Friday, 26 September 2014

بدگمانی سے پرہیز کتنا ضروری ہے؟

 

بدگمانی سے پرہیز کتنا ضروری ہے؟

 
 
 
دو سال قبل جب میں نے ایک کمپنی میں ملازمت کی تو وہاں کم و بیش سب ہی خوش مزاج لوگ تھے. مگر ایک انگریز نوجوان ایسا بھی تھا جو اکثر میری بات کا جواب نہیں دیتا، میں اسے آواز دیتا تو بعض اوقات وہ میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا اور کبھی میں مذاق کرتا تو مسکراتا تک نہیں. میرے دل میں یہ بات آگئی کہ کیسا بدمزاج آدمی ہے ، شائد اپنی گوری چمڑی پر نازاں ہے ..... یہاں تک کہ ایک سال یوں ہی گزر گیا ، پھر ایک روز اس نے کسی بات کے دوران مجھے بتایا کہ وہ سماعت سے جزوی طور پر محروم ہے ، اسلئے اکثر لوگوں کی باتیں سن نہیں پاتا. مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا کہ میں کیسے اس سے اتنا عرصہ بدگمان رہا !
.
میرے گھر سے قریبی علاقے میں ایک شخص مجھے اکثر نظر آتا ، وہ ڈبل روٹی یا چپس کھاتا تو کافی سارا کونے میں پھینک دیتا. میں سوچنے لگا کہ کیسا ناشکرا ہے، رزق کی بے حرمتی کرتا ہے، اسے ضائع کردیتا ہے ، اگر نہیں کھانا ہوتا تو تھوڑا لیا کرے. یہی سوچتے ایک روز اس سے آنکھیں چار ہوئی تو اس نے مسکرا کر چمکتی آنکھوں کے ساتھ کہا کہ 'بھائی یہ دیکھو ، یہ میں کیڑوں کو کھانا ڈالتا ہوں ، الله انہیں کیسے رزق دیتا ہے' .. میں ٹھٹھک کر رک گیا ، میں جسے ناشکرا سمجھتا تھا، وہ تو الله کی ناتواں مخلوق کو رزق دینے کا ذریعہ بنا ہوا تھا. ندامت سے میرا سر جھک گیا.
.
یہاں انگلینڈ میں رواج ہے کہ ہمارے دیسی لوگ اپنا نام بدل کر انگریزو جیسا بنا لیتے ہیں. جیسے جمشید بدل کر 'جم' بن جاتا ہے یا تیمور بدل کر ' ٹم ' رہ جاتا ہے وغیرہ .. ایک روز اپنے دوستوں سے ملنے ایک دوسرے علاقے گیا تو وہاں دیکھا کہ سب گورے میرے ایک دوست محمد کو 'مو' کہہ کر بلا رہے ہیں. مجھے شدید تکلیف ہوئی کہ کائنات کے حسین ترین نام کو بدل کر کیسا کرڈالا ؟ صرف اسلئے کہ گوروں سے مناسبت ہو جائے؟ .. اسی خیال کو دل میں دبائے رکھا لیکن کہا نہیں. واپس گھر آگیا. کچھ عرصہ بعد پھر ملاقات ہوئی اسی دوست سے، اس بار نہیں رہا گیا. میں نے کہا محمد تمہارا نام تو سب سے بلند ہے اور تم نے اسے بدل کر 'مو' کر دیا ، ایسا نہ کرو ! ... میری بات سن کر اس نے جواب دیا کہ 'عظیم بھائی ، میں نے ایسا جان کر کیا ہے، جب کام پر ہوتا ہوں تو یہ لوگ غصہ یا مذاق میں مجھے گالیاں دیتے ہیں، میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے نبی کے نام کے ساتھ کوئی نازیبا کلمہ یہ کہیں، لہٰذا میں نے اپنا نام 'مو' لکھوا دیا تاکہ یہ 'مو' کو گالی دیں ، 'محمد' کو نہیں ! ...... یہ سن کر میری حالت ایسی تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں ، میں دہل گیا کہ اگر آج میری ملاقات نہ ہوتی اور میں اس سے یہ نہ پوچھتا تو ساری زندگی میں اپنے اس بھائی کے بارے میں بدگمانی سینے میں دبائے رکھتا. وہ حرکت جسکا کرنا مجھے گستاخی لگتا تھا ، وہ تو حب رسول کا اعلی نمونہ تھی.
.
میں اب جان گیا ہوں، میں اب سمجھ گیا ہوں کہ میری یہ آنکھ مجھے جو بھی دکھائے ، میں کسی کے بارے میں بدگمانی نہیں رکھوں گا ! میرے رب نے اپنی کتاب میں سچ کہا ہے کہ
.
سورہ الحجرات ١٢
''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، گمانوں سے بہت اجتناب کیا کرو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں؛ اور ٹوہ میں نہ لگو
  
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 17 September 2014

ہمارے اس دور میں اہل علم کیوں موجود نہیں ؟

ہمارے اس دور میں اہل علم کیوں موجود نہیں ؟



انسان کی ناقدری کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے گزرے ہوئے سلف کو تو بڑھا چڑھا کر یاد رکھتا ہے مگر اپنے زمانہ موجود میں اہل علم کی قدر نہیں کرتا. میں خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں
.
ڈاکٹر اسرار احمد جیسے مفکر کو پایا
جاوید احمد غامدی جیسے محقق کو پایا

احمد جاوید جیسے صوفی کو پایا 
پروفیسر احمد رفیق جیسے استاد کو پایا
اشفاق احمد جیسے مصنف کو پایا
مولانا طارق جمیل جیسے مبلغ کو پایا
ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے داعی کو پایا
مولانا وحید الدین خان جیسے ناصح کو پایا
.

یہ اور بہت سے دیگر اہل علم ہمارے اسی دور میں اور ہماری زندگی میں وارد ہوئے ہیں کہ جنکے علمی کام کو زمانوں یاد رکھا جائے گا. بدنصیب ہے وہ شخص جو کسی اختلاف یا تفرقہ کی بناء پر ان اشخاص کی قابلیت سے استفادہ حاصل نہ کرے. اس فہرست میں اور بھی کئی نام شامل کئے جاسکتے ہیں، مگر یہ وہ چند استاد الاساتذہ ہیں جن کی دانش سے میں مستفید ہوا ہوں
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 10 September 2014

سبق آموز لطائف

 

سبق آموز لطائف

 
 
ایک صاحب فٹ پاتھ پر سکون سے چلے جارہے تھے کہ اچانک ایک گاڑی تیزی سے فٹ پاتھ پر چڑھ گئی اور صاحب کو ٹکر مار دی. ابھی وہ صاحب زمین سے اٹھے بھی نہ تھے کہ گاڑی کا دروازہ کھلا اور ایک خاتون آگ بگولہ ہوئی باہر نکلیں اور بولی "اندھے ہو گئے ہیں سب کے سب ! صبح سے یہ ساتواں آدمی ہے جو میری گاڑی سے آکر ٹکرایا ہے"
.
میرے لئے یہ محض لطیفہ نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی حقیقت کا بیان ہے. ہمارے ارد گرد ایسے بیشمار لوگ ہوتے ہیں جو کسی حال اپنی غلطی ماننے کو رضامند نہیں ہوتے ، لوگ بار بار انکی کسی... اخلاقی کمی کی جانب اشارہ کرتے ہیں مگر وہ بجائے اپنی اصلاح کرنے کے ، اسی گردان میں مشغول رہتے ہیں کہ میرا کوئی قصور نہیں باقی سب برے ہیں. یہاں فیس بک پر بھی معاملہ مختلف نہیں، آپ کو ایسے احباب بآسانی میسر آجائیں گے جنہیں ہر دوسرے تیسرے ہفتے یہ شکایت ہوتی ہے کہ فلاں نے مجھے بلاک کردیا جبکہ میری کوئی بھی غلطی نہ تھی. وہ اس بات پر نظرثانی کرنے کو قطعاً تیار نہیں ہوتے کہ ان کا لہجہ یا الفاظ کا غلط انتخاب اسکی وجہ ہوسکتا ہے. پھر اس پر طرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اسے حق گوئی سے تعبیر کرنے لگتے ہیں. یہ ان حضرات کا پسندیدہ جملہ ہوتا ہے کہ 'سچ کڑوا ہوتا ہے' .. کاش کے انہیں کوئی سمجھائے کہ کڑوا اکثر سچ نہیں ہوتا ، بلکہ کڑوا اکثر آپ کا لہجہ یا الفاظ کا انتخاب ہوتا ہے
 
============
 
============ 
ایک شخص اکثر کہتا میں غلیل بناؤں گا اور چڑیا ماروں گا .
میں غلیل بناؤں گا اور چڑیا ماروں گا .
.
ایک دن اسکو پاگلوں کے ڈاکٹر . کے پاس لے گئے ؟
اس کا علاج ہوا اور وہ ٹھیک ہو گیا . ...
.
پھر اس سے ڈاکٹر . نے پوچھا : اب جا کے کیا کرو گے ؟
اس نے کہا : میں سب سے پہلے شادی کروں گا .
ڈاکٹر . نے کہا : بہت اچھا پھر ؟
میرے بچے ہونگے .
ڈاکٹر . : گڈ پھر ؟
ان کی برتھ ڈے پر اچھی سی نیکر اور شرٹ لا کر دونگا .
ڈاکٹر . : فائن پھر ؟
انکی نیکر سے لاسٹک نکالوں گا پھر غلیل بناؤں گا اور چڑیا ماروں گا
.
ذرا غور کریں تو ہماری حکومتی پالیسیوں کا آج تک یہی حال رہا ہے کہ لاسٹک نکالوں گا پھر غلیل بناؤں گا اور چڑیا ماروں گا
 
====عظیم نامہ====

Wednesday, 3 September 2014

فرقہ پرستی کے خاتمے کا آزمودہ نسخہ


فرقہ پرستی کے خاتمے کا آزمودہ نسخہ




آج سے کم و بیش دو ڈھائی برس قبل ، دو تین دوستوں کے کہنے پر ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اسکائپ پر روز جمع ہوں اور قران حکیم پر مل کر تفکر کریں. ایک دوسرے سے کسی بات پر متفق ہوں نہ ہوں مگر پھر بھی خوش اسلوبی سے سب کو سنا جائے اور کسی قسم کے تفرقہ کو موضوع بننے نہ دیا جائے. قران حکیم ہی وہ کتاب ہے جس کی سند و اہمیت ہر مسلک و فرقہ کا اجماع ہے. طریقہ یہ رکھا گیا کہ پہلے چند آیات کی تلاوت لگائی جائے ، پھر ایک بھائی اس کا ترجمہ پڑھے اور پھر باری باری سب اس پر اظہار خیال کریں. کیونکہ دوستوں کا تعلق مختف فرقوں اور مسالک سے تھا لہٰذا اسکی مکمل اجازت رکھی گئی کہ ہر ایک اپنے مسلک کے عالم کی تفسیر کو پیش کر سکے. مولانا مودودی، مولانا اصلاحی، ڈاکٹر اسرار، جاوید غامدی صاحب، مولانا تقی عثمانی، مولانا شبیر عثمانی، نعمان علی خان اور دیگر کئی مفسرین و مبلغین کی سمجھ پیش کی جانے لگی. جب کبھی کوئی اختلافی آراء آتی تو یہ کہہ کر بات کو فوری سمیٹ دیا جاتا کہ "یہ علماء کی اختلافی رائے ہیں ، آپ سب خود غور کر کے اپنی سمجھ قائم کریں" یوں پیار محبت سے یہ سلسلہ جاری ہوگیا

.
رفتہ رفتہ دوستوں کی دلچسپی اور تعداد بڑھنے لگی. تین چار افراد سے دس، دس سے بیس اور بیس سے چالیس. نئے آنے والوں کے لئے اس بات کا بار بار اعلان کیا جاتا کہ ہم میں سے نہ کوئی عالم ہے، نہ فاضل، نہ ہی کوئی مستند تحقیق نگار اور اگر اردو میں کوئی لفظ ہمارا تعارف فراہم کرسکتا ہے تو وہ ہے لفظ "طالبعلم". ہم دین اور قران حکیم کے معمولی طالبعلم ہیں جن سے سمجھ میں غلطی ہو سکتی ہے. جہاں کوئی مشکل پیش آتی تو کسی مقامی عالم سے جاکر پوچھ لیتے. اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ کوئی گدی نشینی نہ ہو، یعنی سب کو بولنے کا نہ صرف حق ہو بلکہ ایسا کرنے پر اسکی حوصلہ افزائی کی جائے. ترجمہ بھی ہر بار مختلف شخص پڑھے تاکہ عملی شمولیت کا احساس سب کو رہے. قران مجید کے اس مسلسل مطالعہ کا اثر تمام دوستوں پر نظر آنے لگا، جو نماز نہ پڑھتا تھا وہ نمازی ہوگیا، جو صدقہ میں کنجوس تھا اسکا ہاتھ فراخ ہوگیا، حقوق العباد ترجیح بن گئے، الله رسول کی محبت دلوں میں گھر کرنے لگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تفرقہ کی سوچ کا خاتمہ ہوگیا. اب نہ کوئی سنی تھا نہ شیعہ، نہ دیوبندی نہ بریلوی، نہ صوفی اور نہ کوئی اہل حدیث. سب نے خود کو صرف مسلمان کہنے پر اکتفاء کرلیا. اختلافات گھٹ کر علمی رائے میں تبدیل ہوگئے اور برداشت پیدا ہونے لگی. دوستوں کی یہ محفل چونکہ مختلف شعبوں سے وابستہ پڑھے لکھے افراد پر مشتمل تھی لہٰذا ایمان و عمل کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور مکالمہ کی صلاحیت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوگیا
.
ایسے بہت سے لوگ ہم میں شامل ہو گئے جنہیں ہم نے دیکھ بھی نہ رکھا تھا، لہٰذا یہ فیصلہ کیا کہ مہینہ میں ایک بار سب کسی کے گھر پر اکٹھا ہو جائیں اور آپس میں دین پر گفتگو کریں. دو تین بھائیوں نے مختلف موضوعات جیسے 'قران سے تعلق'، 'تزکیہ نفس'، 'اتحاد امت' وغیرہ پر خوب تحقیق کرکے لیکچر تیار کئے. محفل کا فورمٹ یہ رکھا گیا کہ پہلے ایک بھائی اپنی تحقیق پیش کرے گا اور اس کے بعد باقی بھائی اس سے سوال جواب کریں گے. یہ تجویز بھی نہایت کامیاب ہوئی اور ہر مہینہ اس کا انعقاد کیا جانے لگا. شرط یہ کہ ہر بار کوئی نہ کوئی نیا بھائی موضوع تیار کرے گا اور یوں سب ایک دوسرے سے سیکھیں گے. جلد ہی بڑے بڑے محققین اور علماء ہم سے جڑنے لگے، یہ اہل علم فی سبیل اللہ آتے اور اس امر سے نہایت خوش ہوتے کہ اس محفل میں موجود شرکاء کی ذہنی و علمی قابلیت خاصی بلند ہے. لوگوں کو سارا مہینہ اس محفل کا انتظار رہنے لگا اور لوگوں کی شمولیت اتنی بڑھی کہ ایک بڑا ہال کرائے پر لینا پڑا. اس روایت کو برقرار رکھا گیا کہ ان اہل علم کے ساتھ ساتھ ہر بار کسی نئے دوست کو خطاب کا موقع دیا جائے. اس محفل میں ہر مسلک اور ہر نقطہ نظر کے مقررین اپنی تحقیق پیش کرتے اور حاظرین کھلے ذہن سے اس کو سن کر اپنے سوالات پیش کرتے. دوستوں کی وہ محفل جو کبھی بھانت بھانت کے فرقوں کی مبلغ تھی، آج تفرقہ سے دور اور دین سیکھنے کی جستجو سے سرشار ہو گئی، جہاں وہ مانا جاتا ہے جو قران و سنت کی دلیل سے ثابت ہو اور جہاں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ رائے کا اختلاف رکھ کر بھی آپس میں محبت سے رہا جا سکتا ہے


 اسی طرح اور بھی کئی تجویز اس محفل کے ذریعے روبہ عمل ہوئیں. جیسے خاندانوں کا تعلیم اور تفریح کیلئے جمع ہونا، دوسرے شہروں آباد دوستوں کے پاس جا کر اسی اصلاحی سلسلے کو جاری کرنا، عربی سیکھنے کی مشترکہ کوشش کرنا، صدقات دینے کی مشترکہ کاوش کرنا، ایک دوسرے کو مختلف دنیاوی علوم بھی فری سکھانا جیسے کمپیوٹر کورس وغیرہ

 

.
یہ سلسلہ الحمد الله آج دو سال بعد بھی پوری آب و تاب سے جاری ہے، جہاں ہفتے میں چھ دن ایک گھنٹے سے زائد سکائپ کلاس کا اہتمام کیا جاتا ہے، جہاں سب مسالک کے دوست مل کر مختلف تفاسیر ، ترجموں اور فہم سے غور کرتے ہیں. سوالات پوچھتے ہیں. اسی طرح ہر مہینہ ایک بڑی علمی محفل کا انعقاد ہوتا ہے جہاں مختلف علمی و فکری موضوع زیر بحث آتے ہیں اور بڑے اہل علم کا ساتھ ہوتا ہے. ایک دفع قران ختم کیا جاچکا ہے اور دوسری بار مزید گہرائی سے غور و تدبر جاری ہے. یہ دوست اب صرف دوست نہیں بھائی بن چکے ہیں. ایسی محبت ہے دلوں میں جو کسی بھی دنیاوی فائدے سے بےنیاز ہے اور الله کے قرب سے معمور ہے
 
.
جناب یہ ہے وہ آزمودہ عملی نسخہ جسے ہم نے اختیار کیا اور الله کے فضل کو خود پر برستا پایا. آپ بھی یہ کر سکتے ہیں، چند دوست مل کر روز یا ہفتے میں چند دن قران حکیم پر غور کرنے کیلئے بیٹھیں ، پھر دیکھیں الله پاک آپ کا ہاتھ کیسے تھام لیتے ہیں. الله ہمیں دین سیکھنے کی کوشش کرنے والا بنائے اور ہمارے لئے ہدایت کے دروازوں کو کھول دے. آمین یا رب العالمین
 
.
====عظیم نامہ=====

Monday, 18 August 2014

عمران خان اور پاکستانی سیاست


عمران خان اور پاکستانی سیاست




میں مانتا ہوں کہ عمران خان نے پاؤں پر کلہاڑی نہیں بلکہ کلہاڑی پر پاؤں مار لیا ہے. میں جانتا ہوں کہ سیاسی بصیرت کے حوالے سے عمران نے غلطی پر غلطی کی ہے. مجھے اعتراف ہے کہ میرے نزدیک وہ پہلے خیبر پختون خواہ میں تبدیلی برپا کریں پھر کسی انقلاب کی بات کریں. لیکن اس سب کے باوجود مجھے بھی ان سیاسی احمقوں میں شامل رکھیں جو آج بھی خان صاحب کو اس ملک کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں. مجھے خان جیسا سیاسی بیوقوف قبول ہے مگر زرداری و شریف جیسے وطن فروش نہیں. مجھے سیاسی پینتروں کا ماہر نہیں چاہیئے بلکہ مخلص و دیانتدار قیادت میرا تقاضا ہے


عمران کے ساتھ اور اردگرد اس وقت یقیناً بہت سے گندے انڈے موجود ہیں مگر عمران ہمیشہ سے ایک ڈکٹیٹر رہا ہے. اسے اسکی سوچ اور نظریہ چلاتا ہے. میرے نزدیک اس ملک کو ایک ڈکٹیٹر ہی چاہیئے. جمہوریت پڑھے لکھے معاشروں میں پھلتی پھولتی ہے ، ہمارے جیسے جاہل اور دیمک زدہ معاشروں میں وہ بدترین آمریت ثابت ہوتی ہے. جب تک اس قوم کی خاطر خواہ تربیت نہیں ہو جاتی تب تک اسے ایک مخلص ڈکٹیٹر کی ضرورت رہے گی. مجھے اعتماد ہے کہ خان صاحب کے ساتھ جو بھی کرپٹ شامل ہے وہ کبھی ویسے کھل کر کرپشن نہیں کر پائے گا جیسے ہماری دیگر نمائندہ سیاسی جماعتوں میں اپنا حق سمجھ کر کر پاتا 

عمران کو سمجھنا پہلےکرکٹ میں بھی مشکل تھا اور آج بھی مشکل ہے. آپ اسے خر کہیں یا درویش. مگر آج بھی جدید ذہن والے اسے طالبان خان کہہ کر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور شلوار داڑھی والے اسے ناچ گانے والا زانی کہہ کر طعنے مارتے ہیں. خان کو اسکی فکر نہیں ہوتی کہ کوئی کیا کہتا ہے ؟ وہ بس اپنی دھن کا پکا ہے. جب تعلیم حاصل کی تو آکسفورڈ جیسی یونیورسٹی میں جاپہنچا، جب مغربی چمک دھمک اپنائی تو پوری دنیا کے اخباروں میں شہہ سرخی بنارہا، کرکٹ کھیلی تو اس کھیل کا اونچا ترین لیجنڈ مانا گیا، نمائندگی کی تو کبھی یونائیٹڈ نیشن کا سفیر بنایا گیا تو کبھی یونیورسٹی آف بریڈفور کا چانسلر قرار پایا، فلاحی کام کئے تو پاکستان کا پہلا کینسر ہسپتال بنا ڈالا، تعلیم پھیلانا چاہی تو نمل یونیورسٹی بنادی، سیاست میں آیا تو آج دھاندھلی زدہ الیکشن کے باوجود پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی کا سربراہ بن چکا. اس تمام سفر کی روداد کو پڑھ لیں ، اسے ہمیشہ مجھ جیسوں نے تنقید کا نشانہ بنا کر ہنسی ہی اڑائ ہے. آج بھی وہی کر رہے ہیں. مگر عجب نہیں کہ جلد یا دیر سے خان وہ حاصل کرلے جو اس نے سوچ رکھا ہے. جو یہ سمجھتا ہے کہ عمران شہرت چاہتا ہے تو وہ جان لے کہ جو شہرت عمران کو دنیا بھر میں حاصل ہے اسکا عشر عشیر بھی نواز کے پاس نہیں ہے، جو یہ مانتا ہے کہ وہ اس سب سے پیسہ چاہتا ہے تو وہ جان لے کہ عمران کو پیسے کی نہ پہلے کبھی کمی تھی اور نہ آج ہے، جو یہ سوچتا ہے کہ وہ محض اقتدار کا بھوکا ہے تو وہ پھر جان لے کہ مشرف نے اسے ایک نہیں دو بار وزیر اعظم بنانا چاہا مگر عمران نے اسے ٹھوکر مار دی. خان کو صرف کرسی نہیں وہ اختیار درکار ہے جسکے ذریعے وہ اس پھپھوند زدہ نظام کو مٹا سکے. وہ یہ ٹھان چکا ہے ! وہ یہ ٹھان چکا ہے !


====عظیم نامہ====

اضافی نوٹ

یہ ممی ڈیڈی بچے ان توند نکالے مولویوں سے کہیں بہتر ہیں .. یہ ناچتے ہوئے نوجوان ، ان فتوے باز تکفیریوں سے کہیں اچھے ہیں .. یہ انقلابی بیوقوف ، ان عقلمند تجزیہ کاروں سے کہیں بلند ہیں. میرا دل اور دماغ دونوں عمران کے ساتھ ہے .. گو کے مجھے اندازہ ہے کہ اسے ایک دنیا گالیاں دے رہی ہے ، بیوقوف ضدی بچہ کہہ رہی ہے .. وہ اس نظام کو ٹکریں مار رہا ہے ، وہ ایک بڑی جماعت کھڑی کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے. اسے نظر آرہا ہے کہ اگر اسی نام نہاد لنگڑی لولی جمہوریت پر چلتا رہا تو کبھی بھی یہ زرداری و نواز اسے آنے نہیں دیں گے. یہ ایک نورا کشتی ہے جو سالہا سال سے اس ملک میں جاری ہے، جہاں مقابلہ ہوتا نہیں بلکہ عوام کو دکھایا جاتا ہے. کچھ بھی کہتے رہیں مخالفین .. حقیقت یہ ہے کہ لڑکا کھیل ہی کھیل میں دوسری بڑی جماعت کا سربراہ بن چکا اور آج حکومت کے سر پر خطرہ بنا کھڑا ہے. حقیقت یہ ہے کہ زرداری سے لے کر نواز شریف تک، الطاف حسین سے لے کر فضل الرحمٰن تک، جنگ گروپ سے لے کر افتخار چوہدری تک اور پاک فوج سے لے کر امریکہ بہادر تک سب اس کے خلاف کھڑے ہیں. اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عمران اتنا بیوقوف ہے کہ اسے یہ نہیں اندازہ کہ اس نے ایک دشمنوں کی فوج کھڑی کرلی ہے تو اسکی عقل کو میرا سلام ہے. آج اگر عمران خالی ہاتھ بھی واپس جاتا ہے تب بھی وہ ایک بہت بڑا مقصد حاصل کر چکا اور وہ یہ کہ اب حکومت خوب آگاہ ہے کہ اسے انصاف کرنا ہوگا ، وہ اپنے ماضی کی طرح معاملات کو گھسیٹ نہیں سکتی. اب ایک ایسی جنونی اپوزیشن کی نظر اس پر ہے جو کسی طرح کے مک مکا سے نہیں مانتی. 
.
عظیم الرحمٰن عثمانی

Thursday, 14 August 2014

جشن آزادی مبارک دوستو

جشن آزادی مبارک دوستو 

چودہ اگست ١٩٤٧ کی وہ سرد رات ..
شمال مشرق کی جانب سے ایک نوجوان .. اپنے چہرے پر میلوں کی مساوت کی تھکاوٹ سجائے ہوئے.....
اور بکسوں کی صورت ہاتھوں میں بار گراں اٹھائے ہوئے..
لڑکھڑاتا ڈگمگاتا .. چلا آرہا ہے ..
.
یہ نوجوان اپنی عمر بھر کی پونجی..
دوست، احباب، عزیز، رشتہ دار ..
سب گنوا چکا ہے ..
.
مگر چہرہ پر عجب سی طمانیت ہے .. لبوں پر مسکراہٹ رقصاں ہے .. اور آنکھیں ہیں کہ شکرانہ خدا سے بھیگی جاتی ہیں.. سرزمین خداداد پر پہنچتے ہی گرتا ہے .. اور سجدہ ریز ہوجاتا ہے ..
.
وقت تھم جاتا ہے .. چاروں اطراف خاموشی چھا جاتی ہے .. مگر چشم فلک کو کوئی اچمبا محسوس نہیں ہوتا ..
کیونکہ اس نے ان دنوں ایسے ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں، کروڑوں جیالوں کو ، بچوں کو، بوڑھوں کو، عورتوں کو .. اس سے زیادہ ابتر حالت میں اسی سرزمین پر سجدہ ریز ہوتے دیکھا تھا ..

.
ان تمام کے پاس نہ کھانے کو روٹی تھی، نہ پہننے کو کپڑا، نہ رہنے کو کوئی چھت ..
مگر دل میں اطمینان تھا .. کہ ہاں ! یہی ملک ہمارا سب کچھ ہے اور یہی وطن ہمیں ہمارا سب کچھ دے گا ..
.
آج تشکیل پاکستان کے پورے اڑسٹھ سال بعد ..
جب ہم دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بن چکے ہیں ..
جب ہمارے دفاع و عسکری قوت کو ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا ہے ..
جب ہمیں معدنیات سے مالامال سمجھا جاتا ہے ..
جب ہمارے پاسس بہترین و ذہین اذہان ہیں ...
جب ہماری معیشت کی بحالی کی سینکڑوں صورتیں موجود ہیں ..
.
تب .. دوستو .. تب
.
اٹھارہ کروڑ عوام کی زبان پر ایک ہی گردان جاری ہے ..
"میاں، اس ملک میں کچھ نہیں رکھا ، یہ وطن ہمیں کچھ نہیں دینے کا"
.
چودہ اگست کی اس رات کو ہمارے پاس کچھ نہیں تھا .. مگر سب کچھ تھا ..
اور آج کہنے کو ہمارے پاس بہت کچھ ہے .. لیکن سچ پوچھو تو کچھ بھی نہیں ہے ..
.
ہم نے الله رب العزت کی اس عظیم نعمت کی قدر نہ کی جو ہمیں آزادی کی صورت میں رضا الہی سے حاصل ہوئی .. ہم نے ان قربانیوں کو مدفون کر دیا جو آج بھی کہیں اسی سرزمین کی گود میں دفن ہیں ..
.
ہمارے سامنے آج پھر ایک اور جشن آزادی ہے جو خود غرضی اور استبداد سے کانپ رہا ہے ..
.
آنکھوں میں چھپائے اشکوں کو ..
ہونٹوں پر وفا کے بول لئے ..
اس جشن میں ، میں بھی شامل ہوں !
نوحوں سے بھرا کشکول لئے ..

.
عظیم نامہ

Tuesday, 12 August 2014

یہ عشق کیا ہے ؟ کیا یہ نکما بنا دیتا ہے ؟

 
 
سوال: یہ عشق کیا ہے ؟ کیا یہ نکما بنا دیتا ہے ؟
.


جواب: بھائی دیکھو .. عشق کوئی احسن شے نہیں ہے جسکے حصول کیلئے مجاہدہ کیا جائے. اگر کسی بیماری کی طرح زبردستی لگ جائے تو اور بات وگرنہ عشق ایک غیر متوازن رویہ ہے جس میں انسان خرد و توازن سے بیگانہ ہوکر ایک ہی جانب مرکوز و مبہوت ہوجاتا ہے. دین نے ہمیں محبت کرنا سکھایا ہے، شدید محبت کرنا سکھایا ہے مگر عشق کی تلقین بلکل نہیں کی. محبت میں توازن و حسن ہوتا ہے، یہ ایک ہی وقت میں بہت سے مخاطب بنا لیتی ہے. والدین سے محبت، رب سے محبت، رسول سے محبت، مسلمانو سے محبت، انسانوں سے محبت، بچوں سے محبت وغیرہ. عشق میں معشوق کے سوا سارے رشتے معدوم ہو کر رہ جاتے ہیں جو دین کی منشاء نہیں
.


معشوق اور محبوب میں فرق ہوتا ہے ، عاشق اور محب ہم معنی نہیں .. مجھے اندازہ ہے کہ اگر کسی عشق کے دعویدار کو یہ کہا جائے کہ وہ عاشق نہیں بلکہ محب ہے تو اسے یہ اپنے جذبہ کی توہین لگتی ہے مگر اکثر عاشق محب ہیں عاشق نہیں.

عشق میں دوئی ہوتی ہی نہیں ، وہ تو جنون ہے ، پاگل پن ہے، یکسوئی ہے. اس میں محبوب نظر کے سامنے نہ ہو تو سانس نہیں آتی ، صحت چاہ کر بھی ساتھ نہیں دیتی اور فراق جان لے کر دم لیتا ہے. یہی عشق کا دستور ہے. ہر چہرہ اپنے معشوق کا چہرہ دکھتا ہے اور حالت یہ ہوتی ہے کہ پہلے اردگرد بھول جاتا ہے اور پھر اپنا وجود بھی بھول کر محبوب کا عکس بن جاتا ہے. اسی کیفیت کو صوفیاء فنا فی الوجود سے تعبیر کرتے ہیں. عشق مجازی میں فرق بس اتنا ہے کہ اس میں محبوب خالق نہیں بلکہ ایک انسانی پیکر ہوتا ہے. یہ پنجابی شعر سنو

رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی
سدّو نی مینوں دھیدو رانجھا ، ہیر نہ آکھو کوئی


کہتے ہیں کہ مجنوں نے ایک روز اپنی لیلیٰ کی آمد کا سنا تو اسکی جھلک دیکھنے کے لئے اونٹ سے چھلانگ لگا دی. نتیجہ یہ نکلا کہ زخمی ہو گیا مگر شوق بیتابی میں آگے بڑھتا گیا. اب عقلمند یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس بیوقوف نے چھلانگ کیوں لگائی ؟ آرام سے سلیقے سے اتر آتا تو چوٹ نہ لگتی. لیکن انہیں کون سمجھائے؟ کہ عشق میں انسان ایسے حساب کتاب سے ناآشنا ہوتا ہے. البتہ محبت میں شدید طلب میں بھی عقل کا ساتھ رہتا ہے

بوعلی سینا کے پاس ایک قریب المرگ لڑکا لایا گیا بوعلی سینا نے ملاحضے کے بعد ایک بندے کو کہا کہ اس شہر میں جتنے محلے ہیں انکا نام لو ، اس نے نام لیا بوعلی سینا نے نبض تھام رکھی تھی پھر ایک محلے پر کہا اسمیں جتنے گھر ہیں انکا نام لو اس نے نام لیا ایک گھر پر کہا کہ اس گھر میں جو افراد ہیں انکا نام لو ، ایک لڑکی کے نام پر کہا اسکی شادی اس سے کردو یہ مریض عشق ہے. یہ ہوتا ہے عشق ۔ نہ بیان ، نہ اقرار ، نہ وصل بس عشق ہی عشق یعنی کے بندہ عین عشق بن جائے کوئی بڑا حکیم ہی پہچان سکے
 

میری دعا ہے کہ الله آپ کے حق میں بہترین راستہ فراہم کریں اور آپ کو اس پر راضی کر دیں آمین. میری اپنی کہانی اگر میں آپ کو سناؤں تو حیران ضرور ہو جائیں ، کوئی پیمانہ تو نانپنے کے لئے نہیں ہے مگر شائد آپ میری کہانی کو زیادہ شدید پائیں مگر اسکے باوجود میں خود محبت کرنے والا سمجھتا ہوں عاشق نہیں
 
====عظیم نامہ====