Thursday, 30 April 2015

لفظ کی اہمیت



لفظ کی اہمیت 


.
لفظ لفظ رٹنے سے آگہی نہیں ملتی 
آگ نام رکھنے سے روشنی نہیں ملتی 
.
آدمی سے انساں تک ، پہنچو گے تو سمجھو گے 
کیوں چراغ کے نیچے روشنی نہیں ملتی ؟
.
دوستو ، الفاظ خالی برتن کی مانند ہوتے ہیں .. انہیں مفہوم ہم عطا کرتے ہیں
.
لب پر آتی ہے بات دل سے حفیظ 
دل میں جانے کہاں سے آتی ہے؟
.
لفظ 'کمینہ' ایک گالی شمار کیا جاتا ہے لیکن یہ گالی اسی وقت بنتا ہے جب اس کا مفہوم سننے یا بولنے والے کو معلوم ہو. اگر ایک انسان اس لفظ کے مفہوم ہی سے آشنا نہ ہو تو پھر اس لفظ کا کوئی اثر طبیعت پر محسوس نہیں ہوتا. اسی طرح ممکن ہے کہ ایک لفظ کسی زبان میں گالی ہو مگر وہی لفظ دوسری زبان میں توصیفی کلمہ کی حیثیت رکھتا ہو. چنانچہ جس مفہوم سے آپ کی سماعت آشنا ہوگی ، آپ ویسا ہی تاثر اس لفظ کا خود پر محسوس کرسکیں گے. آپ کو اکثر بداخلاق لوگ اپنے دفاع میں یہ دلیل دیتے نظر آئیں گے کہ 'سچ کڑوا ہوتا ہے' ، کاش کہ انہیں کوئی سمجھا سکے کہ کڑوا اکثر سچ نہیں ہوتا بلکہ آپ کا لہجہ اور الفاظ کا چناؤ کڑوا ہوجاتا ہے. اس کی اعلی ترین مثال رسول عربی صلی الله و الہے وسلم کی ذات مقدس ہے ، جنہوں نے ساری زندگی ببانگ دھل سچ بولا مگر کبھی کڑوا نہ بولا، جب بھی بولا میٹھا بولا.
.
لفظ تاثیر سے بنتے ہیں تلفظ سے نہیں 
اہل دل آج بھی ہیں، اہل زباں سے آگے 
.



یاد رکھیں کہ ہر وہ لفظ گالی شمار ہوگا جس سے مخاطب کی تحقیر و تذلیل مقصود ہو. اگر آپ ایسا کوئی بھی لفظ ادا کرتے ہیں جس کے زریعے، سننے والے کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے، تو امکان ہے کہ اس پر گالی کا اطلاق ہو سکتا ہے. اگر اس تعریف کو سمجھ لیں تو معلوم ہوگا کہ گالی صرف وہ الفاظ نہیں ہیں جنہیں معاشرے میں گالی سمجھا جاتا ہے بلکے ایسے بہت سے الفاظ موجود ہیں جنہیں گالی کے طور پر ہم نے خود ایجاد کیا ہے. حد یہ ہے کہ ہم نے مذہبی گالیاں بھی ایجاد کر رکھی ہیں. وہ شیعہ کھٹمل ہے، یہ سنی دشمن اہل بیت ہے .. وہ وہابی نجدی کافر ہے، یہ قبر پرست صوفی ہے .. وہ دیوبند کی گند ہیں ، یہ حلوہ خور بریلوی ہیں ... وہ ہرے طوطے ہیں، یہ یہودی ایجنٹ ہیں. ایک لمبی فہرست ہے گالیوں کی جسے ادا کر کے ہم اپنے مخاطب کی تذلیل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایسا کر کے ہم دین کی خدمت کر رہے ہیں. وہ اسلام جس نے کافروں کے جھوٹے خداؤں کو بھی گالی دینے سے روکا تھا ، آج اسکے نام لیوا بڑے فخر سے اپنے کلمہ گو بھائیوں کو مذہبی گالیاں دیتے ہیں. 
.
ہر ایک پر لگاتا ہے تو کفر کے فتوے 
اسلام تیرے باپ کی جاگیر تو نہیں ؟
.
ایک آخری پہلو یہ بھی غور طلب ہے کہ کسی بھی لفظ کی لغوی تحقیق، اس لفظ میں مضمر کئی راز کھول دیتی ہے، مگر دھیان رہے کہ ایسی کوئی بھی لغوی تحقیق اسی وقت معتبر ہوگی جب پہلے یہ معلوم ہو کہ مذکورہ لفظ مخاطبین کے درمیان کس مفہوم میں رائج رہا ہے. دور حاضر میں کچھ محققین نے یہ روش اپنائی ہے کہ انہوں نے مخاطبین میں رائج مفہوم کو پس پشت رکھ کر قران حکیم کے الفاظ کی لغوی تحقیق شروع کردی. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان حضرات نے دین کی بنیادی اصطلاحات کے وہ وہ معنی اخذ کئے جسے سن کر اہل علم اپنا سر پیٹ لیں. 
.
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے 
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے 
.
====عظیم نامہ====

کب تک؟؟

 

کب تک؟؟

  

 
 
کب تک کچے رہو گے؟ .. پکے بنو !
کب تک سوال بنے رہو گے؟ .. جواب بنو !
ذرہ کو ریگستان بننا ہوگا ..
دریا کو سمندر میں ڈھلنا ہوگا ..
سونے کو کندن بننا ہوگا ..
قطرہ کو گوہر میں ڈھلنا ہوگا ..
یاد رکھو کہ تم سے یہ سوال ہوگا کہ اپنی صلاحیت کو مواقع کے تناسب سے کتنا نکھارا ؟ ..
کوئی بہانہ نہیں چلے گا ..
کوئی مصلحت کام نہ آئے گی ..
.
 عظیم نامہ

Wednesday, 29 April 2015

ابلیس کا جال

 
 

ابلیس کا جال

 
 
 
 شیطان تحمل پسند اور مستقل مزاج طبیعت رکھتا ہے. اس کا حملہ اچانک نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا پلان کام کرتا ہے. ذیل میں شیطان کے طریقہ واردات کا مرحلہ وار جائزہ لیا جارہا ہے جو وہ انسان کو اپنے جال میں جکڑ لینے کے لئے استعمال کرتا ہے.
.
١. سب سے پہلے وہ آپ کے دل میں نفس امارہ کے ذریعے وسوسہ ڈالتا ہے. مثال کے طور پر وہ آپ کو محض اتنی معلومات دے کر خاموش ہوجاتا ہے کہ فلاں مقام اور وقت پر آپ کا مرغوب گناہ کا موقع موجود ہے. اتنا کہہ کر وہ ممکن ہے کہ آپ کو کچھ عرصہ کیلئے آزاد چھوڑ دے.
.
٢. اگر آپ نے شیطان کے پہلے قدم پر تعوز نہیں پڑھی یا الله عزوجل کی پناہ نہیں مانگی تو پھر وہ آھستہ آھستہ آپ کو اس خاص گناہ کی جانب رغبت دلانا شروع کرتا ہے. اس سے متعلق اضافی معلومات دیتا ہے.
.
٣. اگر اس دوسرے مرحلہ پر بھی لاحول نہ پڑھی اور الله پاک سے مدد نہ مانگی تو اب وہ آپ کے دل میں اس گناہ کا خود ساختہ بیج بونے میں کامیاب ہوجاتا ہے جو مسلسل اس گناہ کی چاہت پیدا کرتا رہتا ہے. ساتھ ہی وہ آپ کی توجہ دوسرے کاموں میں الجھائے رکھتا ہے تاکہ اپ کی توجہ اس مہلک بیج کو اکھاڑنے کی جانب نہ جاسکے.
.
٤. جب اس حربہ میں اسے کامیابی مل جاتی ہے تو اب وہ چاروں اطراف سے حملہ کرتا ہے. اگر گناہ فحاشی کی نوعیت کا ہے تو جذبات کو بھڑکاتا ہے اور اگر اس کی قسم منکر کی ہے تو عقل کو زیر کرتا ہے.
.
٥. اس درجہ پر اب وہ اس گناہ کو آپ کے لئے مزین بنادیتا ہے. اسے آسان، خوبصورت اور دل کش کر کے پیش کرتا ہے. اس موقع پر اس گناہ کے قریب لے جانے والے ذرائع آپ کو بہم پہنچاتا ہے.
.
٦. اب چونکہ شیطانی جڑیں آپ کے شعور میں پھیل چکی ہیں لہٰذا اب آپ کو حتمی دعوت گناہ دی جاتی ہے کہ بس اب کر ڈالو.
.
٧. جب گناہ ہو جائے تو اب شیطان جان لڑا دیتا ہے کہ آپ توبہ کی جانب راغب نہ ہوں بلکہ آھستہ آھستہ گناہ کی ندامت دل سے رخصت ہو جائے. کچھ ہی عرصہ میں وہ دوبارہ آپ کو اسی گناہ کی جانب مائل کرنے لگتا ہے.
.
٨. اب اس گناہ کو ایک ایڈ-کشن یعنی لت کی طرح وہ آپ سے چمٹا دیتا ہے. آپ ایسے نفسیاتی ٹریپ میں جا پھنستے ہیں جہاں آپ اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہوجاتے ہیں. اس مقام پر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ گناہ آپ کوا اندر ہی اندر برباد کررہا ہے ، آپ کا ایمان تباہ ہورہا ہے مگر کسی نشہ کرنے والے کی مانند آپ جان کر بھی اس گندی عادت کو نہیں ترک کر پاتے.
 
.
ابلیس کے اس جال کو کسی بھی مرحلہ پر توڑنے کا واحد راستہ سچی توبہ اور استغفار کا ہے. شیطان کے اس آٹھ نکاتی حملے میں جتنا پہلے انسان سنبھل جائے گا، اتنا ہی اس کا نکلنا آسان ہوگا. جتنی دیر کرے گا، اتنا ہی یہ ٹریپ اس کے لئے دشوار تر ہوتا جائے گا. الله پاک ہمیں خطوات الشیطان سے محفوظ رکھے اور فوری رجوع کرنے والا بنا دے. آمین یا رب العالمین
.
 عظیم نامہ

Tuesday, 28 April 2015

ابتداء تخلیق کی توجیحات


ابتداء تخلیق کی توجیحات





"کیا یہ بغیر کسی چیز کے از خود پیدا ہوگئے ہیں ؟ یا کیا یہ خود اپنے آپ کے خالق ہیں ؟ یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کردیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ یقین کرنے والے نہیں ہیں" 
.
سورہ الطور کی مندرجہ بالا آیات میں اللہ پاک انسان کو تخلیق کے عمل کے آغاز پر غور کرنے کی دعوت فکر دے رہے ہیں. اگر کوئی بھی شے وجود رکھتی ہے تو اس کے نقطہ آغاز کو سمجھنے کے لئے چار توجیہات پیش کی جاسکتی ہیں:
.
پہلی یہ کہ وہ شے یا انسان خود بخود کسی بھی پیش تر چیز کے بغیر وجود میں آگیا ہو. یہ ظاھر ہے کہ ناممکن ہے. ہم جانتے ہیں کہ 'کچھ نہیں' سے 'کچھ نہیں' تخلیق ہوسکتا. کچھ تخلیق ہونے کے لئے لازم ہے کہ اس سے پہلے کچھ ہو. لہٰذا یہ توجیہہ فضول اور باطل ثابت ہوتی ہے 
.
دوسری توجیہہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس شے یا اس انسان نے خود اپنے آپ کو تخلیق کرلیا ہو. یہ بات بھی سراسر احمقانہ اور تجربہ کے خلاف ہے. ہم جانتے ہیں کہ نہ تو انسان خود اپنے آپ کو اپنے ہاتھ سے بناتا ہے اور نہ ہی کائنات کی دیگر مخلوقات اپنے آپ کو ازخود ڈیزائن کرتی ہیں. ہر معلول کو ایک پیشتر اور بیرونی علت کی حاجت لازمی ہوتی ہے. چنانچہ یہ توجیہہ بھی مسمار ہوجاتی ہے 
.
تیسری توجیہہ یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ کیونکہ انسان اس معلوم کائنات میں سب سے زیادہ زہین اور باشعور نظر آتا ہے لہٰذا وہ اپنے وجود کی توجیہہ نہ بھی کرسکتا ہو تب بھی بقیہ کائنات کا خالق وہ خود ہو. ظاہر ہے کہ انسان بخوبی واقف ہے کہ ان عظیم سیاروں، ستاروں، کہکشاؤں، سمندروں، پہاڑوں وغیرہ میں سے کسی کا بھی وہ خالق نہیں ہے. اسلئے ایسی غیر حقیقی وجہ کو زبان پر لانا بھی اس کے لئے ناممکنات میں سے ہے 
.
جب یہ تینوں توجیہات عقلی، عملی، علمی، تجرباتی اور ہر دوسرے ممکنہ زاویئے سے فاسد قرار پاتی ہیں تو صرف ایک اور توجیہ باقی بچتی ہے جو سب سے زیادہ قرین قیاس ہے اور جسے تسلیم کرنے میں انسانی فہم حق بجانب ہے. وہ چوتھی اور آخری توجیہہ یہ ہے کہ انسان اور اس پر ہیبت کائنات کی تخلیق کے پیچھے 'کوئی' ہے جو خود تخلیق ہونے سے آزاد ہے. جو زمان و مکان کی پابندیوں سے مارواء ہے، جس کے بارے میں انسانی علم نہایت محدود ہے. مگر جس کا ہونا اس کائنات کے ہونے اور ہمارے اپنے وجود کے ہونے سے صریح طور پر ثابت ہے. اتنے صاف صاف قرائن ہونے کے باوجود اگر کوئی انسان اس واحد قابل قبول توجیہہ یعنی ایک 'برتر وجود' کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کا شمار ان احمقوں میں ہوگا جو علمی حقیقتوں کو بھی ماننے کیلئے دیکھنے کی شرط لگاتے ہیں اور دلیل سمجھنے پر اکتفاء نہیں کرتے 
.
====عظیم نامہ=====

Sunday, 26 April 2015

کیا نماز واقعی برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے ؟



کیا نماز واقعی برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے ؟



" بےشک نماز روکتی ہے بے حیائی اور برائی سے"


میں سوچ رہا تھا کہ سورہ العنکبوت کی ٤٥ آیت کے اس حصہ میں تین بنیادی پیغامات پنہاں ہیں 
.
١. پہلا سبق یہ کہ بے حیائی کو الگ سے زور دے کر ذکر کیا گیا ورنہ بات اتنی بھی ہوسکتی تھی کہ بےشک نماز روکتی ہے برائی سے. ظاہر ہے بے حیائی بھی خود بخود برائی کے لفظ میں مضمر ہو جاتی. مگر اس آیت میں اور قران حکیم کے دیگر مقامات پر بھی جہاں برائی سے بچنے کا کہا گیا وہاں فحاشی کو خاص الگ کر کے ذکر کیا گیا تاکہ مومنین اس سے بچنے کا خاص اہتمام کریں. 
.
٢. دوسرا زاویہ یہ کہ نماز پڑھنے کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیئے کہ نمازی برائی اور فحاشی سے دور ہو جائے. مگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کم سہی مگر نمازی حضرات بھی بعض اوقات بےحیائی اور برے کاموں میں شامل ہو جاتے ہیں. سوال یہ ہے کہ اس ممکنہ تضاد کو کیسے سمجھا جائے؟ اسے سمجھنے کیلئے یہ جاننا ہوگا کہ آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ نماز روکتی ہے مگر یہ نہیں کہا گیا کہ زبردستی روک دیتی ہے. ان دونوں بیانات میں بڑا فرق ہے. جس طرح ایک زندہ ضمیر انسان کو اس کی ضمیر کی آواز برے کام سے روکتی ہے ، اسی طرح نمازی کو اس کی نماز برائی سے روکتی ہے. مگر جس طرح انسان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہے تو اپنے ضمیر کی آواز سنے اور چاہے تو مسترد کر دے. ٹھیک ویسے ہی انسان یہ بھی اختیار رکھتا ہے کہ وہ اپنی نماز سے برائی کو چھوڑ دے یا پھر نماز کی یاد دہانی کو بھی خاطر میں نہ رکھے. اس سے نماز کی اہمیت کم نہیں ہوتی بلکہ پانچ دفعہ اپنے رب کے سامنے حاضری کا شعور رکھنے والا شخص برائی چھوڑ دینے پر زیادہ مائل ہوتا ہے. ہم جانتے ہیں کہ ایک زندہ ضمیر شخص ایک مردہ ضمیر شخص سے کہیں بہتر ہے اور برائی سے محفوظ رہنے کے زیادہ امکانات رکھتا ہے. ایسے ہی ایک با نماز انسان ایک بے نماز انسان سے سو درجہ زیادہ برائی یا بے حیائی کو ترک کردینے کے امکان رکھتا ہے. 
.
٣. تیسرا سبق دراصل ایک مشاہدہ ہے کہ اگر کوئی شخص بے حیائی اور برائی کو مستقل اپنی سرشت بنالے تو اس کے لئے نماز کی پابندی کٹھن ہو جاتی ہے اور اگر کسی طور پر پڑھ بھی لے تو خشوع و خضوع جاتا رہتا ہے. اگر ایک مسلمان نماز کی پابندی یا اس میں خشوع قائم نہیں کرپارہا تو اسے چاہیئے کہ اپنی روزمرہ کی زندگی کا جائزہ لے. کہیں وہ کھلے گناہ بلخصوص آنکھوں یا بقیہ اعضا کی بےحیائی میں مبتلا تو نہیں؟
.
====عظیم نامہ====

Thursday, 23 April 2015

لکھنا میری مجبوری


لکھنا میری مجبوری 





لکھنا میری عادت، شوق یا مشغلہ نہیں بلکہ لکھنا میری مجبوری ہے. الله پاک نے اس دنیا میں کچھ افراد کو دوسرے افراد کے مقابل زیادہ حساس پیدا کیا ہے. یہ حساس افراد، واقعات کو زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں اور مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں. ان ہی حساس افراد کے گروہ میں، الله رب العزت نے کچھ اشخاص کو جمالیاتی زوق بخشا ہوتا ہے اور ساتھ ہی انہیں کسی خاص جمالیاتی تحقیقی صلاحیت سے نواز دیا ہوتا ہے. یہ تخلیقی صلاحیتیں مختلف اشخاص میں مختلف ہوسکتی ہیں مگر اگر ایسی کوئی جمالیاتی صلاحیت کسی انسان میں ودیعت شدہ ہے تو پھر یہ محال ہے کہ وہ اپنے حساس موقف کا اظہار اسکے ذریعے نہ کریں. وہ اگر سچا مصور ہے تو اس کے محسوسات تصویر میں ڈھل جاتے ہیں، اگر وہ سچا شاعر ہے تو اسکی حساسیت غزل و نظم کا قالب اختیار کرلیتی ہے، وہ اگر سچا خطیب ہے تو اس کا مشاہدہ پراثر تقریر بن جاتا ہے اور اگر وہ لکھاری ہے تو اس کے نظریات تحریر کی صورت میں نمایاں ہوجاتے ہیں. اپنی محنت یا دریافت کی تعریف سن کر اچھا محسوس کرنا ہر انسان کی فطرت ہے. لہٰذا ایک مصور اپنے فن پارے کی پذیرائی چاہتا ہے، ایک شاعر اپنی شاعری پر داد کا طالب ہوتا ہے، ایک مقرر اپنی تقریر کے سننے والے چاہتا ہے اور ایک لکھاری اپنی تصنیف کی قبولیت پر مسرور ہوتا ہے. اسے خود پسندی یا خود نمائی سے تشبیہ دینا درست نہیں، اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر ان تخلیقی حساس افراد کو مطلوبہ پذیرائی یا داد حاصل نہ بھی ہو .. یہ تب بھی اظہار پر مجبور ہوتے ہیں. کوئی پڑھے نہ پڑھے ، کوئی سنے نہ سنے، کوئی دیکھے نہ دیکھے .. یہ اظہار کئے بناء نہیں رہ سکتے. 
.
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ لکھنا میری عادت، شوق یا مشغلہ نہیں بلکہ لکھنا میری مجبوری ہے. جب کسی واقعہ کو شدت سے محسوس کرتا ہوں یا جب کسی موضوع پر خوب غور و فکر کے بعد اطمینان حاصل ہو جاتا ہے .. اس لمحے شدت سے آمد شروع ہوتی ہے، متفرق خیالات یہ چاہتے ہیں کہ انہیں لکھ کر ایک مربوط صورت میں باندھ دیا جائے. اس وقت حالت چائے کی اس کھولتی کیتلی کی مانند ہوتی ہے جو چولہے پر رکھی ہو اور اس کا ڈھکنا اندرونی ارتعاش سے بلبلا رہا ہو. جیسے ہی ڈھکن ہٹایا جاتا ہے تو سارا جوش پوری قوت، آواز اور دھوئیں کی صورت میں اپنا اظہار کردیتا ہے. پھر دوبارہ کیتلی میں سکون ہوجاتا ہے. ایک لکھاری ، مصور یا شاعر کے اظہار کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے. مجھے کثرت سے ایسی گزارشات وصول ہوتی رہتی ہیں جن میں تقاضا کیا گیا ہوتا ہے کہ میں فلاں شخصیت یا فلاں تہوار یا فلاں موضوع پر کوئی پراثر تحریر لکھوں. میں ان بہنوں بھائیوں کا شکرگزار ہوتا ہوں ، جو مجھے اس قابل سمجھتے ہیں کہ ان کے جذبات و خیالات کا ترجمان بن سکوں. مگر میں انہیں کیسے سمجھاؤں ؟ کہ میں وہ نہیں لکھ سکتا جسے میں خود شدت سے سچائی سے محسوس نہ کر رہا ہوں. جھوٹی تحریر اور الفاظ کا کھیل میں کھیل سکتا ہوں مگر میرے نزدیک یہ علمی بد دیانتی ہے، کفران نعمت ہے اور بعض صورتوں میں صریح گناہ ہے. مجھے اس سچے شاعر پر رحم آتا ہے جو محض ردیف و قافیہ کا کھیل نہیں کھیلتا بلکہ وہ کہتا ہے جو اس پر آمد ہوتا ہے. کیا حالت ہوتی ہوگی اسکی؟ جب اسے کسی دولہے میاں کا سہرا لکھنے پر مجبور کیا جاتا ہوگا، یہ کہہ کر کہ ممانی اور خالو کا ذکر اچھے سے کردینا ! .. مجھے ترس آتا ہے اس مصور پر جو محض رنگوں کا کھیل نہیں کھیلتا بلکہ اپنی سوچ کو تصویر کرتا ہے. کیسا لگتا ہوگا اسے ؟ جب اسے مجبور کیا جاتا ہوگا کہ ذرا منے کی تصویر بنا دو اور ساتھ میں ایک ہرا طوطا بھی ضرور بنا دینا ... مجھے دلی ہمدردی ہوتی ہے ہر اس تخلیقی حساس شخص سے جس کے فن اظہار کو بازار میں زبردستی بکاؤ مال بنا دیا جاتا ہے بقول مصطفیٰ زیدی 
.
اس منڈی میں جہاں صاف کفن بکتا ہے 
جسم بکتے ہیں، ادب بکتا ہے، فن بکتا ہے 
.
====عظیم نامہ====

Tuesday, 21 April 2015

انسانی رویہ میں حقیقی تبدیلی کیسے ہو ؟



انسانی رویہ میں حقیقی تبدیلی کیسے ہو ؟


انسان کا معاملہ عجیب ہے .. یہ ہاتھی پر سواری کرتا ہے مگر بعض اوقات چوہے سے ڈر جاتا ہے ... ببر شیر سے کرتب کرواتا ہے مگر بعض اوقات ایک چھوٹی چھپکلی کو دیکھ کر چیخ پڑتا ہے ... سمندر کے اندھیروں میں اتر جاتا ہے مگر بعض اوقات رات کی تاریکی سے پریشان ہوجاتا ہے .. سنگلاخ چٹانوں، برفیلے میدانوں، سنسان صحراؤں اور پر ہیبت بیابانوں کو سر کرتا ہے مگر بعض اوقات اپنے گھر میں تنہا ہو تو کانپنے لگتا ہے 

.
معاملہ دراصل اشیاء کے وجود کا نہیں ہے .. بلکہ معاملہ ان اشیاء سے منسلک افکار کا ہے جو وہ اپنے ذہن میں سجا لیتا ہے. انسان کے خارج میں بیشمار نظریات موجود ہوتے ہیں جو اس کے اردگرد پھیلے معاشرے کے ذہنی ارتقاء کے ترجمان ہوتے ہیں. ایک انسان ان نظریات کو دیکھتا ہے، سمجھتا ہے، جائزہ لیتا ہے اور بعض اوقات ان سے مرعوب ہو کر یا ان کا قائل ہو کر انہیں اپنا لیتا ہے. اگر اس کا باطنی شعور کسی حادثے، واقعے ، حالات یا استدلال کی بنیاد پر کسی نظریہ کو دل و جان سے قبول کرلے تو وہ نظریہ اب خارجی نہیں رہتا بلکہ ترقی کرکے اس کا اپنا ذاتی عقیدہ بن جاتا ہے. ایسا عقیدہ جس کی جڑیں اس کے لاشعور میں جاگزیں ہوتی ہیں. پھر یہی عقیدہ اس کے عمل کو مرتب کرتا ہے، یہی عقیدہ تعین کرتا ہے کہ اس کا رویہ کسی شے کی جانب کیسا ہوگا ؟ یہی عقیدہ لاشعوری انداز میں محبت، نفرت یا ڈر کا تعلق استوار کرتا ہے. اگر کسی فاسد عقیدہ کی اصلاح مقصود ہے تو لازم ہے کہ مخاطب کے لاشعور کو کریدا جائے، پھر اسے للکار کر ایک مظبوط تر نظریہ دیا جائے .. جسے وہ قبول کرسکے .. جسے وہ اپنا سکے. ایسے حالات و واقعات پیدا کئے جائیں جو اسکی قبولیت میں معاون ہوں. فرد کی طرح معاشرے کا بھی ایک اجتماعی شعور ہوتا ہے، جسکی اصلاح ان ہی خطوط اور اسی بہج پر کی جاسکتی ہے. یہ عمل کٹھن اور صبر آزما ضرور ہے مگر حقیقی اور پائیدار فکری اصلاح اس کے بناء ممکن نہیں. 
.
====عظیم نامہ====