Wednesday, 11 May 2016

نیت ثابت تو منزل آسان


نیت ثابت تو منزل آسان 



انہوں نے کہا : امیر کے بچے کو اس کی عیاشیاں دین پہ چلنے نہیں دیتے، اور غریب کے بچے کو اس کی غربت۔۔۔۔۔۔۔۔!
. 
ہم نے عرض کی: آپ ہی کی بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جو دین پر چلنے میں مخلص ہوں ان کے راستے نہ امیری روکتی ہے نہ غریبی حائل ہوتی ہے
. 
نیت ثابت تو منزل آسان 
نیت جھوٹی تو بہانے ہزار !

====عظیم نامہ====

چوری شدہ مرغی


چوری شدہ مرغی



سوال:
عظیم بھائی کیا چوری شدہ مرغی کو ذبح کرتے وقت تکبیر پڑھنا ضروری ہے؟
.
جواب: 
گو آپ کے اس عالی مرتبت سوال کا فوری شرعی جواب تو مجھ کند ذہن کے پاس نہیں ہے مگر راقم کی ناقص رائے میں تکبیر پڑھنا پھر بھی ضروری ہے. تکبیر پڑھ کر ذبح کرنے سے چوری کی ہوئی مرغی آپ کے کھانے کیلئے حلال تو نہ ہوگی مگر اس سے آپ ایک اور اضافی گناہ سے محفوظ ہوجائیں گے. آسان الفاظ میں مرغی چوری کرنا ایک گناہ تھا اور اسے ذبح کئے بناء کھانا گناہ پر گناہ. چوری کرکے کھانا ایک الہامی حکم کی خلاف ورزی تھی اور ذبیحہ کے بناء کسی جانور کو تناول کرنا دوسری الہامی حد کی پامالی تھی. یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے دو چور کسی کا مال چوری کریں، ان میں سے ایک چور اس مال سے حلال مرغی کھائے اور دوسرا خنزیر کا گوشت خرید کر کھانے لگے. ظاہر ہے ایسے میں دوسرا چور قبیح تر جرم کا مرتکب قرار پائے گا.
.
نوٹ: یہ ایک کم علم طالبعلم کی 'ناقص' رائے ہے. حکم شرعی کیلئے کسی فقہ کے ماہر سے رجوع کیجیئے

====عظیم نامہ====

شب معراج


شب معراج



شب معراج میں واقعہ معراج کے ساتھ ساتھ اس جملے پر بھی ذرا غور کیجیئے جسے بطور حدیث کئی اہل علم بیان کرتے آئے ہیں اور جسے کم از کم متن کے اعتبار سے کم و بیش سب تسلیم کرتے ہیں۔ گو اس کے الفاظ کی کوئی حتمی سند زخیرہ احادیث میں ہمیں میسر نہیں۔ 
۔
الفاظ کچھ یوں ہیں کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الصَّلٰوةُ هِيَ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ. ’’نماز ہی مومن کی معراج ہے۔‘‘
( سيوطی، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 313، رقم : 4239)
.
غور کیجیئے کہ اگر واقعہ معراج رب کے سامنے حضوری، کشف المحجوب اور قرب الہی کا بیان ہے تو پھر نماز کو پیر کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج سے تشبیہہ کیوں دی؟ ایسا کیا کریں جو ہماری نماز فی الواقع معراج کی تعریف پر کسی حد تک پوری اتر سکے.

====عظیم نامہ====

حیوانی وجود اور روحانی وجود


حیوانی وجود اور روحانی وجود



جان لیجیئے کہ آپ کی شخصیت دو حقیقتوں کے مرکب سے وجود میں آتی ہے. پہلا آپ کا حیوانی یا جسمانی وجود اور دوسرا آپ کا نورانی یا روحانی وجود. جس طرح اس جسم کی آنکھیں ہیں جس سے آپ دیکھتے ہیں، کان ہیں جس سے آپ سنتے ہیں، ذہن ہے جس سے آپ سوچتے سمجھتے ہیں. ٹھیک اسی طرح آپ کے روحانی وجود کی بھی آنکھیں ہیں جو مشاہدہ کرتی ہیں، کان ہیں جو خبر پاتے ہیں، ذہن ہے جس سے آپ غور و فکر کرتے ہیں. جس طرح آپ کے جسمانی وجود کی خوراک مختلف اجناس کی صورت میں موجود ہیں. اسی طرح آپ کے روحانی وجود کی خوراک ذکر اللہ اور تفکر و تدبر کی صورت موجود ہیں. 
.
====عظیم نامہ====

راستہ اور منزل


راستہ اور منزل

No automatic alt text available.
سوچیئے کہ آپ کو ایک میراتھن ریس یعنی انسانی دوڑ میں حصہ لینے کا موقع ملتا ہے. ایک بہت بڑے انعام کا اعلان کیا جاتا ہے کہ جو جو بھی دوڑ مکمل کرے گا، دی گئی ہدایات پر عمل کرے گا اور راستے میں موجود مختلف مقامات پر نصب جھنڈوں کو اکٹھا کرکے آخری منزل پر پہنچے گا اسے یہ بیش قیمت انعام حاصل ہوجائے گا. 

.
دوڑ کیلئے بچھائے گئے ٹریک کو دونوں اطراف میں خوبصورت پھولوں سے سجا دیا جاتا ہے، دیکھنے میں آسانی کیلئے بہترین برقی قمقموں کا بندوبست ہوتا ہے، دوڑنے کیلئے انتہائی آرام دہ جوتے آپ کو دے دیئے جاتے ہیں. اس کے علاوہ بھی طرح طرح کی آسانیاں اور ہدایات اس راستے میں نصب کی جاتی ہیں. دوڑ کا آغاز ہوتا ہے تو کچھ افراد تو نہایت تیزی و پھرتی سے اپنی منزل کی جانب دوڑ لگادیتے ہیں. یہ عقلمند لوگ راستے میں موجود سہولیات سے حتی المکان استفادہ کرتے ہیں اور انتظامیہ کے اس بہترین انتظام پر دل سے شکر گزار ہوتے ہیں. اس سب کے دوران ان کی نظر اپنے ہدف سے نہیں ہٹتی اور ایک لمحے کو بھی وہ اپنی منزل سے غافل نہیں ہوتے. اس کے برعکس کچھ اور لوگ اس دوڑ میں نہایت احمق ثابت ہوتے ہیں. وہ راستے میں موجود سہولیات کی چمک دمک دیکھ کر اپنی رفتار کم کر دیتے ہیں یا رک کر ان ہی میں کھو جاتے ہیں. کوئی برقی قمقموں کی ساخت پر غور کرنے لگتا ہے. کوئی موجود ہدایات کی حکمت کو بیان کرنے لگتا ہے. کوئی جھمگھٹا لگا کر انتظامات کی تعریف میں مشغول ہوجاتا ہے اور کوئی دوسرے افراد کو اس دوڑ کے جسمانی فوائد گنوانے لگتا ہے. اس صریح حماقت کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ پہلے گروہ کے علاوہ باقی سب افراد منزل پر پہنچنے اور کامیابی کو حاصل کرنے سے محروم رہیں گے. واحد وجہ ناکامی کی یہی ہے کہ انہوں نے منزل کو فراموش کرکے راستے کو ہی اصل سمجھ لیا. 
.
اس دنیا میں ہم مسلمانوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے. ہم میں سے کسی نے نماز روزے کو اصل سمجھ لیا تو کسی نے ذکر کی محفلیں سجانے کو اصل بنا لیا. کسی نے قیام خلافت کو اصل سمجھا تو کسی نے تبلیغ دین کو اصل گردانا. کوئی فن تفسیر کا شیدائی ہوگیا تو کوئی اصول الفقہ سے محبت کربیٹھا. کوئی فن حدیث میں غرق ہوگیا تو کوئی مسائل تصوف کو اپنا دل دے بیٹھا. حقیقت میں ان تمام عبادات و علوم کی حیثیت صرف 'ذریعے' اور 'راستے' کی تھی. 'منزل' تو اپنے رب کی خوشنودی اور اسکے لئے پاکیزہ قلب کا حصول تھا. سوچیئے کہ اگر ان ریاضتوں میں کھوکر اصل منزل سے نظر ہٹ گئی تو یہ کتنی ہولناک ناکامی ہے؟ اگر میری نماز، میرے ذکر، میرے علم، میرے عمل نے میری تہذیب نفس نہ کی اور مجھے خدا سے قلبی تعلق نہ دیا ، اسکی معرفت نہ دی تو پھر میری مثال بھی اسی شخص کی ہوگی جو دوڑ میں منزل بھلا کر رستے کی چمک دھمک میں کھوگیا. 
.
====عظیم نامہ=====

اصل حکم اور اضافی ثواب


اصل حکم اور اضافی ثواب



ایک استاد نے اپنے دو شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ ایک ایک پیالہ پانی کا باہر رکھے مٹکے سے بھر کر لائیں. ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دے دی کہ اس کام میں جو جو قدم تم بڑھاؤ گے تو ہر قدم پر تمہیں اضافی نمبرز سے نوازا جائے گا جو سال کے آخر میں تمہارے مجموعی نتیجے کا حصہ بن جائیں گے. اب یہ غیر معمولی خوشخبری پاکر پہلا شاگرد مٹکے کی جانب خوشی خوشی گیا، پانی پیالے میں بھرا اور اسے سنبھال کر واپس استاد کے پاس لے آیا. نتیجہ یہ کہ استاد نے اسے شاباشی بھی دی اور وعدے کے مطابق اسے ہر قدم پر اضافی نمبرز سے بھی نوازا. دوسرے شاگرد نے چالاکی دیکھانا چاہی اور بجائے اس کے کہ پانی لے کر استاد کے پاس آتا، وہ مٹکے کے ارد گرد چکر لگانے لگا. سارا وقت وہ یہ سوچ کر یہاں وہاں گھومتا رہا کہ میرے ہر ہر قدم پر استاد مجھے اضافی نمبرز دیں گے اور یوں میں کامیاب ہوجاؤں گا. اب بتایئے اس دوسرے شاگرد کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہوگی؟ ظاہر ہے کہ ہر صاحب شعور ایسا منظر دیکھ کر اپنا سر پیٹ لے گا اور اس احمق کو سمجھائے گا کہ ہر قدم پر اضافی نمبرز تمھیں اسی صورت مل سکتے تھے جب تم استاد کا اصل حکم بھی پورا کرتے یعنی مٹکے سے پیالے میں پانی بھر کر واپس استاد کو لاکر دیتے. تم نے اصل مقصد فراموش کردیا اور ضمنی منسلک فضیلت کو اصل سمجھ لیا. لہٰذا تمہارا وقت بھی ضائع ہوا، استاد بھی ناراض ہوئے، تم خود بھی ہلکان ہوئے اور اضافی نمبرز بھی ہاتھ سے گئے. 
.
قران مجید کا اصل مقصد انسان کی ہدایت کا حصول ہے. زندگی فرد اور معاشرے کی سطح پر کیسے گزارنی ہے؟ یہ قران حکیم کا پیغام ہے. یہ دنیا آخرت کی کھیتی کیسے بنے گی؟ قران پاک اس کی تعلیم دیتا ہے. یہ ہدایت اور یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک اس کلام کو سمجھ کر نہ پڑھا جائے. اس پر گہرا تدبر و تفکر نہ ہو. اس کو عمل میں ڈھالنے کی کوشش و سعی نہ ہو. افسوس کے وہ کتاب جس نے زندگی میں انقلاب لانا تھا ، آج مسلمان نے اس کتاب کی بناء سمجھے تلاوت کرکے ثواب کمانے کو اس کا اصل سمجھ لیا. سمجھ کر پڑھنے کی ترغیب دو تو جواب میں کہتے ہیں کہ حدیث پاک میں کہا گیا کہ قران مجید کے ہر ہر حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ہیں. لہٰذا ہم اسے بناء سمجھے بس تلاوت کرتے رہیں گے. افسوس کیسا عجیب استدلال ہے؟ ان کی حالت میں اور اس دوسرے شاگرد کی حالت میں کوئی فرق ہے کیا ؟ جو پانی لانے کے اصل حکم کو بھول کر ہر قدم پر اضافی نمبرز کی فضیلت کو اصل بنا بیٹھا تھا. یہ تو شائد سمجھا جا سکتا ہے کہ کوئی شخص قران مجید کو سمجھنے کی کوشش کرے مگر دوسری زبان میں ہونے کی وجہ سے ایک زمانے تک وہ صحیح سے سمجھ نہ سکے اور اس دوران بناء سمجھے بھی محبت سے تلاوت کرتا رہے تو رب پاک اس کی اخلاص نیت پر اسے ہر ہر حرف پر دس نیکیاں دیں. مگر وہ شخص جو جانتے بوجھتے، عقل و صلاحیت رکھنے کے باوجود قران کو کبھی سمجھ کر پڑھنے کی کوشش ہی نہ کرے تو اس سے بڑی زیادتی کیا ہوگی؟ کسی متکلم کی اس سے زیادہ ناراضگی اور کس بات پر ہوگی کہ سامع یا قاری اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش تک نہ کرے ؟
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 4 May 2016

سلام کی کہانی


سلام کی کہانی
 


.
سلام کے لغوی معنی سلامتی کے ہیں. ہمارے دین اسلام کی بھی لغوی تحقیق دیکھیں تو اس میں لفظ سلم اور سلام دونوں پنہاں نظر آتے ہیں. سلم کے معنی اپنی مرضی کو اللہ رب العزت کی رضا کے سامنے نچھاور کردینا ہے، جب کہ سلام سے مراد جیسے پہلے ہی لکھ دیا سلامتی و سکون کے ہیں. آسان الفاظ میں اسلام کے لغوی معنی 'اپنی مرضی کو الله کی مرضی کے سامنے نچھاور کرکے سلامتی حاصل کرلینا' ہیں. جب ایک بندہ یا ایک معاشرہ اپنی مرضی کو اپنے رب کی مرضی کے سامنے بچھا دیتا ہو تو اس کا لازمی پھل سکون و سلامتی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے. سلم عمل ہے اور سلام اس کا نتیجہ. ہمیں سلم سے سلام کا سفر کرنا ہے. ہمیں مسلم بننا ہے.  
.
شریعت میں خاص تلقین کی گئی ہے کہ ہر مسلم اپنے دوسرے مسلم بھائی سے جب بھی ملے تو اسے سلام کہے اور سننے والا جواب میں ویسے ہی یا بہتر طور پر سلام پیش کرے جیسے السلام و علیکم کا جواب وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کے الفاظ سے دینا. چنانچہ حکم باری تعالیٰ ہے. "جب تمہیں سلام کیاجائے تو تم سلام سے بہتر الفاظ سے جواب دو، یا اسی کے مثل جواب دو۔" (النساء:۸۶) 

غور کیجیئے تو السلام و علیکم کہنا انگریزی کے ہیلو ہائے کہنے کی طرح محض گفتگو کے آغاز کا کلمہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل دعا ہے جس میں آپ اپنے مخاطب کو سکون و سلامتی کی دعا دیتے ہیں. جواب میں آپ کا مخاطب آپ کو مزید بہتر انداز سے سکون و سلامتی کی دعا دیتا ہے. اگر یہ عمل اخلاص و سمجھ کے ساتھ ساتھ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ معاشرہ سکون و سلامتی کا مظہر بن جائے. راقم کی اس تحریر کے قارئین سے استدعا ہے کہ وہ اس عمل کو تجرباتی طور پر کرکے دیکھیں یعنی اگلی بار جب اپنے کسی مسلم بھائی کو سلام کریں تو اس شعور کے ساتھ الفاظ ادا کریں کہ آپ دل سے اسے دعا دے رہے ہیں. انشاللہ اسی فرحت و تسکین کا ظہور ہونے لگے گا جو اکثر قلب سے مانگی دعا کے بعد ہوا کرتا ہے. صحابہ رض کا یہ عمل تھا کہ وہ بازار اسی نیت سے جاتے کہ سب کو سلام کریں گے. وجہ یہی کہ انہیں اس سے پھیلتی ہوئی سلامتی نظر آتی تھی. یوں تو سلام کرنے کی تلقین پر بیشمار احادیث موجود ہیں مگر چند ایک یہاں پیش کئے دیتا ہوں. ترمزی شریف کی وہ حدیث یاد کریں جس میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی الله و الہے وسلم نے فرمایا کہ " تم جنت میں داخل نہ ہوگے جب تک ایمان نہ رکھتے ہو، اور تم ایمان نہیں رکھ سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو. کیا میں تمھیں وہ بات نہ بتاؤں ؟ جسے اگر تم کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے ؟ .. (وہ راز کی بات یہ ہے کہ) آپس میں سلام پھیلاؤ."  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کو مسلم معاشرہ میں عام کرنے کی انتہائی تاکید فرمائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے، پھر کچھ دیر بعد دیوار، درخت یا پتھر درمیان میں حائل ہوجائے تو پھر دوبارہ سلام کرے، یعنی جتنی بار ملاقات ہواتنی بار سلام کرتا رہے۔"(ابوداؤد۲/۷۰۷). ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: " کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے بندوں کو کھانا کھلانا اور جانا پہچانا اورانجان ہر ایک کو سلام کرنا، سب سے افضل عمل ہے" (بخاری۲/۹۲۱)۔
.
اصولی طور پر واجب یا فرض کفایہ عمل کا ثواب سنت سے زیادہ ہوا کرتا ہے مگر سلام کے ضمن میں سنت کا ثواب واجب یا فرض کفایہ سے زیادہ ہے. سلام کرنا سنت ہے مگر سلام کا جواب دینا واجب یا فرض کفایہ ہے. فرض کفایہ سے مراد یہ ہے کہ جو اپنی اصل میں سب پر فرض ہو مگر کچھ کے ادا کردینے سے سب کی جانب سے ادا ہو جائے اور کوئی بھی ادا نہ کرے تو سب کے لئے گناہ قرار پائے. اس کی مثال یوں سمجھیئے کہ آپ کسی محفل میں بیٹھے ہوں اور کوئی نیا آنے والا باآواز بلند سلام کرے. اب کیا پوری محفل میں موجود ہر ہر شخص کو لازمی جواب دینا ہوگا؟ نہیں بلکہ اگر محفل میں سے کچھ لوگ جواب دے دیں تو سلام کا جواب دینے کی ذمہ داری سب کی جانب سے ادا ہو جائے گی. اسی طرح سلام کا بہتر الفاظ سے جواب دینا مستحب ہے. 
.
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم غیر مسلم کو سلام کر سکتے ہیں ؟ یا اس کے سلام کا جواب دے سکتے ہیں؟ اس ضمن میں اہل علم کے درمیان دو آراء موجود ہیں. پہلی رائے کے حساب سے کسی غیر مسلم کو سلام کرنا یا اس کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا جائز نہیں. وہ اپنی دلیل ان احادیث سے حاصل کرتے ہیں جو ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے. جس میں رسول ص اور صحابہ اکرام رض نے غیر مسلموں کے سلام کا جواب صرف 'وعلیکم' کہہ کر دیا اور ساتھ میں لفظ سلام نہ لگایا. دوسرے رائے سے منسلک محقیقین پہلی رائے کو ایک علمی غلطی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر احادیث کے ذخیرے کو سامنے رکھا جائے تو اس غلطی کا تدارک ہوجاتا ہے. اس واقعہ کی پوری تفصیل صحیح مسلم ہی کی ایک دوسری حدیث (١٤/١٤٦) میں بیان ہوئی ہے. جس کے مفہوم کے مطابق ایک بدبخت یہودی نے رسول کریم ص کو "السلام و علیکم" (آپ پر سلامتی ہو) کی جگہ "السّام علیکم" (آپ پر موت ہو) کے الفاظ ادا کئے. ان الفاظ کو بھانپ کر حضرت عائشہ رض نے غصہ سے جواب دیا "بل علیکم ال سام ولعنہ" (نہیں ، تم پر موت اور لعنت ہو). پیغمبر اسلام ص نے حضرت عائشہ رض کو دھیمے سے سمجھایا کہ اللہ رب العزت کو ہر کام میں نرمی پسند ہے. حضرت عائشہ رض نے رسول ص سے جوابی عرض کیا کہ کیا آپ نے سنا نہیں تھا کہ اس یہودی نے آپ کو کیا کہا تھا؟ .. آپ ص نے فرمایا میں نے جواب میں اسی لئے کہا "وعلیکم" (اور تم پر بھی) 
.
مندرجہ بالا حدیث سے صراحت ہو جاتی ہے کہ سلام کے جواب میں سلام کی بجائے صرف وعلیکم کہہ دینا ان غیرمسلموں تک موقوف ہے جو السّام علیکم جیسے فتنہ انگیز الفاظ استعمال کریں. ایک اور حدیث کے مفہوم میں صحابہ رض نے دریافت کیا کہ بعض غیرمسلم سلام کے الفاظ کی بجائے بددعا کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو ہم جواب میں کیا کہیں؟ تو آپ ص نے کہا کہ تم جواب میں وعلیکم کہہ لیا کرو. اس کے علاوہ ایک اور حدیث جس میں اہل کتاب سے سلام کی ابتدا کرنے کو منع کیا گیا ہے. دوسری آراء والے علماء کے بقول یہ امر ایک خاص وقت اور واقعہ تک محدود ہے جب بنو قریظہ کے خلاف ان کی حرکات کی پاداش میں مسلمانوں کو کچھ تادیبی احکام دیئے گئے تھے. جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے. قران حکیم نے تو واشگاف الفاظ میں بناء مسلم و غیرمسلم کی تخصیص کے یہ تلقین کی ہے کہ اگر کوئی جاہل تم سے بحث کے درپے ہو تو اس سے الجھنے کی بجائے اسے سلام کہو. لہٰذا سورہ القصص کی 55 آیت میں ارشاد ہے: "اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کو ہمارے اعمال اور تم کو تمہارے اعمال۔ السلام و علیکم (تم کو سلام) ۔ ہم جاہلوں کے خواستگار نہیں ہیں" 
اس آیت کے حوالے سے یہ بتانا بھی قابل ذکر ہوگا کہ دور حاضر میں ہم میں سے اکثر اس حکم کا عملی اطلاق یا تو کرتے نہیں یا پھر ایسے انداز میں کرتے ہیں جس سے مخاطب کی تحقیر ہو اور اسے احساس ہو کہ ہم نے اسے جاہل سمجھ کر سلام کیا ہے. جان لیجیئے کہ عربی زبان میں جاہل صرف غیر پڑھے لکھے کو نہیں کہتے بلکہ اسے کہتے ہیں جس کی عقل پر جذبات کا پردہ پڑا ہوا ہو. ایسا شخص ظاہر ہے کہ سکون و سلامتی  سے خود بھی محروم ہوتا ہے اور اپنے ماحول کو بھی تخریب میں مبتلا کرنا چاہتا ہے. ایک مسلم کا اسے سلام کرنا دراصل اس کے لئے خیر کی دعا ہوتا ہے کہ جس سلامتی سے وہ اس وقت محروم ہے، الله پاک اسے وہ عطا کردیں. دعا ظاہر ہے درد دل کے ساتھ ہی ممکن ہے ، تحقیر و تذلیل کے جذبے کیساتھ نہیں. 
.
====عظیم نامہ====