کے کان چوکنا ہوگئے کہ ایسا کون سا مجرب طریقہ ہے جو انسان کو لازمی بیدار کردے. ہمیں لگا کہ شیخ اب شائد کوئی وظیفہ بتائیں گے. شیخ نے کچھ دیر ہم سب کو طائرانہ دیکھا اور پھر بولے ، اگر فجر کیلئے اٹھنے میں واقعی سنجیدہ ہو تو رات میں فیس بک، ٹویٹر، انٹرنیٹ وغیرہ کا استعمال ترک کردو. سنت کے مطابق عشاء کے فوری بعد سو جاؤ اور پھر دیکھو کہ کیسے ایک ہی الارم سے آنکھ کھل جاتی ہے. شیخ کا جواب سن کر ہر جانب سے کھسیانی ہنسی کی آوازیں آئیں، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ حاضرین میں سے بہت سے لوگ فجر قضاء کردیتے ہیں اور اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ کا رات دیر تک استعمال ہے. شیخ نے مزید سمجھایا کہ اگر تم رات دیر تک کسی شیخ کے اسلامی لیکچر بھی سنتے ہو یا دعوت دین بھی کرتے ہو اور اس وجہ سے صبح نماز کیلئے بیدار نہیں ہوپاتے تو تم بڑی حماقت کا شکار ہو. آپ میں سے بھی جو احباب فجر کا اہتمام نہیں کرپاتے یا انہیں شکایت ہے کہ وقت فجر آنکھ ہی نہیں کھلتی، انہیں اس تجویز پر ضرور عمل کرنا چاہیئے. 
.
====عظیم نامہ====