Thursday, 22 December 2016

کراچی - میرا بدنصیب شہر



کراچی - میرا بدنصیب شہر


.
"رشوت لیتے پکڑا گیا تھا ، رشوت دے کر چھوٹ گیا"
.
"مجھے یہ خوف نہیں کہ یہ ملک کیسے چلے گا؟ مجھے تو یہ خوف ہے کہ کہیں ایسے ہی نہ چلتا رہے"
.
"یہاں چینی بھی مہنگی ، یہاں آٹا بھی مہنگا ... پر میرے ملک کی دلہن پہنے دس دس لاکھ کا لہنگا"
.
یہ وہ چند جملے ہیں جو پاکستان (کراچی) میں دوران قیام ذہن میں کئی بار گونجتے رہے. ملک سے شدید محبت کے باوجود اس بار ایسی بہت سی ناہمواریاں سامنے آئی جنہیں دیکھ کر دل بجھ سا گیا. اس کی ایک یقینی وجہ شہر کراچی کی دگرگوں صورتحال ہے. یہ وہ بدنصیب شہر ہے جسے اپنوں اور غیروں سب نے مل کر لوٹا ہے، بے آبرو کیا ہے. جب سے شعور کی آنکھ کھولی میں نے ہمیشہ ہی یہ سنا کہ "ملک بہت نازک دور سے گزر رہا ہے اور کراچی کے حالات جتنے آج خراب ہیں اتنے پہلے کبھی نہ تھے." میں نے ان روایتی جملوں کو ہنس کر نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا مگر یقین کیجیئے اس بار اپنے شہر کو جس حالت میں دیکھا ہے وہ اذیت ناک ہے. یہ سچ ہے کہ حالیہ فوجی آپریشن سے امن و امان میں کسی درجے بہتری آئی ہے مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ یہ بہتری جن بیساکھیوں پر کھڑی ہے وہ دیرپا نہیں ہیں. اسلحہ آج بھی اسی طرح سپلائی ہورہا ہے، حکومتی کرپشن آج بھی رگ رگ میں پیوست ہے اور ایجنسیاں آج بھی لاشوں کا دھندہ کررہی ہیں. شہر قائد تباہ ہو رہا ہے. اسکی حالت اس وقت ایک ایسے یتیم کی سی ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں. گٹر ابل رہے ہیں، سڑکیں آخری درجے میں ٹوٹ چکی ہیں، شہر کا ایک بڑا حصہ کچرا کنڈی بن چکا ہے اور لوٹ مار اپنی جگہ جاری ہے. گھر خریدنا اب حلال کمائی سے قریب قریب ناممکن ہے. لوگ ایک ہی گھر کو کئی پورشنز یعنی فلورز میں منقسم کرکے الگ الگ تین چار فیملیز کو بیچ رہے ہیں. یہ قابل اعتراض نہ ہو اگر گھر کا انفراسٹرکچر اس کا متحمل ہوسکے مگر ایسا ہرگز نہیں ہے. نتیجہ یہ کہ پانی سمیت کئی اور مسائل نے جنم لینا شروع کردیا ہے. بجلی کے ساتھ ساتھ کچرا اٹھانے کا ٹھیکہ بھی چائنا کو دے دیا گیا ہے. ایک جانب کچھ خوش گمان اس امر سے خوش ہیں کہ اسی بہانے اب کچرے سے شہر صاف ہوسکے گا. دوسری جانب کچھ دور اندیش اس اندیشے میں ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی مانند اب چائنا پاکستان پر قابض ہوتا جارہا ہے. رکشہ اسکیموں سے روزگار میسر ضرور آیا ہے، عوام کو مناسب قیمت میں سواری بھی مل رہی ہے مگر اتنی بڑی تعداد میں رکشے دے دیئے گئے ہیں کہ اب چاروں طرف ان ہی کا بے ہنگم اژدہام ہے جن سے حادثات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے. 
.
ایم کیو ایم اب تین دھڑوں میں بٹ چکی ہے یعنی ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی. اس سے عوام میں ایک اور کشاکش جاری ہے جو کسی وقت بھی تصادم کی صورت اختیار کرسکتی ہے. تحریک انصاف جو پہلی بار ایم کیو ایم کی مظبوط حریف بن کر ابھری تھی اور جسے مہاجروں کی ایک اچھی تعداد نے سراہنا شروع کردیا تھا. اب عمران خان کی مسلسل سیاسی حماقتوں کی وجہ سے قصہ پارینہ بنتی جارہی ہے. شہر میں عوام کی تفریح کا واحد بڑا ذریعہ ہوٹلنگ یعنی کھانا پینا ہے. مصطفیٰ کمال کے زیر انتظام جو عوامی پارک اور سہولیات بنائی گئی تھیں، ان میں سے اکثر یا تو تباہ ہوچکے یا ہورہے ہیں یا قبضہ گروپوں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں. کراچی کے رہائشی جنہیں اہل زبان کہا جاتا ہے ، آج زبان اردو سے نابلد ہوتے جارہے ہیں. شائد یہی وجہ ہے کہ نوے فیصد سے بھی زیادہ کتب اب کراچی میں نہیں چھپتی. مجھ سے کراچی ہی کے ایک صاحب علم نے زمانے قبل کہا تھا کہ "عظیم اردو ہمارے گھر کی لونڈی ہے، لہٰذا ہم نے اس کے ساتھ سلوک بھی لونڈیوں والا ہی کیا ہے". آج محسوس ہوتا ہے کہ واقعی وہ سچ کہتے تھے. عوامی شعور کا تو ملکی سطح پر  یہ حال ہے کہ بس اسٹاپ، ٹریفک سگنل وغیرہ موجود بھی ہو تو اسکی پاسداری کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں. آپ بل جمع کرانے بینک جائیں یا روٹی نان لینے کیلئے کسی تندور جائیں. - قطار لگانا یا اپنی باری کا انتظار کرنا جیسے ممنوع ہو. کوئی بھی آنے والا بڑی بے شرمی سے خود سے پہلے موجود لوگوں کو ان دیکھا کر کے یہ چاہتا ہے کہ بس اس کا کام سب سے پہلے ہوجائے. بہت سو کیلئے یہ بے غیرتی معیوب نہیں بلکہ قابل فخر ہے. سوچتا ہوں کہ حکومتی ناانصافیوں کا رونا رونے والے اپنا ذاتی عمل کیوں نہیں دیکھتے؟ کیا حق ہے مجھے یا آپ کو ارباب اختیار کو کوسنے کا، جب ہم خود گندگی و ناہمواری پھیلا رہے ہے؟ جس کا جتنا جبڑا ہے وہ اتنی ہی اس ملک و شہر کی بوٹیاں بھنبھوڑ رہا ہے. اس بار گاڑی چلانے کا موقع ملا. بے حسی کا یہ عالم ہے  کہ اگر آپ پارکڈ گاڑی کو ریورس کرنا چاہتے ہے تو سرک پر موجود ہر شخص اپنی آخری سانس تک یہی کوشش کرے گا کہ وہ آپ کو ایسا کرنے نہ دے اور خود اپنی گاڑی نکال لے. 
.
میں آج تک نہیں سمجھ پایا کہ لوگ اتنی غلاظت اور تھوک لاتے کہاں سے ہیں؟ جو ہر جگہ تھوکتے رہتے ہیں؟ کوئی پان اور گٹکا تھوک رہا ہے. تو کوئی بس ایسے ہی شوقیہ تھوک رہا ہے. انہیں گھن نہیں آتی؟ پہلے لوگ بسوں کی کھڑکی سے منہ نکال کر تھوکتے نظر آتے تھے مگر اس بار میں نے کئی ایسی مثالیں مشاہدہ کیں جہاں اچھی بڑی بڑی گاڑیوں میں سے لوگ سڑک پر پیک تھوکتے ہوئے نظر آئے. ایک بار بے ساختہ اپنے بڑے بھائی سے میں نے  کہا کہ آج کل تو شہر میں پیسے والے لوگ بھی ویسے ہی تھوکنے لگے ہیں. بھائی نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ یہ کہو کہ تھوکنے والو کے پاس پیسہ آگیا ہے. کچھ ایسی چیزیں بھی دیکھنے کو ملی جو شاید وطن عزیز کے علاوہ کہیں اور نہ ہوں. میرا انگلینڈ کا ویزا بینک کارڈ پاکستان کے کسی بینک نے پیسہ نکالنے کیلئے قبول نہ کیا. میں ایک کے بعد ایک کوئی چھ سات بینکوں میں گیا اور ان سے دریافت کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ویزا کارڈ جو ساری دنیا کے بینکوں میں بلاتفریق چلتا ہے، وہ ہمارے بینکوں میں نہ چلے. جواب ملا کہ دراصل ہماری 'انٹرنیشنل سیٹلمنٹ' نہیں ہے. ایک اور حیرت انگیز انکشاف اسوقت ہوا جب میں پاؤنڈز کو روپوں میں بدلنے منی ایکسچینج گیا. معلوم ہوا کہ اگر کسی پاؤنڈ نوٹ پر پین کا ذرا سا بھی نشان ہوا تو وہ نوٹ قبول نہیں ہوگا یا کم داموں میں قبول ہوگا. نتیجہ یہ کہ کئی نوٹوں کو کم دام میں کھلوانا پڑا. کپڑے خریدتے وقت اچھی بڑی دکانوں پر دو بار ایسا ہوا کہ جب ایکسٹرا لارج  سائز مانگا تو کہا کہ اس کے پیسے باقی سائزز سے زیادہ ہوں گے. وجہ دریافت کی تو بتایا کہ اس میں کپڑا زیادہ لگتا ہے. سبحان اللہ. 
.
گو درج بالا باتیں تلخ ہیں مگر میری اس تحریر کا مقصد مایوسی کا پرچار نہیں بلکہ اپنے احساسات کو آپ سے بانٹنا ہے. ہم میں سے ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ ہم غلط کو غلط کہیں مگر اس سے بھی پہلے یہ ضروری ہے کہ جس غلط کو صحیح کرسکتے ہوں اسے صحیح کرنے میں اپنا کردار ادا کریں. چاہے وہ کردار کتنی ہی معمولی کیوں نہ محسوس ہو. 
.
دل کو کراچی سمجھ رکھا ہے تم نے؟؟ 
آتے ہو۔۔۔۔۔۔ جلاتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چلے جاتے ہو
.
====عظیم نامہ===

Tuesday, 20 December 2016

اے کعبہ کو جانے والے



اے کعبہ کو جانے والے 


.
عام چلن ہے کہ عمرہ یا حج پر پہلی بار جانے والے احباب کو دیگر مسلمان اپنے واقعات سنا کر بتاتے ہیں کہ انہیں خانہ کعبہ دیکھ کر یا حرم پاک جا کر یا روضہ مبارک کی جالیاں دیکھ کر کیسا محسوس ہوگا؟ دوسرے الفاظ میں وہ اپنے ذاتی تجربات کو بنیاد بناکر اپنےمخاطب کی سوچ سے کچھ توقعات وابستہ کردیتے ہیں.  راقم کی دانست میں ایسا کرنا درست روش نہیں. ہر انسان اپنا ایک جداگانہ شعوری وجود رکھتا ہے اور قطعی لازمی نہیں کہ ایک انسان کا تجربہ دوسرے انسان کے تجربے کے مماثل ہی ہو. لہٰذا اگر کوئی انسان، دوسروں کے تجربات کی بناء پر پہلے سے اپنے لاشعور میں کچھ توقعات سجا لے اور بوقت عمرہ و حج اس کا ذاتی تجربہ ان توقعات سے مختلف نکلے تو فطری نتیجہ یہ ہے کہ وہ ایک روحانی صدمے یا نفسیاتی ہیجان سے دوچار ہو جائے گا. ظاہر ہے کہ ایسی کسی ناخوشگوار کیفیت کا طاری ہونا اس انسان کی حالت عبادت کے پورے تجربے کو متاثر کرے گا. مثال لیجئے کہ آپ پہلی بار عمرہ کو جارہے ہیں اور آپ کا کوئی قریبی دوست آپ کو بتاتا ہے کہ جب اس نے خانہ کعبہ کو پہلی بار دیکھا تو بے اختیار زمین پر گرگیا یا بیہوش ہوگیا یا زار و قطار رونے لگا. ساتھ ہی وہ آپ کو یقین دلاتا ہے کہ آپ کے ساتھ بھی کم و  بیش یہی کیفیت ہونے والی ہے. اب آپ اسی توقع کو سینے سے لگائے  خانہ کعبہ کو ادب و خوف سے پہلی بار دیکھتے ہیں مگر اس دوست جیسی کیفیت سے محروم رہتے ہیں. نہ بیہوش ہوتے ہیں، نہ فرش بوس ہوتے ہیں اور نہ ہی آنکھیں فوری بھیگتی ہیں. یہ وہ لمحہ ہے کہ جب توقعات کے ٹوٹنے سے ایک شدید اضطراب آپ کو گھیر سکتا ہے اور آپ اس لمحے میں موجود اپنی انفرادی روحانی کیفیت کو محسوس کرنے سے محروم ہوسکتے ہیں. وجہ یہی ہے کہ آپ کی نظر تو اپنی حقیقی کیفیت پر تھی ہی نہیں بلکہ آپ کی ساری تلاش اپنی کیفیت میں دوسرے کی کیفیت ڈھونڈھنے میں تھی. کسی دوسرے کا آپ سے پہلے یا آپ سے زیادہ رونا ہرگز اس بات کی دلیل نہیں کہ اس کا تجربہ کامل ہے اور آپ کا ناقص. مجھ احقر کا ماننا ہے کہ اس بارگاہ میں ہر مخلص عبد روحانی تجربات سے گزرتا ہے مگر ان تجربات کی کیفیت یکساں نہیں ہے بلکہ ہر فرد کے مزاج و ضرورت کے مطابق ہے. لہٰذا ضروری ہے کہ نہ تو آپ کسی دوسرے کے کہنے پر توقعات کا محل تعمیر کریں اور نہ ہی کسی نئے جانے والے کو اپنے واقعات اس انداز میں سنائیں کہ اس کا انفرادی تجربہ متاثر ہو. اپنی کیفیات بتانے میں حرج نہیں مگر اس تلقین کے ساتھ کہ ہر فرد کا تجربہ مختلف ہے. 
.
ایک اور روش یہ بھی ہے کہ سارا زور یہ سمجھانے میں لگا دیا جاتا ہے کہ کون سا رکن کیسے ادا کرنا ہے؟ اسکی باریک سے باریک ترین تفصیلات بیان کی جاتی ہیں. کیسے کھڑا ہونا ہے؟، کہاں کھڑا ہونا؟، کتنا فاصلہ رکھنا ہے؟ کس چکر میں کیا پڑھنا ہے؟ وغیرہ وغیرہ. فرائض اور سنتوں کے ساتھ ساتھ مستحبات کی تلقین بھی اس سختی و تاکید سے کی جاتی ہے کہ جانے والے کو فرض و مستحب کی تخصیص ہی سمجھ نہ آتی اور وہ بوقت حاضری خوفزدہ ہوجاتا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی مستحب عمل نہ کیا تو شائد عمرہ و حج  ہی قبول نہ ہو. اس مقام پر کوئی قاری اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ راقم فقہی ضوابط کا منکر ہے. قطعی نہیں بلکہ حج و عمرہ سمیت کسی بھی عبادت کی فقہی تفصیل نہ جاننا تو بڑی حماقت ہے. عرض صرف دو باتیں کرنا چاہتا ہوں. پہلی یہ کہ ان ظاہری قوائد کی غیرضروری باریک تر تفصیل میں نہ جایا جائے اور دوسری یہ کہ ظاہر سے بھی زیادہ اس عظیم عبادت میں مضمر روحانی پہلوؤں کا حصول سیکھایا جائے جو جانے والے کا قلبی تعلق رب کریم سے قائم کردے. کیسی عجیب حقیقت ہے کہ حج و عمرہ کے ظاہری طریق سیکھانے کیلئے تو ان گنت ادارے ہیں اور بیشمار ورکشاپس کا اہتمام موجود ہے مگر طواف و سعی سمیت دیگر مظاہر عبادت کے روحانی پہلو کیا ہیں؟ ان کیفیات کا حصول کیسے ہو؟ کیا سوچنا ہے اور کیا نہیں سوچنا ہے ؟ ایسے سوالات کے کوئی شافی جواب نہیں دیئے جاتے. حد تو ہے کہ جہاں ایک جانب ظاہری طریقے پر سینکڑوں کتب موجود ہیں، وہاں حج و عمرہ میں تزکیہ نفس اور اس سے منسلک روحانیت پر کوئی باقاعدہ کتاب مقبول عام نہیں. صرف ایک ایسی روداد موجود ہے، جسے راقم واقعی اس ضمن میں معاون سمجھتا ہے. وہ کتاب کسی دینی عالم یا صوفی کی نہیں بلکہ معروف یا بدنام مصنف 'ممتاز مفتی' کی تحریر کردہ ہے. کتاب کا نام ہے 'لبیک' اور اس میں ممتاز مفتی صاحب نے اپنی حج کی روداد جس میں ان کے مرشد و دوست قدرت اللہ شہاب ساتھ تھے ، تفصیل سے بیان کی ہے. کوئی ممتاز مفتی صاحب کی ذات و کردار کو کتنا ہی نشانہ کیوں نہ بنائے، میرا ناقص فہم یہی گواہی دیتا ہے کہ اس کتاب کے الفاظ کسی انشاء پرداز کے قلم سے نہیں بلکہ قلب سے نکلے ہوئے ہیں. یہ بلاشبہ ان چند کتب میں شامل ہے جنہیں پڑھ کر میں جانے کتنی بار رویا ہوں. یہ مختصر کتاب آپ پر مصنف کے تجربات تھوپے گی نہیں، یہ کتاب آپ کو شریعت کے مسائل بھی نہیں سمجھائے گی، یہ کتاب آپ کو پارسا بننے کا درس بھی نہیں دے گی مگر یہی کتاب اپنے قاری میں محبت کی ایک چنگاری ضرور سلگا دے گی. ان شاء اللہ
.
میری ہر عمرہ و حج پر جانے والے کو دو ہی نصیحتیں ہوا کرتی ہیں. پہلی یہ کہ وہ جانے سے قبل اس کتاب 'لبیک' کو سکون سے ضرور پڑھے اور دوسرا یہ کہ وہ مندرجہ ذیل جملے کو اپنے دل و دماغ پر ثبت کرلے. جملہ یہ ہے کہ "حضوری اہم ہے ... باقی سب غیر اہم ہے". کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دوران حج و عمرہ آپ ہر وقت خود کو یاد دلاتے رہیں کہ "حضوری اہم ہے ... باقی سب غیر اہم ہے".  اصل حاصل یہی ہے کہ آپ وہاں ہمہ وقت اللہ کے سامنے حضوری کی کیفیت میں رہیں. یقین مانیئے کہ درجہ احسان میں بیان کردہ حضوری کی اس کیفیت کا حصول مکہ و مدینہ میں جتنا ممکن ہے، اتنی کہیں اور ممکن و آسان نہیں. شرط فقط اتنی ہے کہ بندہ حصول کی کوشش کرے. افسوسناک امر یہ ہے کہ عین حج و عمرہ کے درمیان اور عین مکہ و مدینہ کے بیچ آپ کو لوگ ایک دوسرے سے جھگڑتے ہوئے بھی ملیں گے. کسی کو شدید غصہ ہے کہ قطار میں بدنظمی کیوں ہے؟ کوئی سخت ناراض ہے کہ اسے اس کا مطلوبہ کمرہ کیوں نہیں ملا؟ کسی کو شکایت ہے کہ ٹیکسی والے نے پیسے زیادہ کیوں مانگ لئے؟ اور کسی کو شکوہ ہے کہ اسے صحیح سے کھانا کیوں نہ ملا؟ ایسے مواقع بھی ہوتے ہیں جب لوگ دست و گریبان ہونے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور میری گنہگار سماعت نے تو غلیظ گالیاں بھی دیتے ہوئے کسی اللہ کے بندے کو سنا ہے. ان سب کی یہ شکایات یکلخت ختم ہوجائیں اگر یہ اس حقیقت کو جان لیں کہ یہاں تو بس "حضوری اہم ہے ... باقی سب غیر اہم ہے".  اچھا بستر نہیں ملا؟ غیر اہم ہے. مناسب کھانا نہیں ملا؟ غیر اہم ہے. کسی نے دھکا مار دیا؟ غیر اہم ہے. کوئی آپ کا جوتا پہن گیا؟ غیر اہم ہے. اگر کچھ اہم ہے تو صرف حضوری اہم ہے. کچھ صاحبان تقویٰ تو حضوری بھلا کر اس بات پر گفتگو کرتے رہتے ہیں کہ یہ عورتیں اور مرد اتنے اختلاط کیساتھ کیوں طواف کررہے ہیں؟ میں نے تو حضوری کے ساتھ بہت ڈھونڈھا مگر مجھے دوران طواف نہ کوئی ایک عورت نظر آئی اور نہ کوئی ایک مرد .. وہاں تو ہر سو بس عبد اللہ ہی عبد اللہ تھے. شائد کوئی میرے کان میں سرگوشی کر رہا تھا "حضوری اہم ہے ... باقی سب غیر اہم ہے". 
.
====عظیم نامہ====

Friday, 16 December 2016

قادیانیوں سے مکالمہ


قادیانیوں سے مکالمہ


قران حکیم کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ کفار و مشرکین کا رویہ دعوت دین کی جانب استکبار اور استہزاء کا ہوا کرتا تھا. گویا جب رسولوں کے مخاطبین پر بات آخری درجے میں واضح ہوجاتی اور ان کے پاس دلائل کی بنیاد پر نہ ماننے کی وجہ نہ ہوتی، تب وہ استہزاء کا رویہ اپنا لیتے. وہ دلیل کا نہ مطالبہ کرتے اور نہ ہی دلیل پیش کرتے. اب وہ کبھی رسولوں کو تحقیر آمیز نام دیتے، کبھی کردار کشی کرتے، کبھی قہقہوں یا ڈھول تاشوں سے بات کو دبا دیتے، کبھی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے، کبھی طنز و تشنیع کا سہارا لیتے، کبھی جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے، کبھی مذاق اڑاتے اور کبھی گالیاں دیتے. ظاہر ہے ان کا یہ رویہ احقر درجے میں بھی علمی یا اخلاقی نہ تھا. اس کے برعکس قران حکیم نے جو مکالمہ کا طریق سکھایا وہ سراسر دلائل و براہین کی بنیاد پر ہے. قران صرف اپنے مقدمے کے اثبات میں دلائل ہی نہیں دیتا بلکہ وہ اپنے مخاطبین سے دلائل پیش کرنے کا مطالبہ بھی کرتا ہے. وہ کہتا ہے کہ تورات، انجیل یا کوئی اور ثبوت اپنی بات کے حق میں پیش کرو. وہ حکم دیتا ہے کہ خبردار لوگوں کے جھوٹے خداؤں تک کو گالی نہ دینا، وہ سمجھاتا ہے کہ پہلے متفق باتوں پر مجتمع ہونا پھر اختلافی بات پر آنا، وہ نصیحت کرتا ہے کہ انتہائی احسن انداز میں گفتگو کرنا اور اگر کوئی جہالت پر اتر آئے تو اسے سلام کہہ کر یعنی اسکے لئے سلامتی کی دعا کرکے اس سے الگ ہوجانا. یہ وہ مقام ہے جس پر قران اپنے ماننے والوں کو لے کر آتا ہے. گویا وہ ایک مہذب اور صحتمند مکالمہ کی فضاء کو ہموار کرتا ہے. گالیاں دینا، اپنے مخاطب کے پیش کردہ استدلال کو نہ سننا اور مخاطب کی تحقیر کرنا کسی صورت بھی ایک مومن کا طریق نہیں ہوسکتا. یہ انداز تو مشرکین مکہ یا کفار کا ہوا کرتا ہے. 
.
افسوس یہ ہے کہ آج ہم نے بھی دعوت دین کا نام لے کر یہی روش اپنا رکھی ہے. سوشل میڈیا پر دیگر مذاہب یا مخالف مسالک سے بلعموم اور قادیانیوں سے بلخصوص یہی استہزاء کا رویہ اپنایا جاتا ہے. بجائے اس کے کہ انہیں دلائل سے ان کی غلطی سمجھائی جائے، ہم ان کی تضحیک و تحقیر کو اسلام کی خدمت سمجھ بیٹھتے ہیں. ہم مسلمان اس کے قائل ہیں کہ غلام احمد قادیانی اپنے دعوے میں کاذب ہے مگر وہ دین جو جھوٹے خدا کو گالی دینے سے روک رہا ہے، وہ جھوٹے نبی کو گالی دینے کی کیسے اجازت دے سکتا ہے؟ پھر یہ یاد رکھیں کہ آپ جب اپنے مخالف مخاطب کو گالی دیتے ہیں یا اس کے لئے کسی قابل احترم ہستی کو گالی دیتے ہیں تو دراصل آپ خود اپنے ہاتھ سے ممکنہ دعوت کے دروازے پر کنڈی لگادیتے ہیں جو کیا معلوم ؟ کل بارگاہ الہی میں قابل گرفت ہو. جب آپ اپنے مخاطب کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں تو غصہ اور ضد میں آکر وہ اسے بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہوجاتا ہے ، جسے وہ مہذب مکالمے کے ذریعے مان سکتا تھا. ہم یہ جانتے ہیں کہ عیسائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ رسالت کو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ جھوٹا قرار دیتے ہیں تو کیا انہیں بھی یہ اختیار ہونا چاہیئے کہ اپنے ممالک میں ہمارے ساتھ وہی رویہ اختیار کریں جو مسلم جھوٹی نبوت کے قائل ایک قادیانی کے ساتھ اپناتا ہے؟ 
.
مگر افسوس ہمارا معاملہ تو آج یہ ہے کہ ہم انکی عبادت گاہوں کو نعرہ رسالت لگا کر مسمار کرتے ہیں اور خوشی سے پھول جاتے ہیں کہ دین کی خدمت انجام دی گئی ہے. ہماری روش یہ ہے کہ ہم اپنی دکانوں پر یہ لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ یہاں قادیانیوں کا داخلہ ممنوع ہے. اگر ایسا کرکے کوئی سمجھتا ہے کہ قادیانیت کا فتنہ کمزور ہورہا ہے تو یہ پرلے درجے کی غلط فہمی ہے. قادیانیوں پر کسی بھی قسم کی پابندی یا اقدام حکومت کی جانب سے ہی ہونا چاہیئے. فرد اس کا مکلف نہیں کہ وہ جہاں قادیانی دیکھے اس پر چڑھ دوڑے. اصل بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر دوران بحث اپنے نفس کو موٹا کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کا فریضہ انجام پارہا ہے. ہماری نیت انہیں دین کا پیغام پہنچا کر واپس اسلام میں لانے کی ہونی چاہیئے، انہیں شکست دینے کی نہیں. لہٰذا انہیں صریح انداز میں غیر مسلم ہی سمجھیں، حکومتی سطح پر اس کا اہتمام کریں کہ ایک قادیانی خود کو مسلم نہیں بلکہ قادیانی یا احمدی کے نام سے ہی دستاویز میں ظاہر کرنے کا پابند ہو، مگر خدارا ان پر اپنی نفرت سے دعوت کے دروازے بند نہ کریں بلکہ اہل علم سے ان پر بناء تذلیل کیئے دلیل سے بات کی وضاحت کا اہتمام کریں. جس نے جھوٹا دعویٰ کیا تھا وہ موت سے ہمکنار ہوکر اپنی شامت اعمال تک جاپہنچا. آج کئی نسلوں بعد پیدا ہونے والا قادیانی ویسے ہی موروثی طور پر قادیانی ہے جیسے ایک ہندو کے گھر میں پیدا ہونے والا ہندو. جس طرح اور جس انداز میں ایک ہندو، سکھ یا عیسائی ہماری دعوت کا مستحق ہے ویسے ہی مستحق ہماری دانست میں ایک قادیانی بھی ہے.
.
====عظیم نامہ====
.
 
(نوٹ: ہم واقف ہیں کہ یہ ہمارے معاشرے میں ایک ایسا حساس موضوع ہے جو قارئین میں سے کچھ کو ہمارے خلاف بھی مشتعل کرسکتا ہے اور شائد ہم پر تکفیر کا سبب بھی بن سکتا ہے. اسکے باوجود یہ تحریر اس امید کے ساتھ لکھ دی ہے کہ کیا معلوم کچھ اذہان ایسے بھی ہوں جو ہماری اس بات کو سمجھیں اور اپنے رویئے پر نظر ثانی کریں؟)

'خواہش'، 'عقل' اور 'وحی'


 'خواہش'، 'عقل' اور 'وحی'



مومن کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی 'خواہش' پر 'عقل' کو حاکم مانتا ہے اور 'عقل' پر 'وحی' کو نگران تسلیم کرتا ہے. اس کے برعکس ملحد 'عقل' ہی کو معراج سمجھ بیٹھتا ہے. جس طرح آپ کسی ملحد سے یہ دریافت کریں کہ اگر خواہش عقل کے صریح خلاف ہو تو کیا کرنا چاہیئے؟ اس کا عمومی جواب یہی ہوگا کہ ایسی خواہش سے ہر صورت اجتناب کیا جانا چاہیئے. ٹھیک اسی طرح جب کسی مومن سے پوچھا جائے گا کہ اگر عقل کا کوئی فیصلہ وحی کے صریح خلاف نظر آئے تو کیا کرنا چاہیئے؟ اس کا ہر صورت جواب یہی ہوگا کہ ایسی صورت میں بھی وحی کی ہی پیروی کی جائے گی. یہ اور بات کہ دین کے عمومی احکام کبھی عقل و فطرت کی نفی نہیں کرتے. علم اور مشاہدہ دونوں گواہی دیتے ہیں کہ 'عقل' اپنی تمام تر عظمتوں اور حشر سامانیوں کے باوجود محدود ہے اور مسلسل غلطیوں کا بھرپور احتمال رکھتی ہے. دوسری جانب اگر وحی کا من جانب اللہ ہونا کسی عاقل پر ثابت ہوجائے تو پھر اس میں نقص پایا جانا ممکن نہیں لہٰذا ٹھوکر کھانے کا امکان بھی باقی نہیں رہتا. گویا مومن خواہش کو عقل اور عقل کو وحی کے تابع کرکے ایک ایسے مقام پر کھڑا ہوپاتا ہے، جہاں اسے قلبی و عقلی دونوں سکون حاصل ہوتے ہیں.
.
====عظیم نامہ====

'من چلے کا سودا' اور 'غالب'


'منچلے کا سودا' اور 'غالب'



اشفاق احمد صاحب کا تحریر کردہ ڈرامہ 'منچلے کا سودا' اور گلزار صاحب کی پیش کردہ فلم 'غالب' --- میں نہیں جانتا کہ میں کتنی بار دیکھ چکا ہوں اور جانے کتنی ہی بار پھر دیکھنا چاہوں گا. اگر آپ ادبی ذوق کے مالک ہیں یا روحانیت کے اسرار و رموز میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کے باوجود آپ نے یہ دونوں یا ان میں سے ایک شاہکار کو اب تک نہیں دیکھا ہے تو آپ کی اس محرومی پر مجھے افسوس بھی ہے اور تعجب بھی. مجھے تو اس شخص کو بھی صاحب ذوق ماننے میں تردد ہے جس نے انہیں فقط ایک بار دیکھنے پر اکتفاء کرلیا اور باطن میں دوبارہ دیکھنے کی پیاس نہ محسوس کی.

.
====عظیم نامہ====

Thursday, 15 December 2016

ایک بےحس امتی کا احساس


ایک بےحس امتی کا احساس
==================
۔
آج ہمارے تفرقے اور نقاہیت اتفاق نے طاغوت کو اس قدر دلیر بنادیا کہ وہ شطرنج کی بازی کی طرح
کبھی ہمیں آپس میں لڑواتا ہے۔ 
کبھی دھوکے سے مرواتا ہے۔
کبھی امداد سے کتراتا ہے۔
پھر طرح طرح سے ترساتا ہے۔
یعنی دولت بھی ہماری۔
ذلت بھی ہماری۔
کثرت بھی ہماری۔
قلت بھی ہماری۔
کبھی وہ اسرائیل کی زبان میں بولتا ہے۔
کبھی بشارالاسد کا پٹہ کھولتا ہے۔
کبھی فلسطینی بچوں کی چیخیں۔
کبھی کشمیری دلہن کی آہیں۔
کبھی تارکین افغانستان کا مسئلہ۔
کبھی حلب پر بربریت۔
کیا یہ وہی امت امریکہ کے تلوے چاٹ کر اپنی بقاء کی بھیک مانگ رہی ہے جو شہنشاہ دوجہاں کی امت ہے ؟
۔
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گِر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
۔
#حلب
۔
====عظیم نامہ=====

Thursday, 10 November 2016

قوت غضب


قوت غضب



دیگر نعمتوں کی طرح رب العزت کی جانب سے ہمیں عطا کردہ کوئی بھی جذبہ یا صفت اپنی اصل میں منفی نہیں ہے. البتہ اس کا غلط استعمال اسے ضرور منفی بناسکتا ہے. یہاں تک کے وہ جذبات بھی کہ جن کے بارے میں عامیانہ تاثر یہ ہی ہے کہ شائد ان کا انسانی تذکیر و ارتقاء میں کوئی ہاتھ نہیں. ان جذبات کو بھی ذرا دقت نظر سے دیکھیں تو وہ خیر سے مزین نظر آتے ہیں. مثال کے طور پر شہوت کا جذبہ ہر مسلمان بلخصوص نوجوانوں کیلئے ایک بڑا اور مستقل فتنہ بنا رہتا ہے. لیکن اگر شہوت کا جذبہ انسان میں موجود نہ ہو تو نہ ہی وہ بعد از نکاح جنسی تعلق قائم کرسکے اور نہ ہی افزائش نسل ممکن رہے. اسی طرح انسان میں جو قوت غضب ودیعت ہے، اس سے بھی طرح طرح کے فتنے برآمد ہوتے ہیں. ان ہی ممکنہ فتنوں کی بنیاد پر عام صورت میں غصہ کو حرام قرار دیا گیا ہے. مگر کیا ہو کہ یہ قوت غضب کسی انسان میں مفقود ہو جائے؟ اگر ایسا ہو تو اس انسان سے غیرت و حمیت جیسی اونچی صفات کا یکسر خاتمہ ہو جائے گا اور پھر وہ ان مقامات پر بھی غضب یا غصہ کرنے سے قاصر رہے گا جہاں ضروری ہے. الغرض یہ کہ ہر جذبہ اپنی اصل میں خیر ہے. گو ہمیں سمجھ کر اس کا استعمال درست سمت میں کرنا ہے.
.
یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض اوقات ایک جذبے سے پیدا ہونے والے فتنے پر دوسرے جذبے کی مدد سے قابو پایا جاسکے. مثال کے طور پر ناجائز شہوت کی لت کو  چھوڑنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان اپنی قوت غضب کو اس پر حاوی کردے. بلکہ شہوت ہی کیا؟ کوئی بھی ایسا گناہ جو عادت یا لت بن کر چمٹ جائے، اسے چھوڑنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان خود پر غضب ناک ہو اور یک لخت اسے چھوڑ دینے کا تہیہ کرلے. جب جب اس گناہ کا مبہم سا خیال اٹھے تب تب غضب ناک ہو کر اسے جھٹک دے. یاد رکھیں کہ انسان صرف عقلی وجود نہیں ہے بلکہ وہ اپنے باطن میں ایک جذباتی شاکلہ بھی رکھتا ہے. وہ نفسیاتی گناہ جو عادت اور لت بن جائے، اسے فقط عقلی استدلال یا شائستہ ترتیب سے چھوڑنا قریب قریب ناممکن ہے. مجھے امید ہے کہ آپ میں سے اکثر کے سامنے ایسی مثالیں موجود ہونگی جہاں کوئی انتہائی بگڑا ہوا غصیلا جھگڑالو شخص جو شراب و شباب کا ساری زندگی رسیا رہا ہو ، اچانک ایسا سدھرتا ہے کہ گناہ کی جانب پلٹ کر بھی نہیں دیکھتا. اس کے برعکس بعض اوقات ایک بظاہر نیک انسان کو کوئی گناہ ایسا لت بن کر چمٹتا ہے کہ وہ باوجود بار بار کی کوشش و توبہ کے اسے چھوڑ نہیں پاتا. وجہ یہی ہے کہ پہلا بگڑا ہوا شخص بھرپور قوت غضب  رکھتا تھا جسے ڈھال بنا کر اس نے جب ترک گناہ کا فیصلہ کیا تو استقامت سے اس پر قائم رہ سکا. جب کے دوسرا نیک شخص اپنی طبیعت کی نرمی کی وجہ سے  قوت غضب کا درست استعمال نہ جانتا تھا، چنانچہ بار بار ترغیب گناہ کے سامنے ہتھیار ڈالتا چلا گیا. 
.
====عظیم نامہ====