Thursday, 10 March 2016

روح کے زخم


 روح کے زخم




بچپن میں میرے محلے میں ایک صاحب رہا کرتے تھے جن کا کسی صدمہ یا بیماری کی وجہ سے دماغی توازن بگڑگیا تھا. جب وہ ٹھیک ہوا کرتے تھے، اس وقت بھی انہیں جانتا تھا۔ صاف رنگت ، مضبوط شخصیت اور مہذب لہجہ – یہ تینوں اوصاف ان میں موجود تھے۔ لیکن اس دماغی بیماری کی وجہ سے ان پر اکثر ایسی حالت طاری ہوجاتی کہ وہ گندی گالیاں دینے لگتے۔ ظاہر ہے کہ اس وجہ سے سب ان سے خوفزدہ رہنے لگے۔ بچے ڈرتے بھی تھے اور موقع ملتے ہی انہیں چھیڑ کر مزہ بھی لیتے تھے۔ میں بھی ان سے گھبراتا تھا اور انہیں دیکھتے ہی اپنا رستہ بدل لیا کرتا تھا۔ وقت گزرتا گیا، میں انگلینڈ آ گیا اور یہیں زندگی گزرنے لگی۔ کچھ سالوں پہلے جب میں پاکستان گیا تو وہ نظر آئے۔ اس وقت بھی ان پر اسی دماغی بیماری کا غلبہ تھا، ان کی آنکھیں غصہ سے سرخ اور زبان پر گالیاں تھیں۔ لیکن اس بار مجھے نہ معلوم کیا ہوا کہ میں ہمت کر کے ان کے پاس چلا گیا اور گرم جوشی سے انہیں سلام کیا۔ وہ اس شدید غضب کی کیفیت میں بھی چونک گئے اور غیریقینی آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگے۔ پھر گڑبڑا کر دھیمے لہجہ میں وعلیکم السلام کہا۔ مجھ سے ہاتھ ملایا اور خاموشی سے گھر کے اندر چلے گئے۔ اس کے بعد میرا معمول ہوگیا، ہر روز جب انہیں دیکھتا تو جا کر ملتا اور سلام کرتا۔ اس کے بعد جب بھی وہ اس غصہ کی کیفیت میں ہوتے اور مجھے دیکھتے تو خاموش ہو جاتے۔ کچھ مہینوں پہلے جب دوبارہ کراچی گیا تو وہ مجھے دیکھ کر خود پاس آئے، سلام دعا کی، مزید پوچھا کب آئے؟ کیسے ہو؟ وغیرہ.. ان کے جانے کے بعد میں خوشی اور حیرت دونوں میں مبتلا یہ سوچتا رہا کہ کیسے ہمارا ایک بظاہر معمولی عمل لوگوں کی زندگی کو بہتر کرسکتا ہے ؟
...
کافی سالوں پہلے میں ایک ریٹیل اسٹور میں مینجر ہوا کرتا تھا۔ وہاں ایک انگریز لڑکی سے تمام مینجرز بہت تنگ تھے۔ یہ لڑکی چھوٹی چھوٹی باتوں پر آنسو بہاتی رہتی اور ہر دوسرے روز بیہوش ہوجاتی۔ شکل نقاہت کی وجہ سے اس قدر سفید تھی کہ مانو خون ہی نہ ہو۔ قانونی پیچیدگی کی وجہ سے اسے نکالنا بھی ہائر مینجمنٹ کے ہاتھ میں نہ تھا۔ لہٰذا اسے ایک کے بعد دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں ٹرانسفر کیا جاتا رہا مگر ہر ڈیپارٹمنٹ مینجر نے کان پکڑ لئے۔ روز مینجر اس لڑکی پر چیختے چلاتے مگر بجائے اس کے کہ لڑکی کا کام بہتر ہوتا، وہ اور مزید ڈپریسڈ ہوتی چلی جاتی۔ مجھے اس زمانہ میں کیش کاونٹرز کا انچارج بنایا ہوا تھا۔ مینجرز کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے کیش کاونٹرز میں رکھا جائے اور ایک مہینہ بعد اسپیڈ پرفارمنس کی بنیاد پر رپورٹ بنائی جائے جس کے بعد اس لڑکی کو جاب سے نکالا جاسکے۔ یہ میرے لئے ایک اذیت کا سبب تھا، میری دل سے خواہش تھی کہ اس لڑکی سمیت کسی کی بھی جاب میری وجہ سے نہ جائے۔ پہلے ہی روز وہ بیہوش ہوگئی۔ اسے ہوش میں لایا گیا اور کونسلنگ کیلئے پہلی بار مجھے مقرر کیا گیا۔ گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ اس کے پارٹنر نے اسے نہ صرف چھوڑ دیا ہے (بریک اپ) بلکہ اس کو یہ یقین بھی دلا دیا ہے کہ وہ نہایت ناکارہ انسان ہے۔ میں اس دن اسکی ذہنی حالت کو سوچتا رہا۔ اگلے روز میں نے اسے ایک آسان سا کام دیا جو اس نے کچھ دیر میں مکمل کر لیا اور مجھے ڈرتے ڈرتے چیک کرنے کیلئے بلایا۔ کام میں ابھی بھی کچھ نقص باقی تھے مگر میں نے تنقید کی بجائے اسکی خوب تعریف کی۔ اپنی تعریف سن کر اس کی آنکھوں میں غیر یقینی کا طوفان امڈ آیا جیسے یہ کوئی ناممکن بات تھی جو میں کہہ گیا۔ میں نے کچھ اور اسٹاف ممبرز کو بلایا اور اس کا کام دکھا کر کہا کہ دیکھو کم وقت میں کام اس طرح سے کیا جاتا ہے۔ اس معمولی واقعہ کے بعد جیسے اس لڑکی کو نیند سے جگا دیا۔ وہ ہر کام دلجمعی اور پھرتی سے کرنے لگی۔ میں بھی اس کے کام کی بالضرور تعریف کرتا۔ مہینہ بعد مجھے مینجرز میٹنگ میں پھر بلایا گیا۔ ہیڈ مینجر نے کہا، عظیم ہم تو اس لڑکی کو نکالنا چاہتے تھے مگر اس نے تو کمال کردیا۔ میں نے پوچھا کہ ایسا کیا ہوا؟ تو میرے سامنے وہ رپورٹ رکھ دی گئی جس میں پچاس اسٹاف ممبرز کی پرفارمنس کا کوائلٹی اور تیزی کے تناسب سے جائزہ لیا گیا تھا۔ اس لڑکی کا نام پہلے نمبر پر تھا۔ میں حیرت اور خوشی سے اس رپورٹ کو دیکھے جاتا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیسے بعض اوقات ہماری معمولی سی حوصلہ افزائی ایک تھکے ہوئے انسان کو دوبارہ کھڑے ہونے کی طاقت عطا کردیتی ہے ؟
...
اسی طرح ایک کمپنی میں کام کرتے ہوئے مجھے دیگر مسلم کام کرنے والے دوستوں نے ایک لڑکی کے بارے میں غصہ و حقارت سے بتایا کہ اس لڑکی نے کچھ سال پہلے اسلام چھوڑ کر اور اپنے گھر والو سے بھاگ کر ایک سکھ لڑکے کے ساتھ رہائش کرلی ہے۔ یہی وجہ تھی جسے بنیاد بناکر کوئی بھی مسلم نہ اس سے قریبی دوستی رکھتا اور نہ ہی اسے مسلمان سمجھتا۔ اگلی بار جب میرا اس سے سامنا ہوا تو میں نے اس گڈ مارننگ کہنے کی بجائے السلام و علیکم کہا۔ اسے سن کر وہ جھینپ کر آگے بڑھ گئی۔ اگلے روز پھر میں نے سلام کیا تو اس نے فوری وعلیکم السلام کہا جیسے انتظار میں ہو۔ پھر وہ خود سلام میں پہل کرنے لگی، میں نے اس کے ماضی یا حال کے بارے میں کبھی گفتگو نہ کی بلکہ انجان بنا رہا۔ اس کے برعکس جب ٹھیک موقع ہوتا تو اس سے دیگر اسلامی موضوعات پر بات کہہ دیتا۔ کچھ دنوں میں رمضان کا مہینہ آگیا۔ پہلے ہی روز وہ تیزی سے آئی اور پوچھا کہ عظیم بھائی آپ نے روزہ رکھا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دے کر جوابی پوچھا کہ بہن آپ نے رکھا ہے روزہ؟ زور سے گردن ہلا کربولی کہ جی اور باقی بھی رکھوں گی۔ چند مہینوں بعد معلوم نہیں کس وجہ سے اس نے اس سکھ دوست سے علحیدگی اختیار کرلی اور واپس اپنے گھر والو کے ساتھ ملنے جلنے لگی۔ عبادات اور رب سے تعلق دوبارہ استوار ہوتا نظر آنے لگا۔ مجھے خوشی تھی کہ شائد کسی کمتر درجہ میں اس کے اس بدلاؤ میں مجھے بھی حصہ بننے کا موقع ملا۔ سوچتا ہوں کہ کیسے معمولی باتیں انسان کی سوچ کا زاویہ بدل دیا کرتی ہیں ؟
...
مجھے آج یہ حقیقت سمجھ آگئی ہے کہ انسان میں بڑی بڑی تبدیلیاں اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں سے آیا کرتی ہیں۔ زخم صرف جسمانی نہیں نفسیاتی بھی ہوتے ہیں اور اگر مرہم رکھا جائے تو یہ روح کے زخم بھر بھی سکتے ہیں، یہ گھاؤ ٹھیک بھی ہوسکتے ہیں۔
.

====عظیم نامہ====

Wednesday, 9 March 2016

وہ لڑکی ..


وہ لڑکی 



آج سے کافی سالوں پہلے میں انگلینڈ کے ایک مشہور فیشن ریٹیل اسٹور کا مینجر ہوا کرتا تھا. میرا نرم مزاج جہاں میرے ساتھ کام کرنے والو کیلئے سکون کا سبب تھا ، وہاں میرے سینئر مینجرز میری نرم مزاجی سے نالاں تھے. ان کے نزدیک کامیاب مینجر بننے کیلئے لازم تھا کہ میں جائز و ناجائز انداز میں اپنے ماتحت ملازمین کو شدید دباؤ میں رکھوں. اس کے برعکس میری سوچ ہمیشہ یہ رہی کہ جو نتائج باہمی محبت و خلوص سے حاصل ہوتے ہیں ، وہ کبھی بھی بے وجہ سختی سے نہیں ہوا کرتے. مجھے میرا باس سمجھایا کرتا : 

.
"Azeem mate, Be a Rottwieler , Be as aggressive as you can"
.
غرض یہ کہ مجھے اپنے سینئرز کی ایک مسلسل خاموش مخالفت کا سامنا رہا کرتا تھا مگر وہ میری اور میرے ماتحت اسٹاف کی اچھی کارکردگی دیکھ کر کوئی اقدام کرنے سے قاصر تھے. اسی زمانے میں ایک نوجوان لڑکی نے کمپنی جوائن کی جو دیکھتے ہی دیکھتے سب مینجرز کیلئے درد سر بن گئی. اس لڑکی کا معاملہ سمجھ سے باہر تھا، وہ کسی بھی کام کو ٹھیک سے انجام نہ دے پاتی. یہ لڑکی ذہنی بیمار لگتی تھی. اچانک رونے لگتی اور ہر دوسرے دن بیہوش ہوجاتی. اس لڑکی کو ہر مینجر کے پاس ایک کے بعد ایک منتقل کیا گیا کہ شائد کسی ڈپارٹمنٹ میں چل سکے. ہر مینجر اس پر اپنے طریق سے سختی برتتا مگر نتیجہ میں اسکی حالت مزید بدتر ہوتی جاتی. اس لڑکی کو برطانوی قانون کے مطابق صرف کم پرفارمنس یا خراب صحت کی وجہ سے نکالا نہ جاسکتا تھا لہٰذا اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ہائر مینجمنٹ کیلئے معرکہ بنا ہوا تھا. پھر ایک روز مینجرز کی ایک ہنگامی میٹنگ بلائی گئی جس میں مجھے بتایا گیا کہ اس لڑکی کو میرے ڈپارٹمنٹ میں منتقل کیا جارہا ہے ، جہاں اسے باقاعدہ ایک منظم انداز سے جاب سے نکالنے کا بندوبست کیا جائے گا. اسے قانونی زبان میں 
"Constructive Dismissal" 
کہا جاتا ہے. اب چونکہ میرے ڈپارٹمنٹ میں پسیوں کا حساب کتاب اور گاہکوں سے پیسہ لینا بھی شامل تھا جو نہایت تیزی کے ساتھ نمٹانا ہوتا ہے لہٰذا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ لڑکی وہاں خاطر خواہ کارکردگی دکھا پاتی. اسٹور میں اعلان کر دیا گیا کہ اس مہینہ کمپیوٹر ریکارڈ کے ذریعے تمام کیش کاؤنٹرز کی کارکردگی کا حساب رکھا جائے گا اور اگر کوئی کمپنی گائیڈ لائن کی کم از کم رفتار سے مطابقت نہ رکھے گا تو اسکے خلاف ڈسپلنری ایکشن لیا جائے گا جو برطرفی کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے. 
.
اس سب مخفی انتظام کے بعد لڑکی کو میرے ڈپارٹمنٹ میں منتقل کردیا گیا. پہلے ہی دن وہ لڑکی حسب معمول بیہوش ہوگئی. اب بطور انچارج مجھے اس صورتحال کو سنبھالنا تھا. لڑکی کے ہوش میں آتے ہی اسے میں نے آفس روم میں طلب کرلیا. وہ سہمی کانپتی اپنے مردہ حد تک زرد سفید چہرہ لئے آفس میں داخل ہوئی. میں نے اس کا تپاک سے استقبال کیا اور بیٹھنے کو کہا. اس نے گھبرا کر میری جانب دیکھا. اسے پوری امید تھی کہ اب ہمیشہ کی طرح اسے ذلیل کیا جائے گا مگر میرا نرم اور نارمل لہجہ اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا. میں نے اس کی خیریت دریافت کرکے پوچھا کہ کیا وہ اپنے گھر جانا چاہتی ہے؟ اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے نفی میں سر ہلادیا. کچھ دیر میں نے یہاں وہاں کی ہلکی پھلکی باتیں کرکے اسے مسکرا کر جانے دیا. اب میں نے اس کو قریب سے جاننے والی اس کی ایک سہیلی کو بلوایا اور اسے اعتماد میں لینے کے بعد پوچھا کہ کیا وجہ ہے جو یہ لڑکی ہر وقت روتی رہتی ہے ، شدید بیمار لگتی ہے اور بیہوش ہوجاتی ہے؟ اس نے جھجھکے ہوئے مجھے بتایا کہ کچھ ماہ پہلے اس کا بوئے فرینڈ نے اسے سالوں ساتھ رکھنے کے بعد چھوڑ دیا ہے. ان سالوں میں اس خبیث انسان نے اس لڑکی کو یہ یقین دلادیا تھا کہ وہ ایک نہایت بدصورت اور ناکارہ انسان ہے. کم عمر ہونے کی وجہ سے سالوں بعد اب یہ لڑکی اپنے ناکارہ ہونے پر سو فیصد یقین کرچکی تھی اور نتیجہ یہ کہ خود اعتمادی کے شدید فقدان کا شکار تھی. اس دن میں سارا وقت اس معصوم لڑکی کے کیس کے بارے میں سوچتا رہا. 
.
اگلے روز میں نے اسے کیش ہینڈل کرنے کی بجائے ایک آسان سا پانچ منٹ کا کام دیا. یہ کام اس نے آدھا گھنٹے بعد مکمل کیا اور ڈرتے ڈرتے مجھے معائینہ کیلئے بلایا. کام اتنی دیر بعد بھی ٹھیک سے نہیں ہوا تھا، مگر میں نے خوب دیکھ کر اسے زوردار آواز میں شاباشی دی. جلدی سے آواز لگا کر دو مزید ماتحت اسٹاف ممبرز کو بلایا اور کام دکھاتے ہوئے ان سے کہا کہ دیکھو کم وقت میں بہترین کام ایسے ہوتا ہے ! ، اس لڑکی کے چہرے پر حیرت کی آبشار بہہ رہی تھی. اسے کسی معمولی ترین درجہ میں بھی امید نہ تھی کہ کوئی اس کے کام سے اتنا خوش ہوسکتا ہے. میں نے اسے پھر دوسرا کام دیا ، جو اس نے پہلے سے کم وقت میں بہتر طریقے سے کردکھایا. میں نے پھر زبردست تعریف کرتے ہوئے اپنی خوشی ظاہر کی اور کہا کہ یہ میری خوش قسمتی ہے جو اتنی ہارڈ ورکنگ یعنی سخت کام کرنے والی لڑکی نے میرا ڈپارٹمنٹ جوائن کیا. باقی سارا دن میں نے دیکھا کہ وہ ہنس رہی ہے ، مسکرا رہی ہے اور بھاگ بھاگ کے دوسرا کام مانگنے آجاتی ہے. اس دن کے بعد یہ لڑکی خوب دلجمعی کے ساتھ کام کرنے لگی. مینجرز حیران تھے کہ میں نے اب تک اس لڑکی کی شکایت کیوں نہیں کی؟ مگر میں نے نہ اس کی برائی میں کچھ کہا اور نہ ہی اسکی کوئی تعریف کی بلکہ خاموشی سے اس کا غیرمحسوس انداز میں حوصلہ بڑھاتا رہا. الله الله کر کے پورا مہینہ گزر گیا اور وہ دن آگیا جب کمپیوٹر رپورٹ نکالی گئی. فیصلہ یہ ہونا تھا کہ جو سب سے سست ہوگا اسے نکال دیا جائے گا اور مینجرز کو کامل یقین تھا کہ یہ سست ترین وہی لڑکی ہوگی. مگر جب رپورٹ آئی تو مینجرز سمیت پورے اسٹور میں ہنگامہ مچ گیا. وہ لڑکی سب سے زیادہ تیز رفتار ثابت ہوئی. میرا باس یہ یقین نہیں کر پارہا تھا تو اس نے دوبارہ ایک الگ انداز سے رپورٹ نکالی اور وہی نتیجہ دیکھ کر دانتوں تلے انگلی داب لی. اس لڑکی کو تیزرفتار ترین آپریٹر کا ایوارڈ دیا گیا. جسے پا کر وہ ایک بار پھر رو دی مگر اس بار یہ آنسو دکھ نہیں خوشی کی علامت تھے. مجھے الله پاک نے ایک بڑی سیکھ دی تھی کہ اس جہان میں ہر انسان قیمتی ہے اور کسی سے کم نہیں. بس بعض اوقات اسے ہمارے سہارے اور ذرا سی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے. 
.
====عظیم نامہ====

Saturday, 5 March 2016

موجودہ دور کی علمی بددیانتی


موجودہ دور کی علمی بددیانتی



موجودہ دور میں علمی بددیانتی کی ایک بدترین صورت یہ سامنے آئی ہے کہ پہلے اپنی پسند کے مطابق نتیجہ طے کرلیا جاتا ہے اور اس کے بعد قران و حدیث میں موجود دلائل کو اپنے اخذ کردہ نتیجہ میں ڈھالنے کیلئے ہر غیر شرعی طریق کو بھی شرعی بنالیا جاتا ہے
.
کوئی آیت اس نتیجے سے متصادم نظر آئے تو فکر کی بات نہیں .. اس کی ایک نئی نویلی سوٹ کرتی ہوئی تفسیر پیش کر ڈالیں، کوئی حدیث اس نتیجے سے ٹکرائے تو گھبرائیے مت .. کبھی روایت تو کبھی درایت کی چھری اس پر چلا دیں، اگر پوری علمی روایت اور علماء کا اجماع اس کے خلاف جاتا محسوس ہو تو پریشانی کی کوئی بات نہیں .. اسے اکابر پرستی کا نام دے کر رونا ڈال دیں. لیجیئے جناب .. ہوگیا نا آپ کا نتیجہ ثابت ؟ 
.
اندھی تقلید کی دن رات مخالفت کریں مگر اپنی پسند کے اہل علم کی تقدیس میں سر تا پیر ڈوبے رہیں. برداشت کا درس دیں مگر اگر کوئی گستاخ آپ کی 'روشن خیال' رائے سے مختلف بات کرے تو اسے فوری گنوار کا تمغہ دے دیں. امت کے مقبول ترین فقہاء و علماء کا علمی تنقید کے نام پر بھرکس بنا ڈالیں لیکن اپنے چنیدہ اہل علم کی شان میں کوئی گستاخی کرے تو اس پر پنجے جھاڑ کر چڑھ دوڑیں. اجتہاد نہ ہونے کا دھکڑا پیش کریں اور پھر خود مجتہد کی کرسی سنبھال لیں
.
عزیزان من کسی کی نیک نیتی پر شک نہیں ہے مگر یہ طریق اور رویہ مناسب نہیں ہے. اگر صدیوں کے علمی جمود نے ایک انتہا کو جنم دیا ہے تو آج جدیدیت کے نام پر آپ دوسری انتہا کو کیوں جنم دے رہے ہیں ؟ دین کا راستہ اعتدال کا ہے جو دونوں انتہاؤں کے بین بین ہے. دین آسان ضرور ہے مگر اسے زبردستی آسان تر بنانا ہلاکت ہے. عقل کی اہمیت دین میں ثابت ضرور ہے مگر عقل کو دین کے تابع رکھنا ہی مومن سے مطلوب ہے. دین کے کسی بھی حکم کو اخذ کرنے کا واحد ماخذ قران و سنت ہے
.
====عظیم نامہ====

Friday, 4 March 2016

فصوص الحکم



فصوص الحکم


الحمدللہ ثم الحمدللہ ، شیخ محی الدین ابن عربی کی معروف ترین کتاب 'فصوص الحکم' کا مطالعہ اپنے اختتام کو پہنچا. شیخ کو ان کے چاہنے والے شیخ اکبر کا لقب دیتے ہیں.اگر قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر محمد علی جناح کو 'قائد اعظم' تسلیم کیا جاتا ہے تو تصوف کے رموز و معارف بیان کرنے میں شیخ محی الدین ابن عربی کو 'شیخ اکبر' پکارنا میرے لئے کسی قباحت کا باعث نہیں. یہ ایک مشکل کتاب ہے جسے سمجھنے کیلئے لازم ہے کہ قاری پہلے سے قران مجید کو پڑھ چکا ہو، احادیث کے صحت و ضعف کا تصور رکھتا ہو اور علم تصوف کے بنیادی عقائد و اصطلاحات سے واقف ہو. تب ہی وہ شیخ کی اس تصنیف سے استفادہ بھی کرسکے گا اور ان سے اختلاف کا حق بھی رکھے گا. کتاب کا ترجمہ مولانا عبدالقدیر صدیقی صاحب نے فرمایا ہے. مترجم اس شدید خوف میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ قاری شیخ کی بات کو کفر کہہ کر انکی تکفیر نہ کرنے لگے. لہٰذا وہ ساری کتاب میں اپنی توجیہات اس حد تک بیان کرتے ہیں کہ یہ فرق کرنا کٹھن ہوجاتا ہے کہ کون سی بات شیخ نے کہی اور کہاں مترجم صاحب اپنی بیان کرنے لگے. اس روش نے کتاب کی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اسی وجہ سے مجھ پر اتنی کوفت طاری ہوئی کہ دو بار کتاب کا مطالعہ ترک کرنا پڑا. بہرحال کوئی سو صفحات کے بعد طبیعت نے اس ثقم کو تسلیم کرلیا. 

.


شیخ ابن عربی نے اس میں مختلف انبیاء کے قصص بیان کئے ہیں جو قران و حدیث میں مذکور ہیں. اس بیان میں وہ واقعات و شخصیات کی عارفانہ تفسیر کرتے ہیں جسے تفسیر نہیں بلکہ تعبیر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. ان تعبیرات کی بنیاد بڑی حد تک شیخ کے اپنے کشف، الہام اور تفکر پر ہے. اب ظاہر ہے کہ کسی کے ذاتی کشف کو حقیقی مطلوب سمجھ لینا شرعی اعتبار سے درست نہیں. لہٰذا ایک علم رکھنے والا قاری خود کو ان سے اختلاف کرنے پر مجبور پاتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شیخ کی فکر کسی طالب پر کئی رموز کھول دیتی ہے جو شاید روایتی مطالعہ سے ممکن نہیں. شیخ کسی بات کے ان پہلوؤں اور زاویوں کو سامنے لاتے ہیں جنہیں عام اذہان سوچنے سے قاصر ہوا کرتے ہیں. شیخ بلاشبہ ایک نہایت زہین انسان ہیں جو حریصانہ حد تک روحانیت کے اسرار سیکھنے سکھانے کا شوق رکھتے ہیں. کتاب کے آغاز میں محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ ایک فلسفی ہیں جن میں کوئی صوفی چھپا بیٹھا ہے مگر بعد میں احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی حقیقت میں ایک صوفی ہیں جن میں ایک فلسفی پوشیدہ ہے. شیخ کچھ شرعی اصطلاحات جیسے 'نبی' وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں اور اس کے اعتباری معنی مراد لیتے ہیں. اگر قاری کو ان کے اس لفظ سے متعلق حقیقی مراد کی خبر نہ ہو تو وہ اس اعتباری معنی کو ہی شیخ کا حقیقی مدعا سمجھ بیٹھتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ تکفیر کی صورت میں برآمد ہوتا ہے. اسلئے لازم ہے کہ ان کی تفصیلی کتاب 'فتوحات مکیہ' پر بھی قاری کی نظر ہو. بارہا ایسے مقامات آئے جہاں میں نے عقائد و تفصیلات میں شیخ کی کسی رائے کو جزوی یا کلی طور پر مسترد کردیا مگر یہ اعتراف نہ کرنا بددیانتی ہوگا کہ اس تصنیف نے مجھے سوچ کے نئے زاویئے فراہم کئے.

دارالامتحان


دارالامتحان



اس دارالامتحان میں حق و باطل کی غیبی کشمکش روز اول سے جاری ہے. جہاں ایک جانب ابلیس کی شیطانی طاقتیں ہیں جو انسان کیلئے برائی کے ممکن دروازے کھولتی ہیں اور دوسری جانب وہ ملکوتی قوتیں ہیں جو انسان کو دین پر استقامت رکھنے میں مدد دیتی ہیں. دونوں مقابل قوتیں اپنے مؤقف کی تبلیغ کرتی رہتی ہیں. ابلیس کھلا دشمن ہے اور اسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ روز قیامت تک انسانوں کو بھٹکانے کی کوشش کرتا رہے. دوسری جانب ملائک جو فطری و روحانی طاقتوں پر مامور ہیں، انہوں نے سجدہ کرکے یہ وعدہ و اظہار کردیا ہے کہ وہ اس خلیفہ الارض بنی آدم کی ہر ممکن معاونت کریں گے. یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شیطانی طاقتوں کی تبلیغ جارحانہ نوعیت کی ہوتی ہے ، جب کے ملائکہ کی مدد مدافعانہ انداز سے انسان کو سہارا دیتی ہے. اس انداز تبلیغ کے فرق کو سمجھ لینے سے دونوں قوتوں کی بہترین معرفت حاصل ہوجاتی ہے. جس سے توقعات کا طے کرنا اور اسی نسبت سے دفاعی حکمت عملی ترتیب دینا آسان ہوجاتا ہے. ان دونوں قوتوں کی دعوت کا حقیقی مخاطب انسان کا نفس ہے، جس میں ارادہ و اختیار کی آزادی کے ساتھ اچھائی اور برائی دونوں کے داعیات الہام کردیئے گئے ہیں. اگر ابلیس نہ بھی ہوتا ، تب بھی انسان نفسانی خواہشات کیلئے گناہ کا ارتکاب کرتا. شیطان صرف برائی کی ایک اضافی دعوت کا ذریعہ ہے. یہ نفس ہی تو تھا جس نے خود ابلیس کو رب تعالیٰ کے سامنے سرکشی پر مجبور کیا تھا. یہ بھی جان لیں کہ ابلیس تو ضرور شیطان ہے مگر ہر شیطان ابلیس نہیں ہے. ہر وہ انسان اور جن شیطان کہلاتا ہے جو ابلیس کے مشن کو اپنالے. 
.
انسانی نفس کا ایک حصہ نفس امارہ ہے جو حیوانی و شہوانی خواہشوں سے مغلوب ہو کر برائی کی ترغیب دیتا ہے اور نفس کا دوسرا حصہ نفس لوامہ ہے جو مدافعت کرتے ہوئے برائی پر نفس کو ملامت کرتا ہے. شیاطین انسان کو نفس امارہ کے ذریعے ورغلاتے ہیں اور ملائک نفس لوامہ کو تقویت پہنچاتے ہیں. شیطانی قوتیں آپ سے گن پوائنٹ پر کوئی کام نہیں کرواتی بلکہ آپ میں پہلے سے موجود شہوات و خواہشات کو بھڑکا کر برائی اپنانے کی صرف دعوت دیتی ہے. البتہ قران مجید میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ اگر کوئی سرکش شخص الله کے ذکر سے بلکل غافل ہو جائے تو اس پر شیطان اپنا تسلط قائم کرلیتا ہے. قران کے الفاظ سورہ الزخرف میں کچھ یوں ہیں 
.
'اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرکے (یعنی تغافل کرے) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے'
.
ایسا شخص پھر اپنے نفس کا غلام بن کر رہ جاتا ہے. اسی کو قران حکیم کی سورہ الفرقان میں کچھ یوں بھی کہا گیا ہے کہ 'کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے خواہش نفس کو معبود بنا رکھا ہے ؟ ..' 
.
ایسا انسانی نفس خیر سے محروم ہو کر اور نفس امارہ سے مغلوب ہو کر مرنے کے بعد ایک حدیث کے مطابق 'نفس خبیثہ' بن جاتا ہے. اس کے برعکس وہ انسان جو نفس لوامہ کی سن کر تزکیہ نفس کرتا رہتا ہے تو اس پر فرشتوں کی جانب سے سکینت کا نزول ہوتا ہے اور مرنے کے بعد اسے 'نفس المطمئنہ' کا لقب دیا جاتا ہے اور رب العزت اس سے کچھ یوں مخاطب ہوتے ہیں 
.
اے اطمینان پانے والے نفس (۲۷)
اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی (۲۸)
تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا (۲۹)
اور میری بہشت میں داخل ہو جا (۳۰)
سورة الفَجر
.
====عظیم نامہ====

معرفت کا سفر


معرفت کا سفر 



معرفت ایسا سفر ہے جس کا کوئی راستہ نہیں. راستے دور جانے کیلئے ہوتے ہیں اور یہاں کہیں جانا نہیں ہے بلکہ خود کو پانا ہے. خود شناسی ہی اکثر خدا شناسی کا دروازہ کھول دیتی ہے. چنانچہ معرفت کوئی مافوق الفطرت عمل نہیں بلکہ شعوری دریافت کا نام ہے. خدا کو ماننا خوب ہے، خدا کو جاننا خوب تر ہے اور خدا کو جان کر ماننا عارف بنادیتا ہے. 

. 
====عظیم نامہ====

توہین رسول ص اور مسلمان امت


توہین رسول ص اور مسلمان امت 




یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ہمیشہ سے یورپ سمیت دنیا بھر کے کتب خانے اسلام مخالف تصنیفات سے بھرے رہے ہیں. پچھلی کچھ دہائیوں میں تو اس میں ایسی غیرمعمولی تیزی آئی ہے کہ ایک اندازے کے مطابق، مذہبی تصنیفات میں سب سے زیادہ کتابیں رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعویٰ رسالت کے خلاف لکھی گئی ہیں. ایسی بیشمار کتب ہمیشہ منظر عام پر آتی رہی ہیں جن میں وجود خدا سے لے کر دعویٰ رسالت تک پر شدید تنقیدات کی گئیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اسکے جواب میں کسی کا سر نہیں پھوڑا، کسی کو زدوکوب نہیں کیا، کوئی واویلا نہیں مچایا بلکہ یا تو دلیل سے جواب دیا یا پھر خاموشی اختیار کی. وجہ صاف ہے کہ قران حکیم تو خود مکالمہ کی فضا کو فروغ دیتا ہے، وہ سوال پوچھنے اور دلیل سے بات کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے. وہ تشدد کی نہیں بلکہ احسن انداز دعوت کی تعلیم دیتا ہے. 
.
معاملہ بگڑتا تب ہے جب کوئی اسلام مخالف شخص تہذیب کا دامن چھوڑ کر اور علمی رویہ ترک کرکے گندی زبان اور اسلوب اختیار کرلیتا ہے.، سوال یا دلیل کی بجائے کارٹون یا خاکے بنا کر تضحیک کرتا ہے، رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف نازیبا الفاظ استمعال کرتا ہے. یہی وہ مقام ہے جہاں اکثر اوقات عالم اور ان پڑھ دونوں طرح کے امتی ایک ہوجاتے ہیں. غیرت ایمانی ایسے جکڑتی ہے کہ گنہگار ترین انسان بھی سراپا احتجاج بن جاتا ہے. شرعی احکام بھول جاتے ہیں. یہ ایسی دیوانہ وار محبت ہے جس میں گستاخ کا قتل تو ایک طرف وہ امتی اپنا ہاتھ خود کاٹ کر اپنے جسم سے جدا کرسکتا ہے اور اپنے گھر کو خود آگ لگاسکتا ہے. میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایسا کرنا درست ہے. ظاہر ہے ایسا کرنا شریعت اور قانون دونوں اعتبار سے قابل گرفت ہے اور ہم اس عمل کو ہر ممکن انداز میں روکیں گے. مگر یہ مومن کا وہ بریکنگ پوئنٹ ہے جہاں وہ نتیجہ سے ماوراء ہوجاتا ہے. اسی لئے لازم ہے کہ مسلمانوں کے ملک میں اس ضمن میں سخت قانون سازی ہو اور توہین رسالت کو ناممکن بنادیا جائے. ساتھ ہی اس بات کو باور کروایا جائے کہ شاتم رسول سمیت کسی بھی مجرم کو کوئی فرد ازخود سزا نہیں دےسکتا. البتہ دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مومن ایک بار اپنے والدین کے خلاف تو گالی برداشت کرسکتا ہے مگر اپنے محسن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف گندی زبان برداشت نہیں کرسکتا. مجھے حیرت ہوتی ہے ان احباب پر جو ملحدین کی گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی پوسٹوں کو نہ صرف گوارا کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات لائیک بھی کررہے ہوتے ہیں. یاد رکھیں مخالف نقطہ نظر کیلئے برداشت ایک چیز ہے اور غیرت ایمانی کا سودا کرلینا بلکل دوسری چیز.
.
====عظیم نامہ====