Saturday, 7 March 2015

سکون کی اہمیت



سکون کیا ہے ؟ اور دین میں اس کا کیا مقام ہے؟


لغت کے اعتبار سے لفظ اسلام میں مادہ الفاظ 'سلم اور سلام' دونوں موجود ہیں. سلم سے مراد خود کو (خدا کے) حوالے کردینے کے ہیں جبکہ سلام کی معنی سلامتی یا سکون کے ہیں. اس رعایت سے اسلام پر عمل کرنے والا وہ ہے جو سلم سے سلام کا حصول کرتا ہے. آسان الفاظ میں جب ایک بندہ یا ایک معاشرہ اپنی مرضی کو اپنے رب کی مرضی کے سامنے بچھا دیتا ہو تو اس کا لازمی پھل سکون و سلامتی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے.
.
اسی طرح لفظ ایمان کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ مادہ لفظ امن سے وجود پذیر ہوا ہے، جس کے معنی پھر سلامتی یا سکون کے ہیں. ایمان رکھنے والے مومن کا یہ لازمی خاصہ ہے کہ وہ ایمان کے ذریعے اپنے قلب و فکر میں سکون محسوس کرتا ہے. اسلام ظاہر سے متعلق ہے اور ایمان باطن سے. اسلام پر عمل کرکے انسان اپنے گردوپیش اور اپنے ظاہر میں سکون و سلامتی کا نشان بن جاتا ہے. جبکہ ایمان کا حصول کرکے وہ اپنے باطن میں مجسم سکون ہوجاتا ہے. لہٰذا اگر آپ مسلم یعنی اسلام کے حامل ہونے کا دعوی رکھتے ہیں تو پھر لازم ہے کہ آپ کے بیوی ، بچے ، عزیز واقارب آپ کے اعلیٰ اخلاق کے گواہ ہوں. اگر ایسا نہیں ہے تو ظاہر ہے وہ آپ سے سکون میں نہیں ہیں اور ایسا اسلام کا دعوی قانونی طور پر موجود ہو کر بھی اپنی حقیقت میں کھوکھلا ہے. اسی طریقہ سے اگر آپ دعوی ایمان رکھتے ہیں مگر آپ کا باطن شکوک سے آلودہ ہے یا پھر آپ مخالف دلائل کے سامنے سے شکوک کا شکار ہوجاتے ہیں تو ایسا ایمان لسانی طور پر موجود ہو کر بھی اپنے لازمی ثمر یعنی سکون سے خالی ہے
.
اس سکون کو حاصل کرنا کتنا ضروری ہے ؟ اس کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ شریعت میں اسکی سخت تلقین کی گئی ہے کہ ہر مسلم اپنے دوسرے مسلم بھائی سے جب بھی ملے تو اسے سلام کہے. غور کیجیئے کہ السلام و علیکم کہنا انگریزی کے ہیلو کہنے کی طرح محض گفتگو کے آغاز کا کلمہ نہیں ہے بلکہ ایک مکمل دعا ہے جس میں آپ اپنے مخاطب کو سکون و سلامتی کی دعا دیتے ہیں. جواب میں آپ کا مخاطب آپ کو مزید بہتر طریق سے سکون و سلامتی کی دعا دیتا ہے. اگر یہ عمل اخلاص و سمجھ کے ساتھ ساتھ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ معاشرہ سکون و سلامتی کا مظہر بن جائے. اس کو سمجھنے کے لئے ترمزی شریف کی وہ حدیث یاد کریں جس میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی الله و الہے وسلم نے فرمایا کہ ' تم جنت میں داخل نہ ہوگے جب تک ایمان نہ رکھتے ہو، اور تم ایمان نہیں رکھ سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو. کیا میں تمھیں وہ بات نہ بتاؤں ؟ جسے اگر تم کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے ؟ .. (وہ راز کی بات یہ ہے کہ) آپس میں سلام پھیلاؤ.
.
قران حکیم کا ایک دلچسپ تربیتی حکم مومنین کیلئے یہ بھی ہے کہ اگر کوئی جذبات سے مغلوب جاہل انسان آپ سے بدتمیزی کرے تو جواب میں اس سے الجھنے کی بجائے اسکے لئے بھی سکون کی دعا کریں یعنی اسے سلام کہیں. یہ اور بات ہے کہ آج اکثریت تو اس نصیحت پر سرے سے عمل ہی نہیں کرتی اور جو چند اشخاص کرتے ہیں تو وہ بھی اسلئے کہ اپنے مخاطب مسلمان بھائی کو یہ احساس دلا سکیں کہ میں تمھیں قران کی رو سے جاہل سمجھتا ہوں. حالانکہ اس کا ایک نمائندہ منشاء یہ بھی ہے کہ جذبات سے مغلوب انسان سکون سے عاری ہوتا ہے لہٰذا الله سے دعا کی جائے کہ اسے بھی سکون کی دولت حاصل ہو اور وہ بھی ایک پرسکون معاشرے کا حصہ بن سکے. سورہ الفرقان کی ٦٣ آیت ملاحظہ ہو
.
 اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں ”سلام“۔
.
ایک اور زاویہ یہ بھی ہے کہ اسلام میں ذکر کی اہمیت سے ہر خاص و عام واقف ہے. قران بھی خود کو الذکر کہتا ہے. نماز اور تسبیحات کیلئے بھی ذکر ہی کا لفظ استمعال ہوا ہے. ذکر کے اسی وسیع مفہوم کو ذہن میں رکھیں اور سورہ الرعد کی ٢٨ آیت کو دیکھیں کہ کس قدر تاکید سے رب العزت یہ بتا رہے ہیں کہ ذکر کے ثمرات میں سے ایک لازمی پھل سکون و اطمینان ہے
.
جو لوگ ایمان ﻻئے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے 
.
توجہ دیں کہ کس قدر زور دے کر یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ ذکر کا لازمی نتیجہ سکون و اطمینان ہے
.
قران حکیم کے بیان سے یہ بھی واضح ہے کہ اللہ عزوجل جب مومنین پر اپنا خاص رحم کرتے ہیں اور کسی دشمن یا مشکل صورت سے خلاصی دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان پر سکینت یعنی سکون نازل فرماتے ہیں. سکینت کا لفظ قران پاک میں کئی مقامات پر مذکور ہے. اس ضمن میں آیات ملاحظہ ہوں
.
وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون (اور اطیمنان) ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں، اور آسمانوں اور زمین کے ﴿کل﴾ لشکر اللہ ہی کے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ دانا باحکمت ہے' - سورہ الفتح ٤
.
یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وه درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی'  - سورہ الفتح ١٨
.
جب کہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں حمیت کو جگہ دی اور حمیت بھی جاہلیت کی، سو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تقوے کی بات پر جمائے رکھا اور وه اس کے اہل اور زیاده مستحق تھے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے' - سورہ الفتح ٢٦
.
؛پھر اللہ نے اپنی طرف کی تسکین اپنے نبی پر اور مومنوں پر اتاری اور اپنے وه لشکر بھیجے جنہیں تم دیکھ نہیں رہے تھے اور کافروں کو پوری سزا دی۔ ان کفار کا یہی بدلہ تھا' - سورہ التوبہ ٢٦
.
اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وه دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں، اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند وعزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے، اللہ غالب ہے حکمت واﻻ ہے' - سورہ التوبہ ٤٠
.
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح سکینت کے نزول کو یہ آیات الله پاک کے مومنین پر خاص کرم کی نشاندہی بتاتی ہیں.
.
یہ ایک عمومی مشاہدہ ہے اور ہر انسان خود میں جھانک کر بھی اسکی گواہی دیتا ہے کہ سکون اور صاف قلب ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں. ایسا ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص سکون سے خالی ہو اور پھر صاف دل حاصل کرسکے. اسی حقیقت کو سامنے رکھیں اور پھر سرا الشعراء کی ٨٨ اور ٨٩ آیت پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہمارے رب آخرت میں کامیاب اشخاص کی تعریف ایک حملہ میں کیسے کر رہے ہیں
.
'جس دن انسان کے نہ مال کام آئے گا نہ اولاد، مگر جو اﷲ کے پاس صاف قلب لے کر آئے گا۔'
.
سورہ فصلت کی چالیسویں آیت میں اسی حقیقت کو کچھ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے
.
بیشک جو لوگ ہماری آیتوں میں کج روی کرتے ہیں وه (کچھ) ہم سے مخفی نہیں، (بتلاؤ تو) جو آگ میں ڈاﻻ جائے وه اچھا ہے یا وه جو امن و امان کے ساتھ قیامت کے دن آئے؟ تم جو چاہو کرتے چلے جاؤ وه تمہارا سب کیا کرایا دیکھ رہا ہے
.
سب سے بڑھ کر سورہ الفجر کی ٢٧ اور ٢٨ آیت میں واضح کر دیا گیا ہے کہ موت کے بعد سکون و اطمینان ہی وہ خوبصورت صفت ہے جو اللہ رب العزت کی رضا کی نمائندہ ہے
.
اے اطمینان والی روح (نفس) تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وه تجھ سے راضی
.
سکون کی ایک سطح تو وہ ہے جو مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی، روایت پسند، فرقہ پرست سب کو حاصل ہو سکتی ہے. آپ کو ایسے بہت سے قانونی مسلم مل جائیں گے جن کی دینی فہم نہایت ناقص ہوگی یہ بھی ممکن ہے کہ وہ طرح طرح کی بدعتوں یا کفریہ اعمال میں مبتلا ہو مگر اس کے باوجود بظاھر پرسکون نظر آئین گے . آپ کو ایسے ہندو سادھو بھی ملیں گے جو تمام تر شرک کے باوجود نہ صرف خود پرسکوں نظر آئیں گے بلکہ اپنے چیلوں کو بھی سکون کے حصول کے طریقے سکھائیں گے. میں ایسے بارہا عیسائی حضرات سے مل شکا ہوں جو اتنے پرسکون نظر آتے ہیں کہ آتے جاتے مسکرا کر سیٹی بجا رہے ہوتے ہیں. وہ آپ کو بتاتے ہیں کہ ان کا یہ سکون 'ہولی اسپرٹ' کی وجہ سے ہے جو ان کے اندر مسیح کی وجہ سے موجود ہے. اسی طرح وہ گروہ جو کسی الہامی پیغام سے عاری ہوتے ہیں جیسے گرو رجنیش اوشو وغیرہ  وہ بھی سکون کو حاصل کرنے کے مراقبہ تجویز کرتے نظر آتے ہیں. سوال یہ ہے کہ اگر سچے ایمان کا پھل سکون ہے تو پھر یہ سکون ہر خاص و عام کو ، ہر سرکش و ناہنجار کو کیسے حاصل ہوجاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سکون حقیقی نہیں عارضی اور کھوکھلا ہوتا ہے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ حقیقی اور غیر حقیقی یا دائمی اور عارضی سکوں میں کیا فرق ہے؟ وہ سکون کیا ہے جس کے دعویدار ہر سو نظر آتے ہیں اور وہ حقیقی سکون کون سا ہے جسے قران و اسلام بیان کرتے ہیں؟ جب ہم انسانی شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں تو منکشف ہوتا ہے کہ انسان جہاں اپنا ایک مستقل عقلی وجود رکھتا ہے وہاں اس کی ذات میں جذبات بھی لازمی طور پر مضمر ہیں.ان دونوں داعیات کا اعتراف کئے بناء انسانی شخصیت کی تفسیر نہیں کی جاسکتی. جب یہ بات سمجھ آگئی تو جان لیں کہ حقیقی سکون دراصل وہ ہے جس میں آپ کا ذہن اور قلب دونوں قرار پکڑ جائیں. یعنی عقلی استدلال اور جذباتی وجدان دونوں راضی ہو جائیں. اگر ان میں سے کوئی ایک بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہے تو یہ سکون حقیقی نہیں فرضی ہے. اب اس تعریف کو ذہن میں رکھ کر سکوں رکھنے والے تمام دعویدار اسخاس یا گروہوں کا جائزہ لیں. جلد ہی آپ پر یہ بات نمایاں ہو جائے گی کہ ایک قلیل تعداد تو انکی ہے جنہوں نے عقلی استدلال اور بحس مباحثہ کو ہی منشاء بنارکھا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر سکون رکھنے کا دعویٰکرتے ہیں جو سراسر عبث ہے. دوسری جانب وہ کثیر تعداد ہے جو اپنے پیروکاروں کو صرف جذباتی اطمینان و سکون کی طرف راغب کرتی ہے. یہی وجہ ہے کہ آپ کو عیسائی، ہندو، کچھ مخصوص مسلم روحانی گروہ ایسے نظر آئیں گے جو صاف الفاظ میں عقل کو روحانیت کا دشمن گردانتے ہیں ، سوالات اٹھانے کو معیوب سمجھتے ہیں اور جدید علوم و تحقیقات کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں. وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے عقلی استدلال کی اجازت دے دی تو عارضی اور مصنوعی سکون جس کا لبادہ انہوں نے اوڑھ رکھا ہے وہ چاک ہو جائے گا.
.
اسکے برعکس قران کا پیغام بلکل جدا ہے. دنیا کے دیگر مذاھب اپنے پیروکاروں کو عقیدے کی افیون پلا کر انکے غور و فکر کی صلاحیت کو سلب کر لیتے ہیں. لیکن قرآن وہ واحد الہامی کلام ہے جو اپنے قاری کو تحقیق و تدبر پر ابھارتا ہے. وہ کہتا ہے ' افلا تعقلون ' (تم عقل کیوں نہیں استعمال کرتے؟) وہ کہتا ہے ' افلا یدبرون' (تم تدبر کیوں نہیں کرتے؟) وہ اس انسان کو انسان ماننے تک سے انکار کرتا ہے جو اپنی عقل استمعال نہ کرے اور ایسے انسان کو بدترین جانور سے تعبیر کرتا ہے جو گونگا بہرہ بھی ہو. وہ دلیل پیش کرتا ہے اور جواب میں دلیل کا تقاضہ کرتا ہے. وہ اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید سے روکتا ہے. وہ کہتا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو انجیل، تورات یا کوئی اور بڑی دلیل پیش کرو. وہ مکالمے کی فضا کو فروغ دیتا ہے اور جاہل کو بھی سلام کہہ کر چھوڑ دینے کو کہتا ہے. وہ غیر مذاھب کے خود ساختہ خداؤں کو بھی برا کہنے سے روک دیتا ہے. وہ زمین و آسمان پر غور کرنے کو عبادت بنا دیتا ہے اور تاریخ سے سیکھنے کی ترغیب دیتا ہے. لہٰذا قران کا تعلیم کردہ سکون و اطمینان وہ ہے جو قلب کے ساتھ ذہن کو بھی مطمئن کرتا ہے. .

مجھے امید ہے کہ اپر درج استدلال کو پڑھنے کے بعد آپ کو بھی میری طرح اس سکون کی صفت کی اہمیت کا اندازہ بہتر طور پر ہوا ہوگا. ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ حقیقی سکون مصنوعی سکون سے کس طرح جدا ہے؟ ہمیں الله پاک سے اس نعمت کے حصول کی دعا کرنی چاہیئے اور اس کے لئے حتیٰ الامکان کوشش بھی . الله عزوجل ہر سچے طالب کی طلب کو پورا کرے اور بے طلب کو طلب کی لذت سے روشناس کرے. آمین
.
====عظیم نامہ====

.

Thursday, 5 March 2015

آپ سب مشرک ہیں ، کافر ہیں ، گستاخ رسول ہیں

 نوجوانی میں موسمی اسلام




آپ سب مشرک ہیں ، کافر ہیں ، گستاخ رسول ہیں ، معلوم نہیں کیوں میں آپ کے گھر پیدا ہوگیا .. " ہ " 
==========================================================
.
یہ کہتے ہوئے میری آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں، چہرہ غصہ سے سرخ تھا اور آواز میں کپکپاہٹ .. سامنے میرے والد اور بڑے بھائی خاموش بیٹھے سن رہے تھے.
.
میری عمر اس وقت سترہ اٹھارہ سال کی تھی. اس عمر میں جیسے اکثر نوجوانوں کو دین سے وقتی یا موسمی لگاؤ ہوجاتا ہے، اسی طرح میں بھی کچھ مہینوں سے اسی لگاؤ میں مبتلا تھا. ہر نماز مسجد جا کر ادا کرتا ، مجھے گھر میں کبھی فرقہ واریت نہیں سکھائی گئی تھی لہٰذا میرے نزدیک مسجد کا مطلب صرف مسجد ہی تھا. کون سا مسلک یا کون سے فرقہ کا سوال مسجد جاتے ہوئے مجھے کبھی پیش نہ آیا تھا. گھر سے نزدیکی مسجد اس مسلک کی تھی جس سے میرے گھرانے کا تعلق نہ تھا مگر جیسا میں نے بیان کیا کہ اس ضمن میں مجھے کبھی شدت نہیں سکھائی گئی تھی ، اسلئے میں بے دھڑک اسی مسجد میں اپنی نمازیں ادا کرتا. ایک روز مغرب کی نماز ختم کر کے باہر جانے لگا تو دیکھا کہ کچھ دینی بھائی حلقہ بنائے بیٹھے ہیں اور ایک بڑی داڑھی والے حضرت انہیں حدیث کی تعلیم کر رہے ہیں. میں بھی یہ سوچ کر ان کے حلقہ میں بیٹھ گیا کہ الله رسول کی باتیں سنوں گا اور اپنی اصلاح کروں گا. ان بھائیوں نے بھی بہت محبت سے جگہ دی. تعلیم شروع ہوئی اور کچھ دیر میں ختم ہوگئی. تعلیم کے بعد ان دعوت دینے والے حضرت نے مجھے کچھ اور نوجوانوں کے ساتھ روک لیا اور مزید دینی باتیں ہونے لگیں. باتوں باتوں میں انہوں نے میرے خاندانی مسلک کا نام لے کر بتایا کہ وہ لوگ کتنے بڑے گستاخ رسول ہیں. انہیں یہ گمان بھی نہیں تھا کہ میرا اپنا تعلق اسی مسلک سے ہے لہٰذا وہ کھل کر بولتے رہے. پھر یہ سلسلہ چل نکلا ، روز مغرب کی تعلیم کے بعد میرے خاندانی مسلک کی گمراہی سب کو سمجھائی جاتی اور ساتھ ہی احادیث بطور ثبوت پیش کی جاتیں. آھستہ آھستہ مجھے اس حقیقت سے نفرت ہونے لگی کہ میں اسی گمراہ مسلک سے وابستہ گھر میں کیوں پیدا ہوگیا ؟ .. سمجھ نہ آتا کہ کیا کروں ؟ ... ادھر میرے گھر میں والد اور بھائی دونوں میرے رویہ کی شدت اور تبدیلی کو بھانپ چکے تھے. اسی ازیت والے دنوں میں ایک روز میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا، مسجد سے گھر آتے ہوئے زار زار روتا تھا ، یہ کہتا تھا کہ الله مجھے ایسے مسلک والے گھر میں کیوں پیدا کردیا ؟ مجھے معاف کردیں .. کافی دیر کے بعد آنسو پونچھے اور گھر پہنچا. گھر پہنچتے ہی والد صاحب نے نرمی سے کہا کہ عظیم مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے. میں چاہ کر بھی منع نہیں کرسکا اور خاموشی سے گردن ہلا دی. والد صاحب اور بڑے بھائی دونوں مجھے لے کر ڈرائنگ روم میں آگئے اور دروازہ بند کردیا گیا. یہ والد صاحب کا خاص طریق تھا کہ جب کسی سے اہم بات کرنا ہوتی تو ہمیشہ بند کمرے میں اکیلے کرتے یا صرف اسے ساتھ رکھتے جو اس گفتگو کا اہل ہو.
.
میں سنجیدہ پتھریلے چہرے کے ساتھ خاموش صوفہ پر بیٹھا تھا. سامنے والد اور بھائی دونوں براجمان تھے اور دونوں کے چہرے پر محبت بھری مسکراہٹ تھی. بڑے بھائی نے خاموشی توڑی .. "عظیم ماشااللہ ، آج کل تو خوب عبادت ہورہی ہے ، درس میں بھی روز جاتے ہو .. کچھ ہمیں بھی سمجھاؤ" ہ
.
میں نے بہت چاہا کہ ضبط کر سکوں مگر پیمانہ اتنا بھرا ہوا تھا کہ اس سادہ سوال پر بھی پوری شدت سے چھلک پڑا. وہ والد جن کے سامنے کبھی اونچی آواز نہ ہوئی تھی ، آج اچانک وہ حجاب اٹھ گیا. میں نے ڈبڈبائی آنکھوں اور غم و غصہ سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا
.
" آپ سب مشرک ہیں ، کافر ہیں ، گستاخ رسول ہیں ، معلوم نہیں کیوں میں آپ کے گھر پیدا ہوگیا" ہ
.
حیرت انگیز طور پر میرے اس تلخ جملہ کا بھائی اور والد پر کوئی منفی اثر نہ ہوا بلکہ بھائی نے پوچھا کہ "اچھا اگر ایسا ہے تو ہمیں بھی بتاؤ تاکہ ہم بھی حق بات کو قبول کرلیں اور گمراہی سے بچ سکیں" ہ
.
اب میں نے ایک ایک کر کے ان تمام عقائد کا پوسٹ مارٹم شروع کیا جو میرے آبائی مسلک میں موجود تھے اور جن کے خلاف مجھے کئی مہینوں سے تعلیم دی گئی تھی. میں ساتھ ہی وہ احادیث بھی روانی سے بیان کرتا جن سے میرے مسلک کی گمراہی ثابت ہوتی تھی. والد اور بھائی دونوں بناء مجھے ٹوکے خاموشی سے پوری توجہ کے ساتھ سنتے رہے. یہاں تک کہ میں بول بول کر تھک گیا.
.
اب والد نے سوال کیا کہ "کیا کچھ اور بھی ہے جو کہنا چاہتے ہو؟" میں نے نفی میں گردن ہلا دی. والد پھر پیار سے مخاطب ہوئے کہ "عظیم اچھا یہ بتاؤ کہ یہ جتنی احادیث تم نے سنائی ہیں ، کیا وہ مستند ہیں؟" ... مجھے جھٹکا لگا ... "مستند سے کیا مراد ہے؟ .. یہ میرے پیارے رسول صلی اللہ و الہے وسلم کے اقوال ہیں" ہ
.
پوچھا "پھر بھی کتاب کا کچھ نام تو ہوگا؟" میں نے کہا "ہاں شاید گلزار مدینہ" .. اب والد اور بھائی نے پیار سے احادیث صحیحہ اور ضعیف و موضوع کا فرق بتانا شروع کیا، یہ بتایا کہ صحاح ستہ کا کیا مقام ہے اور بناء حوالوں کی مسلکی کتابوں میں درج احادیث کا کیا درجہ ہے؟ اسی طرح صحیح بخاری اور صحیح مسلم کیوں علماء میں مقدم تسلیم ہوتی ہیں ؟ .. جب یہ بات کچھ سمجھ آنے لگی تو والد نے ایک ایک کر کے میرے اعتراضات کا جواب دینا شروع کیا ، وہ گاہے بگاہے قران اور صحیح احادیث کی طرف توجہ بھی دلاتے. میرے ذہن میں دھماکے ہورہے تھے. وہ نفرت اور استدلال جو کئی مہینوں سے میرے ذہن میں جگہ بنائے بیٹھا تھا ، وہ کسی ریت کی دیوار کی طرح ڈھ گیا تھا.
.
جب میں پوری طرح قائل ہوگیا تو والد نے پوچھا  کہ "ہاں بیٹا ! جو میں نے کہا ، تم اس سے متفق ہو ؟"  .. میں نے پورے اطمینان سے سر ہلا کر کہا کہ "صد فیصد" ..ہ
.
یہ سن کر والد نے ٹہرے ہوئے لہجہ میں کہا "لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم میری بات پر ایسے یقین نہ کرو ، دیکھو تم کچھ دیر پہلے  اس دینی حلقہ کے پوری طرح قائل تھے اور اب میری بات سے بھی پوری طرح متفق ہوگئے ہو، کیا ہو کہ کل کوئی تیسرا آئے جو ہم سے زیادہ بیان کی قوت رکھتا ہو اور تم اس کے بھی قائل ہو جاؤ ؟  .. اور پھر کیا معلوم کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں ؟ یا میرا مقصد سچ نہیں بلکہ تمھیں خاندانی مسلک میں جکڑ کر رکھنا ہو ؟ یا پھر میرے نتائج ہی سرے سے غلط ہوں  ؟ " ہ
.
 میں بیچارگی سے والد اور بھائی کی جانب دیکھنے لگا جیسے خاموش آنکھوں سے پوچھ رہا ہوں کہ پھرآپ ہی بتا دیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے. والد نے میرے خیال کو بھانپتے ہوئے کہا " بیٹا تمھیں چاہیئے کہ تحقیق کرو، قران حکیم پڑھو ، صحیح بخاری و مسلم کو ازخود دیکھو ، اس پر فیصلہ نہ کرو کہ وہ دینی بھائی کیا کہہ رہے تھے یا تمہارے والد کیا کہہ رہے ہیں، .. بلکہ تحقیق کے رستے سے سچائی کو پاؤ" ہ
.
یہ وہ پہلا بیج تھا جو جانے انجانے میرے والد اور بھائی نے مجھ میں بودیا تھا. وہ چاہتے تو اس دن مجھے اپنی مرضی کے قالب میں ڈھال سکتے تھے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر اسے میرے لئے پسند نہیں کیا. اس نصیحت کا میں حق تو ادا نہیں     کرسکا مگر ہاں آگے چل کر میرا طریق یہی تحققیق بنا ہے جو ایک طالبعلمانہ انداز میں انشااللہ ہمیشہ جاری رہے گی. مجھ پر بعد کی زندگی میں واضح ہوگیا کہ نوجوان اذہان کی اس طرز پر برین واشنگ کسی ایک مسلک کی میراث نہیں بلکہ ہر مسلک و فرقہ اس دوڑ میں آگے آگے ہے. دیوبندی ، بریلوی، سنی، شیعہ کی کوئی تخصیص نہیں. آج میں خود کو صرف مسلم کہنے پر اکتفاء کرتا ہوں، تمام مسالک کے اہل علم سے استفادہ کرنے کا قائل ہوں اور کسی طور اپنی شناخت کے ساتھ کسی فرقہ  کا لیبل لگانے کو آمادہ نہیں
.
====عظیم نامہ====
.

نوٹ: یہ ایک سچا واقعہ ہے جو میرے ساتھ پیش آیا مگرلمبا وقت گزرنے کی وجہ سے الفاظ میں کمی بیشی کا بھرپور احتمال ہے، اس پر اللہ پاک سے معافی کا خواستگار ہوں ، نیز یہ کہ اسے ہرگز کسی مسلک کی پبلسٹی یا مخالفت نہ سمجھا جائے بلکہ جیسا میں نے درج کیا کہ یہ طریقہ واردات ہر مسلک نے ہی اپنا رکھا ہے ہ

Friday, 13 February 2015

اسلامی دنیا کے فلسفی

 
اسلامی دنیا کے فلسفی  




اسلامی دنیا کا پہلا فلسفی اور سائنسدان جس شخص کو قرار دیا جاتا ہے، اسکا علمی نام 'ایران شہری' تھا اور وہ ایران کا رہنے والا تھا. افسوس کے اسکا کوئی بھی فکری کام ہم تک نہ پہنچ پایا لہٰذا یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ فلسفہ اسلام کا حقیقی بانی تھا. نتیجہ یہ ہے کہ پہلے اسلامی فلسفی کا خطاب ابویعقوب الکندی سے منسوب کیا جاتا ہے. الکندی مشائی فلسفے کا بانی تھا اور 'فلسوف العرب' اسکا لقب ہے. الکندی کا فلسفہ افلاطون کی تعلیمات سے مخلوط ہو کر سامنے آتا ہے. الکندی سمیت اس مکتب کے تمام... علماء فلسفی بھی تھے اور سائنسدان بھی. لیکن یہ حقیقت ہے کہ الکندی کا فلسفہ کئی مقامات پر سائنس پر حاوی ہوجاتا ہے. اسکے برعکس البیرونی کے ہاں سائنس فلسفے پر حاوی ہے.

الکندی کے بعد جو قد آور فلسفی آیا وہ الفارابی ہے، اہل دانش اسے 'المعلم انسانی' کے نام سے پکارتے ہیں. الفارابی ارسطو کا شدید مقلد تھا اور اس نے اپنی زندگی زیادہ تر ارسطو کے فلسفہ کی شرح لکھنے میں گزاری. وہ کئی اور علماء کی طرح ارسطو اور افلاطون کی بیان کردہ تعلیم کو وحی الہی سے تعبیر کرتا ہے. الفارابی ریاضی دان، ماہر موسیقی، سائنسدان اور فلسفی کے طور پر معروف رہا.

الفارابی کے کچھ عرصے بعد ابن سینا ایک عظیم شخصیت کے طور پر ابھرے. مورخین ارسطو کو جہاں 'معلم اول' کہتے ہیں، وہاں ابن سینا کو 'المعلم الثانی' کا خطاب دیتے ہیں. ابن سینا کے والدین 'اسماعیلی' فلسفے سے متاثر تھے مگر ابن سینا ان سے متفق نہ ہوۓ. اس ظاہری اختلاف کے باوجود محسوس ہوتا ہے کہ ابن سینا کی سوچ پر 'اسماعیلی' توجیہات کا غلبہ رہا. دوسری جانب وہ الفارابی کی طرح ارسطو کا مقلد تو نہ تھا مگر اس سے متاثر ضرور تھا. مغربی تحقیق نگاروں کی طرح ابن تیمیہ نے بھی ابن سینا کو ایک ایسا فلسفی کہا ہے جس نے محض تقلید نہیں کی بلکہ اسماعیلی نظریات اور ارسطو و افلاطون کے فلسفوں کو مدغم کرکے اپنا ایک مستقل نظام فکر پیش کیا
====عظیم نامہ====

حضرت ابوبکر رض کی نصیحت

حضرت ابوبکر رض کی نصیحت 

حضرت ابوبکر رض نے خلافت منتقل کرنے سے قبل حضرت عمر رض کو چند نصیحتیں کیں. ان میں سے ایک اہم ہدایت یہ بھی تھی کہ نفل اعمال کو کبھی فرائض پر ترجیح نہ دینا. آپ کی یہ نصیحت محض عبادات کے لئے نہیں تھی بلکے ان حکومتی اور انتظامی امور و معاملات کا احاطہ بھی کرتی تھی جو آگے چل کر نئے خلیفہ کو پیش آنے تھے. ہماری زندگیوں میں بھی اکثر یہ المیہ درپیش ہوتا ہے کہ آپ نفل اعمال کی چاہ میں فرائض سے غفلت برت جاتے ہیں. شیخ کے پاؤں دابے جارہے ہیں اور والدین کے لئے وقت ہی نہیں. مسجدوں میں ایرانی قالین بچھا رہے ہیں اور پڑوسی بھوکا سو رہا ہے. فیس بک پر دینی مذاکرے ہورہے ہیں اور صلات کا کوئی ہوش نہیں. ہم اکثر ترجیحات کی تقسیم میں غلطی کر جاتے ہیں. مومن کی اولین ترجیح اپنے رب کا عرفان ہے. اگر ہم حقیقت میں الله کو اپنی ترجیح اول بنالیں تو بس سمجھیں بیڑا پار ہوگیا !
.
 ====عظیم نامہ====

ایمان باالغیب

ایمان باالغیب


ایمان باالغیب اس یقین کا نام ہے جو مشاہدے کے زریعے نہیں بلکہ غوروفکر کے نتیجے میں جڑ پکڑتا ہے. سالک دلائل کا تقابلی موازنہ کرکے ، ایک شعوری سفر کے زریعے کسی شے کے بارے میں علمی راۓ قائم کرتا ہے. یہ راۓ کیونکہ تدبر کا نتیجہ ہوتی ہے اسلیے سالک کو ایک خاص قلبی و ذہنی سکون فراہم کرتی ہے. آسان الفاظ میں کہیں تو صاحب ایمان اس پر پوری طرح قائل ہوجاتا ہے. اب دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ اسکا عمل بھی اسکے ایمان کا عکس بن جاۓ ورنہ ایسا ایمان ہوکر بھی کوئی حقیقی معنی نہیں رکھتا . اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ایمان دار کہلاتا ہے اور نہیں کرتا تو بے ایمان قرار پاتا ہے. یہاں یہ وضاحت دوبارہ کردوں کہ کہ دین کی اس مشہور اصطلاح "ایمان بالغیب" کے معنی بناء دیکھے ایمان لانا ہے، بناء سمجھے ہرگز نہیں.
.
====عظیم نامہ====

انٹرویو اور وہ الله کا بندہ

 انٹرویو اور وہ الله کا بندہ

کچھ عرصہ سے میری کمپنی ایک کمپیوٹر ایکسپرٹ کو تلاش کر رہی ہے مگر سخت معیار ہونے کی وجہ سے انٹرویو پر انٹرویو ہوتے رہے لیکن کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا. کچھ دن پہلے میں نے امیدواروں کے بائیو ڈیٹا کا تفصیلی جائزہ لیا اور ان میں سے زیادہ تجربہ یافتہ افراد کو انٹرویو کیلئے بلا لیا. ان ہی بائیو ڈیٹا کی چھان بین میں ایک ایسا امیدوار بھی نظر میں آیا جس کا تعلق پرتگال سے تھا. اس شخص کے پاس تجربہ اور تعلیم نسبتاً کم تھی. بظاہر ایسی کوئی خاص وجہ نہ تھی کہ اسے انٹرویو پر بلایا جائے مگر ایک بات جو حیرت انگیز تھی وہ یہ کہ اس بائیو ڈیٹا میں بلا کی سچائی سے کام لیا گیا تھا. وہ باتیں جن کا اعتراف کرنا بیوقوفی سمجھا جاتا ہے ، اس شخص نے اسے کھل کر بیان کردیا تھا. سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ شخص سچا ہے یا بیوقوف ؟ میں نے اپنے مینجر اور ایک سینئر کو یہ بائیو ڈیٹا دکھایا تو ان کا بھی یہی حال ہوا. خیر اسی مخمصے میں ہم نے اسے بھی بلانے کا فیصلہ کرلیا.
.
آج انٹرویو کا دن تھا ، جب اس شخص کی باری آئی تو یہ دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ ایک مسلم تھا. گو کے اسکے نام سے یہ ظاہر نہ ہوا تھا. چہرے پر ہلکی داڑھی ، ہونٹوں پر مسکراہٹ اور ماتھے پر نماز کا نشان. پہلی نظر پڑھی تو اس کے لبوں کو ہلتا دیکھا، ایک لمحہ میں سمجھ گیا کہ یہ تسبیحات پڑھ رہا ہے. خیر جناب مجھ سمیت تین افراد نے اس کا انٹرویو شروع کیا (بقیہ دونوں انگریز تھے) ، وہی سچائی جو اس کے بائیو ڈیٹا پر نمایاں تھی آج سامنے مجسم ہو گئی تھی. وہ باتیں جن میں وہ باآسانی جھوٹ بول کر یا بات گھما کر متاثر کرسکتا تھا، اس نے خالص سچ کو مسکرا کر کہہ دیا. صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اس انسان کیلئے سچ بولنا .. نوکری حاصل کرنے سے کہیں زیادہ اہم ہے. ایک گھنٹے کے انٹرویو کے بعد ہم تینوں نے بیک وقت ایک آواز ہو کر یہ تبصرہ کیا کہ یہ کتنا سچا آدمی ہے ! اسکی سچائی کا ایسا اثر دل پر ہوا کہ ہم سب کا فیصلہ اس کے حق میں نکلا اور وہ نوکری جس میں اس سے کہیں زیادہ چالاک و تجربہ کار لوگ کامیاب نہ ہوسکے تھے ، وہ اسے حاصل ہوگئی. آج لاجک فیل ہوتے آنکھوں سے دیکھی، جھوٹ کو پھانسی پر چڑھتا دیکھا اور حق کا رستہ غیب سے بنتا نظر آیا. بس اب انتظار ہے کہ اس الله کے بندے کے ساتھ مل کر میں کام کر سکوں اور انشااللہ اس سے سیکھ سکوں. سبحان الله وبحمدہ سبحان اللہ العظیم


.
====عظیم نامہ====

Sunday, 8 February 2015

سیکھنے کا نسخہ


سیکھنے  کا نسخہ


سیکھنے کی استعداد ازخود بڑھ جاتی ہے جب انسان اپنی سننے کی صلاحیت میں اضافہ کردے. میری مراد یہ نہیں ہے کہ آپ شخصیت پرستی اختیار کرکے ، مخاطب کے ہر قول پر آمننا صدقنا کے مصداق ایمان لےآئیں .. مگر خاموشی سے مخاطب کی بات سنتے رہنا اور اسکے کہے پر کھلے ذہن سے غور کرکے کسی نتیجے کو اخذ کرنا، لازمی طور پر ہماری شخصی تربیت میں معاون ثابت ہوتا ہے. میں دیانتداری سے اعتراف کرتا ہوں کہ جب تک میں خاموشی سے مختلف مکاتب کو سنتا رہا، میرے سیکھنے کا عمل تیز سے تیزتر ہوتا گیا. لیکن جب سے بولنا شروع کردیا تو سیکھنے کی استعداد کم سے کمتر ہوگئی. بولنا اہم ہے مگر سننا اس سے دگنا اہم ہے. الله نے ہمیں ایک منہ اور دو کانوں سے نوازا ہے، ہمیں انکا استمعال بھی اسی تناسب سے کرنا چاہیے.


====عظیم نامہ====