Wednesday, 27 January 2016

غار حرا میں مراقبہ


غار حرا میں مراقبہ





سوال: 

آپ کی مراقبہ والی پوسٹ کے حوالے سے میرا سوال ہے کہ جب رسالت نہیں ملی تھی تو رسول صلی الله علیہ وسلم کیا غار حرا میں مراقبہ نہیں کیا کرتے تھے ؟ اگر نہیں تو پھر کیا کرتے تھے؟
.
جواب:
اس کی تفصیل قران و حدیث میں موجود نہیں. جس بات کا غالب امکان ہے وہ یہ ہے کہ وہ خالق اور اس کی تخلیقات پرتفکر و تدبر کرتے تھے. قران حکیم میں حضرت ابراہیم علیہ سلام کے اسی غور و فکر کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے. رسول پاک صلی الله علیہ وسلم بھی دین ابراہیمی لے کر آئے اور اسی کی تجدید کر کے جاریکیا. اسکے علاوہ ہر قران کا طالبعلم یہ بات جانتا ہے کہ الله عزوجل نے جگہ جگہ مظاہر کائنات جیسے سورج ، چاند ، ستاروں ، سمندر کو اپنی آیات کہا اور ان پر غور و فکر کی تلقین کی. کسی بھی مقام پر تفکر سے خالی کسی مراقبہ کا ذکر موجود نہیں. لہٰذا اگر کوئی امکان بیان ہوسکتا ہے تو وہ غور و تدبر ہی کا ہے، تفکر سے عاری مراقبہ کا نہیں. اسی طرح اس زمانے میں بھی سنت ابراہیمی کے پیرو موجود تھے جو 'حنیف' کہلاتے تھے اور ایک الله کی عبادت کرتے تھے. چنانچہ یہ کہنا بھی قرین قیاس ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ذکر و عبادات بھی کیا کرتے ہونگے. ہمارے پاس اس بات کے بہرحال کوئی قرائن موجود نہیں کہ رسول عربی صلی الله علیہ وسلم آنکھیں بند کرکے ذہن کو خیالات سے خالی کرنے کی مشق کا اہتمام کرتے تھے. ایسی کسی بات کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارک سے امکان کے درجہ میں بھی منسوب کرنا میری نظر میں جسارت ہے 
.
====عظیم نامہ=====

مراقبہ یا تفکر؟



مراقبہ یا تفکر؟


.
خالی الذہن ہو کر کسی مخصوص موضوع پر توجہ کا ارتکاز کرنا اور پھر یکسوئی سے اس کا ہر ممکنہ پہلو سے جائزہ لینا 'تفکر و تدبر' کہلاتا ہے. قران حکیم  ہمیں اسی تفکر کی جانب آنے کی رغبت دلاتا ہے. اگر کوئی مراقبہ، ذکر، تسبیح یا وظیفہ اس تفکر سے خالی ہے تو وہ دین کا مطلوب و مقصود ہرگز نہیں اور نہ ہی اس سے حاصل شدہ ثمرات دیرپا ثابت ہوسکتے ہیں. میں بارہا مختلف عقائد کے ایسے اشخاص سے مل چکا ہوں جو مراقبہ کے ذریعے سکون حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں یا اس مراقبہ سے سکون کے حصول کے متمنی ہوتے ہیں. مگر جب ان کا قریب سے جائزہ لیا تو انہیں خود فریبی میں مبتلا پایا. اکثر ان کے قریبی احباب ان کے خراب مزاج کی شکایت یا ان کی حرکات سے نالاں نظر آئے. دوسرے الفاظ میں وہ ایسے بے سکون لوگ ہیں جو سکون کی صرف نقاب اوڑھے ہوئے ہیں.
.
مراقبہ کے ذریعے ذہن کو خیالات سے خالی کرنے کی مشق انسان کو عارضی ذہنی سکون تو ضرور دے سکتی ہے مگر زندگی میں حقیقی سکون پیدا نہیں کرسکتی. اس کیلئے لازم ہے کہ انسان تفکر و تدبر کے مدارج طے کرکے بیک وقت قلبی و فکری اطمینان حاصل کرے. یہی وہ کیفیت ہے جو نفس انسانی کو قرانی اصطلاح میں نفس المطمئنہ بنا دیتی ہے. یہ بات بھی ملحوظ رکھیئے کہ وہ مراقبہ جس میں تفکر اہم جزو کی صورت موجود ہو ، ایک احسن فعل ہے اور یہاں اس کی مذمت ہرگز مراد نہیں ہے. درجہ احسان کی تعریف میں جو حدیث جبرئیل موجود ہے، اسمیں ترغیب دی گئی ہے کہ نماز ایسے قائم کرو جیسے الله کو دیکھ رہے ہو یا ایسے کہ الله تمھیں دیکھ رہا ہے. نماز میں الہامی کلمات ادا کرتے ہوئے یہ حضوری کا تصور اپنی حقیقت میں مراقبہ ہی تو ہے، مگر ایسا مراقبہ جو آیات و اذکار پر مستقل تفکر سے بھی مزین ہے. انگریزی زبان میں وہ مراقبہ جو تفکر سے خالی ہو اکثر میڈیٹیشن کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. جب کہ وہ مراقبہ جس کی بنیاد تفکر پر ہو کنٹمپلشن کہلاتا ہے.
.
====عظیم نامہ====



Thursday, 21 January 2016

انسان کی حقیقت اور اس کا مقصد



انسان کی حقیقت اور اس کا مقصد



.اگر کوئی بکری یہ کہے کہ میں بکری نہیں گھوڑا ہوں یا کوئی پلیٹ یہ سمجھے کہ میں پلیٹ نہیں چمچہ ہوں تو صرف ان کے کہنے یا سمجھنے سے ان کی حقیقت نہیں بدلے گی. بکری پھر بھی بکری ہی رہے گی اور پلیٹ بہرحال پلیٹ ہی رہے گی. عقلمندی سراب یا دھوکے میں جینا نہیں بلکہ اپنی حقیقت کو تسلیم کرلینے کا نام ہے. کسی بھی تخلیق کی حقیقت و مقصد اس کا بنانے والا ہی سب سے بہتر بتاسکتا ہے. اسی لئے مختلف تخلیق کار مینوفیکچرنگ کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کا مقصد، حقیقت اور استمعال کو تفصیل سے بیان کرتی ہیں. الله رب العزت نے انسان کو تخلیق کیا ہے اور انہوں نے صاف الفاظ میں یہ بتادیا ہے کہ انسان کی حقیقت عبدیت ہے. اسے الله کا عبد بنایا گیا ہے اور اسی رعایت سے اس کا مقصد عبادت یعنی رب کی پرستش و اطاعت کرنا ہے. یہی وہ حقیقت ہے جسے کلام پاک میں ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے ”اور ہم نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔“ سورہ الذاریات ٥١:٥٦۹.خالق نے انسان کی حقیقت بتا دی. اب عقلمندی اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہے. اگر آج کوئی احمق اپنے عبدالله ہونے کا منکر ہوتا ہے تو اس سراب سے اسکی اپنی ذات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا مگر یہ حقیقت تبدیل نہ ہوگی کہ وہ عبد بنا کر بھیجا گیا ہے. 

ہمارے خوش یا غمگین ہونے سے یہ حق نہیں بدلتا کہ زمین گول ہے. کسی پر ظلم ہو یا کسی کو اعزاز ملے ، اس سے یہ حق نہیں بدلتا کہ پانی حیات کے لیے ضروری ہے. ہمارے جذبات، احساسات یا حالات سے دنیا کا کوئی بھی حق تبدیل نہیں ہوتا. پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ کسی بشر کے چاہنے نہ چاہنے سے اس کی حقیقت بطورعبد تبدیل ہو جائے؟ یہ ممکن ہی نہیں ہے. عبد اگر معبود کو تسلیم نہ کرے گا تو اپنی حقیقت ذات سے ہی اندھا ہو جائے گا. دیکھیئے قران حکیم اس بات کو کیسے بلیغ انداز میں بیان کرتا ہے : "اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کر دیا، اور ایسے ہی لوگ نافرمان ہوتے ہیں" .. غور کیجیئے ، یہ نہیں کہا گیا کہ انہوں نے الله کو بھلا دیا تو الله نے بھی انہیں بھلا دیا بلکہ یہ سمجھایا گیا کہ انہوں نے الله کو بھلا دیا تو الله نے انہیں ان کا اپنا آپ بھلا دیا ! یعنی معبود کو فراموش کرنے کا لازمی نتیجہ عبد کا خود اپنی حقیقت سے غافل ہوجانا ہے. .اس کا بڑا عملی مظاہرہ الحاد سے متاثر ان معاشروں میں واضح نظر آتا ہے جو انسان کیلئے 'شتر بے مہار' جیسی آزادی کے طالب ہیں. ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اگر خالق کی غلامی پر راضی نہ ہو تب بھی آزاد نہیں رہ پاتا بلکہ عبدیت کے اس باطنی احساس کی تسکین کیلئے طرح طرح کی غلامیاں اختیار کرلیتا ہے. وہ کبھی کسی سیاستدان کو ، کبھی کسی گلوکار یا فنکار کو ، کبھی کسی کھیل یا کاروبار کو اور کبھی اپنی خواہشات نفس کو معبود بنا کر اس کی عبدیت اختیار کرلیتا ہے. ظاہر ہے کہ جب مخلوق اپنی جیسی مخلوق کی عبادت کرتی ہے تو اس کا نتیجہ پستی، ذہنی انتشار اور روحانی فساد کی صورت میں برآمد ہوتا ہے. اس کی امیدوں کا محل دیر یا سویر مسمار ہوجاتا ہے. اسی لئے علامہ نے کہا تھا
.
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات


ایسے ہی دھوکے زدہ انسان کو کلام پاک میں کچھ یوں بیان کیا ہے


اَفَرَایْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہ ھَوَاہ"کیا تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟" .


====عظیم نامہ====

Wednesday, 20 January 2016

نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ؟



نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ؟


.


گناہوں کی کثرت کی وجہ سے کبھی اپنے نیک اعمال ترک نہ کریں ... یہ شیطان کا دھوکہ ہے کہ وہ کبھی تو آپ کو اللہ کی رحمت سے مایوس کرتا ہے تو کبھی منافقت کا طعنہ مار کر نیک عمل سے روکتا ہے ... وہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ تمھاری اس لنگڑی لولی عبادت کا کیا فائدہ ؟ ... تمھاری کھوکھلی نماز کس کام کی؟ .. تمھاری بار بار کی جھوٹی توبہ کی کیا اہمیت؟ ... یا تمھارے ان تھوڑے سے صدقات کا کیا مصرف ؟ ... اگر آپ کسی نیکی کا ارادہ کریں تو وہ جلدی سے آپ کو آپ کے بیشمار گناہ یاد دلا کر اس ایک نیکی سے باز رکھتا ہے .. اسکی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اگر آپ نے اب تک ننانوے گناہ کئے ہیں تو اس کے اپر آپ ایک اور گناہ ہی کریں ، اگر کہیں آپ ان ننانوے گناہوں کے بعد ایک نیکی کا ارادہ کرلیں تو وہ آپ کا تمسخر اڑا کر سرگوشی کرتا ہے کہ 'اچھا نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ؟' .. ہرگز اس مکار کے دھوکے میں نہ آئیں .. وہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ آپ اپنے اس رب سے مایوس ہوجائیں جس کی نمائندہ ترین صفات رحمٰن و رحیم کی ہیں .. وہ جانتا ہے کہ مایوسی کفر ہے اور رب تعالیٰ کی رحمت سے مایوس شخص کو کہیں پناہ نہیں ملتی .. 
.
جان لیجیئے کہ آپ کے گناہ اگر زمین و آسمان کی وسعت اور سمندر پر پھیلے جھاگ سے بھی زیادہ ہیں تو وہ ہرگز ہرگز الله کی رحمت سے زیادہ نہیں ہو سکتے ... ہمارا رب ایسا رحمٰن ہے جو گنہگار ترین بندے کی توبہ کا انتظار کرتا ہے کہ کب وہ توبہ کرے اور کب میں اپنے بندے کو معاف کردوں ؟ ... لہٰذا یہ نہ سوچو کہ ادھر توبہ کرتا ہوں اور ادھر ٹوٹ جاتی ہے .. بلکہ یہ سوچو کہ ادھر سچی توبہ کی اور ادھر سارے سابقہ گناہ معاف ! .. ہمارا رب ایسا ہی غفار ہے جو ایک نیکی کا شمار کم از کم دس سے سات سو نیکیوں کے برابر کرتا ہے. جب کے گناہ کو ایک ہی شمار کرتا ہے. اگر نیکی کی صرف نیت کرلو تو نیکی لکھ دیتا ہے لیکن بدی کی محض نیت پر گناہ نہیں لکھتا .. کہیں وہ کہتا ہے کہ بڑے گناہوں سے بچ جاؤ تو چھوٹے گناہ میں ایسے ہی معاف کردوں گا .. اور کہیں وہ دعوت دیتا ہے کہ بس ایک ندامت کا آنسو گرا کر ، توبہ کیساتھ میری جانب پلٹنے کا ارادہ کر لو تو میں سب صغیرہ کبیرہ گناہ تمہارے حساب سے مٹا دوں گا .. اگر توبہ پر قائم رہے تو گناہ کو نیکی سے بدل دوں گا اور اگر اگر توبہ ٹوٹ گئی تو مایوس نہ ہونا .. لاکھ بار واپس آؤ گے لاکھ بار تمھیں معاف کردوں گا ... میرا اور آپ کا رب ایسا ہی رحیم ہے .. بس سرکشی نہ کرنا ، کھلا شرک نہ کرنا ، زمین پر فساد نہ کرنا ، جانتے بوجھتے حق کو نہ چھپانا اور دیگر انسانوں کے حقوق نہ مارنا .. یاد رکھو کہ اگر گناہ کوشش کے باوجود نہیں چھوٹ پارہے تو اسکی وجہ سے نیکی کرنا نہ چھوڑ دینا ! .. کلام پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ (بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں) .. لہٰذا اگر گناہ زیادہ ہے تو نیکیاں اس سے بھی زیادہ کردو !! .. معروف عالم دین حکیم محمد اختر صاحب اپنے مریدوں سے فرمایا کرتے تھے کہ ' بری شراب کب چھوٹتی ہے ؟ .. جب اچھی والی ملنے لگے .. اگر برائی چھوڑنا چاہتے ہو تو اچھائی کا ان ٹیک بڑھا دو' 
.
====عظیم نامہ====

Monday, 18 January 2016

انسان کا چہرہ اس کی شخصیت کا عکاس


انسان کا چہرہ اس کی شخصیت کا عکاس



یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات معصوم چہرے بھی نہایت کریہہ کردار کے حامل ہوتے ہیں مگر میری ناقص رائے میں یہ کلیہ عام نہیں ہے. اگر ہمیشہ نہیں تو اکثر انسان کا چہرہ اس کی شخصیت کا عکاس بن جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ایک صاف دل انسان کے چہرے پر نرمی اور ایک غصیلے چڑچڑے انسان کے چہرے پر کرختگی نمایاں نظر آتی ہے. ایک فراڈیئے شخص کے چہرے پر مکاری اور ایک ذہین انسان کی آنکھوں میں ذہانت عیاں ہوتی ہے. ایک مذہب فروش کا چہرہ بناوٹ اور ایک دین کے سچے عامل کا چہرہ عجز و سکون سے مزین ہوتا ہے. 

.
میں نے اپنے ذاتی مشاہدے میں ایک ہی شخص کے چہرے کو اس کے کردار کے ساتھ بدلتے دیکھا ہے. کئی ایسے نومسلم میرے سامنے موجود ہیں جو قبول اسلام سے قبل ایک مکروہ کردار اور چہرے کے حامل تھے. لوگوں کے پیسے لوٹنا اور عورتوں کی آبروریزی کرنا ان کا مشغلہ تھا. مگر جب اسلام نے ان کے قلب کو روشن کیا تو وہ چہرہ جس سے وحشت ٹپکتی تھی ، آج معصومیت کی تصویر بن گیا. وہ آنکھیں جن سے حیوانیت جھانکا کرتی تھی ، آج ان سے محبت آنسو بن کر بہتی ہے. وہ چال جس سے فرعون کی سی رعونیت ظاہر تھی ، آج انکسار کی پوشاک میں سج گئی. میری اس تحریر کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم لوگوں کے چہرے کو دیکھ کر ان کے کردار پر فتوے دینے لگیں. نہیں ہرگز نہیں. اس طرح کے منفی ظن و گمان صریح گناہ بن سکتے ہیں. یہاں بس اتنی توجہ دلانا مقصود ہے کہ باطن کی پاکیزگی یا خباثت آپ کے ظاہری وجود پر بھی اپنے اثرات مرتب کرتی ہے. یہاں دوسروں کے سراپے پر فیصلہ سنانا مقصود نہیں بلکہ اپنی ذات و کردار کا احتساب مطلوب ہے.
.
====عظیم نامہ====

Sunday, 17 January 2016

تقدیر کا مسئلہ

تقدیر کا مسئلہ
========
.
مسئلہ جبر و قدر یا تقدیر کا مسئلہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے. یہ کہنا شائد غلط نہ ہوگا کہ انسان کے شعوری ارتقاء کی تاریخ کا یہ پیچیدہ ترین مسئلہ رہا ہے. بیشمار فلسفی، ان گنت محقیقین، تمام تر مذہبی رہنما، بہت سے لکھاری، سائنسدان اور شاعر روز اول سے اس موضوع کو تختہ مشق بناتے رہے ہیں. تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ اس طویل مکالمہ اور غور و فکر کے بعد بھی انسان جبر و قدر کی گتھیاں سلجھا کر کسی ایک نتیجہ پر متفق ہونے سے قاصر رہا ہے. مسئلہ جبر و قدر کی ڈور کو جتنا سلجھانے کی کوشش کی گئی ، یہ اتنا ہی الجھتی چلی گئی. جتنے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ، اتنے ہی نئے سوال جنم لیتے چلے گئے. بحیثیت مسلم ہمارے لئے اس عنوان کو سمجھنا اور بھی زیادہ ضروری ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تقدیر پر ایمان رکھنا مومن بننے کیلئے ایک لازمی تقاضہ ہے.
.
کچھ سال قبل جب میرے ذہن و قلب میں تقدیر سے متعلق سوالات پیدا ہوئے جیسا کے اکثر سوچنے والے اذہان کے ہاں اس موضوع کے حوالے سے پیدا ہوا کرتے ہیں. میں نے چاہا کہ ان سوالات کی جواب دہی کیلئے مختلف لکھاری اور علماء سے استفادہ حاصل کروں. دور جدید کے اہل علم میں سے ڈاکٹر اسرار احمد ، پروفیسر احمد رفیق، جاوید احمد غامدی ، غلام احمد پرویز ، مغربی تحقیقی ادارے کیون ڈش کی تحقیقات اور بھی بہت سے مختلف نکتہ نظر کو اس ضمن میں پڑھا مگر سچ یہ ہے کہ اسکے باوجود تشنگی مکمل طور پر دور نہ ہوئی. یہاں انگلینڈ میں استاد ابو اسمعیل سے بھی تقدیر کے جزیات پر کئی نشستوں میں گفتگو ہوتی رہی. آج میں اپنی اس تحقیق کا حاصل یہاں ثبت کر رہا ہوں ، یہ سوچ کر کہ اگر اس تحریر سے تمام سوالات کے جواب حاصل نہ بھی ہوں تب بھی میری سمجھ آگے منتقل ہوسکے.
.
تقدیر کے حوالے سےتاریخی طور پر آپ کو علماء دو گروہوں میں بٹے نظر آتے ہیں ، پہلے وہ ہے جو کہتے ہیں کہ تقدیر پر گفتگو کرنے سے دور رہا جائے کیونکہ یہ متشابہات میں سے ہے اور اس کی حقیقت کو جاننے کی کوشش سالک کو مزید شکوک میں مبتلا کرسکتی ہے. اپنے اس موقف کے حق میں وہ یہ ایسی احادیث کو پیش کرتے ہیں جن میں قدر پر سوالات یا مکالمہ کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے. نمونہ کے طور پر ترمزی شریف کی اس حدیث کو یاد کریں جس کے مطابق جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرام کی ایک جماعت کو قدر کے موضوع پر مکالمہ اور اختلاف کرتے دیکھا تو غصہ سے آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور آپ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی امتیں اسی موضوع پر بحث و مباحثہ کی وجہ سے برباد ہوگئیں.

Friday, 15 January 2016

سچا محقق

سچا محقق


کیا آپ ایک عرصہ سے دینی کتب کا مطالعہ کرتے رہے ہیں ؟ ... اگر ہاں تو ایک بار اپنے ذاتی کتب کے اس ذخیرہ کو سامنے رکھیئے جو آپ پڑھ چکے ہیں اور دیانتداری سے جائزہ لیجیئے کہ کہیں ان کتب کی غالب اکثریت کسی ایک مکتب فکر یا کسی خاص عالم سے متعلق تو نہیں ہیں ؟ ... اگر جواب ہاں میں ہے تو آپ کی تحقیق کا غیرجانبدار ہونا ناممکن ہے. 

.
ایک سچا محقق ہر مکتب فکر کا ایمانداری سے مطالعہ کرتا ہے. وہ جہاں کسی عالم یا مسلک کی کسی بات سے علمی اختلاف رکھتا ہے وہاں اس میں اتنی اخلاقی جرات بھی ہوتی ہے کہ وہ اسی عالم یا مسلک کی کسی دوسری بات کی تعریف کرسکے. ایک انسان چاہے وہ کسی روایتی مسلک سے وابستہ ہو یا کسی جدید مفکر کا معتقد، اگر اس کا عمل یہ ہے کہ وہ ایک ہی نکتہ نظر کی کتب کو پڑھنا پسند کرتا ہے اور دیگر آراء پر مرتب کتب اس کی طبعیت پر شدید گراں گزرتی ہیں تو یہ شخص یقینی طور پر اندھی تقلید کا حامل ہے. چاہے اسے اپنے غیرجانبدار ہونے کے بارے میں کتنا ہی اطمینان کیوں نہ حاصل ہو. اس شخصیت پرستی یا مسلک پرستی کا شکار صرف روایتی مسالک نہیں ہیں بلکہ اندھے مقلد آپ کو جدید اہل علم جیسے غامدی صاحب ، پروفیسر احمد رفیق اور مولانا وحید کے ہاں بھی بکثرت مل جاتے ہیں. گو کے اکثر جدید و قدیم اہل علم یا محققین اپنی اندھی تقلید سے روکتے رہے ہیں
.
====عظیم نامہ=====