Sunday, 5 June 2016

ماں کی دعا


ماں کی دعا



میرا تعلق شہر کراچی کے ایک متوسط خاندان سے ہے. بہت سالوں قبل جب میں تعلیم کیلئے لندن آیا تو میرے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح اپنی ماسٹرز کی فیس جمع کرنی ہے اور ساتھ ہی ڈگری وقت پر مکمل کرنی ہے. آج کے حساب سے مجھے کم و بیش تیرہ لاکھ روپے درکار تھے. اس ہدف کا حصول قریب قریب ناممکن تھا. جن لوگوں کے ساتھ رہائش تھی وہ سب مذاق اڑاتے اور کہتے 'ہم بھی دیکھتے ہیں کہ یہ ڈگری کرنے کا بھوت تمہارے سر پر کب تک رہتا ہے؟' وہ پورے خلوص سے مجھے مشورہ دیتے کہ اس ڈگری وگری میں کچھ نہیں رکھا، اصل کام تو پاونڈ چھاپنا یعنی کمانا ہے. خوش نصیبی سے آتے ہی ایک ریسٹورانٹ میں بیرے کی نوکری مل گئی. سارا دن اور دیر رات تک بیرا گیری کرتا، پلیٹیں دھوتا، فلور صاف کرتا، کیش کاؤنٹر سنبھالتا. یونیورسٹی کی کلاسز ہفتے میں تین روز ہوا کرتیں. اکثر ایسا ہوتا کہ یونیورسٹی سے سیدھا کام پر آجاتا. کئی بار اڑتالیس گھنٹوں تک بناء سوئے کلاسز لیں اور نوکری کی. ہوٹل کی اس نوکری کے علاوہ بھی الحمدللہ طرح طرح کی مزدوریاں کیں. وقت گزرتا گیا اور میں نے ایک کے بعد ایک سیمسٹر نمایاں نمبرز سے پاس کرلئے مگر جب پروجیکٹ جمع کرانے کی صورت میں آخری مرحلہ آیا تو اسے تیار کرنے کیلئے جو لازمی وقت و محنت درکار تھی وہ میں نہ نکال سکا. وجہ یہی تھی کہ فیس کی آخری انسٹال منٹ دینے کیلئے دہری نوکری کرنا پڑتی تھی اور اس کے بعد جسم و ذہن میں پروجیکٹ کیلئے قوت باقی نہ رہتی تھی. خیر بڑی مشکل سے ٹوٹا پھوٹا پروجیکٹ بنا پایا اور جمع کرادیا. 
.
دل میں شدید خوف تھا کہ معلوم نہیں یہ پروجیکٹ پاس بھی کیا جائے گا یا نہیں؟ والدہ کا روز فون آتا جس میں وہ مجھ سے ریزلٹ کے بارے میں دریافت کرتیں. آخر ایک دن بذریعہ ڈاک مجھے اپنا ریزلٹ گھر پر موصول ہوا. دھڑکتے دل سے جب لفافہ کھولا تو یہ دیکھ کر سانسیں ڈوبنے لگیں کہ میرے پروجیکٹ کو ریجیکٹ کردیا گیا تھا. جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ مجھے چھ مہینے دوبارہ محنت کرکے نیا پروجیکٹ جمع کروانا ہوگا. میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے جب پاکستان سے والدہ کا فون آیا. انہوں نے حسب معمول ریزلٹ کا دریافت کیا. مجھ میں سچ بولنے کی ہمت نہ تھی لہٰذا میں نے جھوٹ کہا کہ امی ابھی ریزلٹ آنے میں وقت ہے. جواب میں امی نے مجھے ڈھارس دیتے ہوئے کہا کہ عظیم بلکل فکر نہ کرنا ، آج شب قدر ہے میں رات بھر تمہاری کامیابی مانگوں گی اور تم دیکھنا کہ تم کامیاب ہی رہو گے. میں نے دل میں سوچا، اب کون سی کامیابی؟ ریزلٹ تو میرے ہاتھ میں ہیں جو مجھے ناکامی کی خبر سنا رہا ہے. خیر وہ رات والدہ نے عبادت میں اور میں نے خاموش ماتم میں گزاری. صبح ہوئی تو یونیورسٹی سے فون آیا، میں نے گھبرا کر اٹھایا تو دوسری طرف سے آواز آئی کہ ہم بہت معزرت خواہ ہیں کہ ہم نے آپ کو غلط ریزلٹ بھیج دیا ہے. اصل میں تو آپ اچھے نمبروں سے کامیاب ہوچکے ہیں. میری سمجھ مفقود تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انگلینڈ جیسے نظم و ضبط والے ملک کی ایک نمایاں یونیورسٹی سے ریزلٹ بھیجنے میں ایسی زبردست چوک ہوجائے؟ مگر کہیں میرا دل یہ جانتا تھا کہ یہ معاملہ حسن اتفاق نہیں بلکہ عطا الہی کا غماز ہے جو میری والدہ کی دعا کا نتیجہ ہے. ایسے کتنے ہی معجزات ہیں جو میری زندگی میں اپنے والدین کی دعاؤں سے برپا ہوئے ہیں. لوگ کسی بزرگ کی دعا کیلئے دن رات جتن کرتے ہیں مگر اکثر ویسی کوشش اپنے والدین کی دعا کے حصول کیلئے نہیں کرتے. حالانکہ یہ باپ کی دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور یہ ماں کی دعا ہے جو عرش ہلادیتی ہے. 
.
====عظیم نامہ====

Friday, 3 June 2016

میں نے اسلام اسلئے قبول کیا کیونکہ..




میں نے اسلام اسلئے قبول کیا کیونکہ ...


.وہ آئرش لڑکی انگلینڈ میں پلی بڑھی تھی. مجھے اس کا انداز، گفتگو، لباس سب دیگر انگریز بچوں کی طرح ہی لگا مگر اس کے لہجہ میں ایک اضافی خاموش صداقت ہمیشہ جھلکتی تھی. پھر ایک روز اچانک معلوم ہوا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اب ہمارے پڑوسی گھر میں جن سے ہمارے گہرے مراسم تھے، بہو بن کر آرہی ہے. یہ بات ایک بڑی خبر تھی اور اب مجھ سمیت سب کو یہ اشتیاق تھا کہ اس نومسلم سے مل سکیں. گو میرے ذہن کے نہاں خانوں میں کہیں یہ بدگمانی دفن تھی کہ شائد اس نے اسلام محض شادی کرنے کیلئے قبول کیا ہوگا. ایسے کئی کیسز مشاہدے میں آتے رہے ہیں جہاں نوجوان لڑکے لڑکی اپنا مذہب صرف اسلئے تبدیل کرلیتے ہیں تاکہ معاشرہ ان کی شادی کو قبول کرسکے. مجھے لگا کہ غالبأ یہ معاملہ بھی اسی کی ایک مثال ہوگا. میری اس سے ملاقات کروائی گئی ، جہاں مجھے بھی یہ دعوت دی گئی کہ میں اس نومولود مسلم کو دین کی کچھ سمجھ دے سکوں. چانچہ نہایت اختصار سے کچھ باتیں میں نے بھی سمجھائیں جو اب خود میری یادداشت سے محو ہیں. اس نومسلم لڑکی کی گھبرائی معصوم آنکھوں میں مجھے بہن نہیں بیٹی نظر آئی لہٰذا میں نے اسے بیٹی ہی پکارا. جواب میں اس نے بھی چچا یا ماموں جیسی ہی عزت دی. پھر نکاح کا انعقاد ہوا اور خوشی خوشی اس رشتے کا باقاعدہ آغاز ہوا.
.
جس گھر میں وہ نکاح ہو کر آئی تھی ، وہ گھر میرے ہی گھر کی طرح پیدائشی مسلمانوں کا گھر تھا جہاں 'دین اور دنیا ساتھ ساتھ' کا نام لے کر زندگی گزاری جاتی ہے. جس نوجوان سے اس کا نکاح ہوا تھا وہ غصہ کا شدید تیز تھا اور مزاج میں بچپنا رکھتا تھا. غرض یہ کہ ایک نومسلم اپنی سابقہ کرسچن اور ویسٹرن ویلیوز کو چھوڑ کر ایک روایتی پاکستانی نژاد فیملی میں آئی تھی. میری زبان دعا گو تھی کہ الله اس رشتے کو کامیاب کریں مگر دل خوفزدہ تھا کہ بظاہر کئی عوامل ان کے خلاف تھے. 
.
مگر پھر میں نے دیکھا کہ دلوں کو بدل دینے والی ذات نے دل بدل دیئے. یہ گھر اس لڑکی کیلئے رحمت ثابت ہوا جہاں ساس کی صورت میں ایک پیار کرنے والی ماں اور شوہر کی صورت میں ایک بہترین دوست اسے میسر آیا. اس لڑکی نے دین کو صرف سمجھا نہیں بلکہ اپنے کردار کو اس میں ڈھال لیا. عبادات کی پابندی کے ساتھ جب اس نے اسکارف پہننے کی خواہش کی تو اردگرد کئی لوگ تذبذب میں پڑگئے. اس نے دین کو ایسی خوبصورتی اور خاموشی سے اپنایا کہ جدی پشتی مسلم عورتیں اسے اپنے لئے عملی نمونہ ماننے پر مجبور ہوگئیں. الله نے اس نومسلم کو بھی گھر میں اسلام کی مزید ترویج کا ذریعہ بنادیا. گویا اگر گھر لڑکی کے لئے رحمت ثابت ہوا تو یہ لڑکی گھر کیلئے نعمت قرار پائی. کئی عورتوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس لڑکی کے چہرے سے نور نکلتا محسوس ہوتا ہے. نور محسوس ہوتا ہے یا نہیں ؟ یہ تو میں نہیں جانتا مگر ہاں اتنا پورے شرح صدر سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک پاکیزگی کا احساس ضرور ہوتا ہے. آج بھی کبھی ملاقات ہوجائے تو تیزی سے آکر عظیم انکل کہہ کر ادب سے جھک کر سلام کہتی ہے. ایسی عزت کسی ادبی کہانیوں میں تو پڑھی ہے مگر ہماری پاکستانی ثقافت میں مفقود ہوچکی ہے. 
.
ایک زمانے بعد جب ملاقات ہوئی تو اس سے پوچھا تھا کہ بیٹا آج سچائی سے بتاؤ کہ تم نے اسلام کیوں قبول کیا تھا ؟ کیا محض اسلئے کہ تمہاری پسند کی شادی ہوسکے؟ .. اس نے نفی میں سر ہلاکر کہا کہ نہیں عظیم انکل ، ہرگز نہیں .. میں نے پوچھا تو پھر کیوں قبول کیا؟ .. کہنے لگی کہ "انکل میں نے اسلام اسلئے قبول کیا کیونکہ میں نے بائبل پڑھی." .. میں نے اس کی تصحیح کی کہ "تمہارا مطلب ہے کہ تم نے قران پڑھا؟" .. اس نے سنجیدگی سے کہا کہ "نہیں انکل ، میں نے اسلام اسلئے قبول کیا کیونکہ میں نے بائبل پڑھی" .. میں نے حیرت سے اسے تکتے ہوئے پوچھا "مطلب؟" .. اس نے سمجھایا کہ 'جب میں نے بائبل کو خود پڑھا تو مجھے احساس ہونے لگا کہ جو اس میں لکھا ہے وہ تو مسلم کہتے ہیں ، جو اس میں کرنے کو کہا گیا ہے وہ تو مسلم کرتے ہیں. کیتھولک چرچ میں بچپن سے ہم 'مدر میری' کے بت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اپنی حاجت مانگتے آئے ہیں مگر پوری بائبل میں ایسا کچھ نہیں لکھا، ہمیں تثلیث کا عقیدہ رٹوایا گیا ہے مگر اس کا کوئی ادنیٰ ذکر بھی بائبل سے ثابت نہیں، جیزس (حضرت عیسیٰ ع ) داڑھی رکھ کر جیسے نظر آتے تھے ویسے تو مسلم مرد نظر آتے ہیں. میری (مریم ع ) سر ڈھانپ کر جیسی دیکھتی تھیں ویسی تو مسلم خواتین نظر آتی ہیں اور اسی طرح کی بہت سی باتوں نے مجھے لاشعوری طور پر مسلمانوں سے قریب کردیا. میں یونیورسٹی میں مسلمان دوستوں کے ساتھ رہنے میں ہی بہتر محسوس کرتی حالانکہ ان میں کئی اچھے مسلم نہیں تھے. پھر جب مجھے اسلام قبول کرکے نکاح کا موقع میسر آیا تو میں نے اسے لپک کر قبول کرلیا اور آج مطمئن ہوں.' 
.
میرے لئے یہ لڑکی اور وہ گھر جس میں یہ لڑکی بیاہی گئی ، دونوں اپنی حقیقت میں مثال ہیں. جہاں ایک جانب اخلاص و قبول حق کی داستان دکھائی دیتی ہے تو دوسری جانب دین کے سامنے سب فاسد معاشرتی اقدار ہیچ نظر آنے لگتی ہیں. دعا ہے کہ رب کریم ان کی خوشیوں کو مزید بڑھائے اور مجھ جیسوں کو سیکھنے کی توفیق دے. آمین 
.
====عظیم نامہ====

کوئی ایک نیکی



کوئی ایک نیکی



یہ معمول بنالیجیئے کہ دن میں کم از کم کوئی ایک نیکی ایسی ضرور کریں گے جو فرائض کے علاوہ ہو، جسے آپ کسی سے نہ کہیں، جو آپ کے علاوہ صرف آپ کا رب جانتا ہو اور جسے رات میں سونے سے قبل سوچ کر آپ صدق دل سے الحمدللہ کہہ سکیں. کوئی بھی نیکی جیسے کسی غریب کو بہترین کھانا کھلادینا، کسی کے گھر شفٹنگ کیلئے سامان اٹھانے میں مدد کردینا، کسی کی عیادت کو چلے جانا یا کسی مایوس انسان کی ہمت بڑھانا وغیرہ. نیکیوں کے لاتعداد ایسے مواقع آپ کو روز حاصل ہوتے ہیں. انہیں ضائع نہ ہونے دیں. یہ بظاہر چھوٹی نیکیاں روز جزاء ان شاء اللہ چھوٹی شمار نہ ہونگی اور آپ کی مغفرت کا سبب بن جائیں گی. 
.
====عظیم نامہ====

وہ ایکسیڈنٹ



وہ ایکسیڈنٹ


کوئی پندرہ سال قبل میرے بڑے بھائی کا ایک زبردست ایکسیڈنٹ ہوا جس میں اس کے جسم کی بہت سی ہڈیاں ٹوٹ گئیں. ایک سال تک مختلف آپریشن ہوتے رہے اور جسم میں لوہے کی پلیٹیں ڈالی گئیں. اب وہ الحمدللہ الحمدللہ الحمدللہ پوری طرح تندرست ہے مگر اس دوران ایک قیامت پورے گھر پر گزرتی رہی. میں بھائی کے ساتھ ہی زیادہ وقت گزارتا تھا. ہسپتال میں جب شدت تکلیف سے وہ چیخیں مارتا تو میں بھی اس تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے نادانستہ اپنا جسم بری طرح نوچ لیتا. اس دوران بہت کچھ سیکھنے اور بہت کچھ غور کرنے کو بھی ملا. ایک روز بھائی کے پاس بیٹھا تھا اور اللہ پاک کی بیشمار نعمتوں کا ذکر ہورہا تھا. بھائی کہنے لگے کہ اللہ رب العزت کی ان گنت نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت 'بیہوش' ہوجانا ہے. میں نے حیرت سے استفسار کیا ، بیہوش ہوجانا کیسے نعمت ہے؟ انہوں نے بتایا کہ جب تکلیف ایک حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو وہ خود بخود بیہوش ہوجاتے ہیں. اس طرح اللہ پاک اپنے بندے کو اس کی حد سے زیادہ تکلیف میں نہیں ڈالتا اور حد گزرنے پر اسے درد سے عارضی طور پر بے نیاز کردیتا ہے. اللہ اکبر .. کتنی ہی بیشمار نعمتیں ایسی ہیں جنہیں ہم نعمتیں سمجھتے ہی نہیں. اسی دوران ایک آپریشن میں بھائی کے ہاتھ کی سرجری کی گئی. جب ہوش میں آئے تو ہاتھ مکمل کام کر رہا تھا مگر کوئی نس دبی رہ جانے کی وجہ سے محسوس کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھا تھا. لہٰذا اب نہ تو وہ کھولتی ہوئی گرم چائے اور تازہ برف میں کوئی فرق کرسکتا تھا ، نہ ہی اسے یہ احساس ہوتا کہ کسی چیز کو اٹھانے کے لئے کتنی طاقت لگانا ضروری ہے؟ چانچہ کبھی تو کسی چیز کو اتنی طاقت سے اٹھاتا کہ وہ دور جاگرے اور کبھی کسی ہلکی سی چیز کو اٹھا کر پسینے میں شرابور ہوجاتا. سرجن نے دوبارہ آپریٹ کیا تو الحمدللہ حساسیت ہاتھ میں واپس لوٹ آئی. اللہ اکبر .. اس واقعہ سے قبل میں نے کبھی خیال بھی نہ کیا تھا کہ لمس محسوس کرنا اتنی عظیم نعمت ہے. میرے دوستوں اپنے رب کا کثرت سے شکر کیا کرو. ان نعمتوں کا جن کو تم جانتے ہو اور ان کا بھی جو تمہاری فہم سے اوجھل ہیں. شکایتیں نہ کرو ، ناشکری نہ کرو، قدر کرنا سیکھو ان لاتعداد آسائشوں اور نعمتوں کا جنہیں بن مانگے تمہارے رب نے تمھیں عطا کر رکھا ہے. کم از کم دن میں ایک بار تو دل سے پکارو .. 'الحمدللہ'  
.
====عظیم نامہ====

خلافت کا قیام اور متفرق مسلم مکاتب فکر - ایک تقابلی جائزہ




خلافت کا قیام اور متفرق مسلم مکاتب فکر - ایک تقابلی جائزہ 

=====================================
.
خلافت کہیئے، دار الاسلام قرار دیجیئے، نفاز شریعت لکھیئے، اسلامی فلاحی ریاست کہہ لیجیئے، مسلمانوں کا نظم اجتماعی پکاریئے یا قرانی نظام کا نام دیجیئے. حقیقت یہ ہے کہ مسلم امت کا ہرگروہ فرد اور معاشرے دونوں میں اسلام کے ظہور کی خواہش رکھتا ہے. وجہ یہی ہے کہ دین کے احکام جہاں فرد کی تذکیر کرتے ہیں وہاں معاشرے کے تزکیہ کیلئے بھی الہامی حدود کا اطلاق کرتے ہیں. یہ تو ممکن ہے کہ ایک گروہ یہ کہے کہ فرد کے رستے سے ہی معاشرے اور نظام میں اسلام کا حقیقی ظہور ہوسکتا ہے اور دوسرا گروہ یہ پکارے کہ فرد کا اپنا تزکیہ بھی اسی وقت ممکن ہوگا جب معاشرے یا نظام پر اسلامی اصولوں کا اطلاق کیا جائے. یا پھر کوئی تیسرا گروہ بولے کہ یہ دونوں ہی کام کو بیک وقت سرانجام دینا ہی درست سمجھ ہے. مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دین کے احکامات کو فرد، معاشرے، حکومت اور نظام ہر جگہ نافذ دیکھنے کا خواہاں نہ ہو. گویا منزل و خواب ہر مسلمان گروہ کا ایک ہے، پھر چاہے اس تک پہنچنے کے طریق اور اس حوالے سے دینی احکامات کی سمجھ میں اختلاف ہو. راقم اس سمجھ اور طریق کے گروہی اختلاف کو اجمالی طور پر بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہے. مقصد صرف ان گروہوں کی سمجھ کا بیان ہے ، کسی کی موافقت و مخالفت یہاں مقصود نہیں.
.
جہادی تحریکیں
=========
.
گو جہادی تحریکوں میں آپس میں بھی بہت فرق موجود ہے اور یہ ممکن نہیں کہ دنیا بھر میں موجود ان تنظیموں کا تقابل یہاں کیا جاسکے. مگر ایک اصولی بات جو ان سب میں مشترک نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ مسلمان ممالک میں جاری ظالم اور کئی اعتبارات سے کفریہ نظام کو بازور طاقت خاتمہ کردینا چاہتے ہیں. یہ ان مغرب کے غلام کرپٹ حکمرانوں سے اقتدار چھین کر صالح افراد کے ہاتھ میں اسے سونپ دینا چاہتے ہیں. ان کے اس نظریئے کی یوں تو کئی دلیلیں ہیں مگر سب سے قوی دلیل وہ صحیح حدیث محسوس ہوتی ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ مسلم حکمران کی اطاعت اس وقت تک ہے جب تک وہ صریح کفر کا ارتکاب نہ کرنے لگے. اگر ایسا ہو تو پھر اس سے بغاوت کرکے اسکے خلاف طاقت استعمال کی جاسکتی ہے. یہ تحریکیں کہتی ہیں کہ اب چونکہ مسلم حکمران سودی نظام، استعماری قوتوں کی پشت پناہی سمیت بیشمار کھلے کفر کے ارتکاب میں ملوث ہیں لہٰذا ان کے خلاف تلوار اٹھانا جائز ہے. ان تحریکوں کے بارے میں عمومی مشاہدہ یہی رہا ہے کہ انکی اکثریت قبائلی مزاج کی ہے جہاں جدید تعلیم یافتہ اذہان بہت کم ہیں. میڈیا پروپیگنڈہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے مگر اس سے انکار ممکن نہیں کہ ان میں کچھ گروہ نہایت سفاک اور دین سے بہت دور محسوس ہوتے ہیں. مگر ان کچھ گروہوں کو مثال بناکر تمام جہادی گروہوں پر منطبق کرنا صریح غلطی ہے. ان سفاک گروہوں کی مذمت بقیہ جہادی گروہ بھی کرتے نظر آتے ہیں. راقم کی رائے میں جہادی تحریکوں کا مقدمہ سب سے زیادہ مظبوط اور علمی انداز میں شیخ انور الاولاکی نے پیش کیا ہے
.
جماعت اسلامی / اخوان المسلمین وغیرہ
========================
.
یہ مسلمانوں کی وہ تحریکیں ہیں جو قومی سیاسی دھارے اور موجود جمہوری طریق سے منسلک ہو کر اسلامی نظام کو حصول اقتدار کے بعد نافذ کرنے کی خواہاں ہیں. یہ کہتے ہیں کہ چونکہ زمین اللہ کی ہے لہٰذا نظام بھی الله ہی کا نافذ ہونا چاہیئے. ان کا ماننا ہے کہ اگر مسلم عوام کے سامنے دیانتدار افراد کو نفاز شریعت کیلئے پیش کیا جائے تو وہ ضرور انہیں اپنے ووٹ یا موافقت سے کامیاب کریں گے. یہ دین کو تدریج سے نافذ کرنے کے قائل ہیں. اخوان المسلمین کو حال ہی میں اقتدار حاصل ہوا مگر افسوس کے جلد ہی فوجی آمریت سے اس کا خاتمہ کردیا گیا. کچھ تجزیہ نگار ترکی کے صدر طیب اردغوان کو بھی اسی سوچ سے وابستہ قرار دیتے ہیں. پاکستان میں حال ہی میں ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاسی کوشش بھی اسی سوچ کی ترجمان ہے. راقم کی رائے میں ان مذہبی سیاسی جماعتوں کا مقدمہ سب سے موثر انداز میں برصغیر کے جلیل القدر اہل علم اور جماعت اسلامی کے بانی سید ابو الاعلی مودودی نے پیش کیا 
.
تنظیم اسلامی
=========
.
یہ تنظیم دور حاضر کے ایک بہت بڑے صاحب علم، محقق اور ذہن ساز ڈاکٹر اسرار احمد رح نے قائم کی. آپ کے نزدیک خلافت کو پہلے کسی ایک ملک میں نافذ کر کے ایک مثالی ریاست کے روپ میں دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا. جس کے ثمرات اور ترقی دیکھ کر باقی مسلم ممالک کو بھی اسکی ترغیب ہو. گو کے تنظیم کے نزدیک اس کے کارکن قومی سیاست  میں مذہبی جماعتوں کو ووٹ دے سکتے ہیں مگر ان کے نزدیک نظام کی تبدیلی نظام کا حصہ بن کر کبھی نہیں آسکتی. ڈاکٹر صاحب کے فلسفے کے مطابق خلافت منہاج النبوہ کا حصول صرف اور صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ٹھیک وہی اقدام اور ترتیب اپنائی جائے جو رسول اکرم ص نے مدینہ کی اسلامی ریاست قائم کرنے کے لئے اپنائی تھی. لہٰذا اس تنظیم کا ایک امیر مقرر ہوتا ہے جیسے کے آج کل حافظ عاکف سعید ہیں ، جن کے ہاتھ پر بیعت کرکے تنظیم میں شمولیت اختیار کی جاتی ہے،. اس کے بعد درج ذیل ترتیب اختیار کی جاتی ہے یا کی جائے گی
.
١. جماعت میں شامل ہر فرد کا قران و سنت سے تزکیہ کیا جائے اور اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے.
٢. جماعت سے وابستہ ہر فرد اسلام کو پہلے اپنی ذات اور پھر اپنے گهر پر نافذ کرے
٣. دوسرے مسلمانوں کو بلخصوص پڑھے لکھے اذہان کو بھی اسی نہج پر جوڑا جائے
٤. جب ایک بڑی تعداد انسانوں کی ایسی میسر ہو جائے جو اپنی ذات و خاندان پر دین کا نفاز کرچکے ہوں تو اب عملی میدان میں اترا جائے
٥. عملی میدان میں اترنے سے مراد ہتھیار اٹھانا نہیں بلکہ سڑکوں پر آنا ہے. اس میں لاٹھیاں پڑیں، جانیں جائیں یا جیلیں ہوں سب سہنا ہے مگر مقصد حاصل ہونے تک پیچھے نہیں ہٹنا
.
حزب التحریر
========
.
خلافت کے حوالے سے یہ دنیا بھر میں شائد سب سے پرانی، مضبوط اور مقبول تنظیم ہے. مغرب ہو، مشرق ہو یا عرب ممالک ہر جگہ ان کی ایک بڑی تعداد موجود ہے. خلافت کے باریک سے بارک موضوعات پر بھی انکی کتب موجود ہیں. خلافت کیسے آئے گی؟ خلیفہ کیسے منتخب ہوگا؟ تفرقہ میں کسی سمجھ کو نافذ کرنا کیسے ممکن ہوگا؟ معاشی نظام کی باریکیاں کیسے حل ہونگی؟ کون سا فقہ نافذ ہوگا؟ غیر مسلم ممالک سے تعلقات کیسے ہونگے؟ اور ایسے ہی بیشمار سوالات کے شافی جوابات ان کی جانب سے پیش کئے جاتے ہیں. یہ علمی مکالمہ کرنا صرف پسند ہی نہیں کرتے بلکہ مقابل کو مکالمے کی دعوت دیتے ہیں. جتنا علمی کام اس موضوع پر ان کے ہاں ملتا ہے اسکی مثال موجود نہیں. آئین سمیت ہر شعبہ حکومت کا تفصیل سے بیان ان کے پاس موجود ہے. اس تنظیم کا قیام ایک بہت برے عالم شیخ تقی الدین نبہانی نے کیا. جن کی تحریریں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں. ان کا منہج تنظیم اسلامی کے منہج سے ملتا جلتا محسوس ہوتا ہے مگر کچھ ضمنی باتوں میں اختلاف بھی ہے. جیسے ان کے ہاں بیعت صرف خلیفہ کے ہاتھ پر ہی ہوسکتی ہے کسی تنظیم کے سربراہ کے ہاتھ پر نہیں، مغربی جمہوریت کو یہ کفریہ نظام کہہ کر اس کا حصہ نہیں بنتے اور اپنے کارکنان کو بھی ووٹ دینے سے منع کرتے ہیں وغیرہ راقم کی دانست میں ان کا سب سے بڑا اختلاف جو تنظیم اسلامی سے ہے وہ یہ کہ یہ 'نصرہ' کے اصول پر یقین رکھتے ہیں. یہ ثابت کرتے ہیں کہ مدینہ کی ریاست صرف تبلیغ و دعوت سے وجود میں نہیں آئی بلکہ رسول ص نے طائف، بنو عامر اور کئی دوسرے قبائل سے نصرہ طلب کی یعنی صاحبان اقتدار کو ریاست کا نظم حوالے کرنے کی ترغیب دی. جو باقی قبائل نے تو رد کی مگر مدینہ کے صاحب رسوخ افراد نے تسلیم کرلی. لہٰذا یہی وجہ ہے کہ آپ ص مدینہ میں رات کے اندھیرے میں داخل ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ عبدللہ بن ابئی کو حاصل ہونے والا اقتدار راتوں رات مسلمانوں کو منتقل ہوگیا. حزب التحریر کے بقول اب بھی یہی طریقہ کارگر ہوگا لہٰذا وہ ہر صاحب رسوخ چاہے وہ سیاستدان ہو یا فوجی جرنل اسلامی نظام کا قائل کرتے ہیں. ان کے نزدیک نظام کی تبدیلی تاریخی طور پر کبھی بھی تدرج سے نہیں آتی بلکہ انقلاب سے آتی ہے. 
.
شیخ عمران حسین کا فلسفہ 
=================
.
راقم کی رائے میں شیخ کو  'علم آخر الزماں' کا سب سے بڑا ماہر کہنا غلط نہ ہوگا.  شیخ عمران حسین خلافت کے پرزور مبلغ ہیں اور احادیث صحیحہ سے حالات حاضرہ کے ساتھ ساتھ مستقبل میں پیش آنے والے ممکنہ حالات کی بھی پیشن گوئی کرتے ہیں. آپ ڈاکٹر اسرار احمد رح کی فکر سے بھی متاثر ہیں اور ایک لمبے عرصہ تک ڈاکٹر صاحب کی قائم کردہ تنظیم اسلامی کی نارتھ امریکہ برانچ کے امیر رہے ہیں. اب آپ کچھ فکری اختلاف رکھتے ہیں. آپ خلافت کے قیام کی ہر ممکنہ اخلاقی و عقلی کوشش کے قائل تو ضرور ہیں مگر ساتھ ہی آپ کا تجزیہ یہ کہتا ہے کہ شاید خلافت کا حصول ظہور مہدی سے قبل نہ ہوسکے. اس قیام نہ ہونے کی وجہ صیہونی طاقتوں کا وہ جال ہے جو آج چاروں اطراف پھیلا ہوا ہے. مگر جیسا کہا کہ وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی سی کوشش کرتی جانی ہے تاکہ کل جب واقعی ظہور مہدی ہو تو ہمارا شمار موافق حالات پیدا کرنے والوں میں کیا جائے. فی الوقت وہ اپنے شاگردوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جہاں ممکن ہو سکے وہاں چھوٹے ماڈل ولیج (دارالاسلام) بنائیں جائیں. جدھر آپ حتی الامکان اسلام کا نفاذ کرکے زندگی گزاریں. یہاں ملحوظ رہے کہ وہ اس کوشش میں حکومتی نظم کو تباہ کرنے کے قائل نہیں صرف جتنا ممکن ہو کی شرط لگاتے ہیں. مثال کے طور پر کسی گاؤں میں سارے افراد مل کر اس گاؤں کی حد تک شریعت نافذ کرکے جیتے ہیں. اس وقت بارہ کے قریب ایسے علاقے بنائے جاچکے ہیں. ہر علاقہ کا ایک امیر ہوتا ہے. جب تک اصل خلافت کا قیام نہیں ہوتا تب تک شیخ کے نزدیک یہ زندگی گزارنے کا ایک بہتر طریق ہے. 
.
تبلیغی جماعت 
=========
.
اس طرز کی تمام جماعتیں خلافت کی شدید خواہش رکھتی ہیں مگر ساتھ میں ان کا نظریہ یہ ہے کہ فرد کی زندگی میں دین آئے گا تو وہ مختلف شعبہ زندگی میں جا کر دین کا ترجمان بنے گا اور یوں تدرج سے تبدیلی آتی جائے گی. یہ عملی طور پر نہیں تو نظریاتی طور پر دین قائم کرنے کی کسی بھی سنجیدہ کوشش کے حامی ہیں. گو تمام تحریکیں ان کی خلافت کیلئے عملی کوشش نہ کرنے کی وجہ سے خفا ہیں. انہیں بھی ہم امام مہدی کے منتظر گروہ میں شمار کرسکتے ہیں 
.
علماء کے متفرق گروہ 
=============
بناء تفریق ہر مسلک کے علماء مختلف جہتوں سے خلافت کے حصول کی تمنا رکھتے ہیں. یہ اپنی تقریر و تحریر سے خلافت کیلئے متحرک گروہوں کی حمایت کرتے ہیں اور سننے والو کی ذہن سازی کرتے ہیں. اس پر سنی، شیعہ، سلفی، اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی، صوفی سب متفق ہیں. ہر گروہ اپنے اکابر علماء اور دین کی چودہ سو سال کی تاریخ کو بھی نظام خلافت کی تعبیر کے حق میں پاتا ہے اور پیش کرتا ہے 
.
فکر غامدی 
=======
.
جاوید احمد غامدی کو بجا طور پر برصغیر میں نظام خلافت کا سب سے بڑا مخالف تصور کیا جاتا ہے.  آپ اسلام کو ایک نظام تسلیم نہیں کرتے اور خلافت کے قیام کی کوششوں کو سیاسی تعبیر کہہ کر رد کردیتے ہیں. اس پر سہاگہ یہ ہے کہ آپ امام مہدی اور نزول مسیح کے بھی قائل نہیں. لہٰذا وہ موہوم سی تمنا جو خاموش گروہ خلافت کے ضمن میں رکھتے ہیں، ان کے یہاں وہ بھی مفقود ہے. مگر اس شدید تر مخالفت کے باوجود آپ اس کے قائل ہیں کہ ایک آئیڈیل مسلم معاشرہ وہی ہے جہاں معاشرتی بنیادیں اسلام پر قائم ہوں اور جہاں قانون سازی بھی قران و سنت سے کی گئی ہو. یہی وجہ ہے کہ وہ دیت کا قانون ہو یا اسلامی سزائیں. آپ ان کا انکار نہیں کرتے بلکہ جزیات میں تنقید و توثیق کرتے ہیں. لہٰذا آپ بھلے لفظ نظام کو تسلیم نہ کرتے ہوں مگر مسلمانوں کے موجود نظم اجتماعی کو دین سے قریب کرنے کی خواہش رکھتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ خلافت کے قیام کی جدوجہد کریں، اس کے برعکس ہم پر دعوت دین کی ذمہ داری ہے. معاشرہ چونکہ کوئی مجرد شے نہیں بلکہ فرد ہی سے تشکیل پاتا ہے. اسلئے فرد کا تزکیہ ہی اصل ہے. آپ جمہوریت ہی کو دین کا اصل طریق سمجھتے ہیں اور ایسی سیاسی کوششوں کے مخالف نہیں ہیں جو جمہوری طریق پر دینی اصلاحات کی خواہاں ہوں. گو یہاں بھی ایک طرف آپ ریاست کے اختیار کا تصور عام فکر سے مختلف پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف علماء کی کسی بھی سیاسی کوشش کو ان کی اصل ذمہ داری سے فرار قرار دیتے ہیں. مولانا وحید الدین اور آپ کی فکر اس ضمن میں قریب قریب ہے.
.
فکر پرویز 
======
.
غلام احمد پرویز سمیت جتنے بھی نمائندہ قرانسٹ گروہ ہوئے ہیں وہ خلافت کے قیام کے پرزور حامی ہیں اور اسے 'قرانی نظام' کا نام دیتے ہیں. احادیث کے کلی یا جزوی انکار کے باوجود خالص قرانی فکر اپنانے کا دعویٰ کرنے والے پرویز صاحب اپنی تعلیمات کا محور ہی ایک ایسے نظام کے حصول پر رکھے ہوئے ہیں جہاں قران میں درج ہر ہر حکم کو معاشرے کی سطح پر رائج کیا جائے. ان کے یہاں یہ خواہش اتنی شدید ہے کہ دین کی دیگر معروف عبادات یا اصطلاحوں کو بھی اکثر نظام سے جوڑے دیتے ہیں. چنانچہ صلات ہو یا حج ، لفظ امر ہو یا مشیت یہ ان سب کو قرانی نظام ہی سے منسلک کر دیتے ہیں 
.
اب میں اس مضمون کا خاتمہ کرتا ہوں. یہ راقم کا ناقص تجزیہ ہے جو اس نے موجود مختلف دینی جماعتوں کے بارے میں بناء تنقید و توثیق کے پیش کردیا ہے. قارئین سے امید ہے کہ وہ غلطیوں سے درگزر کریں گے اور اس تحریر سے کچھ خیر کو ڈھونڈھ پائیں گے. ان شاء اللہ 
.
====عظیم نامہ==== 

Wednesday, 1 June 2016

اداس


اداس 



جسے محبت نہ ہوسکی وہ انتظار کر کر کے اداس ہوا 
جسے محبت دغا دے گئی وہ آہیں بھر بھر کے اداس ہوا 
جسے محبت مل گئی وہ اس سے لڑ لڑ کے اداس ہوا 
.
تو میرے دوست کسی ذی نفس کے ملنے نہ ملنے کو اداسی کا سبب یا مداوہ نہ سمجھو. سکون و خوشی حالات و واقعات سے کہیں زیادہ آپ کی اپنی ذہنی کیفیت پر منحصر ہے. لوگ کروڑوں افراد سے زیادہ نعمتوں سے سرفراز ہوتے ہیں مگر پھر بھی اداسی کا کوئی نہ کوئی پہلو ایجاد کرلیتے ہیں. حقیقی سکون کے متلاشی ہو تو خواہشات نفس کی تکمیل سے اپر اٹھنا ہوگا. "صبر" ، "شکر" اور "توکل" کو اپنالینے والا نہ کبھی اداسی کے گرداب میں پھنستا ہے نہ مایوسی کی دلدل میں دفن ہوتا ہے. 
.
====عظیم نامہ====

عذاب قبر ایک سرکش کو زیادہ دوسرے کو کم؟



عذاب قبر ایک سرکش کو زیادہ دوسرے کو کم؟



سوال:
عظیم بھائی اگر اللہ پاک کا کوئی سرکش و نافرمان آج سے ہزاروں سال پہلے مرگیا تھا اور ٹھیک اتنا ہی سرکش و نافرمان آج مرجاتا ہے تو عقل کہتی ہے کہ پہلے سرکش کو روز قیامت آنے سے پہلے ہزاروں سال کی سزا عذاب قبر کی صورت مل چکی ہوگی. جب کے دوسرا سرکش پہلے کے مقابل بہت فائدے میں رہا کہ اس کی موت قرب قیامت کے دنوں میں ہوئی. اسے کیسے سمجھا جائے؟
.
جواب:
سب سے پہلے تو یہ جان لیجیئے کہ عذاب قبر ان امور غیب میں سے ہے جن کا کَماحَقُّہ جان لینا ہمارے بس میں نہیں ہے. البتہ قران و حدیث میں موجود اشاروں سے ہم اس کے ضمن میں کچھ اندازے ضرور قائم کرلیتے ہیں. جن کے بارے میں اہل علم علمی اختلاف بھی کرتے ہیں. کس کو عذاب ہوگا؟ کیسے عذاب ہوا؟ روح پر ہوگا یا جسم پر ہوگا؟ قبر میں ہوگا یا برزخ میں ہوگا؟ یہ تمام سوالات بہت تفصیل کے متقاضی ہیں. لہٰذا راقم اختصار کیلئے خود کو خاص آپ کے سوال تک ہی محدود رکھنے کی سعی کرے گا.
.
قران مجید میں کئی مقامات پر غور کرکے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ دیگر مخلوقات کی طرح 'وقت' بھی اللہ ہی کی ایک مخلوق ہے جسے وہ اپنے تصرف سے بدل سکتے ہیں اور بدلتے ہیں. چنانچہ سورہ البقرہ میں اللہ عزوجل نے اپنے ایک بندے کا واقعہ بیان کیا ہے جو کئی محققین کے نزدیک حضرت عزیر ع تھے. انہوں نے ایک بستی کے بوسیدہ کھنڈرات کو دیکھ کر اللہ پاک سے عرض کی کہ وہ کیسے ان مرے ہوئے افراد اور بستی میں دوبارہ زندگی ڈالے گا ؟ تو اللہ پاک نے سو سال کیلئے ان کی روح قبض کرلی. سو سال بعد جب وہ جاگے تو رب کریم نے پوچھا کہ کتنا عرصہ تمہارے خیال میں تم مردہ رہے یا سوتے رہے؟ ان کا جواب تھا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم. غور کیجیئے کہ سو سال مردہ رہنے کے بعد زندہ کئے جانے پر انہیں لگا کہ وہ کچھ گھنٹے ہی کو رخصت رہے ہیں. ان کے اس جواب پر اللہ پاک نے انہیں بتایا کہ تم سو سال مردہ رہے ہو لیکن دیکھو تمہارا کھانا جو تمھارے ساتھ تھا وہ ابھی بھی ویسا ہی تازہ ہے. جب کہ اپنی سواری کو دیکھو تو تمہارا گدھا سو سال سے مرا ہوا ہے اور اس کی بوسیدہ ہڈیاں زمین پر بکھری ہوئی ہیں. پھر اللہ پاک نے ان کے سامنے ان کے اسی گدھے کو ان ہی ہڈیوں کیساتھ دوبارہ تخلیق کر کے دکھایا . اسی طرح اصحاب کہف کے واقعے سے لے کر دیگر کئی واقعات میں قران مجید اسی حقیقت کو باور کرواتا ہے کہ قادر المطلق اسی دنیا میں ایک مخلوق یا شخحص پر وقت کو دراز کر دیتے ہیں اور دوسرے کیلئے نہایت مختصر.
.
اس ساری تمہید کو بیان کرنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ آپ جان لیں کہ آپ کا رب اس پر پوری طرح قادر ہے کہ وہ ہزاروں سال پہلے مرنے والے سرکش و نافرمان کو اور آج مرنے والے سرکش و نافرمان کو ٹھیک ایک جیسا عذاب دے سکے. مگر یہ صرف ایک زاویہ ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ جس کو عذاب قبر زیادہ ہوا اس کے عذاب جہنم میں کوئی تخفیف کردی جائے. یا پھر ایک مقررہ میعاد کے بعد کسی ایک کیلئے عذاب قبر کو ساقط کردیں اور دوسرے پر جاری رہنے دیں. فی الواقع کیا ہوگا؟ اس کے بارے میں کوئی حتمی دعویٰ کرنا عبث ہے. جیسا بیان کا کہ یہ امور الغیب ہیں بلکہ کئی حوالوں سے امور المتشبھات ہیں جن کی مستقل کھوج کرنا درست نہیں. مومن کا یقین تو اس بات پر ہے کہ اس کا رب ظالم نہیں ہے اور ممکن ہی نہیں کہ وہ کچھ خلاف انصاف کرے. واللہ اعلم بلصواب.
.
====عظیم نامہ====