Thursday, 25 August 2016

مشکلات کا سامنا مسکرا کر کرنا


مشکلات کا سامنا مسکرا کر کرنا



جب میں پرائمری اسکول میں تھا تو ہمارے گھر کام کیلئے ایک ماسی (ماں سی) آیا کرتی تھیں. ان کی جھونپڑی ہمارے گھر کے پیچھے دیوار سے لگی ہوئی تھی. ان کے بیٹے بیٹیاں جو مجھ جتنے یا مجھ سے چھوٹے تھے سارا دن یہاں سے وہاں آوارہ گھومتے رہتے. میری والدہ اکثر انہیں میرے ساتھ پڑھنے کے لئے کبھی پیار سے اور کبھی ڈانٹ سے بیٹھا دیا کرتیں تاکہ وہ بھی کچھ پڑھ لیں. ان میں سے صرف ایک لڑکا جو عمر میں مجھ سے کچھ زیادہ تھا، پڑھنے میں دلچسپی دیکھانے لگا تو اس کا ایڈمیشن اسکول میں کروا دیا گیا. اس کی فیس کبھی ہمارے گھر سے جایا کرتی تو کبھی کسی اور گھر سے. کبھی کوئی یونیفارم دلا دیتا تو کبھی کوئی اپنی پرانی کورس کی کتابیں اسے دے دیتا. انتہائی ناموافق حالات کے باوجود وہ بچہ خوشی خوشی پڑھتا رہا اور میری والدہ اس کی والدہ کی ہمت بڑھاتی رہیں. یوں ہی پڑھتے پڑھتے ایک روز اس نے میٹرک پاس کرلیا. شاید میرے والد نے یا کسی اور صاحب نے اس کو کلرک کی نوکری دلا دی جہاں وہ اپنی محنت سے آگے بڑھتا گیا. کچھ ہی دنوں میں ان کے حالات سدھرنے لگے تو اس نے اپنی والدہ کو گھر گھر جاکر جھاڑو پونچھے کی تکلیف سے نجات دلادی. اب اس کی نسل الحمدللہ اچھے اسکولوں سے تعلیم حاصل کر رہی ہے. 
.
جب میں سیکنڈری اسکول میں پہنچا تو محلے کا ایک گھر معاشی تنگدستی کا شکار نظر آتا تھا. وہ لوگ گھر پر اچار اور چٹنی تیار کرکے اسے بیچا کرتے تھے. ان کے بیٹے اور بیٹیاں اسکول جاتے تھے مگر ایک روز ان کے والد کی طبیعت بگڑی اور وہ انتقال کرگئے. بڑا بیٹا جو مجھ سے کافی چھوٹا تھا ، اسے اسکول چھوڑنا پڑا اور وہ کبھی پرچون کی دکان اور کبھی میڈیکل اسٹور پر دن رات کام کرنے لگا. مجھے اس کے اسکول چھوڑ جانے کا بہت صدمہ تھا اور میں بہانے بہانے اس کے چہرے پر کرب ڈھونڈھتا رہتا تھا مگر وہ بناء شکایت خاموشی سے اسی خوش مزاجی سے کام کرتا رہا جو اسے پہلے حاصل تھی. صاف نظر آتا تھا کہ وہ اپنا کام دیگر ملازمین سے زیادہ تندہی سے کرتا ہے. ساتھ ہی اس نے اپنی تعلیم کے سلسلے کو جوڑ لیا اور معلوم نہیں کتنا پڑھ پایا؟ جو بات معلوم ہے وہ یہ کہ آج اسی کی محنت کے صدقے اللہ نے ان کے گھر کو خوشحال کردیا ہے. بہنوں کی شادی اور چھوٹے بھائی کی تعلیم کے پیچھے بھی ضرور اسی بھائی کی محنت پوشیدہ ہوگی. 
.
جب میں کالج پہنچا تو ایک دوست میرا جگری بن گیا. نوجوانی کی ہر تفریح ہم نے ساتھ ساتھ کی. اس کے گھریلو حالات معاشی اعتبار سے تنگ تھے. میرے اس دوست کا چہرہ ماشاللہ اتنا مسکراتا ہوا تھا کہ کبھی شک ہوتا کہ کہیں سوتے میں بھی تو مسکراتا نہیں رہتا؟ مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ دوسری نمائندہ صفت اس میں خودداری کی تھی. یہ خودداری کا ایسا پہاڑ تھا کہ دو پیسے کی مدد لینا تو دور اس سے کوئی ایسی بات کرتے ہوئے بھی میری جان نکلتی تھی کہ لامحالہ کہیں برا ہی نہ مان جائے. ہم دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ خوب دل لگتا تھا اور مستقبل میں کچھ بننے کے خواب ہم ساتھ ہی دیکھا کرتے تھے. پھر انٹر کے امتحانات ہوئے تو اس نے اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ اب وہ تعلیم جاری نہیں رکھ پائے گا. والد کے جانے کے بعد گھر کی ساری ذمہ داری اس کے کندھوں پر ہے. اسلئے وہ درزی بن رہا ہے اور اگر اللہ نے چاہا تو مستقبل میں تعلیم حاصل کرے گا. میں دھک سے رہ گیا لیکن اس نے میری کوئی مدد نہ لی اور ایک جانب درزی بن کر کپڑے سیتا رہا تو دوسری جانب بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا رہا. وقت کا پہیہ تیز چلا تو رابطہ ٹوٹ گیا مگر دونوں ایک دوسرے کو کبھی نہیں بھولے. کچھ سال پہلے میری اس سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس نے تعلیم کا سلسلہ اپنے دم پر پورا کرلیا تھا اور اب ایک معروف کمپنی میں مینجر ہے. ساتھ ہی کراچی میں ایک بزنس بھی کر رہا ہے اور ملایشیا میں ایک ریسٹورنٹ کا بھی مالک ہے. گاہے بگاہے وہاں جاتا رہتا ہے. بجا طور پر معاشی اعتبار سے آج وہ مجھ سے کہیں زیادہ کامیاب ہے. 
.
یونیورسٹی میں جب مجھے انجینئرنگ کے لئے داخلہ ملا تو ایک ایسا دوست بھی ملا جو ہم عمر ہونے کے باوجود ہم سے ایک سال جونیئر تھا. شاید مالی تنگدستی کی وجہ سے اس کا سال ضائع ہوچکا تھا. کمپیوٹر انجینئرنگ کیلئے کمپیوٹر کا گھر پر ہونا قریب قریب لازمی ہوتا ہے مگر ہمارے اس دوست کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ کمپیوٹر خرید سکتا لہٰذا ساری ساری رات اور دن ایک دوست کے گھر منڈلاتا رہتا. جہاں اگر کمپیوٹر فارغ مل جائے تو اسے استعمال کرپاتا. یہ غیر معمولی ذہانت کا حامل انسان تھا جو نہ صرف اپنے امتحانات میں نمائندہ نمبروں سے پاس ہوتا بلکہ مجھ سمیت اپنے دیگر سینئر دوستوں کو بھی ان کے امتحان کی تیاری کروادیتا. یونیورسٹی کے چار سالوں میں سے کچھ سال اسے اسکالر شپ مل گئی اور یوں شدید مشکلات سے لڑتا ہوا وہ اپنی انجینرنگ مکمل کرگیا. آج الحمدللہ وہ ایک عرب ملک میں نہایت اچھی نوکری پر فائز ہے اور مجھ جیسے اکثر دوستوں سے آگے ہے. دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ پاک اسے اور ان دیگر دوستوں کو جن کا ذکر اپر ہوا مزید سے مزید کامیابیاں عطا کریں آمین.
.
آپ جانتے ہیں کہ ان سب دوستوں میں تنگی و تنگدستی کے علاوہ کیا قدر مشترک تھی؟ وہ قدر یہ تھی کہ یہ مشکلات کا سامنا مسکرا کر کرنا جانتے تھے. انہوں نے نامناسب حالات پر واویلا نہیں کیا اور تکلیف دہ واقعات پر شکوہ زبان پر نہ لائے. انہوں نے حقیقت کو خوش دلی سے قبول کیا اور محنت سے اپنے راستے کو متعین کئے رکھا. وہ زبان حال سے دنیا کو اس شعر کی عملی تفسیر سمجھاتے رہے کہ 
.
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے؟
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے؟
.
====عظیم نامہ====

حسد کو کیسے ختم کیا جائے؟

حسد کو کیسے ختم کیا جائے؟




سوال:
السلام علیکم ، حسد کو کیسے ختم کیا جائے؟
.
میرا ایک کزن ہے ، وہ امریکہ سیٹ ہو گئے .. پہلے میں اس سے بلکل جیلس نہیں تھا .. پھر جب میرے گھر والو نے مجھے اس سے کمپیئر کرنا شروع کیا اور اس کے چاچو نے ہر معاملے میں اس کی مثال دینا شروع کی تو اب مجھے لگتا ہے کہ میں بہت زیادہ حسد کر رہا ہوں. میں پہلے کی طرح ہونا چاہتا ہوں، یہ فیلنگ بہت زیادہ تکلیف دہ ہے. میں اس کمزوری کو کس طرح ہینڈل کروں؟
.
جواب:
وعلیکم السلام 
.
خوش آئند بات یہ ہے کہ الحمدللہ آپ کو اس کا احساس ہے کہ حسد ایک کریہہ گناہ اور تباہ کن بیماری ہے. چنانچہ آپ اس کا تدارک چاہتے ہیں. آپ نے اس کا محرک بھی شائد درست پالیا ہے کہ جب انسان کو کسی دوسرے انسان سے زبردستی تقابل کیا جائے تو یہ جذبہ جڑ پکڑ لیتا ہے. حالانکہ اگر کوئی باریکی سے غیر متعصب جائزہ لے تو یقینی طور پر آپ میں ایسی کئی خوبیاں ہونگی جس سے آپ کا کزن محروم ہے اور اس میں ایسی کئی برائیاں ہونگی جس سے آپ آزاد ہیں. مگر چونکہ اس وقت اسکی خامیوں پر دانستہ یا نادانستہ پردہ پڑا ہوا ہے اور صرف اس کی خوبیوں یا کامیابیوں کو بنیاد بناکر آپ کے سامنے تحقیر آمیز انداز میں پیش کیا جارہا ہے. اسلئے اس منفی جذبے نے آپ کے قلب کو داغدار کررکھا ہے. سب سے پہلے تو وہ معروف حدیث یاد کرلیں، جس میں رسول ص کا ارشاد پاک ہے کہ 'حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو' .. ذرا سوچیں اس حدیث کو کہ یہ جذبہ اتنا منفی ہے کہ اس سے باقی نیکیاں بھی اکارت ہوجاتی ہیں. یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حسد اگر گھر بنالے تو انسان کی ذہنیت آھستہ آھستہ شکست خوردہ ہوتی جاتی ہے. یہ میں آپ کو اسلئے بتارہا ہوں تاکہ اس خبیث برائی کی خباثت جان کر اس کو ختم کرنے کی آپ جی جان سے کوشش کریں.
.
سب سے پہلے تو تنہائی میں دو رکعت نماز توبہ کی نیت سے ادا کریں. توبہ بناء نفل کے بھی ہوسکتی ہے مگر جیسے ہر بات کا ایک پراسسس ہوا کرتا ہے، اسی طرح سے رب کریم سے مانگنے کا یہ ایک اچھا پراسسس ہے. گو شریعت میں ایسا کرنا لازم نہیں. نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر یا سجدے میں جاکر اللہ پاک سے وہ سب کہہ دیں جو آپ نے مجھ سے کہا ہے. ان سے معافی مانگیں اور انہیں بتائیں کہ میں اس جذبے سے نجات چاہتا ہوں مگر کر نہیں پارہا. آپ دل کے بدلنے والے ہیں، میرا دل بھی بدل دیجیئے. خوب گڑگڑا کر دعا کیجیئے، رونا نہ آئے تب بھی لرزتے ہوئے اللہ پاک سے مانگیئے. ہر فرض نماز کے بعد سجدے میں جا کر اس دعا کو معمول بنالیجیئے. 
.
دوسری تجویز وہ ہے جو میری اپنی زندگی کا مستقل حصہ ہے. میں جب بھی کسی کی ترقی دیکھتا ہوں، اسے خوش دیکھتا ہوں، کامیاب دیکھتا ہوں یا اسے حاصل کسی نعمت کو دیکھتا ہوں تو فوری دل سے اس کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسے مزید برکت دے اور نظر بد سے محفوظ رکھے. اس میں یہ قید نہیں ہے کہ میں فرد کو جانتا ہوں یا نہیں. مجھے اگر کوئی زبردست گاڑی بھی روڈ پر چلتی نظر آئے تو فوری اس کے لئے برکت اور حفاظت کی دل سے دعا کرتا ہوں. حالانکہ میں میں اس گاڑی کے مالک سے زندگی میں کبھی نہیں ملا. آپ بھی اس عادت کو فوری اپنا لیجیئے. جس کو بھی کسی نعمت میں دیکھیں جو آپ کو حاصل نہیں تو اس کیلئے دل سے دعا کریں کہ یا اللہ میرے اس بھائی کی حفاظت کیجیئے اور اسے نظر بد سے بچائیں اور اسکی اس نعمت میں مزید اضافہ فرمائیں. آمین. خاص کر اپنے اس کزن کیلئے جب بھی خیال آئے یہی دعا کیجیئے. شروع میں ایسا کرنا طبیعت پر بہت بھاری گزرے گا مگر آھستہ آھستہ یہ اچھی روش آپ کی شخصیت کا جزو بن جائے گی. اس کی وجہ سے آپ کو کم از کم دو بہت بڑے فائدے ہونگے. پہلا فائدہ ظاہر ہے اور دوسرا چھپا ہوا. ظاہری فائدہ یہ ہے کہ اس طرح آپ کبھی بھی کسی کے حسد میں گرفتار نہیں ہونگے ان شاء للہ اور چھپا ہوا فائدہ یہ ہے کہ احادیث صحیحہ کے مطابق جب مومن اپنے بھائی کیلئے کسی خیر کی دعا کرتا ہے تو ملائکہ مل کر اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ مانگنے والے کو بھی ایسا ہی خیر عطا کیجیئے. اب سوچیئے جب ملائکہ آپ کیلئے دعا گو ہونگے تو آپ کو اگر ٹھیک ویسی ہی نعمت نہ بھی ملے تب بھی رب کی جانب سے کوئی دوسرا خیر ان شاء للہ بلضرور حاصل ہوگا. شرط اتنی ہے کہ دعا اخلاص سے کی گئی ہو. یاد رکھیں کہ آپ دنیا نہیں بدل سکتے لیکن خود کو بدل سکتے ہیں. یہی ذاتی بدلاؤ حیرت انگیز طور پر آپ کے اردگرد موجود حقیقتوں کو بدل کر آپ کے موافق کردے گا. میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو اپنے مقصد میں کامیابی دیں آمین
.
====عظیم نامہ====

تہجد میں دعا


تہجد میں دعا 



آج کچھ گھنٹوں قبل میں اپنے ایک عزیز عطر فروش دوست کی دکان میں موجود تھا. ظاہر ہے کہ طرح طرح کے گاہکوں کا آنا جانا دکان میں معمول ہوتا ہے. ایسے میں دو خوش مزاج سیاہ فام نوجوان داخل ہوئے. ان میں سے ایک نوجوان جس کے بال افریقی گھنگھریالے انداز میں بندھے ہوئے تھے ، مجھ سے باتیں کرنے لگا. پہلے ایک سعودی طرز کے لباس کو دیکھ کر بتانے لگا کہ اس کے آبائی ملک 'گامبیہ' میں صرف وہی لوگ یہ لباس پہنتے ہیں جنہوں نے حج کررکھا ہو. حاجی بنے بناء یہ لباس پہننا معیوب سمجھتے ہیں. میں اس کے ساتھ خوب ہنسا اور دونوں نے دین کے نام پر ملکی ثقافت کے اثرات پر گفتگو کی. یہ کھلکھلاتا نوجوان کچھ دیر بعد مجھ سے کچھ دکھی انداز میں کہنے لگا کہ بھائی آپ کو معلوم ہے آپ مجھ سے اسلام کی باتیں کر رہے ہیں مگر بہت سے لوگ مجھے مسلمان ہی نہیں سمجھتے کیونکہ میرا حلیہ انہیں اسلامی نہیں لگتا؟ (نوجوان نے گلے میں لاکٹ، ہاتھ میں مختلف رنگین دھاگے اور دیگر فیشن کر رکھے تھے.) میں نے تعجب اور افسوس کا اظہار کیا تو وہ مزید بتانے لگا کہ میں اسلام پر عمل کی حتی الامکان کوشش کرتا ہوں لیکن کئی لوگوں کے خود ساختہ اسلامی معیار پر پورا نہیں اترتا. مگر بھائی حقیقت تو یہ ہے کہ میرا رب میری ہمیشہ سنتا ہے اور میں نے جب بھی کچھ مانگا اس نے مجھے دیا. بلکہ اگر سچ بتاؤں تو مجھے دیکھا بھی دیتا ہے. یہ کہتے ہوئے اس نوجوان کا چہرہ خوشی اور سچائی سے دمک رہا تھا. میں نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ کیسے دعا کرتے ہو؟ اور کیا مطلب کہ دیکھا بھی دیتا ہے؟ کہنے لگا کہ رات کے آخری پہر جب سب سورہے ہوتے ہیں تو میں اٹھ کر نوافل اور وتر پڑھتا ہوں. پھر ہاتھ اٹھا کر اور خوب رو کر روز اپنے رب سے اپنے لئے بھی نعمت و حاجت مانگتا ہوں اور تمام مسلمانوں کیلئے بھی مانگتا ہوں. کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میری کوئی بھی مشکل تہجد میں دعا مانگنے سے حل نہ ہوگئی ہو. میں نے کہا ارے واہ ! کوئی مثال تو سناؤ. میری اس خواہش پر یہ نوجوان پہلی بار کچھ جھجھکا اور کچھ رک کر بولا کہ میں بتاتا نہیں ہوں مگر آپ کو بتاؤں گا. ایک بار جب میں شدید مسائل میں پھنسا اور میرا اس ملک میں رہنا ناممکن سا ہوگیا تو مجھے وکیلوں نے کہہ دیا کہ تم جو ہوم آفس اپنے کاغذات بھیجنا چاہتے ہو، ان کی قبولیت کا کوئی امکان نہیں. مگر میں نے پھر بھی کاغذات بھیج دیئے اور اسی طرح تہجد میں رب سے رو رو کر دعا مانگتا رہا. کچھ ہی دنوں میں مجھے ایک خواب نظر آیا کہ کوئی انگریز عورت ہوم آفس میں بیٹھی میرے کاغذات چیک کر رہی ہے اور اس نے دیکھنے کہ بعد تبصرہ کیا کہ تمھارے کاغذات مکمل ہیں. یہ سن کر میری آنکھ کھل گئی. ان ہی دنوں پھر ایک اور خواب آیا جس میں دیکھا کہ مجھے ایک ڈاک آئی ہے، لفافہ کھولتا ہوں تو اس میں میرے نام کا 'لامتناہی ویزا کارڈ' ہے. میں نے اس کارڈ کا رنگ تک بھی دیکھا. پھر اچانک جیسے میرے کانوں میں کچھ لوگوں نے خوشی سے میرا نام لے کر کہا کہ ارے تم سو کیوں رہے ہو؟ اٹھ جاؤ تمہیں ویزا مل گیا ہے ! ... یہ سن کر میری آنکھ کھل گئی. میں نے خواب کسی کو نہیں سنایا مگر میں جانتا تھا کہ وکیلوں کی سمجھ کے برخلاف ہوم آفس مجھے ضرور 'لامتناہی ویزا' دینے والا ہے. پھر یہی ہوا اور ہوم آفس نے میرے کاغذات کو قبول کرتے ہوئے مجھے 'لامتناہی ویزا' دے دیا. 
.
میں نے اپنے اس بھائی کو گرمجوشی سے بانہوں میں جکڑ کر مبارکباد دی اور درخواست کی کہ وہ مستقل یا کم از کم آج رات تہجد میں میرے لئے بھی خیر کی دعا کرے. اس نے کھلکھلاتے ہوئے حامی بھری اور مجھے بھی اپنے لئے دعا کا کہا. اللہ میرے اس بھائی کو مزید سے مزید خیر عطا کرے اور ہم سب کو تہجد کا اہتمام کرنے والا بنادے. آمین 
.
====عظیم نامہ====

فجر کے لئے وظیفہ

فجر کے لئے وظیفہ 


میرے استاد شیخ عبدالہادی اروانی شہید ایک نہایت ہنس مکھ شخصیت کے مالک انسان تھے. آپ کا بے ساختہ انداز اکثر سننے والو کو ہنسنے پر مجبور کردیتا تھا. ان کے ایک اصلاحی لیکچر کے دوران بہنوں کی جانب سے کسی بہن کا سوال آیا کہ شیخ میں سب نمازیں وقت پر پڑھتی ہوں مگر نماز فجر میں آنکھ نہیں کھل پاتی. میں کئی کئی الارم بھی لگاتی ہوں، ایک الارم خود سے دور بھی رکھتی ہوں، اپنے خاوند سے بھی کہتی ہوں کہ وہ مجھے ساتھ اٹھائیں. غرض ہر تدبیر آزما چکی ہوں مگر فجر میں مجھے شیطان نے ایسا جکڑ رکھا ہوتا ہے کہ میں چاہ کر بھی اٹھ نہیں پاتی. شیخ نے اپنے مسکراتے چہرے کے ساتھ نظر جھکائے سوال سنا اور پھر مخاطب ہوئے کہ بیٹی میں آپ کو ایک ایسا ثابت شدہ نسخہ بتا سکتا ہوں جس سے آپ کی آنکھ فجر کے لئے لازمی کھل جائے گی. مجھ سمیت تمام حاضرین کے کان چوکنا ہوگئے کہ ایسا کون سا مجرب طریقہ ہے جو انسان کو لازمی بیدار کردے. ہمیں لگا کہ شیخ اب شائد کوئی وظیفہ بتائیں گے. شیخ نے کچھ دیر ہم سب کو طائرانہ دیکھا اور پھر بولے ، اگر فجر کیلئے اٹھنے میں واقعی سنجیدہ ہو تو رات میں فیس بک، ٹویٹر، انٹرنیٹ وغیرہ کا استعمال ترک کردو. سنت کے مطابق عشاء کے فوری بعد سو جاؤ اور پھر دیکھو کہ کیسے ایک ہی الارم سے آنکھ کھل جاتی ہے. شیخ کا جواب سن کر ہر جانب سے کھسیانی ہنسی کی آوازیں آئیں، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ حاضرین میں سے بہت سے لوگ فجر قضاء کردیتے ہیں اور اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ کا رات دیر تک استعمال ہے. شیخ نے مزید سمجھایا کہ اگر تم رات دیر تک کسی شیخ کے اسلامی لیکچر بھی سنتے ہو یا دعوت دین بھی کرتے ہو اور اس وجہ سے صبح نماز کیلئے بیدار نہیں ہوپاتے تو تم بڑی حماقت کا شکار ہو. آپ میں سے بھی جو احباب فجر کا اہتمام نہیں کرپاتے یا انہیں شکایت ہے کہ وقت فجر آنکھ ہی نہیں کھلتی، انہیں اس تجویز پر ضرور عمل کرنا چاہیئے. 
.
====عظیم نامہ====

پاکستان ایئر فورس رسالپور اکیڈمی


پاکستان ایئر فورس رسالپور اکیڈمی



پاکستان ایئر فورس رسالپور اکیڈمی کے زیر اہتمام ایک تقریری مقابلے کا ملکی سطح پر ہر سال انعقاد کیا جاتا ہے. جسے بجا طور پر پاکستان میں فن خطابت کا سب سے نمایاں مقابلہ تصور کیا جاتا ہے. میری خوش نصیبی ہے کہ میں نے زمانہ طالبعلمی میں تین بار اس مقابلے میں شرکت کی اور کامیابی حاصل کی. یہ ٢٠٠١ کے اواخر کی بات ہے جب اپنے تعلیمی ادارے اور شہر کی نمائندگی کرتے ہوئے میں رسالپور کیلئے روانہ ہوا. یہ وہی دن تھے جب ستمبر ٢٠٠١ میں امریکہ کے ٹوئن ٹاورز پر حملہ کیا گیا تھا. اخبار ان دنوں طرح طرح کی چہ مگوئیوں سے بھرپور تھے. ہم رسالپور اکیڈمی کے لئے پاک فضائیہ کے سی ١٣٠ جہاز میں سوار ہوئے تو ایک افواہ آئی کہ امریکہ نے نہ صرف افغانستان پر حملہ کردیا ہے بلکہ پاکستان پر بھی حملہ ہوچکا ہے. یہ سن کر جہاز میں سوار ملک بھر کے سب مقررین طلباء میں شدید پریشانی کی لہر دوڑ گئی کہ اب کیا ہوگا؟ ان دنوں امریکہ کا نام اور بھی دہشتناک معلوم ہوتا تھا. کوئی کہنے لگا کہ امریکہ کے پاس ایسی اسپیس ٹیکنالوجی ہے کہ جسے چاہے اس کے گھر میں مار سکتا ہے. کسی نے سرگوشی کی کہ امریکہ کا ایک فضائی بیڑہ پاکستان کی پوری فضائیہ سے بڑا ہے. کوئی پکارا کہ سب سے پہلے وہ ہمارے ایٹمی اثاثے تباہ کردیں گے. غرض جتنے منہ اتنی باتیں. سب کے دل میں یہی بات موجود تھی کہ جب ہمارا یہ جہاز رسالپور اکیڈمی پر اترے گا تو کیا عالم ہوگا؟ بلآخر جہاز لینڈ کر گیا. سب گھبرائے دلوں سے ہاسٹل پہنچے تو دیکھا کہ کیڈٹس میں جیسے بجلی بھری ہو. ہر کوئی خوش اور پرجوش نظر آرہا تھا. میرے ساتھ گئے ایک ساتھی مقرر نے تو یہاں تک دیکھا کہ کچھ کیڈٹس خوشی اور جوش سے اچھل اچھل کر یہ کہہ رہے تھے کہ اب ہم امریکہ کو بتائیں گے کہ ہم کیا ہیں؟ ہم حیران تھے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے حملے کا سن کر خوفزدہ نہیں بلکہ پرجوش ہیں. یہاں یہ دھیان رہے کہ میں صرف نوجوان کیڈٹس کی بات کررہا ہوں، افسران کا کیا ردعمل تھا میں نہیں جانتا. کیڈٹس میں تو غازی کہلانے یا شہید ہوجانے کا جذبہ خون بن کر دوڑ رہا تھا. بعد میں حملے کی یہ خبر جھوٹ ثابت ہوئی تو لگا کیڈٹس بجھ سے گئے ہوں. 
.
یہ واقعہ آپ کو بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم آج بھی امریکہ کے پٹھو بن کر اپنی عزت نفس بیچ رہے ہیں، وہاں ایک سچ یہ بھی ہے کہ اسی فوج میں آج بھی وہ جذبہ اور قابلیت موجود ہے جسے اگر صحیح سمت و قیادت مل جائے تو دنیا پلٹ دے. اپنے تین بار کے اس رسالپور اکیڈمی کے دورے میں جس طرح کا نظم و ضبط، جوش اور قابلیت میں نے اپنی آنکھوں سے ان کیڈٹس میں دیکھی ہے. میں پوری سچائی سے کہتا ہوں کہ کہیں اور نہیں دیکھی. کوئی انگریزی فلم بھی اس سے بہتر ملٹری نظم شاید ہی دکھا پائے. بس اتنی دعا ہے کہ ہمیں ایسی قیادت مل جائے جو ہمیں خوددار قوم کے طور پر پیش کرسکے. آمین.
.
====عظیم نامہ====

کلین شیو لکھاریوں کی داڑھی


کلین شیو لکھاریوں کی داڑھی


فیس بک پر بھیجی تحریروں کے ذریعے جہاں کئی کلین شیو لکھاریوں کی داڑھی سامنے آئی ہے۔ وہاں کئی داڑھی والو نے اپنا کلین شیو ہونا بھی ثابت کیا ہے۔

مرد کیلئے خاتون کی فیس بک شناخت


مرد کیلئے خاتون کی فیس بک شناخت



جب دین میں مخالف جنس کی کسی بھی درجے میں مشابہت اختیار کرنا حرام ہے تو پھر کسی مرد کیلئے خاتون کی فیس بک شناخت بنالینا کیسے جائز ہوگیا؟ 
.
ایک وقت تھا جب جعلی آئی ڈی بنانا کسی شہوت پرست کا ہی کام سمجھا جاتا تھا مگر اب حال یہ ہے کہ بیشمار لمبی داڑھی والے صاحبان فیس بک پر "مما پاپا کی لاڈلی" بنے بیٹھے ہیں. طرہ یہ ہے کہ اس برقی جنسی تبدیلی کو مذہبی جواز دے کر طرح طرح کی تاویلیں بھی گھڑ لیتے ہیں. جیسے خواتین کی شناخت سے شائع کردہ دینی پوسٹوں کو لوگ زیادہ لائیک کرتے ہیں اور اس طرح دین کا پیغام زیادہ پھیلتا ہے. بہت معزرت کیساتھ مگر پھر ایک نیم برہنہ تصویر بھی لگا لیجیئے ، اس سے اور بھی لوگ آپ کی 'مذہبی' پوسٹیں لائیک کریں گے. ایک اور جواز یہ دیا جاتا ہے کہ ہم فلاں فلاں وجہ سے اپنی حقیقی شناخت نہیں بتاسکتے، اسلئے ایسی آئی ڈی بنانی پڑتی ہے. جناب اگر یہ بات ہے تو اپنا پروفائل نام 'طالب حق' یا 'طالب علم' یا اسی کے مساوی کوئی اور نام رکھ لیجیئے. اس کے لئے آپ کو شبانہ یا رقیہ بننے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں.
.
عرض اتنی ہے کہ آپ بصد شوق اپنی تسکین کے لئے مخالف جنس کی آئی ڈی بنائیں اور جھوٹ کے داعی بن کر خوش ہوں مگر اسے دین، تبلیغ یا مصلحت کا نام لے کر جواز نہ دیں. آپ میں اور کسی 'بوبی ڈارلنگ' میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے، بس اتنا ہی کہ وہ سامنے ساڑھی پہن لیتے ہیں اور آپ انٹرنیٹ پر. پھر امکان تو یہ بھی ہے کہ برقی عورت بننے کے شوقین حقیقی زندگی میں بھی بناؤ سنگھار کرکے اور گھاگھرا چولی پہن کر آئینہ میں خود پر فدا بھی ہوتے ہوں؟
.
====عظیم نامہ====
.
نوٹ: ان روایتی گھسے پٹے جملوں سے گریز کریں، جن میں کہا جاتا ہے کہ 'لگتا ہے آپ کو کسی نے لڑکی بن کر دھوکہ دیا ہے'. میں خواتین سے کس اسلوب میں بات کرتا ہوں؟ اسکی گواہی آپ میرے پروفائل میں موجود کسی بھی خاتون سے لے لیجیئے. اس تحریر کو لکھنے کا مقصد فقط ایک غلط روش کی بیخ کنی ہے. ہم سب جانتے ہیں کہ اسطرح کی جعلی آئی ڈیز بنانا مذموم عمل ہے اور آج فیس بک پر بدقسمتی سے عام ہے