Friday, 29 July 2016

روحانی ماہر


روحانی ماہر



گھر سے آفس تک کے سفر میں مجھے اتنا وقت میسر ہوتا ہے کہ میں کسی نہ کسی علمی سرگرمی کو اپنا سکوں. پھر چاہے وہ کتاب پڑھنا ہو، کوئی لیکچر سننا ہو یا پھر کسی بات پر غور و فکر کرنا. دوران سفر میں وقت نکال پاتا ہوں. ایسی ہی ایک شب آفس سے گھر واپسی پر پیدل جا رہا تھا اور ذہن کسی خاص آیت قرانی پر غور میں مشغول تھا. ایسی حالت میں جب مگن ہوتا ہوں تو کئی بار ایسا ہوا ہے کہ مجھ سے میرے جاننے والو نے شکوہ کیا کہ ہم آپ کو آوازیں دیتے رہے اور آپ نے سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا. خیر تو میں کہہ رہا تھا کہ میں کسی آیت پر غور کرتا ہوا خراماں خراماں گھر جارہا تھا جب کسی نے بلکل سر پر آکر مجھے تحکمانہ انداز میں مخاطب کیا. ... "فکر نہ کرو ، جلد تمھاری مشکل آسان ہوجائے گی" .... میں نے چونک کر اپنی داہنی جانب دیکھا تو کم و بیش میرا ہی ہم عمر ایک انسان مجھ سے مخاطب تھا. شیو بڑھی ہوئی، بال الجھے ہوئے، کپڑے بے ہنگم اور صحت خستہ. میں نے اس سے مسکرا کر پوچھا .. "آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟" .. اس شخص نے اسی شاہانہ شان سے اثبات میں سر ہلایا اور دہرایا ... "فکر نہ کرو ، جلد تمھاری مشکل آسان ہوجائے گی" .... میں نے مسکراتے ہوئے تعجب سے پوچھا کہ "کیسی مشکل؟" .. اس نے کہا .. "وہی زندگی کی مشکل جس کے بارے میں تم ابھی ابھی سوچ رہے تھے" ... میں نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا ... "میں تو کسی زندگی کی مشکل کے بارے میں نہ سوچ رہا تھا، بلکہ ایک آیت قرانی پر تدبر کررہا تھا" ... اب میرا یہ عزیز سٹپٹایا .. پھر سنبھل کے اسی تحکمانہ بھاری آواز میں کہا ... " فکر نہ کرو میں جانتا ہوں کہ تم بہت پریشان ہو، تمہاری ساری پریشانیوں کا علاج ہے میرے پاس" ... میں دھیمے سے ہنسا اور بولا کہ ... "بہت شکریہ بھائی مگر میں تو الحمدللہ ذرا سا بھی پریشان نہیں بلکہ پوری طرح پرسکون ہوں" ... اب اس بھائی کے چہرے پر شدید الجھن کے آثار تھے، اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب مجھے کیا کہے؟ شائد یہ بات اس کے تصور میں بھی نہ تھی کہ اس کا مخاطب کسی بھی پریشانی اور تکلیف کا شکوہ نہیں رکھتا .. کچھ دیر سوچ کر بولا .. "مجھے روحانیت عطا کی گئی ہے اور میں تمہارے مسائل حل کرسکتا ہوں" ... میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے وہی جواب دہرا دیا کہ ... "میں تو پہلے ہی اللہ کی رحمتوں سے سرشار ہوں ... البتہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ تمھیں یہ کس نے بتایا کہ تمھیں روحانیت عطا ہوئی ہے؟" ... اب اس نے تفصیل بتائی جس کے مطابق ان کے گاؤں میں کوئی پیر صاحب تھے جنہوں نے اس کے سینے میں روحانیت منتقل کردی ہے اور اب وہ اپنا ہاتھ کسی کے بھی سینے پر رکھ کر اسے خوشی سے سرشار کرسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے پوری شدومد سے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر دبایا اور پھر اعتماد سے فخریہ پوچھا ۔۔۔"کیسا محسوس ہوا؟"۔۔۔ میں نے مسکرا کر جواب دیا ۔۔۔ "بلکل ویسا ہی جیسا آپ کے ہاتھ رکھنے سے پہلے محسوس ہورہا تھا"۔۔۔ میرے اس بھائی کے چہرے پر شدید بیچارگی تھی۔ 
.
میں نے اسے سمجھایا کہ روحانیت کوئی ایسی جادوئی شے نہیں جو عبادات و معاملات میں درستگی کے بغیر کسی پیر یا مولوی سے عطا ہوجائے. میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی اللہ کی کتاب کو سمجھ کر پڑھا ہے تو اس نے تذبذب سے نفی میں سر ہلادیا. میں نے سمجھایا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم دین اسلام میں روحانیت کا حصول کرنا چاہو اور اس کلام کو کبھی سمجھو ہی نہیں جو تمہارے رب نے نازل کیا ہے؟ میں اسے کافی دیر سمجھاتا رہا. اسے بھی میری باتیں کسی حد تک سمجھ آنے لگی تھیں مگر شاید ابھی بھی اس کا ذہن اپنے روحانی ماہر نہ ہونے کا اقرار نہ کرپارہا تھا. لہٰذا بولا کہ میں تمھیں آیات قرانی کا ایک ایسا طاقتور وظیفہ دیتا ہوں جس سے تمھاری ہر مراد پوری ہوسکے گی. یہ کہہ کر اس نے اللہ کے دو متفرق صفاتی نام بیان کرکے مجھے صبح شام اسے مخصوص تعداد میں پڑھنے کا تقاضہ کیا. میں نے مسکرا کر کہا کہ ٹھیک ہے میں انہیں پڑھ لوں گا مگر کیا تم مجھ سے وعدہ کرتے ہو کہ کتاب الہی سمجھ کر پڑھو گے؟ اس نے ارادہ کیا اور شائد چاہا کہ میں اسے مزید کچھ قران حکیم کے بارے میں بیان کروں. میں دیر تک اسے قران کا پیغام سمجھاتا رہا. جب بات مکمل ہوگئی تو ساتھ ہی اس نے خود پر چڑھی روحانیت کی نقاب بھی اتار پھینکی. میں نے اس کے حالات پوچھے تو قریب قریب روتے ہوئے اس نے اپنی زندگی کی اذیتیں بتانا شروع کیں. اس نے بتایا کہ کیسے کیسے اسے اس کے سگوں نے دھوکہ دیا اور ذلیل کیا. یہ بیان کرتے ہوئے کبھی وہ نم دیدہ اور کبھی غصہ سے آگ بگولہ ہوجاتا. اسی دوران جذبات میں اس نے پنجابی اور اردو دونوں زبانوں میں بھرپور تلفظ کے ساتھ ماں بہن کی گالیاں بھی دیں. وہ شخص جو کچھ دیر پہلے میری ہر اذیت دور کرنے کا روحانی علاج بتانا چاہتا تھا اور جسے خود پر ایک کامل صوفی ہونے کا گمان تھا، اس وقت مجھے شدید کرب میں مبتلا ایک ہارا ہوا انسان نظر آرہا تھا. جاتے ہوئے اس نے میرا نمبر لیا اور رخصت ہوگیا. دوسرے دن اس کی کال آئی اور اس نے پھر ملنے کی درخوست کی. جس پر ہم ایک بار پھر ملے. اس بار وہ بولنے سے زیادہ سننا چاہتا تھا. یہ اس سے آخری ملاقات تھی. اور مجھے امید ہے کہ وہ کم ازکم روحانی ہونے کے اس دھوکے سے باہر آگیا تھا جس نے اس کے طرز تخاطب کو متکبرانہ بنا رکھا تھا. افسوس ہے کہ آج میرے ملک میں ہر دوسرا شخص روحانیت کی دکان کھولے بیٹھا ہے اور سادہ مزاج لوگوں کو بے سر پیر کے جادوئی علاج، وظیفے وغیرہ تجویز کررہا ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کے اخلاق اور معاملات میں درستگی لائی جائے. انہیں تفرقہ کی آگ سے نکالا جائے اور انہیں قران حکیم سمجھنے پر راغب کیا جائے. 
.
====عظیم نامہ====

ایک وضاحت


ایک وضاحت 



آپ احباب واقف ہیں کہ میں ایک عرصے سے سوشل میڈیا پر تحریریں لکھتا رہا ہوں. یہ تحریریں میرے لئے مباحثہ نہیں بلکہ اظہار کا ذریعہ ہیں. میں پوری دیانت سے وہی لکھنے کی کوشش کرتا ہوں جو اپنے قلب کی گہرائی میں محسوس کرتا ہوں. میں آپ سے یہ وعدہ کرسکتا ہوں کہ میں صرف وہی لکھوں گا جسے پورے اخلاص سے حق سمجھتا ہوں مگر میں آپ سے یہ وعدہ نہیں کرسکتا کہ صرف وہی لکھوں گا جسے آپ حق سمجھتے ہیں. میرے نزدیک محض الفاظ کا مداری بن کر واہ واہ سمیٹنا ایک کریہہ عمل ہے اور اکثر صورتوں میں گناہ ہے. یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سوشل میڈیا کے اس سفر میں کبھی تو مجھ پر فلسفیانہ گتھیاں بیان کرنے کا جنون رہا اور کبھی ادبی جائزے پیش کرنے کا شوق. کبھی سیاسی تجزیات میری تحریر کو جکڑے رہے تو کبھی دینی مباحث بیان کرتا رہا. کبھی اپنے سفری تجربات کو زیر قلم لایا تو کبھی اصلاحی نصیحتیں لکھتا رہا. پچھلے دنوں علمی شخصیات کا تعارفی سلسلہ پیش کیا تھا اور اب کچھ عرصے سے اپنی ایسی 'آپ بیتیاں' بیان کررہا ہوں جن سے مجھے زندگی کے سبق حاصل ہوئے. 
.
کچھ احباب کو یہ شک ہونے لگا ہے کہ ان 'آپ بیتیوں' کی آڑ میں شائد میں کہانیاں گھڑ رہا ہوں اور کچھ کو یہ فکر ہونے لگی ہے کہ اس بیان سے میرا مقصد اپنی پارسائی کے ڈنکے بجوانا ہے. آج میں آپ کو اس تحریر کے ذریعے یہ اطمینان دلانا چاہتا ہوں کہ میں اللہ سے ہزار بار پناہ مانگتا ہوں کہ اپنی تحریروں سے جھوٹ پھیلاؤں اور میں اپنے رب سے ہزار بار پناہ طلب کرتا ہوں کہ خود کو نیک سمجھنے کی غلط فہمی پالوں. میں تو سر تا پیر گناہوں سے پلید ایک ایسا شخص ہوں جو فرائض کی پابندی بھی مشکل سے کرپاتا ہے. جس طرح کہتے ہیں کہ قبر کا حال صرف مردہ جانتا ہے، ویسے ہی اپنے برے حال سے میں خوب واقف ہوں. یہ تو رب العزت کا خاص کرم ہے کہ اس نے مجھ جیسوں کا پردہ رکھا ہے. آپ سب کو بھی میں بناء کسی بناوٹی عجز کے پوری صداقت سے یہ مشورہ دیتا ہوں کہ فیس بک کی تحریروں کے دھوکے میں آکر مجھ جیسے سیاہ کار کو نیک سمجھنے کی غلطی ہرگز نہ پالیں. بلکہ مجھے ایک ایسا گنہگار حساس انسان تصور کریں جو اپنے احساسات کو تحریر کرنے پر مجبور ہے. رہی بات ان حالیہ 'آپ بیتیوں' کی تو اطمینان رکھیں کہ یہ فی الواقع اپنی اصل میں سچ ہیں. یہ تو ضرور ہے کہ تفصیل کے بیان میں معمولی کم و بیشی ہوجانا لازمی امر ہے یا لکھاری کی یادداشت کا کسی مقام پر چوک جانا یا دانستہ کسی پہلو کو حذف کرکے بہتر الفاظ سے بدل دینا تحریر کا حصہ ہوا کرتا ہے. مگر یہ سب واقعات اپنی اصل میں قریب قریب ایسے ہی وقوع پزیر ہوئے ہیں جیسے راقم نے بیان کئے ہیں. 
.
میرا ماننا ہے کہ مومن کی زندگی میں 'انہونی' یا 'حسن اتفاق' نام کی کوئی شے نہیں ہوتی. وہ اس حقیقت کی معرفت پاچکا ہوتا ہے کہ زندگی کے خارج و باطن میں ہونے والی ہر واردات، ہر حادثہ، ہر واقعہ دراصل قادر المطلق کے 'گرینڈ پلان' ہی کا ایک چھوٹا سا جزو ہے. اس کا ہونا یا تو خالص 'امر الہی' کا ظہور ہے یا پھر 'اذن خداوندی' کا تقاضہ. سادہ الفاظ میں کوئی واقعہ یا تو رب العزت کے حکم کو براہ راست پورا کرتا ہے یا پھر دار الامتحان میں حاصل عارضی آزادی کا شاخسانہ ہوتا ہے. ایسی آزادی جو آزاد ہوکر بھی منشاء خداوندی کی پابند ہے. پس ایسی 'آپ بیتیاں' اور 'محیر العقل' واقعات صرف میری زندگی سے متعلق ہرگز نہیں ہیں بلکہ ان سے ہر انسان کی زندگی مزین ہوتی ہے. خوش نصیب وہ ہے جو ان واقعات کے پیچھے کارفرما مشیت الہی کا ادراک کرسکے اور اپنے لئے سبق اخذ کرسکے. 
.
====عظیم نامہ====

عید قربان


عید قربان



تقریباً گیارہ برس بعد پاکستان میں عید قربان منانا نصیب ہوا. دل میں ٹھان لیا تھا کہ خوشی منانے کے ساتھ ساتھ اس بار قربانی کے عمل کو قریب سے محسوس کرنے کی سعی کی جائے گی. ایک ماہ پہلے ہی گھر والوں کو یہ بتا دیا کہ اس دفعہ میں خود جاکر جانور (گائے) لاؤں گا، اسکا خیال رکھوں گا اور پھر اپنے ہاتھ سے چھری پھیروں گا. اب یہ بول تو دیا مگر سارا وقت ذہن پر دباؤ رہا. آج تک کسی جانور کو ذبح نہ کیا تھا، کسی کی ایسے جان نہ لی تھی ، سوچ کر بھی ہاتھ شل ہونے لگتے. طبیعت کی نرمی اور مہذب بننے کی کوشش نے میرا دل کسی سہمی ہوئی چڑیا جیسا کردیا تھا. کئی بار خیال آیا کہ یہ چھری پھیرنے والا ارادہ ترک کردوں مگر پھر کوئی کان میں ہلکے سے سرگوشی کرتا .."قربانی کی روح کو محسوس کرنا ذبح کے بناء ممکن نہیں".. خود کو بار بار ڈھارس دیتا کہ میاں اگر ایسا نازک دل رکھو گے تو بوقت ضرورت اللہ کے حکم پر جہاد و قتال کیسے کرو گے؟
.
خیر جناب وقت گزرتا گیا اور قربانی کا دن سامنے آگیا. میں نے خاص تاکید کی کہ چھری پھیرتے ہوئے کوئی تصویر نہ لی جائے. مجھے انٹرنیٹ پر ذبیحہ کی خون سے لت پت تصاویر دیکھ کر ہمیشہ کوفت ہوتی ہے. میں حیران ہوتا ہوں کہ کوئی کیسے کسی جاندار کو موت دیتے ہوئے پوز مار کے تصویریں بنا سکتا ہے یا تصویر اتار سکتا ہے؟ میری گزارش یہی ہوا کرتی ہے کہ ایسی تصویر لگا کر اپنے حیوان ہونے کا ثبوت نہ دیں. بہرحال وہ وقت آگیا جب جانور کو زمین پر لٹا دیا گیا اور میرے ہاتھ میں ایک نہایت تیز چھری دے دی گئی. میں اللہ کا نام لے کر مقبول دعائیں پڑھتا ہوا اسکی گردن پر آیا. لوگ حیران تھے کہ اتنا بڑا جانور بناء کسی مزاحمت کے زمین پر بناء تنگ کئے گرگیا اور اب بناء کسی احتجاج کے سکون سے لیٹا ہوا ہے. جیسے زبان حال سے کہہ رہا ہو .. "میرے آقا جلدی سے مجھے ذبح کردیجیۓ". میں نے کانپتے ہاتھوں سے چھری گردن پر رکھ دی. یہ وہ لمحہ تھا جب میرے ذہن میں ایک جھماکا ہوا ، پہلی بار یہ محسوس ہوا کہ ذبح کرنے والا بھی میں ہوں اور ذبح ہونے والا بھی میں ہی ہوں. پہلی بار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت نظر آئی. ایک طرف وہ باپ ہے جو اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنے لخت جگر کی گردن پر چھری رکھتا ہے تو دوسری جانب وہ بیٹا ہے جو مشیت الہی کے لئے اپنی گردن پیش کردیتا ہے. یہ تسلیم و رضا کا وہ اعلی مقام تھا ٰجہاں شعور و ادراک کے پر جل جاتے ہیں. اس ایک لمحے میں اس حوالگی کا عکس اپنے سینے میں محسوس کیا اور پورے اطمینان و سکون سے چھری چلا دی. کوئی پھر میرے کان میں کہہ رہا تھا : "اللہ اکبر. اللہ اکبر. لا الہ الا اللہ. واللہ اکبر. اللہ اکبر. وللہ الحمد."
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 27 July 2016

اب معجزات نہیں ہوتے


اب معجزات نہیں ہوتے



شادی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں میرے مالی حالات مستحکم نہیں تھے. جتنا کماتا تھا ، اس سے الحمدللہ بس ضروریات زندگی کی گاڑی چل رہی تھی. میں، میری بیوی اور میری بیٹی ایک چھوٹے سے نہایت خستہ حال فلیٹ میں مقیم تھے. یہ فلیٹ سستا ضرور تھا مگر اس کی حالت یہ تھی کہ ایک بوسیدہ قبرستان سے ملا ہوا اور بے ہنگم درخت سے گھرا ہوا تھا. دیواروں میں پانی سے سیلن اتر آئی تھی اور گھر میں ہیٹنگ یعنی گھر گرم کرنے کا انتظام نہ ہونے کے برابر تھا. رات کے دوران جب سردی بڑھ جاتی تو اکثر میری بیٹی روتے ہوئے اٹھ کر شکایت کرتی کہ اس کے پیروں میں درد ہورہا ہے. میں اور میری بیوی اٹھ کر اسے ایک اور کمبل اوڑھاتے اور اس کے پیر دابتے رہتے. یہاں تک کہ وہ دوبارہ سو جائے. اس تنگی کے باوجود ہمیں سکون اور خوشی کی دولت ایسے ہی میسر تھی جیسے الحمدللہ آج میسر ہے. لیکن ایک بہتر گھر میں رہنے کی خواہش میرے دل میں ضرور دفن تھی. ان ہی دنوں علاقے میں ایک زبردست فلیٹس کی اسکیم کا اعلان کیا گیا. یہ فلیٹس قیمت میں دوسرے گھروں سے بہت زیادہ مہنگے مگر سہولیات سے مزین تھے. میرے دل میں کسی ندیدے بچے کی طرح یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش کبھی میں بھی ان فلیٹس میں رہ سکوں. تعمیر کی ابتدا میں وہاں تین جناتی قامت کی کرینیں لگائی گئیں. میں جب اپنی فیملی کے ساتھ ان کے پاس سے گزرتا تو اپنی بیٹی سے مخاطب ہو کر کہتا کہ "یہ سب سے بڑی والی کرین میں ہوں، یہ درمیانی والی کرین تمھاری ماما ہیں اور یہ چھوٹی والی کرین تم ہو" میرے اس بار بار کئے جانے والے مذاق سے چڑ کر میری بیٹی جواب دیتی کہ "او گاڈ آپ کو تو ہمیشہ ایک ہی جوک کرنا ہوتا ہے". میں مسکرا دیتا مگر اگلی بار پھر بے ساختہ یہی جملہ اسے کہتا. 
.
تعمیر کا کام آگے بڑھا تو دل سے مجبور ہوکر ایک روز میں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلیٹس میں چھپ کر داخل ہوگیا تاکہ انہیں اندر سے دیکھ سکوں. یہاں فلیٹوں کے چھ بڑے بڑے بلاکس تھے اور ان میں سینکڑوں کی تعداد میں فلیٹس تھے. ان بلاکس میں جو بلاک مجھے سب سے دلنشین لگا، میں اس میں کود گیا اور پھر اپنے پسندیدہ پہلے فلور پر پہنچا. اس فلور پر آٹھ فلیٹس موجود تھے. ان میں سے جو فلیٹ مجھے سب سے بہتر جگہ پر لگا، میں اس میں چھپ کر اندر چلا گیا. دو کمروں کا یہ فلیٹ مجھے اپنے دل سے بہت قریب محسوس ہوا. کافی دیر گزرارنے کے بعد اپنا دل تھامے واپس آگیا اور اپنی بیگم کو روداد سنائی. اسے بھی شوق ہوا تو میری حماقت کی حد دیکھیئے کہ مزدوروں اور سیکورٹی سے چھپ کر اسے بھی وہاں لے گیا. اپنا دیکھا ہوا فلیٹ اسے دکھایا اور دونوں ایک دوسرے سے تعریفیں کرتے یہ کہتے واپس آگئے کہ کتنا اچھا ہوتا اگر ہم یہاں رہ پاتے؟ .. اسی طرح کچھ اور دن گزرے اور فلیٹس کی تعمیر اپنے اختتام کو پہنچ گئی. ایک روز بہت صبح مجھے فون آیا. دوسری طرف گورنمنٹ کونسل کی کوئی خاتون مخاطب تھیں. انہوں نے بتایا کہ گورنمنٹ نے ایک اسکیم کے تحت ان سینکڑوں نئے فلیٹس میں سے چند گنتی کے فلیٹس خرید لئے ہیں جو وہ ان لوگوں کو دے رہی ہے جنہوں نے گورنمنٹ گھروں کیلئے درخوست دے رکھی تھی. آپ کی درخوست ہمارے پاس موجود ہے تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم وہاں موجود ایک فلیٹ آپ کو دے دیں اور آپ موجودہ کرائے سے کافی کم کرائے پر وہاں شفٹ ہوجائیں ؟ .. میں نے بوکھلاتے ہوئے خوشی سے نہال ہوکر لڑکھڑاتی آواز میں جواب دیا کہ ضرور 
.
اسی روز ہمیں دعوت دی گئی کہ ہم جا کر اپنا فلیٹ دیکھ لیں. وہاں بھاگم بھاگ پہنچے تو چھ بلاکس میں سے اسی بلاک میں، سات فلوروں میں سے اسی فلور پر اور سینکڑوں فلیٹوں میں سے وہی فلیٹ ہمارے نام نکلا تھا. آج الحمدللہ ثم الحمدللہ میں کوئی سات آٹھ برس سے اسی فلیٹ میں بخوشی مقیم ہوں اور اپنے رب کی عطا کو سوچ کر شکرگزار ہوں. میں حیران ہوتا ہوں جب لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ دعا کی کوئی حقیقت نہیں. میں مسکرا دیتا ہوں جب لوگ مصر ہوتے ہیں کہ اب معجزات نہیں ہوتے. اللہ اکبر. اللہ اکبر. لا الہ الا اللہ. واللہ اکبر. اللہ اکبر. وللہ الحمد.
.
====عظیم نامہ====

Tuesday, 26 July 2016

او - شٹ

او - شٹ



میری نوکری کی نوعیت ایسی ہے کہ اس میں ٹیکنکل سافٹ ویئر سے متعلق مسائل سلجھانا ہوتے ہیں. ظاہر ہے کہ بعض مسائل اتنے پیچیدہ یا ٹیڑھے ہوا کرتے ہیں کہ جنہیں سلجھانے کی ناکام کوشش کرتے کرتے انسان کو شدید غصہ آجائے. لہٰذا یہ عام بات ہے کہ اچانک میرا کوئی ساتھی اٹکے ہوئے مسئلے کو مادر پدر گالیاں دینے لگتا ہے یا اونچی آواز میں اپنی ہی کسی حماقت کو کوسنے لگتا ہے یا پھر جھنجھلا کر میز پر گھونسہ دے مارتا ہے. باقی ساتھی چونکہ اس ذہنی اذیت کو سمجھتے ہیں، اسلئے برا ماننے کی بجائے وہ ایک دوسرے کو آنکھ مار کر مسکراتے رہتے ہیں. میری اپنی عادت یہ ہے کہ جب کسی الجھاؤ میں گرفتار ہوں تو اپنے سر کے بال نادانستہ طور پر سختی سے تھام لیتا ہوں. یہی وجہ ہے کہ میری والدہ یا میری بیگم ایک لمحہ میں یہ جان لیتے ہیں کہ کب میں کسی ذہنی مشکل میں گرفتار ہوں؟بہرحال آج صبح کام کرتے ہوئے ایک غیرمتوقع مشکل پر بے اختیار زبان سے انگریزی کا لفظ 'شٹ' ادا ہوگیا. یہ کہتے ہی محسوس ہوا کہ سب مجھے حیرت سے دیکھ رہے ہیں. میں نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا تو مینجر سمیت اردگرد کے سب ساتھی آنکھیں پھاڑے مجھے گھور رہے تھے. ساتھ بیٹھا گورا مخاطب ہوا 'عظیم ! کیا تم نے ابھی ابھی لفظ 'شٹ' بولا ہے؟؟!!' .. میں نے سٹپٹا کر شرمندگی سے ہاں میں سر ہلادیا اور معذرت کی تو سب ہنس کر کہنے لگے کہ ہمیں اسلئے بہت حیرت ہوئی کہ کبھی تمہاری زبان سے اسطرح کا گندہ لفظ نہیں سنا ورنہ ہم سب تو بڑی گالیاں بھی مزے سے دے لیتے ہیں. یہ سن کر مجھے شرمندگی اور خوشی دونوں کا احساس ایک ساتھ ہوا. شرمندگی اس بات کی کہ آج میں ایسا لفظ کہہ گیا ہوں جو تہذیب کے خلاف ہے اور خوشی اس امر کی کہ میرے ساتھیوں نے اب تک اس ضمن میں مجھ سے خیر اخذ کیا تھا. الحمدللہ. اس تازہ واقعہ سے میں نے یہ سبق لیا ہے کہ لوگ چاہے بظاہر کتنے ہی لاتعلق نظر آئیں مگر آپ کے افکار و کردار ان پر ایک مخفی اثر ضرور مرتب کرتے ہیں. اللہ رب العزت مجھے اور آپ کو خیر عطا فرمائیں اور ہم سب سے خیر ہی کا صدور فرمائیں. آمین 
.
====عظیم نامہ====

چھوٹی سی نیکی


چھوٹی سی نیکی



پچھلے دسمبر ایک روز جب انگلینڈ میں شدید برف باری ہو رہی تھی اور ہر کسی کو سردی نے جکڑ رکھا تھا تو میں نے اپنی آفس کی کھڑکی سے دیکھا کہ میرا ایک ساتھی اس منجمد کردینے والی ہوا میں باہر دستانے چڑھائے اور ہاتھ میں بیلچہ تھامے راستے سے لوگوں کیلئے برف کے انبار صاف کررہا ہے. میں حیرت سے ٹھٹھرتا ہوا اسے دیکھتا رہا، کچھ دیر بعد جب اس سے ملاقات ہوئی تو پوچھا کہ تم تو میری طرح انجینئر ہو پھر تمہارے ذمہ اس سردی میں یہ سخت کام کس نے لگادیا؟. اس نے مسکرا کر جواب دیا کہ "یہ میری آج کی چھوٹی سی نیکی ہے".
.
چند روز پہلے آفس کے کچن میں رکھا ڈش واشر خراب ہوگیا. نتیجہ یہ ہوا کہ صفائی کرنے والو کیلئے برتنوں کے انبار لگنے لگے. دن کے اختتام پر کام ختم کرکے جب میں گھر جانے لگا تو دیکھا کہ ایک سینئر مینجر آستینیں چڑھائے سارے برتن مانجھ مانجھ کر دھو رہی ہے. میری استفسار کرتی نظروں کو دیکھا تو مسکرا کر مخاطب ہوئی کہ "یہ میری آج کی چھوٹی سی نیکی ہے".
.
ایسے ہی ان گنت مشاہدوں سے مجھے یہ سمجھ آنے لگا کہ نیکی صرف یہ نہیں کہ میں دو رکعت نماز زیادہ پڑھ لوں یا چندے کے ڈبے میں چند روپے ڈال آؤں بلکہ برتر نیکی یہ ہے کہ ایسے مواقع تلاش کروں جہاں مخلوق کے خاموشی سے کام آسکوں، کسی کی اذیت کم کرسکوں. کچھ روز پہلے ہمارے فلیٹس کی لفٹ خراب ہوگئی، جس کے بغیر کچرا نیچے لے جانا محال تھا. گھر کا کچرا پھینکنے کے لئے نکلا تو دیکھا کہ ایک پڑوسی خاتون نے بھی اپنا بہت سا کچرا باہر رکھ رکھا ہے. میں نے اس کا کچرا بھی ساتھ اٹھا لیا. پھر اس خیال سے کہ کچرے والے کو مشکل نہ ہو، ان کچرے کے بڑے بڑے بستوں کو گرہ لگا کر باندھ دیا. ظاہر ہے کہ اس سے میرے ہاتھ خراب ہوگئے. ساتھ چلتی ہوئی ایک کم عمر بچی نے حیرت سے میری طرف دیکھا تو بے اختیار میرے منہ سے نکلا "یہ میری آج کی چھوٹی سی نیکی ہے".
.
====عظیم نامہ====

ثقلین مشتاق سے ایک ملاقات


ثقلین مشتاق سے ایک ملاقات



.
کچھ سال پہلے ہماری مقامی مسجد میں پاکستان سے آئی ایک تبلیغی جماعت نے قیام کیا. اس جماعت میں سابقہ کرکٹرز ثقلین مشتاق اور محمد یوسف بھی شامل تھے. نماز مغرب کے بعد بھائی ثقلین مشتاق نے ایک پراثر اور سادہ اسلوب میں درس دیا. جس میں انہوں نے اپنے دین کے سفر کے بارے میں بھی واقعات سنائے اور ساتھ ہی تفصیل سے نماز، روزہ، تسبیحات، صدقات، تلاوت، تبلیغ وغیرہ کے فضائل بھی بیان کئے. جب آپ کا بیان ختم ہوا تو مجھے اپنے ایک دوست کے ساتھ ان سے گفتگو کا موقع حاصل ہوا. صدق دل سے شکریہ ادا کرنے کے بعد میں نے ان سے قدرے سپاٹ انداز میں کچھ یوں کہا کہ " ثقلین بھائی آپ نے ماشاللہ اتنی دیر خوبصورت گفتگو کی جس میں آپ نے اپنے سننے والو کو دعوت و تبلیغ سمیت تقریبا ہر عبادت و نیکی کی ترغیب دی. مگر مجھے افسوس ہوا کہ اس سارے وقت میں ایک بار بھی آپ نے مخاطبین کو قران حکیم سمجھنے کی رغبت نہیں دلائی جو بلاشبہ فہم دین کے لئے سب سے ضروری ہے" 
.
گو میں نے اپنا یہ اعتراض تہذیب کو ملحوظ رکھ کر ہی پیش کیا تھا مگر اس کی نوعیت خاصی ناقدانہ تھی. مجھے قوی توقع تھی کہ ایک عام سے انسان کی ایسی غیر متوقع تنقید پر ثقلین بھائی جیسے مشہور و معروف انسان غصہ میں کوئی سخت جواب دے سکتے ہیں. لیکن اس وقت مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب توقع کے برعکس ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ پوری ندامت سے بولے کہ آپ کی بات واقعی درست ہے. مجھے واقعی لوگوں کو قران حکیم سے جڑنے کی ترغیب دینی چاہیئے تھی. پھر بولے کہ اب جو لندن میں دیگر مقامات پر مجھے گفتگو کرنی ہے، میں وہاں ضرور اسے شامل کروں گا. ان کے لہجے سے ان کا اخلاص اور سچائی پوری طرح سے چھلک رہے تھے. میں جو کچھ لمحہ پہلے ناقدانہ ذہن سے مخاطب تھا، اب دل کی گہرائی میں ان کیلئے محبت کا جذبہ محسوس کرنے لگا. مومن کا یہ خاصہ ہے کہ اسے جب خیر کی دعوت دی جائے یا دینی اعتبار سے اس کی کسی غلطی کی تصحیح کی جائے تو وہ کسی انا پرست کی طرح اپنی ہتک محسوس نہیں کرتا بلکہ فوری اپنی غلطی سے رجوع کرتا ہے اور شکرگزار ہوتا ہے. 
.
====عظیم نامہ====