Wednesday, 29 June 2016

گرینڈ پلان


گرینڈ پلان




مومن کی زندگی میں 'انہونی' یا 'حسن اتفاق' نام کی کوئی شے نہیں ہوتی. وہ اس حقیقت کی معرفت پاچکا ہوتا ہے کہ زندگی کے خارج و باطن میں ہونے والی ہر واردات، ہر حادثہ، ہر واقعہ دراصل قادر المطلق کے 'گرینڈ پلان' ہی کا ایک چھوٹا سا جزو ہے. اس کا ہونا یا تو خالص 'امر الہی' کا ظہور ہے یا پھر 'اذن خداوندی' کا تقاضہ. سادہ الفاظ میں کوئی واقعہ یا تو رب العزت کے حکم کو براہ راست پورا کرتا ہے یا پھر جن و انس کو اس دار الامتحان میں حاصل عارضی آزادی کا شاخسانہ ہوتا ہے. ایسی آزادی جو آزاد ہوکر بھی منشاء خداوندی کی پابند ہے. پس مبارک ہو اس عبد کو جو روزمرہ کے حالات اور واقعات پر غور کی صلاحیت و توفیق رکھتا ہے. جو معبود کی مشیت کو واقعہ کے محرک کی صورت میں دیکھ پاتا ہے اور جو رضائے الہی سے راضی بارضا رہتا ہے. ایسے انسان کو جلد یا بدیر 'حکمت' کی خلعت سے نوازا جاتا ہے جو بیک وقت کائنات کے رموز بھی افشاں کرتی ہے اور نفس المطمئنہ کی منزل بھی ممکن بنادیتی ہے.
.
====عظیم نامہ====

Monday, 27 June 2016

توہم پرستی



توہم پرستی



کچھ سالوں قبل ایک قریبی دوست نے مجھے دعوت پر مدعو کیا. گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ مہمان و میزبان سب ایک کمپیوٹر سکرین کے گرد جمع ہیں اور سبحان اللہ ، اللہ اکبر کے نعروں کا غلغلہ ہے. میں بھی جذبہ ایمانی سے سرشار آگے بڑھا کہ جان سکوں ماجرہ کیا ہے؟ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سرزمین عرب پر کوئی ایسا درخت دریافت ہوگیا ہے جو با آواز بلند .. جی ہاں بآواز بلند الله سبحان تعالیٰ کی حمد بیان کر رہا ہے. زمین کا مالک اس درخت کو کٹوا کر وہاں ایک عمارت تعمیر کرنے کا متمنی ہے مگر اس نے جدید و قدیم سب نسخے آزما لئے لیکن درخت نہ اب کٹتا ہے نہ تب. بلآخر اس نے یہ اعلان کردیا ہے کہ جو اس درخت کو کاٹ دے گا میں اسے ملین ڈالر کا انعام دوں گا اور یہ بھی کہ اب تک ہر کوشش ناکام رہی ہے. یہی وہ حیرت انگیز بریکنگ نیوز تھی جسے کسی ویب سائٹ سے پڑھ کر احباب سبحان اللہ اور اللہ اکبر کی صدائیں بلند کر کے جھوم رہے تھے. میں نے بھی کہا سبحان اللہ ! دوستو، رفیقو یہ تو کمال ہوگیا ! مجھے تو یہ حضرت موسیٰ ع کی لاٹھی سے بھی بڑا معجزہ معلوم ہوتا ہے. ہمیں چاہیئے کہ ہم اسی وقت گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کو فون کریں اور دنیا کو بتادیں کہ دیکھ لو اسلام ہی واحد سچا دین ہے. ہمارے پاس اب واضح ثبوت اور اللہ کا معجزہ موجود ہے. ہمی چاہیئے کہ ہم غیرملکی مبصرین کو مدعو کریں یا کم ازکم قومی ٹی وی چینل یا خبر رساں اداروں کو ہی اس پر ایک دستاویزی فلم بنانے پر مجبور کریں. 
.
میری اس تجویز کو سن کر تمام احباب خاموش، جواب ندارد. کوئی کھسیانی ہنسی ہنسا تو کوئی نظریں چرانے لگا. کیوں؟ اسلئے کہ دل میں یہ سب جانتے تھے کہ اس قسم کے قصے کہانیاں من گھڑت ہوا کرتے ہیں جن کا دین سے تعلق تو دور کی بات اس کا کوئی ناطہ عقل و فہم سے بھی نہیں جوڑا جاسکتا. مگر چونکہ جھوٹ بولنے والے نے یہ جھوٹ اسلام کا نام لے کر بولا ہے اور اسے تقدس کی پوشاک پہنا کر لکھا ہے اسلئے کسی میں ہمت نہیں کہ جھوٹے کا گریبان پکڑسکے. حالانکہ اگر جھوٹ بولنا گناہ ہے تو اسلام کا نام لے کر جھوٹ بولنا گناہ کبیر ہے. آج ہم میں سے بہت سے افراد ایسے موبائل یا سوشل میڈیا پیغامات بھیجتے نظر آتے ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہوتا ہے کہ فلاں صاحب کو ایک خواب آیا جس میں اس نے فلاں مقدس شخصیت جیسے بی بی زینب رض کو دیکھا جو کہہ رہی ہیں کہ فلاں عمل اتنی بار لازمی کرو. ساتھ ہی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں نے عمل کیا تو اسے مالی فائدہ پہنچا اور فلاں نے عمل نہ کیا تو اسے نقصان ہوگیا یا وہ کسی حادثے سے دوچار ہوگیا (استغفراللہ). کیا اس طرح کی خرافات چاہے وہ بظاہر کتنی ہی مقدس کیوں نہ نظر آئیں، لوگوں میں پھیلا کر آپ کون سے دین کی خدمت کررہے ہیں؟ کیا اسلام کا پیغام معاذ اللہ اتنا اپاہج ہے کہ اسے پہنچانے کیلئے ان کہانیوں کا سہارا لینا پڑے؟ صحیح مسلم میں میرے نبی ص نے کی ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ” کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی بات سُنے اور بغیر تصدیق کے آگے بیان کر دے“۔ خدارا ایسے پیغامات سے بلیک میل ہو کر انہیں بناء تصدیق نہ پھیلائیں. جان لیں کہ ایسا کرنا ثواب نہیں قبیح گناہ ہے. جس کتاب میں تخلیق کائنات پر تدبر کرنے اور مظاہر فطرت میں تفکر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ، آج اسی کتاب کے حامل حقیقی تحقیق کی بجائے صرف آلو یا بادلوں پر اللہ کا نام کھوج رہے ہیں. عزیزان من، اللہ رب العزت کی حقیقی حمد صرف حلق سے "ح" نکال کر سبحان اللہ کہنا نہیں ہے بلکہ اس کی تخلیق پر تحقیق کرکے قوانین کی دریافت و ایجادات کرنا ہے. پھر سبحان اللہ کہنا محض ایک کلمہ نہیں رہے گا بلکہ زبان حال بن جائے گا 
.
====عظیم نامہ====

Friday, 24 June 2016

ننھا مہمان


ننھا مہمان 


وہ چھوٹا ننھا مہمان مجھے نماز پڑھتا دیکھ کر میرے پاس چلا آیا اور کہنے لگا کہ عظیم انکل مجھے بھی نماز پڑھنا ہے. پھر وہ میرے برابر میں کھڑا ہو کر مجھے دیکھتا جاتا اور جو جو میں کرتا اسے پورے شوق سے دھراتا . نماز ختم ہوئی تو میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاے اور اپنے ننھے دوست کو بھی دعا کے لیے کہا. اس نے اپنی بڑی معصوم آنکھوں سے مجھے دیکھا اور پوچھا کہ کیا الله میاں مجھے دعا سے ہر چیز دے سکتے ہیں؟ میں نے پیار سے سر ہلا دیا تو اسکی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں. خوشی سے کہنے لگا کہ پھر میں اپنے الله سے الیکٹرک گٹار مانگوں گا !! اور یہ بھی کہ میں راک بینڈ جوائن کر سکوں !. اس انوکھی غیرمتوقع خواہش کو سن کر میں ایک لمحے کو سٹپٹایا اور چاہا کہ اسے ایسی خواہش سے روک دوں لیکن پھر خیال آیا کہ میں کون ہوتا ہوں اس معصوم کی دعا پر فتویٰ لگانے والا؟ اسکا مان اپنے رب پر قائم رہنا چاہیے. تدریس و تربیت اس دعا کے بعد بھی کی جا سکتی ہے..
====عظیم نامہ=====

Tuesday, 21 June 2016

میری ذلت یا میری عزت ؟



میری ذلت یا میری عزت ؟


.
میرے والدین نے بچپن ہی سے مجھے ہم نصابی سرگرمیوں اور مطالعہ کی جانب راغب کئے رکھا. پہلے عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیاں ہوتی تھیں، پھر اشتیاق احمد کے جاسوسی ناول آئے، پھر ابن صفی اور مظہر کلیم کی عمران سیریز نے جگہ لی، پھر ادبی شمارے شامل ہوئے اور ہوتے ہوتے آج الہامی صحائف تک بات آگئی. اس سب کے پیچھے حقیقی محرک بلاشبہ میرے والدین ہی رہے. اسی طرح اسکول میں کوئی ڈرامہ ہو یا ٹیبلو مجھے اس میں خوشی سے یا زبردستی حصہ لینا ہی ہوتا تھا. میں آٹھویں جماعت میں تھا جب اسکول میں رزلٹ کے موقع پر ایک بڑے فنکشن کا انعقاد کیا گیا جس میں کچھ معروف نام بھی مدعو تھے اور سب بچوں کے خاندان والوں کی شرکت بھی لازم تھی. میری اردو کا تلفظ و ادائیگی چونکہ دیگر بچوں سے بہتر تھا لہٰذا مجھے سورہ الرحمٰن کی تلاوت کے بعد اس کا ترجمہ کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی. فنکشن کا دن آیا تو پنڈال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا. یہ پہلا موقع تھا جب مجھے اسٹیج پر لوگوں کے سامنے اتنا طویل بولنا تھا. میرا ایک کزن جو میرے ہی ساتھ اسکول میں تھا تقریر کیلئے منتخب کیا گیا تھا اور بولنے کیلئے خوب پراعتماد تھا. پروگرام شروع ہوا اور میری ترجمے کی باری آئی. اسٹیج پر میرا نام پکارا گیا اور میں لرزتا کانپتا مائیک کے سامنے آکھڑا ہوا. ترجمہ کرنے کے لئے منہ کھولا تو لگا کہ جیسے آواز چلی گئی ہو. لاچارگی سے سامنے دیکھا تو سامعین میں سے کچھ گھور رہے تھے تو کچھ مجھ پر ہنس رہے تھے. دماغ ماؤف ہوگیا اور الفاظ مفقود. بڑی مشکل سے سوری کہا اور اسٹیج سے اتر آیا. لوگ ہنس رہے تھے، دوست مذاق اڑا رہے تھے اور مجھ پر ذلت کا ایک شدید بوجھ تھا جس کے تلے میں دبا جاتا تھا. اسٹیج کے پیچھے والدہ اور ٹیچر دونوں میرے پاس آئے تو میں نے روتے ہوئے قسم کھانی چاہی کہ اب کبھی اسٹیج پر نہ آؤں گا. لیکن والدہ نے لپک کر تسلی دی کہ کیا ہوا جو تم بول نہ سکے؟ تم نے حصہ لیا اور کوشش کی یہی سب سے اہم ہے. اگلی دفعہ بول بھی لو گے. میں نے نفی میں سر ہلادیا. اس دن میرے کزن کو بہترین تقریر کرنے پر پہلا انعام دیا گیا اور میں ایک شکست خوردہ انسان کی طرح خود کو چھپاتا رہا. وہ ہیرو تھا اور میں زیرو. والد نے بھی خوب ہمت بندھائی اور ناراض ہونے کی بجائے مجھے میری پسند کی جگہ کھانا کھلانے لے گئے. اس بہترین برتاؤ کے باوجود میں اندر سے ٹوٹ چکا تھا. 
.
اس واقعہ کے ایک سال بعد کراچی میں سیرت النبی ص پر ایک بہت بڑے تقریری مقابلے کا اعلان کیا گیا جس میں شہر کے نمائندہ اسکولز نے شرکت کرنی تھی اور جسے میڈیا کی کوریج حاصل تھی. اس کے انتخابی مرحلے کا اسکول میں مہینوں پہلے اعلان کردیا گیا اور اسکے لئے بچوں ہی کے ہاتھوں اسکول لیٹر گھر بھیجا گیا. مجھے معلوم تھا کہ اگر یہ لیٹر میری والدہ کے ہاتھ لگ گیا تو انہوں نے مجھے کوشش کرنے پر مجبور کردینا ہے. میں نے لیٹر چھپا لیا مگر ہائی ری قسمت کہ جہاں چھپایا ، وہاں والدہ نے صفائی کی نیت سے تلاشی لے لی اور یوں ان کے علم میں آگیا. حسب توقع مجھے والدہ نے اپنی محبت سے مجبور کردیا کہ میں کوشش تو کروں اور اگلے ہی روز میرے ساتھ اسکول جاپہنچی. انتخابی مراحل کے دو ابتدائی مرحلے ہوچکے تھے اور اس روز تیسرا اور حتمی مرحلہ تھا. والدہ نے استادوں کو راضی کیا کہ وہ مجھے بھی سن لیں. میں نے آدھے دل سے پڑھا مگر پھر بھی استادوں کو بھا گیا. انہوں نے مجھے ہی بھیجنے کا فیصلہ کردیا. یہ فیصلہ جہاں میرے والدین کیلئے خوشی کی نوید تھا وہاں میرے لئے گویا موت کے پروانے سے کم نہ تھا. دن رات تیاری کرکے تقریر تیار کی اور اٹھتے بیٹھے اسے یاد کرتا رہا. رات میں سوتے ہوئے بھی اپنی سابقہ ذلت کا منظر سامنے آجاتا اور میں گھبرا کے اٹھ بیٹھتا. 
.
مقابلے کا دن آیا اور ہم میزبان اسکول میں جاپہنچے. ایک سے ایک تقریریں ہوئیں اور سب سے بہترین تقریر میزبان اسکول ہی کی ایک لڑکی نے کی. میرا نام پکارا گیا تو والد نے مسکرا کر ہمت بندھائی. اسٹیج پر گیا اور تقریر کا آغاز کردیا. کچھ ہی دیر میں مجھے احساس ہوا کہ سننے والے بھی انہماک سے سن رہے ہیں اور کچھ خواتین تو رونے لگی ہیں. ابھی میری تقریر آدھی ہی ہوئی تھی کہ اچانک مائیک بند ہوگیا اور کچھ کے بقول میزبان اسکول کی طرف سے بند کردیا گیا تاکہ میں گھبرا جاؤں اور پھر انعام ان ہی کی طالبہ کے پاس آئے. اللہ اعلم. مائیک بند ہوتے ہی میرے چہرے پر گھبراہٹ آئی تو والد اپنی نشست سے کھڑے ہوکر پکارے کہ عظیم دگنی آواز سے بولو. والد کی صدا نے مجھ میں نئی قوت پھونک دی اور میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ زور و شور سے بولا. تقریر ختم ہوئی تو نہ صرف تالیاں بجتی رہیں بلکہ بہت سے استاد مجھے چمٹا کر پیار کرنے لگے. آخر میں مجھے پہلا انعام دیا گیا. لوگ غول بنا کر مجھے گاڑی تک چھوڑنے آئے. اگلے روز اسکول میں والہانہ استقبال ہوا اور کچھ لوگوں نے تو آٹوگراف تک لیا. ایک ہی دن میں مجھے وہ عزت حاصل ہوئی جس کا تصور بھی میرے گمان میں نہ تھا. اس کے بعد میں نے یکے بعد دیگرے تقریری مقابلے جیتے، کالج آیا، یونیورسٹی آئی مگر میری جیت کا سلسلہ نہیں رکا. شہری اور ملکی سطح کا کوئی اعزاز شاید ہی ایسا ہو جسے حاصل نہ کیا ہو. میری مہنگی یونیورسٹی نے نہ صرف میری فیسیں معاف کردیں بلکہ طرح طرح کے مالی انعامات بھی مجھے ملتے رہے. اسی کی بنیاد پر مجھے مختلف آن اسکرین اور آف اسکرین آفرز آتی رہی، اخباروں میں انٹرویوز آتے رہے اور آج تک اسی فن خطابت کے ثمرات مجھے مختلف طریق سے حاصل ہوتے رہے ہیں. کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ہوتا؟ اگر میں پہلی ذلت سے گھبرا کر کوشش ترک کردیتا؟ کیا ہوتا جو میرے والدین نے میری ہمت بندھا کر مجھے کوشش کرنے پر مجبور نہ کیا ہوتا؟ کیا ہوتا جو اس دن والدہ کو میرا چھپایا ہوا لیٹر نہ ملا ہوتا؟ الحمدللہ کہ ایسا کچھ نہ ہوا اور میں یہ بھی سمجھ پایا کہ پائیدار کامیابی کی کلید عارضی ناکامی کے بعد بھی مسلسل کوشش ہے. 
.
====عظیم نامہ=====

Monday, 20 June 2016

عظیم بھائی آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟


عظیم بھائی آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟



.
کوئی آٹھ دس برس قبل میں فیشن ریٹیلرز کے ایک معروف نام سے بطور سپروائزر منسلک تھا. بہت سے ملازمین سے کام لینا ہی میرا کام تھا. ان ہی دنوں ایک ہنستے مسکراتے خوش اخلاق انسان نے کمپنی کو بحیثیت سیکورٹی گارڈ جوائن کرلیا. ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا اور نہایت سادہ فطرت کے مالک انسان تھے. جلد ہی میری ان سے گہری دوستی ہوگئی جو آج تک الحمدللہ قائم و دائم ہے. ایسے سجن فطرت انسان کہ نہ صرف ہمہ وقت لوگوں کی مدد کو دل و جان سے تیار رہتے بلکہ ایسے پیار سے مدد کرتے کہ مدد لینے والے کو یہ محسوس ہونے لگتا کہ شاید ان سے مدد لے کر ہم نے ان ہی پر کوئی احسان کیا ہے. اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک بار جب انہیں یہ خبر ملی کہ میرا گھر میں رنگ و روغن کرنے کا ارادہ ہے تو مصر ہوگئے کہ میں آرہا ہوں رنگ کرنے، بڑی مشکل سے انہیں روک پایا یا جب ایک بار میری باس سے کچھ ان بن ہوئی تو مجھے بچانے کیلئے بناء تامل اپنی نوکری درپے لگادی. میری ان سے گھنٹوں سیاست سے لے کر کھیلوں تک کے موضوعات پر گفتگو ہوتی. اس گفتگو میں کبھی میرا کلین شیو چہرہ اور ان کی لمبی داڑھی رکاوٹ نہ بنی. جب وقت نماز آتا تو وہ مجھے ڈھونڈھ کر مجھ سے ضرور نماز کا پوچھتے اور ہلکی سی تلقین کرتے. میں بہانہ بنا کر یہاں سے وہاں ہوجایا کرتا. اسی طرح مہینے گزر گئے. نہ انہوں نے پوچھنا چھوڑا اور نہ ہم نے انہیں گولی دینا ترک کیا. 
.
ایک روز باتوں ہی باتوں میں پوچھا، عظیم بھائی آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ میں نے جھینپ کر کہا کہ پڑھتا ہوں مگر گھر جاکر پڑھتا ہوں. کہنے لگے کہ پھر کام کے دوران آنے والی ظہر کی نماز کا کیا کرتے ہیں؟ میں نے آنکھیں چراتے ہوئے جواب دیا کہ اسے گھر جاکر قضاء کرلیتا ہوں. انہوں نے حیرت اور محبت دونوں سے لبریز لہجے میں استفسار کیا کہ ایسا کیوں کرتے ہیں اور وقت پر کیوں نہیں پڑھتے؟ اب میں نے ہمت مجتمع کرکے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ آفس میں کوئی جگہ ایسی نہیں جو خفیہ ہو. مجھے شرم آتی ہے کہ سب غیرمسلوموں کو کیسا عجیب مضحکہ خیز لگے گا کہ جب میں ان سب کی آنکھوں کے سامنے رکوع میں جھکوں گا یا سجدے میں پڑا ہوں گا. ضرور وہ میری ہنسی اڑائیں گے اور میری عزت کم کرنے لگیں گے. آپ ہی بتائیں کہ انہیں میرا رکوع اور سجدہ عجیب نہیں لگے گا؟ یہ سن کر ان کے چہرے پر ان کی وہی مخصوص مسکراہٹ لوٹ آئی اور انہوں نے نرمی سے میرے قریب آکر کہا کہ 
.
"یہ تو اس پر منحصر ہے عظیم بھائی کہ آپ نماز، رکوع یا سجدہ کس کیلئے کرتے ہیں؟ اگر آپ کی یہ عبادت ان لوگوں کی رضا کیلئے ہے تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ واقعی عجیب لگے گا مگر اگر آپ کی یہ عبادت اللہ پاک کی رضا کیلئے ہے تو آپ کو ان باتوں کی پرواہ نہ ہوگی"
.
یہ جملہ میری سماعتوں پر بجلی کی مانند گرا اور سیدھا قلب میں پیوست ہوگیا. وہ دن ہے اور آج کا دن ہے. دفتر ہو یا کھیل کا میدان. سفر ہو یا سڑک. میں پورے شرح صدر سے بناء گھبرائے وقت پر نماز کا اہتمام کر پاتا ہوں الحمدللہ. بعض اوقات وہی جملے جو آپ سینکڑوں بار سن چکے ہوتے ہیں، اسی لہجے اور اسی الفاظ کے انتخاب کے ساتھ جب کسی باعمل مخلص انسان کی زبان سے ادا ہوتے ہیں تو سیدھا مخاطب کے دل میں گھر بنالیتے ہیں. میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا. پھر میں نے دیکھا کہ میری اسی نماز اور اسی رکوع و سجدے نے مجھے اپنے آفس میں وہ عزت دی جو اس سے پہلے مجھے حاصل نہ تھی. مسلم و غیر مسلم دونوں مجھ سے خود آکر اسلام سمجھتے اور میرے پیٹھ پیچھے میری تعریف کرتے. صرف ایک نماز کا فرض ادا کرنے نے مجھے ان سب کے لئے دین اسلام کا نمائندہ بنادیا تھا. ایک بار تو یہاں تک ہوا کہ جب نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو ایک نوجوان کو پیچھے بیٹھا پایا. اس نے مجھ سے پوچھا کہ عظیم کیا تم مجھے نماز سیکھا سکتے ہو؟ میں نے حامی بھری تو معلوم ہوا کہ وہ ایک سکھ ہے اور اب اسلام قبول کرنا چاہتا ہے. اسی لئے اسے نماز سیکھنی ہے. یہ سب سنانے کا واحد مقصد یہی ہے کہ قارئین بھی راقم کی طرح اس سچ کو سمجھ سکیں کہ اگر فی الواقع ہماری نماز اللہ ہی کیلئے ہے تو لازم ہے کہ ہم اسے اس کے وقت پر جہاں بھی موجود ہوں ادا کریں اور لوگوں کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کو نماز نہ ادا کرنے کا میعار ہرگز نہ بننے دیں. 
.
===عظیم نامہ====

Friday, 17 June 2016

دعوت دین کا ایک سبق آموز واقعہ

 

 

دعوت دین کا ایک سبق آموز واقعہ

 
جیسا کے احباب واقف ہیں کہ میں عرصہ دراز سے انگلینڈ میں مقیم ہوں.کچھ برس قبل میں اپنے شہر میں غیر مسلموں کو دعوت دین دینے کا امیر مقرر کیا گیا تھا. میں نے یہ ذمہ داری چند برس نبھائی اور اس دوران لاتعداد ایسے واقعات کا سامنا کیا جو میری یادداشت کا مستقل حصہ بن گئے. ایسے واقعات جن میں بظاہر کوئی خاص بات نظر نہ بھی آئے تب بھی وہ آپ کو اہم سیکھ دے جاتے ہیں. دعوت دین دینا نبیوں کی سنت ہے اور اسکی بجاآوری کیلئے بے تحاشہ برداشت کا حامل ہونا ضروری ہے. جب آپ دعوت دیتے ہیں تو کبھی تو کوئی آپ کو جھڑک دیتا ہے، کبھی کوئی غیر مسلم آپ پر الزام لگاتا ہے، کبھی کوئی ملحد آپ کا مذاق اڑتا ہے، کبھی کوئی مسلمان گروہ آپ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور کبھی تو ایسا بھی ہوا ہے کہ داعی کے منہ پر تھوک دیتا ہے. ایسے میں داعی کیلئے لازم ہے کہ وہ برداشت، حکمت اور شائستگی کا دامن نہ چھوڑے.
.
ایسے ہی ایک روز میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ایک مصروف مقام پر دعوت دین میں مشغول تھا ، جب ایک ایرانی شخص جو اہل تشیعہ سے تعلق رکھتا تھا، ہمارے پاس آیا اور نہایت اشتعال دلانے والے جملے ادا کرنے لگا. وہ کبھی عمر رض کا نام لے کر کوئی فقرہ کستا تو کبھی حضرت عائشہ رض کے متعلق کسی واقعہ پر ٹھٹھا لگاتا. ظاہر ہے کہ ایسے میں غیرت ایمانی کا جوش میں آنا لازم ہے لہٰذا مجھ سمیت تمام ساتھیوں میں شدید غصہ ابھرا. ہم میں سے جو نوجوان تھے وہ اس شخص کو مارنے کیلئے آگے بڑھے. میں جانتا تھا کہ یہ شخص آیا ہی اس مقصد سے ہے کہ اشتعال پھیلا سکے اور اس کے نتیجے میں کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ ہو جو ہماری دعوت کے اس سلسلے کو ہمیشہ کیلئے روک لگا دے. میں نے آگے بڑھ کر اپنے ساتھیوں کو سختی سے روکا اور خود اس کے قریب آگیا. اس شخص کی آنکھوں میں اب ایک خوف کا سایہ تھا اور اسے قوی امید تھی کہ اب میں اس پر ہاتھ اٹھانے والا ہوں. لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اچانک آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا. وہ گھبراہٹ میں ادھر سے ادھر نظر چرا رہا تھا. اب میں نے اس سے نرمی سے پوچھا کہ مجھے بتاؤ اگر کوئی شخص تمھاری والدہ کو گالی دے یا ان کے لئے کوئی نازیبا بات کہے تو تم کیا کرو گے؟ جواب میں اس نے پوری شدت سے کہا کہ میں اس کا منہ توڑدوں گا. میں نے سمجھایا کہ پھر تم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہمارے لئے حضرت عائشہ رض ماں کا درجہ رکھتی ہیں؟ اور ہمارا ردعمل بھی تمہاری کسی ایسی بات کے نتیجے میں یہی ہوگا. اس نے نظر جھکالی اور معزرت کی. میں نے اسے مزید سمجھایا کہ اس کے الزام درست نہیں ہیں ، وہ سنتا رہا اور ارادہ کیا کہ اب ایسے سخت جملے کسی سے نہ کہے گا.
.
میں نے اس سے مزید پوچھا کہ کیا وجہ تھی جو تم اپنے بھائیوں سے اتنے خفا ہو؟ تو اس نے بتایا کہ کس طرح علاقے کی ایک سنی مسجد نے اسے اپنی مسجد سے ذلیل کرکے نکال دیا. جب کے وہ صرف نماز ادا کررہا تھا اور کوئی قابل اعتراض بات نہ کی تھی. میں نے کہا کہ اگر واقعی انہوں نے ایسا کیا تو بہت غلط کیا اور ان کی طرف سے میں تم سے معافی مانگتا ہوں مگر کیا تم چاہو گے کہ کسی نے تم سے زیادتی کی تو تم اب ہر کسی سے جوابی زیادتی کرکے بدلہ لو؟ اس نے نفی میں سر ہلادیا. اس دن کے بعد جب بھی ہم دعوت دین دے رہے ہوتے اور اس کا گزر وہاں سے ہوتا تو سلام کرنے چلا آتا اور محبت سے ملتا. اس تفرقہ نے جو فرقوں اور مسالک کے مابین شدید نفرت پیدا کردی ہے، کاش کے اس کا خاتمہ ہو.
.
===عظیم نامہ====
.
(گزارش ہے کہ اس پوسٹ کو مسلکی منافرت کیلئے استمال نہ کیا جائے بلکہ سمجھا جائے کہ یہ انتہائی رویئے ہر فرقہ و مسلک میں موجود ہیں اور ان کا علاج نفرت نہیں مکالمہ ہے)

Monday, 6 June 2016

عظیم نامہ


====عظیم نامہ====



سوال:

السلام علیکم! عظیم صاحب ایک ذاتی احساس شئیر کرنے لگا ہوں امید ہے آپ ناراض نہیں ہونگے۔ آپ کی پوسٹ بہت عمدہ ، تعمیری اور اصلاح وتذکیر سے بھری ہوتی ہیں۔ لیکن آپ نے اپنی پوسٹ کے لیے جو عنوان "عظیم نامہ" رکھا ہوا ہے اس میں ذاتیات کا اظہار ہوتا ہے حالانکہ آپ کی پوسٹ میں ذاتی تعلی اور بڑائی کا کوئی ذکر تک نہیں ہوتا۔ مجھے بڑا دکھ ہے کہ شروع میں میں صرف آپ کی پوسٹ کے عنوان ہی کی وجہ سے سمجھ بیٹھا کہ کوئی بیچارہ احساس کمتری کا مارا ہوا ہے جو اپنی اہمیت جتوانے کے لیے یوں اپنی پوسٹ کا اپنے نام کے ذریعے مشہوری چاہتا ہے۔ لیکن معلوم نہیں کیا واقعہ ہوا کہ مجھے پتہ چلا کہ میری فیس بک فرینڈ لسٹ میں ایک بہت عمدہ لکھنے والا نام بھی موجود ہے اس وقت سے لے کر آج تک آپ کی پوسٹ باقاعدگی سے پڑھ رہا ہوں۔ میں اصرار نہیں کررہا کہ آپ اپنی پوسٹ کا عنوان "عظیم نامہ" تبدیل کردیں۔ لیکن میری طرح کے نووارد لیکن سخت سادگی پسند اور اصلیت پسند لوگوں کے لیے بعض واوقات ایسے عنوانات ایک قسم کا حجاب بن جاتے ہیں اور ایک معمولی وجہ سے استفادہ سے محروم رہتے ہیں۔مجھ پر تو یہ حجاب اس وقت ٹوٹا جب میں نے غامدی صاحب کے ساتھ آپ کی تصویر اور پھر آپ کے محبت بھرے نقد پر مبنی پوسٹیں پڑھیں۔ اس کے بعد میں آپ کا باقاعدہ قاری بنا ہوں۔ اللہ خوش رکھے۔
.
جواب:
وعلیکم السلام بھائی،
.
گو انسان کو ہمیشہ خوش گمانی رکھنی چاہیئے مگر آپ کا سوچنا کچھ ایسا غلط بھی نہیں. "عظیم نامہ" جیسا عنوان فی الواقع کسی خود پسند شخص کا اظہار معلوم ہوتا ہے. سچ پوچھیئے تو میں خود نہیں جانتا کہ کس حد تک مجھ میں خود پسندی یا خود نمائی موجود ہے؟ البتہ میں اپنے رب سے اکثر دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس مہلک بیماری سے محفوظ رکھیں اور اگر مجھ میں یہ بیماری موجود ہے تو مجھے شفا دے دیں. آپ سے بھی اسی دعا کی استدعا ہے. 
.
فیس بک سے بہت پہلے ایک سوشل میڈیا کی سائٹ ہوا کرتی تھی 'اور کٹ' کے نام سے. اس سائٹ پر میں نے یہ چاہا کہ اپنے خیالات ڈائری کی طرح ایک جگہ لکھ لوں جو خالص میرے اپنے لئے ہوں. لہٰذا میں نے ایک خفیہ پیج بنایا جسے 'اور کٹ' کی اصطلاح میں کمیونٹی کہا جاتا تھا. اس میں صرف اور صرف میں موجود تھا اور کسی دوسرے کے پاس یہ اختیار نہ تھا کہ وہ اسے دیکھ سکے. کیونکہ یہ پیج میرے خیالات کو خالص میرے پڑھنے کیلئے کسی ذاتی ڈائری کے مقصد سے بنایا گیا تھا لہٰذا اس پیج کا نام میں نے 'عظیم نامہ' رکھ دیا. اس وقت مجھے خبر نہ تھی کہ کل یہی نام میں اپنی ان عوامی اصلاحی تحریروں کیلئے بھی استعمال کروں گا. جب فیس بک آئی تو دیگر احباب کی طرح ایک روز میں بھی اس سے جڑ گیا، میرے پاس گنتی کے چند خاندان والے یا پرانے دوست ہوا کرتے تھے جو شاذ ہی میری وال پڑھنا گوارا کرتے. چنانچہ میں نے وہی کام فیس بک وال پر کرنا شروع کردیا جو کبھی 'اور کٹ' کی پرائیویٹ کمیونٹی میں کیا کرتا تھا اور آج جو نوبت ہے وہ آپ کے سامنے ہے. اب اس نہج پر میں اس نام کو بدلنا درست نہیں سمجھتا کہ ایک محدود حلقہ اسی تعارف سے جڑ چکا ہے. اللہ رب العزت مجھے معاف کریں اور مجھے تطہیر فکر عطا کریں آمین. 
.
====عظیم نامہ====