Thursday, 25 August 2016

بردباری کی نقاب


بردباری کی نقاب




جب گھر کا کوئی لاڈلا بیٹا تعلیم، نوکری یا کسی مجبوری کی وجہ سے اپنا آبائی گھر چھوڑ کر پردیس میں جابستا ہے تو یہ ہجرت اس شخص کے اپنے لئے اور اس کے تمام گھر والو کیلئے سالہا سال ایک اذیت ناک امتحان بنی رہتی ہے. والدین کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ کوئی شخص اسی ملک سے آیا ہے جہاں ان کا لاڈلا مقیم ہے تو فوری اس سے وہاں درپیش مشکلات کے حوالے سے سوالات کرنے لگتے ہیں اور اگر کہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جو ان کے بیٹے کو وہاں جانتا بھی ہو تو پھر ان کا بس نہیں چلتا کہ اس آنے والے کے چہرے میں ہی اپنی اولاد کو کھوج نکالیں. میرے ایک قریبی دوست کے والد خاصے سخت مزاج اور خاموش طبع انسان تھے. میرے اس دوست کی گفتگو اس حقیقت کی عکاس تھی کہ وہ اپنے والد سے شدید محبت کرتا ہے اور اسے احساس ہے کہ اس کے والد بھی اسے اتنا ہی چاہتے ہیں. مگر ان کے مزاج کی سختی و خاموشی محبت کے اظہار پر 'تکلف' کا نادیدہ پردہ تانے رکھتی تھی. جب یہ دوست انگلینڈ آیا تو ایک عرصہ اسے پاکستان واپس جانے کا موقع نہیں مل سکا. اس دوران مجھے ملک جانے کا موقع حاصل ہوگیا اور میں اس کے دیئے کچھ تحائف لیکر اس کے گھر جاپہنچا. میرے لئے چائے بسکٹ اور کئی دیگر نعمتیں میز پر سجا دی گئیں. چھوٹے بہن بھائی اور والدہ نے گھیرا ڈال لیا اور دلچسپی سے دوست کے حالات و واقعات سننے لگے. میں بھی خوب مزے سے سناتا رہا، اتنے میں ان کے والد بھی آگئے اور سنجیدگی سے سامنے کے صوفے پر براجمان ہوگئے. میں نے پوری سچائی سے محسوس کیا کہ جب میں ان کے بیٹے کا ذکر کرتا ہوں تو ان کی آنکھیں چمکنے لگتی ہیں مگر وہ زبردستی اپنے چہرے پر سنجیدگی سجائے ہوئے ہیں. میں نے اچانک گفتگو کو بیچ میں روک کر انتہائی بے تکلفی سے ان کو مخاطب کیا اور کہا انکل سب سے زیادہ یاد وہ آپ ہی کو کرتا ہے، ہر وقت آپ کی باتیں اور تعریفیں کرکر کے دماغ کھا جاتا ہے. ساتھ ہی ایک دو واقعات جو ان سے متعلق میں دوست کے ذریعے جان پایا تھا بتا دیئے. اب ایک عجیب پرلطف منظر سامنے تھا. والد کا چہرہ شفقت پدری سے دمکنے لگا تھا، آنکھوں میں شائد چھپی جھلملاہٹ تھی اور لبوں پر مسکراہٹ آنے کو بیقرار. مگر وہ ساتھ ہی اپنی پوری قوت خود سے جنگ میں صرف کررہے تھے کہ یہ جذبات بے لگام نہ ہونے پائیں. نتیجے میں ان کا چہرہ کبھی پھول سا کھلنے لگتا تو کبھی اس پر ایک مصنوعی سنجیدگی کی نقاب چڑھ جاتی. 
.
ہم انسانوں کا بالعموم اور مردوں کا بالخصوص معاملہ عجیب ہے. حالات و واقعات کے زیر اثر ہم اکثر وہ نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں جو شائد ہم نہیں ہیں. ہمیں اپنے جذبات کے اظہار سے بھی خوف آنے لگتا ہے کہ کہیں ہماری اتنی مشقت سے چڑھائی بردباری کی نقاب نہ اتر جائے. یہ جھوٹ ہے کہ صرف منافق کے دو چہرے ہوتے ہیں بلکہ سچے کھرے انسانوں کی بھی اکثریت طرح طرح کے نقاب چہرے پر سجائے رکھتی ہے اور جسے اتار پھینکنا ایک وقت کے بعد ناممکن سا ہوجاتا ہے. میں ذاتی طور پر ایسے کئی دوستوں کو جانتا ہوں جو بے پناہ محبت کے باوجود اپنے والد کو سینے سے نہیں لگا سکتے. جو اپنے سگے بھائی کو بوسہ نہیں دے سکتے. جو اپنی والدہ کے قدموں کو نہیں تھام سکتے اور جو اپنی بیوی سے اظہار محبت نہیں کرسکتے. ہمیں اپنی ان شخصی کمزوریوں کا ادرک کرنا چاہیئے کہ تشخیص آدھا علاج ہے اور پھر نفس پر پاؤں رکھ کر ایسی نفسیاتی رکاوٹوں کو گرا دینے کی سعی کرنی چاہیئے. میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے سگے محبت کرنے والو کو سینے سے لگالینے میں جو سکون ہے وہ کسی مراقبے یا مجاہدے سے ممکن نہیں.
.
====عظیم نامہ====

Sunday, 14 August 2016

جشن آزادی مبارک دوستو



جشن آزادی مبارک دوستو 
===============
.
چشم تصور سے چودہ اگست ١٩٤٧ کی اس سرد رات کو دیکھیئے ..
شمال مشرق کی جانب سے ایک نوجوان .. اپنے چہرے پر میلوں کی مساوت کی تھکاوٹ سجائے ہوئے.....
اور بکسوں کی صورت ہاتھوں میں بار گراں اٹھائے ہوئے..
لڑکھڑاتا ڈگمگاتا .. چلا آرہا ہے ..
.
یہ نوجوان اپنی عمر بھر کی پونجی..
دوست، احباب، عزیز، رشتہ دار ..
سب گنوا چکا ہے ..
.
مگر چہرہ پر عجب سی طمانیت ہے .. لبوں پر مسکراہٹ رقصاں ہے .. اور آنکھیں ہیں کہ شکرانہ خدا سے بھیگی جاتی ہیں.. سرزمین خداداد پر پہنچتے ہی نیچے گرتا ہے .. اور سجدہ ریز ہوجاتا ہے ..
.
وقت تھم جاتا ہے .. چاروں اطراف خاموشی چھا جاتی ہے .. مگر چشم فلک کو کوئی اچمبا محسوس نہیں ہوتا ..
کیونکہ اس نے ان دنوں ایسے ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں، کروڑوں جیالوں کو ، بچوں کو، بوڑھوں کو، عورتوں کو .. اس سے زیادہ ابتر حالت میں اسی سرزمین پر سجدہ ریز ہوتے دیکھا تھا ..
.
ان تمام کے پاس نہ کھانے کو روٹی تھی، نہ پہننے کو کپڑا، نہ رہنے کو کوئی چھت ..
مگر دل میں اطمینان تھا .. ایک سکون تھا کہ ہاں ! یہی ملک ہمارا سب کچھ ہے اور یہی وطن ہمیں ہمارا سب کچھ دے گا ..
.
آج تشکیل پاکستان کے پورے ستر سال بعد ..
جب ہم دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بن چکے ہیں ..
جب ہمارے دفاع و عسکری قوت کو ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا ہے ..
جب ہماری دھرتی کو معدنیات سے مالامال سمجھا جاتا ہے ..
جب ہمارے پاس بہترین و ذہین اذہان میسر ہیں ..
جب ہماری معیشت کی بحالی کی سینکڑوں صورتیں موجود ہیں .. 
.
تب .. دوستو .. تب
.
بیس کروڑ عوام کی زبان پر ایک ہی گردان جاری ہے ..
"میاں، اس ملک میں کچھ نہیں رکھا ، یہ وطن ہمیں کچھ نہیں دینے کا"
.
چودہ اگست کی اس رات کو ہمارے پاس کچھ نہیں تھا .. مگر سب کچھ تھا ..
اور آج کہنے کو ہمارے پاس بہت کچھ ہے .. لیکن سچ پوچھو تو کچھ بھی نہیں ہے ..
.
ہم نے اللہ رب العزت کی اس عظیم نعمت کی قدر نہ کی جو ہمیں آزادی کی صورت میں رضا الہی سے حاصل ہوئی .. ہم نے ان قربانیوں کو مدفون کر دیا جو آج بھی کہیں اسی سرزمین کی گود میں دفن ہیں .. 
.
ہمارے سامنے آج پھر ایک اور جشن آزادی ہے جو خود غرضی اور استبداد سے کانپ رہا ہے ..
.
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک بار پھر اسی جذبہ حب الوطنی کی تجدید کریں جس کی اثاث دین پر ہے.  
.
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اللہ پاک مجھے بطور نعمت اولاد سے نوازتے ہیں. میں اس اولاد کی ٹھیک پرورش نہیں کرتا اور نتیجہ میں وہ بگڑ کر غنڈہ یا بدمعاش بن جاتی ہے. اب کیا یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ اولاد نعمت تھی ہی نہیں ؟ یا بات یوں ہوگی کہ الله نے تو نعمت سے نوازا تھا مگر میں نے کفران نعمت کیا جس کا نتیجہ تخریب میں نکلا. پاکستان اللہ کی ایک عظیم ترین نعمت ہے مگر ہم نے کفران نعمت کیا ہے، جس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں. ہمیں حالات کی اصلاح میں کردار ادا کرنا ہے ، ملک کے قیام کو غلطی کہنا دراصل اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنا ہے
.
یہ انسان یا قوم کی اپنی شامت اعمال ہوتی ہے جو ایک نعمت کو تخریب میں بدل دیتی ہے. ایسے میں یا تو اس قوم کو مٹا دیا جاتا ہے یا انہیں بہتر لوگوں سے بدل دیا جاتا ہے. یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے ، یہاں کوئی لاڈلا نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو عمل سے اپنا میرٹ ثابت کرنا ہے. ہمیں آگے بڑھ کر اصلاح کرنی ہے اپنی بھی اور اس ماحول کی بھی. بقول مودودی صاحب کے ، ہم سب دیہاڑی کے مزدور ہیں جنہیں اپنا کام پورا کرنا ہے .. نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے.
.
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات مسائل کی اپنی سنگینی سے زیادہ ان مسائل کو مستقل اچھالتے رہنا مسلہ بن جاتا ہے. میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مسائل کو زیر بحث نہ لائیں. ضرور لائیں مگر اس میں توازن پیدا کریں. جہاں زید حامد کی طرح خوش فہمی کا چیمپئن بننا حماقت ہے وہاں حسن نثار کی طرح مایوسی کا پیغمبر بن جانا بھی دانش کی دلیل نہیں. تنقید ضرور کریں مگر تعریف کے پہلوؤں پر بھی اپنی نظر کرم کیجیئے. مثبت انداز میں تنقید کیجیئے کہ جسے پڑھ کر قاری مایوسی کی دلدل میں نہ جاگرے بلکہ اس میں اپنے سدھار کا جذبہ پیدا ہو. یقین جانیں کہ اسی معاشرے اور اسی ملک میں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جو مثبت ہے، جسکی تعریف نہ کرکے اور جسے موضوع نہ بناکر ہم ظلم کرتے ہیں. لیکن ہمارے قلم توصیف کرتے ہوئے ٹوٹنے لگتے ہیں، ہماری زبان اس کی تعریف سے دانستہ اجتناب کرتی ہے. اللہ رب العزت نے بھی اپنے بندوں کو جنت اور جہنم دونوں بیان کئے ہیں مگر لگتا ہے ہم صرف جہنم دیکھنا اور دیکھانا چاہتے ہیں. ہماری فوج جب دنیا بھر کی فوجوں میں گولڈ مڈل لیتی ہے تو ہم تعریف کی بجائے ٧١ کی شکست بیان کرنے لگتے ہیں، جب دنیا بھر میں ہماری انٹلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کو اول درجہ دیا جاتا ہے تو توصیف کی بجائے ہمیں ان کی دوسری ناکامیاں نظر آنے لگتی ہیں، ہم دنیا کی ساتویں اور اسلامی ممالک میں پہلی ایٹمی قوت بنتے ہیں تو فخر کی بجائے عبدالقدیر خان کو چوری کا طعنہ دینا شروع ہوجاتے ہیں، ہم میزائل، ٹینک، جہاز، آبدوز سب بنانے لگے ہیں تو خوشی کی بجائے ہمیں جرنیلوں کی کرپشن دکھائی دیتی ہے، ہمارے طالبعلم اپنی ایجادات پر دنیا بھر میں انعامات حاصل کرتے ہیں مگر ہماری گفتگو اور خبروں میں اپنی جگہ نہیں بنا پاتے، ہمارے کھلاڑی کرکٹ، ہاکی، اسکواش، کبڈی، اسنوکر، باکسنگ، باڈی بلڈنگ سمیت بیشمار کھیلوں میں دنیا بھر میں چیمپین بنتے ہیں مگر ہمارا سارا زور ان کی خامیاں ڈھونڈھنے میں ہی لگ جاتا ہے. ہمارا ملک بہترین ادیب اورشاعروں سے مالامال ہے مگر ہم انہیں سننے کو تیار نہیں ہوتے، ہماری اسی سرزمین پر جید علماء اور محققین زندہ ہیں مگر ہم کچھ رنگ برنگے نیم مولویوں کی خرافات کو اپنی گفتگو کا مرکز بنالیتے ہیں، ہمارا شمار صدقہ و خیرات کرنے والے صف اول کے ممالک میں ہوتا ہے مگر ہم ان لٹیروں کا ذکر کرتے ہیں جو مذہب کی آڑ میں گھناؤنا دھندہ کرتے ہیں. غرض ہمیں مایوسی پھیلانے کی لت سی لگ گئی ہے. ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ ہم میں کچھ خوبیاں بھی ہوسکتی ہیں. 
.
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصہ کی کوئی شمع جلاتے جاتے
.
میں پچھلے تیرہ برس سے برطانیہ میں مقیم ہوں جو بجا طور پر ترقی اور انصاف کے حوالے سے پوری دنیا میں مثالی ملک مانا جاتا ہے. میں آپ کو سچائی سے بتاتا ہوں کہ ان کی تمام تر خوبیوں کے باوجود ان میں بیشمار سنجیدہ اور بہت بڑے بڑے مسائل موجود ہیں. یہ اس پر بات کرتے ہیں، تنقید بھی کرتے ہیں مگر ہماری طرح واویلا نہیں کرتے رہتے. اس کے برعکس وہ چھوٹی سے چھوٹی مثبت بات کو بھی کئی گنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا کرتے ہیں. وگرنہ ان کے سیاستدان بھی ڈیوڈ کیمرون  سمیت اربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں، ان کے پادری بھی بچوں سے زیادتی کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں، ان کے ہاں بھی روزانہ عورتوں کو ریپ کیا جاتا ہے، ان کے اسکولوں میں مہلک نشہ آور ڈرگز باآسانی ملتی ہیں، ان کے جرنلسٹ بھی اکثر پیسہ کھا کر تعریف و تنقید کرتے ہیں، ان کے فوجی بھی طرح طرح کی گندگیاں اور قانون شکنیاں کرتے ہیں، ان کے فٹبال مداحوں پر دیگر ممالک میں 'ہولی گین' یعنی فسادی قرار دے کر پابندی لگا دی جاتی ہے، ان کے ہاں بھی بہت سے کالج یونیورسٹیز جعلی ڈگریاں بنادیتی ہیں، ان کے ہاں بھی دنیا بھر سے 'ہیومن ٹریفکنگ' کے ذریعے جنسی دھندھے کروائے جاتے ہیں...... کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شدت میں کمی ہوسکتی ہے مگر ہر طرح کے خطرناک جرائم اور مسائل یہاں بھی موجود ہیں. یہ ان پر بات ضرور کرتے ہیں مگر اس کا تناسب مثبت باتوں کے ذکر کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے. یہ جانتے ہیں کہ منفی باتوں کا پرچار مزید منفیت کو ہی جنم دے سکتا ہے. مگر چلیں یہ تو پھر دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں سے ہے. آپ پڑوسی ملک بھارت کو دیکھ لیں. کون سا جرم اور مسلہ  ان کے یہاں آپ جیسا یا آپ سے زیادہ نہیں ہے؟ کرپشن ان کے اندر ہے، رشوت ان کے ہاں ہے، دنیا بھر میں سب سے زیادہ عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ اسی ملک میں بنایا جاتا ہے مگر یہ اس کے باوجود پاکستان کے مقابلے میں مثبت باتوں کا ذکر کہیں زیادہ کرتے ہیں. اپنی پولیس کی حوصلہ افزائی کے لئے ڈرامے، فلمیں بناتے ہیں. ہندو مسلم فسادات کی بدترین مثالیں رکھنے کے باوجود، سکھوں کے بد ترین قتل عام کے باوجود یہ خود کو دنیا بھر میں برداشت کا نمونہ بنا کرپیش کرنے میں کامیاب ہیں. ایسا نہیں ہے کہ ان کے مسائل ہم سے چھوٹے ہیں یا ان کے ادارے، فوج، پولیس یا سیاستدان کرپشن میں ملوث نہیں. مگر وہ جہاں ان پر کڑی تنقید کرتے ہیں وہاں زور و شور سے ان کے مثبت پہلو بھی اجاگر کرتے ہیں. ہمیں اسی تنقید و تعریف کے توازن کو سمجھنا ہوگا. مسائل کا رونا اور اخلاص کا ڈھونگ کرنے کی بجائے مجھے اور آپ کو آگے بڑھ کر اپنا اپنا مثبت کردار نبھانا ہے. یاد رکھیں 
.
موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے 
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں، گھر تو آخر اپنا ہے
.
افسوس ہے ان اذہان پر جو قیام پاکستان کو ایک غلطی سمجھتے ہیں. افسوس ہے ان افراد پر جو پاکستانی ہو کر پاکستان کو کوستے رہتے ہیں. افسوس ہے ان کھوکھلے اشخاص پر جو اپنے گھر، کاروبار، پیسے، گاڑی تک سے تو ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں مگر اگر کوئی وطن سے محبت کی بات کرے تو انکے پیٹ میں مذہبی مروڑ اٹھنے لگتا ہے. وطن پرستی غلط ہے مگر اپنے آبائی وطن سے محبت انسان کا فطری تقاضہ ہے. رسول پاک ( ص) بھی مکّہ سے ہجرت کے وقت بھیگی آنکھوں سے اپنے وطن سے محبت کا اظہار کرتے ہیں. ہم میں سے ہر ایک وطن عزیز پاکستان کی بگڑتی صورت سے واقف ہے. اس وقت اس ملک پر تنقید کرنا اور اسکے قیام پر انگلی اٹھانا نہایت آسان ہے. آپ مجھے جذباتی احمق کہئے یا کم اندیش .. مگر یاد رکھیے انشاللہ یہی وہ ملک ہوگا جو اسلام کی قیادت بنے گا.
.
مانا کے میرے دیس میں فساد ہی فساد ہیں
مانا کے دشمن وطن ہی آج کم سواد ہیں
مگر کتاب جہل میں خرد کا باب آئے گا
ایک انقلاب آ چکا ایک انقلاب آئے گا
.
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے .. وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
.
====عظیم نامہ====

Friday, 12 August 2016

ایمپریس مارکیٹ کا پٹھان

ایمپریس مارکیٹ کا پٹھان

کراچی کے ایک معروف علاقے کا نام 'ایمپریس مارکیٹ صدر' ہے. یہاں سارا وقت لوگوں کا ایسا اژدہام ہوتا ہے کہ کندھے سے کندھا چھلتا ہے. انواع و اقسام کے کھانے، کپڑے، زیورات، نایاب پرندے، طرح طرح کے جانور، گھڑیاں، دوائیں، الیکٹرانک آئٹمز، کمپیوٹر پروگرامز، ملکی و غیرملکی موویز، تعلیمی کورسز، عامل، جادوگر .... غرض ایسا کیا ہے؟ جو آپ کو اس چھوٹے سے دھول اڑاتے علاقے میں میسر نہ ہو. اس سب کے ساتھ یہاں پر چور بازاری، دھوکے بازی اور ہر طرح کی دو نمبری اپنے عروج پر ہے. میں نے پاکستان کے نمائندہ شہر جیسے لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور وغیرہ کئی کئی بار گھومے ہیں. میں دنیا کے کئی ممالک گھوم چکا ہوں مگر میرا ذاتی احساس ہمیشہ یہی رہا ہے کہ جو دھوکہ ایمپریس مارکیٹ کی ان سڑکوں پر موجود ہے اس کا عشر عشیر بھی کہیں اور نہیں ہے. یہاں کہیں آوارہ کتے کو السیشن نسل بنا کر بیچا جارہا ہے، کہیں پہنے ہوئے کپڑوں کو مہنگا برانڈ بنا کر فروخت کیا جارہا ہے، کہیں لمحوں میں رنگ گورا کرنا سکھایا جارہا ہے، کہیں جادو کے کریش کورس کروائے جارہے ہیں، کہیں پان کی پیک تھوکتا ہوا آدمی روانی سے انگریزی بولنے کی تعلیم دے رہا ہے، کہیں باٹا کے جوتے بوٹا کے نام سے مل رہے ہیں، کہیں لاعلاج بیماریوں کا گارنٹی سے علاج ہو رہا ہے، کہیں فحش فوٹو البم کھولے داستان گو نایاب جڑی بوٹی فروخت کر رہے ہیں، کہیں ناگ راج کا منکا رکھا ہوا ہے، کہیں قرعہ اندازی سے انعام نکل رہے ہیں اور کہیں رولیکس گھڑیاں بولی لگا کر خریدی جارہی ہیں. گویا ہر ہر کونے میں ایک نئی دنیا برپا ہے جو آپ کی توجہ کا سامان پیدا کر رہی ہے اور ہر دوسرا لمحہ کوئی انسان لٹ رہا ہے یعنی ایک نیا بکرا ذبح ہورہا ہے. یہاں سڑکوں اور ٹھیلوں پر کاروبار سجائے مختلف شہروں کے ٹھگ موجود ہیں جو لوٹنے میں طاق ہیں. میں اور میرا ایک قریبی ترین دوست کالج کی چھٹیوں میں اکثر ایمپریس مارکیٹ جایا کرتے. مقصد خریداری نہیں تھا بلکہ دونوں ہی کو یہاں ہوتے دھوکوں کے مشاہدے کا شوق تھا. ہم کبھی لوگوں کی بیوقوفیوں پر افسوس کرتے، کبھی کسی ٹھگ کی چال پر قہقہہ لگاتے اور کبھی اپنے عقلمند ہونے پر مل کر فخریہ مسکراتے. ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ مسکراہٹ اور فخر جلد مٹی ہونے والے ہیں. 
.
وہ ایسی ہی ایک دوپہر تھی جب ہم دونوں ان واقعات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے. اچانک ایک آواز آئی "لڑکے یہ تمھارے چہرے پر دانے کیسے ہیں؟" . یہ نوجوانی کے دن تھے اور میرے چہرے پر بڑھتی عمر کے دانے موجود تھے. یہ آواز سن کر ہم دونوں دوست چونک کر مڑے تو ایک خان صاحب سنجیدہ چہرے کے ساتھ موجود تھے. دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا جیسے استہزایہ کہہ رہے ہوں کہ لو جی اب یہ بیوقوف ہمیں دھوکہ دے گا. مستی سوجھی کہ ذرا سنیں تو کہ یہ کہتا کیا ہے؟ میں نے کہا خان معلوم نہیں کچھ مہینوں سے جان ہی نہیں چھوڑ رہے. اس نے اعتماد سے کہا کہ اگر چاہو تو میں تمھیں ایک ایسا نسخہ بتا سکتا ہوں جو تم کسی بھی دکان سے لے سکتے ہو اور جس کے کھانے سے یہ دانے دس دن میں شرطیہ ختم ہو جائیں گے. ساتھ ہی اس نے ہمدرد کمپنی کا ایک معجون کا نام بتادیا جو سو روپے میں ہر جگہ دستیاب تھا. پھر مخاطب ہوا کہ مجھے تم سے کوئی پیسہ نہیں چاہیئے لیکن جب دانے صحیح ہو جائیں تو وعدہ کرو میرے لئے آدھا کلو مکئی خرید کے لاؤ گے. اتنا کہہ کر وہ ہمیں ہکابکا چھوڑ کر سامنے کی بھیڑ میں چلا گیا. صاف معلوم ہورہا تھا کہ اسے مجھ سے کوئی لالچ نہیں ہے. پھر ہمدرد کمپنی تو حکیم محمد سعید کی معروف کمپنی ہے، اسلئے اس سو روپے کے معجون سے بھی وہ کچھ کما نہیں سکتا. میں نے دوست سے مشورہ کیا کہ یار کیا معلوم یہ صحیح ہی کہہ رہا ہو؟ دوست تذبذب میں تھا مگر متفق بھی تھا. اب میں اس کے پیچھے پیچھے بھیڑ میں گیا، کچھ دیر بعد وہ ہمیں نظر آیا تو اس کی جانب لپکے. میں نے اس سے کہا کہ مجھے نام لکھوا دو تو اس نے جھٹ دوبارہ نام بتادیا. میں نے پھر پوچھا کہ یہ کہیں سے بھی لے لوں؟ کہنے لگا کہ ہاں جہاں بھی ہمدرد کے سب معجون ملتے ہوں وہاں سے لے لو اور اگر چاہتے ہو تو سامنے موجود اپنی مرضی کے میڈیکل اسٹور سے میں تمھارے ساتھ چل کر لے دیتا ہوں. ایک بہت بڑے اسٹور میں اس کے ساتھ گیا اور لائن میں لگ کر اس سے معجون طلب کیا. اس نے وہ معجون سو روپے میں لاکر دے دیا. میں نے ممنون لہجے میں خان صاحب کو شکریہ کہا تو انہوں نے یاد دلایا کہ ٹھیک ہونے پر مجھے آدھا کلو مکئی لاکر دینی ہے. پھر کہنے لگے بس اب اس معجون میں فلاں فلاں جڑی بوٹی کا سفوف دو دو چٹکی ڈال لینا پھر کمال دیکھو. میں نے سٹپٹا کر کہا کہ کیسا سفوف؟ اس کا تو تم نے کوئی ذکر نہ کیا تھا. اس نے معزرت کرتے ہوئے کہا کہ شاید بھول گیا تھا لیکن فکر نہ کرو کسی بھی بڑے حکیم خانے سے مل جائے گا. میں ناراض ہوا کہ اب کہاں ڈھونڈھوں گا؟ تو اس نے کہا پیچھے حکیم بیٹھتے ہیں، میں تمھیں دیکھا دیتا ہوں، وہاں سے لے لو. یہ کہہ کر وہ معجون تھامے آگے تیز تیز چلنے لگا. ہم دونوں بھی لامحالہ اس کے پیچھے پیچھے گئے. وہ پیچیدہ گلیوں سے نکل کر کچھ ہی دیر میں ہمیں ایک ایسے خالص پٹھان علاقے میں لے آیا جہاں سامنے ایک حکیم نما انسان تھلے پر بیٹھا ہوا تھا. اس سے پہلے کہ میں کچھ کہہ پاتا. خان نے اسے پشتو میں کچھ کہا اور وہ تیزی سے ہر مرتبان کھول کر دو دو چٹکی سفوف معجون میں ڈالتا گیا. اب یہ میری جانب متوجہ ہوئے اور کہا پچاس روپے چٹکی کے حساب سے اب آٹھ سو روپے دے دو. میں نے بھنا کر انکار کیا تو چاروں طرف سے اس کے ساتھی ہماری جانب جارحانہ انداز میں آنے لگے. ظاہر ہے ہم دونوں دوست جان چکے تھے کہ آج ہاتھ ہوگیا ہے اور پیسہ نہ دیا تو جان جانے کا بھی اندیشہ ہے. بھاؤ تاؤ کر کے پانچ سو روپے دیئے اور جان بچا کر اس انجان علاقے سے باہر آگئے. 
.
اپنے حال پر غصہ بھی آرہا تھا اور ہنسی بھی. خود کو تیز و طرار سمجھنے کا بھرم چکنا چور ہوچکا تھا. یہ سمجھ آگیا تھا کہ پیشہ ور نوسربازوں سے الجھنا کتنی بڑی حماقت ہے. آج بھی جب پٹھانوں پر بنے لطائف پڑھتا ہوں تو ایک لمحے کو وہ آدھا کلو مکئی کا طلبگار پٹھان یاد آجاتا ہے. جس نے مجھے بھرپور طریق سے بیوقوف بنایا تھا. 
.
====عظیم نامہ==== 

Friday, 5 August 2016

کراچی سے جب پہلی بار لندن پہنچا تو اپنی مدد آپ کے تحت پہلے ہی روز مرکزی شہر کا نظام سمجھنے کیلئے سفر پر نکل پڑا. یہ شہر واقعی بہت خوبصورت تھا اور میرے لئے دلچسپی و حیرت کا بہت سا سامان رکھتا تھا. میں کبھی صاف ستھری چمکتی سڑکوں کو خوشی سے دیکھتا تو کبھی جدید اندرون زمین ٹرینوں کو دیکھ کر حیران ہوتا. کبھی میری نظر پرانے طرز پر بنی نہایت حسین عمارتوں پر مرکوز ہوتی تو کبھی ہر دوسرے کونے پر موجود کرتب دکھاتے فنکاروں کو دیکھتا رہتا. کبھی دنیا بھر کی اقوام کے چہرے ساتھ دیکھ کر عجیب سا لگتا تو کبھی بناء شرم کھلے عام بوس و کنار ہوتا دیکھ کر حیرت ہوتی. سارا دن یونہی شہر گھومتا رہا اور شہر کا نظام و مزاج سمجھتا رہا. ڈھلتی شام گھر واپسی کی تو ایک سرسبز میدان سے گزرنا پڑا. وہاں دیکھا کہ اونچے اونچے قد کے بہت سے سیاہ فام لڑکے باسکٹ بال کورٹ میں کھیل رہے ہیں. کچھ انگریز لڑکیاں ان کی ہمت بڑھا رہی ہیں. یہ منظر مجھے بلکل کسی ہالی وڈ موووی کا عکس محسوس ہوا. میرے قدم رک گئے اور میں بھی دلچسپی سے ان کا یہ کھیل ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا. ان میں سے کچھ نے آپس میں سرگوشی کی اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا، سب نے مجھے چاروں اطراف سے گھیر لیا. صاف ظاہر تھا کہ ان کے ارادے نیک نہیں ہیں. ان ہی لڑکوں میں سے ایک عجیب سی ٹیڑھی چال چلتا ہوا لڑکا جو شائد ان کا سرغنہ تھا ، میرے بلکل سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور غصہ سے مخاطب ہوا
.
'او مظبوط لڑکے مجھ سے لڑو'
.
میرا حلیہ اسوقت ٹھیک ویسا ہی مزاحیہ تھا جیسا اکثر نئے آنے والو کا یہاں ہوا کرتا ہے. کونے سے مانگ نکال کر بال بنے ہوئے، ہاتھ میں بیگ اور جسم پر صدر بازار سے خریدی ہوئی ایک لمبی سی چمڑے کی کالی جیکٹ پہنی ہوئی. میں نے ہکلاتے ہوئے اس لڑکے کو جواب دیا کہ میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا. یہ سن کر اس نے نفی میں سر ہلایا اور پھر دہرایا 'لڑکے مجھ سے لڑو'. مجھے رضا مند نہ پاکر اس نے اچانک ایک گھونسہ چہرے پر دے مارا. میں چکرا کر کئی قدم پیچھے چلا گیا. اب اس نے بلکل باکسنگ کا سا انداز بنا کر مجھے پھر للکارا 'لڑکے مجھ سے لڑو'. میں نے اسے سمجھانا چاہا کہ دیکھو میرا تم لوگو سے کوئی جھگڑا نہیں مجھے جانے دو. مگر نہیں بھئی، حضرت نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور پہلے سے زیادہ شدید مکا دے مارا ، میں اب ایک گھٹنے پر زمین پر بیٹھا تھا. اس نے تیسری بار للکارا تو وہ سارے وعدے جو والدین سے کر کے آیا تھا کہ کسی سے بھی بلخصوص کالوں سے لڑائی نہ کروں گا جو جھگڑوں کیلئے دنیا بھر میں بدنام ہیں. وہ سب ایک لمحے کیلئے ذہن سے محو ہوگیا اور میں نے بھناتے ہوئے پوری قوت سے مقابل کے پیٹ میں گھونسا رسید کردیا. آپ سوچ سکتے ہیں کہ دو گھونسے کھانے کے بعد جب ہم نے یعنی چھ فٹ ایک انچ کے انسان نے جوابی گھونسا مارا ہوگا تو وہ کیسا شدید ہوگا؟ جلدی سے کھڑا ہوا کہ اب بتاتا ہوں اس 'بگ بوائے' کو کہ کراچی کی لڑائی کہتے کسے ہیں؟ مگر یہ کیا جناب؟ یہ صاحب تو کچھ زیادہ ہی نازک مزاج نکلے، پیٹ پکڑے زمین پر آٹھ کا ہندسہ بنے پڑے تھے. اس کے ساتھیوں نے جب یہ دیکھا تو سب ایک ساتھ مجھ پر کود پڑے. اب ظاہر ہے ہم رجنی کانت تو تھے نہیں جو دس گیارہ لوگوں کو اکیلے بھگت لیتے. خوب پٹائی ہوئی، ہم نے بھی دوبارہ ہاتھ نہیں اٹھایا اور خاموشی سے ان کا پنچنگ بیگ بنے رہے. جب مار مار کر تھک گئے تو میرا بٹوہ نکالا اور اس میں موجود رقم جیب میں رکھ لی. اب اتنی جسمانی تکلیف میں بھی ہمیں یہ تکلیف زیادہ ہونے لگو کہ یار عظیم پہلے ہی روز پیسے چھین لئے. ایک ایک پاونڈ سو سو روپے بن کر ذہن میں نظر آیا. 

Wednesday, 3 August 2016

اللہ کو دیکھنا


اللہ کو دیکھنا



دمکتا چہرہ، لبوں پر چسپاں ہلکی مسکراہٹ، سوچتی ہوئی آنکھیں، سیاہ چھوٹی داڑھی اور گہرا سکون. یہ اس نوجوان کا مختصر سراپا تھا. جب بھی اسے دیکھتا تو دل میں گفتگو کی شدید خواہش پیدا ہوتی مگر وہ دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا، اس لئے چاہ کر بھی بات رسمی سلام علیک سے آگے نہ بڑھتی. مگر پھر ایک روز نماز جمعہ کیلئے مسجد کی جانب ساتھ نکلے تو باقاعدہ بات چیت کا آغاز ہوگیا. معلوم ہوا کہ یہ نوجوان انگلینڈ میں ہی پیدا ہوا ہے اور یہیں پلابڑھا ہے. اردو بمشکل سمجھ پاتا ہے. گھر میں کوئی خاص اسلامی ماحول نہیں ملا مگر پھر بھی اسے اسلام سے بے پناہ لگاؤ ہوگیا ہے. کالج کے سارے دوست انجینئر، ڈاکٹر، سائنٹسٹ، بزنس میں بننا چاہتے ہیں مگر یہ پڑھائی میں بہترین ہونے کے باوجود مسجد کا امام بننا چاہتا ہے اور اسی غرض سے ایک اسلامی کورس بھی کر رہا ہے. اس کی اس خواہش سے گھر والے ناخوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ بھی دیگر بچوں کی طرح کوئی ایسا پیشہ اپنائے جس سے اس کی آمدن مظبوط ہوسکے. میں نے اسے کریدتے ہوئے کہا کہ تمہاری خواہش تو بہت نیک ہے مگر تم دین کی خدمت دوسرے پیشوں کو اختیار کرکے بھی کرسکتے ہو، کیوں ضروری ہے کہ تم امام ہی بنو؟ اس نے سمجھایا کہ عظیم بھائی انگلینڈ میں ایسے اماموں کی اشد ضرورت ہے جو یہاں کے ماحول ہی میں پلے بڑھے ہوں، انگریزی جانتے ہوں، قانون سے واقف ہوں، جدید تعلیم سے آراستہ ہوں اور نوجوان نسل کو درپیش چلینجز سے پوری طرح آگاہ ہوں. اس وقت یہ حال ہے کہ اکثر امام پاکستان، بنگلہ دیش یا عرب وغیرہ سے آتے ہیں. جدید فلسفوں سے آگاہی تو دور ان میں سے اکثر تو انگریزی بھی نہیں بول سکتے. نتیجہ یہ ہے کہ میرے ہم عمر اسلام سے دور ہورہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ایک بھرپور عالم بننا چاہتا ہے جو نوجوانوں کے اشکال دور کرسکے. یہ باتیں اس نے ایسے اعتماد اور ٹہراؤ سے کہیں کہ میرا دل اس کی خوبصورت سوچ پر جھوم اٹھا. 
.
بے تکلفی بڑھی تو ایک اور موقع پر اس سے نماز کی کیفیت پر بات ہونے لگی. اس نے بتایا کہ عظیم بھائی پچھلے اعتکاف کے بعد سے اب میں جب بھی نماز پڑھتا ہوں تو الحمدللہ اکثر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ پاک کو دیکھ رہا ہوں. میں نے اس کی تصحیح کرتے ہوئے کہا "تمہارا مطلب ہے کہ اللہ پاک تمھیں دیکھ رہے ہیں؟" اس نے نفی میں سر ہلا کر تردید کی اور پھر دہرایا کہ جیسے میں اللہ پاک کو دیکھ رہا ہوں. میرے ذہن میں درجہ احسان والی حدیث گونجی مگر ساتھ ہی اس کی الگ تفسیر بھی یاد آئی. میں نے پریشانی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے احتجاج کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اللہ پاک کی تو کوئی مثال نہیں، انہیں اس مادی آنکھ سے دیکھا جا ہی نہیں سکتا اور جو بھی تصور کرو گے وہ محض ایک خیال ہی ہوگا حقیقت نہیں. اس نے سادگی اور کامل اعتماد سے کہا کہ یہ سب تو مجھے نہیں معلوم مگر یہ میری کیفیت ہے کہ میں اللہ کو نماز کے دوران دیکھتا ہوں. میں اس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر ہوں اور نہ ہی میں نظر اٹھا کر اللہ پاک کو پوری طرح آنکھ بھر کر دیکھ پاتا ہوں. بس ایک نور ہے، ایک جلال ہے جو میرے سامنے ہوتا ہے مگر میں ادب و خوف سے نظر اپر نہیں کرپاتا، بس روتا جاتا ہوں. یہ بات بیان کرتے ہوئے مجھے اس کا چہرہ مسرت و کرب سے ٹوٹتا محسوس ہوا. میں اپنے اس نوجوان دوست کے لہجے میں چھپی صداقت کو چاہ کر بھی جھٹلا نہیں سکتا تھا. کیسے کیسے پاکیزہ نفوس ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں مگر ہم اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے انہیں دیکھنے اور سیکھنے سے محروم رہتے ہیں. 
.
====عظیم نامہ====

Tuesday, 2 August 2016

عمرہ


عمرہ


چند سال قبل جب ایک ماہ کیلئے پاکستان جانے کا ارادہ کیا تو بیک وقت دو خواہشیں دل میں پیدا ہوئیں. پہلی یہ کہ عمرہ ادا کرتے ہوئے پاکستان جاؤں اور دوسری یہ کہ گیارہ برس بعد بقرعید وطن میں مناسکوں. اب ظاہر ہے کہ ان دونوں خواہشات کا ساتھ پورا ہونا ناممکن ہے کیونکہ بقرعید کے وقت تو حج ہورہا ہوتا ہے لہٰذا اس سے پہلے عمرہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. کافی مخمصے میں پھنسا رہا پھر دل پر پتھر رکھ کر فیصلہ کیا کہ عمرہ کروں گا بقرعید پھر کبھی سہی. یہ سوچ کر چھٹی کی درخوست دے دی. یہ درخوست مینجر نے مسترد کردی اور ساتھ ہی کہا کہ فلاں مہینے پاکستان جانا چاہو تو چلے جاؤ. پہلے تو میں ذرا تلملایا مگر اب جو غور کیا تو اس کا بتایا ہوا مہینہ وہی تھا جس میں بقر عید آرہی تھی. میں نے اسے غیب کا اشارہ سمجھا اور فوری حامی بھر لی. مقررہ دنوں میں پاکستان گیا اور اپنے خاندان کے ساتھ مل کر بقرعید کا بھرپور لطف لیا الحمدللہ. جب واپس انگلینڈ آیا تو دل میں خوشی کیساتھ ساتھ ایک خلش سی محسوس ہوتی رہی کہ یا رب میرا عمرہ نہیں ہوسکا اور اب تو نہ جیب میں مال ہے نہ ہی اسباب کہ اس سعادت کو حاصل کرسکوں. ابھی واپس آئے کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک روز گھر کی گھنٹی بجی. دروازہ کھولا تو ڈاکیہ میرے نام کی رجسٹرڈ پوسٹ لئے موجود تھا. 
.

حیرت سے لفافہ کھولا تو اس میں ایک آفیشیل لیٹر موجود تھا. میں نے اسے جو پڑھا تو خوشی و حیرت سے حالت عجیب ہوگئی. لکھا تھا کہ آپ جس کمپنی کے ذریعے پاکستان رقم بھیجتے ہیں انہوں نے اپنے صارفین کے مابین قرعہ اندازی کی ہے جس میں ملک بھر سے ایک نام کا انتخاب ہوا ہے جو آپ کا ہے. آپ کو انعام کے طور پر عمرہ کا فری ٹکٹ دیا جاتا ہے. میں اس لیٹر میں درج مضمون کو بار بار بے یقینی سے پڑھتا جاتا اور سوچتا شائد انگریزی سمجھنے میں مجھ سے غلطی ہورہی ہے. جب دوسروں کو پڑھوا کر سو فیصد اطمینان ہوگیا تو اس کمپنی فون کیا، جنہوں نے بھرپور انداز میں مبارکباد دی اور کہا کہ جلد آپ کو ٹکٹ بھیج دیا جائے گا. بے حساب خوشی ہونے کے باوجود اب مجھے ایک فکر یہ لاحق تھی کہ اب نوکری سے چھٹی کیسے ملے گی؟ سال بھر کی چھٹیاں تو میں پہلے ہی لے چکا. مگر میرے رب کی شان کہ کچھ ہی دنوں میں ایک دوسری نوکری جو ہر حوالے سے بہتر تھی مجھے آفر کی گئی اور جسے میں نے خوش دلی سے قبول کرلیا. پہلی نوکری چھوڑنے اور دوسری نوکری جوائن کرنے کے مابین کچھ دنوں کا خالی وقت باآسانی حاصل ہوگیا جس میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کا موقع مل گیا. آج سوچتا ہوں کہ اس کا کتنا فیصد امکان ہوسکتا تھا کہ ایک غیر اسلامی ملک میں، لاکھوں لوگوں کے مابین کئے جانے والی قرعہ اندازی میں میرا نام نکلے اور پھر انعام میں مجھے وہی حاصل ہو جس کی تمنا میرے دل میں تھی؟.

لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك.
.
====عظیم نامہ====

Monday, 1 August 2016

عیسائی مینجر سے مکالمہ


عیسائی مینجر سے مکالمہ 



پچھلی نوکری میں میرا مینجر ایک ایسا مخلص عیسائی تھا جو سنجیدگی سے نوکری چھوڑ کر اپنے علاقائی گرجا گھر کا سربراہ بننے کا متمنی تھا. جب اسے میرے مذہبی رجحان سے آگاہی ہوئی تو اکثر مجھ سے بہانے بہانے گفتگو کرتا تاکہ مجھ پر عیسائیت کی حقانیت کو ثابت کرسکے. اس کا دعویٰ تھا کہ معاذ اللہ عیسیٰ علیہ السلام خدا ہیں اور ساتھ ہی خدا کے بیٹے بھی ہیں. اتنا ہی نہیں بلکہ وہ مجھے پورے اعتماد سے بتاتا کہ خدا روز مجھ پر وحی کرتا ہے اور مجھ سے مخاطب ہوتا ہے. دھیان رہے کہ وہ روزمرہ کی زندگی میں بلاشبہ ایک زہین، فطین اور نفیس انسان تسلیم کیا جاتا تھا. میں نے اس سے اس کی اس وحی کی کیفیت پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ باقاعدہ ایک آواز سنتا ہے جو اس کے جسمانی کان میں نہیں بلکہ دماغ میں گونجتی ہے. یہ آواز اسے بتاتی ہے کہ اسے آج کیا کیا اچھے کام کرنے ہیں؟ اکثر اسے ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں جو اسے معلوم ہونا ناممکن تھیں. مثال کے طور پر یہ آواز اسے حکم دیتی کہ فلاں شخص کے پاس جاؤ اور اسے تسلی دو کہ اس کا باپ اس سے ناراض نہیں ہے. جب اس نے جا کر یہ پیغام مطلوبہ انسان تک پہنچایا تو وہ شخص روہانسا ہوگیا اور اس نے بتایا کہ ابھی چند روز پہلے ہی اس کے باپ کا انتقال ہوا ہے جسے وہ بہت یاد کرتا ہے. اسی طرح ایک بار اس نے مجھے میری بیوی کی دیرینہ بیماری کا نہایت پیچیدہ نام بتایا جو کے ان ہی دنوں میڈیکل رپورٹس میں مجھے معلوم ہوئی تھی اور اسے میرے سوا کوئی دوسرا آفس میں نہیں جانتا تھا. یہ بات بتا کر اسے ایسا لگا کہ شاید میں اس سے مرعوب ہوجاؤں گا اور شائد مجھے کسی حد تک مرعوب ہو بھی جانا چاہیئے تھا لیکن میں اپنے مرحوم شیخ کی بدولت یہ جانتا تھا کہ نفسی علوم کے ذریعے یا قرین (جن) کا استعمال کر کے کچھ ایسی باتیں جان لینا جو سامنے والے کے ذہن میں پہلے سے موجود ہو کوئی بڑی بات نہیں ہے. میں نے اس مینجر کو پورے سکون سے سمجھایا کہ اس طرح کی شعبدہ بازیاں یا کرامات تو ہر مذہب کا فرد کرلیتا ہے. اس سے حق کے حق ہونے کا تعین قطعی نہیں کیا جاسکتا. اس کا فیصلہ تو صرف وحی اور فطرت سلیمہ مل کر ہی کر سکتے ہیں. ساتھ ہی میں نے اسے کچھ ذاتی اور کچھ دیگر مسلمانوں کے سچے مافوق الفطرت واقعات سنائے جسے سن کر اس کے چہرے پر فکر کے سائے منڈلانے لگے. میرا یہ مینجر ایک نہایت پرسکون نظر آنے والا انسان تھا. جس کے سکون کا یہ عالم تھا کہ روز سب کو ای میل کرکے بتاتا کہ آج کا دن رب کی کتنی نعمتوں سے مزین نظر آرہا ہے. البتہ اس کے لئے یہ بات پریشان کن تھی کہ اسے میرا وجود بھی پوری طرح پرسکون نظر آتا. اسے یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کوئی شخص عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نہ مانے اور پھر بھی پرسکون رہے، یہ کیسے ممکن ہے ؟ دوسری طرف مجھے اعتراف ہے کہ چونکہ میں بھی سکون کو ایمان و عمل کا لازمی نتیجہ مانتا ہوں لہٰذا میں بھی تعجب میں تھا کہ یا اللہ ایک شخص بدترین شرک میں مبتلا ہوکر بھی اس درجہ پرسکون کیسے ہے؟ یہ دو طرفہ حیرت ایک زمانے جاری رہی.
.
جب بےتکلفی بڑھی تو میں نے کھل کر اس سے عقائد کے متعلق بات کرنے کا فیصلہ کرلیا. ایک روز ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ صوفے پر بیٹھ کر اسی بارے میں بات کریں گے. چانچہ وہ دن آگیا. میں نے اس سے کہا کہ کیونکہ تم قران حکیم کو اللہ کا کلام نہیں مانتے، اسلئے آج میں تم سے صرف اس کتاب کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جسے تم اللہ کا کلام مانتے ہو یعنی بائبل. یہ سن کر اس کی آنکھیں چمکنے لگیں. اس کی حیرت میں اضافے کیلئے میں نے اسے بتایا کہ میں بائبل سمیت دیگر نمائندہ مذاہب کے کئی صحائف کو پڑھ چکا ہوں. اب میں نے اسے سمجھایا کہ کتنے زیادہ حوالوں سے قران اور بائبل کے ماننے والے ایک ہے عقائد کو مانتے ہیں. اصل مسلہ صرف اتنا ہے کہ ہم عیسیٰ علیہ السلام کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں بلکہ ایک بہت برگزیدہ پیغمبر تسلیم کرتے ہیں. اس نے اثبات میں سر ہلایا تو میں نے پوچھا کہ اب تم مجھے کوئی ایک بھی آیت بائبل سے ایسی پیش کردو جس میں عیسیٰ علیہ السلام نے خدائی کا دعویٰ کرکے اپنی عبادت کا حکم دیا ہو. یہ سن کر اس نے وہ آیات یکے بعد دیگرے سنانی شروع کیں جو دراصل کوئی دوسری بات بیان کررہی تھیں. میں ایک ایک کرکے اس کی پیش کردہ آیات کو واضح کرتا گیا. یہاں تک کے اس کو اعتراف کرنا پڑا کہ ایسی کوئی آیت براہ راست موجود نہیں. میں نے مسکرا کر اسے سمجھایا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ کہ اتنا بڑا عقیدہ واضح الفاظ میں موجود ہی نہ ہو. اس کے چہرے کی مسکراہٹ اب پھیکی سی تھی. میں نے اب ان حوالوں کو بائبل سے بیان کرنا شروع کیا جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی آسمانی باپ یعنی خدا کی جانب بلاتے رہے اور اسی کو خود بھی سجدہ کرتے رہے. اس نے اقرار کیا کہ ابھی اس کے پاس اس کا جواب نہیں اور وہ اس بارے میں تحقیق کرکے بتائے گا. یوں ہماری نشست ختم ہوئی. اس کے بعد کے چند روز میں نے اسے نہایت بے سکونی کی حالت میں دیکھا. اس کا وہ سکون اب کہیں غائب ہوگیا تھا جو اس کا خاصہ تھا. یہ عقدہ مجھ پر اب کھل چکا تھا کہ جس سکون کو اس مینجرنے اختیار کیا تھا وہ ایک نقلی نقاب سے زیادہ نہ تھا جو دلائل سے یکدم منہدم ہوگیا تھا. چند دن بعد اس نے خود مجھ سے بات کی اور کہا کہ ان باتوں کے جواب نہیں ہیں مگر وہ بناء دلیل اس بات کو مانے گا کہ عیسیٰ علیہ السلام ہی خدا ہیں کیونکہ وہ اسے وحی کرتے ہیں. میں نے جواب میں اسے پھر ان گنت ایسے ہی واقعات سنائے جو مختلف عقائد کےلوگوں کیساتھ ہوتے آئے ہیں. ساتھ ہی ان ذہنی مریضوں کی کہانیاں بھی یاد کروائی جنہوں نے اپنی اولاد کو یا کسی عزیز کو اسلئے قتل کردیا کہ ان کے بقول خدا نے انہیں ایسا کرنے کی وحی کی تھی. اس سب سے گھبرا کر اس نے مجھے ڈرتے ڈرتے اپنے چرچ آنے کی دعوت دی تاکہ میں وہاں کسی سے مل سکوں. میں نے دعوت قبول کی اور اللہ سے دعا کرکے مقررہ اتوار کو اس بہت بڑے چرچ میں جاپہنچا. وہاں ہوتی ہوئی ہر عبادت کا مشاہدہ کیا اور خیال رکھا کہ کسی شرکیہ عبادت کا حصہ نہ بنوں. عبادت کے اختتام پر میرے مینجر نے مجھے اپنے بڑے سے ملوایا. اس سے بھی شائستہ مکالمہ ہوا اور زیادہ دیر نہ لگی جب اس کے پاس بھی کہنے کو اس کے سوا کچھ نہ بچا کہ بناء دلیل عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت تسلیم کی جائے معاذ اللہ. اس کے بعد کھانے کی میز پر اسکی بیوی مجھ سے برزخی زندگی کے اسلامی نکتہ نظر کو سمجھتی رہی اور اپنے دیرینہ سوالات کے جوابات پاکر خوشگوار حیرت میں مبتلا رہی. جب تک میں وہاں نوکری کرتا رہا وہ اپنے عیسائی دوستوں کے ساتھ مل کر میرے عیسائی ہوجانے کی دعا مانگتا رہا ور میں اللہ سے اس کی ہدایت کا طلبگار رہا. الحمدللہ مجھے اطمینان ہے کہ اس تک دین کا پیغام الہامی دلائل اور ثبوتوں کیساتھ پہنچ گیا. اب ماننا نہ ماننا اس کا اپنا عمل ہوگا. 
.
====عظیم نامہ====