Friday, 13 February 2015

اسلامی دنیا کے فلسفی

 
اسلامی دنیا کے فلسفی  




اسلامی دنیا کا پہلا فلسفی اور سائنسدان جس شخص کو قرار دیا جاتا ہے، اسکا علمی نام 'ایران شہری' تھا اور وہ ایران کا رہنے والا تھا. افسوس کے اسکا کوئی بھی فکری کام ہم تک نہ پہنچ پایا لہٰذا یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ فلسفہ اسلام کا حقیقی بانی تھا. نتیجہ یہ ہے کہ پہلے اسلامی فلسفی کا خطاب ابویعقوب الکندی سے منسوب کیا جاتا ہے. الکندی مشائی فلسفے کا بانی تھا اور 'فلسوف العرب' اسکا لقب ہے. الکندی کا فلسفہ افلاطون کی تعلیمات سے مخلوط ہو کر سامنے آتا ہے. الکندی سمیت اس مکتب کے تمام... علماء فلسفی بھی تھے اور سائنسدان بھی. لیکن یہ حقیقت ہے کہ الکندی کا فلسفہ کئی مقامات پر سائنس پر حاوی ہوجاتا ہے. اسکے برعکس البیرونی کے ہاں سائنس فلسفے پر حاوی ہے.

الکندی کے بعد جو قد آور فلسفی آیا وہ الفارابی ہے، اہل دانش اسے 'المعلم انسانی' کے نام سے پکارتے ہیں. الفارابی ارسطو کا شدید مقلد تھا اور اس نے اپنی زندگی زیادہ تر ارسطو کے فلسفہ کی شرح لکھنے میں گزاری. وہ کئی اور علماء کی طرح ارسطو اور افلاطون کی بیان کردہ تعلیم کو وحی الہی سے تعبیر کرتا ہے. الفارابی ریاضی دان، ماہر موسیقی، سائنسدان اور فلسفی کے طور پر معروف رہا.

الفارابی کے کچھ عرصے بعد ابن سینا ایک عظیم شخصیت کے طور پر ابھرے. مورخین ارسطو کو جہاں 'معلم اول' کہتے ہیں، وہاں ابن سینا کو 'المعلم الثانی' کا خطاب دیتے ہیں. ابن سینا کے والدین 'اسماعیلی' فلسفے سے متاثر تھے مگر ابن سینا ان سے متفق نہ ہوۓ. اس ظاہری اختلاف کے باوجود محسوس ہوتا ہے کہ ابن سینا کی سوچ پر 'اسماعیلی' توجیہات کا غلبہ رہا. دوسری جانب وہ الفارابی کی طرح ارسطو کا مقلد تو نہ تھا مگر اس سے متاثر ضرور تھا. مغربی تحقیق نگاروں کی طرح ابن تیمیہ نے بھی ابن سینا کو ایک ایسا فلسفی کہا ہے جس نے محض تقلید نہیں کی بلکہ اسماعیلی نظریات اور ارسطو و افلاطون کے فلسفوں کو مدغم کرکے اپنا ایک مستقل نظام فکر پیش کیا
====عظیم نامہ====

حضرت ابوبکر رض کی نصیحت

حضرت ابوبکر رض کی نصیحت 

حضرت ابوبکر رض نے خلافت منتقل کرنے سے قبل حضرت عمر رض کو چند نصیحتیں کیں. ان میں سے ایک اہم ہدایت یہ بھی تھی کہ نفل اعمال کو کبھی فرائض پر ترجیح نہ دینا. آپ کی یہ نصیحت محض عبادات کے لئے نہیں تھی بلکے ان حکومتی اور انتظامی امور و معاملات کا احاطہ بھی کرتی تھی جو آگے چل کر نئے خلیفہ کو پیش آنے تھے. ہماری زندگیوں میں بھی اکثر یہ المیہ درپیش ہوتا ہے کہ آپ نفل اعمال کی چاہ میں فرائض سے غفلت برت جاتے ہیں. شیخ کے پاؤں دابے جارہے ہیں اور والدین کے لئے وقت ہی نہیں. مسجدوں میں ایرانی قالین بچھا رہے ہیں اور پڑوسی بھوکا سو رہا ہے. فیس بک پر دینی مذاکرے ہورہے ہیں اور صلات کا کوئی ہوش نہیں. ہم اکثر ترجیحات کی تقسیم میں غلطی کر جاتے ہیں. مومن کی اولین ترجیح اپنے رب کا عرفان ہے. اگر ہم حقیقت میں الله کو اپنی ترجیح اول بنالیں تو بس سمجھیں بیڑا پار ہوگیا !
.
 ====عظیم نامہ====

ایمان باالغیب

ایمان باالغیب


ایمان باالغیب اس یقین کا نام ہے جو مشاہدے کے زریعے نہیں بلکہ غوروفکر کے نتیجے میں جڑ پکڑتا ہے. سالک دلائل کا تقابلی موازنہ کرکے ، ایک شعوری سفر کے زریعے کسی شے کے بارے میں علمی راۓ قائم کرتا ہے. یہ راۓ کیونکہ تدبر کا نتیجہ ہوتی ہے اسلیے سالک کو ایک خاص قلبی و ذہنی سکون فراہم کرتی ہے. آسان الفاظ میں کہیں تو صاحب ایمان اس پر پوری طرح قائل ہوجاتا ہے. اب دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ اسکا عمل بھی اسکے ایمان کا عکس بن جاۓ ورنہ ایسا ایمان ہوکر بھی کوئی حقیقی معنی نہیں رکھتا . اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ایمان دار کہلاتا ہے اور نہیں کرتا تو بے ایمان قرار پاتا ہے. یہاں یہ وضاحت دوبارہ کردوں کہ کہ دین کی اس مشہور اصطلاح "ایمان بالغیب" کے معنی بناء دیکھے ایمان لانا ہے، بناء سمجھے ہرگز نہیں.
.
====عظیم نامہ====

انٹرویو اور وہ الله کا بندہ

 انٹرویو اور وہ الله کا بندہ

کچھ عرصہ سے میری کمپنی ایک کمپیوٹر ایکسپرٹ کو تلاش کر رہی ہے مگر سخت معیار ہونے کی وجہ سے انٹرویو پر انٹرویو ہوتے رہے لیکن کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا. کچھ دن پہلے میں نے امیدواروں کے بائیو ڈیٹا کا تفصیلی جائزہ لیا اور ان میں سے زیادہ تجربہ یافتہ افراد کو انٹرویو کیلئے بلا لیا. ان ہی بائیو ڈیٹا کی چھان بین میں ایک ایسا امیدوار بھی نظر میں آیا جس کا تعلق پرتگال سے تھا. اس شخص کے پاس تجربہ اور تعلیم نسبتاً کم تھی. بظاہر ایسی کوئی خاص وجہ نہ تھی کہ اسے انٹرویو پر بلایا جائے مگر ایک بات جو حیرت انگیز تھی وہ یہ کہ اس بائیو ڈیٹا میں بلا کی سچائی سے کام لیا گیا تھا. وہ باتیں جن کا اعتراف کرنا بیوقوفی سمجھا جاتا ہے ، اس شخص نے اسے کھل کر بیان کردیا تھا. سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ شخص سچا ہے یا بیوقوف ؟ میں نے اپنے مینجر اور ایک سینئر کو یہ بائیو ڈیٹا دکھایا تو ان کا بھی یہی حال ہوا. خیر اسی مخمصے میں ہم نے اسے بھی بلانے کا فیصلہ کرلیا.
.
آج انٹرویو کا دن تھا ، جب اس شخص کی باری آئی تو یہ دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ ایک مسلم تھا. گو کے اسکے نام سے یہ ظاہر نہ ہوا تھا. چہرے پر ہلکی داڑھی ، ہونٹوں پر مسکراہٹ اور ماتھے پر نماز کا نشان. پہلی نظر پڑھی تو اس کے لبوں کو ہلتا دیکھا، ایک لمحہ میں سمجھ گیا کہ یہ تسبیحات پڑھ رہا ہے. خیر جناب مجھ سمیت تین افراد نے اس کا انٹرویو شروع کیا (بقیہ دونوں انگریز تھے) ، وہی سچائی جو اس کے بائیو ڈیٹا پر نمایاں تھی آج سامنے مجسم ہو گئی تھی. وہ باتیں جن میں وہ باآسانی جھوٹ بول کر یا بات گھما کر متاثر کرسکتا تھا، اس نے خالص سچ کو مسکرا کر کہہ دیا. صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اس انسان کیلئے سچ بولنا .. نوکری حاصل کرنے سے کہیں زیادہ اہم ہے. ایک گھنٹے کے انٹرویو کے بعد ہم تینوں نے بیک وقت ایک آواز ہو کر یہ تبصرہ کیا کہ یہ کتنا سچا آدمی ہے ! اسکی سچائی کا ایسا اثر دل پر ہوا کہ ہم سب کا فیصلہ اس کے حق میں نکلا اور وہ نوکری جس میں اس سے کہیں زیادہ چالاک و تجربہ کار لوگ کامیاب نہ ہوسکے تھے ، وہ اسے حاصل ہوگئی. آج لاجک فیل ہوتے آنکھوں سے دیکھی، جھوٹ کو پھانسی پر چڑھتا دیکھا اور حق کا رستہ غیب سے بنتا نظر آیا. بس اب انتظار ہے کہ اس الله کے بندے کے ساتھ مل کر میں کام کر سکوں اور انشااللہ اس سے سیکھ سکوں. سبحان الله وبحمدہ سبحان اللہ العظیم


.
====عظیم نامہ====

Sunday, 8 February 2015

سیکھنے کا نسخہ


سیکھنے  کا نسخہ


سیکھنے کی استعداد ازخود بڑھ جاتی ہے جب انسان اپنی سننے کی صلاحیت میں اضافہ کردے. میری مراد یہ نہیں ہے کہ آپ شخصیت پرستی اختیار کرکے ، مخاطب کے ہر قول پر آمننا صدقنا کے مصداق ایمان لےآئیں .. مگر خاموشی سے مخاطب کی بات سنتے رہنا اور اسکے کہے پر کھلے ذہن سے غور کرکے کسی نتیجے کو اخذ کرنا، لازمی طور پر ہماری شخصی تربیت میں معاون ثابت ہوتا ہے. میں دیانتداری سے اعتراف کرتا ہوں کہ جب تک میں خاموشی سے مختلف مکاتب کو سنتا رہا، میرے سیکھنے کا عمل تیز سے تیزتر ہوتا گیا. لیکن جب سے بولنا شروع کردیا تو سیکھنے کی استعداد کم سے کمتر ہوگئی. بولنا اہم ہے مگر سننا اس سے دگنا اہم ہے. الله نے ہمیں ایک منہ اور دو کانوں سے نوازا ہے، ہمیں انکا استمعال بھی اسی تناسب سے کرنا چاہیے.


====عظیم نامہ====

کیا آپ بھی نفسیاتی مریض تو نہیں ؟



کیا آپ بھی نفسیاتی مریض تو نہیں ؟


کچھ لوگ ذہنی طور پر مفلوج پیدا ہوتے ہیں یا پھر کسی حادثے میں ذہنی مفلوج ہو جاتے ہیں. یہ ذہنی کمزوری انکے چہرے پر نظر آنے لگتی ہے. ہم بعض اوقات ان سے خوف کھاتے ہیں اور انہیں عرف عام میں پاگل کہتے ہیں. یہ درحقیقت ایسے خطرناک نہیں ہوتے بلکہ ہماری اضافی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں. ایک دوسری طرح کے ذہنی بیمار بھی ہوتے ہیں، یہ شکل سے بلکل پاگل نظر نہیں آتے بلکے اکثر علم و شرافت کا لبادہ بھی اوڑھے ہوتے ہیں. ان کے لئے لفظ پاگل نہیں بولا جاتا، بلکہ 'نفسیاتی' کی اصطلاح اختیار کی جاتی ہے. اصل خطرناک یہ نفسیاتی ہوتے ہیں. ان کا المیہ یہ ہے کہ یہ اپنی بیماری کو بیماری نہیں سمجھتے اور نتیجے میں کسی علاج کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے. دنیا سے بھی یہ اکثر اپنی اس ذہنی بیماری کو ظاہری رکھ رکھاؤ سے چھپا لینے میں کامیاب رہتے ہیں. صرف وہ ہی افراد انکی بیماری سے آگاہ ہوتے ہیں جو انکا شکار ہوۓ ہوتے ہیں. ایسی مثالیں آپ کو اپنے عزیز و اقارب سے لیکر فیس بک کی اس دنیا تک بکثرت مل سکتی ہیں. ضروری ہے کہ ہم سب اپنا جائزہ لیتے ہوۓ دوسرے کی راۓ کو اہمیت دیں اور دیکھیں کہ کہیں ہم بھی تو نفسیاتی نہیں

====عظیم نامہ====

Friday, 6 February 2015

سوال پوچھو



سوال پوچھو 



سوال نہ پوچھنے سے سوال ختم نہیں ہوتا بلکہ آپ کے لاشعور میں جا دفن ہوتا ہے. لہٰذا سوال پوچھیں، ورنہ شکوک کے گرداب میں دھنستے رہیں گے. دستک دیں گے تو دروازہ کھلے گا، سوال پوچھیں گے تو جواب حاصل ہوگا. سوال پوچھیں گے نہیں تو جواب کہاں سے حاصل ہوگا ؟ یہ اور بات کہ زبان سے سوال پوچھنے والے بہت موجود ہیں مگر زبان حال سے پوچھنے والے شاذ ہی نظر آتے ہیں 

.
====عظیم نامہ====