Tuesday, 4 March 2014

اسلام میں اعداد کا حیرت انگیز استعمال

 

اسلام میں اعداد کا حیرت انگیز استعمال

 
یہ امر حتمی تو نہیں ہے مگر دین اسلام کا عمومی جائزہ لیں تو کچھ اعداد ایسے ہیں جواپنے مقام و مماثلت کے اعتبار سے جائزہ لینے والے کو حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں. انہی میں سے ایک عدد چار ہے. ہم جانتے ہیں کہ الله نے لاتعداد فرشتوں کو پیدا فرمایا ہے لیکن ان میں سے چار کو خصوصی شہرت و مقام دے دیا. یعنی جبرئیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل. ہم جانتے ہیں کہ الله رب العزت نے ہر دور میں رسول بھیجے لیکن ان میں سے چار کو خصوصی مقام مل گیا یعنی ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمّد (الہے سلام اجمعین). ہم واقف ہیں کہ بیشمار صحائف نازل کیے گئے مگر چار کی حتمی شناخت قایم رکھی گئی یعنی تورات، انجیل، زبور اور قرآن. ایک لاکھ سے زائد صحابہ میں سے چار کو امّت میں خاص مقام حاصل ہوا یعنی ابوبکر، عمر، عثمان اور علی (رضی الله اجمعین). مسالک بہت سے بنے مگر عام شہرت اکثریت میں چار کو حاصل ہوئی یعنی حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی. بارہ میں سے چار مہینے فضیلت والے کہلاے یعنی رجب، شعبان، رمضان اور محرم. یہ احساس ہوتا ہے کہ شائد رب العزت کثیر تعداد میں سے چار کا خصوصی انتخاب کرلیتے ہیں. واللہ عالم.


ایک اور عدد چالیس کا ہے. رسول اکرم (ص) کو چالیس برس میں نبوت دی گئی. سورہ بقرہ کی آیت ٥١ کے مطابق موسیٰ الہے سلام کو تورات کے احکام وادی سینا میں چالیس رات کی مدت میں عطا کیے گئے. قرآن میں سوره احقاف کی آیت ١٥ میں واضح اشارہ دیا گیا ہے کہ انسانی ذہن کی مکمل بلوغت کی عمر چالیس برس ہے. سورہ مائدہ کی ٢٦ آیت میں بنی اسرائیل کو چالیس برس کے لئے دربدر ہونے کی سزا سنائی گئی. یوں محسوس ہوتا ہے کہ چالیس کا عدد کسی بھی خاص تربیت کی تکمیل کا دورانیہ بیان کرتا ہے. اسی کا لحاظ کر کے چلّے کی اصطلاح رائج ہوئی ہے.

اسی طرح سات کے عدد کا جائزہ لیں تو قرآن کے بیان کے مطابق سات آسمان ہیں، سات زمینوں کی جانب بھی اشارہ ہے. حج میں کعبہ کے گرد سات طواف کیے جاتے ہیں. صفا اور مروا کے سات چکر مکمل کیے جاتے ہیں. حدیث میں گناہ کبیرہ سات بیان کیے گئے ہیں ، سات جہنم کے دروازے ہیں، سات کنکریاں شیطان کو حج میں ماری جاتی ہیں، عید کی تکبیریں بھی سات ہیں. یہ احساس ہوتا ہے کہ سات کا عدد بیک وقت کثرت اور تکمیل کی طرف اشارہ کرتا ہے. یہی سات کا عدد جب کسی دوسرے عدد سے ملتا ہے تو اس کے ایک معنی کثیر تعداد کے نکلتے ہیں. سات اور تین کو ملا کر تہتر فرقوں کا ذکر آیا ہے کہ امّت مسلمہ آخری وقتوں تک تہتر ٧٣ (سات اور تین) فرقوں میں بٹ جائے گی. یعنی بہت سے فرقے. سات اور دو کو جوڑ کر دیکھیے تو ٧٢ حوروں کی جو حدیث ہے وہ بھی شائد اسی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ بہت سی حوریں.

ایک صحیح حدیث کے مطابق رسول پاک (ص) نے ارشاد فرمایا ہے کہ الله طاق ہے اور طاق اعداد کو پسند فرماتا ہے. شائد یہی وجہ ہے کہ ہم عمومی طور پر طاق تعداد میں وضو کرتے ہیں یعنی تین دفع ہاتھ دھونا، تین بارمنہ صاف کرنا وغیرہ. مغرب کی تین رکعات کے ذریعے ہم دن کی ادا کی ہوئی نمازوں کو طاق عدد کرتے ہیں. پھر عشاء اور قیام الیل کے بعد ایک یا تین یا پانچ رکعات ادا کی جاتی ہیں تاکہ رات کی یہ عبادت بھی طاق ہو جائے.

بات یہیں تک نہیں ہے بلکے قرآن مجید میں بھی ان اعداد کا خاص خیال رکھا گیا ہے جو اس کلام کے الہامی ہونے کی دلیل ہے. قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ الہے سلام کی مثال بلکل حضرت آدم الہے سلام جیسی ہے. حیرت انگیز طور پر دونوں پیغمبروں کا ذکر پچیس پچیس بار آیا ہے. قرآن میں لفظ مرد یعنی 'رجل' کا ذکر چوبیس بار آیا ہے اور عورت یعنی 'امرا' کا ذکر بھی چوبیس بار آیا ہے. قرآن میں شیطان کا ذکر اڑسٹھ ٦٨ بار آیا ہے اور فرشتے کا ذکر بھی اڑسٹھ ٦٨ بار ہی آیا ہے. قرآن اس دنیا کی زندگی کا ایک سو پندرہ ١١٥ بار تذکرہ کرتا ہے اور آخرت کی زندگی کا بھی ایک سو پندرہ ١١٥ بار ذکر کرتا ہے. ہم میں سے ہر ایک بتا سکتا ہے کہ سال میں تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں لیکن سوچنے کہ قرآن دن یعنی یوم لفظ کا استمعال پورے تین سو پینسٹھ بار کرتا ہے. قرآن پاک میں سورہ توبہ کی آخری آیات میں الله عزوجل نے صاف فرما دیا ہے کہ اس نے ہر ایک چیز عدد میں گن رکھی ہے.

واللہ عالم بصواب

====عظیم نامہ====

محمد (ص) کو نبی کیوں تسلیم کروں ؟

 

محمد صلی الله الہے وسلم کو نبی کیوں تسلیم کروں ؟

 
 
 
کوئی شخص نبوت کا جھوٹا دعوا صرف تین صورتوں میں ہی کر سکتا ہے. پہلا کے وہ کردار کے لحاظ سے خود جھوٹا ہو. دوسرا کہ وہ ذہنی حوالے سے دھوکے زدہ ہو. اور تیسرا یہ کے وہ اس دعوے سے کوئی مال و رتبے کا حصول چاہتا ہو. جب ہم محمد (ص) کی حیات کہ جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں فوری معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ تینوں الزام آپ (ص) پر نہیں لگ سکتے.
 
پہلا اعتراض
 نبوت سے پہلے ہی تمام اہل مکہ آپ کو اس درجے میں سچا تسلیم کرتے تھے کہ آپ کا لقب ہی صادق اور امین رکھ دیا گیا. لہٰذا تاریخ و منطق کے حساب سے آپ ہرگز جھوٹے نہ تھے.
 
دوسرا اعتراض
جب آپ (ص) کے اکلوتے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو اسی وقت سورج گرہن ہو گیا، صحابہ نے کہا کہ یہ ضرور رسول (ص) کا معجزہ ہے. آپ (ص) نے ارشاد فرمایا کہ نہیں !! سورج گرہن ایک قدرتی مظہر ہے اور اس کا ہونا نہ ہونا کسی کی زندگی موت سے وابستہ نہیں ہے. اگر آپ (ص) کسی ذہنی دھوکے کا شکار ہوتے تو کبھی اس کی تردید نہ فرماتے.
 
تیسرا اعتراض
 یہ بھی سچ ہے کہ جب شدید مشکل کے دور میں سردار مکہ نے یہ پیشکش رکھی کہ وہ آپ کو حکومت دینے، مال و دولت دینے اور خوبصورت عورتیں فراہم کرنے کو تیار ہیں، بس شرط اتنی ہے کہ آپ دعوت دین ترک کر دیں تو آپ (ص) نے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی لا رکھو تو میں کلمہ حق کہنے سے باز نہ آؤں گا. جب آخر میں حکومت، شہرت اور طاقت حاصل بھی ہوئی تو آپ نے دانستہ اپنے لیے فقر یعنی غربت کا انتخاب کیا تاکہ کل کوئی انگلی اٹھا کر یہ نہ کہہ سکے کہ آپ (ص) نے دین کی محنت مال و رتبے کے لیے کی. جو کوئی دیانت داری سے آپ کی زندگی کا جائزہ لےگا وہ آپ (ص) کی حقانیت کو ضرور جان لے گا.


تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں بہت سے افراد نے نبوت کا جھوٹا دعوا کیا اور کچھ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے میں بھی کامیاب رہے مگر رسالت کا جھوٹا دعوا کوئی نہ کر پایا. وجہ یہ ہے کہ رسول صرف پچھلے پیغمبروں کی تائید ہی نہیں کرتا بلکے ایک الہامی کتاب بھی پیش کرتا ہےکسی صحیفے یا کتاب کو خدائی کلام کہنا اتنی بڑی جرات اور ہمت کا کام ہے کہ کوئی فریبی اسکا ارتکاب نہیں کرسکتا. اگر کوئی کر بھی بیٹھے تو کامیاب نہیں ہو سکتا. لہٰذا رسول عربی محمد (ص) کے بعد جتنے بھی افراد دین کی تعبیر لے کر آے انہوں نے یا تو نبوت و رسالت کا دعوا سرے سے کیا ہی نہیں جسے کہ گرو نانک، گرو رجنیش اوشو، سائیں بابا وغیرہ یا پھر اگر دعوا کیا بھی تو رسالت کا نہیں بلکے نبوت کا جھوٹا دعوا کیا جسے کہ مرزا قادیانی، مسلمہ کذاب، بہاالدین بہائی وغیرہ.




====عظیم نامہ====



(Soul/Spirit) کیا روح یا نفس کا کوئی وجود ہے ؟

 

کیا روح یا نفس کا کوئی وجود ہے ؟

 
 
جب میں کہتا ہوں کہ فلاں کام 'میں' نے کیا ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ 'میں' ہے کون ؟؟ ... کیا اس سے مراد میرا جسمانی وجود ہے ؟ اگر ایسا ہے تو کیا ہو جو میرا خدانخواستہ ایکسیڈنٹ ہو جائے اور میں اپنے ہاتھ یا پیر یا آنکھ سے محروم ہو جاؤں ؟ .. سوچنا یہ ہے کہ کیا پھر بھی میں 'میں' رہوں گا ؟؟ ... جواب ہے کہ بلکل رہونگا. میرے کسی حصے کے جسم سے الگ ہوجانے سے میری 'میں' کو کوئی فرق نہیں پڑتا. ثابت ہوا کہ یہ 'میں' میرا جسمانی وجود نہیں ہے بلکے یہ تو اس جسمانی ہیولے کے اندر چھپا کوئی نادیدہ روحانی وجود ہے جو مجھے 'میں' بناتا ہے. ہم اس وجود کا مشاہدہ نہیں کر سکتے لیکن ہماری اصل حقیقت یہی غیبی وجود ہے. اسی وجود کو قران اپنی اصطلاح میں نفس سے تعبیر کرتا ہے.
 

کیا نفس (سول) کا واقعی کوئی وجود ہے ؟ یا ہماری یہ غیبی شخصیت محض ہمارے جسمانی اور کیمیائی اجزاء کی ترتیب کا نتیجہ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو اکثر جدید اذہان کے درمیان موضوع بنتا رہتا ہے. ملحدین کے لئے نفس کو ایک مستقل حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا ناممکن ہے انہیں یہ امر الحاد کی خودکشی کے مترادف نظر آتا ہے. اس عنوان کی تحقیق میں جو سب سے پہلا سوال ذہن پر دستک دیتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا محض اجزاء کی کیمیائی ترکیب سے ایک عاقل ، ذہین اور باشعور وجود کا بن جانا ممکن ہے ؟ اگر کوئی کہتا ہے کہ ہاں ممکن ہے تو ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم مردہ انسانی اجزاء کو آپس میں جوڑ کر ایک جیتا جاگتا عاقل وجود کھڑا کر دیں ؟ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ باوجود تمام تر علمی دریافتوں کے، ہم ایک باشعور وجود تو درکنار محض زندگی پیدا کردینے سے بھی قاصر ہیں. یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انسان نے خود بیشمار تخلیقات کی ہیں ، جن میں بہت سی تخلیقات ذہین بھی ہیں جیسے کمپیوٹر یا روبوٹ وغیرہ. مگر ان تمام ذہین تخلیقات میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ کسی تخلیق کو ذہین بنانے کے لئے اس میں ذہانت باہر سے ڈالنی پڑتی ہے. دوسرے لفظوں میں ذہانت کی اپنی جداگانہ حیثیت ہے اور یہ صرف اجزاء کی ترتیب سے ازخود حاصل نہیں ہوسکتی. کمپیوٹر کی مثال لیجنے ، آپ اس کے بیرونی اور اندرونی اجزاء کو جوڑ کر اسے میکانکی حرکت میں تو لاسکتے ہیں مگر اس میں ذہانت ڈالنے کے لئے آپ کو لازمی ایک جدا سافٹ وئیر کو انسٹال کرنے کی ضرورت ہو گی. محض ہارڈ وئیر کو ترتیب دے لینے سے یا اس میں برقی توانائی کے بہاؤ سے آپ 'ذہانت' نہیں پیدا کرسکتے. انسانی جسم کی ترتیب کا بھی یہی معاملہ ہے ، آپ حد سے حد جسمانی و کیمیائی اجزاء کو ہارڈ وئیرکی طرح یکجا کرسکتے ہیں مگر اس میں ذہانت پیدا کرنے کے لئے لازم ہے کہ نفس (سول) نام کا سافٹ وئیر منطبق کیا جاۓ. اسکے علاوہ کسی اور راۓ کا اظہار محض حقیقت سے فرار ہے.

اسکی ایک اور مثال دیکھئے، اگر آپ ٹی وی پر اس وقت اپنا پسندیدہ چینل ملاحظہ کر رہے ہوں اور اچانک آپکا ٹی وی بند ہو جاتا ہے. آپ اٹھ کر اسکا جائزہ لیتے ہیں تو آپ پر منکشف ہوتا ہے کہ اس ٹی وی سیٹ میں تو کوئی سخت تکنیکی خرابی پیدا ہو گئی ہے. اب سوال یہ ہے کہ آپ کے اس ٹی وی سیٹ کے خراب ہو جانے کا کیا یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ آپ کا پسندیدہ چنیل بھی بند ہو گیا ہے ؟ اسکا وجود ختم ہوگیا ہے؟ جواب ہے کہ ہرگز نہیں. وہ تو اس وقت بھی آپ کے کمرے می برقی لہروں کی صورت میں موجود ہے مگر اب آپ کے پاس اس ٹی وی سیٹ کی صورت میں کوئی آلہ ایسا موجود نہیں رہا جو ان لہروں کو قابو کر کے اس کا ایک تصویری خاکہ آپ کو دکھا سکے. اگر آپ بازار سے نیا ٹی وی لے آئیں گے تو یہ چنیل پھر پوری آب و تاب سے نظر آنے لگے گا. ہمارے اس جسمانی وجود کی مثال بھی ایک ایسے ہی ٹی وی سیٹ کی مانند ہے جس سے ہماری روح یا ہماری شخصیت کا اظہار ہوتا ہے. کل جب ہمارا یہ خاکی وجود بیکار ہو جائے گا تو اس سے ہرگز یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارا حقیقی روحانی وجود بھی ختم ہو گیا ہے. کل جب ہمیں ہمارا رب دوبارہ ایک جسم عطا کرے گا تو پھر اس شخصیت کا ویسے ہی شعوری اظہار ہوگا جیسا اس وقت ہے.

====عظیم نامہ====

تمام رسول اور نبی عرب میں ہی کیوں ؟

 

اگر خدا سب کا ہے تو پھر تمام رسول اور نبی عرب میں ہی کیوں بھیجے گئے ؟



 منکرین خدا میں ایک اعتراض خاصہ مقبول ہے اور وہ یہ کہ اگر الہامی مذاھب خدا کی جانب سے نازل کردہ ہیں تو پھر تمام  پیغمبر صرف عرب میں ہی کیوں آے ؟ اس سوال کو اٹھا کر یہ منکرین حسب عادت خود کو بڑا علامہ تصور کرتے ہیں. مگر قران حکیم کا کوئی بھی احقر طالب علم اس سوال کے بودےپن کا سوچ کر بھی مسکرا دیتا ہے. قران واشگاف الفاظ میں متعدد مقامات پر یہ اعلان کرتا ہے کہ الله رب العزت نے ہر دور اور ہر قوم میں اپنے رسول بھیجے. مثال کے طور پر سوره نحل میں کہا گیا کہ "اور ہم نے ہر قوم میں پیغمبر بھیجا کہ الله کی ہی عبادت کرو.." یا پھر سوره ابراہیم میں ارشاد ہے کہ "اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہ اپنی قوم کی زبان میں بولتا تھا .." .. غور کیجیے ، اگر صرف عربی زبان یا جزیرہ العرب میں ہی رسولوں کو بھیجنا مقصود ہوتا تو کبھی یہ الفاظ نہیں کہے جاتے کہ 'اپنی قوم کی زبان میں بولتا تھا' .

قران جہاں رہتی دنیا کے لئے ہدایت ہے وہاں یہ نقطہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسکی براہ راست مخاطب عرب میں بسنے والی وہ اقوام ہیں جو دور نزول میں موجود تھی. لہٰذا یہ بات نہایت سادہ، عقلی اور سمجھ میں آنے والی ہے کہ قران میں صرف ان چند انبیاء کا تفصیلی ذکر ہوا ہے جن سے عرب کسی نہ کسی حوالے سے آگاہ تھے. وگرنہ قران میں کئی ایسے پیغمبروں کے نام مذکور ہیں جنکا علاقہ، قوم یا ملک نہیں بیان کیا گیا جیسے حضرت نوح الہے سلام یا حضرت آدم الہے سلام وغیرہ. ایک مشہور حدیث کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں بھیجے گئے، جن میں سے صرف چند کا ذکر قران میں موجود ہے. یہ سوچنا بھی سراسر حماقت ہے کہ یہ ایک لاکھ سے زائد پیغمبر صرف عرب ہی میں آتے رہے.

مسلم محققین نے ہر دور میں تحقیق کر کے مختلف مشہور اشخاص کے پیغمبر ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے. مثال کے طور پر کچھ تحقیق نگاروں نے عبادات اور تعلیمات کا تقابلی جائزہ لے کر 'زرتشت' کو پیغمبر کہا ہے جو ملک ایران میں آے تھے. اسی طرح مولانا شمس نوید عثمانی نے اپنی گراں قدر تصنیف میں ہندوؤں کے ویدوں کو پرکھہ کر بہت سے علمی ثبوت فراہم کئے ہیں جو اشارہ کرتے ہیں کہ ہندودھرم یا قوم دراصل نوح الہے سلام کی امّت ہیں. ان کےابتدائی صحائف میں ایک عظیم شخصیت کا ذکر آتا ہے جس کا نام 'مانو' ہے ، سنسکرت کے اعتبار سے دراصل یہ نام 'مہا نوح' بنتا ہے یعنی 'عظیم نوح' ! .. یہی نہیں بلکے مہا نوح سے وابستہ ایک پورا واقعہ بھی درج ہے جو ایک عذاب والے سیلاب کے آنے اور کشتی می سوار ہونے کی پوری روداد بیان کرتا ہے. بہرحال یہ تحقیقات چونکہ قران اور تاریخ میں واضح انداز میں موجود نہیں ہیں اس لئے تحقیق کی بنیاد پر صرف علمی قیاس قایم کیا جاسکتا ہے. انہیں حتمی درجہ دینا ممکن نہیں ہے مگر یہ تحقیقات بلند آواز میں اعلان کر رہی ہیں کہ الله عزوجل نے ہر امّت میں ہدایت کے لئے اپنے نبی بھیجے.

واللہ عالم بصواب

====عظیم نامہ====

زلزلے آنے کا مقصد عذاب یا پھر آزمائش؟


زلزلے کیوں آتے ہیں؟ ان کے آنے کا مقصد کیاعذاب دینا ہوتا ہے یا پھر آزمائش؟ 

 یہ وہ سوال ہے جو مسلمانوں میں خاصا مقبول ہے اور مختلف مولانا حضرات اس پر اپنی اپنی سمجھ کے مطابق تبصرہ فرماتے رہتے ہیں. میرے نزدیک زلزلے، طوفان، سیلاب جیسی قدرتی آفات دراصل فطرت کے مظاھر ہیں اور کائناتی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے انہیں ہر صورت آنا ہی آنا ہے. ان کا آنا کسی عذاب یا آزمائش سے مشروط ہرگز نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ زلزلے ان دور دراز سیاروں پر بھی آتے ہیں جہاں زندگی موجود نہیں. سیلاب ان سمندروں کی تہوں میں بھی اٹھتے ہیں جہاں کوئی انسان نہیں بستا. طوفان ان صحراؤں میں بھی آتے ہیں جہاں کوئی زی روح سانس نہیں لیتا.
 یہ اور بات ہے کہ مومن کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ ہر آنے والی آفت یا پریشانی کو چاہے وہ کوئی زلزلہ ہو یا معمولی بخار، ایک آزمائش کی صورت میں دیکھتا ہے تاکہ صبر و شکر کو اپنا سکے. اسے یقین ہوتا ہے کہ اسکا رب زلزلے جیسی فطرتی مظاھر کو اپنی قدرت سے ٹال بھی سکتا ہے اور اسے اس میں مبتلا کرکے آزما بھی سکتا ہے. حضرت علی (رضی الله) سے منسوب ایک قول اسی کی ترجمانی کرتا ہے کہ اگر کوئی تکلیف تجھے خدا سے قریب کردے تو وہ تکلیف نہیں بلکے آزمائش ہے اور اگر کوئی تکلیف تمھیں خدا سے دور کردے تو وہ تکلیف نہیں عذاب ہے.
 رہی بات انبیاء کے ان قصوں کی جن میں نافرمان اقوام کو ان قدرتی آفات کے ذریعے الله نے عذاب میں پکڑ لیا ، وہاں جائزہ لیں تو معاملہ بلکل مختلف ہے. وہاں ایسا نہیں ہوتا کہ کسی بستی پر سیلاب آیا تو اس میں اچھے برے سب پس گئے. بلکہ وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ الله نیک افراد کو بد سے علیحدہ کر دیتا ہے اور انہیں عذاب کے وقت سے قبل اس علاقے سے نکال دیتا ہے جسے نوح اور لوط الہے سلام کا مشھور واقعہ. پھر وہ قدرتی آفات اپنے مقررہ وقت پر آتی ہیں اور
نافرمان بستی کا نام و نشان مٹا دیتی ہیں.




====عظیم نامہ====




پاکستانی قوم کا موجودہ مزاج


پاکستانی قوم کا موجودہ مزاج



سعادت حسن منٹو اردو زبان کے ایک مشہور نثرنگار گزرے ہیں. انکی تحریر میں انفرادی و معاشرتی شہوات کا بہت ذکر ہے. جس کی وجہ سے اہل علم میں ہمیشہ انکی شخصیت متنازع رہی. ایک گروہ انہیں فحش نگار کہہ کر دھتکارتا رہا اور دوسرا گروہ انہیں حقیقت پسندی کہ تاج پہناتا رہا. ایک ادبی تبصرہ نگار کا تجزیہ مجھے انکے بارے میں خاصہ پسند ہے، وہ کہتے ہیں کہ "منٹو نے زندگی کو غسل خانہ کی روزن (کھڑکی) سے دیکھا ہے، لہٰذا اسے جو بھی نظر آتا ہے بناء کپڑوں کے نظر آتا ہے. " .. ہمارے دور حاضر کے بہت سے مفکرین کا یہی حال ہے، وہ زندگی کو بس ایک ہی مایوس زاویے سے دیکھنے کے عادی ہیں. وہ چاہ کر بھی امید کے چراغ نہیں جلا سکتے، بس کسی لٹی ہوئی بیوہ کی طرح ماتم کر سکتے ہیں، کوسنے دے سکتے ہیں، صلواتیں سنا سکتے ہیں. یہ کبھی محقق بن ہی نہیں سکتے، کیونکہ اسکے لئے حالات کو غیر جانبداری سے دیکھنا لازم ہے اور یہ ان کے لئے ممکن نہیں.
 
 
لگتا ہے ہماری قوم مجموئی اعتبار سے اعتدال کی صفت سے خالی ہوچکی ہے. یہاں یا تو حسن نثار جیسے مایوسی کے پیغمبر بیٹھے ہیں یا پھر زید حامد جیسے خوش فہمی کے چیمپئن ! .. یہاں یا تو ایک شخص کو موسیٰ کی مسند پر بیٹھا دیا جاتا ہے یا پھر سیدھا فرعون کا تمغہ دیا جاتا ہے. بیچ کا کوئی امکان ہی نہیں .. یہاں ایسا کوئی تصور نہیں ہے کہ ایک شخص کی بیک وقت کچھ باتیں غلط اور کچھ صحیح تسلیم کی جایئں .. یہاں حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے کا رواج نہیں ہے. یہاں حق و باطل کی کسوٹی انصاف نہیں عقیدت ہے. یہاں اگر آپ نے کسی کو حق کہنا ہے تو اسکے باطل کو بھی حق کہنا ہے، اور اگر کسی کو باطل پکارنا ہے تو اسکے حق کو بھی باطل پکارنا ہے. مختاراں مائی سے لے کر رمشا تک، عافیہ سے لے کر لال مسجد تک اور ملالہ سے لے کر بیت الله محسود تک سب یہی معاملہ ہے.

====عظیم نامہ====

Monday, 3 March 2014

کیا ہم کرسمس، نیو ایر، میلادالنبی، برتھ ڈے مناسکتے ہیں؟


کیا ہم کرسمس، نیو ایر، میلادالنبی، برتھ ڈے مناسکتے ہیں؟



.
 کیا ہم عیسائیوں کو جواب میں ' ہپپی کرسمس' کہہ سکتے ہیں ؟ کیا ہم ایک دوسرے کو 'ہیپی نیو ایر' کہہ سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی سالگرہ کر سکتے ہیں ؟ کیا ہم 'عید میلاد النبی' منا سکتے ہیں ؟ کیا ہم 'جمعہ مبارک' کہہ سکتے ہیں؟ .. یہ وہ سوال ہیں جو مستقل میرے سامنے آتے رہتے ہیں. میں نے چاہا کہ اس ضمن میں حق بات جان لوں مگر الجھن کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا. علماء بدقسمتی سے دو گروہوں میں منقسم ہیں اور دونوں کی راۓ مختلف انتہاؤں کو چھو رہی ہے

ایک گروہ کے مطابق یہ سب سراسر ضلالت اور گمراہی پر مبنی ہے. وہ یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ ایسی مبارکباد دے کر آپ زنا سے بھی بڑا گناہ کرتے ہیں. دوسری راۓ میں یہ سب نہ صرف جائز ہے بلکے احسن عمل ہے اسلیے وہ بعض اوقات اسے ثواب سمجھ کر ادا کرتے ہیں. میری ناقص راۓ میں اگر ہم ان سوالات کا بحیثیت طالبعلم دو زاویوں سے تجزیہ کریں تو بات خاصی واضح ہو جاتی ہے

پہلا زاویہ وہ حدیث ہے جس میں رسول الله صلی الله و الہے وسلم نے فرمایا ہے کہ غیرمسلموں کی مشابہت اختیار کرنے والا مسلم، قیامت کے روز ان ہی کے ساتھ اٹھایا جاۓ گا. اب ظاہر ہے یہ ایک بہت بڑی تنبیہہ ہے، لہٰذا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسی حدیث کو جواز بناکر کسی بھی غیرمسلم تہوار کو منانا تو دور اس کی مبارکباد تک نہیں دیتی. لیکن اگر حدیث کے الفاظ کا ذرا دقت نظر سے جائزہ لیا جاۓ تو بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہاں مراد مذہبی مشابہت ہے ، نہ کہ ثقافتی یا معاشرتی مشابہت ! ورنہ تو آپ کا انگریزی کپڑے پہننا یا چھری کانٹے سے کھانا بھی قابل گرفت قرار پاۓ گا. لہٰذا وہ غیر مسلم تہوار یا معاشرت جسکا براہ راست تعلق انکے مذہب سے ہے جیسے کرسمس یا دیوالی، انہیں منانا تو مسلمانوں کیلئے قطعی جائز نہیں. البتہ اس کی مبارکباد دینا جائز ہے کہ نہیں؟ اسمیں صاحبان علم دو مختلف آراء رکھتے ہیں. غالب ترین اکثریت تو مبارکباد دینے کو بھی حرام قرار دیتی ہے. جب کے کچھ اہل علم کے نزدیک مبارکباد دے دینا کوئی معیوب بات نہیں بلکہ  دعوتی پہلو سے کئی بار مندوب ہے. جو اسکی مخالفت کرتے ہیں وہ اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ کہنے لگتے ہیں کہ 'ہیپی کرسمس' کے الفاظ ادا کرنے سے مراد یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں (معاذ اللہ) اور یہ کہہ کر آپ بھی اسی عقیدے کو اپنا لیتے ہیں. ظاہر ہے کہ ان الفاظ میں ہرگز ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی اور اگر کوئی مسلم اپنے کرسچن دوست کو ہیپی کرسمس کہہ دیتا ہے تو وہ کسی درجے میں یہ نہیں یقین رکھتا کہ خدا نے بیٹا جنا ہے معاذ اللہ ثم معاذ اللہ. یہ الزام ایسا ہی ہے جیسے کوئی عیسآئی اپنے ہم عقیدہ سے کہے کہ عید مبارک کہنے سے آپ مسلمان ہو جاتے ہیں. اب یہاں چونکہ اجتہادی علماء میں اختلاف ہے ، اسلئے اب آپ کا اپنا فیصلہ ہے کہ آپ کس رائے کو دین کے قریب پاتے ہیں. چاہیں تو مبارکباد دینے والی رائے اپنائیں یا پھر ان الفاظ سے مبارکباد نہ دیں. یہاں یہ خیال رہے کہ مبارکباد نہ دینے سے مراد بدتہذیبی کرنا نہیں ہے اور ضروری ہے کہ ہم کچھ ایسے متبادل الفاظ ادا کریں جو مخاطب کو کسی خفت میں مبتلا نہ کریں. ضروری یہ ہے کہ ایک رائے رکھنے والا دوسری رائے رکھنے والے پر چڑھائی نہ کرے.


رہی بات ان تہواروں کی جن کا تعلق کسی مذہب سے براہ راست نہیں بلکے معاشرت سے ہے جیسے سالگرہ یا نیو ائیر ، میرے نزدیک ان کی مبارکباد دے دینا یا بناء کسی حرام کا ارتکاب کیۓ واجبی سا منا لینا ایک اجتہادی مسلہ ہے. آپ اسے اصراف یا کسی اور منفی پہلو کی بنیاد پر نہیں منانا چاہتے تو بلکل نہ منایئے، اسکی مبارکباد نہیں دینا چاھتے تو نہ دیں، مگر یہ فیصلہ آپ کے تقویٰ سے متعلق ہے، فتویٰ سے نہیں.


دوسرا زاویہ یہ ہے کہ رسول پاک صلی الله و الہے کے ایک اور قول کے مطابق دین میں کی گئی ہر بدعت گمراہی اور جہنم کا رستہ ہے. یہاں بھی سب سے پہلے تو یہ سمجھیں کہ اس قول میں صرف ان اعمال کو ایجاد کرنے سے روکا گیا ہے جو عین ' دین ' سمجھ کر اختیار کیۓ جایئں، ورنہ مساجد کے لاؤڈ سپیکر سے لے کر قران پاک کی جدید تدوین تک سب بدعت کے زمرے میں آ جایئں گے. ہمیں بدعت اور مباح کے باریک فرق کو سمجھنا ہوگا. بدعت وہ اعمال ہیں جنکی کوئی بھی سند یا اصل موجود نہ ہو مگر عوام میں انکی شہرت دین کے حوالے سے منسوب ہوجاۓ. اسکی ایک مثال میلادالنبی کو 'عید' سمجھ کر منانا ہے. اب ظاہر ہے اس کی نہ تو کوئی اصل ہے اور نہ ہی کوئی واضح سند لہٰذا راقم کی احقر رائے میں ہمیں اسے عید کہنے یا منانے سے اجتناب کرنا چاہیے. یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں میلاد کا مخالف نہیں بلکہ رسول صلی الله و الہے وسلم کے یوم ولادت پر ایک اضافی خوشی کا احساس ہونا تو ہر مسلم کے دل کی آواز ہے مگر اسکے اظہار کے لئے باونچے اونچے کیک کاٹنا، موسیقی کا استعمال کرنا، رنگ برنگے جلوس نکالنا، بڑے بڑے ماڈل بنانا یا اسے اسلام کی تیسری عید کہنا کوئی پسندیدہ بات نہیں. اس ضمن میں بھی ہمیں اعتدال کی ضرورت ہے.


دوسری طرف وہ حلال اعمال ہیں جن کا من وعن بیان تو قران و سنت میں نہ ملتا ہو مگر اپنے اصل میں وہ تعمیری نوعیت کے ہوں اور انکی ادائیگی امت کیلئے دینی فریضہ نہ بنائی گئی ہو. بدعت اور مباح کے فرق کو ایک سادہ مثال سے سمجھئے. رسول پاک صلی الله علیہ وسلم ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے، اب اگر آپ بھی پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے ہیں تو یہ سنت پر عمل ہے. لیکن فرض کیجیۓ کوئی شخص منگل اور بدھ کا روزہ رکھتا ہے، اب یہ سنت تو نہیں ہے مگر اپنے آپ میں روزے کے حوالے سے ایک احسن اور ' مباح ' عمل ہے جسکی دین میں کوئی ممانعت نہیں. اب ایک اور تیسرا شخص ہے جو کہتا ہے کہ میں بدھ کو اس لیۓ روزہ رکھوں گا کیونکہ بدھ کو روزہ رکھنا فلاں وجہ سے افضل ہے. اب یہ فلاں وجہ وہ ایسی بیان کرتا ہے جس کا نہ قران میں ذکر ہے، نہ وہ سنت سے ثابت ہے اور نہ ہی وہ اجماع صحابہ سے منتقل ہوئی ہے. اب ان صاحب کا اس دن میں روزہ رکھنا تو اپنی اصل میں مباح عمل تھا مگر کیونکہ انہوں نے اب اس دن کو کسی غیر ثابت وجہ سے منسوب کرکے دینی فضیلت کا باعث بنا دیا لہٰذا اب یہ عمل مباح نہیں رہا بلکہ بدعت کی صورت اختیار کر گیا جس کا ترک ضروری ہے. 'مباح اعمال' کے لئے بعض اوقات 'بدعت حسنہ' کی اصطلاح بھی اختیار کی جاتی ہے 


یہ دھیان رہے کہ مذکورہ بالا سطور میری اپنی ناقص طالبعلمانہ فہم کا شاخسانہ ہے ، اس لیۓ اسمیں غلطی کا احتمال شدید ہے. میں دست بدستہ ہر اس قاری سے معافی کا خواستگار ہوں جسے اس تحریر کے کسی بھی حصے سے چوٹ پہنچی ہو.

واللہ اعلم بلصواب

====عظیم نامہ====