Wednesday, 30 December 2015

قران حکیم اور عالمی سیاست


قران حکیم اور عالمی سیاست





سورہ الروم کی آیات کو دیکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ کیسے الله رب العزت کلام پاک میں اس وقت کی سیاسی صورتحال کا ذکر حال اور مستقبل کے تناظر میں کر رہے ہیں؟ ملاحظہ کیجیئے 
.
" المۤ۔ (اہل) روم مغلوب ہو گئے۔ نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے۔ " (سورہ الروم ١ - ٣)
. 
جو پیشین گوئی اس سورہ کی ان ابتدائی آیات میں کی گئی ہے، وہ قرآن مجید کے کلامِ الٰہی ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رسولِ برحق ہونے کی شہادتوں میں سے ایک ہے۔ اس سورہ میں کلام کا آغاز اس بات سے کیا گیا ہے کہ آج رومی مغلوب ہو گئے ہیں اور ساری دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ سلطنت کا خاتمہ قریب ہے، مگر چند سال نہ گذرنے پائیں گے کہ پانسہ پلٹ جائے گا اور جو مغلوب ہے وہ غالب ہو جائے گا۔ اس زمانے میں دو سب سے بڑی عالمی طاقتیں روم اور فارس (ایران) کی تھیں. اس سورہ کا نام اپنے وقت کی ایک عالمی غیر مسلم طاقت کے نام پر رکھا گیا ہے. یعنی سورہ الروم ! . یہ ایسا ہی ہے جیسے اگر مشیت الہی میں قران حکیم کا نزول آج کے دور میں ہوا ہوتا تو کسی سورہ کا نام سورہ امریکہ رکھا جاتا. ان آیات میں مسلمانوں کی جماعت اور حکومت کو بین الاقوامی معاملات پر نظر رکھنے کی ترغیب بھی دکھائی دیتی ہے. الله و اعلم بلصواب
.
====عظیم نامہ====

Tuesday, 29 December 2015

مکہ مکرمہ - ایک پرفیکٹ سیکولر سوسائٹی


مکہ مکرمہ - ایک پرفیکٹ سیکولر سوسائٹی



رسالت سے قبل مکہ مکرمہ کی سوسائٹی کا تصور کیجیئے. ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی موجودہ مغربی ملک کی طرح ایک پرفیکٹ سیکولر سوسائٹی کا نقشہ ہے. ایک ایسا سیاسی و سماجی ماحول جہاں ہر کسی کو مذہبی آزادی ہے. کوئی 'حبل' کو پوجتا ہے تو کوئی 'لات' کو مانتا ہے. کوئی 'منات' کو حاجت روا سمجھتا ہے تو کوئی خود کو 'عبدالعزی' کہتا ہے. کوئی 'یغوث' کا پیرو ہے تو کوئی 'اساف و نائلہ' کا طواف کر رہا ہے. کوئی تمام بتوں کو خدائی میں شریک کرتا ہے تو کوئی خود کو خالص حنیف کہنے پر اکتفاء کرتا ہے. غرض ہر گروہ اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرتا تھا اور دیگر عقائد کو بناء کسی تنقید کے روا رکھتا تھا. مگر دین اسلام کا مزاج یہ نہیں ہے. وہ جب رسول کی زبان سے کسی کفر زدہ سوسائٹی میں ادا ہوتا ہے تو پھر کسی 'جنٹلمین اگریمنٹ' کے پیچھے نہیں چھپتا بلکہ آگے بڑھ کر کلمہ حق کہتا ہے. حق اور باطل کی تفریق کرتا ہے. اس کا انداز محض مدافعانہ نہیں ہوتا بلکہ علمی انداز میں جارحانہ بھی ہوتا ہے. الله کا دین یہ جملے کہنے نہیں آتا کہ 'سب مذاہب ٹھیک ہیں' یا 'سب رستے جنت ہی کے ہیں'. وہ ان میٹھے میٹھے جملوں کی بجائے رائج شدہ راسخ عقائد کو للکارتا ہے. معاشرے کے ٹہرے پانی میں پہلا پتھر ہی 'لا' کہہ کر مارا جاتا ہے کہ اپنے تمام خداؤں کا انکار کر دو اور پھر دعوت دیتا ہے کہ بس الله کو اپنا معبود تسلیم کرو. قران حکیم جابجا مشرکین کے عقائد کو جو اسکے براہ راست مخاطبین بھی ہیں دعوتی اسلوب کے ساتھ تنقید کا بھی نشانہ بناتا ہے. کبھی وہ سورہ الحج میں کہتا ہے کہ اگر تمہارے یہ تمام بت مل کر بھی آجائیں تو ایک مکھی نہیں بنا سکتے اور اگر مکھی کوئی چیز ان سے چھین بھاگے تو اسے پکڑ نہیں سکتے. کبھی وہ ابراہیم علیہ سلام کی بت شکنی کا بیان کرتا ہے اور کبھی مشرکین کے دیگر عقائد جیسے ملائکہ کو بیٹیاں ماننے پر کڑی تنقید کرتا ہے. یہ بات ٹھیک سے سمجھ لینی چاہیئے کہ اسلام اپنے ماننے والو کو 'مائنڈ یور اون بزنس' کی اپروچ نہیں سکھاتا. نہ ہی وہ مغربی فکر کی طرح مذھب کو 'پرسنل میٹر' کہہ کر چھوڑ دیتا ہے. اسلام فرد اور معاشرے دونوں کی سطح پر تذکیر و تطہیر کا اہتمام کرتا ہے. وہ فرد سے معاشرے اور معاشرے سے فرد کا سفر کرتا ہے. وہ اپنا دائرہ فرد تک محدود نہیں رکھتا بلکہ سیاست، معیشت اور معاشرت سب کو الہامی اصولوں کا پابند کردیتا ہے. وہ جہاں فرد کا تزکیہ کر کے اسے اسلامی معاشرے کا ستون بناتا ہے ، وہاں معاشرے کے نظم کو قران کے اصولوں کا تابع کرکے تزکیہ کی اجتماعی فضا تشکیل دیتا ہے. وہ جہاں دیگر عقائد، مسالک یا مذاہب کو تحفظ فراہم کرتا ہے وہاں وہ ایسی مکالمہ کی فضا بھی پیدا کرتا ہے جہاں حق دلیل کی بنیاد پر واضح اور قائم ہوسکے. وہ معاشرے میں موجود فاسد عقائد یا نظریات کو زیر گفتگو لاتا ہے. اس کے حق میں دلائل کا تقاضا کرتا ہے اور اپنے مقدمہ کے ثبوت میں دلائل پیش کرتا ہے.
.
====عظیم نامہ====

Saturday, 5 December 2015

کراچی کی ایک دوپہر


کراچی کی ایک دوپہر




سڑک پر بے ہنگم ٹریفک کا اژدھام تھا اور میں اس جامد مگر چیختی تصویر کا ایک حصہ بنا ہوا تھا. چلچلاتی دھوپ میں حلق سوکھ رہا تھا۔ میری نظر گھومتی ہوئی ان پنجروں پر جاٹکی ، جن میں نہ جانے کتنی ہی ننھی چڑیائیں قید ، بھوک پیاس سے نڈھال پھڑپھڑا رہی تھیں۔ یہ پنجرے چڑی مار افراد کے تھے جن کا ذریعہ معاش ان ہی چڑیوں کو پکڑنا اور بیچنا تھا۔ ذہن و قلب میں عجب مخمصہ پیدا ہونے لگا۔ ایک جانب وارفتگی سے دل چاہتا کہ ان پیاسی چڑیوں کو خرید کر اس سخت قید سے نجات دلا دوں اور دوسری جانب ذہن بتاتا کہ یہ تو ان چڑی ماروں کے اس روز کے دھندہ کو تقویت پہنچانا ہے۔ اسی شش و پنج میں کتنے ہی لمحے بیت گئے۔ پھر کہیں اندر سے کسی نے سرگوشی کی۔ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم نےاپنے اصحاب کو جہاں غلامی کے طوق کو توڑنا سکھایا ، وہاں یہ بھی تلقین کی کہ اگر مال رکھتے ہو تو غلام خرید کر آزاد کرو۔ گو کہ ایسا کرنا غلام بیچنے والے کے کاروبار کو تقویت دیتا تھا۔ مگر اس غلط کاروبار کو ختم کرنا فرد کا نہیں بلکہ حاکم وقت کا کام تھا۔ لہذا مدینہ میں اسلامی نظم کا قیام ہوا تو پھر غلامی کو بطور کاروبار کرنے کا تدریج سے خاتمہ کردیا گیا۔ 

۔ 
میں جانتا تھا کہ ان چڑی ماروں کا یہ ذریعہ معاش درست نہیں۔ یہ بھی علم تھا کہ یہ مسلسل دوسری چڑیائوں کو ناکردہ جرم پر قید کرتے رہیں گے مگر انہیں ایسا نہ کرنے دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا ، تب تک ان بے بس چڑیوں کو خرید کر آزاد کرنا ہی شائد مجھ جیسے کم اختیار کیلئے درست قدم ہے۔ یہ بات سمجھ آتے ہی سکون ہو گیا۔ میں نے اللہ پاک کا نام لے کر انہیں ایک ایک کرکے آزاد کردیا۔ سب چڑیائیں چہچہاتی فضا میں چاروں سمت پھیل گئیں۔ لگتا تھا ان کے ساتھ میں بھی آزاد ہوگیا ہوں۔ میرا دل شاد ہوگیا اور زبان دعاگو۔
۔
====عظیم نامہ====

روحانیت کا حصول


 روحانیت کا حصول   




اگر ' قلب ' آئینہ ہے تو ' گناہ ' اس آئینے کا زنگ ہیں جن سے قلب کو دور رکھنا ہے ، ' استغفار' اس آئینے کی صفائی کا کام کرتی ہے ، ' اذکار' اس آئینے کو چمک عطا کرتے ہیں اور مسلسل ' تدبر و تفکر' اسے درست زاویہ مہیا کردیتے ہیں. یہ چاروں افعال اگر اخلاص سے اپنی روح سمیت انجام پاجائیں تو پھر یہ آئینہ تجلیات کا مرکز بن جاتا ہے. 
.
تزکیہ نفس، تصوف، روحانیت جو چاہے نام دے لیجیئے. مگر شریعت کی پاسداری کے ساتھ ان کے حصول کا راستہ انہی چند سطور میں پوشیدہ ہے. 
.
واللہ و اعلم بلصواب 
.
====عظیم نامہ=====

کراچی آپریشن - ایک تاثر


کراچی آپریشن - ایک تاثر 





.
میں حال ہی میں کراچی گیا اور چاہتے نہ چاہتے جاری آپریشن کا تجزیہ کیا. کچھ مشاہدات کئے اور کچھ واقعات سنے. چونکہ میرا یہ سفر مختصر تھا لہٰذا میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپریشن کی صداقت کو میں کس درجہ تک جان پایا مگر پھر بھی اپنے احساسات آپ سب سے بانٹنا چاہوں گا.
.
اس بارے میں کوئی دو رائے موجود نہیں ہیں کہ آپریشن کی وجہ سے اس وقت کراچی میں امن و امان کی صورت بہت بہتر ہے. قتل و غارت، ڈاکہ زنی، گینگ وار اور بم دھماکوں جیسی وارداتوں میں واضح کمی آئی ہے. نتیجہ یہ ہے کہ کاروبار رات گئے تک کھلے ہیں اور شہری پہلے کی نسبت کہیں زیادہ محفوظ ہیں. اس بہتری کا انکار آپریشن کے مخالف بھی نہیں کرتے. گو ان مخالفین کا کہنا یہ ہے کہ یہ تبدیلی عارضی اور مصنوعی ہے. انہیں خدشہ ہے کہ آپریشن میں اپنائے گئے غلط طریق کی وجہ سے مستقبل قریب میں حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو جائیں گے. آپریشن کے حامی یہ دعا کر رہے ہیں کہ بس یہ آپریشن رکے نہیں بلکہ مسلسل سالوں سال چلتا رہے. یہاں تک کے جرائم پیشہ افراد دم توڑ جائیں. اب آپریشن کے مخالفین کے خدشات درست ہیں یا پھر آپریشن کے حامیوں کی خواہش. اس کے بارے میں خامہ سرائی سے زیادہ کچھ اور ممکن نہیں. 
. 
آپریشن اس وقت تمام جرائم پیشہ گروہوں یا گینگز کے خلاف کسی نہ کسی درجہ میں ہو رہا ہے. مگر یہ سچ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اس آپریشن کا خاص ہدف ایم کیو ایم بنی ہوئی ہے. یہ بات کسی کراچی کے رہائشی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ شہر میں موجود ہر سیاسی تنظیم اپنے ملٹری ونگز رکھتی ہے اور قتل و غارت یا بھتہ خوری جیسے اقدام میں ملوث ہے. ایسے میں صرف ایم کیو ایم کو نشانہ بنانا ، ان کے حامیوں میں غصہ اور تنظیم کے لئے محبت پیدا کر رہی ہے. دوسری اہم بات جو ایم کیو ایم کے حق میں جارہی ہے وہ اس وقت صفائی کی ابتر صورتحال ہے. کراچی شہر شائد اپنی پوری تاریخ میں اتنا مخدوش اور گندا نظر نظر نہیں آیا ہوگا جتنا کہ وہ آج ہے. لہٰذا جہاں شہری امن و امان کی وجہ سے خوش ہیں ، وہاں گندگی کے ڈھیروں کی وجہ سے شدید نالاں بھی ہیں. کوڑے کے ڈھیر ، ابلتے گٹر، ٹوٹی سڑکیں اور بے ہنگم ٹریفک .. ہر شہری کو مصطفیٰ کمال کی یاد دلا رہی ہے جس نے ایم کیو ایم کا میئر بن کر اس شہر کو صفائی اور ترقی کا نمونہ بنا دیا تھا. ایم کیو ایم ان ہی دو باتوں کو اب بلدیاتی الیکشن میں نفسیاتی طور پر کیش کروا رہی ہے. اس کی پوری الیکشن کمپین کچھ اس قسم کے بینرز پر مبنی ہے: "مئیر تو اپنا ہی ہونا چایئے!" ... "ووٹ تو اپنوں کو ہی دینا چاہیئے" وغیرہ . لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ آنے والے الیکشن میں کلین سویپ کرے گی. 
.
دھیان رہے کہ میں یہاں ایم کیو ایم کا دفاع نہیں کر رہا بلکہ میں خود ان کا شدید ناقد ہوں. لیکن اسوقت مقصد تنقید نہیں بلکہ اپنا دیانتدارانہ مشاہدہ آپ تک پہنچانا ہے. میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ جرائم پیشہ عناصر کی بلاتفریق سرکوبی نہیں کی جارہی بلکہ میں یہ بتا رہا ہوں کہ 'سیاسی' جماعتوں میں آپریشن کا خصوصی ہدف اسوقت ایک ہی جماعت ہے. وہ مجرم جو سیاسی نہیں بلکہ پیشہ ور ہیں، ان سب پر رینجرز موت بن کر منڈلا رہی ہے. جس کے بارے میں رینجرز کو یہ یقین ہوجائے کہ وہ عادی مجرم یا فسادی ہے تو اسے ماورائے عدالت گولی ماردی جاتی ہے یا نامعلوم مقام پر لے جاکر چھترول ہوتی ہے. کچھ واقعات اختصار سے عرض کر دیتا ہوں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپریشن کی زد میں تمام غیر سیاسی حلقے یا قومیں شامل ہے. 
.
میرے ایک قریبی دوست کے بتیس سالہ بھائی کو کچھ پٹھان مجرم اغوا برائے تاوان کے لئے اٹھا لے گئے اور بدنام پٹھان علاقے الاصف اسکوائر میں ہاتھ پاؤں باندھ کر قید کر دیا. گھر والو سے تاوان مانگا گیا مگر اسی رات یہ لڑکا ان کے چنگل سے بھاگ نکلا. رینجرز نے اسے اگلے روز بلایا اور شناخت کیلئے کچھ تصاویر دکھائیں. لڑکے نے دو مجرموں کو شناخت کیا مگر اس شرط کیساتھ کے وہ عدالت کے چکر میں نہیں پھنسنا چاہتا. رینجرز نے جوابی کہا کہ ہم آپ کو عدالت لے جانا بھی نہیں چاہتے ، آپ بس اخبار پڑھتے رہیئے گا. تین دن بعد ان دونوں اغوا کاروں کی لاشوں کی تصویر اخبار میں موجود تھی. میرے ایک قریبی رشتہ دار کے کئی کاروبار ہیں اور انہیں بھتہ کیلئے تین مختلف بلوچ بدمعاشوں کا فون آیا کرتا تھا. رینجرز نے تینوں کو مار ڈالا ہے. میرے بڑے بھائی کے دوست کو اندرون سندھ سے تاوان کی دھمکیاں دی گئیں ، اس نے رینجرز سے رابطہ کیا. کچھ دن بعد رینجرز کا فون آیا کہ ان ڈاکوؤں کو اندرون سندھ میں مار دیا گیا ہے. پھر کوئی فون نہ آیا. میرے ایک ایم کیو ایم سے منسلک اور سابقہ ذمہ دار رشتہ دار نے گلستان جوہر میں ایک تھانہ چوکی دکھا کر بتایا کہ اس کے سارے پولیس والو کو رینجرز اٹھا کر لے جاچکی ہے کیونکہ یہ جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتے تھے. 
.
ایسے کتنے ہی واقعات سننے میں آتے رہے، جن میں مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف کاروائی بھی شامل ہے. جس جس کو رینجرز اٹھا رہی ہے وہ یا تو جرائم پیشہ فسادی ہیں (بلاتفریق) یا پھر کسی پارٹی کے سیاسی ذمہ دار ہیں (زیادہ تر ایم کیو ایم). میری اپنی دیانتدارانہ رائے میں اس آپریشن کو پوری قوت سے اگلے پانچ سے دس سال جاری رہنا چاہیئے مگر اس کا دائرہ دیگر سیاسی جماعتوں پر بھی تنگ ہونا ضروری ہے جیسے شاہی سید یا پیپلز پارٹی وغیرہ کے بدمعاش. اسی طرح دیگر شہروں میں بھی بلا تفریق کاروائی ہو تاکہ کراچی کو سوتیلے پن کا احساس نہ ہو. دعا یہی ہے کہ الله پاک اس شہر کی رونقوں کو اور دوبالا کریں اور ہر فسادی کو جہنم واصل فرمائیں. آمین.
.
====عظیم نامہ====
.

Monday, 12 October 2015

کامل کی کھوج



کامل کی کھوج




اکمل ترین ذات صرف رب العزت کی ہے یا پھر انسانوں میں کامل صرف پیر کامل محمد صلی اللہ و الہہ وسلم کی ذات اقدس ہے. 
.
الله اور اس کے محبوب کے سوا کسی اور کامل محبوب کی کھوج کرنا خود کو ہلکان کرنے کے مترادف ہے
.
لہٰذا کمال محبت یہ نہیں ہے کہ آپ ایک کامل محبوب کی جستجو کریں 
بلکہ کمال محبت یہ ہے کہ آپ ایک نامکمل محبوب کو کامل طور پر چاہ سکیں 
.
یہی نکتہ شریک حیات کیلئے بھی ہے اور یہی کلیہ مرشد و استاد کی تلاش کیلئے بھی ہے 
.
====عظیم نامہ====

ذہن سازی کرنے والے نمائندہ دانشور


ذہن سازی کرنے والے نمائندہ دانشور



Image may contain: 13 people, text

موجودہ نوجوان نسل کی ذہن سازی کرنے والے نمائندہ دانشوروں کی غیرمذہبی علمیت کا ایک مختصر خلاصہ پیش کرتا ہوں جو شاید میرے بہت سے احباب کیلئے تکلیف دہ ہو 

.
ڈاکٹر اسرار احمد نے کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی 
.
مولانا طارق جمیل لاہور میں میڈیکل کے طالبعلم رہے. ابتدائی علوم بھی اسکول کالج سے حاصل کئے
.
جاوید احمد غامدی نے بی اے آنرز کیا انگریزی مضمون میں. ساتھ ہی وہ ادب اور فلسفہ کے بیک وقت طالبعلم اور استاد رہے
.
پروفیسر احمد رفیق ادب ، فلسفہ اور دیگر سبق کے استاد رہے. انہوں نے بھی اسکولوں کالج سے تعلیم حاصل کی.
.
شیخ احمد دیدات اسکول میں خوب آگے تھے مگر معاشی مشکلات کی بناء پر صرف سولہ برس تک تعلیم حاصل کرسکے 
.
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے یونیورسٹی آف ممبئی سے اپنی ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی 
.
مولانا وحید الدین خان ، ابتدائی سالوں سے ہی سائنس اور جدید علوم کے زبردست طالبعلم رہے 
.
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی فزکس، کیمسٹری اور میتھمیٹکس کے بہترین طالبعلم تھے 
.
شیخ عمران حسین نے مختلف ممالک سے ڈگریاں حاصل کیں. جن میں ایک ڈگری سوئزرلینڈ سے 'عالمی تعلقات' کے حوالے سے حاصل کی 
.
مفتی تقی عثمانی نے پہلے یونیورسٹی آف کراچی سے آرٹ کی ڈگری لی اور پھر قانون کی ڈگری حاصل کی 
.
ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا ایل ایل بی ١٩٧٤میں مکمل کیا 
.
مشہور صوفی سوچ کے حامل حمزہ یوسف نے واشنگٹن اسکول میں تعلیم پائی 
.
دور حاضر میں قران مجید پر لسانی تحقیق کے شاید سب سے بڑے ماہر نعمان علی خان بھی امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے 
.
ملحدین کے خلاف سب سے بہترین سائنسی مباحثہ کرنے والے حمزہ زورٹزس نے انگلینڈ سے سائیکولوجی میں ڈگری حاصل کی 
.
یورپ کی مسلم نوجوان نسل میں نہایت معروف استاد یاسر قاضی نے کیمکل انجینرنگ کی ڈگری یونیورسٹی آف ہیوسٹن سے حاصل کی
.
مفتی مینک نے زمبابوے میں اپنی ابتدائی اسکولنگ وغیرہ مکمل کی 
.
علامہ محمد اقبال نے مورے کالج سے پہلے آرٹ کا ڈپلومہ لیا، پھر اسی سال گوورنمنٹ کالج لاہور سے آرٹ، فلسفہ اور ادب میں ڈگری حاصل کی. پھر اسی میں ماسٹرز کی ڈگری لی. یونیورسٹی آف کیمبرج انگلینڈ سے آرٹ کی ایک اور ڈگری لی. پھر بیرسٹر کی تعلیم مکمل کی. آخر میں جرمنی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی.
. 
یہ اور ایسے ہی اور بہت سے نام موجود ہیں جو اس وقت اول صف میں کھڑے مسلم نوجوان ذہن کو بیرونی فلسفوں سے پاک کرنے کا کام کر رہے ہیں. ان کے برعکس وہ علماء جو خالص مدرسہ سے ہی تعلیم حاصل کرتے رہے اور جدید تعلیم کا حصول نہ کیا. ان میں سے نوجوان جدید نسل میں قبولیت پانے والے نام گنتی کے ہیں. کچھ استثنات کو چھوڑ کر ان کی مقبولیت کا دائرہ صرف مدرسہ کے طالبعلموں کو ہی اپنا گرویدہ کرسکا. جدید نوجوان نسل سے ربط پیدا نہ ہوسکا. روایتی علماء کا بدقسمتی سے یہ حال ہے کہ انہیں بخاری شریف تو زبانی یاد ہوگی، مثنوی کے دقیق نقطے تو وہ با آسانی بیان کر سکتے ہونگے مگر جدید اذہان میں پیدا ہونے والے سوالات سے وہ ربط پیدا نہیں کرسکتے. وہ نہیں جانتے کہ چارلس ڈارون ، کارل مارکس ، رچرڈ ڈاکن کون ہیں ؟ نظریہ ارتقاء کیا بلا ہے ، تھیوری آف ریلٹوٹی کس چڑیا کا نام ہے ؟ لہٰذا انکا ہتھیار یہی ہوتا ہے کہ ایسے کفریہ سوال نہ پوچھو، اسلام سے باہر ہو جاؤ گے. نتیجہ الحاد اور شکوک کی صورت میں برآمد ہوا
.
یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ جن اکابر علماء کی سوچ آج بھی جدید اذہان کو مخاطب بنالیتی ہیں ، وہ سب کے سب اپنے دور کے سائنسی اور دیگر رائج علوم میں ملکہ رکھتے تھے. امام غزالی، ابن عربی، ابن تیمیہ، ابن حزم، ابن قیم، ابن رشد وغیرہ سب اسی حقیقت کی غمازی کرتے ہیں 
.
یہ سب لکھنے کا مقصد نہ تو اہل مدرسہ کی دل آزاری ہے اور نہ ہی مقصد ہمارے روایتی علماء کی توہین ہے. اگر ایسا محسوس ہو تو میں دست بدستہ معافی مانگتا ہوں. میرا ارادہ صرف اتنا ہے کہ میں دین کے طالبعلموں کو یہ توجہ دلا سکوں کہ ان کیلئے موجودہ جدید علوم بلخصوص سائنس کی تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنی کے فقہ یا فن حدیث میں مہارت. ان علوم سے آگاہی نہیں پیدا کریں گے تو جدید سوالات کے کبھی جواب نہ دے پائیں گے. یہ جواب نہ دیں گے تو آنے والی نوجوان نسل آپ سے مزید دور ہوگی اور اسلام سے متنفر ہوتی جائے گی. اسے میری عاجزانہ استدعا سمجھیں ، تحقیر ہرگز نہ سمجھیں 
.
====عظیم نامہ=====